میں اب باقی زندگی مرضی سے اٹھوں گا‘ اخبار پڑھوں گا‘ واک کروں گا‘ نمازیں پوری کروں گا‘ دوستوں سے گپ لگائوں گا‘ شام کو جم جائوں گا‘ کتابیں پڑھوں گا اور سو جائوں گا‘ میں فلمیں بھی دیکھوںگا اور ملک ملک بھی پھروں گا اور بس‘‘ وہ خاموش ہو گئے‘ کمرے میں ذرا سی حدت تھی‘ شاید کوئی کھڑکی کھلی رہ گئی تھی‘ اے سی کی ٹھنڈی ہوا کھڑکی سے باہر جا رہی تھی اور گرم تھپیڑے اندر آ رہے تھے لیکن وہ بے پروا ہو کر مسلسل بول رہے تھے۔
وہ سیلف میڈ بزنس مین ہیں‘ دس سال کی عمر میں کام شروع کیا‘ پچاس سال محنت کی اور ملک کے پانچ سو بڑے صنعت کاروں میں شامل ہو گئے‘ وہ اب ملک کے حالات کی وجہ سے پریشان تھے‘ میں ان کی پریشانی کم کرنے کے لیے آیا تھا لیکن انھوں نے الٹا مجھے پریشان کر دیا‘ وہ بولے ’’ میں اب باقی زندگی کام نہیں کروں گا‘ بیٹے ملک سے باہر ہیں‘ وہ وہاں کام کریں گے‘ بیٹیاں اور داماد امریکا اور اسپین میں ہیں‘ یہ وہاں خوش حال زندگی گزار رہے ہیں‘ میں اور میری بیوی رہ گئے ہیں‘ ہمارے لیے کرائے کافی ہیں‘ ہم سردیوں میں پاکستان آئیں گے اور گرمیوں میں باہر چلے جائیں گے اور بس‘‘ وہ سانس لینے کے لیے رک گئے۔
میں نے عرض کیا ’’لیکن آپ تو فرمایا کرتے تھے کام خدمت ہے‘ ہم جیسے لوگ کام کریں گے تو ملک چلے گا‘ عوام کو روزگار ملے گا اور ریاست کے پاس پیسا آئے گا مگر اب آپ ہی ہمت ہار گئے ہیں‘‘ شیخ صاحب نے لمبی سانس لی اور بولے ’’ میں بیوپاری ہوں‘ میں ٹیپو سلطان نہیں ہوں‘ آپ مجھ سے شیر کی ایک دن کی زندگی کی توقع نہ کریں‘ آپ مجھے عزت‘ اسپیس اور گروتھ کا موقع دیں گے تو میں کام کرسکوں گا ورنہ دوسری صورت میں میرے پاس بے شمار آپشن ہیں‘‘ وہ رکے اور بولے ’’مثلاً دنیا کے ہر ملک میں ایک ملین ڈالر کا مالک شخص امیر سمجھا جاتا ہے۔
آپ نے اگر زندگی میں سترہ اٹھارہ کروڑ روپے کما لیے ہیں اور آپ فضول خرچ اور بے وقوف نہیں ہیں تو پھر آپ اس رقم سے بہت اچھی زندگی گزار سکتے ہیں‘ آپ آدھی رقم سے کمرشل پراپرٹی بنا لیں‘ آپ کو کرایہ آنا شروع ہو جائے گا‘ آپ باقی آدھی رقم اسٹاک ایکسچینج اور شارٹ ٹرم سرمایہ کاری کے لیے وقف کر دیں اور ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر مطمئن زندگی گزار دیں‘ نہ ہڑتالوں کا خوف‘ نہ ملازمین کی بک بک‘ نہ بجلی اور گیس کے بل‘ نہ را میٹیریل کی درآمد‘ نہ مال کی ایکسپورٹ کا ایشو‘ نہ ماحولیاتی انسپکٹر کا خوف اور نہ ایف بی آر اور نیب کا ڈر‘ اپنی مرضی سے سوئیں اور اپنی مرضی سے جاگیں۔
ہمارے پاس دوسرا آپشن نقل مکانی ہے‘ آپ ون ملین ڈالر امریکا‘ کینیڈا‘ برطانیہ یا یورپ کے کسی ملک میں منتقل کر دیں‘ یہ آپ کو فوراً نیشنلٹی دے دیں گے‘ آپ دو لاکھ ڈالر کا مکان لیں اور آٹھ لاکھ ڈالر سے پراپرٹی‘ شیئرز یا دکانیں خریدلیں اور مزے سے زندگی گزاریں‘ حکومت آپ کو مفت علاج کی فائیو اسٹار سہولت بھی دے گی‘ بچوں کو تعلیم بھی اور لٹنے برباد ہونے کا خطرہ بھی نہیں ہوگا‘ یہ سہولت اب سعودی عرب اور یو اے ای بھی دے رہا ہے‘ آپ اپنا پیسا وہاں بھی شفٹ کر سکتے ہیں اور تیسرا آپشن کاروبار کی شفٹنگ ہے‘ پوری دنیا تاجروں‘ سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں کا انتظار کر رہی ہے۔
آپ نے بس خود کو کام یاب بزنس مین ثابت کرنا ہے اور دنیا آپ کو مفت زمین بھی دے گی‘ قرضے بھی اور ٹیکس ایمنسٹی بھی‘ آسٹریلیا اور کینیڈا نے اپنی سرحدیں ہنرمندوں تک کے لیے کھول دی ہیں‘ آپ اگر کوالی فائیڈ ویلڈر بھی ہیں تو آپ آسٹریلیا چلے جائیں یا کینیڈا یہ آپ کو شہریت اور عزت دونوں دیں گے‘ میرے پاس بھی یہ تمام آپشن موجود تھے لیکن میں روح کی گہرائی تک پاکستانی ہوں چناں چہ میں پہلے آپشن پر چلا گیا‘ میں نے کام بند کرنے کا فیصلہ کر لیا‘ اللہ تعالیٰ نے مجھے میری اوقات اور ضرورت سے زیادہ دے رکھا ہے‘ میں اب کرائے کھائوں گا اور اللہ اللہ کروں گا‘ ملک جانے اور ملک چلانے والے جانیں‘‘۔
میں نے بھی لمبی سانس لی اور عرض کیا ’’لیکن جناب ایشو کیا ہے؟‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’ایشو بزنس اور کام یابی ہے‘ ہمارے ملک میں کام اور کاروبار کرنے اور کام یاب لوگوں کی کوئی عزت نہیں‘ ہمیں ہر شخص چور‘ ڈاکو اور لٹیرا سمجھتا ہے چناں چہ ہم لوگ چوکیدار سے لے کر صدر تک ہر شخص کے ہاتھوں ذلیل ہوتے ہیں‘ ملک میں جو بھی حکومت آتی ہے وہ سب سے پہلے تاجروں‘ بزنس مینوں اور صنعت کاروں کو ٹائیٹ کر دیتی ہے‘ وہ کمانے والے بیٹے کو نکمے بیٹوں سے جوتے مرواتی ہے‘ معیشت ایک مشکل شعبہ ہے لیکن اس کے اصول بہت سادہ ہیں مثلاً کمائی پہلے آتی ہے اور ٹیکس بعد میں۔
آپ کمائیں گے تو ہی ٹیکس دیں گے‘ آپ اگر کما نہیں رہے‘ اگر آپ کی گروتھ رک گئی ہے تو ایف بی آر خواہ آپ کو الٹا لٹکا دے یہ آپ سے ایک دھیلا بھی وصول نہیں کر سکے گا‘ آپ لوگوں کو پہلے کمانے دیں‘ آپ پھر ٹیکس لگائیں لیکن آپ ساری انڈسٹری‘ سارے کاروبار بند کرا کے وصولیوں پر جت گئے ہیں‘ ملک کے تمام بڑے سیکٹر اس وقت منفی گروتھ پر ہیں‘ زراعت منفی ساڑھے چھ فیصد پر چلی گئی‘ کپاس کی پیداوارمنفی 12.74 رہی‘کان کنی اور صنعتی پیداوار منفی دو فیصد رہی‘ مینوفیکچرنگ منفی 0.3 فیصد پر پہنچ گئی اور تعمیرات کا شعبہ منفی 7.6 فیصد پر گر گیا لیکن آپ ٹیکس بڑھاتے چلے جا رہے ہیں‘ لوگ کہاں سے پیسا لائیں گے اور آپ کو کیسے ادا کریں گے؟
معیشت کا دوسرا اصول سرمایہ کار کا اعتماد ہوتا ہے اور یہ اعتماد اسے حکومت دیتی ہے لیکن پورے ملک میں اس وقت خوف کا عالم ہے‘ آپ کو نائی سے لے کر گاڑیاں بنانے والے تمام لوگوں کے چہروں پر خوف نظر آتا ہے‘ مجھے کل کوئی صاحب بتا رہے تھے حکومت نے پانچ ہزار بزنس مینوں کی فہرست بنا لی ہے‘ حکومت ان لوگوں کو باری باری اٹھائے گی اور یہ جب تک اپنی جیبیں خالی نہیں کریں گے یہ باہر نہیں آ سکیں گے‘ آپ بے وقوفی کی انتہا دیکھیے حکومت یہ تک نہیں جانتی سرمایہ کاروں کے پیسے جیبوں یا تجوریوں میں نہیں ہوتے‘ مارکیٹ اور بینکوں میں ہوتے ہیں اور بینک اور مارکیٹ دونوں ریاست کے پاس ہوتے ہیں۔
آپ بزنس مینوں کوغائب کریں گے تو یہ کیا کریں گے؟ یہ اسی مارکیٹ اور انھی بینکوں سے اپنے اثاثے نکال کر حکومت کے حوالے کر دیں گے لیکن پھر کیا ہوگا؟ بینک اور مارکیٹ دونوں کنگال ہو جائیں گے اور ملک کے تمام بڑے سرمایہ کار 1973ء کی طرح ملک سے چلے جائیں گے اور یوں پوری معاشی عمارت زمین بوس ہو جائے گی‘ ہم یہ بھی فرض کر لیتے ہیں آپ پانچ ہزار بزنس مینوں میں سے دس بیس سے رقم نکلوا لیں گے لیکن اس کے بعد باقی چار ہزار نو سو اسی بزنس مین کاروبار بند کر دیں گے اور اس کا نقصان کس کو ہوگا؟ آپ کسی دن تحقیق کر لیں حکومت بزنس مینوں سے زبردستی جتنی رقم نکلوائے گی یہ لوگ ہر سال اس سے کئی گنا زیادہ ٹیکس دیتے ہیں‘ یہ معیشت میں اس سے سو گنا زیادہ کنٹری بیوٹ کرتے ہیں چناں چہ حکومت دو انڈے نکالنے کی کوشش میں مرغی سے بھی جائے گی‘ یہ آج کی آمدنی سے بھی محروم ہو جائے گی اور معیشت کا تیسرا اور آخری فارمولا معاشی استحکام ہوتا ہے۔
ملک میں اگر ڈالر روزانہ کی بنیاد پر اوپر جائے گا اور حکومت دو تین ماہ میں اپنی ساری معاشی پالیسی بدل دے گی تو پھر کون کافر کام کرے گا‘ اسحاق ڈار جیسے بھی تھے لیکن ان کے دور میں ڈالرچارسال مستحکم رہا اور حکومت نے سرمایہ کاری اور تجارتی پالیسی میں بھی کوئی ردوبدل نہیں کیا چناں چہ معاشی گروتھ پانچ اعشاریہ تین فیصد تک پہنچ گئی جب کہ یہ حکومت روز عدم استحکام پیدا کر دیتی ہے لہٰذا آپ خود بتایے حکومت جب کاروبار بند کرا دے گی‘ وزیراعظم جب بار بار ٹیلی ویژن پر آ کر قوم کو بتاتے رہیں گے میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا اور مارکیٹ میں جب اتنا عدم استحکام ہوگاکہ ڈالر128سے162روپے تک پہنچ جائے گا تو پھر میرے جیسے لوگ کیوں اور کیسے کام کریں گے؟ کیا پھر ہمارے لیے بہتر نہیں ہم گھر بیٹھیں‘ کرایہ کھائیں اورمزے کریں‘ ہم عثمان بزدار بن جائیں‘ نہ کچھ کریں گے اور نہ حساب دیں گے‘‘ وہ خاموش ہو گئے۔
میں نے عرض کیا ’’آپ کو کوئی حل نظر آتا ہے؟‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’حل بہت آسان ہے‘ آپ جدید دنیا کی طرح پورے ملک کو بزنس فرینڈلی بنا دیں‘ آپ گریجویشن کی ڈگری کے لیے ایک سال کی ملازمت اور سرکاری ملازمین کے لیے ملازمت سے پہلے دو سال کاروبار کی شرط رکھ دیں‘ ملک پانچ دس سال میں ٹھیک ہو جائے گا‘‘ وہ رکے اور بولے ’’ آپ کو میری تجویز حماقت محسوس ہو گی لیکن آپ یقین کریں ہمارے بچے جب تک ملازمت نہیں کریں گے انھیں اس وقت تک دولت اور محنت کی قدر نہیں ہو گی‘ یہ اس وقت تک یہ نہیں جانیں گے پیسا‘ کاروبار اور ملازمت کتنی مشکل ہوتی ہے۔
انسان کو ان کے لیے کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور ہمارے سرکاری ملازمین بھی جب تک دکان‘ اسٹور‘ کمپنی یا مل نہیں چلائیں گے‘ یہ بھی اس وقت تک تیل اور تیل کی دھار سے واقف نہیں ہوں گے‘ یہ بھی اس وقت تک یہ نہیں جان پائیں گے ہم لوگ کتنے چور اور کتنے ڈاکو ہیں؟ ہمارا المیہ یہ ہے ہمارے سارے فیصلے وہ لوگ کرتے ہیں جنھوں نے پوری زندگی کوئی کاروبار نہیں کیا اور ہمارے بارے میں رائے وہ لوگ قائم کرتے ہیں جنھوں نے کبھی کوئی جاب‘ کوئی نوکری نہیں کی اور ہمارے وزیراعظم بھی ان لوگوں میں شامل ہیں‘آپ کمال دیکھئے عمران خان نے زندگی میں صرف ایک فلیٹ خریدا تھا‘ یہ آج تک اس کا حساب دے رہے ہیں لیکن یہ ہم سے اس زندگی میں فیکٹریوں‘ کمپنیوں اور زمینوں کا حساب مانگ رہے ہیں۔
آپ یقین کریں ہم مر جائیں گے لیکن ہمارا حساب مکمل نہیں ہوگا‘ کیوں؟ کیونکہ آپ جب بارش سے پوچھیں گے تم اوپر سے نیچے کی طرف کیوں برستی ہو یا انڈے سے کہیں گے تم سفید کیوں ہوتے ہو تو وہ کیا جواب دے گا‘ وہ آپ کو کیسے مطمئن کرے گا چناں چہ ہمارے جیسے لوگوں کے لیے یہی بہتر ہے یہ نہ کریں اور نہ حساب دیں‘ یہ بس مزے کریں