Wednesday, October 16, 2024

Buree Maan

آج یہ لکھتے ہوئے باک محسوس کر رہی ہوں کہ میری والدہ چودہ پندرہ برس کی عمر میں غلط روش کا شکار ہو گئیں۔ بے شک ماں کے بارے میں بیٹی کو ایسی باتیں لکھنا زیب نہیں دیتا لیکن میری زندگی کی داستان انہی الفاظ سے شروع ہوتی ہے۔ جب وہ غلط خیالات کا شکار ہو ئیں ، نانا اور نانی بہت پریشان ہوئے ۔ تبھی حالات زمانہ سے ڈر کر انہوں نے ان کی شادی میرے والد صاحب سے کرا دی ۔ میرے والد میٹرک پاس اور نہایت سیدھے سادھے دیانت دار تھے۔ وہ میرے نانا کے منشی تھے۔ نانا کی نظر اپنے نوعمر اور جواں سال منشی پر ٹک گئی۔ انہوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ اس سے بہتر شریف اور سعادت مند آدمی بطور داماد فوری طور پر کوئی دوسرا ہو ہی نہیں سکتا۔ نانا ابو  نے اپنے اس منشی صغیر احد کے والدین سے بات کی تو انہوں نے کہا۔ سعادت صاحب یہ آپ کا بیٹا ہے اس کی قسمت کا فیصلہ جیسا چاہیں آپ کر دیں ۔ آپ سے بہتر خیر خواہ ہمارے لئے اور کون ہوسکتا ہے۔ ہمارے لئے تو یہ فخر کی بات ہے کہ آپ ہم سے رشتہ ناتا جوڑ رہے ہیں۔ جبکہ ہم اس قابل کہاں ہیں۔ میرے ددھیال والے غریب لوگ تھے، وہ تو بہت خوش تھے کہ ان کے بیٹے کو سہارا مل رہا ہے۔ انہوں نے ہر بات پر سر تسلیم خم کر دیا اور نانا کی ہر شرط مان لی۔ یوں منشی صغیر احمد یعنی میرے ابو سے نوعمری میں میری والدہ کی شادی ہوگئی۔ شادی کے سات ماہ بعد میں نے جنم لیا۔ اور والدہ سولہ برس کی عمر میں میری ماں بن گئی ۔میں ست ماہ کہلائی جس کے بچنے کی امید کم تھی، پھر بھی نانی اور خالہ نے بہت دھیان محنت اور وقت سے پالا۔ خالہ گرچہ امی سے سات برس چھوٹی تھیں مگر بہت باشعور تھیں۔ امی نے تو مجھے بس جنم دیا تھا۔ پھر ہاتھ نہ لگایا، جبکہ نانی نے پالا اور خالہ نے سنبھالا۔ یوں وقت کے ساتھ ساتھ بڑی ہوتی گئی۔ وہ ماں کے فرائض سے ناواقف تھیں۔ مجھ کو کیونکر سنبھال لیتیں۔ اس زمانے میں گھر گھر وی سی آر پر انڈین فلمیں چلا کرتی تھیں۔ ہمارے نانا کے گھر بھی رات کو وی سی آر کی نعمت سے فائدہ اٹھایا جاتا تھا۔ اسی شوق کا خمیازہ ان کو کم سن اور نادان بیٹی کی نادانیوں کی صورت میں بھگتنا پڑا تھا اور منشی کو گھر داماد بنانا پڑا تھا۔ امی جان بعد میں بھی نہ سدھریں اور اپنی من مانیوں کے باعث گوناگوں مسائل کا شکار رہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے ان کے بزرگ عمر بھر پریشان رہے اور ان کو سنبھالتے اور سمجھاتے ہی رہے مگر والدہ صاحبہ جانے کس مٹی کی بنی تھیں کہ ان پر بزرگوں کی باتوں کا کچھ اثر نہ ہوتا تھا۔ بڑوں کی ڈانٹ ڈپٹ اور نصیحت ان کو مزید باغی بناتی تھی۔ جب میں باشعور ہو گئی تو امی کے بارے میں رائے یہ تھی کہ وہ آزاد خیال ہی نہیں بلکہ کچھ عجیب نفسیات کی مالک تھیں۔

شاید یہ چھوٹی عمر میں رومانوی فلمیں دیکھ دیکھ کر غلط سوچوں کا شکار ہو جانے کا نتیجہ تھا کہ شادی شدہ ہو جانے کے باوجود غیر مردوں سے دوستی کر لیتی تھیں اور اسی وجہ سے مسائل پیدا ہوتے تھے۔ شروع میں تو ابو نانا کے گھر میں دبے دبے رہے لیکن ان کے انتقال کے بعد انہوں نے یہ محسوس کرنا شروع کر دیا کہ اب ان کو یہاں نہیں رہنا چاہئے۔ جو شفقت اپنے داماد سے نانا کو تھی ، وہ ماموں کو نہ تھی، بلکہ وہ ان کو اپنے کاروبار کے لئے خطرہ سمجھتے تھے۔ جب بڑے ماموں کا سلوک میرے والد سے نوکروں کا سا ہو گیا تو ابو نے علیحدہ گھر لے کر رہنے کا عندیہ دے دیا۔ نانی بھی بہو سے ڈرتی تھیں ، انہوں نے کہا۔ بیٹے جیسی تمہاری مرضی کسی اور جگہ ملازمت ڈھونڈ لی ہے تو بے شک اپنی بیوی بچوں کو لے جاؤ۔ ہم کو کوئی اعتراض نہیں اپنے بچوں کی بشرطیکہ کفالت کر سکو۔ والد صاحب نے کہا کہ خالہ جان میں محنت مزدوری کر لوں گا۔ اپنے بچوں کو رزق حلال کھلاؤں گا اور ان کو سکھی رکھنے کی ہر ممکن کوشش کروں گا، بس ! آپ کی اجازت درکار ہے۔ یوں ابو اپنے کنبے کو لے کر علیحدہ گھر میں رہنے لگے۔ مکان متوسط درجہ کی آبادی میں تھا۔ کم کرایہ تھا مگر یہاں انہوں نے آزادی کا سانس لیا۔ جلدی اللہ نے مدد کی اور   ایک سیٹھ صاحب کے منشی ہو گئے ۔ مکان کا کرایہ بھی سیٹھ نے دینا منظور کر لیا، جو کہ تنخواہ کے علاوہ تھا۔ اچھی گزر بسر ہونے لگی۔ ابو تو صبح کے نکلتے اور شام کولوٹتے ، والدہ نے نانی سے کہ کر چھوٹی بہین شاہانہ کو ساتھ رکھ لیا کہ ایک اکیلی گھر اور بچے نہیں دیکھ سکتی۔ ان دنوں ہم دونوں بہنیں تھیں اور ایک بھائی جو بھی صرف چھ ماہ کا تھا۔ خالہ شاہانہ میرے ننھے منے بھائی جواد سے بہت پیار کرتی تھیں ، خوشی خوشی امی کے ساتھ رہنے کو آ گئیں۔  نئے گھر میں آئے کچھ ہی دن گزرے تھے کہ امی گھر سے غیر حاضر رہے لگیں اور ہم تینوں بچوں کو خالہ کے سپرد کر جاتیں جو سارادن ہم کو دیکھتیں اورکھانا بھی پکا کر کھلاتی تھیں۔ چھوٹی بہن ہونے کے ناتے سارے کام اپنا فرض سمجھ کر کرتی تھیں۔ ایک روز ابو کو محلے کے ایک شخص نے کہا کہ میاں تم تو دن بھر بچوں کا پیٹ بھرنے کو محنت مشقت کے لئے نکلتے ہو گے لیکن یہ تمہاری بیوی صبح سویرے تمہارے جانے کے بعد بن ٹھن کر کہاں جاتی ہے؟ اور شام کو تمہارے آنے سے قبل لوٹ کر آ جاتی ہے کیا یہ بھی کہیں نوکری کرنے جاتی ہے؟ والد صاحب اس آدمی کی بات سن کر حیران ہو گئے۔ بات بنادی کہ ہاں نوکری پر جاتی ہے مگر شک وشبہ کا الاؤ خودان کے دل میں بھڑک گیا۔

اب وہ بے سکون ہو گئے تھے، اچانک گھر آجاتے امی کو غیر حاضر پاتے تو مجھ سے اور خالہ سے پوچھتے کہ مرجانہ کدھر گئی ہے؟ ہم کیا جواب دیتے ؟ وہ مجھ کو بتا کر تو نہ جاتی تھیں۔ امی اور ابو میں چپقلش رہنے لگی اور اختلافات بڑھنے لگے۔ اب اس بات پر جھگڑا رہتا۔ جس سے گھر کا ماحول خراب ہو تا چلا گیا لیکن فی الحال محلے میں کسی کو اندرونی اختلافات کا علم نہیں تھا تاہم ابو ذہنی عذاب میں مبتلا تھے۔ رفتہ رفتہ ان کا یہ حال ہوا کہ وہ ہر دم اپنی بیوی کو شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ محلے والوں سے بھی کب تک یہ بات چھپتی۔ جب وہ ابو کی غیر موجودگی میں امی کو نت نئی گاڑیوں سے اترتے دیکھتے تو انہوں نے ابو کے کان کھانے شروع کر دیئے کہ شریفوں کا محلہ ہے اور یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے کہ آپ کی غیر موجودگی میں غیر آدمی آپ کی زوجہ محترمہ کو لینے یا چھوڑنے آئیں۔ یہ کیسا آفس ہے اور کیسی ملازمت ہے، جبکہ خاتون پڑھی لکھی بھی نہیں ہیں۔ ہم آپ کی عزت کرتے ہیں، آپ اپنے گھر کے معاملات کو چیک کریں۔ ابو کیا چیک کرتے ، وہ تو پہلے ہی اس امر پر پریشان تھے۔ ایک روز ابو اپنے کام سے اچانک جلد گھر آ گئے۔ اس قت تک امی گھر نہیں آئی تھیں۔ وہ دروازے میں کھڑے ہو گئے کہ دیکھوں کدھر سے اور کس طرح آتی ہے۔ اسی وقت وہ ایک لمبی چمکیلی کار سے اتریں اور سامنے والی گلی سے پیدل چل کر گھر کی طرف آ رہی تھیں کہ والد صاحب نے اس نظارے کو گھر کے دروازے پر سے کھڑے ہوئے دیکھ لیا۔ جب وہ گھر میں آئیں، انہوں نے ان کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا اور گھر کے دروازے سے دھکا دے کر گلی میں نکال دیا۔ والدہ اب کیا تاویل دیتیں ۔ وہ اپنے بھائی کے گھر، نانی امی کے پاس چلی گئیں۔ تب خالہ کو بھی نانی آ کر لے گئیں ۔ امی کافی عرصہ اپنی ماں کے گھر رہیں۔ابو ہماری پھوپھی کو لے آئے جو ہمارے ساتھ رہنے لگیں۔ مگر پھپھو کتنے عرصہ اپنا گھر چھوڑ کر ہمارے ساتھ رہتیں ۔ وہ روز اپنے بھائی کو سمجھاتی تھیں کہ صغیر بیوی کو معاف کر دو اور اس سے وعدہ لے لو کہ آئندہ ایسا نہ کرے گی تمہارا بیٹا بہت چھوٹا ہے اور یہ دودھ پیتا بچہ ہے۔ ماں کے بغیر نہیں جی پائے گا، اوپر کے دودھ سے بچہ کمزور اور بیمار رہنے لگا ہے۔ بہن کے سمجھانے سے ابو ہماری نانی کے گھر گئے ۔ نانی خود چاہتی تھیں کہ بیٹی کی شوہر سے صلح ہو جائے تا کہ چھوٹے بچوں کو ان کی ماں کی جدائی نہ سہنی پڑے۔ والدہ سے وعدہ لیا گیا کہ آئندہ ایسی غلطی نہ کریں گی اور بغیر شوہر کی اجازت گھر سے نہیں نکلیں گی۔ وہ بھی شاید ہمارے لئے اداس تھیں، وعدہ کیا کہ اب ایسا کوئی قدم نہ اٹھاؤں گی، جس سے گھر کی عزت پر حرف آتا ہو۔ امی گھر لوٹ آئیں، ہم بچے تو خوشی سے دیوانے ہو رہے تھے۔

وہ بھی کچھ عرصہ تک ابو سے کئے وعدہ پر قائم رہیں۔ لیکن شاید وہ اپنی فطرت سے مجبور تھیں کہ پھر سے وہی حال ہو گیا اور ان کی ایسی حرکتوں سے ہماری عزت جاتی رہی۔ جب والد صاحب محلے میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے تو انہوں نے ملازمت سے چھٹی لے لی اور امی کی نگرانی کو گھر بیٹھ گئے۔ امی بھی خاوند کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتی تھیں اور جھگڑا حد سے بڑھا تو ابو گھر چھوڑ کر چلے گئے۔ وہ کافی دن نہ لوٹے جب محلے والوں نے ایسی باتیں کرنی شروع کر دیں کہ اس عورت نے شاید کچھ غلط آدمیوں کی مدد سے اپنے خاوند کو مروا دیا ہے۔ ان باتوں سے رہی سہی عزت جاتی رہی اور ہمارا محلے میں رہنا دشوار ہو گیا۔ محلے والے الگ پریشان کرتے ۔ تب امی نے سوچا کہ اس سے پہلے بات پولیس تک جائے یہاں سے نقل مکانی کر لینی چاہئے ۔ سامان اٹھا کر ہماری والدہ نزدیکی شہر چلی آئیں۔ نیا شہر، نیا محلہ اور نئے لوگ تھے جو ہم کو جانتے نہ تھے۔ انہوں نے خوش دلی سے خوش آمدید کہا اور یہاں ہم سکون بھری زندگی گزارنے لگے۔ یہاں آئے چھ ماہ گزر گئے۔ میں والد کو یاد کرتی تو چھپ چھپ کر روتی۔ والدہ نے اتنا پیسہ اکٹھا کر لیا کہ اپنا گھر خرید لیا۔ اسی اثناء میں نانی وفات پا گئیں ۔ خالہ کو بھابیوں نے تنگ کیا تو وہ مستقل ہمارے گھر آکر رہنے لگیں۔ امی نے اب ان کے ذہن بھی بگاڑ پیدا کرنا شروع کر دیا اور وہ بھی ویسی ہی ہو گئیں جیسی امی تھیں ۔ اب میں پندہ برس کی  باشعور تھی۔ کافی باتیں سمجھنے لگی تھی، حساس تھی، جب والد کے بارے میں سوچتی تو کلیجہ منہ کو آنے لگتا تھا۔ خالہ سے بہت لگاؤ تھا، جب ان کو بھی ماں کی روش پر چلتے پایا اور زیادہ صدمہ ہوا۔ سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ وہ بھی ماں جیسی ہو جائیں گی۔ اب میں اتنی بڑی ہوچکی تھی کہ چھوٹے بہن بھائیوں کو سنبھل سکتی تھی۔ امی اور خالہ بچوں کو مجھ پر چھوڑ کر گھر سے چلی جاتیں۔ میں آٹھویں میں تھی، مجھے پڑھائی چھوڑنی پڑی۔ لوگ یہاں بھی چہ میگوئیاں کرنے لگے، وہ ہم کو غلط سمجھنے لگے۔ امی سے سلام دعا ترک کر دی۔

ان دنوں میں اتنی پریشان تھی کہ کیا بتاؤں۔ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کروں ۔ پڑھائی چھٹ جانے کا بے حد صدمہ تھا۔ آخر ایک ترکیب سمجھ میں آئی۔ میرے پاس پھپھو کا فون نمبر تھا۔ ایک دن جبکہ امی اور خالہ گھر پر نہ تھیں، میں پڑوس میں گئی اور پڑوسن سے استدعا کی کہ خالہ جی مجھے میری پھپھو سے بات کرنی ہے۔ یہ نمبر ملادیں کیونکہ امی گھر پر نہیں ہیں اور میرے بھائی کی طبیعت خراب ہے۔اس اللہ کی بندی کو ترس آگیا اور نمبر مجھ سے لے کر ملایا۔ اتفاق کہ پھوپھی جان نے اٹھا لیا۔ پہلے پڑوسن نے بات کی کہ آپ کی بھیجی ماریہ بات کرنا چاہتی ہے۔ پھر مجھے ریسیور دیا تو میں نے پھپھو سے کہا۔ خدا کے لئے یا تو آپ ہمارے پاس آجائے یا ابو کو کہیں سے بھی ڈھونڈ کر گھر بھجوائیے۔ کیونکہ وہ نہیں آئے تو میں پڑھ نہ سکوں گی۔ اسکول چھوڑنا پڑے گا۔ پھپھونے تسلی دی کہ تمہارے ابو جہاں بھی ہیں دو چار دنوں میں تمہارے پاس آجائیں گے۔ میں نے گھر کا پتہ بھی انکو بتا دیا۔ ابو اپنے بھائیوں کے گھر تھے۔ پھپھو نے جب میرا پیغام دیا تو خود پر قابو نہ رکھ سکے۔ شفقت پدری نے جوش مارا اور وہ آ گئے۔ میں نے کہا ابو میری خاطر گھر رہیے، تا کہ حالات اور خراب نہ ہوں۔ والدہ جیسی بھی ہیں کم از کم ہم دونوں بیٹیوں کے مستقبل کے بارے میں سوچنے۔ اگر آپ ایسے ہی روٹھے رہے تو پھر ہمارا کیا بنے گا۔ بات ابو کی سمجھ میں آگئی اور جب والدہ آئیں انہوں نے جھگڑا نہ کیا، مگر پیار سے سمجھایا کہ سدھر جاؤ۔ اپنی روش بدلو اپنے بچوں کی خاطر گھر پر رہو۔ میں کما کر تم کو اور بچوں کو  پالوں گا۔ زیادہ کی حرص میں عزت کو داؤ پر نہ لگاؤ۔ گھر سے تو عزت گئی باہر سے نہ جائے تو بہتر ہے اسی وجہ سے واپس آ گیا ہوں۔ والد صاحب کو بیوی کو سمجھانے کے سوا چارہ نہ تھا۔ وہ بیوی کی غلط روش سے مردہ ہو گئے تھے۔ پھر بھی ہماری خاطر زندہ رہنا چاہتے تھے۔ نہیں چاہتے تھے کہ اب اس جگہ سے بھی بے عزت ہو کر نکلیں۔ ان کے آنے سے لوگوں کی چہ میگوئیاں بند تو ہو گئیں لیکن میری ماں نے اپنا چلن نہ بدلا۔ ہمارا گھر بے سکون ہی رہا۔ والد شک وشبہ کی آگ میں جل جل کر بھسم ہورہے تھے مگر بچوں کے  ساتھ رہنا چاہتے تھے۔ امی کا بھی اس میں فائدہ تھا کہ اب محلے والے باتیں نہیں بناتے تھے اور تنگ کرنے کی نوبت نہیں آئی کہ شوہر ساتھ رہتا ہے۔ میرا مسئلہ حل ہو گیا۔ میرے پیارے ابو کے آ جانے سے میں پھر سے اسکول جانے لگی، کیونکہ اب امی اور خالہ اتنی آسانی سے سارا دن گھر سے غائب نہیں رہ سکتی تھیں۔ ان کی جو بھی سرگرمیاں تھیں وہ مانند پڑ گئی تھیں۔ اتنا بہر حال میں جان گئی تھی کہ ماں غیر مردوں سے اس لئے دوستیاں پالتی ہیں کہ ان سے مالی فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے۔ جب کبھی وہ گھر سے نکلتیں اور ابو جاتے وہ امی پر ہاتھ اٹھاتے تب میں درمیان میں آ کر امی کو چھڑاتی تو ابو کہتے کہ بیٹی تم ہٹ جاؤ۔ یہ ہمارا آپس کا معاملہ ہے۔ ایک دن تو حد ہوگئی۔ امی نے گھر سے قدم نکالا اور ابو  آ گئے وہ انکو دہلیز پر سے دھکیل کر گھر کے اندر لائے۔ پوچھا کدھر جارہی تھیں۔ امی نے بہانہ کیا۔ بچوں کے کپڑے دھونے تھے۔ صابن نہیں تھا۔ سامنے اسٹور تک جارہی تھی گھبراہٹ میں ان سے معقول بہانہ بن نہیں پڑا۔  دراصل ایک روز قبل ہی ابو راشن لائے تھے اور صابن بھی لائے تھے۔ انہوں نے کہا  کل تم نے صابن منگوایا اور آج ختم ہو گیا۔ وہ کیسے ہوا؟ جبکہ تم نے کپڑے بھی نہیں دھوئے۔ میں نے دراصل راشن کھولا ہی نہیں ہے۔

یہ صریحاً جھوٹ تھا۔ والد کو اور غصہ آیا تو چھری اٹھا کران کو قتل کرنے کو دبوچا تبھی چیخ پکار پر پڑوسی آ گئے اور انہوں نے ابو کے ہاتھ سے چھڑا لیا اور ان کو سمجھا بجھا کر گھر سے باہر لے گئے – وہ قیامت کا دن تھا ہمارے محلے میں پہلا شور شرابا تھا۔ والد صاحب شدید ذہنی خلفشار کا شکار تھے۔ اپنی اولاد کی خاطر بیوی کو طلاق بھی نہ دیتے تھے کہ بیٹیاں کدھر جائیں گی۔ والد صاحب ماموں کے پاس گئے۔ سارا احوال کہا۔ اندازہ توان کو بھی تھا، اس وجہ سے کوئی ماموں، امی کو منہ نہ لگاتا تھا۔ بہر حال بڑے ماموں نے دلاسا دیا کہ تم صبر سے کام لو باقی میں خود دیکھ لوں گا۔ وہ ہمارے گھر آکر رہنے لگے۔ ماموں بھی کب تک پہرہ دیتے۔ دو چلتے پیروں کا کوئی بھی پہرہ نہیں دے سکتا۔ ابو اپنے بھائیوں کے پاس چلے گئے ۔ کچھ دن ماموں ساتھ رہے، پھر ان کی بیوی نے شور مچایا تو اپنے گھر چلے گئے۔ خرچہ دینا بھی بند کر دیا۔ امی نے پھر وہی روش اختیار کر لی ، جس میں عزت کا تو گھاٹا تھا مگر کھلا خرچہ اور اچھا کھانا پینا تھا۔ وہ حرام کے خرچے پر ہم کو پال رہی تھیں۔میں مجبور تھی مگر دل میں ٹھان لی کسی طرح بھی تعلیم مکمل کر لوں تو پھر عزت والی نوکری کر کے بہن بھائی کو خود سنبھال لوں گی اور ہم امی سے علیحدہ ہو کر ابو کے پاس چلے جائیں گے۔ ایسے حالات میں بھی محنت سے پڑھ رہی تھی۔ میری انگریزی کمزور تھی ، سالانہ امتحان سر پر تھے۔ ابو میری خاطر پھر کام پر جانے لگے۔ صبح جاتے رات کو آتے ،ساری کمائی میری ماں کے ہاتھ پر رکھتے مگر ان کی شریک حیات کو شو ہر کی کمائی اچھی نہ لگتی کہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر تھی۔ابو کے کام پر جاتے ہی وہ پھر پرانی ڈگر پر چل پڑیں۔ ایسی باتیں نہیں چھپتیں، اب تو محلے والے ٹوہ میں تھے۔ کسی نے والد کے کان میں بھنک ڈال دی۔اس کے بعد ایک بار پھر والد صاحب غائب ہو گئے ۔ امی کو مکمل آزادی نصیب ہو گئی۔ ایک روز چچا اور پھوپھی والد صاحب کا پتہ کرنے آئے کہ کافی دن سے ملنے نہیں آئے کدھر ہیں؟ امی نے بتایا کہ وہ تو کب سے گھر سے چلے گئے ہیں۔ نجانے کہاں معلوم نہیں، ہم تو خود پریشان ہیں۔ چچا کو یقین نہ آیا، کہا کہ تم نے خود غائب کروایا ہے۔ ہم کو یقین ہے بتاؤ ہمارا بھائی کہاں ہے، ورنہ پولیس میں رپورٹ کرتے ہیں ۔ امی ڈر گئیں، ادھر میں ادھر پھوپھیاں اور چچا وغیرہ سخت پریشان تھے اور میرے سالانہ امتحان میں پندرہ روز باقی تھے۔ گھر میں ایسے عالم میں پریشانی کی وجہ سے پرچوں کی تیاری ناممکن تھی۔ میری ایک کلاس فیلو اکیڈمی پڑھنے جایا کرتی تھی۔ میں نے جب اپنی پریشانی کا ذکر کیا، اس نے اکیڈمی کے سر سے بات کی اور مجھ سے کہا کہ کل سے تم اکیڈمی میرے ساتھ چلا کرو، سر بہت اچھا پڑھاتے ہیں اور پرچوں کی تیاری کراتے ہیں۔ میں فوزیہ کے ساتھ اکیڈمی جانے لگی۔

سرنے مجھے پریشان دیکھا تو کہا کہ تم کیوں پریشان ہو، میں نے علیحدگی میں ان کو سارا قصہ سنایا تو ان کو میری والدہ کے کردار کا علم ہو گیا۔ انہوں نے کہا میں تمہاری تیاری خصوصی طور پر علیحدہ ٹیچر سے کرا دیتا ہوں ۔ انہوں نے ایک شخص کے ذمے لگا دیا دو تین روز توان صاحب نے بہت خلوص اور توجہ سے پڑھایا لیکن پھر اس کی نیت خراب ہوگئی اور ایک روز جب تمام طالب علم چلے گئے، اس نے کلاس روم کا دروازہ لاک کر دیا اور مجھے کو بے آبرو کرنا چاہا مگر میں نے فراست سے کام لیا اور کہا۔ سر جیسی میری ماں ہیں میں ویسی نہیں ہوں۔ میں ایک اچھے خیالات کی پاکیزہ مگر مجبور ہوں۔ خدارا مجھ پر دست درازی کر کے میری عزت کو خاک میں نہ ملانا اگر میں آپ کو اتنی ہی پسند آ گئی ہوں بے شک مجھ سے نکاح کر لیں۔ میں آپ کے ساتھ کورٹ میرج کرنے پر بھی تیار ہوں۔ کم از کم جائز طریقہ سے تو آپ کی کہلاؤں گی۔ شاید میری معصومیت اور بے بسی نے اس کے دل پر اثر کیا۔ بولے مگر میں تو عمر رسیدہ اور شادی شدہ ہوں۔ میرے چار بچے ہیں۔ کیا ایسی صورت میں تم مجھ سے نکاح کر لو گی۔ ہاں میں کرلوں گی آپ عمر رسیدہ ہیں یا بال بچوں والے اگر آپ مجھے عزت تو دے سکتے ہیں۔ عزت کی زندگی کے ساتھ شوہر کی حلال کی کمائی ہی عورت کا فخر ہوتی ہے۔ میں اس پر بھی فخر کروں گی۔ بے شک آپ مجھ سے بڑے کیوں نہ ہوں کیونکہ والد تو پتہ نہیں زندہ ہیں یا کسی نے ان کو ختم کر دیا ہے۔ میرے چچا تو یہی رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ ہمارے بھائی کو مرداد یا ہے۔ ماں عمر رسیدگی کی طرف جارہی ہے۔ ایسے میں ان کی حرص بھری طبیعت کا پہلا نشانہ میں ہی بنو گی اور میں ایسا ہر گز نہیں چاہتی۔ اس سے تو بہتر ہے کہ میری شادی کسی ایسے فقیر سے ہو جائے جس کے گھر میں غربت سے فاقے پڑتے ہوں مگر وہ میری عزت کا محافظ بن جائے۔ سر میں بے بس و مجور مگر اچھی سوچوں کی مالک اور ایک با عصمت لڑکی ہوں۔ میں یہ کہتے ہوئے رورہی تھی اور میری ہچکیاں بندھ گئی تھیں۔ اس شخص کے اندر کا شیطان اس دم مر گیا اور ضمیر جاگ گیا۔ اس نے کہا۔ بے شک تم ایک ایسی لڑکی ہوں کہ کوئی بھی مرد تم سے شادی کر کے فخر محسوس کر سکتا ہے، خواہ وہ اوباش ہی کیوں نہ ہو . میں تم سے شادی نہیں کر سکتا کیونکہ میری بیوی میری اور تمہاری زندگی کو دوزخ بنا دے گی۔

اس کے بھائی رسوخ والے ہیں، ہاں ہم اپنے چھوٹے بھائی کے لئے لڑکی تلاش کر رہے ہیں، اس نے انہی دنوں وکالت کا امتحان پاس کیا ہے۔ اگر تم راضی ہو تو میں اپنے چھوٹے بھائی سے تمہارا نکاح کر دوں گا۔ بہر حال میں اپنے غلط ارادے پر شرمندہ ہوں، دراصل میں نے جب تمہاری والدہ کے بارے میں سنا تو یہی سمجھ لیا کہ تم کو بھی وہ اسی روش پر چل رہی ہوگی ۔ بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں کیا ہرج ہے۔ پھر اس نے مجھ سے معافی مانگی۔ میں نے ان کے چھوٹے بھائی سے نکاح پر رضامندی دی تو انہوں نے یہ شرط رکھی کہ کبھی اس واقعہ کا تذکرہ میرے بھائی سے مت کرنا۔ میں نے وعدہ کیا۔ ظاہر ہے کہ ایسی غلطی کر کے میں اپنا دامن انگاروں سے کیونکر بھر لیتی۔ سرنے میری شادی اپنے چھوٹے بھائی سے کروادی۔ ماں تو کیا ماموں بھی شریک نہ ہوئے مگر میں نے کسی کی پروانہ کی عزت بھری زندگی کی آرزو میں سب رشتوں کو ٹھکرا کر چلی آئی۔ میرے شوہر کا نام ظفر ہے اور کردار میں ہیرا ہیں۔ جنہوں نے مجھے عزت اور زندگی کا سب سکھ دیا ہے۔ کبھی میری ماں کا طعنہ نہ دیا۔ اس لئے میں نے بھی پیچھے مڑکر نہ دیکھا۔ پھپھونے میری چھوٹی بہن کو ماں سے لے لیا، کیونکہ والد صاحب کا کوئی سراغ نہ ملا۔ چھوٹا بھائی ماں کے ساتھ رہا مگر جب باشعور ہوا وہ خود بخود میرے پاس آ گیا، جس کو میرے خاوند نے پڑھایا لکھایا اور پھر اپنے ساتھ وکالت میں لگا لیا۔ آج اس کی زندگی سدھر گئی ہے اور چھوٹی بہن کی شادی پھپھو نے اپنے بیٹے سے کر دی ہے۔ وہ بھی اپنے گھر میں خوش ہے مگر ماں اب اکیلی رہ گئی ہے جس کا بڑھاپا خوار ہے۔ ان کے لئے ہر نماز کے بعد اپنے رب سے رحمت کی دعا کیا کرتی ہوں۔ اس کے سوا اور کیا کر سکتی ہوں ۔ والد بہت یاد آتے ہیں۔ ان کے بھائی بہنوں نے ان کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا ہے۔ سوچتی ہوں مجھ سے بہت محبت کرتے تھے۔ شاید اب اس دنیا میں نہیں رہے، ورنہ کبھی تو ہم سے آملتے۔

Latest Posts

Related POSTS