ایک روز میں کھانا بنا رہی تھی کہ دستک ہوئی۔ دروازہ کھولا تو میرے شوہر حمید سامنے کھڑے تھے ساتھ ایک اور شخص بھی تھا۔ مجھے دیکھ کر وہ دروازے کی اوٹ میں ہو گیا۔ تب ہی میرے شوہر بولے ۔ آج دفتر سے جلدی آنا ہو گیا ۔ اچانک مہمان آگیا، کیا کھانا تیار ہے۔ جی تیار ہے تقریباً یہ کہہ کر میں باورچی خانے میں چلی گئی اور حمید دوست کو لے کر بیٹھک میں جا بیٹھے۔ انہوں نے کھانا کھا کر مہمان کو بیٹھک میں پڑی چار پائی پر آرام کرنے کو کہا اور مجھے اس دوست کے بارے میں بتایا که فیروز میرے بچپن کا دوست ہے آج کل برے حالات کا شکار ہی تو اب مرے پاس آیا ہے یہاں نہ تو اس کے رہنے کا ٹھکانہ ہے اور نہ ہی روزگار میں پریشان ہوں کہ اس کو کہاں ٹھہراؤں ؟ بیٹھک میں ٹھہرا لیجئے۔ میں نے شوہر کو پریشان دیکھ کر کہا۔ وہ بھی ایک طرح سے رضا مندی لینا چاہ رہے تھے کیونکہ مہمان کی کھانے کا انتظام تو مجھے ہی کرنا تھا۔ حمید پر سکون ہو گئے اور بولے کے میں نے اسے تسلی دے ہے کہ جب تک تمہارے روزگار کا بندوبست نہیں ہو جاتا تب تک کہیں جانے کی ضرورت نہیں۔ میرے پاس رہ جاؤ۔ رہنے کا ٹھکانہ روزگار سب اللہ کی مہربانی سے ہو جائے گا۔
حمید نے گھر کی بیٹھک فیروز کے لئے خالی کر دی اور میں صبح و شام کھانا پکا کر بھیجوانے لگی۔ دو ماہ یہ شخص ہمارے گھر مہمان رہا۔ کچھ اس کو بے فکری اور سکون میسر آیا تو دلجمعی سے نوکری کی تلاش شروع کر دی۔ حمید بھی اپنے جاننے والوں سے کہتے تھے کہ میرے دوست فیروز کو ملازمت کی ضرورت ہے، کوئی سلسلہ بنے تو مدد کرنا۔ آخر ان کی کوششیں رنگ لائیں اور فیروز کو ایک محکمے میں مناسب نوکری مل گئی ۔ مالی محتاجی دور ہو گئی تو وہ رہنے کا ٹھکانہ ڈھونڈ نے لگا۔ تبھی حمید نے اپنی مکان مالکن سے تذکرہ کیا۔ ہمارے برابر والا مکان خالی پڑا تھا۔ اس عورت نے یہ گھر فیروز کو مناسب کرایے پر دے دیا۔ یوں اب وہ ہمارا پڑوسی بن گیا۔ اس کے پڑوس میں خود مکان مالکن کی رہائش تھی ۔ سب کچھ تو ہو گیا، لیکن اب ایک مسئلہ اسے یہ در پیش تھا کہ اسے کھانا بنا کر دینے والا کوئی نہ تھا۔ میں بھی چاہتی تھی کہ وہ اپنا کوئی انتظام کر لے ۔ وہ بھی تکلف محسوس کرنے لگا تھا ۔ کہتا تھا کہ بھابھی نے بہت ہے تکلیف اٹھائی ہے مزید ان کو زحمت نہیں دینا ہے چاہتا۔ آخر حمید نے مشورہ دیا ۔ کہ فیروز میاں شادی کرلو ۔ کب تک کوئی تم کو کھانا کھلائے گا اور کب تک ہوٹل کا مضر صحت کھانا کھا پاؤ گے۔ اس پر وہ ہنس دیا، بولا ۔ حمید یار میرا کون ہے ، جو میری شادی کرائے گا۔ بھائی یہ تو – وہی بات ہوئی نہ نومن تیل ہوگا اور نہ رادھا ناچے گی۔ انہی دنوں میری چھوٹی بہن علاج کی خاطرگاؤں سے ہمارے گھر آئی ہوئی تھی۔ وہ کچھ عرصہ سے بیمار رہتی تھی حمید نے مجھ سے ذکر کیا کہ تم کہو تو میں فیروز سے بات کروں؟ پہلے اپنی ماں سے صلاح لے لو۔ وہ مان جائیں تو روشن کی شادی فیروز سے ہو سکتی ہے۔ لیکن مجھے تو نہیں خبر کہ آپ کا دوست کیسا آدمی ہے؟ ارے بھئی، نہایت شریف آدمی ہے۔ ہم بچپن سے ساتھ کھیلے ہیں۔ آگے پیچھے کوئی نہیں۔ دو ماہ میں تم نے بھی اس کو جانچ پرکھ لیا ہوگا۔ کوئی بری عادت اس میں نہیں ۔ ٹھیک ہے میں امی اور بہن سے بات کرتی ہوں ، تم بعد میں دوست سے بات کرنا۔ میں نے ماں سے بات کی ، وہ بولیں ۔ کون ماں نہیں چاہتی کہ اس کی لڑکی وقت پر بیاہی نہ جائے ۔ تم کو پتا ہے کہ دو تین ماہ سے تمہاری بہن کچھ علیل رہنے لگی ہے، تبھی یہاں لائی ہوں ۔ پہلے یہ ٹھیک ہو جائے ۔ ہاں ماں علاج ہوگا تو ٹھیک ہو جائے گی۔ آپ نے آخر اسے بیاہنا تو ہے۔ پھر تم اور حمید خود سوچ سمجھ کر رشتہ طے کر لو۔ ہمارے مالی حالات کا بھی تم لوگوں کو علم ہے۔ اس کی آپ فکر نہ کریں ۔ آپ رضا مند ہیں تو میں حمید سے بات کر لیتی ہوں۔ یوں میں نے حمید سے اور انہوں نے فیروز سے اس کے رشتے کا تذکرہ کیا ۔ جواب میں فیروز چپ رہا۔ اس چپ کا کیا مطلب ہے یار میری سالی، دیکھی بھالی ہے۔ اپنے گھر کی لڑکی ہے۔ اگر تم شادی کرنا چاہتے ہو تو منڈی ہلا دو۔ تیرا گھر آباد ہو جائے گا اور کھانے پینے کی مشکلات سے بھی اے نجات مل جائے گی ۔ فیروز نے کہا۔ جو تم بہتر سمجھو، مجھے منظور ہے۔ اب تم ہی میرے بھائی بھی ہو اور دوست بھی ۔ بات – اتنی جلدی بن جائے گی مجھے گمان بھی نہ تھا کہ کل تک جو مہمان ہے تھا، اب ہمارے گھر کا ایک فرد بننے جا رہا تھا۔ فیروز نے حمید سے یہ بھی کہا تھا کہ میری مالی حالت تم سے پوشیدہ نہیں ہے، ابھی میری نوکری لگی ہے ۔ اس کی تم فکر مت کرو۔ وہ سب انتظام ہو جائے گا۔ تم رضا مند ہو تو پھر میں ساس اور سالی سے بات کر لیتا ہوں۔ یوں فیروز کی شادی میری بہن روشن سے ہو گئی۔ زیور کپڑا سب میں نے اپنی طرف سے بہن کو دیا کیونکہ فیروز کے پاس بری اور زیور کے لئے رقم نہ تھی۔ لڑکے کی طرف سے شادی کا خرچہ بھی ہم نے کیا۔ مجھے یقین تھا کہ روشن شادی کے بعد خوشی ملنے سے ٹھیک ہو جائے گی کیونکہ اس کی شادی کی عمر نکلی جارہی تھی اور میرے والدین کے مالی حالات درست نہ ہونے کے سبب کوئی اچھا رشتہ بھی نہیں مل رہا تھا۔ اس صورت حال میں اکثر لڑکیاں نا امید ہو کر بیمار پڑ جاتی ہیں اور ان کی بیماری کسی کے سمجھ میں نہیں آتی۔
ہوا بھی یہی کہ شادی کے بعد روشن کی رنگت سرخ ہونے لگی اور وہ تندرست دکھائی دینے لگی ۔ حمید نے بھی یہی سوچا تھا کہ ان کی ذراسی قربانی سے یعنی شادی کا خرچہ اٹھانے پر ان کے دوست کا گھر بس جائے گا اور سسرالی بھی خوش ہو جائیں کہ ان کی لڑکی کو اچھا برمل گیا ہے۔ دونوں کا گھر بن گیا۔ فیروز اور روشن خوش رہنے لگے اور اپنی دنیا میں مگن ہو گئے ۔ ہم بھی خوش تھے کہ چلو اچھا ہوا، یہ بیل منڈھے چڑھی۔ حمید سسرالیوں میں سرخرو تھے کہ روشن شادی کے بعد خوش تھی ۔ سال بعد اس نے بچی کو جنم دیا، جس کا نام اس نے حوریہ رکھا۔ وہ بہت پیاری صورت والی ، گول مٹول بھی تھی۔ ہمارے گھر کوئی بچہ نہ تھا۔ میں اسے گھر لے آتی ، گھنٹوں اپنے پاس رکھتی۔ مجھ کو اپنی بھانجی بہت پیاری لگتی تھی ۔ اب تو وہ ہمہ وقت میرے پاس ہی رہتی ۔ وہ مجھ سے اتنی مانوس گئی تھی کہ جب رات کو سو جاتی ، تب ماں اسے اٹھا کر لے جاتی۔ اب وہ دو سال کی ہو گئی تھی اور میری اتنی عادی ہو گئی تھی کہ ایک منٹ بھی میرے بغیر نہ رہتی ۔ خدا کی کرنی کہ میری بہن پھر سے بیمار رہنے لگی اور اس کی بیماری اتنی بڑھی کہ لاغر ہوگئی۔ ڈاکٹروں نے کینسر تشخیص کیا اور وہ چھ ماہ بعد چل بسی۔ جوان موت پر ہر آنکھ اشک بار تھی لیکن فیروز کا تو گھر اجڑ گیا تھا اور خور یہ بے آسرا ہو گئی تبھی فیروز نے اسے مکمل طور پر میرے سپرد کر دیا کہ اب یہ آپ ہی کی بچی ہے، آپ نے اس کی پرورش کرنا ہے ۔ بہن کی وفات اور بھانجی کے بن ماں ہو جانے پر میں بہت رویا کرتی تھی۔ حمید بھی غمزدہ تھے کہ ان کے پیارے دوست کا گھر اجڑ گیا تھا۔ اس عرصہ میں یہ کسی کو پتا نہ چلا کہ ہم آپس میں رشتہ دار ہیں یا غیر ۔ روشن نے اپنی وفات سے دو دن قبل فیروز سے وعدہ لیا تھا کہ میری بچی کو باجی کو دے دینا اور خود جہاں مرضی ہو، شادی کر لینا۔ سال بعد میں نے اور حمید نے فیروز کو مشورہ دیا کہ وہ دوبارہ شادی کرلے ۔ بچی تو ہمارے پاس ہے، مگر اس نے انکار کر دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اب میں اور شادی نہیں کروں گا بس ایسے ہی زندگی گزار لوں گا۔ کچھ عرصہ بعد پتا چلا کہ وہ گھر کی مالکن سروری بیگم کے گھر بھی آتا جاتا ہے۔ اس کا شوہر سعودی عرب کمانے گیا ہوا تھا۔ وہ گھر میں بچوں کے ساتھ اکیلی رہتی تھی ۔ ہم نے ان دونوں کے بارے میں چہ میگوئیاں سنیں تو حمید نے فیروز سے پوچھا۔ وہ برہم ہو گیا، کہنے لگا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ لوگ تو یونہی بات کا بتنگڑ بنا لیتے ہیں ۔ اس بیچاری کا مرد پردیس میں ہے۔ اس کو باہر کے کام کروانے ہوتے ہیں تو مجھے کہلوا دیتی ہے، میں کر دیتا ہوں۔ بس اتنی سی بات ہے جس پر لوگ ہمیں بد نام کر رہے ہیں۔ حمید یہ سن کر خاموش ہو رہے حالا نکہ لوگوں نے یہ تک کہا تھا که سروری بیگم رات کو بھی فیروز کے گھر آتی جاتی ہے۔ محلے اور پاس پڑوس کے لوگوں نے دیکھا تھا۔ تبھی سردیاں آئیں۔ فیروز نے مجھ سے کہا کہ باجی میری رضائی دھلوا کر بھر دادیں ۔ مجھے رات کو سردی محسوس ہونے لگی ہے۔ میں نے کہا۔ بھیا! مکان اور پیٹی کی چابیاں دے جانا، میں جا کر رضائی نکال لوں گی۔ اس نے مجھے چابیاں دے دیں میں اسی روز گئی اور بستروں والی پیٹی میں سے رضائی نکالنے لگی۔ جونہی میں نے ایک رضائی باہر نکالی، اس کے اندر سے کئی خط بھی نکل کر فرش پر گر پڑے۔ میں یہ دیکھ کر گھبرا گئی ۔ یہ سروری بیگم کے محبت نامے تھے جو فیروز کے نام تھے۔ ایک شادی شدہ عورت اور دو بچوں کی ماں ، جس کا خاوند اس کو سکھ پہنچانے کی خاطر پردیس میں تھا، اس کے ایک غیر آدمی سے اس قسم کی جان پہچان دیکھ کر مجھے پڑوسن سے بہت نفرت محسوس ہوئی ، ساتھ ہی اپنے بہنوئی کے اچھے کردار کے بارے میں جو رائے تھی ، وہ زمیں بوس ہو کر گر پڑی۔ میں تو فیروز کو نہایت نیک چلن اور سے با کردار شخص سمجھتی تھی۔ ان خطوط میں ہمارے گھر کی باتیں بھی تھیں۔ میں یہ سارے خطوط اٹھا کر گھر لے آئی۔
جب فیروز کو پتا چلا کہ خط میں اٹھا لائی ہوں تو وہ بہت ناراض ہوا اور ہم سے جھگڑ پڑا اور اپنا زیور جو ہمارے پاس تھا، طلب کیا ۔ جو اس کی رقم ہمارے پاس امانت رکھی تھی وہ بھی ہم سے لے لی ۔ یہی نہیں ، اپنی بچی بھی لے گیا۔ ہم سے بول چال بند کر دی اور بچی کو سروری بیگم کے سپرد کر دیا۔ میرے لئے یہ سب کچھ بے حد تکلیف دہ تھا۔ بچی آنکھوں کے سامنے ساتھ والے گھر میں روتی رہتی اور ہم اس کو اپنے پاس نہیں لا سکتے تھے۔ وہ مجھ کو امی کہہ کر بلاتی تھی۔ وہ امی ، امی کی دہائیاں دیتی رہتی اور میں دیوار سے ادھر اس کی پکاریں سن کر روتی اور تڑپتی رہتی ۔ حمید سے میری یہ حالت نہیں دیکھی جاتی تھی۔ آخر انہوں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ فیروز سے لڑنے کے بجائے گھر ہی تبدیل کرلیں، تا کہ نہ بچی کی آواز ہمارے کانوں تک آئے گی اور نہ ہی جھگڑا ہوگا ۔ ہمارا صرف یہی قصور تھا کہ ہم نے فیروز کو سمجھایا تھا کہ وہ ایک غیر عورت سے غلط مراسم نہ رکھے، کیونکہ یہ بری بات ہے اور بری باتوں کا انجام برا ہی ہوتا ہے۔ بس ہماری یہی نصیحت اس کو ہم سے برافروختہ کر گئی۔ جس دن ہم گھر چھوڑ کر جارہے تھے، سارا محلہ اکٹھا ہو گیا۔ سب نے پوچھا۔ کیا بات ہے؟ کیوں تم مکان تبدیل کر رہے ہو؟ اتنے برسوں کا ساتھ ہے، جانے اب کیسے لوگ کرایے دار آئیں ۔ حمید ان کو کیا وجہ بتاتے یہی کہا کہ مجبوری ہے، اس لئے جارہے ہیں۔ وہ کچھ سامان لے کر چلے گئے ۔ باقی سامان اور مجھے انہوں نے دوسرے چکر میں لے کر جانا تھا۔ جب واپس آئے تو دیکھا کہ میرا اچھا خاصا جھگڑا سروری بیگم سے ہو چکا ہے۔ جب کسی معاملے میں عورتیں بول پڑیں، تو بات جلدی ختم نہیں ہوتی ۔ محلے کی عورتیں جمع ہو گئیں ۔ سب نے کہا ۔ دس سال تم لوگ رہے، آپس میں کوئی جھگڑا نہیں ہوا۔ آخر کیوں اب گھر چھوڑ کر جا رہے تھے اور اب جھگڑا بھی ہو گیا۔ تب میں پھٹ پڑی کہ یہ عورت اپنے محبت نامے مانگ رہی ہے، جو اس نے میرے بہنوئی فیروز کو لکھے ہیں ، مگر میں نہیں دوں گی، کیونکہ ان خطوط میں ہماری برائیاں بھی لکھی ہوئی ہیں ۔ اگر دوں گی تو فیروز کو دوں گی کیونکہ میں نے اس کی بستروں والی پیٹی سے اٹھائے تھے۔ یہ مانگنے والی کون ہوتی ہے؟ اگر آپ لوگوں کو یقین نہیں آتا تو سارے خطوط آپ کو بھی دکھا سکتی ہوں ۔ میرے یہ کہنے سے تو طوفان ہی آگیا اور بات مار کٹائی تک پہنچ گئی۔ جب حمید پہنچے تو ہماری مار کٹائی اور ہاتھا پائی ہو رہی تھی ۔ حمید نے مجھ سے کہا۔ اسماء! مجھے تمہاری نادانی پر بہت افسوس ہے۔ جب میں نے تم سے کہا تھا کہ جھگڑا نہ کرنا اور خطوں کی کوئی بات منہ سے مت نکالنا، تو یہ بات تمہارے منہ سے کیوں نکل گئی؟ اصل میں مجھے تو اپنی نھی بھانجی سے جدائی کا بے حد غم تھا، جو اس عورت کے قبضے میں تھی جبکہ یہ اس کی کچھ بھی نہیں لگتی تھی۔ وہ بچی کو میرے پاس آنے نہ دیتی تھی، بس اسی غصے کے رد عمل نے مجھ سے ایسی بات کھلوادی۔ ہم نئے مکان میں چلے گئے مگر میں یہاں آ کر قطعی خوش نہ تھی۔ بے حداد اس اور بجھی بجھی رہتی تھی۔ حوریہ کی جدائی اور بہن کی وفات نے مجھ پر برا اثر ڈالا تھا۔ میں اپنی مرحومہ بہن کی نشانی سے بہت محبت کرتی تھی۔ چند ماہ تو میں اس غم میں گھلتی رہی، پھر آخر ضبط نہ کرسکی تبھی ایک روز اپنے پرانے محلے چلی گئی ۔ جو نہی رکشہ پرانے گھر کے قریب رکا، حوریہ، جو باہر کھڑی تھی ، اس نے مجھ کو پہچان لیا اور امی کہتی دوڑتی ہوئی آکر رکشہ میں چڑھ کر بیٹھ گئی۔ اس کی والہانہ محبت سے بے قابو ہو کر مجھے جانے کیا سوجھی کہ دل پر قابو نہ رہا میں آنا فانا اسی رکشے میں اپنے ساتھ گھر لے کر آگئی۔ جب حمید گھر لوٹے تو یہ واقعہ ہو چکا تھا۔ انہوں نے مجھے برا بھلا کہا اور بولے تم نے یہ کیا حرکت کی ہے؟ اب تمہارا بہنوئی ہم پر اپنی بیٹی کے اغوا کا کیس داخل کر دے گا۔ میں تو بچی کو محبت میں اٹھالائی تھی، مگر فیروز بھاگ دوڑ میں لگ گیا کیونکہ آس پڑوس کی عورتیں بھی دیکھ رہی تھیں کہ میں فیروز کی بیٹی کو رکشہ میں بٹھا کر لے جا رہی تھی۔ پس میرے بہنوئی نے ہم پر بچی کے اغوا کا کیس درج کرادیا۔ تبھی حمید بھاگے ہوئے اس کے پاس گئے کہ ایسا نه کرد – میری بیوی محبت سے مجبور ہو کر بھانجی کو ذرا دیر کے لئے لے آئی تھی۔ میں خود ابھی اسے واپس پہنچانے آرہا تھا۔ تم پریشان نہ ہو اور نہ بات تھانے تک لے جاؤ مگر وہ بضد کہ تھانے چلو، بات وہیں ہوگی۔ بڑی مشکل سے حمید نے اس کو باز رکھا کہ آئندہ ایسا نہ ہوگا ۔ کل صبح ہی ہم تمہاری بچی کو تمہارے حوالے کر دیں گے۔ اس نے کہا۔ ٹھیک ہے تم بچی کو ایک دو دن رکھ لو تا کہ میں کیس کو ختم کرادوں۔
دو دن گزرے تھے۔ دو پہر کے بعد جب حمید دفتر سے آئے ہی تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ انہوں نے دروازہ کھولا اور دیکھا کہ فیروز بہت گھبرایا ہوا کھڑا ہے۔ تن پر لباس بھی موزوں نہیں ہے ، نہ پاؤں میں چپل ہے۔ حمید اس کی حالت پر حیران رہ گئے۔ پوچھا۔ کیا ہوا ؟ خیریت تو ہے؟ خیریت نہیں ہے۔ فیروز نے جواب دیا۔ تم ٹھیک کہتے تھے کہ برے کام کا انجام برا ہوتا ہے۔ میں پھنس گیا ہوں، مجھے اب صرف تم ہی بچا سکتے ہو۔ حمید اس کو اندر لے آئے ۔ پانی پلایا، اپنے کپڑے دیئے اور تسلی بھی کہ جو کچھ ہوا، اس سے قطع نظر میں تمہاری ہر طرح سے مدد کروں گا۔ بتاؤ تو سہی ، بات کیا ہے؟ فیروز نے بتایا کہ آج دو پہر میں سروری کے ساتھ اپنے گھر میں موجود تھا کہ اچانک بغیر اطلاع اس کا شوہر گھر میں آگیا۔ میں نے دروازے کی کنڈی صحیح طرح نہیں لگائی تھی۔ وہ صحن میں سے ہوتا ہوا کمرے میں ہمارے سروں پر آپہنچا۔ ہم تو بے خوف بیٹھے تھے کہ اس کا شوہر باہر ملک میں ہوتا تھا۔ اب یہ اچانک آفت نازل ہوئی تو ہمارے دماغ سن رہ گئے۔ دراصل وہ بغیر اطلاع کے آگیا۔ گھر پہنچا تو اس کے بچوں نے بتایا کہ ماں ساتھ والے مکان میں انکل فیروز سے ملنے گئی ہے۔ بچوں کو خبر تھی کہ وہ اکثر دو پہر میرے گھر آجاتی تھی اور ان سے کہتی تھی کہ گھر کا دھیان رکھنا بھر مت نکلنا۔ جب اس شخص نے اپنی بیوی کو میرے بہت قریب دیکھا تو چراغ پا ہو گیا۔ میں تو وہاں سے کسی طرح بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا لیکن اس نے پتا نہیں اپنی بیوی کو کتنا مارا کہ محلے والے اکٹھے ہو گئے تھے۔ میں تو اس جگہ جانے سے ڈرتا ہوں میرے مکان کا دروازہ کھلا پڑا ہے۔ وہاں سب سامان ، زیورات ، نقدی سوٹ کیسوں میں موجود ہے۔ تم ہی کسی طرح اس محلے میں جا کر پتا کرو کہ کیا ہوا ہے؟ میں تو اب وہاں نہیں جاسکتا۔ لوگ مجھے ماریں گے، محلے بھر میں رسوائی بھی ہوگی۔ حمید نے اس وقت موٹر سائیکل نکالی اور پرانے محلے چلے گئے۔ وہاں جا کر صورت حال دیکھی ۔ فیروز کے مکان کی کنڈی بجائی ، وہاں کوئی ہوتا تو بولتا ۔ اتنے میں محلے کے تین چار آدمی اکٹھے ہو گئے۔ شاید وہ تاک میں تھے کہ وہ آئے تو اس سے دو دو ہاتھ کریں۔ حمید نے ان سے کہا۔ آپ کو پتا ہے کہ فیروز کا مجھ سے جھگڑا ہو گیا تھا ، اسی وجہ سے میں یہ گھر چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ آج کسی کام سے ادھر سے گزر رہا تھا، کام یہ تھا کہ فیروز نے اپنی بچی کے اغوا کا پرچہ ہم میاں بیوی پر درج کرادیا تھا جب کہ میری بیوی اپنی بھانجی کو محبت کی وجہ سے اپنے ساتھ لے گئی تھی۔ اس سلسلے میں فیروز سے ملنا چاہتا تھا، مگر یہاں تو صورت حال کچھ اور معلوم ہوتی ہے ۔ محلے والوں نے فیروز کو خوب گالیاں دیں کہ وہ تمہارا ہم زلف تھا ، اب تم ہی اس کا سامان یہاں سے اٹھا کر لے جاؤ، ورنہ ہم اس کے سامان کو آگ لگا دیں گے۔ ہم کسی صورت اس کو دوبارہ ادھر دیکھنا نہیں چاہتے ، در نہ خون خرابہ ہوگا۔ غضب خدا کا ایک شریف آدمی کی غیر موجودگی میں اس کے گھر کی نقب لگارہا تھا۔ سروری کا شوہر تو بیوی کو قتل کر ڈالتا، اگر ہم نے درمیان پڑ کر اس عورت کو نہ بچا لیا ہوتا۔ وہ اتنی زخمی تھی کہ اسے اسپتال لے گئے ہیں اور اس کا مرد تھانے بیٹھا ہے ۔ ہم نے گواہی دی کہ میاں بیوی کا کسی معمولی گھر یلو بات پر جھگڑا تھا ، بات رفع دفع کردیں۔ ہم نے فیروز کا نام نہیں آنے دیا، ورنہ ہمارا محلے دار جو بچارا اتنے عرصے بعد دیار غیر سے بچوں کے لئے خوشیاں کما کر لایا تھا، اس کے بچے باپ کی شفقت سے محروم ہو جاتے ۔ آپ اس وقت اس کا مکان خالی کر دیں اور سامان لے جائیے، پولیس کے چکر میں پڑ گئے تو اور زیادہ یہاں مصیبت کھڑی ہو جائے گی۔
حمید نے ہی فیروز کو یہ مکان کرایے پر دلوایا تھا اور سب جانتے تھے کہ یہ دونوں ہم زلف ہیں۔ وہ میرے شوہر پر بھروسہ کرتے تھے، ان کی عزت کرتے تھے۔ ہم بہت عرصہ یہاں رہ چکے تھے۔ حمید کی ساکھ اچھی تھی تو محلے والوں نے ان پر اعتماد کیا۔ میرے شوہر نے ان لوگوں سے وعدہ کیا کہ یہ کام ہو جائے گا فکر نہ کریں۔ فی الحال میں سامان لے جا کر اپنے گھر امانتا رکھ لیتا ہوں اور فیروز بھی ادھر اب نہیں آئے گا۔ اچھا ہوا آپ لوگوں نے پولیس میں ایسا بیان نہ دے کر ہماری عزت رکھ لی، ورنہ تو سچ ہے کہ گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے۔ اس طرح کچھ معزز محلے داروں کی موجودگی میں حمید نے فیروز کا سامان اٹھایا اور رسید بھی لکھ کر دی تا کہ معاملہ رفع دفع ہو جائے۔ اس کے بعد وہ بھی اس محلے میں نہیں گئے اور فیروز نے تو خود کو کافی عرصہ روپوش ہی رکھا۔ خبر نہیں سروری کو اس کے شوہر معاف کر دیا، یا طلاق تھمادی لیکن اس واقعہ سے فیروز کے تو مزاج ٹھکانے ہی آگئے۔ اس نے برائی سے توبہ کر لی اور اپنی بیٹی کو ہمارے سپرد کر دیا۔ مجھ سے کہا کہ باجی! حوریہ کو آپ ہی رکھو، اسے اپنی ہی بیٹی سمجھو۔ تب میں نے بھی سکھ کا سانس لیا اور اپنی مرحوم بہن کی بیٹی کو ہمیشہ گلے سے لگا کر رکھا۔