Wednesday, October 16, 2024

Chooriyan

آگیا میرا ببر شیر بابا نور محمد کی پر جوش آواز پر ان تینوں نے چونک کر دیکھا۔ ببر شیر کی لات سے گیٹ کھلا تھا۔ روٹی پکاتی فاطمہ سہم کر اندر بھاگی کیونکہ ببر شیر کا رخ اس کی طرف تھا۔ اس نے تھوڑی ہی دیر میں سارے صحن کا ستیاناس کردیا۔ ابھی پرسوں ہی تو ان تینوں نے سارے صحن میں گارے اور مٹی کا لیپ کیا تھا۔ یہ جمالا کدھر ہے؟ آئے سنبھالے اس بلا کو ہائے کم بخت نے گھڑا بھی توڑ دیا آج سیدھا کروں گی جمالے کو فضول شوق سمیرا کی بات پر بابا نور محمد کی پیشانی پر شکنیں نمودار ہو گئیں۔ اس وقت جمالا ہانپتا ہوا آیا پسینے میں تتر بتر کرتا پھٹا ہوا اور ناک سے رستا خون سمیرا کے دل پر ہاتھ پڑا فاطمہ بھی دوڑتی آئی۔ یہ چوٹ کیسے لگی؟ وہ سمیرا کے سوال کو نظر انداز کرتا اپنے بیل کی طرف بڑھا اور اسے نتھ سے پکڑ کر گھر کے اس حصے کی طرف لے گیا۔ جو انہوں نے جانوروں کے لیے مختص کر رکھا تھا۔ ادھر گنتی کے چند جانور بندھے ہوئے تھے۔ اس نے بیل کو کھرلی کے ساتھ متصل لوہے کے کنڈے سے مضبوطی سے باندھا، جھاڑو سے کھرلی صاف کی اور کھاری میں پڑے چارے کو کھرلی میں ڈال دیا۔ دس تاریخ کو بیلوں کا جلسہ ہے ساتھ والے پنڈ ۔ وہ نلکے سے ہاتھ منہ دھو کر آیا تو بابا نے اطلاع دی۔ بابا ! میں سوچ رہا ہوں کہ اس جلسے میں اپنے ببر شیر ( بیل کا نام ) کو بھی دوڑاتا ہوں ۔ اس کی ٹور دیکھ کر شریکوں کے دلوں میں آگ لگ جانی ہے۔ بیل دوڑ ان کا من پسند موضوع گفتگو تھا۔ وہ بابا کے ساتھ خوش گپیوں میں مشغول تھا کہ دفعتنا اس کی نگاہ امامہ پر پڑی۔ وہ ٹوٹے گھڑے کی ٹھکریاں اکٹھی کرتی تاسف سے اسے دیکھ رہی تھی ۔ نگاہیں ملتے ہی سرعت سے پلٹ گئی۔ اس کی شہد رنگ آنکھیں پانیوں سے بھری تھیں۔ اسے کیا ہوا؟ جمالا متحیر تھا۔
☆☆☆

عبیرہ پورے پانچ ماہ بعد میکے آئی تھی۔ خوشی سے امان کے ہاتھ پیر پھول گئے۔ سب ایکدم اس کی خاطر مدارت میں لگ گئے۔ چھوٹا بھاگ کر نکڑ والی دوکان سے بوتل لے آیا۔ اماں نے سب بچوں کو دوڑا کر دیسی مرغا پکڑوایا کہ جا کر جمالے سے ذبح کرواؤں۔ اماں! بھا جمالا کہ رہا ہے کہ لت (لیگ ہیں) شمام کو بھجوا دینا۔ جوابا اماں بڑبڑا کر رہ گئیں۔ عبیرہ ہنس دی۔ آپ سب بس بھی کرو اب میں کوئی مہمان تھوڑی ہوں پورا ہفتہ رکوں گی ادھر کسی تکلف کی ضرورت نہیں۔ عبیرہ! تو خوش تو ہے ناں؟ اماں نے نواسے کو گود میں لیتے ہوئے استفسار کیا۔ ہاں اماں! میں بہت خوش ہوں، ماموں ممانی اور منیب بھی میرا بہت خیال رکھتے ہیں۔ پتا ہے منیب نے علی کی پیدائش پر مجھے یہ سونے کی چوڑیاں دی ہیں۔ اماں کی نگاہیں چوڑیوں پراٹک گئیں۔ عبیرہ اور امامہ کے اکلوتے ماموں چند سال پہلے شہر شفٹ ہو گئے تھے۔ عبیرہ کی شادی تقریبا ڈیڑھ سال قبل اس کے ماموں زاد منیب سے خوب دھوم دھام سے ہوئی تھی۔ واہ اچھا یہ بتا تیری مامی نے سراج کے بارے میں کیا سوچا ؟ اماں نے اس کے دیور کا نام لیا۔ مامی اس کے لیے رشتہ ڈھونڈ رہی ہیں چھوڑو اماں کوئی اور بات کرو، ادھر گاؤں میں سب ٹھیک ہیں؟
☆☆☆

گاؤں میں گندم کی کٹائی شروع ہو گئی تھی۔ جن لوگوں کی فصل اچھی ہوئی تھی انہوں نے ساری فصل مشین کی مدد سے کٹوالی تھی۔ اب جمالے کی قسمت کہ اس کی گندم کا قد ایک ڈیڑھ فٹ سے بڑا ھی نہیں وہ اگر مشین سے کٹواتا تو صرف سٹہ اترتا تھا۔ سارا بھوسہ ضائع چلا جاتا۔ جمالا، فاطمہ اور سمیرا تر کے ہی درانتیاں لے کر کھیتوں کی طرف چلے گئے تھے۔ ماں ! میں بھی چلی جاؤں فاطمہ لوگوں کی مدد کرنے؟ میں کام بھی سیکھ جاؤں گی۔ امامہ نے اجازت مانگی۔ تجھے بہت شوق ہو رہا ہے دھوپ میں جلنے کا اماں نے طنزاً کہا۔ اماں نے اپنے کھیتوں کی ساری گندم بھوسے کے ٹھیکے پر کٹوائی تھی انہوں نے کبھی اپنی بیٹیوں کو کھیتوں پر کام کرنے نہیں بھیجا تھا۔ رنگت پہلے ہی لاجواب ہے اوپر سے دھوپ میں جلو تو مزید کباب بن جاؤ گی۔ اماں کی گل افشانی پر اس کی جوت بجھ گئی۔ عبیرہ کو بھی برا لگا عبیرہ کی کھلتی ہوئی رنگت کے برعکس امامہ کی رنگت سانولی تھی مگر اس کی جھیل جیسی آنکھوں کے سامنے سب کچھ پس پردہ چلا جاتا تھا۔ اماں ! جانے دیں اسے گرمی سے گھبرا کر جلد ہی لوٹ آئے گی۔ عبیرہ نے اس کی طرف داری کی۔ ٹھیک ہے، جاؤ پر جلدی لوٹ آنا اور یہ صورت کیوں اتر گئی ہے۔ پگلی تمہارے ہی بھلے کے لیے کہتی ہوں ۔ اماں کو بھی شاید اپنے الفاظ کی بدصورتی کا احساس ہو گیا تھا۔ امامہ اجازت ملتے ہی مسرور سی باہر نکل گئی اور گاؤں کی ٹیڑھی میڑھی پگڈنڈیوں سے ہوتے ہوئے سمیرا لوگوں کے پاس جا رکی۔ وہ لوگ پہلے تو اسے دیکھ کر حیران ہوئے پھر فاطمہ نے اسے گندم کی گڈیاں باندھنا سکھائیں اور تھوڑی دیر بعد وہ بھی اس منظر کا حصہ بن گئی۔
☆☆☆

عبیرہ چند دنوں بعد واپس اپنے گھر چلی گئی تھی مگر اماں کا ذہن سونے کی چوڑیوں میں ایسا اٹکا کہ اب انہیں امامہ کا جمالے کے گھر بار بار چکر لگانا ناگوار گزرنے لگا۔ اس کا اظہار انہوں نے امامہ کے سامنے کیا تو وہ حق دق رہ گئی۔ فاطمہ اور سمیرا اس کے مرحوم چاچے کی بیٹیاں تھیں اور بہترین سہیلیاں بھی، ان کے بغیر تو اس کی روٹی ہضم نہیں ہوتی تھی۔ امامہ! کیوں نہ ہم شہر جا کر عبیرہ سے مل آئیں علی بہت یاد آ رہا ہے۔ امامہ کو حیرت ہوئی یہ اچانک ان کو شہر جانے کا خیال کیسے آگیا۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی تو عبیرہ لوٹ کر گئی تھی۔ ٹھیک ہے اماں جیسے آپ کہیں۔ اگلی صبح اماں ، امامہ اور چھوٹے کو ساتھ لے کر بس میں سوار ہو گئیں۔ ماموں ان کو دیکھ کر اتنے خوش ہوئے مگر مامی کا رویہ سمجھ سے بالاتر تھا۔ منیب بھائی بازار سے کیک اور چکن رول لے آئے جو عبیرہ نے چائے کے ساتھ سب کو پیش کیے۔ کھاؤ، کھاؤ تم لوگوں نے کہاں دیکھی ہوں گی ایسی چیزیں ۔ امامہ کا بڑھتا ہاتھ ادھر ہی رک گیا۔ گھر آئے مہمانوں سے کوئی ایسے بات کرتا ہے۔ اسے مامی کا انداز برا لگا۔ کافی دیر بعد جب ماموں اور غیب بھائی کسی کام سے باہر نکلے تو عبیرہ نے موقع ملتے ہی انہیں اپنے کمرے میں بلا کر بتایا۔ اماں ! ماموں سراج کے لیے امامہ کا رشتہ مانگنا چاہتے ہیں مگر مامی اس بات کے سخت خلاف ہیں گھر میں عجیب تناؤ پھیلا ہے ہر وقت ، آپ کو اس طرح بنا بتائے نہیں آنا چاہیے تھا۔ کہتے ہی اس نے نظریں چرا لیں۔ اگلی صبح ماموں کے لاکھ روکنے کے باوجود اماں ان کو لے کر واپس لوٹ آئیں۔
☆☆☆

قریبی گاؤں میں بیل دوڑ کی تقریب منعقد ہوئی تھی۔ جمالا پورے زور شور سے اپنے بیل کی سیوا کرنے میں مگن تھا۔ ابھی بھی جمالا اپنے بیل کو نہلانے کے بعد تولیے سے صاف کر رہا تھا کہ اپنے گھر کی چھت سے یہ منظر دیکھتی امامہ چڑ سی گئی۔ وہ اماں کی باتوں کو سوچ سوچ کر کڑھ رہی تھی ان کو لگتا تھا کہ ماموں بہت جلد مامی کو منا کر امامہ کا رشتہ لینے آئے گے اور سراج سے بیاہ کے بعد امامہ کی قسمت کھل جائے گی۔ امامہ چاہتے ہوئے بھی ان کو نہ بتا پائی تھی کہ ہوش سنبھالتے ہی اس کے دل نے صرف جمالے کے نام پر دھڑکنا سیکھا تھا۔ اس کی آنکھوں نے صرف جمالے کے خواب دیکھے تھے۔ وہ ان خوابوں کو کیسے نوچ کر پھینک سکتی تھی۔ اس کی آنکھوں میں نمی پھیلتی چلی گئی۔ جمالے کو اپنے بیل کے سوا کچھ اور نظر ہی نہیں آتا تھا۔ وہ جس شخص کے لیے اپنی ساری زندگی داؤ پر لگا سکتی تھی وہ ہی اس کے جذبات سے بے خبر تھا۔ وہ اپنے ہی خیالوں میں غلطاں بے آواز آنسو بہائے جا رہی تھی۔ جب فاطمہ ، اچانک وہاں آئی اور اس کے آنسوؤں کا سبب دریافت کیا اس نے فاطمہ کو اپنا ہمراز بنا لیا۔ دل کی باتیں دل میں ہی دبائے بیٹھی ہو بھا جمالے کو بھی نہیں بتایا۔ اظہار محبت میں پہل کرنے والی لڑکیاں بےحیا کہلاتی ہیں۔ ادھر ماں مجھے کسی اور سے بیاہ دیں گی ادھر ادھر تمہارا بھا بیلوں کی پشت پر تولیے رگڑتا رہ جائے گا۔ اس نے جل کر کہا تو فاطمہ ہنسی۔ اچھا اب نیچے چلو، میں کچھ کرتی ہوں۔
☆☆☆

بابا نور محمد آج اپنے لاڈلے پوتے کا رشتہ لے کر دیوار کے اس پار اپنی ہی پوتی کے گھر گئے تھے۔ ادھر ساتھ والے پنڈ میں بیل دوڑ شروع ہو رہی تھی۔ جمالا اپنے ببر شیر کو لے کر یاروں کے ساتھ نکلا تو بابا کو جلسہ میں جلدی پہنچنے کی خاص تاکید کر کے نکلا تھا۔ ادھر گھر میں فاطمہ اور سمیرا بڑی سی کڑاہی میں سوجی کا حلوہ پکار ہی تھیں۔ آج ان کے بھرا کا بیل دوڑ جیت کر آنے والا تھا اس کے سب یاروں نے تماشے سے واپسی پر ادھر ہی روٹی کھانی تھی۔ ساتھ والے چولہے پر بکرے کا گوشت بھی پک رہا تھا۔ فاطمہ کو جمالے کے فون کا انتظار تھا تاکہ وہ بندوں کے حساب سے روٹیاں بھی پکا سکے؟ بیل دوڑ اور جمالے کے نظریات سے لاکھ اختلافاتات کے باوجود وہ دونوں جمالے کے لیے دعا گو تھیں۔ ادھر بابا نور محمد نے اپنی نوں کے سامنے رشتہ کی بات شروع کی تو ان کے سستے موبائل پر بار بار جمالے کی کال آرہی تھی۔ وہی جلدی پہنچنے کی تاکید، بابا نے تنگ آکر موبائل آف کر دیا۔ اپنی وڈی دھی کو بھی اگر گاؤں میں بیاہتی تو وہ ادھر مٹی کے ساتھ مٹی ہو رہی ہوتی۔ اس لیے میں نے اسے شھر بیاہا۔ اب ادھر عیش کر رہی ہے۔ کپڑے دھونے والی مشین، کپڑے سکھانے والی مشین، اٹا گوندنے والی مشین… ایسی کون سی مشین ہے جو میری بیٹی کے گھر نہیں ہے۔ بٹن دباتے ہی سارے کام ہو جاتے ہیں۔ امامہ کی اماں پورے کروفر سے بول رہی تھیں۔ آواز بھی قدرے بلند ہوگئی۔ فاطمہ اور سمیرا گھبرا کر دیوار کے پاس کھڑی ہو کر دیکھنے لگیں۔ اس بار بھی گاؤں آئی تو اس کی کلائیاں سونے سے سجی ہوئی تھیں۔ میں تو دوسری بیٹی بھی شہر ہی بیاہوں گی۔ جمالے کے پاس اسے دینے کے لیے کیا ہے؟ امامہ کو اماں کی مادیت پرستی پر افسوس ہوا۔ بابا نورمحمد بھی دنگ رہ گئے ان کی یہ بہو شروع سے ہی مزاج کی تیز تھی۔ اس لیے وہ اس کے معاملات میں دخل دینے سے گریز کرتے تھے۔ مگر اب معاملہ ان کے پوتے ، پوتی کی خوشیوں کا تھا وہ اپنی نوں کو دلائل سے قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ جمالے کی جمع پونجی تو بہنوں کے داج پر خرچ ہو جائے گی۔ میری بیٹی کے ہاتھ کیا آئے گا ؟ ہاں اگر جمالا بھی منیب کی طرح سونے کی چوڑیاں امامہ کو دلائے گا جیسے عبیرہ نے پہنی ہیں تو پھر شاید… بالآخر انہوں نے اندر کی بات اگل دی تھی۔
☆☆☆

جمالے کے نمبر پر بابا نور محمد کی کال آرہی تھی۔ بیل کی پشت پر ہنجالی سیٹ کرتے ہوئے اس نے سیل فون کان سے لگایا۔ اسپیکر پر جمالے کا نام پکارا جا رہا تھا۔ اس کے گاؤں کا نام ، سوار کا نام جو اس کا جگری یار گلاب ہی تھا۔ آوازیں۔ شور شرابا ۔ سیٹیاں باؤ ہو، دور شروع ہو چکی تھی۔ اس کا بیل برق رفتاری سے دوڑتا ساتھی بیل کو بھی اپنے ساتھ تقریباً گھسیٹتے جارہا تھا۔ جمالے کی سماعتوں نے بابا نور محمد کا ایک ایک لفظ سنا تھا۔ وہ جہاں کا تہاں رہ گیا تھا۔ تائی حمیدہ نے جان بوجھ کر چوڑیوں کی شرط رکھی تھی کیونکہ جمالے کی مالی حیثیت کسی سے ڈھکی چھپی نہ تھی۔ گھر میں میری بہنیں میرے لیے دعا گو ہوں گی اور ساتھ والے چھت پر وہ شہد رنگ آنکھیں کچے راستے پر نگاہیں جمائے میری منتظر۔ جمالے کی نظریں بے اختیار چوہدری منصو پہ جا ٹھہری جو منہ مانگی قیمت پر اس کا بیل خریدنے کو تیار بیٹھا تھا۔ جمالے کو اپنے بیل سے بہت محبت تھی۔ اس کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ترین امر بن گیا۔ وہ جھیل جیسی شہد رنگ آنکھیں آج لفظ انتظار کی مکمل تفسیر بنی ہوئی تھیں۔ شام ڈھلی پھر رات آئی۔ جمالے کی کوئی خبر نہ تھی۔ تماشے پر جانے والے مغرب کے وقت لوٹ آتے تھے۔ وہ جلے پیر کی بلی کی طرح ادھر سے ادھر ٹہلتی رہی۔ اس کی بے چینی دیکھ کر اماں سوچ میں پڑگئیں۔ شور سن کر وہ ایک دم اٹھی۔ جمالے کے دوست اس کے بیل کو نتھ سے پکڑے گیٹ سے اندر داخل ہو رہے تھے۔ پھولوں کے ہار مبارک باد چٹائی بچھا کر کھانا لگائی فاطمہ اور سمیرا۔ امامہ بھی اس منظر کا حصہ بننا چاہتی تھی مگر اماں کے ڈر سے چپکی بیٹھی رہی ۔ ادھر خوب رونق لگی ہوئی تھی۔ تھوڑی دیر بعد امامہ بھی چھت پر چلی گئی۔ خدا جانے آج میری زندگی کا کیا فیصلہ ہو گا۔ وہ عالم استغراق میں ہے وجہ ٹہلتی رہی دفعتاً کسی کے کھنکھارنے پر ہڑ بڑا کر پلٹی۔ تم مجھے مبارک باد دینے نہیں آئیں۔ جمالے نے شکوہ کیا۔ تو تم مبارک باد وصول کرنے خود ہی پہنچ گئے ۔ اس نے دل میں سوچا۔ مبارک ہو۔ جمالے نے جیب سے مخملیں ڈبیا نکالی اور امامہ کو سوچنے کی مہلت دیے بنا سونے کی چوڑیاں نکال کر اس کی کلائی میں پہنادیں ، امامہ کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ یہ تم نے کیسے لیں؟ میرا مطلب ہے اتنے پیسے کہاں سے آئے؟ بیل جیتنے پر انعام میں ٹریکٹر ملا تھا تو اسی انعام والے ٹریکٹر کو بیچ کر سنار سے چوڑیاں خرید لایا ہوں۔ وہ اس کے تاثرات سے محظوظ ہونے لگا۔ اب تو تائی حمیدہ تمہارے مامے کے پتر کو ہاں نہیں کرے گی۔ مامے کا پتر رشتہ لا پاہی کب تھا؟ وہ مسکرادی۔ کیا یعنی میں فضول میں سارا دن پریشان رہا۔ اس کے سر سے کوئی بوجھ سرک گیا تھا۔ وہ ایکدم ہلکا پھلکا ہو گیا۔ ان دونوں کے درمیان بہت کم بات ہوتی تھی۔ آج پہلی بار دوستانہ ماحول میں باتیں کرنا امامہ کو اچھا لگ رہا تھا۔ ہوں تو کیا کہا تھا کہ تم کسی اور کے سنگ بیاہ کر چلی جاؤ گی اور میں بیل کی پشت پر تولیے رگڑتا رہ جاؤں گا۔ وہ خفت سے لال پڑگئی ۔ فاطمہ سے اس غداری کی توقع نہ تھی۔ جب کوئی جواب نہ سوجھا تو سرپٹ دوڑتی سیڑھیاں اتر گئی۔ اس کے سانولے چہرے کی جگمگاہٹ آج چاند کو مات دے رہی تھی۔
☆☆

Latest Posts

Related POSTS