والد صاحب کا علاقے میں کافی نام تھا اور رعب و دبدبے کی وجہ سے لوگ ان سے اونچی آواز میں بات نہیں کرتے تھے ۔ گائوں والوں کے بیچ کوئی بھی جھگڑا یا مسئلہ ہوتا، والد صاحب ہی فیصلے کرتے میرا بھائی فیصل بھی والد صاحب سے بہت ڈرتا تھا۔ ان کی سخت مزاجی کی وجہ سے، گھر کے اندر بھی کسی کی جرأت نہ تھی کہ ان کا حکم ٹالے اور ان کے سامنے دم بھی مار سکے۔ اسی کے انتقال کے وقت میں کالج کے آخری سال میں اور فیصل نویں کا امتحان دے رہا تھا۔ ہم بہن بھائی میں بہت محبت تھی۔ ماں کے بعد بڑی بہن ہونے کے ناتے ساری ذمہ داری مجھ پر آ پڑی اور میں فیصل کا بہت خیال رکھنے لگی۔ وہ اپنا ہر . مسئلہ بر بات مجھ سے کرتا اور میں بابا جان کو بتاتی کیونکہ میں سمجھ دار تھی اور اپنے بابا جان کے مزاج کو سمجھتی تھی۔ والد صاحب کی آٹھ مربع اراضی تھی، گھر میں کسی شے کی کمی نہ تھی، سوائے ماں کے ، جب ان کی یاد آتی توہم اداس ہو جاتے ۔ فیصل ماں کو بہت یاد کرتا تھا۔ وہ روتا تو میں اس کے آنسو پونچھتی، دلاسا دیتی، سمجھاتی کہ اگر ماں کی روح کو سکون دینا چاہتے ہو تو پڑھائی پر توجہ دو، کچھ بن کر دکھائو اور اپنا مستقبل روشن کرو۔ امی مرحومہ کی بہت خواہش تھی کہ فیصل انجینئر بنے۔ میری حوصلہ افزائی سے وہ بہت توجہ سے دل لگا کر پڑھنے لگا۔ ایف ایس سی کے بعد والد صاحب نے اسے پڑھنے کے لیے لاہور کے ایک اعلی انجینئرنگ کالج میں داخلہ دلا دیا پھروہ دن بھی آ گیا جس کا ہم سب کو انتظار تھا۔ میرے بھائی نے والدہ مرحومہ کی خواہش کی تکمیل کی اور انجینئر بن گیا۔ بابا جان کی کوشش سے اس کی ملازمت پنجاب کے ایک چھوٹے سے شہر میں ہوگئی، جہاں غیر ملکی ماہرین کے تعاون سے ایک پراجیکٹ پر کام ہورہا تھا بھائی کو وہاں جو رہائش گاہ ملی اس کے سامنے سینئر کا مکان تھا، جس کی ایک جواں سال اور خوب صورت بیٹی تھی۔ اس کا نام مہرین تھا۔ وہ جب کالج جانے کے لیے گھر سے نکلتی، اسی وقت بھائی بھی آفس جارباہوتا، یوں دونوں کی صبح سویرے، مڈبھیڑ ہو جاتی۔
مہرین، فیصل کو پسند کرنے لگی۔ وہ آفس سے لوٹتا تو وہ اپنے دروازے پر کھڑی ہوتی اور دور سے اس کا دیدار کرلیتی – فیصل کو اندازہ ہوگیا کہ یہ لڑکی اس کے لیے کھڑی ہوتی ہے اور اس میں دلچسپی لے رہی ہے۔ وہ نوجوان تها روز ایک حسین لڑکی کو منتظر پاکر اسے بھی مہرین کا خیال رہنے لگا۔ ایک روز فیصل اپنے مکان کے گیٹ پر کھڑا تھا کہ ایک بچی جو مہرین کی ملازمہ کی بیٹی تھی، ایک پرچہ لے کر آئی اور بھائی کو دے دیا ۔ اس پر مہرین نے اپنا نام اور فون نمبر لکھا تھا۔ بھائی اس چھوٹے سے شہر میں بوریت محسوس کرتا تھا۔ اگلے روز اس نے اس یکطرفہ چاہت والی کو فون کر دیا۔ فون کے ذریعے رابطہ ہوا تو باتوں کا سلسلہ چل پڑا۔ اس کی باتوں نے میرے بھائی کا دل موہ لیا۔ اب فون پر گفتگو روز کا معمول بن گئی۔ زندگی میں مسرت کی مٹھاس گھلنے لگی، مگر بات فون تک ہی محدود تھی۔ ملنے سے دونوں نے بی گریز کیا تھا۔ چھوٹا سا شہر تھا، ملنے میں بدنامی کا خطرہ تھا اور دونوں اس خطرے سے بچنا چاہتے تھے ۔ جب فیصل آفس کے کام سے تھک کر رہائش پر آتا تو مہرین سے فون پر باتیں کرتے ہی اس کی ساری تھکن دور بوجاتی۔ وہ بھی شدت سے منتظر ہوتی کہ کب فیصل کا فون آئے اور وہ اس سے باتیں کرے۔وہ ایف اے کی طالبہ تھی اور یہ خوش حال لوگ تھے۔ ابھی اس لڑکی کی کہیں منگنی نہیں ہوئی تھی سووه بطور جیون ساتھی اپنے طور پر میرے بھائی کو منتخب کرچکی تهی وه دن رات اس کی دلہن بننے کے خواب دیکھنے لگی۔ اس نے فیصل کو بتا دیا تھا کہ وہ اس کے ساتھ شادی کی متمنی ہے اور یہ بھی کہ اس کے والدین کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی کیونکہ اس کے ماں، باپ نے کہہ دیا تھا کہ وہ بیٹی کی شادی میں اس کی پسند کا خیال کریں گے، بشرطیکہ لڑکا اچھے خاندان کا اور پڑھا لکھا ہو۔ مہرین اپنے والدین کی اکلوتی اور لاڈلی بیٹی تھی اور اس بارے پر اعتماد تھی کہ ماں، باپ اس کی خوشی کا خیال کریں گے۔ وہ تو مطمئن تھی مگر فیصل کا معاملہ برعکس تھا۔ والد صاحب نهایت روایت پسند شخص تھے اور اولاد کی شادی کے معاملے میں جابر حکمران تھے۔ ہماری مجال نہ تھی کہ ان کی مرضی کے خلاف سوچتے یا حکم عدولی کر سکتے۔ اس بار جب بھائی گھر آیا بابا جان نے اس کی شادی کا تذکرہ چھیڑ دیا ۔ میرا نکاح تو انہوں نے پہلے ہی اپنے بڑے بھائی کے بیٹے کردیا تھا، بس رخصتی ہونا باقی تھی۔ بابا جان چاہتے تھے کہ فیصل کی شادی ان کی بھانجی سے ہو اور دونوں بچوں کی رخصتی ایک ساتھ کردی سے جائے فیصل کو جب میں نے بتایا کہ بابا جان تمہاری شادی لبنی سے کرنا چاہتے ہیں تو اس نے مجھے مہرین کے بارے آگاہ کیا کہ وہ اس لڑکی کو پسند کرتا ہے اور شادی اسی کے ساتھ کرنا چاہتا ہے لیکن بابا جان کو کیسے راضی کیا جائے، یہ ایک بڑا مسئلہ تھا۔ میں جانتی تھی والد صاحب کبھی راضی نہ ہوں گے۔ فیصل کی بھی جرات نہ تھی کہ باپ کے سامنے زبان کھول سکتا۔ ایک روز بابا جان نے فیصل کو بلا کر کہا کہ میں نے لبنی سے تمہاری شادی طے کردی ہے اور تم دونوں بہن بھائی کی شادی ایک ساتھ کر رہا ہوں تا کہ ایک دفعہ ہی تقریب میں ساری برادری اور اقرباء اکٹھے ہوجائیں۔ اس نادر شاہی فیصلے پر بھائی دم بخود ہوگیا لیکن لب نہیں کھول سکا۔
باپ کے سامنے اس کا کچھ بھی کہنا بے کار تھا۔ اس نے وہاں جا کر مہرین کو فون پر بتا دیا کہ ابا جان میری شادی پھوپھی زاد لبنی کے ساتھ کر رہے ہیں۔ یہ سن کر وہ بہت رنجیدہ ہو گئی۔ اس سے ضبط نہ ہو سکا اور وہ پہلی بار فیصل سے ملنے اس کے آفس پہنچ گئی۔ آفس میں لوگ تھے۔ فیصل نے کسی طرح اس کو سمجھا بجھا کر واپس بھیج دیا کہ گھر پر بات کریں گے مگر اس نے پھر مہرین سے بات نہ کی اور رابطہ ختم کر دیا۔ مہرین نے بہت کوشش کی کہ فون پر تو بات ہو مگر بھائی نے اس کا فون نہ سنا، تب وہ ایک روز دوباره آفس آ دهمکی وہ بڑی دلیر لڑکی تھی۔ آفس میں اس نے واویلا مچا دیا کہ تم مجھ سے فون پر گھنٹوں میٹھی میٹھی باتیں کر سکتے ہو اور شادی نہیں کر سکتے! تمہیں مجھ سے شادی کرنا ہوگی۔ فیصل اس سے کوئی جھوٹی بات نہ کرنا چاہتا تھا، سو، صاف کہہ دیا کہ یہ ممکن نہیں ہے۔ میرے والد صاحب بہت سخت مزاج آدمی ہیں۔ وہ نہیں مانیں گے کیونکہ انہوں نے میری شادی اپنی بہن کی بیٹی سے طے کردی ہے۔ بہتر ہے کہ تم میرا خیال ہمیشہ کے لیے دل سے نکال دو۔ مہرین کسی صورت یہ صدمہ سہنے کو تیار نہ تھی، وہ وہیں آفس میں بیٹھ کر رونے لگی۔ اس کے رونے سے میرا بھائی اور پریشان ہوا وه دم سادھے بیٹھا تھا اور لڑکی مسلسل روئے جاتی تھی۔ جب وہ کسی طور چپ نہ ہوئی تو فیصل نے کہا دیکھو مہرین! حقیقت یہ ہے کہ تم مجھے واقعی اچھی لگتی ہو اور میں تمہارے ساتھ شادی پر بھی سنجیدہ ہوں لیکن اپنے باپ سے جھگڑ نہیں سکتا۔ اگر تم تھوڑا سا صبر کرو تو میں ان کو ایک بار قائل کرنے کی کوشش ضرور کروں گا۔ اس وعدے پر وہ گھر جانے کو تیار ہوگئی اور بھائی نے اس کے ساتھ جو وعدہ کیا تھا نبھایا۔ گھر آکر میری موجودگی میں بابا جان سے بات کی اور ان کو قائل کرنا چاہا مگر وہ تو بیٹے کی بات سن چراغ پا ہوگئے۔ مجھے کہنے لگے بیٹی تم ہی اس سرپھرے لڑکے کو سمجھائو ، یہ مجھے برادری میں ذلیل کرنا چاہتا ہے۔ اسے کہو کہ یہ اس عشق محبت والے چکر سے باز رہے، نہیں تو میں اس کو عاق کر دوں گا۔ فیصل بھائی نے کہا۔ ابا جان عاق کردیں گے تو بھی میں خود کما کر اپنے اہل خانہ کو پال لوں گا۔ دولت بی تو سب کچھ نہیں ہوتی۔ بھائی کی اس دلیل کو والد نے اپنی بے عزتی سمجھا اور انہوں نے بندوق نکال لی تب میں بیچ میں آ گئی اور بندوق کی نال پکڑ لی بابا جان خدارا ایسا نہ کیجئے۔ میں رو رہی تھی۔ یہ آپ کا اکلوتا بیٹا ہے، کچھ تو سوچئے! میں اسے سمجھا لوں گی۔ میرے رونے بلکنے اور ہاتھ جوڑنے پروہ تھم گئے اور یہ کہہ کر کمرے سے نکل گئے کہ اس کو سمجھا دو کہ آئندہ یہ ایسا سوچے بھی نہیں کہ میں اس کی شادی کسی راہ چلتے کی لڑکی سے کردوں گا۔ فیصل اس قدر پریشان تھا کہ اس سے پہلے میں نے سے کبھی اتنا پریشان نہیں دیکھا تها تسلی دی کہ بھائی دل چھوٹا نہ کرو ۔ ابا جان جو کررہے ہیں بہتری اسی میں ہے، ورنہ پھوپھو کو انہیں جائیداد میں سے پورا حصہ دینا پڑے گا۔ آپا میں اپنے سے زیادہ مہرین کے لیے پریشان ہوں۔ کاش میں نے اس سے فون پر رابطہ نہ رکھا ہوتا۔ وہ تو اس بات کا اتنا غم کرے گی کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتیں۔ میری اب ڈیوٹی پر جانے کی ہمت نہیں رہی کہ اسے کیا جواب دوں گا جب وہ ڈیوٹی پر جارہا تھا بے حد اداس تھا۔
والد صاحب نے تو اس کی شادی کے کارڈ بھی چھپوا لیے تھے اور ایک کارڈ اس کو پوسٹ کردیا کہ دیکھ کر بتائو کیسا ہے۔ دراصل وہ بیٹے کو اس بات کی اطلاع دینا چاہتے تھے کہ پندرہ روز بعد تمہاری شادی ہے۔ بھائی نے فون پر مہرین کو اطلاع دی کہ شادی کی تاریخ طے تھی اور اب کارڈ بھی چھپ گئے ہیں، اب خودکشی کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہے۔ والد صاحب اپنے موقف سے ہٹنے والے نہیں ہیں، لہذا اب کچھ نہیں ہوسکتا، تم خودکشی کرکے خواہ مخواہ اپنی جان گنوانے کی کوشش مت کرنا میں برگز خودکشی کرنے والی نہیں۔ اب بھی سب کچھ ہوسکتا ہے۔ مہرین نے کہا۔ اگر تم کچھ نہیں کر سکتے تو میں کوشش کرکے دیکھتی ہوں۔ میں تمہارے والد سے خود ملوں گی اور ان کو منالوں گی۔ ایسی غلطی قیامت لے آئی گی، یہ ہرگز مت کرنا، وہ نکال باہر کریں گے، نہیں تو بندوق سے تمہارا قصہ تمام کردیں گے۔ فیصل نے اسے بہت ڈرایا دھمکایا مگر وه دیده دلیر، بالکل بھی نہ ڈری بلکہ اپنے جذبہ صادق پر فخر کرنے لگی۔ اس نے کہا کہ میں نے تمہارے آفس تمہیں گھر سے سے پتا لے لیا ہے اور اب تمہارے والد سے ملنے جارہی ہوں۔ فیصل اسے روکتا ره گیا اور وہ والد صاحب سے ملنے ہمارے گھر آ گئی۔ میں دوپہر کا کھانا لگوا رہی تھی کہ ملازمہ نے بتایا کہ بڑے صاحب سے ملنے ایک لڑکی آئی اور اپنا نام مہرین بتاتی ہے۔ میں نے کہا کہ اس کو ادھر لے آئو۔ اس سے پہلے کہ ملازمہ اسے میرے پاس لاتی وہ ازخود ابا جان کی بیٹھک میں پہنچ گئی۔ بغیر اجازت اوطاق کی سمت جانا منع تھا، تب بی مجھے نہیں معلوم اس نے بابا جان سے کیا کہا اور انہوں نے کیا جواب دیا، لیکن جب وہ اوطاق سے باہر آئی تو اس کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا۔ واقعی وہ بہت خوب صورت لڑکی تھی اسے دیکھ کر آنکھیں خیرہ ہوتی تھیں، اسے گفتگو کا بھی سلیقہ تھا۔ والد صاحب نے اسے ہمارے ساتھ کھانے کی میز پر لا بٹھایا اور پھر اپنی خصوصی گاڑی میں واپس اس کے گھر بھجوا دیا۔ دوسری گاڑی میں وہ فیصل بھائی کے پاس چلے گئے۔ باپ کو دیکھ کر اس کی تو سٹی گم ہوگئی۔ انہوں نے بیٹے کو حکم دیا کہ دفتر سے چھٹی لو اور جلدی تیاری کرو۔ تم نے میرے ساتھ جانا ہے۔ جب بابا جان نے بتایا کہ مہرین کے دادا سے پرانی رشتہ داری نکل آئی ہے، تب وہ بزرگوں کی تعلق داری کا پاس رکھتے ہوئے بیٹے کی خوشی کو بھی پورا کر رہے ہیں اور مہرین کو بہو بنا رہے – مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا اور فیصل تو خوشی سے زیادہ حیرت کی کیفیت میں تھا، جیسے اسے سکتہ ہوگیا ہو۔
یہ مہرین کی چاہت کا اخلاص تھا یا اس کی جرأت کا کمال، والد صاحب کا دل جانے کیونکر اس نے موم کر لیا۔ وہ کام جو میں اور فیصل لاکھ چاہتے ہوئے بھی نہ کرسکے، اس دھان پان سی لڑکی نے کر دکھایا۔ اس کے بعد وہ مہرین کے گھر گئے، اس کے والد سے ملے ، انہیں بتایا کہ تمہارے اور میرے دادا پگڑی بدل بھائی تھے۔ ان کا نام تمہاری بیٹی سے معلوم ہوا ہے جواب ہماری بھی بیٹی ہے۔ والد صاحب نے مہرین کے والدین سے فیصل کے لیے رشتہ طلب کرلیا۔ ان جیسے صاحب حیثیت کو کون انکار کرسکتا تھا، جبکہ ان کی لڑکی بھی فیصل سے ہی شادی کرنا چاہتی تھی اور وہ ایک صاحب حیثیت دادا کی پوتی بھی تھی ۔ ادھر سے ہاں ہوتے ہی شادی کی تاریخ رکھ لی گئی۔ دوباره دعوت نامے چھپے۔ بابا جان نے اپنی بہن سے معذرت کرلی اور لبنی کا نکاح اس کے تایا کے بیٹے کے ساتھ کروادیا جو پہلے ہی لبنی کے رشتے کے آرزومند تھے۔ ایسا ہمارے خاندان کی تاریخ میں کبھی نہ ہوا تھا۔ جیسا معجزہ اب ہوگیا۔ بعد میں مجھے پھوپھی جان نے بتایا کہ ان کے جیٹھ بزرگوں کو لے کر لبنی کا رشتہ مانگنے آئے تھے مگر تمہارے پھوپھا چاہتے ہوئے بھی بھائی کو بیٹی کا رشتہ نہ دے سکے تھے کیونکہ میرے بھائی ، فیصل کے لیے رشتہ مانگ چکے تھے جبکہ لبنی بھی اپنے تایا ہی کی بہو بننا چاہتی تھی۔ جب بھائی نے رشتہ ختم کیا تو لبنی خوش ہوگئی اور اس کے ابو بھی کہ اب وہ اپنے بھتیجے کو بیٹی کا رشتہ دے سکتے تھے۔ اس طرح لبنی کی دلی مراد بر آئی۔ گویا کہ بر کام خود بخود سیدھا ہو گیا۔سچ ہے اللہ سب کی سنتا ہے اور اس کے ہر کام میں بہتری ہوتی ہے۔ آج ہمارے خاندان کا امن مہرین کی جرات سے قائم ہے۔ وہ اگر ابا جان کو قائل نہ کرتی توپهوپها، اپنی بیوی اور میرے والد سے ناراض ہی رہتے۔