Monday, January 13, 2025

Chameli Ke Phool

یہ مارچ کی ایک خزاں رسیده شام تھی۔ شاداب پتوں کا پژمرده دور شروع ہو چکا تھا۔ میںکمرے میں بیٹھے بیٹھے اوب گئی تو باغ میں آ گئی اور پتھر کی ایک مخصوص بنچ پر بیٹھ گئی، جس پر بیٹھ کر سوچوں کی دنیا میں گم ہو جانا مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔ میںکافی دیر سے خاموش بیٹھی ، چنبیلی کے ایک تنہا پھول کو دیکھ رہی تھی جس کے سب ساتھی نذر خزاں ہو چکے تھے اور وہ شاخ پر تنها باقی رہ گیا تھا۔ اس پھول پر ایک عجیب سی ویرانی برستی نظر آئی تو میں سوچ میں پڑ گئی۔ یہ پھول بھی اپنی مختصر مدت، حیات پوری کر کے اپنے ساتھیوں سے جا ملے گا۔ اس کا بھی وہی حشر ہو گا جو دیگر پھولوں کا ہوا ہے پھر اس کے بعد باغ کے دامن میں کیا رہ جائے گا۔ واقعی جب احباب بچھڑ جائیں تو آدمی ویرانے میں کیسے رہ سکتا ہے؟ یکایک تصور میں دانیال کی صورت نظر آنے لگی۔ وہ بھی اس دنیا میں اکیلا تها والدين ، بہن ، بھائی سب ایک حادثے میں اس سے ہمیشہ کے لئے بچھڑ گئے تھے۔ زندگی میں تلخیاں ہونے کے باوجود وہ کس قدر زنده دل اور بنس مکه جوان تھا۔ شیر جیسا دل تھا اس كا دانیال میرا کزن تھا ہر وقت ہنساتے رہنا اس کا کام تھا۔ وہ بہت وجیہ تھا اور اعلیٰ عہدہ اس کی وجاہت و حسن پر زیب دیتا تھا۔ خاکی یونیفارم نے اس کی شخصیت پر چار چاند لگا دیئے تھے۔ جب بھی میں اسے بھاری بوٹوں اور باوقار یونیفارم میں دیکھتی تو میرا دل اس کی جانب کھینچنے لگتا تھا۔ میرے بابا جان کی خواہش تھی کہ دانیال ان کا داماد بنے اور میں بھی طے کر چکی تھی کہ اسی کو اپنا جیون ساتھی بنائوں گی ، تاہم ابھی تک میں نے اپنی تمنا کا اظہار نہیں کیا تھا۔ حجاب مانع رہا مگر تا کجا؟ جب مجھے بزرگوں کی طرف سے اپنا شریک زندگی منتخب کرنے کا پورا اختیار تھا، تو میں کیوں نہ اپنے اور دائیاں کے بارے میں سوچتی۔ اس میں خوبیاں تھیں۔ بظاہر کوئی برائی نہ تھی۔ لائق ، صابر، شریف خاندان بہترین سیرت کا مالک تھا، پھر عہدے کے لحاظ سے بھی معزز تھا۔ وطن کا پاسبان تھا۔ اس رشتے پر کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا تھا ۔ جب اس کے والدین حادثے کی نذر ہوئے، تو کچھ دن وہ ہمارے ساتھ رہا، پھر بڑی خالہ اسے اپنے گھر لے گئیں، تب سے وہ وہیں رہتا تها.

ایک دن مین نے زبان کھولی اور دانیال کے حق میں ووٹ دے دیا۔ امی ابو پہلے ہی یہ چاہتے تھے، وہ خوش ہوگئے۔ انہوں نے بڑی خالہ اور خالو سے بات کی اور پھر دانیال نے بھی مجھے پسند کر کے ہامی بھر لی لیکن اس کا کہنا تھا کہ وہ منگنی وغیرہ کے چکروں میں نہیں پڑنا چاہتا۔ سیدھے ڈیڑھ سال بعد شادی کرے گا، جب اس کی ترقی ہو گی، وہ اگلے رینک میں جائے گا۔ اس کی پوسٹنگ کسی بڑے اور اچھے شہر میں متوقع تھی۔ ان دنوں وہ پہاڑی علاقوں پر ڈیوٹی دے رہا تھا، جہاں فیملی کو ساتھ نہیں رکھا جا سکتا تھا. یہ خاصا دشوار گزار علاقہ تھا سارا سال برف پوش پہاڑ، سفید لبادہ اوڑھے رہتے تھے اور ٹھنڈ سے اچھے اچھوں کے حوصلے پست ہو جاتے تھے۔ دانیال جب پہاڑی علاقے سے شہر آتا تو مجھے فون کرتا۔ جب میں کہتی کہ میں ایک ایک دن گن گن کر گزار رہی ہوں کہ کب تمہاری ہمارے گھر کے قریب پوسٹنگ ہو اور تم ہمارے گھر آیا کرو، تو وہ یہ سن کر بہت اداس ہو جاتا اور کہتا۔ ہم مجاہد ہیں، ہمارے دعا تمہاری دعا کے ساتھ مل کر اور جلدی الله کی بارگاہ میں پہنچے گی، تاکہ قبول ہو، لہذا خوب دعا کرو۔ تب میں ہنس کر کہتی ہاں ، امید پر تو دنیا قائم ہے۔ ان دنوں میں بی اے کے آخری سال میں تھی ۔ میرے ساتھ ملیحہ بھی تھی وہ میری بہت اچھی ہم جماعت تھی ، جو بعد میں میری بہترین سہیلی بن گئی۔ ملیحہ خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ ملنسار اور خوش مزاج تھی، اسی لئے ہر دلعزیز اور مقبول تھی۔ جہاں جاتی جان محفل بن جاتی اور سب اس کے گرویدہ ہو جاتے۔ اس میں بڑی خوبیاں تھیں۔ اپنی کم کہتی، لوگوں کی زیادہ سنتی ہر ایک کے ساتھ خندہ پیشانی سے بات کرتی اور سب کی عزت کرتی بدلے میں اسے بھی عزت ملتی تھی۔ مجھے بھی ملیحہ کی یہی خویباں پسند تھیں، مگر سب خوبیوں سے بڑھ کر ایک اور بھی وصف تھا اس میں، سنجیدہ محفل کو اپنی شگفتہ باتوں سے زعفران زار بنانا  اس پر تمام تھا۔ اس کے مذاق شائستہ ہوتے لیکن اکثر اپریل کی پہلی تاریخ کو کبھی كبهار وه ہم لوگوں سے زیادتی بھی کر جاتی تھی۔ چونکہ ہم سب کو اس سے محبت تھی ، تو ہم اس کی ان کبھی کبھار کی زیادیتوں کو سہ جاتے تھے اور برا نہیں مناتے تھے ۔ مجھے خاص طور پر اس پر بڑا اعتماد تھا اور کیوں نہ ہوتا ، وہ تھی ہی اعتبار کے قابل ۔ میں اسے اپنے دل کی ہر بات بتایا کرتی تهی ، مگر مجھے اعتراف ہے کہ مجھ سے ایک غلطی ہو گئی۔ نہ جانے کیوں، میں نے اسے دانیال کے بارے میں کچھ بھی نہ بتایا اور آخری وقت تک اپنے جذبات سے لاعلم رکھا۔ سوچوں میں شام ڈھل گئی، وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا۔ میں ابھی بھی پتھر کی بینچ پر پتھر کا بت بنی بیٹھی تھی کہ اچانک میری چھوٹی بہن نے آکر مجھے خیالوں کی دنیا سے نکالا ۔ باجی! آپ یہاں بیٹھی کیا کر رہی ہیں۔امی بلا رہی ہیں آپ کو۔ عاشی کی آواز پر میرے خیالات کی تسبیح ٹوٹ گئی اور یادوں کے موتی بکھر گئے ۔ عذرا اور خالہ جان آئی ہیں۔ اچھا خالہ جان کے ساتھ عذرا بھی آئی ہے۔ میں نے بے یقینی سے دہرایا تھا۔ اتنے میں عذرا  بھی آ گئی ۔ اس نے کہا تھا۔ باجی آپ کا دل یہاں کیا لگتا ہو گا۔ لاہور شہر جیسی رونق تو نہیں ہے یہاں عذرا کیا کہتی ہو، مانا یہاں لاہور جیسی ہنگامہ پرور رونقیں نہیں ہیں، لیکن قدرتی مناظر کی بہتات ہے۔ یہاں زندگی میں ٹھہرائو ہے ایسی خاموشی اور سکوت پر تو ہزار تکلم نثار ہیں۔ تب کسی نے پیچھے سے گره لگائی تو میں نے مڑ کر دیکھا ، وبان دانیال کھڑے تھے۔ گویا شہزادہ گلفام بھی خالہ جان کے ساتھ آئے تھے۔ میری ساری افسردگی ہرن ہوگئی۔ میں پھر سے جی اٹھی تھی۔ بھئی یہ شہر نہیں شہر خاموشاں ہے۔ مجھے تو ذرا بھی یہ جگہ پسند نہیں اب کیا قدرتی مناظر کو لے کر چائیں ؟ عذرا بی بی! یہ تمہارا لڑکپن ہے۔ تم ابھی قدرتی مناظر کی معنی خیزی کو نہیں سمجھتیں۔ دانیال نے میری طرف داری کی تو عذرا برا سا منہ بنا کر رہ گئی تھی۔

رات ہولے ہولے شام کے محل کی سیڑھیاں اتر کر ہمارے صحن میں آ گئی ، تو ہم سب اندر جا کر گپ شپ میں مصروف ہو گئے۔ کتنے خوشیوں بھرے اور سنہرے دن تھے وہ بھی۔ میں نے دکھ سے ٹھنڈی آ کھینچی اور پھر یادوں کی ریل پر سوار ہو گئی۔ أس دن ملیحہ بھی آ پہنچی تھی۔ وہ میرے اصرار پر دو دن کے لئے رہنے آئی تھی کیونکہ دو اپریل کو میری سالگرہ تھی اور ملیحہ کہتی تھی ۔شکر ہے ناز کہ تم ایک دن اور عالم بالا میں ٹھہر گئیں ، ورنہ سارا جہان ہی اپریل فول کے دن تمہاری سالگرہ مناتا۔ اس کے بات سن کر اکثر ہنس دیا کرتی تھی۔ اب دیکھو، کل پہلی اپریل ہے ۔ بتائو کس کو فول بنائیں؟ ہاں، مجھے یاد آیا۔ میری دوست ملیحہ کو اپریل فول منانے کا بڑا چسکا تھا اور دوسروں کو بے وقوف بنانے میں اسے  کمال حاصل تھا۔ گزشتہ اپریل میں بھی وہ ہمارے گھر پہ تھی۔ صبح صادق کے وقت جب اذان ہو رہی تھی ، وہ منہ اندھیرے اٹھ گئی اور ایک دم شور مچ گیا۔ سانپ ہے، سانپ ہے، کالا ناگ ہم سب سہم گئے بھائی جان آنکھیں ملتے ہوئے اٹھے جلدی جلدی بندوق میں کارتوس رکھ کر پوچھا۔ کہاں ؟ کدھر؟ ادھر – ملیحہ نے چھوٹے کمرے کی طرف اشارہ کیا۔ وہ دیکھو تب ہی بھائی جان نے پھرتی سے دو فائر کر دیئے اور اس کے دو ٹکڑے اڑ گئے۔ چھوٹے کمرے کے دروازے پر کوئی کالی سے زمین پر پڑی نظر آئی تھی۔ برآمدے کی بتی روشن کر کے دیکھا تو بھائی جان کی قیمتی نئی  ٹائی تھی، جو حال میں ان کی سالی امریکا سے لائی تھیں۔ اس دن دعوت سے واپس آکر بھائی نے کپڑے تبدیل کئے تو ٹائی کرسی پر رکھ دی اور اب اسی کے دو ٹکڑے اُڑے ہوئے تھے ۔ساتھ ہی میرے نئے جوتوں کی شامت آ گئی، جس میں چھروں نے ننھے ننھے سوراخ کر دیئے تھے۔ آج یکم اپریل ہے صاحبو ملیحہ نے ہنس کر یاد دلایا تو بھائی صاحب جھینپ کر رہ گئے تھے۔ ٹائی کو ملیحہ نے اس انداز سے زمین پر گرایا تھا کہ سانپ پڑا نظر آرہا تھا۔ ایک اور اس نے سوانگ رچایا کہ اسے کرنٹ لگ گیا ہے۔ وہ زمین پر گر گئی۔ جب ڈاکٹر صاحب آئے تو پتا چلا کہ اپریل فول تھا۔ وہ ویسے بھی بہت شرارتیں کرتی تھی۔ پیپل کے پتوں کا پان بنا کر محبت سے کھلا دیتی تھی۔ کبھی لئی کی فیرنی پر نقرئی ورق جما کر دعوت کرتی ۔ غرض ہنسنے ہنسانے کی خاطر بڑے پاپڑ بیلتی اور خوش ہوتی تھی۔ اپریل کی خزاں آلود شام آگئی تو میں نے بتایا کہ دانیال بیمار ہیں اور میں ان کی مزاج پرسی کے لئے نہیں جا سکتی کیونکہ میرا کل پیپر ہے۔ میرے پیپرز ختم ہو چکے ہیں ، تم کہو تو میں تمہاری طرف سے پوچھ آئوں؟ ہاں پلیز، مگر ان سے ملتے ہی مجھے مطلع کر دینا اور اس کی خیریت کی اطلاع بھی دے دینا۔ اگلے دن وہ چلی گئی۔ اس نے جا کر فون کیا کہ دانیال خیریت سے ہیں اور اب طبیعت ٹھیک ہے، مگر چھٹیوں پر ہیں۔ میں نے سجدہ شکر ادا کیا کہ دانیال ٹھیک ہو گئے تھے۔ اپریل سے مئی آ گیا۔ مئی کی گرم دوپہروں میں، آم کے درخت تلے دانیال کے آنے کا انتظار کرتی رہتی تھی، پھر جون آ گیا ۔ جب آم پک کر درخت سے گرنے لگے اور لو کے تیز جھکڑ چلنے لگے، مگر دانیال نہ آیا اور نہ اس نے کوئی رابطہ کیا۔ میں بہت پریشان رہنے لگی۔ ملیحہ آتی تو میں دانیال کا ذکر کرتی۔ وہ میرے انتظار، میرے خدشات اور میری امیدوں کو ہنسی میں اڑا دیتی تھی۔ گویا اب میری بہترین دوست بهی میری غمگسار نہ رہی تھی۔ تو میں اپنے دل کا حال کس سے کہتی؟ چپ چاپ رہنے اور سوچتے رہنے سے میرا دم گھٹنے لگا تھا۔ اس کے آنے سے جی بہل جاتا تها، پھر رفتہ رفتہ ملیحہ نے بھی آنا کم کر دیا۔ وہ وقت بھی آیا کہ میں اسے بلاتی تھی اور وہ نہیں آتی تھی۔ جانے وہ زندگی کی کن مشقتوں میں کھو گئی تھی۔ رزلت آ گیا ہم نے بی اے پاس کر لیا۔ امی ابو نے یہی مہلت لی تھی کہ بی اے پاس کر لے تو ہم ناز کی شادی کر دیں گے۔ ادھر دانیال کی پوسٹنگ اس شہر میں ہو گئی جہاں وہ چاہتا تھا۔ اس کی ترقی بھی ہو گئی تھی۔ یہ خوش خبری سنتے ہی میں نے مٹھائی بانٹی۔ اب یہی انتظار کہ وہ لوگ آئیں تاکہ شادی کی تاریخ رکھی جائے۔ اب مجھے اس کی یاد ستانے لگی تھی۔ میں جلدی شادی کر کے اس کی ہو جانا چاہتی تھی۔ گرچہ ابھی تک دونوں طرف سے کوئی  تقریب نہیں ہوئی تھی۔ ایسے ہی سال گزر گیا۔ امی ابو کا پیمانہ صبر بھی لبریز ہو گیا اور میں، میں تو انتظار کی سولی پر سوکھ گئی تھی ۔ اس دوران ایک دو بار خالہ اور خالو میاں آئے، مگر انہوں نے تاریخ کی کوئی بات نہیں کی۔

مہینے سالوں میں ڈھلتے ہیں، موسم گزر جاتے ہیں، وقت کا پہیہ نہیں تھمتا۔ اپریل آیا، خزاں رسیده رت بھی ساتھ آگئی اور پھر یکم اپریل کو شام کے وقت میں عاشی کی آواز سن کر چونک پڑی ۔ وہ ہنستی ہوئی باغ میں آئی اور کہنے لگی۔ باجی اب بس کرو – کب تک چنبیلی کے اس تنہا اور اداس پھول کو تکتی رہو گی۔ تم کتنی باتیں بنانے لگی ہو ۔ اتنی باتیں تم کو آئی کہاں سے ہیں؟ اب میں بڑی ہوگئی ہوں نا بجیا دیکھئے تو کتنی لمبی؟ اس نے ایڑیاں اٹھا کر قد کو بڑھایا تو میں نے ہنس کر کہا ہاں ، بڑی ہو گئی ہو، کوہ ہمالیہ جتنی بڑی اور اونچی ابھی میں نے یہ کہا ہی تھا کہ سامنے گیٹ سے ایک خوبصورت نوبیاہتا جوڑا اندر آتادکھائی دیا مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا وہ دونوں میری طرف آ گئے۔ یہ ملیحہ اور دانیال تھے۔ میں نے ان کو حیرت سے دیکھا کہیں تم دونوں کسی ڈرامے کے کردار تو نہیں؟ جو اسٹیج سے سیدھے اتر کر ادھر آ گئے ہو نہیں، یہ حقیقت ہے ۔ ہم نے روپ نہیں دھارا – ہم سچ مچ کے دولہا دلہن ہیں۔ مگر کس کے؟ حیرت سے میرا منہ کھلا تھا۔ ملیحہ نے اپنی اور دانیال کی طرف اشارہ کیا۔ ایک دوسرے کے دلہا دلہن ہیں اور کس کے ہو سکتے ہیں؟ مگر، مگر آج اپریل فول کا دن ہے۔ تم نے مجھے فول بنایا ہے۔ میں نے آنکھوں کی نمی کو پی کر کہا۔ نہیں، بالکل نہیں۔ ہم نے تمہیں بالکل فول نہیں بنایا۔ آج یکم اپریل ضرور ہے ، لیکن کل 2 اپریل بھی تو ہے، تمہاری سالگرہ کا دن ہم آج ہی تم کو سالگرہ مبارک کہنے آئے ہیں۔ مگر تم …؟ میں ان کی طرف دیکھ کر بکلائی تم بھی ہمیں ”شادی مبارک“ کہہ سکتی ہو ۔ افسوس کہ ہم تم کو اپنی شادی میں مدعو نہ کر سکے۔ دراصل بات بی ایسی تھی۔ خالہ جان اور خالو نے ہمیں سختی سے منع کر دیا تھا کہ تمہیں اور تمہارے گھر والوں کو مدعو نہ کیا جائے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ تم لوگوں کو یہ دعوت پسند نہ آئے گی۔ کیا کہہ رہی ہو ،ملیحہ، میری جان! میری دوست، یہ سب کیسے ہوا؟ یہ سوال پوچھتے پوچھتے سچ مچ میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے ۔ یہ میں تمہیں کیسے بتائوں۔ بس سمجھ لو کہ یہی ہماری قسمت میں لکھاتھا۔ اچھا میں نے آنسو پونچھ کر کہا۔ میں تو سوچ رہی تھی کہ آج بھی تم اپریل فول منانے آئی ہو، مگر تم نے تو مجھے لائف ٹائم فول بنا دیا . میں شاید یہ کہتے کہتے آخری بار ہنسی تھی۔ اس کے بعد وہ دونوں کبھی نہیں آئے اور میرے ہونٹ بھی ہنسی کو ترس گئے۔ آج تک میری پر نم آنکھیں ، ان دونوں محبت کرنے والوں کو ڈھونڈتی ہیں۔

Latest Posts

Related POSTS