Monday, March 17, 2025

Chain Rooth Gaya

ہم ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے اور بقول کسے زندگی پیار کا میٹھا گیت معلوم ہوتی تھی مگر وقت کڑیل مزاج ہوتا ہے یہ کبھی جل تھل کر کے اور کبھی قطرے قطرے کو ترسا کر اپنے آپ کو منواتا ہے۔ میری زندگی میں بھی بہت سی مصیبتیں آئیں لیکن اللہ نے مجھ کو ہر مصیبت کا سامنا کرنے کا حوصلہ دیا اسی لیے میں ہمہ وقت شکر ربی کرتی رہتی ہوں۔ میرے دادا ہیڈ ماسٹر تھے۔ وہ بہت دین دار آدمی تھے ، ان کے دو بیٹے تھے ایک میرے والد اور دوسرے چچامنان۔ دونوں کی پرورش نہایت توجہ سے اسلامی اصولوں پر ہوئی اسی وجہ سے آج میں فخر سے کہتی ہوں کہ ماں باپ نے ہمارے اندر حرام کا ایک لقمہ بھی جانے نہ دیا۔ بابا اور چاچو ساتھ رہتے تھے۔ گھر میں مشترکہ خاندانی نظام تھا۔ چچی کے یہاں شاہ زیب پیدا ہوا اور سال بعد میں عالم وجود میں آئی۔ دادی کہتی تھیں کہ اس وقت انہوں نے مجھے چاچی کی گود میں دے کر کہا تھا کہ یہ تمہاری بہو بنے گی اور چاچی نے ہنس کر جواب دیا تھا کہ اماں جی ! یہ تو وقت بتائے گا، ابھی سے کہنا قبل از وقت ہو گا۔ چاچی اور امی کے درمیان بہنوں جیسا پیار تھا تبھی گھر میں کسی قسم کی بدمزگی کا سوال پیدا نہ ہوتا تھا۔ ابواور چاچو بھی ایک دوسرے کی بہت عزت کرتے تھے۔ یوں لوگ ہمارے گھرانے کے پیار و محبت کی مثالیں دیا کرتے تھے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم پر مشکل وقت نہ آئے تھے۔ چاچو بتاتے ہیں کہ ایک دفعہ ان کا شدید قسم کا روڈ ایکسیڈنٹ ہو گیا تو اس کا سارا خرچہ نہ صرف میرے بابا نے اٹھایا بلکہ ان کے بچوں کا بھی پورا خیال رکھتے تھے۔ غرض ہمارے گھرانے پر آئی ہر مصیبت کو میرے ابو اور چاچو مل کر برداشت کرتے تھے۔ میں اور شاہ زیب ایک ساتھ بڑے ہوئے۔ ہم بچپن سے ہی اچھے دوست تھے۔ عمر کے ساتھ ساتھ یہ دوستی پکی ہوتی گئی۔ ہم دونوں کی ایک جیسی عادات تھیں، مل کر کھانا، ایک سی چیزیں پسند کرنا لیکن جب امی مجھے لڑکیوں والے فراک پہناتیں تو میں لڑ پڑتی کہ آپ میرے لیے شاہ زیب جیسے کپڑے کیوں نہیں بنا تھیں۔ ہم دونوں اپنے والدین کی پہلوٹی کی اولاد تھے تبھی خوب عیش کئے۔ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں پر رعب جماتے۔ وہ اور میں شرارتوں میں سب سے آگے تھے لیکن ہماری بے ضرر شرارتیں ہو تیں مثلاً لمبی گرم دو پہروں کو جب سب گھر والے سو جاتے ہم چپکے سے کمروں سے باہر نکل جاتے۔ جانے کیوں ہم کو کمروں کی خنکی سے زیادہ    دو پہر کی لوپسند تھی۔ ساتھ والے انکل کے گھر جامن کا درخت تھا۔ شاہ زیب درخت پر چڑھ جاتا اور جامن تو ڑ لاتا بھی ہم مل کر موج اڑاتے۔ ایک بار میری بے وقوفی کے باعث اس کا سر پھٹ گیا۔ حسب معمول وہ جامن کے درخت پر چڑھا تو پتا نہیں کیسے میرے جی میں آئی کہ پتھر سے جامن    تو ڑنا آسان ہے سو میں نے زمین پر پڑا ہوا پتھر اٹھا کر شاخ پر دے مارا۔ نشانہ خطا ہو گیا اور پتھر شاہ زیب کے سر پر جالگا، خون بہنے لگا۔ خون بہتے دیکھ کر کسی کو بلانے کی بجائے میں وہیں رونے بیٹھ گئی تھی۔ وہ خود ہی نیچے اتر آیا اور اندر جانے کی بجائے مجھے چپ کرانے لگا۔ میری آواز پر امی بابا باہر آئے تو شاہ زیب کی پٹی کرائی۔ شام کو چاچو  نے ہم کو خوب ڈانٹا تب ہم نے توبہ کی کہ آئندہ جامن توڑنے کے لیے درخت پر نہ چڑھیں گے۔ چاچو سے وعدہ کیا کہ ہم دو پہر میں آئندہ باہر نہیں جائیں گے ۔ وعدہ توڑنے کی صورت میں انہوں نے دھمکی دی کہ وہ شاہ زیب کو سائیکل اور مجھ کو چوڑیاں لا کر نہ دیں گے۔ ہم دونوں نے دو دن صبر کیا لیکن یہ ہماری ہمت سے باہر تھا سو ہم پھر اپنی روٹین پر واپس آگئے۔ ہم نے پھر سے شرارتیں شروع کر دیں۔ چپکے سے دو پہر کو گھروں کی گھنٹیاں بجا کر بھاگ آتے تھے کیونکہ ساتھ والے انکل نے جامن کا پیر ہی کٹوا دیا تھا۔ ایک دن ہمسائے نے ہم کو گھنٹیاں بجاتے پکڑ لیا اور سیدھا چاچو کے پاس لے گیا۔ اس روز جو ہماری مرمت ہوئی وہ آج تک یاد ہے۔ ساری گرمیاں باہر گزارنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ مجھے بخار ہو گیا۔ اگلے دن بارش ہونے لگی تو میں حسرت بھری نگاہوں سے شاہ زیب کو نہاتے دیکھ رہی تھی۔  امی جیسے ہی وہاں سے گئیں شاہ زیب نے مجھے بلا لیا۔ رانیہ باہر آئو۔ دیکھو کتنی مزیدار بارش ہو رہی ہے۔ تم بھی نہائو۔ میں تو پہلے ہی چاہ رہی تھی۔ امی سے چھپتے چھپاتے ہم دونوں پچھلے صحن میں چلے گئے اور نہاتے رہے۔ گھنٹہ بعد امی کچن میں آئیں تو مجھے بستر پر نہ دیکھ کر پریشان ہو گئیں۔ انہیں پتا چل گیا کہ میں باہر ہوں۔ ہمیں بارش میں نہاتے دیکھ کر ان کا پارہ چڑھ گیا۔ بخار میں نہانے کی وجہ سے سردی نے پکڑا اور رات کو تیز بخار چڑھ گیا تب ہی ڈاکٹر نے کہا کہ اس کو نمونیا ہو گیا ہے۔ اسی طرح شرارتیں کرتے ہوئے ہم نے سہانے بچپن کو پیچھے چھوڑ دیا۔ دوستی تو اب بھی تھی مگر بچپن والی نہیں بلکہ سنجیدہ دوستی تھی۔ ہمارے خاندان میں لڑکیوں کو پڑھنے کی اجازت نہ تھی، تبھی آٹھویں کے بعد مجھے گھر بٹھا دیا گیا تاہم مطالعہ کا شوق موجود تھالہذا شاہ زیب کے اصرار پر میں نے دسویں کا پرائیویٹ امتحان دیا۔ شام کو آرام کرنے کے بعد وہ اکیڈمی چلا جاتا اور پھر واپس آکر مجھے پڑھاتا۔ اسی دوران وہ مجھ کو اسکول کے واقعات بتاتا۔ شاہ زیب شروع ہی سے لائق تھا۔ ہم برآمدے میں سب کے سامنے بیٹھ کر پڑھتے تھے۔ ابو اور چاچو ہم کو انہماک سے پڑھتاد یکھ کر کہتے تھے کہ چلو تم دونوں کو فضول باتیں کرنے کے علاوہ پڑھنا بھی آتا ہے۔ اب بھی ہم ساتھ کھانا کھاتے اور اگر اس کو اکیڈمی سے آنے میں دیر ہو جاتی تو میں بھی نہ کھاتی۔ ایک دن میری خالہ زاد آمنہ آئی۔ بولی راضیہ ! تم کتنی خوش قسمت ہو جس کو پسند کرتی ہو شادی بھی اسی سے ہو گی۔ میں نے حیران ہو کر اسے دیکھا۔ کیا مطلب؟ وہ بولی۔ مطلب یہ کہ کل خالہ امی کو بتارہی تھیں کہ رانیہ کا کوئی مسئلہ نہیں، یہ میری نگاہوں کے سامنے رہے گی۔ آمنہ کچھ دیر بیٹھی مجھ سے باتیں کرتی رہی مگر وہ میری سوچوں کو ایک نیا رخ دے گئی۔ کیا واقعی میں اس کو چاہتی ہوں، لیکن چاہت کیا ہوتی ہے…؟ نہیں معلوم ! کیونکہ وہ تو صرف میرا دوست ہے۔ میں نے اپنے آپ کو اطمینان دینے کے لیے سوچا تھا۔ یہ مجھے بعد میں پتا چلا کہ چاہت کس درد کا نام ہے ، جب میں نے اس کو کھو دیا۔  ایک دن میں نے سوچا۔ چلو اس سے تو پوچھوں، دیکھوں کیا کہتا ہے۔ اس نے کہا۔ رانیہ ! مجھے سب پتا ہے لیکن ابھی میں اس رشتے پر سوچنا نہیں چاہتا کیونکہ ابھی مجھے بہت پڑھنا ہے، آئندہ مجھ سے اس بارے میں بات مت کرنا۔ میں چپ ہو گئی تھی۔ اتنا بھی نہ پوچھ سکی کہ اتنا تو بتادو کہ تم مجھ کو اپنائو گے یا نہیں…؟ میٹرک میں وہ اول پوزیشن لایا اور میں بھی اچھے نمبر لائی تھی۔ وہ انجینئر بنناچاہتا تھا اس لیے دل لگا کر پڑھائی شروع کر دی۔ اب وہ مجھے کم ہی وقت دے پاتا تھا۔ کالج سے گھر آکر دیر تک آرام کرتا پھر اکیڈ می چلا جاتا۔ واپس آکر ٹی وی دیکھنے لگتا پھر پڑھنے چلا جاتا۔ اب وہ صرف اتوار کو مجھے پورا سبق پڑھا دیتا جس کو میں ہفتہ بھر یاد کرتی رہتی۔ اتنی محنت کرنے کے باوجود شاہ زیب کے نمبر اس بار کم آئے تو وہ بہت افسردہ ہو گیا۔ میں نے اس کو تسلی دی کہ کیوں تم اتنے پریشان ہو ، اس مرتبہ نمبر کم ہیں تو کیا ہوا. تم مزید محنت کرو انشاء اللہ اگلے سال اچھے نمبر لے آئو گے۔ اس نے ایک تھکی تھکی نظر مجھ پر ڈالی اور کہا۔ رانیہ ! تم کو نہیں پتا یہاں کتنی بے انصافی ہوتی ہے ، ہماری کلاس کے نالائق لڑکوں کے نمبر مجھ سے کہیں زیادہ ہیں۔ آخر ایسا کیونکر ہو جاتا ہے ، کیا محض دولت کے بل بوتے پر یا پھر تعلق کی وجہ سے…؟ تم کو گمان ہے محنت کرنے میں کامیابی ہے۔ زیب ! ایسا مت سوچا کرو۔ نہیں رانیہ ! تم نہیں جانتیں، دنیا میں کیا ہورہا ہے ، لوگ تو آج کل پیسے کی خاطر اپنا ایمان تک بیچ دیتے ہیں۔ کاش! میں امیر ہوتا یا پھر میرے پاس ایسا ذریعہ ہوتا کہ میں . لیکن اب تو خود کشی کرنے کو دل چاہتا ہے۔ اس کی باتیں سن کر میں ڈر جاتی تھی۔ کہیں وہ کوئی غلط قدم نہ اٹھالے۔ انہی دنوں میر ارزلٹ آیا، پاس ہوگئی مگر عجب بات یہ ہوئی کہ شاہ زیب نے مبارکباد دینا تو در کنار مجھ سے اتنا بھی نہ پوچھا کہ تمہارے نمبر کتنے ہیں۔ میں بہت دلبر داشتہ ہو گئی۔ یوں لگ رہا تھا کہ وہ مجھ سے دور ، بہت دور ہوتا جا رہا ہے۔ ہمارے خاندان میں لڑکیوں کی شادی جلد ہو جاتی تھی مگر میں اپنی ہم عمروں میں کنواری رہ گئی تھی۔ میرے والدین نے صرف شاہ زیب کی وجہ سے میرے کئی رشتے ٹھکرا دیئے تھے۔ ان دنوں کچھ نہ سوجھتا تھا کہ کیا کروں، خالی الذہن بیٹھی رہتی یا سارا دن اوٹ پٹانگ سوچتی رہتی۔ کچن میں کام کرنے جاتی تو سارا کچھ جلا کر آجاتی۔ انہی دنوں شاہ زیب میں پھر تبدیلی آگئی۔ وہ دوبارہ خوش رہنے لگا۔ وہ پہلے کی طرح سب سے ہنس ہنس کر باتیں کرتا تھا لیکن اس نے مجھ سے جو دوریاں اختیار کرلی تھیں وہ جوں کی توں تھیں۔ ایک سال گزر گیا۔ شاہ زیب کے دوسرے سال کارزلٹ آگیا حالانکہ نمبر بہت زیادہ نہیں تھے لیکن وہ بہت خوش تھا۔ وہ سب گھر والوں کو باہر کھانے پر لے جانا چاہتا تھا مگر سبھی اپنی اپنی جگہ مصروف تھے لہذاوہ کھانا گھر پر ہی لے آیا۔ سب نے کھانا کھایا۔ برتن سمیٹ کر میں چھت پر آئی تو شاہ زیب بھی میرے پیچھے آیا۔ کہنے لگا۔ رانی ! تم ناراض تو نہیں ہو مجھ سے؟ کیوں ناراض ہونے لگی؟ وہ کچھ دیر کھڑا میرے ساتھ باتیں کرتا رہا کہ جیسے ہمارے بیچ دوریاں آئی نہ ہوں لیکن ایک بات میں نے شدت سے محسوس کی کہ وہ بدل چکا تھا، اس کی ساری باتیں بدل چکی تھیں۔ کل تک جو اخلاق کی باتیں کرتا تھا، آج اس کی باتوں میں صرف ایک ہی چیز تھی۔ دولت دولت اور دولت ! وہ جتنا دولت کی ہوس میں ڈوبتا جارہا تھا مجھ کو وہ اتنا ہی خود سے دور محسوس ہو رہا تھا۔ اگلے ماہ اس نے چاچو کو بتایا کہ اس کا داخلہ انجینئر نگ میں ہو رہا ہے۔ اس کے والد نے کہا کہ تمہارے نمبر تو کم ہیں پھر داخلہ کیسے ہو سکتا ہے…؟ میرا ایک دوست ہے جو بہت امیر ہے ، اس نے داخلہ کروانا ہے۔ اس نے جواب دیا۔ باپ نے سمجھایا کہ تم اپنے دوست کا احسان کیوں لے رہے ہو۔ تو وہ بولا کہ جب انجینئر بن جائوں گا تو سب کچھ اسے لوٹا دوں گا۔ شاہ زیب نے جس کالج میں داخلہ لیا اس میں ابو کے ایک دوست بھی پڑھاتے تھے۔ انہوں نے ابو کو آکر بتایا کہ شاہ زیب پڑھنے کی طرف کم اور ایک لڑکی جس کا نام مونا ہے، اس کی طرف زیادہ توجہ دیتا ہے۔ ساتھ یہ بھی کہ وہ دونوں کالج میں کم اور کینٹین میں زیادہ پائے جاتے ہیں۔ ابو یہ جان کر خاموش ہو گئے تاہم انہوں نے اپنے بھائی کے کان میں یہ بات ڈال دی۔ چا کو بہت غصہ آیا کیو نکہ انہیں شاہ زیب سے یہ امید نہ تھی۔ ان کا خیال تھا کہ بیٹے کو کم از کم ان کی عزت کا تو پاس رکھنا چاہئے۔ ایک دن چچاغصے میں گرج رہے تھے تو مجھے کسی انہونی کا احساس ہو رہا تھا۔ تبھی میں دروازہ بجا کر اندر داخل ہو گئی۔ سب مجھ کو دیکھ کر خاموش ہو گئے۔ بیٹھنے سے پہلے ہی بابا نے کہا کہ رانیہ بیٹا ! چار کپ چائے بنالائو۔ یوں لگا جیسے مجھے باہر بھیجنے کا بہانہ بنایا ہو۔ میں چپ چاپ باہر نکل آئی۔ شام کو شاہ زیب آیا تو چاچو نے فوراً اپنے کمرے میں بلا لیا۔ اس کو بالکل اندازہ نہ تھا کہ کس قسم کے سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ مونا کون ہے ؟ چاچو نے پوچھا۔ وہ حیران رہ گیا۔ پھر ہچکچاتے ہوئے کہا۔ میری دوست ہے۔ تمہاری دوستی بس کلاس تک ہونی چاہئے۔ وہ تمہارے ساتھ ہوٹلوں میں کیا کرنے جاتی ہے ؟ کم از کم تم کو میری عزت کا خیال کرنا چاہئے۔ جب تابڑ توڑ ایسے سوالات ہوئے تو اس نے کہہ دیا۔ ابو! فکر مت کریں، میں جلد ہی اس لڑکی کو آپ کی بہو بنا رہا ہوں۔ بیٹے کے اس بے حجابانہ جواب پر باپ نے حیران پریشان ہو کر اس کو دیکھا پھر چپ چاپ لیٹ گئے۔ شام کو شاہ زیب میری طرف آیا۔ اس نے کہا۔ رانیہ ! میں نے واقعی تمہارے ساتھ غلط کیا ہے لیکن میں کیا کروں مجھے مونا بہت پسند ہے۔ یاد ہے جب فرسٹ ایئر کے امتحان کے بعد میں بری طرح ٹوٹ چکا تھا تو مونا ہی تھی جو میری مدد کو آئی۔ اس نے یقین دلایا کہ وہ پوری طرح سے میری مدد کرے گی۔     انجینئر نگ میں داخلہ بھی اسی نے کرایا۔ اب میں اس کے احسانوں تلے دب چکا ہوں۔ ان احسانات کو اتارنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ میں اس سے شادی کر لوں۔ وہ کہتا جا رہا تھا تبھی میں نے اس کی طرف سے منہ موڑ لیا۔ مجھے پتا ہے کہ تم مجھے پسند کرتی ہو لیکن رانیہ مجھے یقین ہے تم اتنی اچھی لڑکی ہو کہ کوئی بھی لڑکا تم سے خوشی خوشی شادی کرلے گا۔ میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ میں واقعی مونا کو پسند کرتا ہوں۔ اس کے یہ الفاظ میرے کانوں میں برچھیوں کی طرح لگے۔ چیخ چیخ کر کہنا چاہتی تھی کہ تم مونا سے نہیں، اس کی دولت سے پیار کرتے ہو لیکن آنسوئوں نے مجھے یہ کہنے کا موقع نہ دیا۔ ایک دن چاچی آئیں۔ بہت بھی بجھی تھیں۔ تھوڑی دیر خاموش بیٹھی رہیں۔ امی نے حال احوال پوچھا تو بھی ان کی زبان نہ کھل رہی تھی۔ آخر کار گویا ہوئیں کہ میں رانیہ کو اپنی بہو نہیں بنا سکتی۔ وہ معذرت کر رہی تھیں اور امی بت بنی ہوئی تھیں۔ بس اسی قدر کہا کہ شاید اس کی قسمت اس گھر میں نہیں تھی۔ یہ کہہ کر آنسو چھپانے لگیں۔ چاچی نے بھی نظریں نیچی رکھیں تاکہ ان کے آنسوئوں کو نہ دیکھ سکیں۔ انہی دنوں میرا رشتہ آ گیا۔ لڑکا سعودی عرب میں تھا اور وہاں اس کی اپنی ورکشاپ بھی تھی۔ امی شاید اسی انتظار میں تھیں۔ انہوں نے فورا ہاں کہہ دی۔ ایک ماہ بعد میں احمد کے گھر میں دلہن بن کر چلی گئی۔ احمد بہت اچھے انسان تھے اور میری ساس تو مجھے بیٹی جانتی تھیں۔ آہستہ آہستہ میں شاہ زیب کے غم کو بھولنے لگی۔ دو سال گزر گئے۔ میں دو بچوں کی ماں بن گئی۔ اپنے میکے بہت کم جاتی تھی کیونکہ شاہ زیب کو دیکھ کر میرا غم تازہ ہونے لگتا تھا۔ امی بھی میرے جذبات سے واقف تھیں اس لیے زیادہ تر خود ملنے آجاتی تھیں۔ پچھلے دنوں چاچی کی طبیعت خراب تھی۔ میں ان سے ملنے گئی تو شاہ زیب کی حالت دیکھ کر حیران رہ گئی۔ وہ خاصا بیمار لگ رہا تھا۔ اس کی بہن نے بتایا۔ آپ کی شادی کے بعد بھیا کو احساس ہوا کہ وہ آپ کو کھو کر کس قدر غریب ہو گیا ہے مگر ان دنوں دولت کی چاہ نے اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی تھی۔ بعد میں مونا سے ویسی چاہت نہ رہی جیسی پہلے محسوس ہوتی تھی تب انہوں نے اس کی جانب توجہ بھی کم کر دی۔ مونا کادل ٹوٹ گیا۔ انہی دنوں اس کے لیے ایک امیر لڑکے کا رشتہ آگیا تو اس کے والدین نے دبائو ڈال کر ہاں کرادی۔ وہ بھی شاہ زیب کے گریز کو محسوس کرنے لگی تھی۔ اس کی بہن یہ سب بتا کر چلی گئی مگر میں وہاں بیٹھی سوچتی رہ گئی کہ دولت کی چاہت میں اندھے ہو کر جو لوگ اپنے بچپن کے ساتھی کو گنوا دیتے ہیں ان کا انجام ایسا ہی ہوتا ہے کہ وہ خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں۔ شاہ زیب میرے بچپن کا ساتھی پل پل میرا ساتھ نباہنے والا اکیلا ہ گیا تھا۔ اس کی ہنسی، شوخی سب کچھ ختم ہو گئی تھی۔ لٹالٹا سا… ! ماں نے کئی لڑکیاں دکھائیں۔ بہن اور باپ نے سمجھایا کہ اب شادی کر لو، کیا بوڑھے ہو کر کرو گے، جب بیوی آئے گی خود ہی دل لگ جائے گا، بچے ہو جاتے ہیں، زندگی کا ایک مقصد بن جاتا ہے ، آدمی خود بخود جینے کی آرزو کرنے لگتا ہے۔ ایسی باتیں شاہ زیب پر الٹا اثر کرتی تھیں۔ وہ خفا ہو جاتا یا پھر گھر سے نکل جاتا۔ ان دنوں  چچی اس کے لیے بہت پریشان رہتی تھیں۔ کہتی تھیں کہ وہ وقت کہاں سے لائوں جب تم کو کھو دیا اور مونا اس کی زندگی میں آئی۔ اے کاش ! اس سے بہتر تھا کہ یہ انجینئر نہ بنتا، انجینئر بن کر بھی کیا پایا، زندگی تو خالی کی خالی رہ گئی۔ دعا کرتی ہوں خدا اسے سکون دے اور مجھے بھی سکون دے تاکہ ہم دونوں اپنی اپنی زندگی ایک دوسرے کے بغیر چین سے جئیں اور کبھی کوئی ہماری شرافت کی طرف انگلی نہ اٹھا سکے۔

Latest Posts

Related POSTS