ماں کی اہمیت میرے سے زیادہ کوئی نہیں جان سکتا – ماں کی چھت نہ ہو تو زندگی وقت کے ظالم ہاتھوں کھلونا بن جاتی ہے-ابھی میں نے پاؤں پاؤں چلنا سیکھا تھا کہ موت کے بے رحم ہاتھ نے ماں کو مجھ سے چھین لیا اور کچھ دنوں بعدانہوں نے دوسری شادی کر لی۔ سوتیلی ماں نے جوں توں کر کے پال پوس کر مجھے جوان کیا۔ دوسری ماں مجھ سے بے تحاشا کام لینا چاہتی تھی۔سچ کہوں تو وہ مجھ سے سارے گھر کا کام لینا چاہتی تھی۔ جس قدر ہمت میرے تن ناتواں میں تھی کام کرتی رہی، لیکن پھر ہمت نے جواب دے دیاتو میںبیمار پڑ گئی۔ علاج ہوا۔ جلد اچھی نہ ہو سکی، روز بروز لاغر ہونے لگی۔ ماں اس صورت حال سے گھر آگئی۔ وہ چاہتی تھی کہ میں جلدی سے بھلی چنگی ہو کر پھر سے گھر کا کام سنبھال لوں۔ اور میں تھی کہ چار پائی چھوڑنے کا نام نہ لیتی تھی۔ شاید میں ٹھیک ہو نا نہیں چاہتی تھی۔ ماں نے دیکھا یہ کام کرنے کے بجاۓ اپنی تیار داری مجھ سے کراتی ہے ، تو اس نے میرے باپ سے کہا اس کو تبدیلی آب و ہوا کی ضرورت ہے۔ کیوں نہ ہم اس کو اس کی خالہ کے پاس کچھ دنوں کے لیے بھیج دیں۔ شاید وہاں جا کر ٹھیک ہو جائے ۔ میری سگی خالہ فیصل آباد میں رہتی تھی۔ ابو ایک دن مجھے ان کے گھر چھوڑ کر چلے گئے۔ وہ میری ماں سے بہت ڈرتے تھے۔ خالہ نے مجھے پیار دیا تو میں جلدی اچھی ہو گئی۔ خالہ چاہتی تھیں کہ میں آگے پڑھ لوں لیکن سوتیلی ماں نے مجھے بہت ڈرپوک بنادیا تھا۔ جب بھی سڑک پر چلتی ہر شخص مجھے گھورتا ہوا دکھائی دیتا اور میں سہم جاتی۔ میرے اندر خود اعتمادی نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ آگے پڑھنے سے نفرت ہو گئی۔ جب بھی پڑھنے کے لیے کتاب اٹھاتی۔ ماں مجھے اٹھادیتی اور کہتی بعد میں پڑھ لینا، پہلے یہ کام کر دو۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے آج تک کبھی کسی کو سہیلی نہ بنایا۔ مجھے لڑکیوں سے بھی ڈر لگتا تھا۔ میری خالہ کا صرف ایک ہی بیٹا تھا، سعد جو بھی مجھے اچھا لگتا اور بھی برا لگنے لگتا تھا۔ خالہ کا گھرانہ مختصر لیکن کافی خوشحال تھا۔ گھر میں دولت کی ریل پیل تھی۔ انہوں نے اپنے اکلوتے بیٹے کی تربیت بہت ہی لاڈ پیار سے کی تھی۔ خالہ اپنے بیٹے کے خوب ہی ناز اٹھاتی تھیں۔ سعد بہت خوب صورت تھا۔ جب وہا چھے کپڑے پہنتا تو شہزادہ لگتا تھا۔ میں بری شکل و صورت کی نہ تھی ، پھر بھی سعد جیسی نہ تھی۔ مجھے اس کی صورت پر رشک آتا تھا۔ ویسے بھی میں بہت سیدھی سادی تھی۔ ہر وقت چادر اوڑھے رہتی۔ فیشن میرے قریب سے نہ گزرا جب میں پہلی بار اپنی خالہ کے گھر گئی تو میں نے سعد کو سلام کیا۔ اس نے میرے سلام کا جواب ہی نہ دیا۔ بڑی نخوت سے دیکھا اور چلا گیا۔ یہ بات اس کی مجھے بہت بری لگی تھی۔ آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔ خالہ اگر چہ مجھے پیار کرتی تھیں لیکن گھر کا کام یہ بھی خوب لیتی تھیں۔ فرق صرف یہ تھا کہ سوتیلی ماں کام کا انعام لعنت ملامت کی صورت میں دیتی تھی جبکہ خالہ پیار کے دو بول کہہ کر میرادل جیت لیتی تھی۔ خالہ کے گھر کام والی بھی آتی تھی ، جو جھاڑ و بر تن اور کپڑے دھونے کا کام کر جاتی تھی۔ میں صرف خالہ کا دیگر کاموں میں ہاتھ بٹادیتی تھی۔ میں یہاں خوش تھی۔ یہاں سب اچھے تھے ، خالہ اور خالو پیار کرتے تھے۔ صرف سعد ایسا تھا جو اپنے رویے سے مجھے دکھ پہنچ رہا تھا۔ وہ بھی لاپر واہ بھی پیر نخوت اور بھی بے نیاز بنارہتا۔ جس سے مجھے اپنی ذات کی نفی محسوس ہوتی تو میر اول گھنے لگتا تھا۔ رفتہ رفتہ میں نے یہ محسوس کیا کہ سعد کی لاتعلقی کم ہوتی جار ہی ہے ۔ اب اس کو احساس ہو چلا تھا کہ میں ایک فرد ہوں جو اس کے گھر میں رہتی ہوں ، وہ مجھ سے ہم کلام ہونے لگا، لیکن صرف کام کی حد تک۔ مثلا نیا! ذرا میرے کپڑے استری کر دو، جوتے پالش کر دو۔ ایک دن آیا اور کہنے لگا۔ نیا مجھے بہت جلدی ہے ذرا میرے جوتے پالش کر دو۔ میں اس سے ڈرتی تھی۔ اس کا مجھ پر بہت رعب تھا حالانکہ وہ کچھ کہتا نہیں تھا، لیکن جب کہتا تحکمانہ انداز میں۔ میں جلدی جلدی اس کے جوتے پالش کرنے لگتی۔ ایک روز جبکہ میں سر جھکاۓ تیز تیز جوتے پالش کرنے میں لگی تھی ، سر اوپر اٹھایا تو دیکھا وہ مجھے گھور رہا ہے۔ میں گھبراگئی تو وہ ہنس پڑا، کہنے لگا پاش تمہارے چہرے پر لگی ہے ۔ یہ سن کر میں شرمندہ ہو گئی۔ جلدی جلدی پالش کرنے کے بعد جب میں نے جا کر آئینہ دیکھا تو حیران رہ گئی کہ پالش کا میرے چہرے پر نام و نشان بھی نہیں تھا۔ نجانے سعد نے ایسا کیوں کہا تھا۔ ایک دن دو استری اسٹینڈ اپنے کمرے میں لے گیا اور میرے پاس آیا کہ میری شرٹ استری کر دو۔ میں نے کہا۔ اچھا جب میں استری کرنے لگی تو وہاں میز نہیں تھی۔ کہنے لگا وہ میرے کمرے میں ہے ، تم استری لے کر اوپر آ جاؤ۔ میں نے خالہ کی طرف دیکھا۔ وہ بولیں۔ ہاں ہاں چلی جاؤ۔ وہیں استری کر کے دے آؤ۔ اس میں کیا حرج ہے۔ آج میں نے نیا جوڑا پہنا تھا۔ یہ سلک کا سوٹ کافی خوبصورت تھا جو خالو میرے لیے کوئٹہ سے لاۓ تھے۔ استری کرنے میں محو تھی کہ سعد میرے پاس آ گیا۔ کہنے لگا۔ اس جوڑے میں تم بہت اچھی لگ رہی ہو۔ اپنے دفاع میں کچھ بھی نہ سوچھا تو میں نے کہ دیا شکر یہ بھائی جان۔ ابھی میرے منہ سے بات ختم نہ ہوئی تھی کہ میرے چہرے پر ایک زور دار تھپڑ پڑا۔ میں اس اچانک حملے کے لیے تیار نہ تھی۔ میری چیخ نکل گئی۔ آنکھوں سے آنسوں بہہ نکلے ۔ لگتا تھا اس نے پوری قوت سے مجھے تھپڑ رسید کیا تھا۔ میں سسکیاں لے کر روتی ہوئی اس کے کمرے سے جانے لگی تو وہ کہنے لگا۔ میری ایک بات سنتی جاؤ مجھے تم بھائی نہ کہنا اور اب یہاں سے دفع ہو جاؤ۔ میں روتے روتے ہاتھ روم میں گھس گئی اور پانی کھول دیاتا کہ اس کے شور میں رو سکوں۔ خوب جی بھر کے رونے کے بعد اپنا چہرہ دیکھا توحیران رہ گئی۔ میرے چہرے پر اس کی انگلیوں کے نشان پڑ گئے تھے۔ اس روز میں خالہ کے سامنے نہ گئی۔اپنے کمرے میں جا کر منہ لپیٹ کر سو گئی۔ شام کو مجھے سعد نے آواز دی۔ نیا ایک کپ چائے بنالاؤ۔ بادل نخواستہ مجھے اٹھنا پڑا۔ خالہ کے ڈر سے میں نے چائے بنائی تو وہ کچن میں خود ہی آ گیا اور کہنے لگا۔ پلیز ! معاف کر دو۔ لیکن آئندہ بھی مجھے بھائی مت کہنا۔ اب ہر وقت مجھے سعد سے خوف آنے لگا تھا۔ میں اس کے سائے سے ڈرنے گئی ،دن رات کڑھنے لگی، کافی کمزور ہو گئی۔ دل چاہتا تھا بھی آئینہ نہ دیکھوں بلکہ اپنا چہرہ ہی بگاڑ لوں، جس پر سعد کا تھپڑ پڑا تھا۔ خدا جانے میرے ساتھ کیا مسئلہ تھا۔ اب جبکہ وہ مجھے برا لگتا تھالیکن میں اس کی کسی بات سے انکار بھی نہ کر سکتی تھی۔ وہ جو کہتامان لیتی اورو یسے ہی اس کا ہر کام کرتی ،لیکن اب میں بہت پریشان رہنے لگی تھی۔ اس کے سامنے جانے سے کتراتی۔ وہ خود ہی میرے سامنے آ جاتا تھا۔ اس روز وہ اپنے دوستوں کے ساتھ پکنک پر جارہا تھا۔ خالہ نے مجھے آواز دی۔ بیٹی تم جاکر سعد کی تیاری کر ادو۔ میں اس کے کمرے میں گئی ۔ وہ بیگ میں اپنے کپڑے رکھ رہا تھا۔ میں نے تیاری میں اس کو مدد کی ۔ بہت جلدی میں تھا۔ کہنے لگا کاش میرے بس میں ہوتا تو میں ضرور تم کو ساتھ لے جاتا۔ میں حیرت سے اس کی بات سن رہی تھی کہ مجھ پر حکم چلانے والا آج مجھے کیا کہ رہا ہے۔یہ تو وہ ہےکہ مجھے سخت لہجے میں حکم دیتا ہے ، اس وقت تو بڑا ہی پر سکون ہوتا ہے جبکہ میرادل دھڑک کر پاگل ہو جاتا، اور میری حالت عجیب ہو جاتی جو میں بیان نہیں کر سکتی۔ وہ مجھے اپنے اشاروں پر چلا رہا تھا اور میں اس کے کہنے کے علاوہ کوئی کام بھی نہ کر سکتی تھی۔ انہی دنوں مجھے لینے کے لیے ابو آ گئے۔ میں خوش ہو گئی کہ چلو سعد کے تحکم آمیز لہجے کے عذاب سے تو بچوں گی۔ امی بیمار تھیں۔ ان کو میری ضرورت تھی۔ گھر آتے ہی سارا کام میرے سر آپڑا۔ پھر بھی خوش تھی کہ سعد کے بارے میں سوچنے کی فرصت نہ ہی ملے تو اچھا ہے ۔ کچھ دن بعد امی ٹھیک ہو گئیں تو وہ پھر سے فرعون بن گئیں۔ ابو نے ماں کارویہ دیکھا تو مجھے پھر خالہ کے پاس چھوڑ گئے۔ خالہ نے بتایا کہ جب سے تم گئی ہو سعد تب کا گھر سے نکلا ہوا ہے۔ دیر کو گھر آتا ہے ۔ خدا جانے کدھر رہتا ہے۔ رات ہو گئی ، وہ گھر نہ آیا۔ خالہ نے کہا۔ بیٹی میں اور تیرے خالو سو جائیں اور سعد آئے تو اس کو کھانادے دینا۔ یہ سن کر میری بھوک اڑ گئی۔ نجانے کیوں اب مجھے سعد سے زیادہ خوف آنے لگا تھا۔ خالہ اور خالو اپنے کمرے میں جاکر لیٹے ہی ہوں گے کہ ہارن سنائی دیا۔ دل دھک دھک کرنے لگا۔ میں نے اچانک ایک فیصلہ کیا اور جا کر اپنے کمرے میں لیٹ گئی۔ سعد نے گیٹ بند کیا۔ وہ دین میں آیا۔ اس نے مجھے آواز نہیں دی۔ کھانا گرم کیا، کھانا کھایا۔ پھر وہ میرے کمرے میں آیا۔ اس نے لحاف میرے اوپر ڈھانپ دیا۔ کمرے کی لائٹ جل رہی تھی ، اس نے لائٹ بند کی اور اوپر اپنے کمرے میں چلا گیا۔ ان باتوں سے پہلی بار مجھے احساس ہوا کہ اس کے دل میں رحم ہے۔ میرے لیے کوئی جگہ ہے اور وہ مجھے بھی انسان سمجھتا ہے۔ اس تمام رات مجھے نیند نہ آئی۔ صبح اٹھی تو دھوپ نکل آئی تھی۔ شر مند ہ شر مند ہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔ صبح نجانے کب ہو گئی تھی ، جلدی سے اٹھ کر منہ ہاتھ دھویا، نیچے کی خالہ ناشتے کا کام سمیٹ چکی تھیں اور میں چور ہی بنی کھڑی تھی۔ جا کر دیکھ ! تیرے خالو کپڑے استری کروانے کو پریشان ہو رہے ہوں گے۔ جب میں خالو کے کمرے میں گئی تو حیران رہ گئی ۔۔ خالو نے خود ہی کپڑے استری کر لیے تھے اور جوتے بھی خود پالش کر چکے تھے۔ میں نے ان سے معذرت کی تو وہ کہنے لگے بیٹی کوئی بات نہیں۔ اگر آج تمہاری آنکھ دیر سے کھلی۔ تم کیا اس گھر کی نوکرانی ہو جو ہر ایک کام لازمی تم ہی کر و ؟ ہم کو بھی اپنے کام خود کرنے چائیں۔ مجھے بہت خوشی ہوئی۔ خالو بولے۔ سعد سے پتا کر لو۔ شاید وہ پریشان ہو رہاہو۔ میں بھا گئی بھاگی سعد کے کمرے میں پہنچی۔ دیکھا جو شخص بھی اٹھ کر پانی نہیں پیتا تھا اپنے جوتے پالش کر رہا تھا۔ میں نے جلدی سے برش اور جو تا ا س کے ہاتھ سے لیا۔ بولا۔ اتنی کیوں گھبرارہی ہو۔ تم سور ہی تھیں۔ تم نے کوئی جرم تو نہیں کیا جو ایسی مچل رہی ہو ۔ اس کی بات سے میرا حوصلہ ہوا۔ ڈر سے جو میرارنگ زرد تھاوہ نہ رہا۔ شر مندہ ہی سر جھکاۓ جو تا پالش کر رہی تھی ، جیسے کہ یہی میری قسمت میں ہو۔ آج جو سعد نے محبت بھرے لہجے میں مجھ سے بات کی تو میری آنکھوں سے آنسو کرنے لگے ۔ جی چاہتا تھا اسی گھر میں رہوں ہمیشہ کے لئے لیکن سعد جو مجھے پیر کی جوتی سمجھتا تھا بھلا وہ مجھے کیو نکلر گلے کا ہار بناسکتا تھا۔۔ میں یہی سوچا کرتی تھی۔ آج پہلی بار مجھ کو ایک دوسرا احساس ہوا تھا۔ میں کسی اور سیج پر سوچنے لگی تھی۔ شاید یہ لوگ مجھ سے پیار کرتے ہوں اور میری تیمی کو بھلا کر مجھے وہ مقام دے دیں جو مجھ کو ملنا چاہیے۔ اگلے دن سعد کی چھٹی تھی۔ وہ اپنے دوست کے گھر سے جلدی آ گیا تھا۔ خالہ کچن میں تھیں۔ مجھے خوشی تھی کہ آج میری بھی چھٹی ہو گئی ہے۔ میں بھاگ کر گئی، سعد کے میلے کپڑے اکٹھے کیے اور مشین میں ڈالنے ہی والی تھی کہ شرٹ کی جیب میں مجھے کچھ محسوس ہوا، جب کھول کر دیکھا تو حیران رہ گئی۔ کسی لڑکی کا خط تھا جو اس نے سعد کو لکھا تھا کہ تمہارے دوست ڈاکٹر نے مجھ کو مشکل میں ڈال دیا ہے ۔ وہ مجھے دوا نہیں دیتا، میں بہت مصیبت میں ہوں، پلیز تم میرے سے شادی کر لو ورنہ میں بدنام ہو جاؤں گی – یہ پڑھتے ہی میری حالت عجیب حالت ہو گئی۔ خط واپس جیب میں ڈال دیا اور آکر لیٹ گئی۔ سوچنے لگی کہ کیا معاملہ ہے ۔ کیا وہ سعد کی دوست ہے ؟ کیا سعد اس لڑکی سے شادی کرے گا اور کیا یہ اتنا برا ہے۔ یقینا نجانے کتنی لڑکیوں کو بر باد کیا ہو گا۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس خط کو پڑھنے کے بعد میری کیوں ایسی حالت ہو گئی کہ میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے جو تھمنے کا نام نہیں لیتے تھے ۔ میں نے سوچ لیا تھا کہ اب اس گھر کی بہو نے کے خواب نہیں دیکھوں گی ۔ آج کل کے لڑکے بر باد کس کو کرتے ہیں اور شادی کسی اور سے کرتے ہیں۔ جہاں تک ہو سکا میں سعد سے دور رہوں گی اور میں حفاظت کروں گی۔ لیٹے لیٹے دفعتا مجھے خیال آیا کہ اگر یہ خط خالہ نے نکال دیا تو سعد کے لیے اچھانہ ہو گا۔ نہ صرف اس کا راز فاش ہو گا بلکہ وہ خالہ کی نظروں سے بھی گر جائے گا۔ تبھی میں انھی۔ میں نے خط سعد کے میلے کرتے کی جیب سے نکال کر اپنے پاس رکھ لیا۔ خالہ میرے کمرے میں آئیں۔ دیکھا میں لیٹی ہوں ، وہ سمجھیں طبیعت ٹھیک نہیں ہے کیو نکہ میں بلاوجہ لیٹتی نہ تھی۔ و خود جا کر کپڑے دھونے والی تھیں کہ سعد آ گیا۔ شاید اس کو خط یاد آ گیا تھا۔ اس نے جلدی جلدی اپنے میلے کپڑے دیکھے ۔ خط اس کو نہ ملا۔ ماں سے پوچھنے کی اس میں جرات نہ تھی، مگر وہ سمجھ گیا کہ خط ماں کے ہاتھ نہیں لگا کیونکہ خالہ کے چہرے پر کسی قسم کے تاثرات نہ تھے ، تھی وہ میرے کمرے میں آ گیا۔ اس نے مجھے آواز دی۔ سنو،کیا تم جاگ رہی ہو ؟ اس کی آواز سن کر میں اٹھ بیٹھی۔ سمجھ گئی کہ وہ کیوں آیا ہے کیونکہ عام حالات میں وہ میرے کمرے میں نہیں آتا تھا۔ کیا تم نے میلے کپڑے ، میرے کمرے سے اٹھائے تھے ؟ ان میں … ابھی اس نے فقرہ مکمل بھی نہیں کیا تھا کہ میں نے دراز کھولی اور خط اس کو دے دیا۔ خط کو اس نے مٹھی میں لے لیالیکن اس کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑ گیا تھا۔ کیا تم نے اس خط کو پڑھا تھا ؟ جی ہاں ! میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ لمحہ بھر تک مجھے گھورتا رہا۔ میں نے سر جھکالیا۔ میری آنکھیں فرش کو دیکھ رہی تھیں جیسے وہ نہیں، میں مجرم تھی۔ اچانک میری سسکی نکل گئی۔ پٹ پٹ آنسو فرش پر گرنے لگے۔ وہ تصویر حیرت بنا کھڑا تھا۔ تم کیوں رورہی ہو؟ کیا کیا ہے تم نے ؟ وہ پو چھا رہا تھا۔ آپ نے کسی کی زندگی برباد کی۔ آپ کورحم نہیں آیا۔ دکھ نہیں ہوتا آپ کو کسی کو دکھ دے کر ۔ خدا جانے مجھ میں ایسی طاقت کہاں سے آگئی تھی جو میں بولتی جارہی تھی۔ حیرت تھی کہ سعد جواس قدر تنک مزاج اور مغرور آدمی تھا،اس وقت میری باتوں کو خاموشی سے کیو نکر سن رہا تھا۔ جب میں بول چکی تو اس نے کہا۔ تم کو کسی لڑکی سے اتنی ہمدردی کیوں ہے ؟ تم نہیں جانتیں کہ وہ اچھی لڑکی نہیں ہے ورنہ میں ضرور اس سے شادی کر لیتا۔ بہر حال تم اس معاملے کو دبا دو اور کسی سے بھی اس بات کا ذکر مت کرنا، سمجھیں۔ یہ کہہ کر وہ میرے کمرے سے نکل گیا۔ اس کے بعد دودن تک میرے سامنے نہ آیا۔ انہی دنوں ابا جان آگئے۔ وہ خالہ سے میرے لئے کوئی فیصلہ کن بات کرنے آۓ تھے۔انہوں نے کہا۔ آپا تم تو جانتی ہو کہ کی سوتیلی ماں اس کو اپنے گھر میں برداشت نہیں کر سکتی۔ زندگی کا ھ بھروسہ نہیں۔ میں دل کا مریض ہوں۔ تم اس بارے میں سوچو ، اس کی شادی کرنی ہے – خالہ ان کا مطلب سمجھ گئیں۔ بولیں میں دل سے چاہتی ہوں اپنی مرحوم بہن کی نشانی کو ہمیشہ گلے سے لگا کر رکھوں لیکن سعد کو راہ پر لانا مشکل نظر آتا ہے۔ دو چار بار اس مسئلے پر میں نے اس سے بات کرنے کی کو شش کی ہے ۔ وہ ہر دفعہ ٹال مٹول کر جاتا ہے۔ تم کچھ دن ٹھہر و۔ وہ راہ پر آ جائے گا، پھر اس بچی کو باہر دھکادینے کی ضرورت نہ رہے گی۔ سعد اس کے بعد کافی بدل گیا۔ ہر وقت گھر میں رہتالیکن میر اسامنانہ کرتا۔ جب میں کھانا لے کر کمرے میں جاتی ، وہ باہر نکل جاتا۔ جب میں باہر آتی تو اندر چلا جاتا۔ مجھ کو با بار خیال آتا۔ کاش ! سعد یہ پہلے ایسا ہی رہتا آخر ایسا کیا مسئلہ ہے کہ مجھ سے دور بھاگتا ہے۔ ابو بیمار ہو گئے تو مجھے بلوا بھیجا۔ خالو مجھے گھر چھوڑ کر آگئے۔ امی نے جاتے ہی میری بری حالت کر دی۔ باتوں باتوں میں کلیجہ چھلنی کرنے لگیں کہ کم بخت ، بد ھو کہیں کی ! سعد کو مائل نہ کر سکی۔ کیا مٹی کا مادھو ہے تو۔ تجھ کو تیری خالہ کے پاس اس لیے رکھا تھا کہ اس کا لڑ کا تجھ کو پسند کر لے گا۔ وہ دولت مند لوگ ہیں۔ ذرا تجھ میں کوئی بات ہوتی تو آج عیش کرتی۔ ہم تو تیری شادی نہیں کر سکتے۔ اتنے روپے کہاں میرے پاس؟ میں آنسو بہاتی کہ کہیں ابانہ سن لیں۔ وہ بیمار ہیں۔ ان کو اور بھی صدمہ ہو گا۔ انہیں کیا بتاتی کہ میں نے سعد سے شادی نہیں کرنی۔ اس کو جس چیز کی ضرورت تھی وہ اس کو مل گئی تھی۔ مجھ سے شادی کر کے اس کو کیا ملے گا۔ ابو کی بیماری جان لیوا ثابت ہوئی۔ میری بد قسمتی کہ وہ چل بسے ۔ یہ سہارا بھی میر اٹوٹ گیا۔ اتنا روئی کہ آسمان بھی رویا ہو گا۔ ابو کی وفات کے بعد تین ماہ تک سوتیلی ماں کے گھر رہی۔ سوتیلے بہن بھائیوں اور ماں کی خدمت کرتی رہی۔ ماں ان دنوں کافی غمزدہ رہتی تھیں۔ اک د ن خالہ اور خالو آئے ۔ ماں سے کہا۔ ہم کارشتہ لینے آئے ہیں۔ وہ خوش ہو گئی۔ وہ جیسی بھی تھی لیکن دل سے چاہتی تھی کہ میں اپنے گھر کی ہو جاؤں اور خالہ کی بہو بنوں۔ شاید انہوں نے سعد کو منا لیا تھا اور اب وہ میری شادی اس سے کر رہے تھے۔ جس دن شادی تھی، میں صبح سے بے ہوش ہو گئی تھی۔ آج سگی ماں کے ساتھ ساتھ ابو بھی یاد آرہے تھے۔ وہ ہوتے تو سر پر ہاتھ رکھ کر مجھے رخصت کرتے۔ شادی سادگی سے ہوئی، کوئی زیادہ اہتمام نہ ہوا۔ باراتی بھی کم تھے۔ یہ سعد کی مرضی تھی کہ شادی دھوم دھام سے نہ ہو لیکن بری بہت اچھی تھی۔ اتنی قیمتی اور خوبصورت کہ محلے کی عورتوں نے دیکھی تو ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ جب مجھے دلہن بنا کر آئینہ دکھا یاتو میں حیران رہ گئی۔ آج پتا چلا کہ میں تو سعد سے بھی زیادہ خو بصورت تھی۔ کمرہ خوب سجا ہوا تھا۔ یہ وہی کمرہ تھا جس میں میں نوکرانیوں کی طرح صفائی اور جھاڑو کیا کرتی تھی اور اس کمرے میں ڈرتے ڈرتے قدم رکھا کرتی تھی۔ اچانک مجھے خط والی بات یاد آگئی ، رونے لگی، تبھی دولہا نے کمرے میں قدم رکھا۔ میراگھونگھٹ اٹھانے سے پہلے ہیرے کی انگوٹھی انگلی میں پہنائی اور کہنے لگے ۔ تم میری جیون ساتھی ہی نہیں، میری راز دار بھی ہو، غمگسار بھی بن کے رہنا۔ انہوں نے میرے آنسو پو نچھے اور کہا کئی لڑکیاں دیکھیں مگر کسی میں وہ بات نہیں جو تم میں ہے۔ سبھی تم کو مٹی کا مادھو کہا کرتے تھے۔ آج کوئی میرے دل سے پوچھے کہ اس مٹی کے مادھو میں دل سونے کا ہے اور یہ کتنا جان دار اور کتنا قیمتی ہے۔ ان کے لبوں سے ایسے بول سن کر ششدر رہ گئی۔ یقین نہیں آرہا تھاوہ جو اوپر سے بیزار رہتے تھے اندر سے کس قدر مجھ سے محبت کرتے تھے۔ کب نفرت ترک کر کے انہوں نے مجھ سے محبت کی … یہ معمہ آج تک حل نہیں ہو سکا۔ میں نے اپنی زندگی میں جتنے غم دیکھے تھے الله نے سب بھلا دیے میں نے دل سے سعد کی قدر کی جس کو میں نے نہ چاہتے ہوے بھی چاہا تھا وہ میرا اتنا برا قدردان تھا یہ تو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا –