Tuesday, November 12, 2024

Cheechak

سردیوں کی ٹھٹھرتی شام تھی۔ یخ بستہ ہواؤں کے تھپٹروں نے سڑکوں اور بازاروں کو ویران کر رکھا تھا۔ ایک پرانی طرز کی رہائشی عمارت، جس کی چھتیں اُونچی اور کمرے کشادہ تھیں۔ یہ اسی عمارت کے ایک کمرے کا منظر ہے۔ یہ نشست گاہ ہے۔ اس کی کھڑکی بند تھی اور بھاری پردے لٹکے ہوئے تھے۔ آتش دان میں بجلی کا ہیٹر جل رہا تھا۔ کمرے کی فضا گرم تھی۔ بالکل کسی آغوش مادر کی طرح نرم اور پر سکون ۔ کمرے میں ایک عجیب قسم کی نامعلوم کی اسراریت کا گمان محسوس ہوتا تھا ۔ جیسے کچھ ہونے والا ہو یا ہو چکا۔ نشست گاہ میں دو افراد تھے۔ ایک نوجوان اور دوسرا معمر شخص ۔ نوجوان کاوچ پر آنکھیں موندے دراز پڑا تھا۔ نجانے وہ سورہا تھا یا پھر بے ہوش تھا۔ اس کے سامنے آرام کرسی پر وہ معمر شخص براجمان تھا، جس کی ایک ٹک سی نظریں اسی دراز نوجوان پر جمی ہوئی تھیں۔ وہ بیک وقت دو مختلف کیفیات کا شکار تھا۔ غم اور غصہ معمر شخص کا نام کلیم تھا۔ سرجن کلیم الدین اور کاوچ پر دراز نوجوان تفہیم ، جوان کا بھانجا تھا۔ سگا بھانجا ۔ سرجن کلیم کو غصہ اپنے اس بھانجے فہیم پر اور غم اپنے بڑے بھائی تمیز الدین کی موت کا تھا جسے آج ہی وہ اپنے ہاتھوں سے دفنا کر آرہا تھا۔ اسے اپنے مرحوم بھائی کی بہت سی باتیں یاد آ رہی تھیں ۔ خوش گوار اور کبھی آنکھوں کو پرنم کر دینے والی باتیں۔ مرحوم تمیز الدین اپنے بھانجے فہیم سے بہت محبت کرتے تھے۔ ممکن ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ فہیم ان کی جوانی کی نقل تھا۔ ویسا ہی دراز قد، دہرا بدن، کھلتا ہوا گندی رنگ۔ کشادہ پیشانی اور اس پر جھولنے والی بالوں کی لٹیں۔ وہ بھی فہیم کی طرح اپنی جوانی میں خوب صورت اور خوش لباس تھے لیکن کام چور اور آوارہ نہیں تھے۔ انہوں نے خوب محنت کی، شادی بھی کی اور ایک کامیاب زندگی گزاری لیکن گزشتہ شب ان کی موت طبعی نہیں تھی، جس کا سرجن کلیم کو بہت دکھ ہوا تھا۔ ہو سکتا ہے مرحوم تمیز الدین کی اپنے آوارہ اور نکمے بھانجے سے محبت کی ایک وجہ یہ بھی رہتی ہو کہ وہ خود لاولد تھے۔ انہیں ایک بیٹے کی بڑی تمنا تھی لیکن بیوی کی حد سے بڑھی ہوئی چاہت اولاد کی خواہش پر غالب آگئی اور یوں وہ فہیم کو ہی اولاد کی طرح چاہنے لگے۔ یہاں خود فہیم ان کی محبت سے ناجائز فائدہ اُٹھانے میں کبھی نہیں چوکتا تھا۔ وہ ان کی محبت کی قیمت پیسوں کی صورت وصول کرتا تھا۔

مختلف بہانوں سے چھوٹی موٹی رقم اینٹھتے رہنا گویا اس کا محبوب مشغلہ بن چکا تھا، جبکہ مرحوم جیب خرچ کے نام پر اسے ہر ماہ ایک بے حد معقول رقم بھی دیتے تھے۔ حتیٰ کے بیوی کے انتقال کے بعد انہوں نے برملا اعلان کر دیا تھا کہ فہیم ان کی دولت اور جائیداد کا بڑا وارث ہوگا اور توقع ظاہر کی تھی کہ دوسرے لوگ ان کی خواہش کا احترام کریں گے۔ اس سلسلے میں انہوں نے باقاعدہ وصیت نامہ بھی مرتب کیا تھا جس کے اندراجات کا سب ہی کو علم تھا لیکن سرجن کلیم الدین نے محسوس کیا تھا کہ گزشتہ کئی ماہ سے وہ فہیم کی طرف سے غیر مطمئن اور مایوس نظر آنے لگے تھے۔ یہاں تک کہ وہ دبی زبان سے فہیم کے حق میں لکھے ہوئے وصیت نامے کو تبدیل کرنے کی باتیں بھی کرنے لگے تھے۔ پھر ایک روز تین ہفتے قبل تمیزالدین نے ملاقات ہونے پر بڑے دل گرفتہ لہجے میں اپنے بھائی سرجن کلیم الدین سے کہا۔ کلیم ! اب اس بات کی تصدیق ہو گئی ہے کہ فہیم کو جوئے کی لت پڑ گئی ہے۔ اس پر کلیم الدین نے پو چھا تھا۔ بھائی جان ! کیا فہیم آپ سے بھی رقمیں اینٹھنے لگا ہے؟ جواب میں تمیز الدین نے مایوسی سے سر ہلایا۔ بات پیسوں کی نہیں ہے کلیم جوئے کی لت ایسی لعنت ہے جو کبھی نہیں چھوٹتی ۔ آدمی شراب چھوڑ دیتا ہے، بدکاری چھوٹ جاتی ہے، لیکن تباہ و برباد ہونے کے باوجود جوئے کی لت نہیں چھوٹتی، یہ قبر تک ساتھ جاتی ہے۔ اس کا نشہ سب سے بڑھ کر ہوتا ہے اور ہر جواری کی قسمت میں تباہی و بربادی لکھ دی جاتی ہے، جو اٹل ہوتی ہے۔ اب مجبوراً مجھے سوچنا پڑ رہا ہے کہ اپنی وصیت پھاڑ دوں ۔ میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ اس قدر محنت و مشقت سے میں نے زندگی بھر میں جو کمایا ہے وہ جوئے کی میز پر تاش کے پتوں کی نذر ہو جائے۔ مرحوم تمیز الدین کی طرح، سرجن کلیم الدین بھی اگرچہ نوجوان فہیم کے ماموں ہی تھے لیکن باوجود کوشش کہ وہ فہیم کو کبھی پسند کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے بہن کے رشتے کی وجہ سے وہ اسے برداشت کر لیتے تھے۔ اگر چہ کئی بار انہوں نے اپنے بھانجے پر ترس کھانے کی بھی کوشش چاہی لیکن اپنے دل کو اس پر کبھی آمادہ نہ کر سکے۔ فہیم اس قابل تھا بھی نہیں کہ اس پر ترس کھایا جائے- پھر اپنے مرحوم بھائی سے آخری ملاقات کے بعد تو فہیم کے لیے نفرت کے جذبات بھی پرورش پانے لگے تھے۔ ممکن ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ انہیں اپنے مرحوم بھائی تمیزالدین سے بے حد محبت تھی اور فہیم نے ان کے بھائی کو بڑا دکھ پہنچایا تھا۔

ان دونوں بھائیوں کی ایک ہی بہن تھی عارفہ، فہیم اسی کی اکلوتی اولاد تھا۔ ماں اور ماموں کے لاڈ پیار نے اسے بگاڑ دیا تھا۔ وہ حد سے زیادہ آوارہ مزاج ہو گیا تھا۔ ان کی بہن عارفہ خود دار تھی ، اپنی پسند سے خاندان سے باہر کالج کے لیکچرر سے شادی کر لی تھی ، زندگی بھر بے چاری تنگ دستی کا شکار رہی، لیکن کبھی بھائیوں کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا مگر اسی بہن کا بیٹا فہیم آوارہ ہونے کے ساتھ بےغیرت بھی تھا۔ ہروقت دونوں ماموؤں کے در پر کھڑا رہتا تھا اور ابھی حال ہی میں کلیم الدین کو یہ اطلاع ملی تھی کہ فہیم کو جوئے کی لت بھی پڑگئی ہے۔ یہ خبران کے مرحوم بھائی تمیز الدین نے سنائی تھی جنہیں وہ آج صبح ہی اپنے ہاتھوں سے دفن کر کے آئے تھے۔ دفعتاً کاوچ پر دراز نوجوان فہیم کے بدن میں حرکت پیدا ہوئی تو کلیم الدین اس کی جانب متوجہ ہوگئے۔ فہیم نے پلکیں جھپکاتے ہوئے کلیم الدین پر نظریں جما دیں ، بولا۔ کیا ہوا تھا ماموں جان ؟ تھکن اور گرمی کے باعث تم پر غشی طاری ہوگئی تھی فہیم میاں ! تھکن اور گرمی؟ کلیم الدین نے اپنے سر کو اثباتی جنبش دی۔ پنڈی سے لاہور تک مسلسل ڈرائیونگ نے تمہیں بری طرح تھکا دیا تھا- اس تھکان میں بڑے ماموں کی موت کے صدمے کا بھی بڑا ہاتھ تھا۔ پھر یہاں آنے کے فورا بعد تم نے کافی پی لی اوپر سے یہ کمرا بھی خوب گرم تھا۔ معاف کرنا فہیم بیٹے بوڑھوں کو سردی کچھ زیادہ ہی لگتی ہے۔ اس لیے جب تک کمرا خوب گرم نہ ہو میں بے آرامی محسوس کرتا ہوں، تمہاری طبیعت اب کیسی ہے ؟ سر بہت بھاری ہے، ہلنے جلنے کی بھی ہمت نہیں پڑ رہی ، میں کتنی دیر بے ہوش رہا ہوں ماموں جان؟ یہی کوئی بیس پچیس منٹ، میں نے ویسے فوری طور تمہیں انجکشن لگا دیا تھا۔ چند گھنٹوں بعد تم ٹھیک ٹھاک ہو جاؤ گے۔

خوش قسمتی سے آپ ڈاکٹر ہیں۔ اسی لیے مجھے فوراً ٹریٹمنٹ مل گیا لیکن میرا خیال ہے کہ ماموں کی ناگہانی موت کا صدمہ ہی میری بے ہوشی کا باعث تھا۔ آپ کو تو پتا ہے کہ مجھے ان سے کتنی محبت ہے اور خود وہ بھی مجھ سے کس قدر محبت کرتے تھے۔ تمہاری محبت کے بارے میں تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ہاں! البتہ مرحوم کی محبت کے بارے میں تم غلط فہمی کا شکار ہو فہیم، کلیم الدین نے خشک لہجے میں کہا۔ فہیم کی کشادہ پیشانی پر اچانک ننھے ننھے قطرے پھوٹنے لگے۔ میں سمجھا نہیں ماموں جان! آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ اس نے کائوچ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ تم اچھی طرح جانتے ہو برخوردارا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔ تمہیں یہ بھی معلوم ہو گا کہ مرحوم تمہارے حق میں اپنا وصیت نامہ تبدیل کر کے تمہیں اپنی جائداد سے بالکل محروم کر دینا چاہتے تھے۔ کلیم الدین نے رک کر فہیم کو غور سے دیکھا جو بے دھیانی میں آستین سے پیشانی پر پھوٹنے والا پسینا خشک کر رہا تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا آپ کیا کہہ رہے ہیں ماموں جان ! اول تو یہ ممکن ہی نہیں، انہیں مجھ سے اور اپنی مرحومہ بہن سے بہت محبت تھی اور اگر واقعی ان کا ایسا کوئی ارادہ تھا، جس کا کوئی امکان نہیں ہے تو مجھے اس کا قطعی کوئی علم نہیں- تمہارے حساب سے ان کی موت بروقت ہوئی ، ذراسی تاخیر تمہیں بہت بڑی دولت اور جائداد سے محروم کر دیتی اور تم زندگی بھر بھیک مانگنے پر مجبور ہو جاتے ۔ کلیم الدین نے بے رحمی سے کہا اور انہیں فہیم کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک لہرا کر معدوم ہوتی نظر آئی۔ بھائی جان سے تمہاری آخری ملاقات کب ہوئی تھی فہیم، کوئی نو روز قبل، یہ اچھا ہی ہوا کہ میں دو روز سے شہر میں موجود نہیں تھا۔ اپنی بات کی وضاحت کرو۔ میں نے اخبار میں پڑھا تھا کہ… اخبار میں… کلیم الدین نے بھویں اچکائیں ۔ تم اور اخبار ؟ تمہیں تو موبائل فون اور انٹرنیٹ سے ہی… ماموں جان ! پوری بات تو سن لو۔ فہیم بیزاری سے بولا۔ کچھ دنوں سے میں نے ہر روز جاب کی تلاش کے سلسلے میں تازہ اخبار نیٹ پر پڑھنے کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا، ضرورت ہے کہ علاوہ درمیانی صفحات میں بھی کبھی کبھی اچھی جاب کے باکس اشتہار چھپتے ہیں اس لیے میں پورا ہی اخبار دیکھ لیا کرتا تھا، وہیں ایک خبر پر میں چونکا تھا ۔ خبر کیا تھی؟ کلیم الدین نے دوبارہ بھویں اُچکائیں۔ یوں جیسے وہ اسے کسی کسوٹی تلے جانچنا چاہ رہے ہوں۔ یہی کہ میں نے ماموں کی موت کی خبر اخبار میں پڑھی تھی جس میں لکھا تھا کہ گزشتہ شب کوئی چور ان کی کوٹھی میں گھس آیا تھا اور یہ ظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ وہ تجوری کھول کر مال سمیٹ رہا تھا کہ ماموں نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا، ان کے درمیان سخت جدوجہد ہوئی، جس کے نتیجے میں چور نے ماموں کو گلا گھونٹ کر ہلاک کر دیا۔ انہیں آخر چور سے مزاحمت کرنے کی کیا ضرورت تھی ، اگر وہ کچھ لے جا رہا تھا تو لے جانے دیتے ، اس طرح ان کی زندگی تو بچ جاتی ۔ وقوعے کی جگہ کا جائزہ لینے کے بعد پولیس نے یہی نظر یہ قائم کیا ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ واقعی ایسا ہی ہوا ہو۔ تعلیم الدین اس کی طرف گھورتے ہوئے سنجیدگی سے بولے۔ ان کی بھانپتی ہوئی نظریں بدستور فہیم کے چہرے جمی ہوئی تھیں۔ فہیم نے اپنے سر کو اثباتی جنبش دی۔ بولا ۔ اسی لیے میں نے کہا تھا کہ شہر سے میری غیر موجودگی میرے حق میں بہتر ہی ثابت ہوئی، حالانکہ ماموں کے جنازے میں شرکت نہ کرنے کا مجھے بے حد دکھ اور ملال ہے۔ تمہاری غیر موجودگی کا اس واردات سے کیا تعلق؟ ظاہر ہے پولیس نے آپ کا بیان بھی لیا ہو گا ۔ فہیم نے طنزیہ لہجے میں کہا۔ اور آپ نے انہیں وصیت نامے کے بارے میں بھی بتایا ہو گا کہ تمیز الدین ماموں مجھے اپنی وصیت سے خارج کرنا چاہتے تھے، لیکن آپ کے بقول ان کی بروقت موت نے مجھے ان کی دولت اور جائداد سے محروم ہونے سے بچا لیا۔ اس لیے ظاہر ہے کہ اب پولیس مجھ پر بھی شک کرے گی کہ ان کی بروقت موت کا کہیں میں ذمے دار تو نہیں، خوش قسمتی سے میں کل رات پنڈی میں تھا اور اس کا ایک گواہ بھی موجود ہے۔

ہاں، پولیس اس زاویے سے سوچ سکتی ہے اورغالباً انسپکٹر نسیم خان نے یہی سوچ کر مجھ سے تمہارا پتا دریافت کیا تھا ۔ کلیم الدین نے ایک گہرا سانس لیا۔ لیکن اس سے کیا ہوتا ہے، ان کا وقت تو آہی گیا تھا، چور کی موجودگی تو بہانہ بن گئی ۔ وہ آخر میں عجیب اسرار بھرے سے لہجے میں بولے۔ اس پر فہیم ذرا چونک کر مستفسر ہوا ۔ کیا مطلب؟ میں سمجھا نہیں ماموں جان؟ اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے تمہیں بھی کچھ نہیں بتایا تھا۔ اس سلسلے میں انہوں نے بڑی راز داری سے کام لیا تھا۔ تمہیں یاد ہوگا کہ گزشتہ کئی ماہ سے مرحوم بالکل ریٹائرڈ لائف گزار رہے تھے۔ گھنٹے آدھے گھنٹے کے لیے دفتر چلے چاتے تھے اور باقی وقت آرام کرتے تھے۔ دراصل دو ماہ قبل ان پر دل کا دورہ پڑا تھا اور میں ہی ان کا علاج کر رہا تھا۔ انہیں اسپتال میں جانے اور مریضوں کی طرح زندگی بسر کرنے سے شدید نفرت تھی۔ انہوں نے تو مجھے بھی منع کر دیا تھا کہ میں اس کا ذکر کسی سے بھی نہ کروں۔ پھر کوئی دو ہفتے قبل ان پر دوسرا دورہ پڑا۔ اس وقت میں نے ان سے کہہ دیا تھا کہ اگر فوری طور پر انہوں نے آپریشن نہیں کرایا تو تیسرا دوره جان لیوا ثابت ہوگا۔ افسوس انہوں نے میری تنبہ پر کوئی توجہ نہیں دی۔ کہنے لگے کہ وقت سے پہلے موت نہیں آسکتی اور آجائے تو کوئی اسے ٹال نہیں سکتا۔ میرا خیال ہے بلکہ مجھے پورا یقین ہے کہ کل رات انہوں نے محسوس کر لیا تھا کہ ان پر تیسرا دورہ پڑنے والا ہے۔ آپ کو اس بات کا یقین کیوں ہے ماموں جان؟ اس لیے کہ کل رات دو بجے میرے فون کی بیل گنگنائی تھی ایک تواتر کے ساتھ، مجھے نیند سے بیدارہونے میں کچھ تاخیر ہو گئی اور جب میں نے فون اُٹھایا تو دوسری طرف سے لائن منقطع ہو چکی تھی اور مرحوم کی موت بھی کل رات لگ بھگ اسی وقت واقع ہوئی تھی۔ اس بات سے مجھے یقین ہوا کہ کل رات بھائی جان مجھے ہی فون کر رہے تھے اور چور یہ سمجھا کہ کھٹکے سے ان کی آنکھ کھل گئی ہے اور وہ پولیس کو فون کر رہے ہیں۔ اس غلط فہمی نے چور کو قاتل بنا دیا۔ اس نے مرحوم کو زبردستی فون پر بات کرنے سے روکنا چاہا، تب ہی ان کے درمیان ہاتھا پائی ہوئی ہوگی، جس کی وجہ سے بھائی جان کے کپڑے بھی پھٹ گئے اور اس مزاحمت کے دوران مرحوم کا گلا چور کی گرفت میں آگیا ۔ اگر وہ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیتا تب بھی وہ تیسرے دورے سے جانبر نہیں ہو سکتے تھے۔ فہیم کا چہرہ دھلے ہوئے کپڑے کی طرح سپید پڑ گیا تھا۔ تا ہم خود کلامیہ انداز میں بڑبڑایا۔ بڑا ہی بد قسمت چور تھا- بالکل – کلیم الدین نے تائید کرتے ہوئے کہا۔ پھر ایسے ملا کیا؟ بھائی جان گھر میں چند ہزار روپوں سے زیادہ رقم نہیں رکھتے تھے۔ ان چند ہزار روپوں کی خاطر وہ قاتل بن گیا۔ اگر وہ صرف چوری کا مرتکب ہوتا تو پکڑے جانے پر اسے محض چند سال کی سزا ہوتی لیکن اب اسے سزائے موت سے کوئی نہیں بچا سکتا ۔ وہ چند ہزار روپے اس کے لیے پھانسی کا پھندا بن گئے۔ بشرطیکہ چور پکڑا جائے ۔ فہیم کی آواز نیچی تھی۔ وہ ضرور پکڑا جائے گا، زیادہ سے زیادہ مزید چوبیس گھنٹے آزاد رہ سکتا ہے لیکن اب تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا ؟ آپ اس قدر وثوق کے ساتھ کیسے کہ سکتے ہیں کہ پولیس چوبیس گھنٹے کے اندر اندر چور کو گرفتار کرلے گی ؟ اس کی بھی ایک وجہ مجھے تمہاری حالت ٹھیک نظر نہیں آرہی، ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے تمہیں بخار ہو، ٹھہرو میں ابھی تمہارا معائنہ کرتا ہوں ۔ میں بالکل ٹھیک ہوں ماموں جان ! فہیم نے گریبان کے اندر ہاتھ ڈال کر سینہ کھجاتے ہوئے جواب دیا ۔ آپ یہ بتائیں کہ چور آخر کس طرح پکڑا جائے گا ؟ تمہارا بے ہوش ہو جانا اور پھر اب بخار جیسی کیفیت، مجھے آثار کچھ اچھے نظر نہیں آرہے۔ ماموں جان! میں بالکل ٹھیک ہوں ۔ فہیم نے گریبان کے بٹن کھول کر سینے کو مسلتے ہوئے کہا۔ میں چور کے بارے میں پوچھ رہا تھا کہ آخر اس کا پکڑا جانا کیوں یقینی ہے؟ راز کی بات ہے فہیم میاں لیکن تمہیں بتانے میں کوئی حرج نہیں۔ دراصل چند روز قبل مرحوم بھائی جان کوچیچک نکل آئی تھی ۔ چیچک… کلیم الدین نے اپنے سر کو ثباتی جنبش دی ۔ انہوں نے بچپن میں کبھی کوئی حفاظتی ٹیکا نہیں لگوایا تھا اور اب تو ! ہمارے ملک سے کوچیچک کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ اس لیے بچوں کو بھی چیچک سے بچاؤ کے ٹیکے نہیں لگائے جاتے لیکن بھائی جان کے جسم میں اس کے جراثیم موجود تھے اور اس عمر میں جب دل کے دوروں کی وجہ سے ان کے بدن کا دفاعی نظام کمزور پڑا تو وہ جراثیم غالب آگئے۔ میں نے ان سے بہت کہا کہ وہ فوراً وبائی امراض کے اسپتال میں داخل ہو جائیں کیونکہ یہ مسئلہ بے حد نازک ہے اور ان کی ذات تک محدود نہیں ہے۔ ہنگامی بنیادوں پر اس محلے کے ہر فرد کو چیچک سے بچاؤ کے ٹیکے لگنے چاہئیں جہاں ان کی رہائش ہے، اس کے علاوہ ان کے دفتر اور ان کے کارخانے کے سارے عملے کو بھی ٹیکے لگنے ضروری ہیں تاکہ اس وبائی مرض کے پھیلنے کا ہر امکان ختم ہو جائے لیکن وہ نہ مانے۔

انہوں نے مجھے بتایا کہ چیچک کے وہ خارش نما دانے اسی روز نمودار ہوئے تھے اور انہوں نے فورا ہی مجھے بلا کر معائنہ کروالیا ہے اور اب وہ کسی کو بھی اپنے قریب نہیں آنے دیں گے، کسی گھریلو ملازم کو بھی نہیں، وہ خود کو اپنی خواب گاہ میں قید کر لیں گے تاکہ کسی دوسرے کو یہ منحوس بیماری نہ لگنے پائے یہاں تک کہ میرے علاج سے وہ مکمل طور پر صحت یاب ہو جائیں ۔ انہیں اس کی بھی پروا نہیں تھی کہ چیچک کے علاج کے لیے وبائی امراض کے اسپتالوں میں جو مخصوص قسم کے آبلے اور مشینیں ہوتی ہیں ان کی عدم موجودگی سے میرا علاج انہیں صحت یاب تو ضرور کر دے گا لیکن چیچک کے داغ ان کے چہرے کو بدصورت اور بھیا نک بنا دیں گے۔ بھائی جان علاج کے معاملے میں بے حد ضدی اور غیر ذمے دار تھے۔ انہوں نے مجھے رازداری کی قسم دی تھی لیکن اس چور کی بد قسمتی کہ وہ ان سے لپٹ گیا اور انہیں گلا گھونٹ کر ہلاک کرنے کی وجہ سے اس کے ہاتھ بھائی جان کے حلق سے ضرور لگے ہوں گے اور اس طرح چیچک کے جراثیم یقینی طور پر چور کے جسم میں منتقل ہو گئے ہوں گے۔ اب چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر اس پر چیچک کا حملہ ہو گا اور جب وہ کسی ڈاکٹر سے علاج کے لیے رجوع کرے گا تو ان دانوں کو دیکھتے ہی ڈاکٹر سمجھ جائے گا کہ وہ چیچک کے دانے ہیں۔ یوں وہ قانون کے مطابق فورا ہی اسے وہائی امراض کے اسپتال میں داخل ہونے کا مشورہ دے گا اور خود اس کا علاج نہیں کرے گا، اور جب چیچک کا کوئی مریض کسی اسپتال میں داخل ہوگا تو اسپتال کی انتظامیہ فورا پولیس کو اس کی اطلاع دے گی کیونکہ پولیس نے وبائی امراض کے تمام اسپتالوں کو خبردار کر دیا ہے کہ جونہی ایسا کوئی مریض کسی اسپتال میں داخل کیا جائے انہیں فوراً اس کی اطلاع دی جائے۔ اب سمجھے تم چور کی گرفتاری یقینی امر ہے ۔ اب مجھے تم اپنا معائنہ کرنے دو- فہیم پر سکتے کی سی کیفیت طاری تھی۔ اس کی نظریں اپنے سینے پر جمی ہوئی تھیں اور دہشت سے اس کا چہرہ ایسا سپید پڑ گیا تھا جیسے کسی نے اس کے بدن سے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ لیا ہو۔ ارے فہیم یہ تمھیں کیا ہوا- کہتے ہوے کلیم الدین اپنی نشست سے اُٹھ کر تیزی سے اپنے بھانجے کے سے اٹھ کے قریب آئے اور جھک کر فہیم کا سینہ دیکھنے لگے جو رگڑنے کی وجہ سے سرخ ہو رہا تھا اور اس سرخی میں باریک باریک دانے اُبھرے ہوئے نمایاں طور پر نظر آرہے تھے۔ ارے یہ کیا! یہ کیسے دانے ہیں ؟ یہ گرمی کے دانے تو نہیں ہوسکتے، آج کل سردی کا موسم ہے.. میں ابھی دیکھتا ہوں۔ میرا میڈیکل باکس کہاں گیا لعل دین ! انہوں نے زور سے اپنے ملازم کو آواز دی۔ ذرا میرا میڈیکل باکس تو لانا لعل دین ؟ مم ماموں جان! فہیم کے حلق سے پھنسی پھنسی سی آواز نکلی۔ کلیم الدین نے پلٹ کر اپنے بھانجے کی طرف دیکھا۔ وہ پسینے میں شرابور ہو رہا تھا اور دہشت زدہ نظروں سے اپنے ماموں کی طرف دیکھ رہا تھا۔ تمہاری حالت تو بہت خراب نظر آتی ہے فہیم ! انہوں نے کلائی پکڑ کر نبض ٹٹولی.. تمہارا بدن برف کی طرح ٹھنڈا پڑا ہے اور نبض کی رفتار بھی ہلکی ہے۔ بلڈ پریشر بہت کم ہو گیا ہے۔ ٹھہرو میں ابھی تمہارا معائنہ کر کے دوا دیتا ہوں۔ کوئی فائدہ نہیں ماموں جان! کوئی فائدہ نہیں۔ فہیم کی آنکھوں سے آنسوؤں کے موٹے موٹے قطرے گرنے لگے پھر وہ بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگا۔ ارے ارے… اس قدر گھبرانے کی کیا بات ہے، فہیم میاں ! ہمت سے کام لو، انسان تو بیمار ہوتا ہی ہے، میں بھی ہوتا ہوں ، سب ہوتے ہیں ۔ پھر منہ پھیرا۔ یہ لعل دین کدھر مر گیا۔ جلدی میرا باکس لے کر آ- مجھے بچا لو ماموں جان ! فہیم نے بالآخر روتے ہوئے جیسے فریاد کر ڈالی۔ میرا چہرہ بدصورت ہو جائے گا۔ میں زندہ نہیں رہوں گا ماموں جان ! روتے روتے اس کی ہچکیاں بندھ گئیں ۔ تمہارا چہرہ کیوں بدصورت ہو گا، کیا وجہ ہے، آخر۔ تم تو بلاوجہ اس قدر پریشان ہو گئے، فہیم برخوردار! لولعل دین میرا با کس لے آیا۔ میں ابھی دیکھتا ہوں، آخر تمہاری یہ حالت کیوں ہوئی ہے۔ مجھے مجھے چیچک چیچک ہوگئی ہے۔ ماموں جان ! اللہ کے لیے مجھے بچالو ماموں جان ! چیچک لیکن کیسے ؟ تم بھائی جان سے آخری باردس روز قبل ملے تھے، اس وقت تو . یہ دیکھیں دیکھیں ۔ فہیم نے جواب میں اپنے سینے کی طرف اشارہ کیا۔ میں . میں ، ماموں کو مارنا نہیں چاہتا تھا لیکن کل رات پتا نہیں کیا ہوا میں بہت پریشان تھا، ماموں نے مجھے بتا دیا تھا کہ وہ مجھے وصیت سے خارج کر رہے ہیں۔ مجھ پر شیطان سوار ہو گیا، میں ہی وہ چور تھا، وہ بد قسمت چور، کاش ! میں کل رات وہاں جاتا ہی نہیں ، کاش ! ماموں جان کو قتل نہ کرتا ۔ تم نے تجوری کا تالا توڑا تھا تا کہ پولیس دھوکا کھا جائے ؟ فہیم نے فوراً سر کو اثباتی جنبش دی۔ میں سدا کا بدقسمت ہوں، چند گھنٹے انتظار کر لیتا تو کیا ہو جاتا ۔ وہ بری طرح کاؤچ سے سر ٹکرانے لگا۔ کلیم الدین دو قدم پیچھے ہٹ گئے۔ وہ نفرت بھری نظروں سے اپنے بھانجے کو دیکھ رہے تھے۔ فہیم نے آنسوؤں سے تر چہرہ اُٹھا کر ان کی جانب دیکھا۔ مجھ پر رحم کریں ماموں جان ! مجھے بدصورت ہونے سے بچالیں۔ رحم؟ تم نے بھی تو اپنے بوڑھے ماموں پر بڑا رحم کیا تھا نا۔ کہتے ہوئے انہوں نے آخر میں یہ آواز بلند پکارا۔ انسپکٹر…

تب ہی بھاری بھر کم جھولتے پردوں کے پیچھے سے باوردی پولیس والے باہر نکل آئے ۔ ان میں سے ایک انسپکٹر ضیغم خان تھا اور دوسرا اس کا ماتحت ۔ آپ نے مجرم کا اعتراف جرم سن لیا- اب اسے میری نظروں سے دور لے جائیں۔ انسپکٹر کا اشارہ پاکر ماتحت نے فہیم کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال دیں جو پھٹی پھٹی نظروں سے پولیس والوں کو دیکھ رہا تھا۔ اسے دوسرے کمرے میں لے جاؤ۔ کلیم الدین خود کو اچانک ہی بہت بوڑھا محسوس کرنے لگے۔ وہ تھکے تھکے قدموں سے ایک صوفے پر بیٹھے گئے ۔ انہوں نے سر اُٹھا کر اپنے ملازم کی طرف دیکھا جو ان کا میڈیکل بیگ ہاتھ میں لیے کھڑا تھا۔ تم نے سن لیا، فہیم نے کیا کہا تھا ؟ ملازم نے اثبات میں سر ہلایا۔ ان باتوں کو اچھی طرح یاد رکھنا۔ عدالت کے سامنے تمہیں بھی بیان دینا ہو گا ۔ اب تم جاؤ اور چائے بنا لاؤ ملازم کے جانے کے بعد چند لخطے نشست گاہ میں گہرا سکوت مشہور طاری رہا- ۔ انسپکٹر اپنے سامنے بیٹھے ہوئے مشہور سرجن کلیم الدین کو بڑے احترام سے دیکھ رہا تھا۔ آپ نے کمال کر دیا کلیم الدین صاحب ! یہ احمق کتنی آسانی سے آپ کے بچھائے ہوئے جال میں پھنس گیا- ایک عام آدمی کے لیے ڈاکٹر کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ نا قابل تردید حقیقت ہوتی ہے۔ اس کی جگہ اگر کوئی بہت ہی تجربہ کار مجرم ہوتا وہ بھی پھنس جاتا یہ تو پھر اناڑی تھا، بچہ تھا۔ کیا واقعی آپ کے مرحوم بھائی دل کی بیماری میں مبتلا تھے؟ جواب میں کلیم الدین نے انکار میں سر ہلایا۔ گزشتہ دو تین ماہ سے انہیں ہائی بلڈ پریشر کی شکایت ہو گئی تھی، میری ہدایت پر انہوں نے تمام ذمے داریاں اپنے قابل اعتماد ملازمین کے سپرد کر دی تھیں اور خود زیادہ سے زیادہ آرام کرنے لگے تھے۔ بس یہ حقیقت تھی ان کے دل کے دوروں کی جسے وہ بے وقوف سچ سمجھ بیٹھا ۔ ہاں، اسے اپنی جلد بازی پر بڑا افسوس ہو رہا تھا لیکن یہ اس کے سینے پر اچانک ہی دانے کہاں سے نمودار ہو گئے؟ مجھے اس پر پہلے ہی شک تھا کہ اس نے بھائی جان کو وصیت نامه تبدیل کرنے سے روکنے کے لیے انہیں قتل کیا ہے اور اس واردات کو چوری کی واردات کا رنگ دیا ہے۔ جیسے ہی یہ میرے پاس آیا میں نے آپ کو فون کر کے بلا لیا اور اسے چائے پلا دی۔ جس میں بے ہوش کرنے والی دوا ملی ہوئی تھی۔ چائے پی کر یہ بے ہوش ہو گیا۔ آپ لوگوں کو پردے کے پیچھے چھپا کر میں نے اس کے سینے پر وہ دوا مل دی، جس کی وجہ سے کچھ دیر بعد خارش ہونے لگتی ہے اور سرخ سرخ دانے جلد پر ابھر آتے ہیں۔ جب اسے ہوش آیا تو اسے دل کے دوروں اور چیچک والی کہانی سنا دی۔ جب اسے اپنے سینے پر وہ دانے نظر آئے اور ان میں خارش ہوئی تو یہ سمجھا کہ اسے مرحوم سے چیچک کی وبا لگ گئی ہے اس لیے یہ دہشت زدہ ہو گیا، اس نے فوراً ہی اپنے جرم کا اعتراف کر لیا۔ خوب صورت تھا نا ۔ ہر خوب صورت مرد اور عورت کو اپنی زندگی سے زیادہ اپنی خوب صورتی عزیز ہوتی ہے۔ چیچک کی دہشت نے اس کا ذہن ماؤف کر دیا۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب کر لی۔ کیوں انسپکٹر ! چار افراد کے سامنے اعتراف جرم اسے پھانسی تک پہنچا دے گا نا۔ انسپکٹر نے اپنے سر کو اثباتی جنبش دیتے ہوئے کہا۔ پھانسی نہیں تو عمر قید ضرور ہو جائے گی۔

Latest Posts

Related POSTS