زینب ہمارے گھر کام کرتی تھی۔ وہ بہاولپور کی رہنے والی تھی۔ وہاں اکثر مرد دوسری شادی کرنے سے نہیں جھجکتے اور عورتیں بھی بےٹھکانہ ہونے کے خوف سے سوتن کو بخوشی قبول کر لیتی ہیں کیونکہ وہاں جب لڑکی ایک بار بیاہ دی جاتی ہے تو میکے والے کوشش کرتے ہیں کہ وہ ہر حال میں شوہر کے گھر میں ہی رہے، چاہے اس کا خاوند اس پر سوتن ہی کیوں نہ لے آئے ایک روز زینب ہمارے گھر کام کر رہی تھی۔ دوپہر کا وقت تھا۔ دستک ہوئی تو اس نے دروازے کے سوراخ سے آنکھ لگا کر دیکھا۔ دوسرے ہی لمحے وہ پریشان ہو کر میرے پاس آئی۔ کہنے لگی کہ بی بی جو صاحب آئے ہیں، ان سے کہہ دو کہ یہاں کوئی زینب کام نہیں کرتی۔ میں اس کی بات سن کر حیرت میں ڈوب گئی۔ زینب نے مزید کہا کہ ہاں بی بی یہ میرا شوہر ہے۔ پہلے تو گھر سے نکال دیا اور اب ڈھونڈتا پھر رہا ہے۔ آپ کی بڑی مہربانی ہوگی اگر آپ اس سے ایسا ہی کہہ دیں۔ میں بھی اتنی اچھی کام والی کو کھونا نہیں چاہتی تھی، لہٰذا دروازے پر گئی۔ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ جو شخص باہر کھڑا تھا، وہ اپنے حلیے سے نواب جیسا لگتا تھا۔ سامنے ایک قیمتی گاڑی کھڑی تھی، شاید وہ اسی کی تھی۔ مجھے وہ کسی طور ایک کام والی کا شوہر نہ لگا۔ بہرحال میں نے سوال کیا کہ بھائی، آپ کو کس سے ملنا ہے زینب سے باجی، وہ میری بیوی ہے۔ کسی نے بتایا ہے کہ وہ آپ کے گھر کام کرتی ہے نہیں بھائی صاحب، آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے، اس نام کی کوئی عورت ہمارے گھر کام نہیں کرتی۔ وہ شخص مایوس ہو کر سامنے کھڑی گاڑی میں بیٹھ کر چلا گیا۔ میں زینب کی جانب پلٹی اور پوچھا کہ سچ بتا، زینب، یہ کیا قصہ ہے؟ زینب کو میرے گھر کام کرتے دو سال ہونے کو آئے تھے۔ اس نے مجھے کبھی شکایت کا موقع نہ دیا تھا۔ وہ بہت سگھڑ عورت تھی اور اپنے اطوار اور رکھ رکھاؤ سے واقعی کسی اچھے گھرانے کی لگتی تھی۔ اس نے کہا کہ بی بی، یہ بہت لمبا قصہ ہے اور کام پڑا ہوا ہے، کام سے نمٹ لوں تو بتاتی ہوں۔ تجسس نے مگر مجھے چین نہ لینے دیا۔ میں نے کہا کہ رہنے دے کام کو، میں کھانا ہوٹل سے منگوا لوں گی۔ تو مجھے ابھی بتا کہ یہ ماجرا کیا ہے؟ تو گھروں کا کام کرتی ہے اور تیرا آدمی اتنی قیمتی گاڑی میں آیا ہے۔ کیا وہ کوئی نواب ہے؟ شکل اور حلیے سے تو نواب لگتا تھا۔
زینب نے جواب دیا کہ نہیں بی بی، وہ نواب تو نہیں ہے، پر زمیندار ہے، بہت پیسے والا ہے۔ بس میرے نصیب میں چاکری لکھی تھی، سو کر رہی ہوں۔ پھر اس نے اپنی کہانی ان الفاظ میں سنائی جو میں اس کے ہی الفاظ میں قلم بند کر رہی ہوں۔ بی بی، جن دنوں ہماری شادی ہوئی، ہمارے روز و شب بھی ایسے ہی مسرت بھرے تھے جیسے عام چاہنے والوں کے ہوتے ہیں۔ میرے شوہر مجھ پر فدا تھے۔ دو دن کے لیے میکے چلی جاتی تو روٹھ جاتے۔ کہتے، زینو، تیرے بغیر میرا وقت نہیں کٹتا۔ جی کرتا ہے کہ تم مجھ سے ایک پل کو بھی دور نہ رہو۔ اگر میں جہانگیر ہوتا تو حکومت کرتے وقت تمہارا ہاتھ بھی پردے کے پیچھے سے میرے کندھے پر دھرا ہوتا۔ پر اب کیا کروں، مجبور ہوں، تمہیں اپنے ساتھ دفتر نہیں لے جا سکتا۔ ورنہ تو سامنے بٹھا کر وہاں بھی تیرا دیدار کرتا۔ میں یہ باتیں سنتی تو خود کو دنیا کی خوش نصیب ترین عورت سمجھتی تھی۔ میرے پیر ہواؤں میں رہتے۔ مجھے اپنے شوہر کی محبت پر خدا کے وجود کی مانند یقین تھا۔ میں سمجھتی تھی کہ دنیا الٹی گھوم سکتی ہے، سورج مغرب سے نکل سکتا ہے، مگر میرا شوہر نہیں بدل سکتا۔ پانچ سال سکون سے گزر گئے۔ میرے سرتاج کے پاس بے اندازہ دولت تھی جو انہیں وراثت میں ملی تھی۔ یہی دولت بالآخر میرے اور ان کے درمیان جدائی کا سبب بن گئی۔ پانچ سال بعد بھی اولاد نہ ہوئی تو ان کے رشتے داروں نے محی الدین کے کان بھرنے شروع کر دیے کہ صاحب، یہ بے اندازہ دولت کدھر جائے گی؟ اس کا وارث کون ہو گا؟ یہ ایروں غیروں کے نصیب ہو جائے گی۔ عورت بانجھ ہو تو مرد کو وقت پر شادی کر لینی چاہیے، بڑھاپے میں کریں گے تو اولاد کی خوشیاں کب دیکھیں گے۔ میرا شوہر رشتہ داروں کی یہ باتیں سنتا، میں بھی سنتی اور ہنس دیتی۔ کہتی کہ ان لوگوں کا تو دماغ خراب ہے۔ سائیں، اگر عورت کو اولاد نہ ہو تو مرد دوسری شادی کر لیتا ہے۔ اگر معاملہ الٹا ہو تو کیا عورت بھی دوسرے مرد کا انتخاب کر سکتی ہے؟ اصل بات تو یہ تھی کہ مجھے یقین تھا کہ میرے اولاد نہ ہونے کی وجہ سے یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ میرا شوہر میری محبت کو بھلا کر کسی اور عورت کو بیاہ لائے۔ میری محبت تو ان کی زندگی تھی، ان کے روئیں روئیں میں بستی تھی۔ بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ محبت کا یہ نو لکھا ہار میری گردن سے اتار کر کسی اور کی گردن کی زینت بن جائے۔ عورت بھی مرد کے بارے میں کس قدر خوش فہمیوں میں مبتلا رہتی ہے۔ نہیں جانتی کہ اس ہستی کو بدلتے دیر نہیں لگتی۔ جہاں عورت کی محبت چٹان کی طرح مضبوط ہو سکتی ہے، وہاں مرد کی محبت محض مصلحت بھی بن سکتی ہے اور کسی روز بھی اس کی نیت بدل سکتی ہے۔ کسی خوبصورت عورت کو دیکھ لے تو اس کا دل قابو میں نہیں رہتا، جبکہ شریف عورت ہمیشہ ایک مرد کی محبت کو ہی اپنی زندگی کا حاصل سمجھتی ہے، خواہ اس کی نظروں کے سامنے کتنے ہی مرد کیوں نہ گزر جائیں۔ ایک دن کسی نے خبر دی کہ محی الدین نے دوسرا بیاہ رچا لیا ہے۔ یہ انکشاف میرے لیے ایسا ہی تھا جیسے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرایا گیا ہو۔ میرے دل کی زمین تو ایسی جلی کہ پھر اس میں روئیدگی کی امید نہ رہی۔ ان کی یہ حرکت مجھ سے کب تک چھپتی؟ آخر کار مجھے بتانا پڑا۔ پھر ایک روز وہ دوسری عورت، جو اب ان کی بیوی تھی، کو گھر لے آئے۔ جو ہو چکا تھا اسے قبول کرنا تو ناگزیر تھا۔ میں اپنے شوہر سے محبت کرتی تھی، اس لیے محی الدین کو پریشان کرنا یا علیحدگی کا مطالبہ کرنا میرے لیے باعثِ تکلیف تھا، لہٰذا اس کڑوے گھونٹ کو پی کر خاموش ہو رہی۔ ماں نے بھی سمجھایا کہ اپنے شوہر کے گھر رہو اور سوکن کے ساتھ گزارا کرو، میکے آ بیٹھنے سے کچھ خوشیاں نہ ملیں گی، البتہ بھائیوں اور بھابھیوں پر بوجھ بن جاؤ گی۔ اپنا گھر اپنا ہوتا ہے۔ محی الدین تم سے برا سلوک نہیں کرے گا۔ مرد اولاد کے لیے دوسری شادی کرتے ہیں، اور پھر وہ تو پیسے والا ہے، یہ کوئی انہونی بات نہیں۔ مرد ایسا کرتے رہتے ہیں، کون ان سے بازپرس کر سکتا ہے؟ سوکنیں شہزادیوں اور ملکہوں پر بھی پڑتی ہیں، وہ بھی تو برداشت کرتی ہیں۔ ماں کے سمجھانے سے نصیب کا لکھا جان کر صبر کر لیا۔ سوچا کہ اگر سوکن کو سوکن نہ سمجھوں گی تو زندگی کے دن اچھے گزر جائیں گے، مرد بھی پرسکون رہے گا اور ہمارا سکون بھی تہہ بالا نہ ہو گا۔ میں نے کبھی مہ جبیں کو سوکن نہیں جانا، مگر یہ جانے کس مٹی کی بنی تھی۔ باوجود میرے اچھے سلوک کے، اس کو میرا وجود کانٹے کی طرح کھٹکتا تھا۔ بہانے بہانے سے گھر کا سکون برباد کرنے سے نہ چوکتی۔ رفتہ رفتہ محی الدین بھی لا تعلق ہوتے جا رہے تھے۔ میں نے سوچا کہ وہ جو میرے ساتھ کر رہے ہیں، اسے برداشت کر لوں۔ نجانے مہ جبیں نے کیا پڑھایا کہ شوہر نے میری پروا کرنا چھوڑ دی۔ میں نے یہ بھی سہہ لیا۔ محی الدین نے اس عورت کی جھوٹی شکایتوں پر کئی بار میرے ساتھ گالم گلوچ بھی کی، مگر میں نے صبر کیا۔
سوکن کے بچوں کو سنبھالا، ان کی خدمت کی اور ماں سے بڑھ کر پیار دیا کیونکہ وہ میرے محی الدین کے بچے تھے، سو مجھے دل سے عزیز تھے۔ بچے تو پیار کے طالب ہوتے ہیں۔ پیار پا کر وہ میرے دیوانے ہو گئے، ہر وقت میرے پاس رہتے۔ وہ مجھے اپنی ماں سے زیادہ چاہنے لگے۔ اس کو یہ بات بھی گوارا نہ تھی کہ اس کے بچے مجھ سے زیادہ پیار کریں۔ وہ ان معصوموں کو روئی کی طرح دھنک ڈالتی۔ ایک روز مجھ سے ملنے کے لیے میرے چچازاد بھائی ہمارے گھر آیا۔ ماں بہاولنگر میں تھیں اور بہت بیمار تھیں۔ وہ یہی بتانے آیا تھا۔ وہ تو مجھے اپنی سگی بہن جیسا جانتا تھا۔ کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ سوکن مجھ پر ایسا برا الزام لگا دے گی۔ بلال بچارہ بمشکل ایک منٹ بیٹھا ہوگا۔ اس نے چائے کی پیالی تک نہ پی۔ بس ماں کی علالت کا بتایا اور چلا گیا۔ نجانے مہ جبیں نے کس انداز سے محی الدین کو یہ بات بتائی کہ اس نے مجھ سے کہا، میری غیر موجودگی میں دیگر مردوں کو گھر میں بٹھا لیتی ہو؟ تمہیں لحاظ نہیں آتا؟ وہ تمہارا چچازاد تھا، مہ جبیں کا تو نہیں تھا۔ پھر تم نے اس سے پردہ کیوں نہ کرایا؟ حالانکہ مہ جبیں تو اس کمرے میں آئی بھی نہیں تھی جہاں ہم بیٹھے تھے۔ اس نے کہا، “تم ابھی اور اسی وقت میرے گھر سے نکل جاؤ۔ مجھے ایسی آوارہ عورت کو گھر میں رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میری بیٹیاں آج چھوٹی ہیں، کل بڑی ہو جائیں گی۔ تو کیا تمہارے ایرے غیرے رشتے داروں کے ماتھے لگیں گی؟ میں اب تم کو مزید برداشت نہیں کر سکتا۔” میں بھلا آباد ہی کب تھی، جو اب برباد ہو رہی تھی؟ یہ سوچ کر کہ عورت کی شرافت پر دھبہ نہ آئے، یہاں پڑی تھی کہ شوہر کا گھر ہے۔ کوئی مجھ پر انگلی نہ اٹھائے، ورنہ دو وقت کی روٹی دینے والا تو خدا ہی ہے۔ اس وقت سخت سردی تھی۔ سر پر چادر نہ پیر میں جوتی۔ انہوں نے مجھے بانہہ سے پکڑ کر باہر کر دیا۔ کچھ دیر برآمدے میں ٹھہری رہی۔ بچے باہر آئے اور مجھ سے لپٹ گئے۔ وہ مجھے بھینچ کر رو رہے تھے لیکن اس ظالم مرد نے ان کو بھی کھینچ کر علیحدہ کر کے کمرے میں بند کر دیا اور مجھے گھر سے باہر نکال دیا۔ میں ننگے پاؤں شدید سردی میں پیدل کئی میل چل کر شہر آئی اور اپنے واقف لوگوں کے گھر پناہ لی۔ ان بیچاروں نے مجھے سہارا دیا کیونکہ تھکن اور صدمے سے آتے ہی فرش پر گر پڑی تھی۔ چلتے چلتے پاؤں سوج گئے تھے۔ وہ جو مجھ سے محبت کے بلند بانگ دعوے کرتا تھا، اس نے آج مجھے تین کپڑوں میں دھکا دے دیا تھا۔ امی فوت ہو گئیں۔ کچھ دن بھابھیوں نے رہنے دیا، پھر کہا کہ شوہر اور سوکن کو منا لو اور اپنے گھر جاؤ۔ کیا عمر بھر ایسے ہی در بدر رہو گی؟ بھائیوں کا بھی یہی خیال تھا، لیکن عورت لاکھ سونے جیسی ہو، انسان ہوتی ہے۔ آخر اس کی بھی عزتِ نفس ہوتی ہے۔ وہ مٹی کا مادھو تو نہیں ہوتی۔ آج انہوں نے یہ کہا ہے، تو کل اس سے بھی برا سلوک کرتے۔ سو میں نے وہاں جانے کے بجائے لوگوں کے گھروں میں کام کرنا شروع کر دیا۔ میں دوبارہ بہاولپور آگئی۔ ایک سہیلی کے پاس چند دن قیام کیا۔ کام کی تلاش میں میرے دن یونہی خانماں برباد کٹتے رہے۔ دل کہیں نہ لگتا تھا۔ کبھی شوہر کی محبت اور کبھی ان کی بے وفائی خون کے آنسو رلاتی تھی۔ دنیا سے جی اچاٹ ہو گیا۔ سوچتی، اے کاش، میں خودکشی کر سکتی۔ کبھی دل کرتا کہ بال کھول کر، کپڑے نوچ کر سڑکوں پر دیوانی سی پھرنے لگوں۔ شاید اس طرح سکون مل جائے۔ پھر بھی خود پر قابو کیا اور ایک متمول شوہر کی بیوی ہوتے ہوئے لوگوں کے گھروں میں کام کرنے لگی۔
کافی عرصہ بعد ایک روز کسی نے بتایا کہ تمہاری سوکن کو نجانے کیسا بخار ہوا کہ وہ پاگل ہوگئی۔ ننگے سر، ننگے پاؤں، لباس سے بے پروا، گھر سے باہر بھاگ جاتی تھی۔ چیختی چلاتی، اسے پکڑ کر لاتے کہ گھر چلو۔ کہتی، مجھے چھوڑ دو، میرا کوئی گھر نہیں ہے۔ پھر دیواروں سے سر ٹکراتی اور بال نوچتی۔ اس کا یہ حال سن کر مجھے بہت افسوس ہوا۔ میں بچوں سے محبت کرتی تھی اور پاگل ماں کے بچوں کا کیا حال ہوا ہوگا، یہ تو ہر کوئی جانتا ہے۔ وہ بچارے کس طرح خوفزدہ اور کسمپرسی میں ہوں گے۔ وہ معصوم ماں سے محروم ہوگئے۔ اگر میں وہاں ہوتی تو انہیں اپنے پروں میں چھپا لیتی، اپنے کلیجے سے لگا لیتی۔ نجانے اب ان کا کیا حال ہوگا۔ تھوڑے دنوں بعد وہ بیچاری گھر سے سڑک پار کرتے ہوئے کسی بس تلے آ گئی اور اس کی موت واقع ہوگئی۔ اس کے بعد محی الدین کو میری یاد آئی۔ اس نے بڑے جتن کیے کہ مجھے واپس گھر لے جائے۔ کئی بار ان کوٹھیوں کے چکر لگائے جہاں میں کام کرتی تھی۔ جب بھی اس کا سامنا ہوجاتا، میرا خون کھول اٹھتا۔ اس کی بے وفائی نے مجھے نفرت کی آگ میں جلا دیا تھا۔ میں نے اس کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔ جب دل ہی نہ مانے تو آدمی کیوں کسی کو دھوکہ دے۔ میں آج کہہ سکتی ہوں کہ عورت کی نفرت اس کی محبت سے زیادہ پائیدار ہوتی ہے۔ میرا اس کے ساتھ محبت کا رشتہ شاید ختم نہ ہوا ہو مگر عزت و تکریم والا رشتہ نابود ہو چکا تھا۔ جب دل کے رشتے نہ رہیں تو میں دنیاوی رشتوں کے لئے کیونکر اس سے ناتا جوڑ لیتی۔ وہ مجھے کھوجتا رہا اور میں گھر بدلتی رہی، یہاں تک کہ دور کی کالونیوں میں کام ڈھونڈ لیا تاکہ وہ مجھے تلاش نہ کر سکے۔ وہ بھی کچھ عرصے بعد مایوس ہو گیا۔ کبھی اس نے اس پرانے گھر جا کر میرا پتہ کیا ہوگا، جہاں میں پہلے کام کرتی تھی۔ وہاں میں کبھی کبھار جاتی ہوں۔ انہوں نے یہاں کا پتہ دے دیا ہوگا۔ سنتی ہوں کہ اس کا بھی کسی کام میں دل نہیں لگتا۔ پریشان رہتا ہے، توبہ کرتا ہے مگر سکون نہیں پاتا۔ کسی کے دل کو توڑنا، جس میں سچی محبت بستی ہو، کوئی ہنسی کھیل تو نہیں۔ اس نے میری زندگی کو کھلونا سمجھا اور کھیل کر پھینک دیا۔
کبھی کبھی بچوں کی خاطر دل نرم پڑ جاتا ہے جو مجھ سے محبت کرتے تھے۔ جی چاہتا ہے کہ واپس ان کے پاس چلی جاؤں۔ نجانے کوئی سوتیلی ماں بن کر آجائے تو کیسی ہو، مگر یہ کافر دل محی الدین کو معاف کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ انسان پر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ اپنے دل سے مجبور ہو جاتا ہے، سو میں بھی دل سے مجبور ہوں۔