کہنے کو افسر چچا ہمارے پڑوسی تھے لیکن والد سے ان کی دوستی بھائیوں جیسی تھی۔ عرصہ پچاس سال سے ان کے والد ہمارے برابر والے مکان میں قیام پذیر تھے۔ ان کا گھر افسر چچا کے والد نے ہی تعمیر کرایا تھا اور چچا میرے ابو کے ساتھ کھیل کود کر بڑے ہوئے تھے۔ دونوں کی شادی ہوگئی تو یہ اپنے اپنے اہل و عیال میں گھر کی روزی روٹی کے چکر میں پڑ گئے، تاہم جب فراغت ملتی تو دونوں مل بیٹھتے۔
چچا افسر کا گھرانا دو بیٹیوں اور ایک بیٹے پر مشتمل تھا۔ معمولی ملازمت پر تھے، بہت کفایت شعاری سے گزارہ ہوتا تھا۔ برے بھلے دنوں میں والد قرض حسنہ کی صورت میں مدد کردیا کرتے تھے۔ چچا کی چھوٹی لڑکی کا نام ناجیہ تھا، بہت خوبصورت تھی۔ بڑی بیٹی کا نکاح ہوچکا تھا اور اب انہیں چھوٹی کے رشتے کے لئے کسی اچھے گھرانے کی تلاش تھی۔ انہوں نے دو، چار دوستوں سے ذکر کر رکھا تھا۔ ایک دوست کے توسّط سے ناجیہ کے لئے ایک خوشحال گھرانے سے رشتہ آ گیا۔
یہ لوگ تھوڑی سی زمین کے مالک تھے۔ کھیتوں کے درمیان رہتے تھے، گزر بسر اچھی تھی، رہن سہن دیہاتی طرز کا تھا۔ مرد صرف پرائمری تک تعلیم یافتہ تھے اور عورتوں نے کبھی اسکول کی شکل نہیں دیکھی تھی۔ چچا گائوں میں ان کا گھر دیکھنے گئے تو ان لوگوں نے خاطر تواضع میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ بہت بااخلاق تھے۔ چچا اچھا تاثّر لے کر آئے اور رشتے کی حامی بھر لی۔ کچھ دنوں بعد پہلے بڑی کو رخصت کیا اور پھر چھوٹی کی رخصتی کی تیاریوں میں لگ گئے۔
شہر اور گائوں کی زندگی میں آج بھی بڑا فرق ہے۔ دیہات والوں کی سوچ اور طرح کی ہوتی ہے۔ وہ اپنی ریت روایات کے پابند ہوتے ہیں۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو ان کے رشتے دار اور پاس پڑوس والے عرصۂ حیات تنگ کر دیتے ہیں۔ ناجیہ کے والدین شروع سے ہی شہر میں رہتے تھے اور کھلے ذہن کے تھے۔ گھر کے سب ہی افراد پڑھے لکھے تھے۔ جس لڑکے سے ناجیہ کی منگنی ہوئی، وہ میٹرک پاس تھا، تب ہی چچا نے یہ رشتہ منظور کر لیا تھا کہ چلو داماد تو کچھ پڑھا ہوا ہے، اس کے گھر کے باقی افراد نہ سہی۔
چچا غریب ضرور تھے پر دل کے غنی تھے۔ انہوں نے بیٹیوں کی پرورش نازونعم میں کی تھی۔ ان کی ہر خواہش پوری کرنے کی سعی کرتے تھے۔ دونوں لڑکیاں نیک چلن اور صابر تھیں، مگر ناجیہ ذرا شوخ سی تھی۔ وہ فضول خرچ بالکل نہ تھی لیکن اس کا ایک شوق تھا، رنگ برنگی کانچ کی چوڑیاں اسے بہت پسند تھیں۔ جہاں چوڑیاں دیکھتی دل مچل جاتا۔ پھر کچھ دن بعد اس کا دل ان سے بھر جاتا اور کلائی سے اتار کر ایک ڈبّے میں رکھ دیتی۔ اس نے دسیوں سیٹ جمع کر رکھے تھے۔
جب فارغ ہوتی یہ بکس کھول لیتی اور اپنی جمع کی ہوئی چوڑیوں کو پھر سے ترتیب دے کر سیٹ بناتی۔ گویا یہ کھلونے تھے کانچ کے اس کے نزدیک، جن سے کھیل کر اسے یک گو نہ مسرّت ملتی تھی۔ نت نئی چوڑیاں پہننا اس کا مشغلہ تھا۔ ہم بھی ناجیہ کے اس جنون سے واقف تھے لہٰذا جب کبھی کسی موقع پر تحفہ دینا ہوتا، میں اس کے لئے ہمیشہ کانچ کی چوڑیوں کا سیٹ خریدا کرتی تھی۔ سالگرہ کا تحفہ ہوتا یا عید پر جب اسے اس کی من پسند چوڑیاں دیتی وہ اس تحفے کو دیکھ کر بہت خوش ہوتی تھی۔
ہمارے گھر کے قریب ہی ایک چھوٹا سا جنرل اسٹور تھا، جس میں بنائو سنگھار کے سامان کے علاوہ چوڑیاں بھی ملتی تھیں۔ یہ اسٹور شفیق کا تھا، اس کو ہم بچپن سے جانتے تھے۔ محلّے بھر میں وہ ’چچا شفو‘ کہلاتے تھے۔ ہمیں جو خریدنا ہوتا وہاں سے خرید لیتے تھے۔ جب کبھی ناجیہ کے پاس کچھ رقم جمع ہو جاتی وہ مجھے کہتی، عارفہ میرے ساتھ چچا شفو کی دکان پر چلو، چوڑیاں خریدنی ہیں، تب ہی میں کہتی… ناجی! تیرا چوڑیوں سے کب پیٹ بھرے گا؟ تیرا بکس بھرا پڑا ہے ان سے۔ وہ کہتی… بس مجھے اچھی لگتی ہیں۔ اتنی ڈھیر ساری جمع کر لی ہیں، کیا کروگی ان کا؟
جب میری شادی ہو گی تجھے دے جائوں گی۔ میری نشانی سمجھ کر رکھ لینا۔ مجھے تیری نشانی رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ اچھا چلو پھر امانت سمجھ کر رکھ لینا، کبھی آ کر لے جائوں گی۔
یہ تو خیر مذاق کی باتیں تھیں پھر وہ لمحہ آ گیا جب میری سہیلی بابل کا گھر چھوڑ کر سسرال سدھار گئی۔ دلہن بنی بہت خوش تھی۔ ہاتھوں میں کلائیاں بھر کے کانچ کی چوڑیاں پہنی تھیں۔ بار بار اپنی کلائیوں کو دیکھ
کر مسکرا دیتی تھی، جیسے وہ کانچ کی نہ ہوں سونے کی ہوں۔ لڑکیاں بھی عجیب ہوتی ہیں، کیسی چھوٹی چھوٹی خواہشیں ہوتی ہیں ان کی۔ اس کی امّی اپنے خاوند سے کہا کرتیں… کیوں دل چھوٹا کرتے ہو، ناجیہ کے ابّو…بس کانچ کی چوڑیوں کی ہی تو فرمائش کرتی ہے، سونے کی تو نہیں مانگتی نا…؟
مجھے یاد ہے وہ رخصتی کے وقت بھی مسکرا رہی تھی حالانکہ اس گھڑی دلہنیں آنسو بہاتی جاتی ہیں کہ بابل کے گھر سے جا رہی ہوتی ہیں۔ میں نے اس کے کان میں کہا تھا…ناجی بڑی سنگدل ہو، لوگوں کو دکھانے کے لئے ہی اداس ہو جائو۔ کیا سوچیں گے سب کہ اسے ماں، باپ کا گھر چھوڑنے کا کوئی افسوس نہیں ہے، ایک آنسو ہی ٹپکا دو۔
کیوں خواہ مخواہ روئوں، ارے بھئی… سارا کاجل پھیل جائے گا، میک اَپ خراب ہو جائے گا، بری شکل لے کر دولہا کے سامنے جائوں گی کیا؟ اتنی تو پاگل نہیں ہوں۔ اس نے جس طرح یہ کلمات ادا کئے، مجھے ہنسی آ گئی۔
بات اصل میں یہ تھی کہ جب لڑکا بر دکھوّے کے لئے آیا تھا، اس نے کھڑکی کے پٹ ذرا سے کھول کر اس کی ایک جھلک دیکھ لی تھی۔ اسے توصیف بہت اچھا لگا تھا۔ وہ ایک خوبصورت جوان تھا۔ دیہات کی کھلی اور پرفضا آب و ہوا میں پلا تھا۔ قد کاٹھ شاندار اور رنگ بھی گلابی چمکتا ہوا تھا۔ ناجیہ خوبصورت تھی، وہ بھی کسی سے کم نہ تھا۔
خواب سب ہی دیکھتے ہیں، ضروری نہیں ہر کسی کو اپنے خوابوں کی تعبیر بھی حسین ملے، یہی میری ہم جولی کے ساتھ ہوا۔ سسرال سے پہلی بار میکے آئی تو پریشان تھی۔ وہ سسرال میں چھ دن گزار کر ساتویں دن آئی تھی اور یہاں اس رسم کو ’’ست واڑہ‘‘ کہا جاتا تھا۔ ست واڑے پر چچا افسر نے داماد اور اس کے گھر والوں کی دعوت کی تھی۔ آتے ہی اس نے مجھے سندیسہ بھجوایا۔ عارفی آ کر مل جائو، جی اداس ہے۔ یہ پیغام ملتے ہی میں سوچنے لگی کہ جو ہنستی مسکراتی سسرال گئی تھی وہ کیوں اداس ہے۔ ملنے گئی تو ناجیہ نے بتایا کہ یہ لوگ اکھڑ قسم کے ہیں۔ تمیز، تہذیب سے ناواقف، بڑے، چھوٹے بات بات پر ایک دوسرے سے الجھ پڑتے ہیں، سوائے میری ساس کے، وہ بہت سلجھی ہوئی اور تحمّل والی ہیں، لگتا ہی نہیں کہ وہ بھی ان لوگوں میں سے ہیں۔
شکر کرو …تم کو ساس تو اچھی ملیں۔ میں نے اسے تسلّی دیتے ہوئے کہا۔ دیکھو تم ان کی بہو ہو اور بہو وہ ہستی ہوتی ہے جو رفتہ رفتہ سسرالیوں کو تہذیب کے دائرے میں لا سکتی ہے، اگر عقل والی ہو تو …تم انہیں اپنے رنگ میں رنگ لینا۔
وہ تو ٹھیک ہے میں اس ماحول کی عادی نہیں ہوں نا، یہ لوگ آپس میں گالم گلوچ کرتے ہیں تو جی گھبرانے لگتا ہے۔
چلو ٹھیک ہے، شوہر تو تنک مزاج نہیں ہے نا۔ شہر ہو کہ دیہات ہر لڑکی نئے ماحول میں پریشان ہو جاتی ہے۔ شروع میں ایسے ہی ہوتا ہے بعد میں سب ٹھیک ہو جاتا ہے۔ تمہاری پریشانی وقتی ہے۔ ناجیہ صبر سے کام لو اور یہ بتائو ہمارے دولہا بھائی کیسے ہیں؟
اچھے ہیں۔ اس نے کہا۔ کیا شام کو چوڑیاں لینے چلو گی …وہ اپنے مطلب کی بات پر آ گئی۔
مجھے پتا تھا تم نے اسی لئے مجھے بلوایا ہے۔ وہ مسکرا دی۔ بات یہ تھی کہ جب کبھی وہ اداس ہوتی یا اس پر افسردگی چھا جاتی تو وہ چوڑیاں خرید لیتی اور پھر ان کو کلائی میں ڈال کر اوپر نیچے کرتی تو اس کا موڈ صحیح ہو جاتا، افسردگی غائب ہو جاتی۔
بچپن سے میں اس کی یہ عادت جانتی تھی، لہٰذا اس کے ساتھ چلنے پر تیار ہو گئی۔ ناجیہ کی امّی نے کہا…تم نئی دلہن ہو ناجیہ! پہلی بار میکے آئی ہو، ابھی دکان پر مت جائو۔ تمہارے بھائی سے کہتی ہوں، شفو بھائی کی دکان سے چوڑیوں کے ڈبّے گھر لے آئے گا، تم پسند کرلینا۔ میں نے بھی تائید کی کہ خالہ جی صحیح کہہ رہی ہیں۔ خالہ نے اکرام بھیا کو جنرل اسٹور بھیج دیا۔ چچا شفو نے اپنے بیٹے مسرور سے کہا۔ یہ چار، پانچ ڈبّے لے جائو، جو وہ پسند کر لیں دے کر باقی واپس لے آنا۔
جس وقت مسرور چوڑیوں سے بھرے ڈبّے لے کر آیا، بھائی اکرام نے اسے بیٹھک میں بٹھا دیا اور چوڑیاں پسند کرنے کے لئے ناجیہ کو بلا لیا۔ وہ بولی کانچ کی چوڑیاں خود پہنوں گی تو بہت سی ٹوٹ جائیں گی، بھائی مسرور تم میری کلائی میں چڑھا دو۔ یہ ہمیشہ ہی ہوتا تھا۔ جنرل اسٹور پر ہم سارے محلّے کی خواتین چوڑیاں لینے جاتیں تو مسرور بھائی ہی پہناتے تھے۔ ان کو چوڑیاں کلائی میں چڑھانے کا فن آتا تھا۔ ان کے ہاتھ سے بہت کم چوڑیاں ٹوٹتی تھیں۔
اب ناجیہ شادی
شدہ تھی، لہٰذا اپنی پسندیدہ چوڑیاں پہننے کے لئے بازو دروازے سے آگے کر دیا تو بھائی مسرور نے چوڑیاں پہنا دیں۔ اسی وقت توصیف گھر میں اندر داخل ہوا اور اس نے مسرور کو چوڑیاں پہناتے دیکھا تو اس کی تیوری پر بل پڑ گئے۔
زبان سے کوئی بات نہ کی کہ شادی کے بعد وہ بہ طور داماد پہلی بار سسرال آیا تھا۔ کسی کو گمان نہ گزرا کہ اسے یہ بات سخت ناگوار گزری ہے، حتّیٰ کہ اپنی دلہن کو بھی نہ بتایا، بس خاموشی اختیار کر لی۔ البتہ جاتے ہوئے دلہن سے کہا تم ساتھ واپس چلنے کے لئے تیار ہو جائو۔ رات کا کھانا کھانے کے بعد ناجیہ کے ساس، سسر، بیٹے اور بہو کے ہمراہ گائوں واپس لوٹ گئے۔
ایک ماہ بعد ناجیہ دوبارہ میکے آئی تو بتایا کہ اس کے دولہا کو کانچ کی چوڑیاں پسند نہیں ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ آواز کرتی ہیں، ان کی چھن چھن اسے بری لگتی ہے۔ دیکھو ایک ہی تو میرا شوق تھا وہ بھی اسے پسند نہیں۔ وہ بہت افسردہ تھی۔ اب تو وہاں ڈپریشن سے مر ہی جائوں گی۔ میرا دل ان لوگوں میں بالکل نہیں لگتا۔ سوچتی تھی اپنی چوڑیوں والا بکس لے جائوں گی لیکن اب نہیں لے جائوں گی۔
دلہن کو رنجیدہ دیکھا تو ساس نے بیٹے سے کہا …توصیف اس کی نئی نئی گھر والوں سے جدائی ہے۔ لڑکی اپنے تمام رشتے دار چھوڑ کر نئے گھر آتی ہے، یہ اداس ہو جاتی ہے۔ تم ایسا کرو کہ اس کو کچھ دن کے لئے میکے چھوڑ آئو۔ ماں کے سمجھانے پر وہ ناجیہ کو میکے لے آیا۔ ماں نے ہدایت کی تھی کہ کچھ دن وہاں رہنے دینا، تم چھوڑ کر واپس آ جانا۔ دو، چار روز بعد جا کر ہم خود لے آئیں گے۔
توصیف نے ماں کی ہدایت پر عمل تو کیا کہ دلہن کو میکے لے آیا لیکن شام ہوتے ہی کہا کہ واپس چلنا ہے۔ امّی نے تو کہا تھا کہ دو، چار دن بے شک ادھر رہ جانا۔ انہوں نے ویسے ہی کہہ دیا تھا۔ رہنا ہے تو بس ایک دن اور رہ لو، کل میرے ساتھ واپس چلنا ہوگا۔ میں بھی یہیں رہ جاتا ہوں۔ وہ بولی…تم چلے جائو۔ مجھے آنا ہوگا تو میں ابّو یا بھائی کے ہمراہ خود آ جائوں گی۔ تم نے یہاں رہ کر کیا کرنا ہے؟ اس نے پوچھا۔
مجھے جنرل اسٹور سے کچھ چیزیں لینی ہیں۔ میں سمجھ گیا، تم نے چوڑیاں لینی ہوں گی۔ چوڑیاں لے لوں تو کیا گناہ ہے۔ بس ایک ہی تو شوق ہے میرا…آپ کہتے ہیں تو نہیں لیتی۔
ضرور لو…میں خود لے چلوں گا تمہیں اسٹور پر۔
شام کو وہ اسے اسٹور پر لے گیا۔ چوڑیوں کے ڈبّے نکلوائے اور کہا…لو پسند کر لو۔ ناجیہ خوش ہو گئی، اس خیال سے کہ شوہر کو اس کا کتنا خیال ہے۔ وہ پھولے نہ سما رہی تھی۔ اس نے اپنی من پسند چوڑیاں خرید لیں اور مسرور سے کہا کہ مسرور بھائی … یہ پہلی والی اتار لیں مگر خیال سے ایک بھی ٹوٹے نہیں اور یہ نئی چوڑیاں پہنا دیں۔ اس کے ذہن میں ایک لمحے کو بھی یہ خیال نہ آیا کہ توصیف کو یہ بات سخت ناگوار گزرے گی۔ دل پر پتھر رکھ کر اس نے اس منظر کو گوارا کیا لیکن پہلے روز جس غلط فہمی نے جنم لے لیا تھا، اس چنگاری نے آگ پکڑ لی۔ بیوی کے شوق کو اس نے اس کی بدنیتی جانا کہ چوڑیاں لینے کے بہانے یہ دراصل مسرور کا دیدار کرنے آئی ہے۔ اسی لئے میکے رکنے پر اصرار کر رہی تھی۔
سب نے لاکھ کہا کہ ایک، دو دن ناجیہ کو رہنے دو مگر وہ نہ مانا۔ بیوی کو شام ہوتے ہی ساتھ لے کر گائوں چلا گیا۔
ماں نے کہا۔ میں نے تم سے کہا تھا کہ بہو کو دو،چار روز میکے میں رہنے دینا، تم پھر واپس لے آئے۔
بس ماں میری مرضی… میں اسے وہاں اکیلے نہیں چھوڑ سکتا۔ یہ آزاد خیال لوگ ہیں، ان کی لڑکیاں اکیلی دکانوں پر جا کر شاپنگ کرتی ہیں۔ اپنے گھر کے مردوں کے بغیر بازار چلی جاتی ہیں اور یہ بات مجھے ہرگز برداشت نہیں ہے۔ اس نے اس بات کا اظہار نہ کیا کہ ناجیہ نے دکاندار سے چوڑیاں پہنیں اس لئے اس کا موڈ خراب ہے۔
یہ موڈ کافی دنوں تک خراب رہا اور ناجیہ کو وجہ معلوم نہ ہوسکی۔ جیون ساتھی بلاوجہ اکھڑا اکھڑا ہو تو دال میں کچھ کالا ضرور ہوتا ہے۔ ایک، دو، تین بار ناجیہ نے توصیف سے دریافت بھی کیا۔ کیوں آپ خفا خفا سے ہیں، میری کوئی بات بری لگی ہے؟
کوئی بات نہیں ہے۔ میری اپنی کوئی وجہ ہے۔ مجھے نہیں بتائیں گے۔ تمہیں بتانے کی نہیں ہے۔ کچھ عرصے بعد ناجیہ کے بھائی کے ہاں بیٹا ہوا، اس کا عقیقہ تھا۔ چچا افسر نے بیٹی اور داماد کو دعوت نامہ بھیجا۔ توصیف نے کہا…کیا ضرورت ہے ہر وقت میکے جانے کی۔ اس کی ماں پھر آڑے آ گئی۔
; سمجھایا بیٹا…ایسی تقاریب پر بہو کو روکنا مناسب نہیں۔ اس طرح اس کا دل برا ہوگا۔ ماں تم نہیں جانتیں ان آزاد خیال لوگوں کو…میں ایک گھڑی بھی ان لوگوں کے گھر پر اپنی بیوی کو تنہا چھوڑ کر آنا پسند نہیں کرتا۔
وہ اس کے ماں، باپ کا گھر ہے بیٹا، میکہ ہے اس کا۔ کسی عورت کو کیوں کر میکے والوں سے ملنے یا وہاں جانے سے روکا جا سکتا ہے۔ یہ بالکل درست بات نہیں۔
اس طرح بہو کبھی ہماری نہ ہوسکے گی، وہ ہم سے نفرت کرنے لگے گی۔ جیسے کہ تمہیں اپنے ماں، باپ، بہن، بھائی پیارے ہیں، اسے بھی ویسے ہی پیارے ہیں۔
جب ناجیہ نے سنا تو وہ بہت کبیدہ خاطر ہوئی۔ اس نے اصرار کیا کہ بھتیجے کے عقیقے پر ضرور جائے گی۔ یوں بھی میکے گئے اسے کئی ماہ ہو چکے تھے۔ دل اپنے پیاروں کے لئے اداس تھا۔ یہ پہلی خوشی اس کے والدین کے گھر منائی جا رہی تھی۔ آخر وہ کیوں نہ جائے۔ اس کے اصرار پر توصیف کی بدگمانی اور بڑھ گئی۔ کہا کہ وہاں جائو گی تو پھر عقیقے پر نئی چوڑیاں بھی ضرور لو گی۔
ہاں لوں گی توکیا ہوا۔ تمہیں میرے چوڑیاں لینے سے کیا مسئلہ ہے۔ تم کو اچھا نہیں لگتا تو آتے ہوئے اتار کر وہاں ہی رکھ آئوں گی۔ مجھے مت روکو۔
مجھے پتا ہے چوڑیوں کے بہانے تم کس سے ملنے جاتی ہو؟ آخر دل کی بات لبوں تک آ ہی گئی۔ شوہر کے اس الزام پر ناجیہ دنگ رہ گئی۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس کا جیون ساتھی ایسی بات سوچ سکتا ہے۔ نہ جانے کس قسم کے سانپ اس نے اپنی سوچوں کے پٹارے میں پال رکھے تھے۔ ماں نے بیٹے کو سمجھا بجھا کر پھر بہو کو میکے روانہ کر دیا۔ یہ بھی کہا کہ جب سے یہ آئی ہے تم نے اسے ماں، باپ کے گھر نہیں رہنے دیا۔ یہ رہنا چاہے تو واپسی کا اصرار مت کرنا اور وہاں چھوڑ کر آ جانا۔ ماں کے سامنے تو اس نے حامی بھر لی لیکن سسرال آتے ہی ناجیہ سے کہا…عقیقہ کی تقریب ختم ہوتے ہی تیار ہو جانا۔ میرے ساتھ رات کو واپس گائوں جانا ہو گا۔
آخر ہرج کیا ہے اگر میں ایک رات میکے میں ٹھہر جائوں گی۔ مجھے واپس جلدی جانا ہے۔ گائوں میں سو کام رکے ہیں۔ تم کو جانا ہے تو چلے جائو، میں ایک دو روز بعد بھائی کے ہمراہ آ جائوں گی۔
میں تمہیں ہرگز ایسا موقع دینا نہیں چاہتا کہ تم کسی سے مل سکو۔ میرے ساتھ آئی ہو میرے ساتھ ہی واپس جانا ہو گا۔
شوہر کی یہ بات سن کر ناجیہ رونے لگی۔ اس نے اپنے گھر والوں سے فریاد کی کہ توصیف ناحق اس پر تہمت لگاتا ہے۔ ناجیہ کی امّی داماد کو سمجھانے لگیں کہ اس قسم کی بے سروپا باتیں کرکے اپنی شریک حیات کا دل خراب مت کرو۔ اگر میرے شوہر اور بیٹے نے تمہاری یہ بات سن لی تو وہ ناجیہ کو ہمیشہ کے لئے یہاں روک لیں گے اور تمہارا گھر برباد ہو جائے گا۔ سوچ سمجھ کربات کرو۔ ساس کے سمجھانے پر وہ ناجیہ کو میکے میں چھوڑ کر گائوں لوٹ گیا لیکن اب یہاں اسے ایک پل قرار نہ تھا۔
آتے وقت اس نے ناجیہ سے کہا تھا کہ اس بار ہرگز نئی چوڑیاں مت لینا ورنہ دوبارہ کبھی میکے میں قدم نہ رکھ سکو گی۔
عقیقے والے دن صبح ہی اس کی بھابی نے مسرور کو بلوا لیا کہ چوڑیوں کے ڈبّے لے کر آ جائو۔ خوشی کے موقع پر خاندان کی سب ہی لڑکیوں کو نئی چوڑیاں میں پہنائوں گی۔ خاندان کی کچھ لڑکیاں آئی ہوئی تھیں۔ مسرور چوڑیاں لے آیا۔ وہ بیٹھک میں بٹھا دیا گیا۔ پرانی محلے داری تھی۔ یہ لڑکا بزرگوں کے سامنے کھیل کود کر بڑا ہوا تھا۔ محلے کا ہر گھر اسے بیٹے کی طرح سمجھتا تھا اور کوئی لڑکی اس سے پردہ نہ کرتی تھی۔ سب اس کو مسرور بھائی کہتی تھیں۔ وہ سارے محلے کی لڑکیوں کا بھائی تھا۔
بھابی نے اپنی بہنوں، کزنوں اور محلے کی دوسری لڑکیوں کو چوڑیاں پہنائیں اور ناجیہ سے بھی اصرار کیا کہ تم بھی پہنو۔ وہ دل مسوسنے لگی تو میں نے کہا۔ ابھی تو پہن لو۔ عقیقے کے بعد اتار کر رکھ جانا۔ بھابی کی خوشی ہے اصرار کر رہی ہیں، وہ کیا سوچیں گی۔ معلوم نہ تھا کہ میرا یہ مشورہ کتنا بڑا طوفان لانے والا ہے۔ اگر جانتی تو کبھی ناجیہ کو یہ مشورہ نہ دیتی۔ اس نے میرے کہنے پر اپنی بھابی کی خوشی کے لئے نئی چوڑیاں پہن لیں۔
چچا افسر کو توصیف دو روز بعد آنے کا کہہ کر گیا تھا لیکن ایک رات بھی اس نے بڑی مشکل سے گائوں میں گزاری۔ اگلے دن وہ صبح سویرے سسرال آ دھمکا۔
ناجیہ اس کی صورت دیکھتے ہی چڑ گئی۔ اس پر طرّہ یہ کہ آتے ہی ناجیہ کی کلائی پکڑ کر غرایا۔ کیوں
نے یہ چوڑیاں جبکہ میں نے منع کیا تھا۔ مسرور یار کے ہاتھ سے چوڑیاں چڑھوانے میں بڑا مزہ آتا ہے تمہیں؟ ناجیہ حیرت سے شوہر کا منہ تکنے لگی۔ مگر وہ تو ہمارے بھائی جیسا ہے۔ توبہ آپ کی سوچ کتنی گندی ہے۔
گندی ہے یا اچھی ہے، لائو ادھر کلائی… کھٹ کھٹ کرکے اس نے ساری چوڑیاں توڑ ڈالیں اور بولا۔ چلو اب سیدھی طرح گھر، وہاں جا کر تیری خبر لوں گا۔
شوہر کے اس جارحانہ رویّہ پر ناجیہ کا دل کرچی کرچی ہوگیا۔ اب تو میں ہرگز تمہارے ساتھ نہیں جائوں گی، تم انسان نہیں جانور ہو۔ ماں، باپ نے سمجھایا…بیٹی آ گیا ہے تو چلی جائو، آخر کو اپنا گھر بسانا ہے۔ تم شوہر کو ناراض مت کرو مگر ناجیہ کا دل ٹوٹ گیا تھا۔ اس نے کہا ۔میں ہرگز سسرال نہیں جائوں گی۔ اس نے بہت اصرار پر بھی توصیف کی بات نہ مانی۔ وہ نامراد لوٹ گیا۔ اس انکار سے اس کے دل پر گہرا گھائو لگا تھا۔
ناجیہ سمجھ رہی تھی کہ وہ اسی طرح راہ راست پر آئے گا، جب وہ ایک بار اس کے ساتھ جانے سے انکار کرے گی ورنہ یوں ہی اس کے سر پر سوار رہے گا۔ توصیف کو یقین ہو گیا کہ ناجیہ مسرور کے دیدار کی خاطر آئے دن بہانے سے چوڑیاں خریدتی ہے، ضرور ان کا تعلق ماضی میں رہا ہو گا۔ یہ خیال اب اس کو ایک لحظہ بھی آرام نہ لینے دیتا تھا۔
ناجیہ روٹھ کر میکے بیٹھ گئی۔ سب سمجھا رہے تھے مگر وہ سسرال جانے پر راضی نہ تھی۔ دس دن بہ مشکل گزرے تھے، توصیف دوبارہ آیا اور بیوی سے کہا کہ اچھی طرح مل لی ہوگی اپنے چاہنے والے سے…اب چلو گھر۔ یہ اشتعال بھرا فقرہ سن کر ناجیہ بھڑک اٹھی۔ اس نے رونا شروع کر دیا کہ ایسے آدمی کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتی جو کھلم کھلا مجھے بدکردار کہے۔ ناجیہ کے رونے پر گھر والے اس کے گرد جمع ہو گئے اور اب بات کھل گئی کہ توصیف اسے آوارہ سمجھتا ہے، تب ہی میکے میں رکنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اس بات پر سب ہی کو افسوس ہوا۔ افسر چچا نے کہا۔تم جائو اور اپنے بڑوں کو لے کر آئو تب ہماری بیٹی تمہارے گھر جائے گی۔ گائوں کے اس شکی جوان نے سسر کے حکم کو اپنے لئے توہین جانا۔ اس نے کہا۔اگلی بار اگر یہ میرے ساتھ گائوں نہ گئی تو پھر انجام اچھا نہ ہو گا۔ ناجیہ کے والدین سمجھے کہ وہ طلاق کی دھمکی دے رہا ہے۔ وہ بولے۔ ہاں، ہاں دیکھ لیں گے۔ پہلے اپنے والدین کو تو لائو یہاں۔ پھر فیصلہ ہو گا۔ توصیف کی ماں نے تمام احوال بیٹے کی زبانی سن کر کہا۔میں نے تمہیں سمجھایا تھا کہ اب بہو کے میکے مت جانا۔ اگر وہ تمہارے ساتھ نہیں آئی توکچھ دن اسے ادھر رہنے دو، جلد تمہاری کمی محسوس کرے گی،آپ ہی آ جائے گی یا ہم جا کر لے آئیں گے، دنیا میں یہی رواج ہے۔ زبردستی کرنے سے معاملات حل ہونے کی بجائے اور بگڑتے ہیں۔
ماں کو کیا خبر کہ بیٹے کے دل میں کیا آتش فشاں دہک رہا ہے، وہ سمجھی تھی کہ بیوی سے پیار کرتا ہے تب ہی اس کی جدائی شاق گزرتی ہے۔ ہفتہ یوں گزرا کہ وہ انگاروں پر لوٹتا رہا، جیسے کروٹ کروٹ جہنم کی آگ میں جل رہا ہو۔
آٹھ دن بعد بغیر والدین کو بتائے وہ دوبارہ شہر آ پہنچا۔ اس وقت ناجیہ بہت افسردہ تھی کہ ناحق شوہر سے تنک گئی اور وہ خفا ہو کر چلا گیا۔ اسی افسردگی کو دور کرنے کو چوڑیوں کا بھرا ہوا بکس کمرے سے نکال کر لے آئی اور صحن میں بچھی چارپائی پر بیٹھ کر ان کے ہم رنگ سیٹ نئے سرے سے ترتیب دینے لگی، جیسے اس ساری کارروائی سے اپنا غم بھلانا چاہتی ہو۔
توصیف نے گھر کے اندر قدم رکھتے ہی بیوی کو چوڑیوں سے کھیلتے دیکھا تو سلگ گیا۔ اس نے بکس اٹھا کر فرش پر پٹخ دیا۔ رنگ برنگی چوڑیاں گھومتی بل کھاتی فرش پر گر کر چکناچور ہو گئیں اور ان کے ساتھ ہی ناجیہ کا دل لہو لہو ہو گیا، جیسے چوڑیوں کے ٹکڑے اس کے دل میں اتر گئے ہوں۔ چلو اب اٹھو اور چلنے کے لئے تیار ہو جائو۔
نہیں جاتی میںتمہارے ساتھ، کیا کرو گے تم؟ وہ سسک کر بولی۔ تب ہی اس نے کوٹ کی جیب سے چھرا نکال کر ہاتھ ہوا میں لہرایا۔ یہ کروں گا میں…اور پھر پے درپے اس نے وار شروع کر دیئے، دیوانوں کی طرح۔ ناجیہ کی امّی یہ منظر دیکھ کر دہل گئیں اور بھابی زور زور سے چیخنے لگیں۔ کوئی آئو بچائو…یہ پاگل مارے ڈالتا ہے اس بیچاری کو…
شوروغل پر ابّو اور امّی دوڑ کر ان کے گھر پہنچے۔ چچا افسر سودا سلف لینے بازار گئے ہوئے تھے۔ ناجیہ نے جان بچانے کے لئے گھائل ہرنی کی طرح بھاگنا چاہا، مگر اس
نے موقع نہ دیا۔ اگلے پل وہ فرش پر گر گئی۔ کپڑے خون میں تر ہو چکے تھے۔ جب تک لوگ اکٹھے ہوتے توصیف ناجیہ کا کام تمام کر کے بھاگ چکا تھا۔ وہ سیدھا گائوں پہنچا اور ماں سے کہا کہ میں ناجیہ کو ختم کر آیا ہوں کیونکہ وہ میرے ساتھ آنے سے انکاری تھی۔ نہ جانے کس کی خاطرمیکے میں رہنا چاہتی تھی۔اس کا کوئی وہاں تھا ضرور جو وہ وہاں جا کر نئی چوڑیاں پہنتی تھی اور آنے سے انکار کرتی تھی۔
ماں نے سر پکڑ لیا۔ یہ تو نے کیا کیا؟ اچھا نہیں کیا اسے مار کر۔ وہ اسے کمرے میں لے گئی اور دھکا دے کر دروازہ بند کر کے باہر سے کنڈی لگا دی۔ چاہتی تھی کہ شوہر کو خبر کرے جو ٹیوب ویل پر گیا ہوا تھا کہ اتنے میں پولیس آ گئی۔ بتائو اماں کہاں ہے تمہارا بیٹا؟ ورنہ تمہارے گھر کی سب عورتوں کو ہم تھانے لے جائیں گے۔ توصیف کی ماں نے اپنی جوان بیٹی کی طرف دیکھا جو تھرتھر کانپ رہی تھی۔ تب اس نے کمرے کی طرف اشارہ کیا۔ پولیس نے کنڈی کھول دی اور قاتل کو پکڑ کر ہمراہ لے گئے۔ جب پولیس بیٹے کو لے کر چلی گئی تب اسے ہوش آیا۔ وہ رونے پیٹنے اور بین کرنے لگی۔ ہائے یہ میں نے کیا کر دیا۔
قتل کا مقدمہ چلا، توصیف کو سزائے موت ہوگئی اور اس صدمے سے ماں کے دماغ پر ایسا اثر ہوا کہ وہ ہوش گنوا بیٹھی۔ اب جو گھر آتا کہتی… مجھے مارو…میں نے ہی اپنے بیٹے کو پکڑوایا ہے۔ اگر میں اسے کمرے میں بند نہ کرتی تو وہ بھاگ جاتا، پولیس نہ پکڑ سکتی، اس کی جان بچ جاتی۔ (س ش…ڈیرہ غازی خان)