شاہ عالمی مارکیٹ میں کلاہ اور کھسوں کی دکان کے سامنے سرمد کے قدم ایک دم سے رک گئے۔ دکان کے اندر موجود فیضان کو دیکھ کر وہ اپنی ساری شاپنگ بھول بیٹھا تھا۔ فیضان کو وہ بھلا کیسے بھلا سکتا تھا۔ اسی لیے اتنے سالوں کے بعد بھی وہ اسے فورا ہی پہچان گیا حجت ہے دکان کا داخلی دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا ، دو خالی نشستوں کو دیکھ کر اس نے ان کی سمت قدم بڑھا دیئے۔ اسے اور اریب کو بیٹھے چند منٹ ہی ہوئے تھے جب فیضان ان کی طرف دو کیٹ لاگ لیے ہوئے پروفیشنل انداز میں مخاطب ہوا۔ سر! آپ کو کیسی کلاہ دکھاؤں ۔ مگر اس کو دیکھ کر ایک لمحے کے لیے ٹھٹھکا اور پھر فورا ہی دکان کا کاؤنٹر چھوڑ کر نشستوں کی سمت قدم بڑھائے۔ ارے یار سر مد تم کیسے ہو آج یہاں کیسے۔ اس نے سرمد کے گلے لگ کر اس قدر زور سے بھینچا کہ فیضان کی روح قفس عنصری کو پرواز کرنے کو بے تاب ہوئی۔ ابے یار، کیا اپنی بھابی کو بیوہ کرے گا ۔ فیضان نے اس کی پشت پر ہلکے سے مکا مارتے ہوئے کہا۔ مبارک ہو شادی کر لی۔ سرمد نے فوراً مبارک باد دی۔ ہاں جی دو سال پہلے ۔ فیضان نے جواب دیا۔ مگر تم یہاں کیا کرنے آئے ہو۔ اب صرف تم ہی اکیلے یہ لڈو کھانے والے نہیں رہ جاؤ گے ۔ چار دن بعد ہم بھی آپ کی کیٹگری – میں شامل ہوں گے۔ سرمد نے خوش ہو کر بتایا اور پھر جلدی سے نیا سوال داغا۔ ماں جی کیسی ہیں اور بے بے اور دادا جی کیسے ہیں؟ بابا اور تمہارے چاچو سب کیسے ہیں؟ چل اٹھ گھر چل اور خود ہی سب سے ان کی خیریت پوچھ لے ۔ مگر وہ دل چاہنے کے باوجود منع کر گیا کیونکہ کچھ کاموں کا بوجھ اور کچھ بے وقت مہمان بن کر جانا اسے اچھا نہیں لگا تھا۔ مگر وہ فیضان تھا اپنے نام کا ایک اسے زبردستی لے کر نکلا گھر فون کر کے اس کے آنے کی اطلاع بھی دے دی تھی۔ مگر باہر نکلتے ہی اریب نے معذرت چاہی۔ سرمد تم جاؤ میں ذرا یہاں کے باقی کام نمٹا کر گھر جاتا ہوں ۔ دراصل مجھے اچانک سے یاد آیا تائی امی نے جلدی گھر آنے کو کہا تھا ۔ اس کا مخاطب تو سرمد تھا مگر سنا وہ فیضان کو رہا تھا۔ ابے او افلاطون زیادہ غیر بننے کی ضرورت نہیں ہے۔ اب اتنا بھی غیر نہیں ہوں تیرے لیے ۔ اریب، فیضان سرمد سب ایک ہی اسکول کے بچے تھے سو ایک دوسرے کو جانتا اور اس قدر بے تکلفی تو بنتی تھی۔
☆☆☆
اندرون لاہور کی تنگ گلیاں اس کی گاڑی کو اندر لے جانے میں حائل تھیں ۔ تب ہی فیضان نے ایک مخصوص جگہ گاڑی پارک کروادی اور وہ تینوں وہاں سے پیدل گھر کی جانب بڑھ گئے ۔ تنگ تاریک سنسان گلیوں میں بنے قدیم گھر اپنے اندر قدیم تاریخ لیے شان سے کھڑے تھے۔ گھر کے اندر اندھیرا سا تھا باہر کی گرمی کا اثر اندر بالکل محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ وہ اس گھر میں پانچ سال قبل دو دن گزار کر گیا تھا، لاہور میں حیرت انگیز طور پر حالات خراب ہوئے تھے اور سرمد فیضان کے گھر پناہ لینے پر مجبور ہو گیا تھا۔ تب ہی فیضان کے والدین اور دادی داد ا سب سے متعارف تھا۔ اوئے ماجی میں تو روٹیاں لانا بھول گیا۔ اس نے ماتھا پیٹا۔ تم رہنا سدا کے بھلکو ۔ ماں جی نے ٹو کا۔ چل خیر ہیں لگاتی ہوں کھانا جب تک سدرہ سے کہ کر اور روٹیاں ڈلواتی ہوں ۔ اس پنجابی گھرانے میں ماں جی کی اردو نہایت صاف اور شستہ تھی۔ پلیز اماں، سدرہ آپا سے نہیں ، سچی بندے کو دستر خوان سے بھو کا اٹھنا بہتر ہے۔ کمرے سے نکلتی ماں جی نے سنا مگر نظر انداز کر گئیں اور اریب نے خود کو کوسا کیوں کہ اس کو شدید بھوک لگی تھی۔ اور نجانے یہ سدرہ نامی مخلوق کسی قدر بری روٹیاں بناتی تھی جو فیضان نے اس کو کھانے سے انکار کیا تھا۔ اریب بھوک کا بہت کچا تھا۔ بھوک اس کے اعصاب پر بہت برا اثر ڈالتی تھی اور روٹیوں پر تو قطعی کمپرومائز کرنے والا نہ تھا۔ اب دل ہی دل میں خود کو کوس رہا تھا کہ اس نے اتنی مروت کیوں دکھائی۔ دس منٹ بعد بے بے نے ان لوگوں کو باہر آ کر ہاتھ دھونے کا کہا۔ فیضان کے ساتھ سرمد چلا گیا مگر وہ و ہیں اکڑ ا بیٹھا رہا۔ سرمد فیضان اور کھانا تینوں ساتھ ساتھ آئے۔ سبزی کی بھاجی ، رات کی نہاری اور غالبا صبح کے نان چنوں میں سے چنوں کا سالن دستر خوان کی زینت بن گئے۔ سالن کے رنگ روپ دیکھ کر اریب کو قدرے ڈھارس ہوئی ، مگر ہاٹ پاٹ سے جب روٹیاں بر آمد ہو ئیں تو وہ بے اختیار ہاتھ میں لے کر مسکرا دیا جبکہ سرمد ان لوگوں سے قدرے مانوس تھا اس لیے اس نے روٹی کو کھول کر سامنے کیا۔ یہ کیا ہے۔ سرمد نے سوال کیا۔ یہ کوئی بالشت بھر روٹی تھی۔ جو ان کڑیل جوانوں کا ایک نوالہ بننے والی تھی۔ ارے یار اسی لیے ماجی سے کہا تھا کر سدرہ آپا سے نہ بنوائیں مگر ماں جی سے اب روٹیاں بنتی نہیں ہماری محترمہ اور تمہاری بھابی زچگی کا فائدہ اٹھا کر بستر پر دراز ہیں اور اماں نے اپنی بہن کی بیٹی کو بلا لیا ہے مدد کے لیے۔ ماں باپ زندہ ہیں نہیں۔ اس لیے بے چاری ادھر ادھر ڈولتی پھرتی ہیں ۔ فیضان ایسا ہی تھا مجال ہے جو کوئی بات پیٹ میں رکھ لے ہر بندے نے ، چار پانچ روٹیاں تو یوں چٹ کیں جیسے چار پانچ نوالے۔ بے ہے ! سدرہ باجی سے کہیں اور روٹیاں ڈالتی رہیں ان کی نوالا بھر روٹیاں ہم فوجی جوانوں کے لیے پھونک برابر ہیں ۔ اس نے وہیں بیٹھے بیٹھے فرمان جاری کیا اور پھر کوئی چالیس روٹیوں کو کھاکر ان کڑیل جوانوں کا پیٹ گزارے لائق بھرا۔ ویسے یار ! اتنی باریک اور چھوٹی روٹیاں میں نے آج تک نہیں کھا ئیں ۔ سرمد نے حیران ہو کر کہا۔ ہاں یہ روٹی نہیں پھلکا کہلاتی ہے اور صرف میری خالہ کے گھر بنتی تھی، خالو دراصل انڈیاسے تعلق رکھتے تھے اس لیے میری خالہ کے گھر خالو کے خاندانی ٹریڈیشن کے سبب بنتی تھی ۔ اس کا نام بالکل درست ہے ہلکا پھلکا ۔ اریب نے بھی پیٹ بھرنے کے بعد ان کی باتوں میں حصہ لیا۔ جاتے سمے وہ فیضان کے گھر والوں کو شادی میں شرکت کی دعوت دے کر اٹھا۔ شادی چونکہ شہر سے باہر تھی اس لیے فیضان نے صرف ولیمے میں شرکت کی دعوت قبول کی اور آنے کا وعدہ کیا ۔ پھر ایک اچھے دوست کی حیثیت سے اس وعدے کو نبھایا بھی مگر اس سب میں کچھ خاص نہ تھا بلکہ خاص تو جب ہوا ، جب شادی کے ہفتہ بھر بعد سرمد کی والدہ اور اریب کے والدین اور بہنیں ان کی دہلیز پر سدرہ کا رشتہ لے کر آن پہنچیں۔ فیضان کے بچے کا چھلہ ہو چکا تھا سواب سدرہ بھی نئے پڑاؤ کی سمت ، اڑان بھرنے ہی والی تھی جب یہ رشتہ نعمت غیر مترقبہ کی صورت ان کی دہلیز پر آیا۔ ماجی تو سدرہ کے رشتے کے لیے اتنے لوگوں کو کہہ چکی تھیں مگر کوئی صورت بنتی ہی نہ تھی اور جب مایوس ہو بیٹھیں تو غیب سے اریب کا رشتہ آ گیا ، وہ خالہ تھیں سخت پریشان تھیں مگر کچھ کر نہیں سکتیں تھی سوائے دعا کے انہوں نے سچے دل سے کی دعا تھی اور سدرہ کی خدمت گزاری تھی جو اسے اتنا اچھا رشتہ مل گیا۔
☆☆☆
ایک بات پوچھوں؟ سدرہ نے بستر پر بیٹھے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔ ہاں پوچھو۔ اریب نے موبائل پر سے نظر اٹھائے بغیر جواب دیا۔ آپ جس دن خالہ کے گھر آئے تھے تو آپ تو ہاتھ دھو نے بھی باہر نہیں آئے تھے کہ کہہ سکتے کہ آپ نے مجھے دیکھ کر میرا رشتہ بھیجا۔ یعنی کسی چیز نے آپ کو مجھ سے شادی پر مجبور کیا ۔ اس نے اٹک اٹک کر اپنامد عا بیان کیا۔ تمہاری روٹیوں نے یعنی تمہارے ہاتھ کی کی روٹیوں نے ۔ میری روٹیوں نے ۔ اس نے حیرت اور قدرے صدمے سے سوال کیا۔ یار ایسی نادر و نایاب روٹیاں میں نے نہ کبھی سنی تھی نہ دیکھی اور نہ کھائی اور ایک راز کی بات بتاؤں مجھے سالن سے اتنا مسئلہ نہیں ہوتا جتنا روٹیوں کا رہتا ہے اور پھر میں تمہاری خدمت گزاری سے بھی متاثر ہوا کہ تم نے اتنی ڈھیر ساری روٹیاں سخت گرمی میں ہمارے لیے پکا ئیں۔ میں تو اس ہی دن فریفتہ ہو گیا تھا۔ اس نے بڑھ کر اس کے ہاتھوں کو تھاما جن میں گداز کم اور سختی زیادہ تھی جو اس کے محنت کش ہونے کی دلیل تھی۔ ویسے کب کھلا رہی ہو وہ جادوئی روٹیاں کیا نام تھا ان کا۔ اس نے سوچتے ہوئے کہا۔ پھلکا۔ اس نے دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ ساتھ بتایا۔ ارے ہاں ہلکا پھلکا۔ اور اس ہی کے ساتھ اس نے موبائل پر ایک گانا چلا دیا۔
☆☆