زونی کے ابا ! آج زونی کی ساس آئی تھی۔ کہہ رہی تھی کہ اب تو شادی ہو جانی چاہیے۔ تین سال ہو چکے ہیں منگنی کو – عطرت آرا نے شوہر کے گوش گزاردن کی روداد بیان کی تو وہ جو کھانا کھا رہے تھے۔ سر ہلا کر رہ گئے۔ اللہ خیر کرے گا خوش بخت ۔ ان شاء اللہ کوئی نہ کوئی انتظام ضرور ہو جائے گا۔ حسین صاحب کھانا ختم کرتے ہوئے بولے مگر عطرت آرا کے ماتھے پرپریشانیوں کی لکیریں جوں کی توں تھیں۔ کہاں سے انتظام ہوگا۔ نہ تو ہمارے پاس جمع جتھا ہے، نہ میرے پاس کوئی زیور ہے۔ گزشتہ سالوں میں چند برتنوں کے علاوہ میں کچھ جمع نہ کر پائی نہ ہی آپ کی دکان اس بوجھ کو اٹھانے کے قابل ہے۔ شادی کے اتنے خرچے ہوتے ہیں۔ کہاں سے ہوگا وہ بولیں تو ہولتی چلی گئیں جبکہ ان کو فکرمند دیکھ کر حسین صاحب مسکرا دہے۔ ارے خوش بخت کہا نہ میں نے کہ تم پریشان مت ہو۔ میں ابھی زندہ ہوں۔ کہیں سے بھی انتظام کرلوں گا۔ اب کی بارزونی کی ساس آئے تو مجھے بلوا لینا۔ واقعی اب شادی میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ حسین صاحب بولے۔ تو عطرت آرا مسکرا دیں۔ شریک حیات تھے ہی ایسے ہر دکھ درد بانٹ لینے والے – حسین صاحب بھی انہیں پریشان نہ ہونے دیتے۔
☆☆☆
یہ ایک سفید پوش گھرانے کا منظر تھا۔ جہاں روایات زندگی پوری کرنے کے لیے خاصی تگ و دو کرنی پڑتی تھی۔ حسین صاحب کی مین بازار میں پینکچر اور سائیکلوں کی دکان تھی۔ مہنگائی کے اس دور میں جتنا ملتا وہ اس پر قناعت کرتے تھے اور کچھ بیوی عطرت آرا بھی ہم مزاج تھیں ۔ ایک ہی بیٹی بھی زونیہ، دونوں اکلوتی لخت جگر سے بہت محبت کرتے تھے۔ ہر وہ خواہش جو ان کے بس میں ہوتی پوری ضرور کرتے۔ زونی بھی سادہ تمیزدار اور سلجھی ہوئی لڑکی تھی۔ بے جا ضد نہ کرتی۔ اسے ماں باپ کا بہت خیال تھا ۔ ایف ایس سی کرنے کے بعد وہ اب گھر میں فارغ تھی۔ عطرت آرااسے گھر داری میں طاق کر رہی تھیں تا کہ سرال میں کوئی طعنہ نہ سننا پڑے -زونی جب نویں جماعت میں بھی، تب اس کی منگنی حسین صاحب کے کزن کے رشتہ داروں میں کر دی تھی۔ احمد خاصا معقول لڑکا تھا اور متوسط طبقے میں رہنے والے یہ لوگ خود کو خاصا امیر سمجھتے تھے۔ اب وہ لوگ زونی کی شادی کرنے کا سوچ رہے تھے مگر وسائل ہر گز بھی اجازت نہ دیتے تھے کہ وہ دھوم دھام سے شادی کریں ۔ مگر احمد کے گھر والوں کا ایک ہی اصرار تھا کہ ہمارے گھر کی پہلی شادی ہے۔ لہذا دھوم دھام سے ہونی چاہیے۔ یوں حسین صاحب نے دو تین لوگوں سے قرض لے کر زونی کو خوب دھوم دھام اور اپنی حیثیت سے بڑھ کر رخصت کیا۔
☆☆☆
زونی نے اپنی عملی زندگی میں قدم رکھا تو سمجھی سسرال کیا چیز ہوتی ہے۔ ارے بھابھی کتنا ہلکا فرنیچر ہے۔ ابھی تین مہینے بھی نہیں ہوئے کہ اس کا ہینڈل ٹوٹ گیا ۔ یہ اس کی نند تھی۔ جو ہاتھ میں الماری کا ہینڈل لیے کھڑی تھی بھابھی قسم سے یہ آپ کے ابا نے بائیک بڑی پھٹیچر دی ہے۔ تین مہینوں میں ہی کھٹارا ہو گئی ہے ۔ یہ اس کا دیور عثمان تھا۔ جو برے برے منہ بناتا بائیک کی تعریف کر رہا تھا۔ بہو کھانے میں اتنی ہلکی نمک مرچ کیا تمہیں ماں نے کھانا بنانا نہیں سکھایا ۔ ساس الگ طعنے دیتی۔ رات کو زونی جب شوہر سے باتوں باتوں میں ذکر کرتی تو وہ کہتا۔ کیا غلط کہتے ہیں عثمان اور نادیہ تمہارے ابا نے سارا جہیز ہی بلکا دیا ہے۔ وہ احمد کا منہ دیکھتی رہ جاتی۔ تکیہ پر سر رکھتے ہی اس کی آنکھوں سے آنسو نکل کر تکیے میں جذب ہونے ۔ وہ جانتی تھی کہ اس کے غریب باپ نے کیسے قرض لے کر یہ شادی کی ہے۔ اور وہ لوگ احساس ہی نہ کرتے تھے۔
☆☆☆
اگلے دن اتوار تھا۔ احمد کی چھٹی تھی۔ احمد ایک پرائیویٹ فرم میں کام کرتا تھا۔ تنخواہ معقول تھی۔ وہ میکے آ گئے ۔ احمد تھوڑی دیر بیٹھ کر چلا گیا کہ شام میں لینے آئے گا۔ زونی عطرت آرا کو خاموش خاموش لگی ۔ اور بس ان کے پوچھنے کی دیر تھی کہ اس کے رکے ہوئے آنسو بہہ نکلے۔ وہ ماں کے سینے سے لگ کر خوب روئی۔ تین مہینوں کا غبار نکل چکا تو ماں کی طرف دیکھا۔ زونی کیا ہوا ہے؟ میرا دل ہول رہا ہے۔ احمد کا رویہ تو مجھے بالکل ٹھیک لگا۔ کیا ہوا ہے ؟ عطرت آرا نے پوچھا تو زونی نے ساری باتیں انہیں بتا دیں۔ اماں ! آپ نے اور ابا نے مل کر کتنی مشکلوں سے مجھے جہیز دیا۔ ابا پر میری شادی کی وجہ سے کتنا قرض ہو گیا۔ اور ان لوگوں کو پھر بھی احساس نہیں۔ ہر وقت طعنے دیتے رہتے ہیں۔ میں تھک چکی ہوں سن سن کر۔ زونی نے دکھ سے بولا تو عطرت آرا نے اس کے سر پر ہلکی ہی چپت لگائی ۔ زونی ! تو نے تو مجھے ہولا دیا کہ پتا نہیں کیا ہو گیا ہے۔ میری پیاری بیٹی ہر گھر میں مسئلے ہوتے ہیں۔ اور یہ تو چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں۔ میری بیٹی اس پر دل چھوٹا نہیں کرتے ۔ وہ اسے سمجھانے لگیں۔ نہیں اماں ! میں نے آپ پر اور ابا پر بوجھ ڈال دیا ہے۔ نجانے اہا اب کب تک یہ قرض اتارتے رہیں گے۔ زونی دکھ سے بولی۔ نہیں میری بیٹی ۔ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ بھلا بیٹیاں بھی بوجھ ہوتی ہیں؟ آئندہ ایسی بات مت کرنا۔ بیٹا تم اپنے نصیب کا لے کر گئیں۔ اور رہی بات قرض کی تو وہ ان شاء اللہ جلد اتر جائے گا۔ اور سسرال میں ان باتوں پر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ شکر کرتے ہیں رب کا کہ وہ لوگ صرف طعنے دیتے ہیں ۔ کھانے پینے، پہننے اوڑھنے میں کوئی تنگی نہیں۔ ہاتھ نہیں اٹھاتے تم پر۔ سسرال میں مشکلات ہر لڑکی کو برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ اس لیے تم فکر مت کرو ۔ تھوڑا وقت اور گزرے گا تو تم وہاں پر اپنی جگہ بنا لو گی ۔ ویسے بھی اب وہی تمہارا گھر ہے۔ بلکہ صبر سے برداشت کرو۔ ایک دن انہیں خود احساس ہوگا۔عطرت آرا نے پیار سے اسے سمجھایا اور نرمی سے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگیں۔ وہ جانتی تھیں کہ اپنے معاملات میں ہر بیٹی کو تھوڑی ذہن سازی کی ضرورت ہوتی ہے مگر مثبت ذہن سازی کی۔ وہیں زونی نے سوچا کہ اماں صحیح کہتی ہیں کچھ وقت لگے گا مگر میں سسرال میں ایڈجسٹ ہو جاؤں گی ۔ شکر کہ میرے سسرال والے اتنے ظالم نہیں جیسا اماں نے بتایا۔ پھر زونی نے طمانیت سے آنکھیں موند لیں کیونکہ وہ سمجھ چکی تھی کہ بیٹیاں بوجھ نہیں ہوتیں – بلکہ اپنے مقدر کا ہی سب حاصل کرتی ہیں۔ جو بات اتنے دنوں سے اسے پریشان کر رہی تھی کہ اس نے اپنے والدین پر بوجھ ڈال دیا ہے وہ رفع ہو چکی تھی اور اب زونی خاصی مطمئن تھی۔
☆☆☆