Friday, February 14, 2025

Chaand Raat ka Surprise

ولید نے چچا ابو کو بکرے کی رسی تھمائی اور نڈھال سا اندر کی طرف بڑھ گیا، جہاں عنایہ پاپا، بھیا اور ولید کے لیے سوفٹ ڈرنک لیے بیٹھی تھی۔ بھیا بھی ولید کے پیچھے پیچھے اندر آئے اور بے حال ہوکر صوفے پر گرنے کے انداز میں بیٹھ گئے۔
ولید نے ماتھے سے پسینہ پونچھتے ہوئے کہا کہ وہ اسی لیے بابا کے ساتھ جا کر چار، پانچ دن پہلے ہی جانور لے آتا ہے، کیونکہ عید کے قریب رش بڑھ جاتا ہے۔ اوپر سے گرمی بھی قیامت کی ہوتی ہے۔ عنایہ نے یہ سن کر ریموٹ سے اے سی کی کولنگ بڑھا دی۔ بھیا نے جتاتے ہوئے کہا کہ پاپا جی کا تو پتا ہے، وہ ہمیشہ چاند رات کو ہی جانور لاتے ہیں۔ یہ تو شکر کرو کہ اس بار دو دن پہلے لے آئے۔ بھیا کی بات پر ولید کے ساتھ عنایہ بھی ہنس پڑی۔
☆☆☆

عنایہ نے جگمگاتی آنکھوں سے ولید کو دیکھتے ہوئے کہا، سنو، اس عید پر تم مجھے کیا گفٹ دو گے؟دونوں اس وقت لان میں بیٹھے مغرب کے بعد ٹھنڈی ہوا سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ولید نے شوخی سے عنایہ کی جگمگاتی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا، بتاؤں؟عنایہ اشتیاق سے بولی، ہاں، بتاؤ نا۔ولید نے دبی دبی مسکراہٹ کے ساتھ کہا، میں عید کی نماز پڑھتے ہی قربانی کرنے سے پہلے تمہارے در پر حاضری دینے آؤں گا۔ تم مجھے دیکھنا، میں تمہیں دیکھوں گا، اس طرح ہم دونوں کو گفٹ مل جائے گا۔عنایہ جو اشتیاق سے اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں کے پیالے میں تھامے بغور ولید کی طرف دیکھ رہی تھی، سخت بد مزا ہوئی۔ ایک جھٹکے سے اٹھتے ہوئے بولی، جاؤ، میں نہیں بولتی۔ ہم تو روز ہی ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں، اس میں کیا نئی بات؟ مجھے بس گفٹ چاہیے، ورنہ میں بھی کوئی گفٹ نہیں دوں گی، یاد رکھنا۔ولید کھل کر مسکرا دیا اور مخمور انداز میں بولا، فکر نہ کرو، اس بار بہت یونیک گفٹ دینے والا ہوں۔ اور خدارا، اب یہ نہ پوچھنا کہ کون سا گفٹ، یہ نہ ہو میرا ارادہ بدل جائے۔یہ کہتے ہوئے ولید گیٹ کی طرف چل دیا کہ کچھ بعید نہ تھا عنایہ کے پاس پڑی کوئی چیز اس کی خیریت معلوم کرنے کے لیے اٹھا لیتی۔جاتے جاتے ولید پلٹ کر بولا، اور ہاں، تم بھلے مجھے کوئی تحفہ مت دینا، کیونکہ میرا تحفہ تو تم ہو۔عنایہ بگڑتی ہوئی اٹھی، گیٹ بند کیا اور اندر کی راہ لی۔
☆☆☆

ولید اور عنایہ فرسٹ کزنز تھے، تایا اور چاچا کی اولاد۔ دونوں گھروں کی دیواریں آپس میں جڑی ہوئی تھیں۔ گھروں کے بیرونی گیٹ الگ الگ تھے، لیکن پچھلی طرف ایک بڑا اور خوبصورت لان مشترکہ تھا۔ دل بھی محبت کی ڈور میں بندھے ہوئے تھے۔ ان کی خوش قسمتی تھی کہ ایک دوسرے کی طرف رجحان دیکھتے ہوئے بڑوں نے ایک سال پہلے ان دونوں کو نکاح کے مقدس بندھن میں باندھ دیا تھا۔فیصلہ یہ ہوا تھا کہ رخصتی ولید کے جاب ملنے کے بعد ہوگی۔ وہ ایم بی اے کرنے کے بعد اچھی جاب کی تلاش میں مختلف جگہ انٹرویوز دے رہا تھا، مگر ابھی تک اپنی من پسند جاب حاصل نہ کر سکا تھا۔پڑوسی ہونے کی وجہ سے دن کے کسی بھی وقت ایک دوسرے کا دیدار ہو جاتا۔ ہلکے پھلکے رومانس اور شرارتوں کی ہلکی پھلکی جھلک ان کی روزمرہ کی زندگی کا حصہ تھی۔عید قرباں پر ہمیشہ پہلے عنایہ کے تایا ابو، یعنی ولید کے گھر قربانی کی جاتی، اور سب لوگ وہاں مہمان ہوتے۔ دوسرے دن عنایہ کے گھر قربانی ادا کی جاتی، اور سب ان کے گھر مہمان بنتے۔ یوں دونوں دن قربانی کا فریضہ انجام دیا جاتا۔ تیسرے دن دونوں گھر والے مل کر باربی کیو کا لطف اٹھاتے۔
☆☆☆

آج چاند رات تھی۔ عنایہ بہت خوش تھی اور تصور میں خود کو ولید سے مختلف گفٹس وصول کرتے دیکھ رہی تھی۔ کبھی اسے لگتا کہ ولید اسے آئی فون دے رہا ہے، تو کبھی لپ ٹاپ۔ ویسے بھی، ولید کے بعد اگر کوئی شے عنایہ کو سب سے زیادہ عزیز تھی، تو وہ واٹس ایپ تھی۔عنایہ ہمیشہ یہی شکایت کرتی تھی کہ ولید اسے پائل، اور چوڑیاں نہ دیا کرے۔ وہ اسے کنجوس کہتی اور کہتی کہ کبھی کوئی مہنگا گفٹ بھی دے دیا کرو۔ ولید، جو نکاح سے پہلے بطور کزن یہی چیزیں تحفے میں دیا کرتا تھا، نکاح کے بعد بھی عید الفطر پر، جو ان کے نکاح کے بعد پہلی عید تھی، انہی چیزوں پر ٹرخا گیا تھا۔تب سے عنایہ نے ولید کی جان کھا لی تھی کہ اگلی مرتبہ میں ان چیزوں سے بہلنے والی نہیں ہوں۔اس وقت ولید نے شانے اچکاتے ہوئے کہا تھا کہ کیا کروں، جاب میں ہوں، پاپا کی کمائی پر یہی افورڈ کر سکتا ہوں۔ دعا کرو کہ اچھی جاب لگ جائے، پھر جو کہو گی وہی گفٹ دوں گا۔اب جب ولید نے یونیک گفٹ کا کہا تو عنایہ کا تصور بار بار اسے صرف دو چیزیں دکھا رہا تھا: آئی فون یا لیپ ٹاپ۔
☆☆☆

ادھر ولید چشم تصور سے آنے والے کل کے مزے سوچ کر خوشی سے کھلکھلا رہا تھا۔ اس پر مما نے چھیڑتے ہوئے کہا، ولید! تم کچھ زیادہ ہی ری ایکٹ نہیں کر رہے؟تب ہی چھوٹا جنید بولا، بھائی! میں جاکے سب کو بتاتا ہوں کہ اب بھیا سے کنٹرول نہیں ہو رہا۔ولید نے باری باری مما اور جنید کو دیکھا، پھر جنید کو ہلکی سی چپت لگاتے ہوئے بولا، ٹھیک ہے بیٹا! جا، سب بتا دے، پھر آئی فون بھی بھائی سے ہی لے لینا۔جنید فوراً بول پڑا، ہاہاہاہا! نہیں، نہیں، بھائی! میں کوئی پاگل ہوں؟ میں تو مذاق کر رہا ہوں۔اسی ہنسی مذاق میں چاند رات گزر گئی۔ عید کی خوش گوار صبح عنایہ کے آنگن میں ڈھیروں خوشیوں کے ساتھ طلوع ہوئی۔ بھیا اور پاپا نماز پڑھ کر واپس آئے، لیکن عنایہ، جو نک سک تیار کپڑے پہنے اس دشمنِ جاں کی راہ تک رہی تھی جس نے کہا تھا کہ عید کی نماز کے فوراً بعد آؤں گا، تایا ابو، ولید، اور جنید کو ان کے ساتھ نہ دیکھ کر دل گرفتہ ہو گئی۔عنایہ دل ہی دل میں بڑبڑائی، کل چاند رات بھی ٹھیک سے بات نہیں کی اور آج عید والے دن بھی عید مبارک کہنے نہیں آیا۔ ہر جائی کہیں کا!یہ سب سوچتے ہوئے وہ ابو، بھائی، اور مما سے عیدی بٹور رہی تھی کہ مما نے کہا، عنایہ! آج دوپہر کے کھانے میں خاص اہتمام کیا گیا ہے۔ تمہاری تائی امی اور سب گھر والوں کی دعوت ہے۔ ابھی قربانی شروع ہو جائے گی۔عنایہ نے حیرت سے کہا، لیکن مما! پہلے تو ہم عید والے دن تائی امی کے گھر جاتے ہیں اور پہلے تایا ابو قربانی کرتے ہیں۔ ہم تو کل قربانی کرتے ہیں نا؟مما نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، ہاں میری جان! لیکن اس بار پہلے ہم قربانی کریں گے اور کل تمہارے تایا ابو۔ ان شاء اللہ۔عنایہ ناک سکیڑتے ہوئے بڑبڑائی، عید مبارک کہنے نہیں آیا اور دعوت کھانے آئے گا، محترم۔ یہ کہہ کر وہ غصے سے اپنے کمرے میں چلی گئی۔
☆☆☆

دوپہر میں عنایہ کی فرینڈز اس سے ملنے آئیں۔ آتے ہی سنبل نے چہکتے ہوئے پوچھا کہ ولید بھائی نے عید پر کیا گفٹ دیا۔عنایہ کا دل بھر آیا۔ پہلے بھی ایسا کبھی نہیں ہوا تھا، لیکن اس بار ولید نے ابھی تک اسے عید مبارک بھی نہیں کہا تھا، گفٹ تو دور کی بات تھی۔سنبل نے حیرت سے کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے، ولید بھائی ایسے تو نہیں ہیں۔عنایہ کا دل مزید افسردہ ہوگیا اور بولی کہ ہاں، ایسے تو نہیں ہیں، لیکن آج ایسا ہی کیا ہے۔ اس سے پہلے کہ عنایہ کی آنکھیں بھر آتیں، سنیل اور سائرہ نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ فکر نہ کرو، ہو سکتا ہے کوئی مصروفیت ہو گئی ہو۔عنایہ نے مایوسی سے کہا کہ ایسی بھی کیا مصروفیت یار، کہ مجھے ہی بھول گیا۔
☆☆☆

تم دل چھوٹا نہ کرو، سائرہ نے عنایہ کو سمجھاتے ہوئے کہا، دیکھو تم نے بتایا تھا کہ تمہارے سسرال والے آنے ہی والے ہیں۔ تب پوچھ لینا ولید بھائی سے۔ اور سنو، اگر انہوں نے عید مبارک نہ کہا تو تم بھی نہ کہنا۔عنایہ، جو منہ پھلائے بیٹھی تھی، سائرہ کی بات سن کر چونکی۔میں کیوں بولوں؟ میں نے رات چاند رات مبارک کا میسج دیا تھا محترم کو، اور جواب آیا، سیم ٹو یو۔ اب میں کیوں بولوں عید مبارک؟عنایہ نے منہ پھلاتے ہوئے جواب دیا۔ یہ سن کر سنبل اور سائرہ دونوں کی ہنسی چھوٹ گئی۔ عنایہ نے غصے سے گھورا تو ان کی ہنسی کو فوراً بریک لگ گئی، اور وہ اسے دوبارہ تسلیاں دینے لگیں۔اسی دوران، دروازے کی گھنٹی بجی۔
☆☆☆

دروازہ کھلا تو تایا ابو بمعہ فیملی اور مٹھائی کے بڑے بڑے ٹوکرے لیے اندر داخل ہوئے۔ مبارک سلامت کے شور کے ساتھ سنبل اور سائرہ کی معیت میں عنایہ بھی کمرے سے باہر نکل آئی۔ تائی امی عنایہ کی بلائیں لیتے ہوئے اس کی طرف بڑھیں اور اسے گلے سے لگا کر پیار کیا۔ اسی دوران عنایہ کی نظر بڑی شان سے کھڑے ولید پر پڑی، جس کی آنکھوں کے ساتھ ساتھ پورا سراپا مسکراتا ہوا لگ رہا تھا۔عنایہ پیچھے ہٹی، تایا ابو اور ولید کو سلام کیا، اور ساتھ ہی ایک معنی خیز نظر ولید پر ڈالنا بھی ضروری سمجھا، جس پر ولید مزید شرمندہ سا ہو گیا۔مٹھائی کے بڑے ٹوکرے دیکھ کر عنایہ حیران ہوئی۔ تب ہی مما کی آواز آئی، چلو بیٹا، جلدی سے کھانا لگاؤ۔ سب کو بھوک لگی ہے، اس کے بعد قربانی بھی کرنی ہے۔ ہمارے قصائی کو بھی آج ہی دیر ہونا تھا۔ کتنا دل چاہ رہا تھا کہ اس مبارک موقع پر قربانی کے بکرے کی بھنی کلیجی تیار کرتی، لیکن قصائی  کے دیر سے آنے کا افسوس ہے۔عنایہ یہ سب سنتے ہوئے کچن کی طرف بڑھ گئی، جبکہ باقی سب لاؤنج میں رکھی ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ گئے۔ کھانا سروو کیا گیا، اور کھانے کے بعد شیر خرما، جو مما نے خاص طور پر تائی امی کی فیملی کے لیے بنایا تھا، پیش کیا گیا۔ شیر خرما کھاتے ہوئے تائی امی نے کہا، ہاں تو بھائی صاحب، اب مدعا پر آتے ہیں۔ آج عید ہے، تو میں چاہتی ہوں کہ آپ اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے آج شام عنایہ کی رخصتی کر دیں۔ امید ہے آپ نے سب تیاری کر لی ہوگی۔ عنایہ نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے سب کو دیکھا۔ سب کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے۔ تب ہی جنید بولا، بھابی، بس کریں، اور کتنی آنکھیں دکھائیں گی۔جنید کی اس بات پر سب کے قہقہے گونجے، اور ساتھ ہی زور دار دھپ کی آواز بھی آئی، جو ولید نے محبت سے جنید کو رسید کی تھی۔عنایہ، جو ابھی تک حیران پریشان سب کے چہروں کو دیکھ رہی تھی، ایک دم جھینپ گئی۔ تب تائی امی نے مسکراتے ہوئے عنایہ کو اپنے ساتھ لگا کر کہا۔بس کرو سب لوگ، میری بیٹی کو مزید تنگ نہ کرو۔ پہلے ہی ولید کے کہنے پر ہم سب نے عنایہ کو ہر بات سے بے خبر رکھا ہے، پتا ہوتا تو وہ بھی ذہنی طور پر تیار ہوتی۔ تائی امی نے عنایہ کے ماتھے پر پیار کرتے ہوئے کہا۔بیٹی! ایک ہفتہ پہلے ولید کو بہت بڑے بینک میں بہت اچھی جاب مل گئی تھی، لیکن ولید نے تمہیں  بتانے  سے منع کیا کیونکہ وہ چاہتا تھا کہ عید والے دن رخصتی ہو جائے اور وہ تمہیں سرپرائز دینا چاہتا تھا۔ سو ہم سب نے مل کر ساری تیاری کر ڈالی ہے سوائے تمہارے، سب کو پتا ہے۔ عنایہ کو ایک دم ڈھیروں شرم نے آن گھیرا، اس نے ایک نظر اپنی دوستوں اور سب گھر والوں پر ڈالی اور پھر اپنے کمرے میں بھاگ گئی۔ پیچھے پیچھے سائرہ اور سنبل بھی آئیں اور مذاق کرتے ہوئے اس کا ناک میں دم کر دیا کہ ولید؟ بھائی، ایہ تو بڑے چھپے رستم نکلے۔ ایسا گفٹ دیا جس کا کوئی مول ہی نہیں!اسی اثناء میں دروازے کی طرف نظر پڑی تو ولید کو دیکھا، جو اندر آ رہا تھا۔ سائرہ اور سنبل معنی خیزی سے عنایہ کو دیکھتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھ گئیں اور ولید نے ایک طرف ہو کر انہیں جانے کے لیے راستہ دیا۔ ولید نے اندر آ کر ایک بھرپور نظر عنایہ پر ڈالی، جو بیک وقت خوشی، غصے، ناراضی اور شرم کی مختلف کیفیات میں گھرے کھڑی تھی۔ ولید نے دروازہ بند کر کے عنایہ کے سامنے آتے ہوئے دھیرے سے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا،عید مبارک۔چند لمحوں کی خاموشی کے بعد، آنسو بھری آنکھوں سے ہونٹوں کو کچلتے ہوئے عنایہ پر محبت بھرے انداز میں اظہار محبت کیا تو عنایہ کسمسا کر رہ گئی۔ مجھے پتا ہے تم مجھ سے ناراض ہو، لیکن میں کل سے اس لیے تم سے رابطہ نہیں کر رہا تھا کہ میں تمہیں مکمل طور پر سرپرائز دینا چاہتا تھا۔ کل رات رابطہ کر لیتا تو یقین جانو، شاید جذبات میں بہہ کر اپنا سرپرائز خود ہی خراب کر دیتا۔ کہا تھا نا کہ یونیک گفٹ دوں گا۔ کیا اب بھی ناراض ہو مجھ سے؟عنایہ کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کہے، غصہ اور ناراضی کی جگہ اب شرم و حیا نے اس پر اپنا تسلط جما رکھا تھا۔ بڑی مشکل سے اس نے اپنا سر نفی میں ہلایا تو ولید کو لگا کہ جیسے چاروں طرف پھول ہی پھول کھل گئے ہوں۔ عنایہ کی کلائی تھام کر ایک خوبصورت گولڈ کا پریسلیٹ پہناتے ہوئے دھیرے سے عنایہ کے کانوں میں شہد الفاظ سے رس گھولنے لگا۔ یہ میری طرف سے عید کا دوسرا تحفہ تمہارے لیے اور یقین جانو، میرا تحفہ صرف تم ہو۔
☆☆☆

Latest Posts

Related POSTS