امتحان سر پر تھے۔ ہماری کوئی خاص تیاری نہیں تھی۔ تائی اور امی نے میرے بھائی احسن سے کہا کہ تم ان دونوں کو میٹرک کی تیاری کرا دو۔ یوں فرحانہ روز شام کو ہمارے گھر آنے لگی۔ بھائی احسن نے ایک ٹائم ٹیبل بنایا اور سبق یاد کرنے کی کچھ آسان اور مفید باتیں بتا دیں۔ انگریزی کے ساتھ ساتھ وہ ہم کو حساب کے سوالات بھی سمجھاتے تھے۔ ہم دونوں تقریبا روزانہ شام کو تین گھنٹے بھائی جان سے پڑھتے تھے ۔ اسی دوران بھائی جان کے دل میں فرحانہ کی معصومیت نے گھر کر لیا۔ انہی دنوں امی جان، ان کے لئے لڑکی تلاش کر رہی تھیں لہذا بھائی نے ضروری سمجھا کہ میرے ذریعے سے امی کو اپنے دلی جذبات سے آگاہ کر دیں۔ میں نے امی کو بتایا کہ احسن بھائی ، فرحانہ سے شادی کرنا چاہتے ہیں لہذا آپ ان کے لئے کہیں اور لڑکی دیکھنے نہ جایئے ۔ دراصل ابو اور تایا کی بھی یہی خواہش تھی کہ فرحانہ کا رشتہ احسن سے ہی ہو لیکن امی اور تائی اس بندھن سے گزیراں تھیں۔ جب بیٹے کی رضا اور مرضی سے میں نے ان کو آگاہ کیا تو وہ تھم گئیں۔ ظاہر ہے فرحانہ میں کوئی کمی نہ تھی تاہم یہ قدرتی بات ہے جب جیٹھانیاں، دیورانیاں عرصے تک ایک ساتھ رہتی رہی ہوں تو کچھ نہ کچھ مسئلے مسائل آپس میں رہتے ہیں۔ بتاتی چلوں کہ شادی کے بعد بہت سال امی ابو ، تایا، تائی ایک ساتھ ایک گھر میں رہائش پذیر رہے تھے ۔ جب دادی کا انتقال ہو گیا اور ہم بچے بھی باشعور ہو گئے تو دونوں بھائی علیحدہ گھروں میں سکونت پذیر ہو گئے۔ ہم دونوں نے امتیازی نمبروں سے میٹرک کا امتحان پاس کیا تو تائی اور فرحانہ میرے بھائی کا شکر یہ ادا کر نے ہمارے گھر آئیں۔ شام کا وقت تھا، میں فرحانہ کو لے کر چھت پر چلی گئی۔ باتوں باتوں میں اس سے پوچھا کہ اگر ہم تمہارا رشتہ احسن بھائی کے لئے مانگ لیں تو کیسا رہے گا ؟ وہ مسکرائی اور شرما کر منہ چھپا لیا۔ میں تمہاری مرضی معلوم کرنا چاہتی ہوں۔ اس طرح شرما کر منہ نہ چھپائو، مجھے ہاں یا نہ میں جواب دو تا کہ میں امی کو تمہارے گھر جانے کا کہوں۔ وہ بولی۔ یہ تو تم نے میرے دل کی بات مجھ سے پوچھی ہے۔ مجھ کو احسن اچھے لگتے ہیں۔ اس کا جواب سن کر میں خوش ہو گئی جیسے میرے سر سے بوجھ اتر گیا ہو۔ اگلے دن وہ آئی تو میں نے ان دونوں کو بات کرنے کا موقع دیا اور چائے بنانے کا بہانہ کر کے ان کے درمیان سے اٹھ گئی۔ جب چائے بنا کر لائی تو دیکھا کہ وہ اکیلی بیٹھی تھی۔ میں محسوس کر رہی تھی کہ احسن بھائی اپنی اس تایازاد میں دلچسپی لیتے ہیں مگر وہ لڑکی تھی اور بھائی بھی شرمیلے تھے۔ چاہنے کے باوجود اس سے بات نہیں کرتے تھے۔ بہر حال اس رشتہ میں دونوں کی رضا تو شامل تھی ہی، لہذا میں نے امی کو راضی کر لیا اور تائی کے گھر بھیجا کہ وہ رشتے کی بات کریں۔ کچھ پس و پیش کے بعد تائی نے ہامی بھر لی اور بات چیت طے ہو گئی پھر منگنی کا مرحلہ آیا۔ منگنی بھی دھوم دھام سے ہو گئی۔ منگنی کے فورا بعد ہی تایا جی نے شادی کا مطالبہ کر دیا۔ احسن بھائی نئے نئے برسر روزگار ہوئے تھے۔ امی چاہتی تھیں جس طرح منگنی دھوم دھام سے کی ہے ، شادی بھی دھوم دھام سے ہو لہذا انہوں نے دو سال کی مہلت مانگی تاکہ اچھی بری اور زیور بنا سکیں مگر تایا جی دل کے مریض تھے ، چاہتے تھے جلد اس فرض سے سبکدوش ہو جائیں لہذا انہوں نے دوٹوک کہہ دیا کہ یا تو لڑکی کو بیاہ کرلے جائو ورنہ میں بات ختم کر دیتا ہوں اور زیادہ دن انتظار نہیں کر سکتا۔ تایا جی کی اس بات سے ہم سبھی پریشان ہو گئے۔ فرحانہ اور احسن بھائی کی پریشانی دیکھی نہیں جاتی تھی۔ ابو نے کہا۔ ٹھیک ہے ، ہم شربت کے گلاس پر نکاح پڑھوا کر لڑکی کو رخصت کر دیں گے۔ اس پر تائی بگڑ گئیں۔ کہنے لگیں کہ میری ایک ہی بیٹی ہے ، شادی میں تو خوب دل کے ارمان نکالوں گی۔ آپ کو خوب اچھی بری لانی ہو گی اور زیور بھی بیس تولے سے کم نہ ہو اور شادی بھی دھوم دھام سے ہو گی۔ اب اگر آپ کو منظور نہیں تو نہ سہی اور ابو کہتے تھے کہ میں ایک معمولی تنخواہ دارملازم ہوں۔ تمام عمر بچوں کو روکھی سوکھی کھلائی ہے، میری آمدنی حرام کی ہوتی تو اتنا جمع کیا ہوتا کہ میرے تمام دلدر دور نہ ہو گئے ہوتے۔ احسن بھائی کو ملازمت ملے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے تھے۔ ان کے پاس اتنی رقم نہ تھی کہ دو تولے سونا خرید سکتے ، کجا بیس تولے خرید کر زیور بنوانا تو اس دور میں جوئے شیر لانے کے برابر تھا۔ تائی کے مطالبوں سے ہم لوگ بہت مشکل میں پھنسے ہوئے تھے کہ انہی دنوں ابو کی بڑی بہن لاہور سے آگئیں۔ انہوں نے ہمارا مسئلہ سنا تو تایا کے گھر جا کران پر برس پڑیں۔ کہا کہ تم لوگوں کو لحاظ نہیں ہے ، ایک باپ دادا کی اولاد ہو کر کیسی غیروں جیسی شرطیں لگا رہے ہو۔ نہ تو فرحانہ ان کے لئے دوسری ہے اور نہ احسن تمہارے لئے غیر ہے۔ غرض انہوں نے بھائی اور بھابھی کو خوب آڑے ہاتھوں لیا اور ان سے منوا کر دم لیا کہ وہ فرحانہ اور احسن کی شادی سادگی سے کر دیں۔ وہ خاندان میں سب سے بزرگ اور قابل احترام تھیں۔ دادی کے بعد بھائیوں نے ان کو ماں کی جگہ احترام کا درجہ دیا تھا۔ طے پایا کہ احسن اور فرحانہ کا نکاح سادگی سے کر دیا جائے اور سال بعد رخصتی اچھے طریقے سے کی جائے تا کہ کچھ پیسہ بری اور زیور کے لئے پس انداز ہو سکے۔ ابو امی نے اس فیصلے کو قبول کر لیا اور زیادہ خرچہ کئے بغیر بچوں کا نکاح سادگی سے ہو گیا۔ یہ ایک بڑی ٹینشن تھی جو دور ہو گئی۔
وقت گزرنے لگا۔ بے شک وقت گزرتے دیر نہیں لگتی لیکن یہ وقت احسن اور فرحانہ کے لئے تو صدیوں جیسا تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ہمارے یہاں صدیوں سے رواج ہے کہ نکاح کے بعد جب تک رخصتی نہ ہو جائے، لڑکی اور لڑکا ایک دوسرے سے پردہ کرتے ہیں۔ یہاں بھی یہ معاملہ ہوا۔ فرحانہ کی احسن بھائی سے ملاقاتیں اور باتیں پابند ہو گئیں۔ پس اس رواج نے ان دونوں کا بیڑا غرق کر دیا۔ انہی دنوں کینیڈا سے میری چھوٹی پھپھو آ گئیں۔ وہ اپنے بیٹے کے ساتھ آئی تھیں۔ فہد نے جب پہلی بار فرحانہ کو دیکھا، وہ اس پر فریفتہ ہو گیا۔ ویسے بھی یہ لوگ فہد کے لئے لڑکی دیکھنے آئے تھے۔ لڑکی تو گھر میں مل گئی لیکن ان کو جب علم ہوا کہ فرحانہ کا نکاح احسن کے ساتھ ہو چکا ہے تو ان کے ارمانوں پر اوس پڑ گئی۔ کہتے ہیں کہ زندگی میں ہر انسان کو محبت ضرور ہوتی ہے اور محبت کی خوشبودار بیل ہر انسان کو پلک جھپکتے ہی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ ایسے میں کوئی شخص اپنی شاطرانہ چالوں سے دو انسانوں کے درمیان جدائی کا سبب بن جاتا ہے۔ خبر نہیں فہد کیسا جنونی تھا جس نے فرحانہ کو حاصل کرنے کے لئے احسن اور فرحانہ دونوں کی خوشیوں کو برباد کر دیا۔ فہد اور اس کی ماں چار ماہ کے لئے پاکستان آئے تھے لیکن ان چار ماہ میں انہوں نے ہم غریبوں کی بساط ہی الٹ کر رکھ دی۔ فہد ایک با اعتماد، چرب زبان اور خوبصورت نوجوان تھا۔ ہسنا ہنسانا اس کو آتا تھا۔ وہ انتہائی دلچسپ اور پر کشش شخصیت کا مالک تھا۔ سارے گھر والوں کو لبھاتا، کھیل میں الجھا لیتا اور گھر میں رونق میلے کا سماں باندھ دیتا۔ آنا فانا وہ گھر کے ہر فرد میں مقبول ہو گیا۔ جب وہ ہمارے گھر آتا، ہم کھل اٹھتے سبھی اس کے ساتھ باتیں کر کے خوش ہوتے۔ جو رشتہ اس کا مجھ سے تھا، وہی فرحانہ سے تھا۔ اس کی ماں ہم دونوں کی پھوپی لگتی تھی لہذا کبھی وہ تایا کے گھر ہوتا اور کبھی ہمارے گھر ۔ اس دنیا میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو منہ پر دوست مگر پیٹھ پیچھے چھرا گھونپ دیتے ہیں۔ فہد بھی ان ہی میں سے ایک تھا۔ اس نے فرحانہ کو حاصل کرنے کے لئے رفتہ رفتہ جال پھیلا نا شروع کیا۔ اس نے تایا جی کو ایسی باتیں کہیں جو ہم نے ان کے بارے کبھی کہی ہی نہ تھیں۔ ساتھ ہی ان کے پیر پکڑ کر منت کی کہ پلیز تایا جی ! آپ چچا والوں کو میری کہی باتیں نہیں بتائے گا ورنہ وہ ہم سے ناراض ہو جائیں گے اور میرا یہاں رہنا دو بھر ہو جائے گا۔ البتہ جب واپس کینیڈا چلا جائوں، بے شک آپ تصدیق کر لینا کہ انہوں نے آپ کے بارے میں باتیں کی ہیں۔ ابو کو بھی اس نے اسی طرح کی باتیں کر کے پریشان کیا پھر اسی طرح پائوں پکڑ کر منت کی کہ ابھی یہ باتیں تایا سے نہ کہنا ورنہ ہمارے یہاں آنے کی خوشی خاک میں مل جائے گی۔ میں چلا جائوں تو بعد میں بے شک بتا دیجئے گا۔ ہم لوگ فہد کے منہ سے تایا اور تائی کی کہی ایسی باتیں سنتے کہ دم سادھ لیتے۔ یوں اس نے ہم سے منسوب کر کے بہت سی باتیں فرحانہ کے گھر کہیں اور ان لوگوں کے دل ہم سے برے کر دیئے۔ یہ سب بہتان طرازی تھی اور ان باتوں کا ہم لوگوں سے کوئی تعلق نہ تھا۔ مثلا امی ابو کے بارے میں کہا کہ دونوں کہتے ہیں کہ ہم نے جلد بازی کی احسن اور فرحانہ کا نکاح کر دیا۔ اب ہم یہ رشتہ کر کے پچھتا رہے ہیں کیونکہ احسن نے ایک امیر گھرانے کی خوبصورت لڑکی پسند کرلی ہے جو جہیز میں کار ، بنگلہ اور بہت کچھ لائے گی۔ وہ احسن بھائی کے ساتھ آفس میں کام کرتی ہے اور اس کا باپ بڑی پوسٹ پر ہے۔ لڑکی کا نام شیریں ہے۔ آپ کو یقین نہ آئے تو بے شک احسن بھائی کے دفتر جا کر تصدیق کر لیں۔ یہ تو سچ تھا کہ شیریں، احسن بھائی کے دفتر میں اچھی پوسٹ پر تھی۔ خوبصورت تھی لیکن احسن کا اس لڑکی کے ساتھ کوئی تعلق نہ تھا اور نہ ہی کوئی اس قسم کا چکر تھا ، احسن بھائی کے دفتر جاتا تھا۔ اس نے وہاں اس لڑکی کو دیکھا تو ذہن میں ایسی کہانی بنائی کہ جس نے فرحانہ اور اس کے والدین کے دل خراب کر دیئے۔ یہی نہیں اس نے دفتر میں شیریں سے بات چیت کی، جان پہچان بنالی اور جانے کیا بات کہی کہ وہ فرحانہ کو فون کرتی اور احسن کے بارے میں وہی کہتی جو فہد اس کو کہنے کی درخواست کرتا۔ میں سمجھ نہ سکی۔ اس نے شیریں کے ساتھ کس قسم کی دوستی گانٹھ رکھی تھی کہ اس لڑکی کو بھی شیشے میں اتار لیا تھا۔ فرحانہ کا تو احسن سے بات کرنا تک ممنوع تھا۔ وہ بھلا کس طرح اس معاملے کی چھان پھٹک کرتی یا احسن بھائی سے باز پرس کر کے غلط فہمی دور کرتی۔ ہوتے ہوتے اندر ہی اندر دونوں گھرانوں میں بدگمانیاں اور غلط فہمیاں بہت بڑھ گئیں۔ دلوں میں نفرت اور دوریاں جڑ پکڑتی گئیں۔ دونوں گھرانوں کے افراد اوپر سے تو اخلاق سے ملتے لیکن دلوں میں رنجش تھی۔ ایک دوسرے سے منہ پر کچھ نہیں کہتے تھے کہ تم لوگوں نے ہمارے بارے میں اپنے گھر بیٹھے ایسی الٹی سیدھی باتیں کیوں کی ہیں ؟ فہد صاحب تو ویسے ہی دونوں گھروں میں ہر دلعزیز اور چہیتے بھانجے بنے ہوئے تھے۔ کسی کو ذرہ بھر بھی یہ گمان نہ گزرا کہ یہ بھانجا ہی فتنہ پھیلا رہا ہے اور اس کا اصل مقصد کیا ہے۔ اپنے مقصد کے بارے تو اس چالاک نے کسی کو ہوا تک نہ لگنے دی تھی۔
پھر یہاں تک نوبت پہنچی کہ ہمارا فرحانہ کے گھر جانا بند ہو گیا۔ یہاں تک کہ جب ہم اپنے رشتے کی پھوپھی کے گھر دعوت میں گئے جہاں فرحانہ بھی آئی ہوئی تھی، اس نے مجھ سے بات تک نہ کی بلکہ مجھے دیکھتے ہی منہ پھیر لیا۔ بھائی سے تو وہ ویسے ہی پردہ کرتی تھی۔ فہد کا اصل مقصد تو فرحانہ کو اپنے جال میں پھنسانا تھا۔ وہ اگر ہمارے گھر آتی رہتی یا ہم ان کے گھر جاتے رہتے تو فہد کی باتوں کا پول کھل جانا عین ممکن تھا۔ تبھی اس نے یہ اسکیم سوچی تھی۔ یوں ایسی سرد جنگ چل پڑی کہ دل کوسوں میل دور ہو گئے مگر فہد کا پول کسی نے بھی نہ کھولا۔ کچھ غلطی ہماری بھی تھی کہ اس کی مکاری کو نہ سمجھ سکے۔ یہی سمجھتے رہے کہ اگر وہ ہم کو تایا اور تائی کی کہی باتیں آکر بتاتا ہے تو خیر خواہی کر رہا ہے اور سچ ہی بتا رہا ہے۔ آخر کار وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا اور اس نے احسن بھائی کے خلاف فرحانہ کے دل میں غلط فہمیاں ڈال کر خود اپنی محبت کا جھنڈا گاڑھ دیا۔ کچھ دنوں میں ہی فرحانہ کے والد نے میرے ابو سے فرحانہ کی طلاق کا مطالبہ کر دیا۔ امی، ابو بھی خار کھائے بیٹھے تھے، انہوں نے بھائی جان کو حکم دیا کہ طلاق نامے پر دستخط کر دو، ہم جا کر ان لالچی لوگوں کے منہ پر مار آتے ہیں جنہوں نے بیس تولے سونے اور شاندار بری کی خاطر ہم کو اس قدر ذلیل کیا ہے۔ میرا فرمانبردار بھائی بچارا گھٹ کر رہ گیا۔ پہلی بار اس نے ہمت سے کام لے کر کہا کہ اس حکم سے پہلے مجھے ایک بار فرحانہ سے بات کرنے دیجئے مگر والدین کے نادر شاہی حکم کے آگے اس کی ایک نہ چلی اور اس نے دل ریزہ ریزہ سے طلاق نامے پر دستخط کر کے ابو جان کے حوالے کیا۔ یوں میرے بے قصور بھولے بھالے بھائی کے حق پر اس شاطر نے کمال چالاکی سے ڈاکا مارا اور پاکستان میں رہنے کی مدت بڑھوا کر تایا جان کو گھیر کر فرحانہ سے شادی کرلی۔ تایا کے سامنے بہن کا بیٹا جو فارن نیشنل تھا، موجود تھا۔ ان کو لگا کہ احسن سے زیادہ اچھا فہد کارشتہ ہے، یہ لوگ دولت سے بھی مالا مال ہیں تبھی تو انہوں نے ہماری طرف سے دل صاف کرنے کی بجائے ہنس کر فہد کا رشتہ قبول کر لیا اور غلط فہمیاں دور کرنے کے بارے میں کوئی تردد نہ کیا۔ فہد اور فرحانہ کی شادی کے تھوڑے دنوں بعد ہی فہد کا ویزا ختم ہو گیا۔ اب ان لوگوں کا واپس جانا لازم تھا۔ طے یہ ہوا کہ فرحانہ کا پاسپورٹ بنوا کر فوٹو کاپی لے جاتے ہیں، کچھ عرصے کے بعد بلوالیں گے ، لیکن وہاں گئے کئی ماہ گزر گئے، ویزا نہ آیا جیسے وہ فرحانہ کو اپنے پاس بلوانے والی بات کو بھول ہی گئے ہوں۔ ادھر فرحانہ شوہر کے پاس جانے کے انتظار میں دن گن رہی تھی۔ ایک دن ہم کو کسی تقریب میں ایک عورت اور لڑکی ملیں۔ انہوں نے بتایا کہ کینیڈا میں ہم آپ لوگوں کے رشتے داروں کے قریب میں رہتے ہیں اور فہد نے وہاں شادی کر رکھی ہے، اس کے تو بچے بھی ہیں۔ والد صاحب یہ سن کر سکتے میں آگئے۔ وہ اسی وقت تایا جی کے گھر گئے۔ فرحانہ اور فہد کی شادی کے کافی عرصے بعد وہ پہلی بار اپنے بڑے بھائی کے گھر جا کر ان سے ملے تھے۔ انہوں نے یہ خبر سنائی۔ فرحانہ اس اطلاع کو سنتے ہی بے ہوش ہو گئی تھی۔ اس دوران تمام پچھلی باتیں کی گئیں اور فہد کی لگائی باتوں کی تصدیق بھی کی گئی تو تمام باتیں غلط ثابت ہوئیں۔ ابو امی ، تایا، تائی سب نے قسمیں کھائیں کہ ہم نے تو یہ باتیں کبھی کہی ہی نہیں۔ اب دونوں بھائی افسوس میں تھے کہ ہم نے دلوں میں کدورت پالنے کی بجائے ایک دوسرے کو فہد سے سنی ہوئی باتیں بتا کر تصدیق کیوں نہ کر لی جو اتنا بڑا صدمہ جھیلنا پڑا۔ تایا سخت غصے اور صدمے میں تھے ، انہوں نے کینیڈا فون کر کے اپنی چھوٹی بہن سے بات کی اور ان سے فہد کی شادی کے بارے پوچھا تو انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ یہ بھی بتایا کہ ملازمت کے سبب وہ دوسرے صوبے میں رہتا ہے اور کبھی کبھار چھٹیوں میں آتا ہے، میں اس سے فون کر کے پوچھوں گی۔ وہ کیا پوچھتیں، متعدد بار پوچھا مگر وہاں سے کوئی تسلی بخش جواب نہ ملا۔ اب دوسرے ملک کا معاملہ تھا، سولٹک گیا۔ چار سال اسی طرح ان کے انتظار میں گزر گئے۔ آخر بڑی پھپھو کاغذات لے کر کینیڈا گئیں اور چھوٹی پھپھو پر زور ڈالا کہ بسانا ہے تو بسائو ور نہ طلاق دو۔ ایک تو بھائی کے ساتھ دھوکا کیا اوپر سے چپ سادھ لی ہے۔ کیا لڑکی کی زندگی یونہی برباد ہوتی رہے گی ؟ خبر تو صحیح تھی۔ فہد نے وہاں شادی کی ہوئی تھی اور دو بچے بھی تھے۔ بڑی پھپھو طلاق کے کاغذات پر دستخط کروا کے لے آئیں۔ احسن بھائی کا ایسادل ٹوٹا تھا کہ شادی کا نام نہ لیتے تھے۔ بہر حال قسمت میں ان کی فرحانہ ہی لکھی گئی تھی، سو انہوں نے والدین کے سمجھانے سے اس کے ساتھ دوبارہ نکاح کیا۔ نکاح تو ہو گیا مگر وہ پہلی سی بات نہ رہی تھی پھر بھی خاندانی شرافت کا ہاتھ انہوں نے پکڑے رکھا اور بیوی کے ساتھ پُر سکون زندگی گزارنے کا عہد کیا۔ آج فرحانہ میری بھابی ہے اور ان کے تین بچے ہیں۔ وہ بھائی کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزار رہی ہے تاہم جو داغ فہد نے لگایا تھا، وہ تو باقی ہے۔ یہ گھاو بہت گہرا ہے جو کبھی کبھی ہرا ہو جاتا ہے اور اس گھائو کا مرہم احسن بھائی کے بچے ہیں جو اس کی جلن کو محسوس نہیں ہوتے دیتے۔