Monday, January 13, 2025

Bud-Naseeb Aurat

شروع زمانے میں ویزے کی شرائط اتنی سخت نہ ہوا کرتی تھیں۔ انڈیا اور پاکستان سے باآسانی برطانیہ کا ویزا حاصل ہو جاتا تھا۔ پاکستان کو وجود میں آئے ایک عشرہ ہوا ہو گا، جب میری نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ میرے جیٹھ کو برطانیہ کی شہرت مل گئی تھی اور وہ یہاں بزنس کرتے تھے۔ انہی کی کوششوں سے میرے خاوند اور ان کے چچازاد امین کو جو میرے شوہر کے دوست اور ہم عمر بھی تھے، برطانیہ کا ویزامل گیا اور وہ اپنے بڑے بھائی فہیم کے ساتھ بطور بزنس پارٹنر قیام پذیر ہونے کولندن آپہنچے۔ میرے جیٹھ کا بزنس اچھا جا رہا تھا اور وہ دولت کمانے میں لگے ہوئے تھے۔ امان کو جب رقم کی ضرورت ہوتی وہ دے دیتے کہ چھوٹا بھائی ہے یہاں گھوم پھر لے اور خوش رہے۔ میرے جیٹھ بہت سیدھے سادھے اور محنت کش آدمی تھے مگر میرے جیون ساتھی اور دیور امان کچھ رنگین مزاج تھے۔ سونے پر سہاگہ امین، جو غیر شادی شدہ تھے وہ کچھ اور زیادہ ہی شوقین مزاج تھے۔ ایک روز ان کی ملاقات اپنے ایک کلاس فیلو منصور سے ہوگئی، وہ بھی غیر شادی شدہ تھا۔ یوں تینوں کی بیٹھکیں ہونے لگیں، ایک روز منصور نے امین کو بتایا۔ یار لندن میں ایک جگہ انڈیا کی ایک مشہور مغنیہ رہتی ہے جس کے گھر دل بستگی کا بڑا اعلیٰ اہتمام ہوتا ہے۔اگر تم کو بوریت محسوس ہو تو بتانا۔ انگلینڈ میں مشرقی گائیکی سننے کو ملے اور کلاسیکی رقص کی جھنکاریں ہوں تو کیوں لطف نہ آئے گا، یہ سوچ کر میرا دیور امان اور کزن امین دونوں اپنے دوست کے ہمراہ اس جگہ پہنچے جہاں سرور جان کی محفل جمی ہوئی تھی۔ دراصل ان نوجوانوں کو اپنے وطن میں فلمیں دیکھنے کا بہت شوق رہا تھا، خاص طور پر ایسی فلمیں جن میں رقص ہوا کرتے تھے ۔ جب یہ سرور جان کے خوبصورت گھر میں گئے ، وہاں محفل جمی ہوئی تھی۔ اس کمرے کو بطور خاص حسن ذوق سے سنوارا گیا تھا۔ چاندنی بچھی تھی اور خوشحال، رئیس لوگ بیٹھے تھے۔ یہ بھی ان کی صف میں بیٹھ گئے۔ ذرا دیر میں محفل عروج پر آگئی۔ اس مغنیہ کی آواز تھی کہ جلتا ہوا شعلہ ۔ پاؤنڈز کی اس کے قدموں میں بارش سی ہو رہی تھی۔ یہ بھی سنتے اور سر دھنتے رہے اور بے خودی میں نوٹ اس کے آگے رکھتے رہے۔ یہاں چیدہ چیدہ باذوق ہی آتے تھے۔ تقریباً تین گھنٹے بعد محفل برخاست ہو گئی۔ ایک ایک دودو کر کے سب گانا سننے کے شوقین چل گئے مگر امین اور امان اپنی جگہ بیٹھے رہے جیسے کسی نے سحر کر کے ان کو منجمد کر دیا ہو۔ ایسی جگہ وزٹ کا یہ ان کا پہلا موقع تھا۔ ان کو وہاں کے آداب محفل کا بھی پتا نہیں تھا۔ چاہتے تھے کہ مغنیہ سے زبانی اس کے فن کی تعریف کریں۔ آخر وہی ان کے پاس آئی۔ امان کو کچھ نہ سوجھا تو بولا۔ آپ بہت خوبصورت ہیں۔ اس بے ڈھنگے انداز پر وہ مسکرادی اور کہنے لگی۔ لگتا ہے آپ یہاں پہلی مرتبہ آئے ہیں۔ انہوں نے یک زبانی ہو کر جواب دیا۔ جی ہاں۔ اب تو وقت بہت زیادہ ہو گیا ہے۔ سرور جان نے کہا۔ آپ لوگ کل صبح نو بجے آجانا۔ میرے پاس وقت ہو گا، آپ سے بات چیت ہو جائے گی۔ اگلے دن صبح نو بجے یہ اس کے گھر پہنچ گئے۔ صبح کے وقت اس کو بغیر میک آپ کے دیکھتے ہی پتا چل گیا کہ وہ نہ اس قدر خوبصورت ہے اور نہ ہی کم عمر ، جیسی رات کو نظر آرہی تھی۔ ان کا دل بجھ گیا۔ آپ بہت خوبصورت ہیں۔ انہوں نے کل رات اس سے کہا تھا اور آج اس کا جواب مل گیا تھا۔ وہ کہ رہی تھی دیکھ لیا آپ نے کہ میں عام شکل وصورت کی ہوں۔ آپ کو خبر ہے کہ میری عمر کیا ہے ؟ یہی کوئی پینتیس کے قریب ہو گی۔ پھر پوچھنے لگی۔ اچھا یہ بتاؤ رات تم لوگوں نے گانا سنتے ہوئے کتنے پیسے دیئے تھے ؟ تقریباً ایک ہزار، پاکستانی روپے کے لگ بھگ۔ وہ کہنے لگی۔ یہ لو اپنی رقم ، میں تمہارے روپے نہیں لوں گی۔ تم لوگ یوں بھی پردیسی ہو ، دور سے آئے ہو میری شہرت سن کر ۔ اپنے ملک میں کیا یاد لے کر جاؤ گے ، ان دونوں نے بہت انکار کیا مگر اس اللہ کی بندی نے وہ رقم ان کو تھاما ہی دی۔ اس نے پاکستان کے بارے میں بہت سی باتیں پوچھیں۔ اب یہ حیران تھے کہ یہ کیسی مغنیہ ہے جو گھر آئی مایا کو لوٹا رہی ہے ؟ ایسا واقعہ تو ہم نے کبھی نہ سنا تھا۔ ان کے چہروں پر حیرت دیکھ کر وہ بولی۔ بیٹا ! تم لوگ کیوں غلط راستے پر قدم اٹھا رہے ہو۔ اگر تم میرے حالات جان لو تو کبھی اس غلط راہ کا رخ نہ کرو۔ اس عورت کے منہ سے بیٹا، کا لفظ سن کر ان کو بہت برا لگا۔ ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے ان کے جسم سے بجلی کا نگا تار لگا دیا ہو۔ ان کے احساسات ان کے چہروں سے مترشح تھے۔ وہ ان کے دکھ کو محسوس کر چکی تھی۔ کہنے لگی۔ برا مان گئے، اٹھ کر جانے لگے ہو ، اس لئے کہ میں ایک غلط جگہ سے ہوں۔ جس سے معاشرے کے شرفا نفرت کرتے ہیں لیکن سینکڑوں لوگ میرا ناچ گانا دیکھتے اور سنتے ہیں، اپنا قیمتی وقت اور روپیہ برباد بھی کرتے ہیں لیکن کل رات مجھے پہلی بار یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ تم جیسے کم سن لڑکے بھی آجاتے ہیں، وہ بھی میرے ہم وطن، ابھی تمہاری عمر ہی کیا ہے؟ نجانے کیوں تم اس راہ پر چلے آئے ہو۔ یہ تو تباہی کی جگہ ہے، جہاں فن کے پس پردہ اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔ اس کی نصیحت ان کو بری لگی۔ امان بول ہی پڑا۔ میڈم ! ہم وعظ سننے نہیں آئے تھے ، چلو اٹھو امین۔ یہ اٹھ کر جانے لگے تو وہ بولی۔ رک جاؤ۔ تم لوگ یوں ناراض ہو کر یہاں سے نہیں جا سکتے ۔ میں نے تو خود تم کو بلایا تھا، تم میرے مہمان ہو۔ چائے پیے بغیر یہاں سے نہیں جا سکتے۔ میں کبھی ایسے کسی کو نہیں روکتی لیکن تم پاکستان سے آئے ہو ،اس لئے تم لوگوں سے مجھے خاص عقیدت ہے۔ میرے سارے عزیز واقارب، والدین، بھائی تحریک پاکستان ہیں کام آچکے ہیں۔ کاش تم لوگ میرا حال سن لیتے۔ اچھا بتاؤ ! تم دونوں نے بارہویں کا امتحان کب دیا۔ ابھی پچھلے سال۔ امین اور امان نے یک زبان ہو کر کہا۔ آگے نہیں پڑھنا کیا؟ اس نے پوچھا۔ دیکھیں گے ، ابھی تو بھائی کے بلانے پر آئے ہیں۔ اس کے اپنائیت سے بات کرنے پر یہ لوگ بیٹھ گئے۔ وہ پاس بیٹھ کر ایسے باتیں کرنے لگی جیسے بہت دنوں بعد کوئی دکھ سننے والا ملا ہو۔ کہنے لگی۔ اگر میری شادی مناسب عمرمیں ہو جاتی تو آج میرے بچے تمہاری عمر کے ہوتے مگر میں بد نصیب تو شادی کی عمر سے قبل ہی ماں باپ اور سبھی اپنوں سے بچھڑ گئی تھی۔ ان دنوں میں صرف تیرہ سال کی تھی جب برصغیر میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی جانے لگی۔ پاکستان کی طرف ہجرت کرتے ہوئے راستے میں ہمارا قافلہ لٹا۔ میں بد قسمتی سے زندہ بچ گئی۔ زخمی اور مردہ لوگوں کے ڈھیر میں دبی ہوئی تھی، ایک سکھ عورت مجھے اٹھا لے گئی۔ اس کے بعد وہاں سے یہاں تک آنے کی داستان بہت درد ناک اور لمبی ہے مگر دیکھو ! جس سرزمین کو پانے کی خاطر ہمارا کنبہ کٹ گیا، اسی سر زمین کے فرزند ہو کر تم کم سن لڑکے اپنا گراں قدر سرمایہ اس جگہ لٹاتے پھرتے ہو۔ یہ میرے لئے بہت صدمے کی بات ہے۔ وہ یہ کہہ کر رو پڑی۔ اس کو اپنے بھائی اور اپنا کنبہ یاد آگیا تھا۔ وہ دونوں گم صم کچھ دیر اس سوگوار کے پاس بیٹھے رہے، پھر اٹھ کر گھر آگئے۔ اس روز میرا دیور بہت افسردہ تھا۔ میں نے جب اس سے افسردگی کی وجہ دریافت کی تو اس نے مجھے یہ قصہ سنایا اور کہا۔ بھابھی ! میں اس عورت اور اس کے دکھ بھرے انداز کو کبھی نہیں بھول سکتا۔ اس کے پاس بہت سے لوگ غزلیں وغیرہ سننے جاتے ہوں گے۔ سوچتا ہوں کہ اس نے ہمیں ہی کیوں اپنا حال دل سنانے کو منتخب کیا اور ہماری ہی شکلوں میں کیوں اسے اپنوں کی شباہت نظر آئی؟ گاناسننا تو کوئی جرم نہیں ہے اور ہم پہلی بار گئے تھے۔ لیکن اس سے آگے بھی کچھ ایسے راز پوشیدہ تھے کہ اس نے گوارانہ کیا کہ ہم اس راہ کو چل پڑیں تبھی اس نے ہمارے قدموں کو روک دیا۔ اور یہ سچ تھا کہ سرور جان نے ان لڑکوں کو کچھ اس طرح روکا کہ پھر کبھی یہ کسی غلط جگہ نہیں گئے۔ جب بھی ایسا کوئی خیال ان کے دل میں آیا اس عورت کے آنسوؤں نے ان کے ارادوں کا رستہ روک لیا اور انہوں نے اس کے بعد تعلیم مکمل کی اور شاندار مستقبل بنانے کو اپنی ساری توجہ صرف کر دی۔ آفرین ہے اس عورت پر ، جس کو لوگ گانے والی یا مغنیہ کہہ کر معمولی عورت سمجھتے تھے مگر وہ معمولی عورت نہ تھی۔

Latest Posts

Related POSTS