Sunday, April 27, 2025

Bin Mange Mila | Teen Auratien Teen Kahaniyan

اپنی باجی کے حسن کی کیا تعریف کروں، جو دیکھتا، مبہوت رہ جاتا تھا۔ باجی مہ جبیں کی آنکھیں بہت پرکشش تھیں۔ کہتے ہیں اگر حسن غیر معمولی ہو تو اسے نظر بھی لگ جاتی ہے لیکن باجی کے حسن کو ہی نہیں قسمت کو بھی ایسی نظر لگی کہ ان کے غم پر انسان تو کیا چاند، تارے بھی رو دیئے ہوں گے۔ کون جانتا تھا کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ ان کی آنکھوں کے یہ چراغ نور کی نعمت سے محروم ہو کر بجھے ہوئے دیے رہ جائیں گے۔ غلطی جانے کس کی تھی کہ والد اور ان کی پہلی بیوی میں طلاق ہوگئی۔ اس وقت مہ جبیں باجی محض ایک برس کی تھیں۔ ابّو نے دوسری شادی کرلی اور یہ دوسری بیوی میری والدہ تھیں، جنہوں نے باجی کو بانہوں میں بھر لیا۔ یہی باور کرایا کہ میں تمہاری ماں ہوں۔ امّی کو اللہ نے دو بیٹیاں اور ایک بیٹا عطا کر دیا لیکن انہوں نے کبھی یہ احساس نہ دلایا کہ مہ جبیں ان کی سوتن کی نشانی ہے۔ ہمیشہ ہم نے باجی کو سگی بہن سمجھا۔ جب میں نے ہوش سنبھالا تو خود کو باجی کی بانہوں میں پایا۔ ہمارے گھر کا ماحول بہت پر سکون ہوا کرتا تھا۔ والد صاحب ایک بوائز اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے اور نیک، نفیس انسان تھے۔ والدہ بھی صابر و شاکر، گھریلو خاتون تھیں۔ اچانک گھر میں تبدیلی آئی جس نے میری والدہ کی سوچوں کا رخ موڑ دیا۔ ہوا یہ کہ ہمارے پڑوس میں ایک کرائے دار خاتون آ بسیں۔ یہ ہیلتھ وزیٹر تھیں۔ والدہ کے پاس آنے جانے لگیں۔ خاتون کا نام صبیحہ تھا۔ دن بھر اپنی ڈیوٹی پر نکل جاتیں اور شام ڈھلے لوٹتیں۔ ایک روز آئیں تو بولیں۔ بازار کا کھانا کھانے سے پیٹ خراب رہنے لگا ہے، اتنا وقت نہیں ملتا کہ خود پکا سکوں۔ امّی نے کہا۔تم شام کو میرے گھر آ کر کھانا کھا لیا کرو، اپنا سمجھتی ہو تو تکلّف کیسا۔ اس روز کے بعد سے صبیحہ خالہ کے کھانے کی ذمے داری امّی نے سنبھال لی۔ یہ دوستی مزید گہری ہوگئی۔ ان دنوں والد صاحب بیمار ہوگئے تو ان کے علاج پر کافی خرچہ آیا، جس سے مالی تنگی کا سامنا کرنا پڑا۔ امّی نے اپنی پریشانی کا ذکر صبیحہ خالہ سے کیا تو انہوں نے مشورہ دیا کہ تم میٹرک پاس ہو، ہمارے محکمے میں کچھ آسامیاں خالی ہیں، کہو تو اپنے افسر سے کہہ کر ملازمت پر لگوا دیتی ہوں۔ اچھی خاصی تنخواہ ہے لیکن شروع میں قریبی دیہات میں ڈیوٹی لگے گی، بعد میں تبادلہ کرا لینا۔ ابّو سے ذکر کیا، انہوں نے منع کر دیا۔ بولے۔تم دیہات میں روز کیسے ڈیوٹی دینے جائو گی، گھر اور بچّوں کا کیا ہوگا، بیٹیوں کو اکیلا چھوڑنا مناسب نہیں، میری دیکھ بھال کون کرے گا، بہتر ہے کہ یہ نوکری مت کرو۔ ہمارے پاس شہر میں ایک پلاٹ ہے، اسے فروخت کر دوں گا۔ غرض والد صاحب نے بہت سمجھایا لیکن والدہ کو تو ایسا صبیحہ خالہ نے شیشے میں اتارا تھا کہ وہ مصر ہوگئیں۔ میں ملازمت ضرور کروں گی۔ گھر کے لئے کسی غریب لڑکی کو ڈھونڈ لیں گے۔ دراصل یہ پٹّی بھی صبیحہ خالہ نے ہی پڑھائی تھی کہ میری رشتے دار کے گھر ایک لڑکی ہے جو بے آسرا ہے، اسے رکھ لو۔ امّی نے کہا لے آئو، دیکھوں کیسی ہے، دل کو بھائی تو رکھ لوں گی۔ اگلے روز صبیحہ خالہ اس لڑکی زبیدہ کو لے آئیں۔ یہ لڑکی 18برس اور شکل و صورت کی اچھی تھی۔ امّی نے دیکھا تو فوراً رکھنے کی ہامی بھرلی۔ زبیدہ نے آتے ہی گھر سنبھال لیا۔ وہ ہر کام سلیقے سے کرتی تھی۔ امّی کو اس کے آنے سے سکھ ملا۔ انہوں نے والد کو اتنا مجبور کیا کہ انہیں مانتے بنی۔ امّی جان نے صبیحہ کی وساطت سے ملازمت کرلی۔ وہ صبح اس کے ساتھ چلی جاتیں اور شام کو لوٹتیں۔ گھر زبیدہ سنبھالتی، وہ والد صاحب کی خدمت میں کوئی کمی فروگزاشت نے رکھتی تھی۔ ہمارا بھی بہت خیال رکھتی۔ میرے بھائی عاصم کے کپڑے دھو کر، استری کر کے الماری میں لٹکا دیتی۔ غرض اس کے آنے سے گھر ایسا سکون کا گہوارہ بنا کہ ہمیں اب اپنی ماں کی کمی محسوس نہ ہوتی تھی۔ والد صاحب کو اللہ تعالیٰ نے شفا دے دی۔ وہ پھر سے ڈیوٹی پر جانے لگے۔ شام کو ٹیوشن پڑھانے چلے جاتے۔ عاصم بھائی کالج سے آ کر رات گئے تک پڑھائی میں مشغول رہتے۔ امّی تھکی ہوئی آتیں، کھانا کھا کر سو جاتیں۔ کبھی کبھی وہ دیہات میں ہی دو، چار دن رک جاتیں۔ جب کوئی ایسا کیس ہوتا کہ مریضہ کے پاس رکنا ضروری ہوتا تو وہ گھر نہ آتیں۔ اس خدمت کے صلے میں اچھے خاصے پیسے انہیں مل جاتے تھے۔ آمدنی میں اضافہ ہونے لگا، خوشحالی بڑھی، سچ ہے کہ پیسے میں بڑی کشش ہوتی ہے۔ وہ اب ہمیں اچھے گھروں میں بیاہنے کے خواب دیکھنے لگیں۔ ہمارا جہیز جوڑنے کو روپیہ جمع کرتی جاتی تھیں۔ دیہات میں ایک روز ان کی ملاقات ایک حکیم صاحب سے ہوئی، جنہوں نے انہیں پرانے نسخے بتائے اور جڑی بوٹیوں سے دوا تیار کرنا بھی سکھایا۔ والدہ اس شخص سے متاثر ہوگئیں، ان سے عقیدت ہوگئی۔ جب وقت ملتا ان کے مطب چلی جاتیں تاکہ کچھ حکمت بھی سیکھ لیں اور بھی فائدہ ہوجائے۔ ان کا خیال تھا کہ جب اپنے شہر تبادلہ ہو جائے گا، گھر پر مطب کھول لیں گی۔ ہم زبیدہ پر بھروسہ کرتے تھے اور اسے اپنی بڑی بہن کا درجہ دینے لگے تھے، مگر قسمت میں کچھ اور لکھا تھا۔ ایک روز اچانک قیامت آگئی۔ امّی تین روز سے دیہات میں تھیں۔ وہ گھر پر موجود نہ تھیں۔ اللہ جانے آدھی رات کو کیا ہوا کہ ہمیں زبیدہ کی چیخیں سنائی دیں اور جب ہماری شور سے آنکھ کھلی تو… کیا دیکھتے ہیں کہ عاصم بھائی زبیدہ کو چھری کے وار کرکے بری طرح زخمی کرچکے تھے۔ والد صاحب بیچارے ہانپتے کانپتے ایک پڑوسی کی مدد سے زخمی زبیدہ کو اسپتال لے گئے لیکن وہ جاں بر نہ ہوسکی۔ بہت زیادہ خون بہہ جانے سے اس کی موت واقع ہو گئی اور میرا پیارا بھائی عاصم جیل چلا گیا۔ بھائی کی اس حرکت سے والد صاحب ٹوٹ کر رہ گئے۔ اکلوتا بیٹا تھا۔ ان کی تو کمر ہی ٹوٹ گئی، ادھر زبیدہ کی ہلاکت کا بھی ازحد دکھ تھا۔ ہم دونوں بہنیں بے حد خوفزدہ تھیں کیونکہ اس لاوارث لڑکی کی جان اور آبرو کے تحفّظ کی ذمے داری ان ہی کی تھی، جسے وہ پورا نہ کرسکے تھے۔ ابّو مقدمے میں الجھ گئے۔ ان کا دن کا چین اور رات کا آرام ختم ہوگیا۔ وہ بری طرح مقروض ہوگئے۔ ملازمت سے لمبی چھٹی لینی پڑگئی۔ مالی پریشانی اس قدر بڑھی کہ گھر میں فاقوں کی نوبت آ جاتی، اگر امّی کی ملازمت نہ ہوتی۔ وہ گھر کو تندہی سے سنبھالنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ اس پر بھی والد صاحب اس بربادی کی ذمے دار امّی کو ٹھہراتے تھے کہ وہ گھر سے غیرحاضر رہتیں اور نہ یہ ناخوشگوار واقعہ رونما ہوتا۔ والد صاحب نے اکلوتے بیٹے کو پھانسی سے بچانے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دی۔ ان کی حالت غیر تھی۔ کئی کئی دن نہائے بنا میلے کپڑوں میں رہتے، بائولے سے لگنے لگے تھے۔ آخر کار انہوں نے عدالتوں اور وکیلوں کے چکروں سے تھک کر ہمت ہار دی اور مقدمے سے کنارہ کشی اختیار کرلی کہ جو قسمت میں لکھا ہوگا، ہو جائے گا۔ امّی جان کو اس کنارہ کشی کا بڑا صدمہ تھا۔ وہ خود وکیلوں کے پاس جانے لگیں۔ ان کی بھاری فیسوں میں ساری جمع پونجی حتیٰ کہ زیورات تک سے ہاتھ دھو لیے۔ ہمارا جہیز بھی کیس کی نذر ہو گیا۔ میری ماں خاصی خوبصورت تھیں، ایک وکیل صاحب کو پسند آ گئیں۔ اس نے کہا کہ اگر تم مجھ سے شادی کر لو تو میں تمہارے بیٹے کے کیس کی جی جان سے پیروی کروں گا اور ان شاء اللہ اسے پھانسی کے پھندے سے بچا لوں گا۔ بیٹے کی محبت میں میری ماں نے ابّو سے طلاق لے کر وکیل موصوف سے نکاح کرلیا۔ اس نے کیس کی پیروی کی اور عاصم کو عمر قید کی سزا ہوگئی۔ اس وکیل کا تعلق بھی اسی دیہات سے تھا جہاں والدہ کی ملازمت تھی۔ وہ دیہات میں رہنے لگیں۔ میں اور باجی ان سے ملنے دیہات جانے لگیں۔ اسی دوران والد صاحب نے باجی کا رشتہ تلاش کرکے ان کی شادی کردی اور مجھے بھی والدہ کے پاس جانے سے منع کر دیا۔ بھائی جیل میں تھا۔ باجی بیاہ کر چلی گئیں تو میرا من نہ لگتا۔ ابّو کی وجہ سے مجبور تھی۔ انہیں اکیلے چھوڑ کر امّی کے پاس نہیں جا سکتی تھی۔ والد صاحب میرے لیے کسی اچھے رشتے کی تلاش میں سرگرداں تھے۔ نصیب کی بات کہ کوئی اچھا رشتہ نہ ملا۔ شاید اللہ تعالیٰ کو یہی منظور تھا کہ میں والد صاحب کے پاس رہ کر ان کی خدمت کروں۔ وہ بیمار رہنے لگے تھے اور انہیں روٹی پکا کر دینے والا بھی کوئی نہ رہا تھا۔ باجی کے شوہر اچھے تھے، ان کا بہت خیال رکھتے۔ وہ اب تین بچّوں کی ماں تھیں۔ چوتھے بچّے کی ولادت پر وہ امّی جان کے پاس چلی گئیں تاکہ امّی کی معاونت سے یہ مرحلہ آسان ہو جائے۔ باجی کا چوتھا بچّہ دنیا میں آ گیا۔ امّی نے بچّوں اور باجی کی بہت اچھی طرح دیکھ بھال کی۔ سوا مہینے بعد دولہا بھائی بیوی کو لینے والدہ کے پاس گئے۔ ان دنوں باجی کی آنکھیں دکھنے آئی ہوئی تھیں۔ اتفاق سے امّی کے جاننے والے ایک حکیم صاحب والدہ کے یہاں آئے تو باجی کی آنکھیں سرخ اور پانی بہہ رہا تھا۔ حکیم صاحب بولے کہ اپنے شوہر کو میرے مطب بھیج کر دوا منگوا لیں۔ دولہا بھائی شام کو دوا لینے مطب پہنچے تو حکیم صاحب کسی دوست کے اچانک انتقال ہو جانے کی وجہ سے جنازے میں شرکت کے لئے اگلے گائوں چلے گئے تھے، لیکن جاتے ہوئے اپنے مطب کے ملازم کو ہدایت کر گئے تھے کہ بیٹا یہ دوا فلاں آدمی آئے تو اسے دے دینا۔ جو دوا وہ بتا کر گئے تھے ملازم نے غلطی سے اس کی بجائے کوئی اور دوا کی شیشی دولہا بھائی کو دے دی۔ وہ دوا جب باجی نے آنکھوں میں ڈالی تو چیخ ماری کہ دونوں آنکھوں میں آگ سی لگ گئی تھی اور تکلیف ناقابل برداشت تھی۔ جلدی سے شہر لائے اور آنکھوں کے ڈاکٹر کو دکھایا۔ اس نے بتایا کہ ان کی بینائی ہمیشہ کے لئے جاتی رہی ہے۔ اللہ جانے کس نوعیت کی غلط دوا آنکھوں میں ڈالی گئی ہے۔ کئی ماہر ڈاکٹروں کو دکھایا مگر باجی کی بینائی واپس نہ لوٹ سکی۔ یوں وہ بیچاری ہمیشہ کے لئے بینائی سے محروم ہوگئیں۔ والد صاحب کو یہ دوسرا رنج لے بیٹھا۔ مجھے باجی کے پاس بھجوا دیا کہ کچھ عرصے تم ان کے ساتھ رہو۔ گھر اور بچّوں کی دیکھ بھال کرو۔ بصارت سے محروم میری بہن اب کیسے گھر اور بچّوں کو سنبھال سکتی تھی، اسے تو خود پکڑ کر واش روم تک لے جانا پڑتا تھا۔ جوانی میں آنکھوں سے محروم وہ اندھیروں میں بھٹک رہی تھیں۔ دولہا بھائی نے سوچا کہ بیوی کو اکیلے گھر میں رکھنا درست نہیں۔ ان کے بھائی کراچی میں رہتے تھے لہٰذا وہ بیوی، بچّوں کو کراچی لے آئے۔ باجی مجھے بھی اصرار کر کے ہمراہ لے آئیں تاکہ میں بچّوں کی پرورش میں ان کی مدد کر سکوں۔ میں کچھ عرصے کے لئے ساتھ آئی تھی۔ باجی کی دیورانی ملازمت کرتی تھیں، وہ صبح دفتر جاتیں شام کو لوٹتیں۔ مجھے باجی، ان کے بچّوں اور شوہر کے تمام کاموں کے ساتھ دیورانی کے بچّوں اور شوہر کے کام بھی کرنے پڑتے جس کی وجہ سے رات کو تھک کر چور ہو جاتی تھی۔ دولہا بھائی بیوی کے بصارت سے محروم ہو جانے کے بعد گھر سے بے نیاز رہنے لگے، جبکہ ان کے دیور نرم دل انسان تھے۔ ان کو میرا احساس ہوتا کہ تمام گھر کا بوجھ مجھ ناتواں پر ڈال دیا گیا ہے۔ وہ جب بھی موقع ملتا مجھ سے غم گساری کرنے لگتے۔ میں بھی ان دنوں بہت مایوس رہنے لگی تھی۔ والد صاحب تنہا اور بیمار تھے۔ سگی ماں نے دوسری شادی کرلی تھی۔ ایک باجی کا آسرا تھا، وہ بھی نابینا ہوگئی تھیں۔ ان کے بچّے اتنے چھوٹے تھے کہ میرے سوا کوئی انہیں سنبھال نہ سکتا تھا۔ یہ حالات دیکھ کر باجی کے دیور مشتاق میرا دکھ محسوس کرتے تھے تو میرے دل میں بھی ان کے لئے احترام کے جذبات پیدا ہوگئے۔ مشتاق صاحب کی بیوی ڈاکٹر تھیں۔ اسپتال میں جاب کرتی تھیں۔ انہیں اپنے ڈاکٹر ہونے کا بڑا مان تھا۔ وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتی تھیں۔ مجھے تو نوکرانی سمجھتی تھیں کیونکہ میں اور میری بہن ان کے گھر میں جو رہ رہے تھے۔ جب گھر میں ہوتیں مجھ پر حکم چلاتیں۔ ذرا کام میں دیر ہو جاتی تو اہانت کرتیں۔ ایک روز مشتاق میری طرف سے بول پڑے۔ بیوی سے کہا کہ یہ ہماری ملازمہ نہیں ہے۔ اس وقت اسے بخار ہے اور تم بار بار اٹھائے جا رہی ہو۔ اسے آرام کرنے دو۔ جو کام ہے مجھے کہو، میں کر دیتا ہوں۔ ان کا اتنا کہنا تھا کہ ڈاکٹر صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ بولی تمہارا اس لڑکی سے کیا تعلق ہے؟ یہ بھابی کی بہن ہے۔ ہماری ذمے داری نہیں ہے کہ ہم اسے اپنے گھر رکھیں۔ اپنے باپ کے گھر کیوں نہیں چلی جاتی۔ ان ہی دنوں ڈاکٹر صاحبہ کسی ٹور پر کچھ دنوں کے لئے بیرون ملک گئیں۔ لوٹیں تو اتفاق سے باجی بیمار تھیں۔ وہ اسپتال میں تھیں، دولہا بھائی ان کے ہمراہ تھے۔ گھر میں، میں بچّوں کے ساتھ اکیلی تھی۔ مشتاق کی بیوی گھر آئی۔ میں مشتاق کو چائے دے رہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ مجھے بیڈروم میں ہی لا دو۔ بس اتنی سی بات تھی۔ اس شکی خاتون نے مجھے اپنے شوہر کے بیڈروم سے باہر آتے دیکھا تو میرے بال پکڑ لیے کہ تم میرے خاوند کے کمرے میں کیا کرنے گئی تھیں، جبکہ گھر پر کوئی نہیں ہے۔ تمہاری بہن اور بہنوئی نے کیوں کر میرے شوہر کے پاس تمہیں چھوڑا ہوا ہے۔ فوراً اپنا سامان اٹھائو اور نکلو یہاں سے۔ جب بیوی کو بپھری ہوئی شیرنی کی طرح مجھے زدوکوب کرتے دیکھا تو مشتاق سے نہ رہا گیا۔ اس نے کہا۔یہ یہاں سے ہرگز نہیں جائے گی۔ یہ میرا گھر ہے اور میرے گھر میں میرے بھائی اور بھابی کے رشتے دار جتنے دن چاہے رہ سکتے ہیں۔ تمہیں اس بات پر اعتراض ہے تو تم چلی جائو، اس گھر سے۔ شوہر کے یہ الفاظ خنجر بن کر اس کے دل میں پیوست ہوگئے۔ جیسے آئی تھی اسی طرح سوٹ کیس گھسیٹتی ہوئی گیٹ سے باہر نکلی اور ڈرائیور سے کہا کہ مجھے میرے والد کے گھر لے چلو۔ میں مزہ چکھاتی ہوں ان دونوں کو بدمعاشی کا۔ یوں ناحق الزام لگا کر اس نے مجھے اور مشتاق کو اپنے اور ہمارے خاندانوں میں بدنام و رسوا کر دیا۔ جس پر مشتاق نے کہا کہ مجھے ایسی عورت کو نہیں رکھنا جو تہمت لگا کر میری اور ایک بے گناہ لڑکی کی رسوائی کرتی پھر رہی ہے۔ رشتے داروں کے گھر میں فون کرکے میرا اور اپنے شوہر کا ناجائز تعلق بتایا، حالانکہ میں بالکل بے گناہ تھی۔ وہ سمجھ رہی تھی کہ اس حربے سے مشتاق اور اس کا بڑا بھائی دونوں مجھے گھر سے رخصت کرنے پر مجبور ہو جائیں گے، لیکن ایسا نہ ہوا بلکہ مشتاق نے بیوی کی اس حرکت کی وجہ سے اسے طلاق دے دی۔ میں نے بہت چاہا کہ وہ اسے طلاق نہ دیں مگر انہوں نے فیصلہ کرلیا تھا۔ کیونکہ وہ تین بار سسر کے گھر بیوی کو منانے گئے، ان کے بھائیوں نے گالیاں دیں اور سسر نے بھی بے عزت کرکے گھر سے نکال دیا۔ اب ساتھ رہنے کی کہاں گنجائش رہ گئی تھی لہٰذا انہیں اپنی ڈاکٹر بیوی کو طلاق دینی پڑی۔ عدت کے فوراً بعد اس خاتون نے اپنے ایک ساتھی سرجن سے شادی کرلی تب معمہ حل ہوا کہ اصل میں وہ اپنے ساتھی سے شادی کرنا چاہتی تھی۔ والد صاحب شدید بیمار ہوگئے تو میں ابّا جان کے پاس چلی گئی۔ وہ بہ مشکل دو ماہ زندہ رہے۔ ان کی وفات کے بعد کہاں جاتی، لہٰذا باجی دوبارہ مجھے اپنے گھر لے آئیں۔ اب میری شادی کا مسئلہ بھی تھا۔ باجی کا خیال تھا کہ وہ میری شادی کسی اچھے گھر میں کرا دیں، بالآخر تو مجھے انہیں بیاہنا تھا۔ دولہا بھائی نے یہ تجویز دی کہ ہم اس کی شادی اگر مشتاق سے کر دیں تو یہ ہمارے گھر رہے گی اور میری نابینا بیوی اور بچّوں کا سہارا بنی رہے گی۔ اس امر پر میں قطعی راضی نہ تھی کیونکہ اس شادی سے سب ہی یہ کہتے کہ واقعی مشتاق کی بیوی کا الزام صحیح تھا، تب ہی اس نے بیوی کو طلاق دی اور اپنا منشا پورا کرلیا، یعنی بھابی کی بہن سے شادی کرلی۔ کافی دنوں تک باجی نے مجھے سمجھایا۔ بالآخر میں ان کی آنکھوں میں آنسو نہ دیکھ سکی۔ مجھے ان کی بات ماننی پڑی اور نہ چاہتے ہوئے میں نے مشتاق صاحب سے شادی کرنا قبول کرلیا۔ میں مشتاق سے شادی کے بعد سکھی ہوں۔ بس ایک قلق ہے کہ لوگ دوسروں سے قربانی مانگتے ہیں لیکن جب خود قربانی دینی پڑے تو پریشان ہو جاتے ہیں۔ (ز…بہاولپور)

Latest Posts

Related POSTS