والدین نے اپنے تیسرے بیٹے کا نام سرفراز رکھا لیکن اس نے سر اونچا کرنے کی بجائے انہیں سرنگوں کر دیا۔ خدا جانے میرے ماں باپ سے ایسی کون سی کوتاہی ہوئی کہ صرف سولہ سال کی عمر میں ہی میرا بھی سیدھے راستے سے بھٹک گیا اور چند آوارہ لڑکوں کے ہتھے چڑھ گیا۔ میٹرک تک وہ بہت سیدھا سادہ نیک اور نمازی تھا۔ فرسٹ ایئر میں داخلہ لیا تو دوستی آوارہ مزاج لڑکوں سے ہوگئی۔ ان لڑکوں کے کچھ دوست عمر میں ان سے بڑے تھے۔ انہیں نے میرے بھولے بھالے کم سن بھائی کو گھیر لیا۔ سرفراز نے فرسٹ ایئر جوں توں کر کے پاس کر لیا لیکن سیکنڈ ایئر میں پر پرزے نکال لئے۔ اب وہ کالج جانے کی بجائے ان اوباش لڑکوں کے ہمراہ لڑکیوں کے اسکول جانے لگا۔ ایک گرلز ہائی اسکول سرفراز کے کالج کے رستے میں پڑتا تھا۔ یہ لڑ کے ایک جتھے کی صورت میں اس اسکول کے ارد گرد منڈلاتے تھے۔ وہ طالبات پر آوازے کستے ، جو پیدل ہوتیں ان پر جملے بازی کرتے اور ساتھ ساتھ چلنے لگتے۔ جب وہ پریشان ہوتیں تو محظوظ ہوتے ۔ وہ بڑبڑا تیں یا بوکھلا جاتیں تو ٹھٹھے لگاتے۔ ہماری خواہش تھی سرفراز پڑھ لکھ کر اعلیٰ افسر بن جائے اور ماں باپ کا نام روشن کرے۔ ابو اور بھائی اسی وجہ سے اس کو دکان کے کاموں میں نہیں الجھاتے تھے تا کہ وہ مکمل سکون اور توجہ سے اپنی تعلیم جاری رکھ سکے۔ امی صبح سویرے بیدار ہو جاتیں۔ نماز فجر اور تلاوت قرآن پاک کے بعد وہ ناشتہ بنا کر میز پر لگا دیتیں۔ میں اور امی مل کر ناشتہ تیار کرتے تھے جبکہ چھوٹی بہن قریبی اسکول پڑھنے جاتی تھی۔ ناشتے کے فورا بعد ابو اور میرے دونوں بڑے بھائی دکان پر چلے جاتے اور سرفراز کالج جانے کی تیاری میں مصروف ہو جاتا۔ وہ ساڑھے سات بجے گھر سے نکل جاتا لیکن کالج کی بجائے دوستوں کے پاس پہنچ جاتا۔ جو اپنی موٹر سائیکلوں پر اسے لینے گلی کے نکڑ پر کھڑے ہوتے تھے وہ ان کے ساتھ چلا جاتا۔ پھر یہ سب کالج جانے کی بجائے نزد یکی گرلز ہائی اسکول کے پاس ٹھہر جاتے۔ طالبات پر آوازے کستے ، ان کو چھیڑتے اور پریشان کر کے خوش ہوتے ۔ گویا یہ ان کی روز کی ہابی تھی کیونکہ اسکول ساڑھے سات بجے لگتا اور کالج ساڑھے آٹھ بجے تبھی یہ گھنٹہ بھر پہلے گھر سے نکلتے تھے۔
ایک دو مرتبہ کچھ اچھے طالب علموں نے ان کو سمجھانا چاہا مگر انہوں نے ان کی پٹائی کر دی۔ اب کوئی بھی انہیں سمجھانے والا نہ تھا۔ خوف زدہ لڑکیاں اپنی تعلیم اور عزت کی خاطر کسی سے شکایت نہ کرتی تھیں۔ وہ سر جھکائے جلدی جلدی ان کے سامنے یا پاس سے گزر کر اسکول کے اندر چلی جاتی تھیں۔ ان دنوں ایک سرخ بستے والی لڑکی ان کی شرارتوں کا مرکز بن گئی۔ یوں کہ وہ کچھ بو اور خاموش طبع تھی۔ جب یہ آوازے کستے یا سیٹی بجاتے وہ بیچاری پسینے پسینے ہو جاتی اور تیز تیز چلتی بلکہ یوں کہا جائے کہ اپنے اسکول کی طرف جیسے دوڑ لگا دیتی۔ اس کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ گھر سے پیدل اسکول تک جاتی تھی۔ باپ بوڑھا تھا اور سواری کا کوئی انتظام نہ تھا۔ یہ اس کی مجبوری تھی کہ وہی ایک رستہ تھا جو اس کے گھر سے اسکول تک جاتا۔ اگر کوئی دوسرا رستہ ہوتا تو یہ شیطان وہاں بھی پہنچ جاتے۔ کچھ دن تو وہ برداشت کرتی رہی۔ ایک روز ہمت کر کے ٹھہر گئی اور ان سے مخاطب ہوئی کہ کیا آپ لوگوں کے دل میں ذرا سا بھی خوف خدا نہیں ہے؟ یا کہ آپ کی بہنیں نہیں ہیں؟ آپ کو کوئی اور کام ہے؟ آگے آگے میرا بھائی سرفراز تھا، بولا لڑکیوں کو چھیڑنا ہمارا مشغلہ ہے، اگر ہم صبح سویرے ایسا نہ کریں تو سارا دن بورگزرتا ہے۔ اس پر دوسروں نے گرہ لگائی۔ ہاں ، ہاں۔ ڈارلنگ ایسا ہی ہے- لڑکی نے غصے سے کہا کہ آپ کو شرم آنی چاہئے۔ میں آپ کی بہن کے جیسی ہوں ۔ سرفراز نے زیادہ تیزی دکھائی اور ہنس کر بولا۔ میری بہنیں تو میرے گھر میں ہیں اور تم تو، وہ غصے سے سرخ ہوگئی ۔ جواب دیا۔ بکواس بند کرو، میں نے تم کو شرافت سے سمجھانا چاہا مگر تم لوگ لگتا ہے کسی ڈھیٹ مٹی سے بنے ہو۔ کل دیکھ لوں گی تم لوگوں کو۔
یہ کہ کر وہ تیز تیز قدم اٹھاتی چلی گئی تھی سرفراز اور اس کے گروپ نے قہقہ لگایا۔ جیسے چوہے نے شیر کو مقابلے کا چیلنج دیا ہو۔ اگلے دن پھر یہ اپنی مخصوص جگہ پر کھڑے تھے۔ انہوں نے جب سرخ ہستے والی لڑکی کو آتے دیکھا تو قہقہ مارکر ہنس پڑے کیونکہ وہ اکیلے آ رہی تھی۔ کوئی تیس مارخان اس کے ساتھ نہ تھا۔ جیسا کہ وہ کل دھمکی دے کر گئی تھی۔ وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ اس کا بوڑھا باپ کچھ پیچھے چلا آ رہا ہے۔ لڑکوں نے میرے بھائی کو اشارہ کیا۔ یہ تجھے پسند ہے اب تو ہی اس کو مخاطب کر ۔ سرفراز سینہ پھلا کر آگے بڑھا۔ اور اس کو مخاطب کیا۔ او سرخ بستے والی حسینہ۔ وہ کل والی دھمکی کا کیا ہوا؟ تیرے ساتھ تو کوئی تیس مار خان نہیں ہے۔ وہ ٹھہر گئی، اور شعلہ بار نگاہوں سے گھور کر بولی ۔ او چڑیا کے بچے اگر تجھ میں ہمت ہے تو یہیں ٹھہرے رہنا۔ اتنے میں اس کا باپ پہنچ گیا اور آتے ہی اس نے سرفراز اور اس کے دوستوں کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا کہ بے شرم ہو تم کو شرم نہیں آتی۔ لڑکی کو اکیلی دیکھ کر چھیڑتے ہو۔ وہ منہ پھاڑ کر ہنسے۔ وہ بزرگ انہیں مارنے کو دوڑا۔ تب ان نوعمر نوجوانوں نے دھکا دے کر اسے پچھاڑ دیا اور فرش پر گرا دیا اور پھر اپنے کالج کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے۔ وہ بڑے مسرور تھے گویا انہوں نے سرخ بستے والی کے حمایتی کو سبق سکھا دیا تھا۔ قریب سے گزرنے والوں نے بعد میں اس بزرگ کو شانوں سے پکڑ کر اٹھایا- اس پھولا ہوا تھا، اس نے سڑک کے سامنے بنی دکان سے ان لڑکوں کا گھر پوچھا، دوکاندار ابوکو جانتا تھا اور یہ بھی کہ سرفراز ان کا بیٹا ہے۔ اس نے ہمارے گھر کا پتہ اسے بتا دیا کیونکہ وہ اپنی دکان پر بیٹھا سارا منظر دیکھ چکا تھا۔
شام کو وہ بزرگ ہمارے گھر آئے اور ابو کا نام لے کر دریافت کیا کہ مشتاق صاحب گھر پر ہیں؟ والد صاحب دکان سے جلدی آجاتے تھے۔ وہ دروازے پر گئے اور بزرگ کو بیٹھک میں لے آئے، پھر آنے کا سبب دریافت کیا، لڑکی کے باپ کی آنکھیں نم ناک تھیں مگر چہرے پرغصے کے تاثرات تھے۔ تمام واقعہ کہہ سنایا تو والد صاحب کو بے حد افسوس ہوا اور اس نے ان صاحب سے معافی مانگی۔ اور کہا کہ آئندہ سے ایسا نہیں ہوگا۔ اس شخص کے جانے کے بعد والد صاحب نے سرفراز کو طلب کیا اور پوچھا کہ تمہارا ہی نام سرفراز ہے نا؟ تو برخوردار جوان ہو گئے ہیں اور اب لڑکیوں کو چھیڑتے ہیں؟ کیا تم اس بات سے باخبر ہو کہ تمہاری دو بہنیں ہیں اگر انہیں کوئی چھیڑے تب؟ سرفراز نے گھبرا کر کہا۔ یہ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ابا جان۔ والد نے دانت پیس کر کہا اگر آئندہ تم نے ایسا کوئی کام کیا تو جان سے مار ڈالوں گا۔ یہ تمہاری پہلی اور آخری معافی ہے- اگلے دن پھر وہ اپنی مخصوص جگہ پر کھڑے لڑکیوں کے وہاں سے گزرنے کا انتظار کر رہے تھے۔ سرفراز نے اپنے دوستوں کو بتایا کہ وہ بوڑھا باپ اس کے گھر شکایت لے کر گیا تھا کیونکہ دکاندار کو صرف اس کے گھر کا پتہ معلوم تھا اور باپ نے اس کی خوب بے عزتی کی ہے۔ دوست بولے بے فکر ہو جاؤ ۔ آج ہم بے عزتی کا بدلہ لے کر رہیں گے۔ جب سرخ بستے والی ان کے قریب سے گزری تو سرفراز کے دوستوں نے اس کا بستہ چھین لیا اور ایک طرف دوڑ لگا دی وہ بے چاری بے بسی سے ہاتھ ملتی رہ گئی۔ شام کو سرفراز کو پتہ چلا کہ آج تو ابو بہت غصے میں ہیں اور اسے بیٹھک میں بلا رہے ہیں تو وہ ان کو بلانے پر ڈر گیا۔ تبھی اس نے دیکھا کہ وہی بزرگ آدمی دوبارہ آیا ہوا ہے۔ اس کا دل دھڑکنے لگا۔ والد صاحب نے ڈانٹ کر پوچھا تم نے ان کی بیٹی کا بستہ کیوں چھینا؟ کیا تم نہیں جانتے کہ دین کی رو سے تمہاری بہن کی طرح ہے۔ سرفراز نے کانپتے ہوئے جواب دیا۔ ابا جان میں قسم کھانے کو تیار ہوں کہ میں نے ان کی بیٹی کا بیگ نہیں چھینا۔ شاید کہ دوسرے لڑکوں نے چھینا ہوگا۔ آپ نے جب سے مجھے کہا ہے میں تو ہر لڑ کی کواپنی بہن سمجھتا ہوں۔ تب والد صاحب نے لڑکی کے والد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا دیکھیے بڑے میاں میں صرف اپنے بیٹے کا ذمہ دار ہوں اوروں کا نہیں، جس نے بستہ چھینا ہے آپ اس کے گھر جائیے، بزرگ نے کہا۔ مگر جناب ! وہ لڑ کے آپ کے بیٹے کے دوست تو ہیں۔ سرفراز نے صفائی پیش کی آبا جان ! دوست تھے لیکن اب نہیں ہیں۔ میں نے ان سے دوستی ختم کر لی ہے۔ ابو نے کہا۔ بزرگوار سن لیا آپ نے اب بغیر ثبوت میں اپنے بیٹے کو کوئی سزا دینے سے رہا۔ آپ ان ہی لوگوں کے گھر جائیے۔ اگلے دن سرفراز نے ان لڑکوں کو آگاہ کیا کہ وہ بڈھا تو پھر آیا تھا، مجھے پھانس لگوانے مگر میں نے بھی بہت چالا کی سے کام لیا۔ اس طرح آبا جان کے سامنے ایکٹنگ کی کہ وہ بھی غصّے میں آگئے اور اسی کو اس کے گھر کا رستہ دکھا دیا جو شکایت کرنے آیا تھا۔ وہ یہ قصہ سن کر بے اختیار ہنسنے لگے۔ چند دنوں بعد وہاں سے ایک ایسی لڑکی گزرنے لگی جس نے ہمیشہ نقاب اوڑھا ہوتا تھا۔ سرفراز اور اس کے ساتھی اب اس برقع پوش کو چھیڑنے لگے۔
ایک دن اس لڑکی نے قریب آکر کہا تم لوگ کیوں بلاوجہ مجھ سے مخاطب ہو کر آواز بلند کرتے ہو، کیا تمہاری بہنیں نہیں ہیں؟ سرفراز نے مسکرا کر جواب دیا، ان کو چھوڑو ڈارلنگ وہ تو گھر کے اندر رہتی ہیں۔ باہر تو تم گھومتی پھرتی ہو تم اپنی بات کرو۔ لڑکی نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ مسٹر سرفراز یہ سب تو تم کو اکساتے ہیں کہ اگر پٹائی لگے تو تمہاری لگے۔ تم ان سے کم عمر لگتے ہو، یقینا تمہاری عقل بھی ان سے کم ہوگی۔ بہر حال آج کے بعد تم ہر لڑکی کو اپنی بہن سمجھو گے۔ لڑکی کو آواز بدلنے میں ملکہ حاصل تھا اور سرفراز بے وقوف کی عقل پر تو جیسے پردہ ہی پڑا ہوا تھا۔ وہ لہک چہک کر بولا ۔ اچھا ٹھیک ہے لیکن ذرا اپنا نقاب تو ہٹاؤ۔ کیوں؟ جواب ملا….. اس لئے کہ تمہارا چاند سا چہرہ دیکھ سکیں۔ دوسرے لڑکے نے گرہ لگائی۔ تب ہی لڑکی نے نقاب ہٹا دیا چہرہ دیکھتے ہی سرفراز کا دماغ جیسے بھک سے اڑ گیا ہو۔ اسے یوں محسوس ہوا جیسے اس کے جسم کا سارا خون ہی کسی نے نچوڑلیا ہو۔ آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا کیونکہ سامنے اس کی اپنی بہن کھڑی تھی سگی ماں جائی فرخندہ جبیں- اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ وہ ہکلایا۔ آپا یہ تم ہو لیکن ان لوگوں نے اس کی بہکلاہٹ میں اس ٹوٹے پھوٹے جملے کو سنا ہی نہ ہو جیسے وہ کہہ رہے تھے کیا خوبصورتی ہے لگتا ہے فرشتوں نے دن رات ایک کر کے یہ صورت بنائی ہے۔ واہ کیا چاند چہرہ ہے؟ آج تک ایسا حسین مکھڑا نہیں دیکھا۔ ان کے بول سن کر سرفراز کے خون میں چنگاریاں سی پیدا ہوگئی تھیں۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، اپنے دوستوں پر حملہ کر دیا۔ وہ بوکھلا اٹھے۔ انہوں نے سرفراز کو پکڑ لیا اور پوچھا کہیں تم پاگل تو نہیں ہو گئے جو اپنے ہی ساتھیوں سے لڑ رہے ہو۔ کیا تم اس لڑکی پر، اس کی ایک جھلک دیکھتے ہی عاشق ہو گئے ہو۔ کمینو، بہرو تم نے سنا نہیں یہ میری بہن ہے۔ ایک آوارہ بولا۔ روزانہ جواتنی لڑکیوں پر آوازے کستے ہو، کیا وہ بھی تمہاری بہنیں تو نہیں ہوتیں ۔ سرفراز کولگا جیسے اس کے دوستوں نے اسے سچائی کا چھرا گھونپ دیا ہو۔ اس نے بہن کو ساتھ لیا اور گھر آ گیا۔ دوستوں کے بے ہودہ فقروں کو سن کر آج اس کے ذہن میں آندھیاں سی چل رہی تھیں اب اسے احساس ہوا کہ جس بات کو وہ تفریح کے طور پر لیا کرتا تھا اور معمولی مذاق سمجھا کرتا تھا، وہ کس قدر سنگین جرم تھا۔ کسی کی بہن کو بے ہودہ بات کہنا کسی بے قصور کو چھیڑنا، پریشان کرنا جبکہ وہ ایک اعلیٰ مقصد کو پانے کی خاطر گھر سے نکلی ہو۔ جس کے ساتھ چل کر اسے اسکول یا کالج کے گیٹ تک پہنچانے والا بھی کوئی اپنا موجود نہ ہو اور جو مالی طور پر یہ استطاعت بھی نہ رکھتی ہو کہ کسی کار، موٹر سائیکل یا رکشا پر جاسکے۔ تنہا پیدل چلنا کڑی آزمائش اور امتحان ہے۔ ایک ایک قدم بھاری پڑ جائے ، آنسو دل میں گرتے ہوں اور شکایت کیلئے لب تک نہ کھول سکتی ہو، اس لڑکی پر کیا گزرتی ہو گی ۔ اس نے دل میں سخت شرمندگی محسوس کرتے ہوئے بہن کے پاس آکر شکوہ کیا کہ تم نے کتنی بڑی اور غلط حرکت کی ہے۔ آج مجھے میرے دوستوں کے رو برو شرمندہ اور ذلیل کر دیا ہے۔ جانتی ہو اس قدم سے میری یا ان میں سے کسی کی جان بھی جاسکتی تھی۔ وہ تو اپنے پاس اکثر چاقو اور چھرا وغیرہ چھپا کر لاتے تھے۔ بہن نے کہا. دیکھو سر فراز تمہیں پتہ تو چلا کہ بہنوں پر بے ہودہ فقرے کسنے والوں پر کتنا غصہ آتا ہے اور دل کو کس قدر تکلیف ہوتی ہے۔ ویسے تو تم سمجھنے والے نہ تھے۔ میں سرفراز سے تین سال بڑی تھی اور یہ میں ہی تھی جس نے اپنے بھائی کو سمجھانے کیلئے ایسا قدم اٹھایا تھا کیونکہ سرخ بستے والی فریاد لے کر جب میرے پاس آئی تو میں نے اسے بہن بنا لیا۔ وہ میری دوست بن گئی۔ وہ بہت شریف اور اچھی لڑکی تھی جس نے ان تنگ کرنے والے لڑکوں کی وجہ سے اسکول جانا چھوڑ دیا تھا کیونکہ اندیشوں کے باعث اس کا بیمار اور بوڑھا باپ اور بیمار پڑ گیا تھا اور کام پر نہ جانے کے باعث سارا گھرانا پریشان تھا۔ میں نے بھائی کی طرف سے اس سے معافی مانگی جس کا نام صاحبہ تھا اور پھر یہ واقعہ بھائی کو بتایا کہ وہ بے چاری اب تعلیم سے محروم ہوگئی ہے جو اپنے گھرانے کی غربت دور کرنے کا عزم لے کر تعلیم حاصل کرنے چلی تھی۔ سوچو سرفراز تم سے کتنا بڑا گناہ سرزد ہوا ہے۔ میں رورہی تھی، تب ہی سرفراز بھی رو پڑا اور میرے قدموں کو ہاتھ لگا کر کہا۔ مجھے معاف کر دو آپا جانی، آئندہ ایسا نہ کروں گا۔ ہرلڑکی کو بھائی کی نظر سے دیکھوں گا اور ان برے دوستوں کے گروپ میں اب نہ جاؤں گا، مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے۔ میرا بھائی تو راہ راست پر آگیا لیکن ان اوباش لڑکوں کو رد کر دینے کی تکلیف نے بے قرار کر دیا۔ سرفراز دلیر ، خوش گفتار اور بااعتماد تھا، وہ تھوڑا سا بے وقوف بھی تھا کہ جو وہ کہتے وہی کرتا۔ اپنے گروپ میں ضرورت تھی۔ انہوں نے کئی بارا سے بلایا لیکن وہ نہیں گیا۔ جب وہ بلاتے ، ان کے ساتھ جانے سے انکار کر دیتا تھا۔ اس پر بالآخر اس قدروہ برہم ہو گئے کہ اب اسے ڈھونڈتے پھرتے تھے۔ کہتے تھے ایک بار ہاتھ آجائے تو اس کو غداری کا مزہ چکھا دیں گے۔
ایک دن بھائی تازہ ہوا کھانے کو گھر سے قریبی پارک گیا۔ وہ کبھی کبھی وہاں جایا کرتا تھا۔ اوباش لڑکے تو اس کا پیچھا کرتے تھے ، ان کو پتہ چل گیا کہ سرفراز پارک جایا کرتا ہے، پس ایک روزان کو موقع مل گیا۔ یہ شام سے ذرا پہلے کا وقت تھا، بادل چھائے ہوئے تھے اور موسم خوشگوار تھا۔ پارک میں خاموشی اور مکمل سکوت تھا، بس پرندوں کی چہچہاہٹ اور چڑیوں کی چہکاریں سنائی دے رہی تھیں۔ وہ تنہا ایک بینچ پر بیٹھا فطرت کے حسین نظاروں سے لطف لے رہا تھا کہ اچانک اس کے وہی آوارہ دوست لڑکے وہاں آگئے اور ساتھ چلنے پر مجبور کرنے لگے۔ سرفراز نے صاف انکار کر دیا کہ اس کے والد نے پابندی لگادی ہے۔ اب وہ ان کے ساتھ نہیں جاسکتا۔ اس پر وہ اسے بہن کی گالیوں سے نواز نے لگے۔ سرفراز کو طیش دلایا اور بھڑ جانے پر مجبور کر دیا۔ پھر اس لڑائی میں ایک لڑکے نے چاقو نکال کر اس پر پہ در پہ وار شروع کر دیئے اور زمین پر گرا کر کئی چاقو اس کے جسم میں اتارے اور چلتے بنے۔ تھوڑی دیر بعد کچھ لوگ وہاں سیر کی غرض سے آئے۔ ان میں ایک ہمارا ہمسایہ بھی تھا۔ انہوں نے ایک لڑکے کو خون میں لت پت گرا ہوا پایا۔ قریب جا کر دیکھا ہمسایہ نے پہچان کر کہا، ارے یہ تو میرے پڑوسی قادر کا لڑ کا سرفراز ہے۔ اس نے والد صاحب کو آکر بتایا۔ ابو دوڑے گئے۔ پھر ایمبولنس کا انتظام کیا تب تک کافی خون بہہ چکا تھا۔ یوں میرا پیارا خوبرو شہزادوں کی شان والا بھائی لقمہ اجل بن گیا۔ سچ ہے کہ بُروں کی صحبت سے بچو اور بُرے لوگوں کو کبھی اپنا دوست نہ بناؤ کیونکہ بُرے انسان سے اچھائی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ کاش کہ میرا بھائی ان بدقماش لڑکوں کے چنگل میں نہ پھنستا تو آج وہ ہم میں موجود ہوتا۔ والد اور بڑے بھائی تو دکانداری میں مصروف رہتے تھے ان کو کیا خبر کہ سرفراز نے کیسے لڑکوں کی صحبت اختیار کر رکھی ہے۔ بزرگوں کا فرض ہے کہ اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھیں، خاص طور پر اس امر پر کہ ان کے بچے کس قسم کے لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے ہیں۔