میری اور شہر یار کی اچھی دوستی تھی۔ ہم ساتھ ساتھ ملے ہوئے مکانوں میں رہتے تھے۔ وہ مجھ سے کوئی بات نہ چھپاتا، میں بھی اسے ہر بات بتا دیا کرتی تھی۔ بے شک ہم بہن بھائی نہ تھے لیکن چچا زاد تھے مگر رشتہ بہن بھائی جیسا ہی تھا۔ اریبہ میری کلاس فیلو تھی۔ ہماری دوستی چھٹی کلاس سے تھی، اس کا گھر ایک گلی آگے تھا لہٰذا ہم اسکول اکھٹی جاتی تھیں۔ میڑک کے امتحان نزدیک آگئے تو وہ اکثر میرے گھر آنے لگی تاکہ ساتھ بیٹھ کر امتحان کی تیاری کرسکیں۔ جب کبھی شہریار ہمارے گھر آتا اور اریبہ موجود ہوتی تو وہ اسے ضرور سلام کرتی۔ میڑک کے امتحان ختم ہوگئے تو اس نے ہمارے گھر آنا بند کردیا۔
ان دنوں میں نے محسوس کیا کہ شہریار پریشان رہنے لگا ہے۔ یہ نہ سمجھ سکی کہ اریبہ کے لئے پریشان ہے۔ ایک دن اس سے برداشت نہ ہوسکا تو پوچھ بیٹھا کہ تمہاری سہیلی بہت دنوں سے نہیں آئی؟ میں نے بتایا کہ وہ بیمار ہے اسی وجہ سے نہیں آئی۔ یہ بات سن کر شہر یار مزید پریشان ہوگیا۔ بولا۔ کیسی دوست ہو اسے پوچھنے بھی نہیں گئیں۔ پوچھ آئی ہوں، کل ہی تو گئی تھی۔ اچھا۔ مجھے تو نہیں بتایا۔ یہ بات تمہیں بتانے کی تو نہیں تھی۔ اسے خفت ہوئی، وہ خاموش ہوگیا۔ دوتین دن گزرے التجا کرنے لگا کہ میں دوبارہ اس کی خیریت دریافت کرنے جاؤں… اس دن مجھے محسوس ہوا کہ اریبہ نے شہریار کے دل میں جگہ بنالی ہے۔ میں روزروز تو اریبہ کے گھر نہیں جاسکتی تھی۔ شہریار کو سمجھایا کہ دوچار دن بعد جاؤں گی۔ خیریت معلوم کرلوں گی۔ وہ میری بات سن کر چپ رہنے پر مجبور تھا لیکن اس کا چہرہ دل کی کیفیت کا عکاس تھا۔ ان دنوں بے چین سا رہنے لگا تھا۔ جلد سونے کا عادی تھا لیکن اب آنکھیں بتاتی تھیں کہ نیند ان آنکھوں سے دور چلی گئی ہے۔
ایک روز اریبہ ہمارے گھر آئی تو شہریار بھی آگیا۔ وہ اسے دیکھ کر حیران رہ گئی کہنے لگی۔ یہ تمہارے کزن کو کیا ہوا ہے، کیا بیمار ہے؟ میں نے کہا ہاں بیمار ہے۔ کھانا پینا چھوڑ رکھا ہے، بے خوابی کا بھی شکار ہے۔ اسے مرض عشق لاحق ہوگیا ہے اور اس کی وجہ تم ہو۔ میں نے اسے شہریار کی دلی کیفیت سے آگاہ کردیا۔ وہ مضطرب سی نظر آنے لگی۔ اسے بتایا کہ پرسوں شہریار کی سالگرہ ہے۔ تم بھی آجانا۔ وہ وعدہ کرگئی کہ ضرور آئے گی۔
شہریار کے والدین اس کی سالگرہ کا اہتمام ہمارے گھر کیا کرتے تھے، کیونکہ سارا انتظام میرے والد کا ہوتا۔ مقررہ دن اریبہ آگئی اور سالگرہ میں شریک رہی۔ جاتے وقت مجھے ایک پیکٹ دیا کہ یہ تمہارے کزن کی سالگرہ کا تحفہ ہے۔ میں نے وہ پیکٹ شہریار کے حوالے کیا، چاہتی تھی کہ وہ یہ تحفہ پاکر خوش ہوجائے… اور وہ واقعی خوش ہوگیا لیکن پیکٹ کو میرے سامنے نہیں کھولا، نہ بعد میں بتایا کہ اس میں کیا تھا۔
دوماہ بعد اریبہ کا جنم دن آگیا۔ میں اس کی سالگرہ پر جانے کی تیاری کرنے لگی، شہریار نے پوچھا کہاں جارہی ہو؟بتایا کہ اریبہ کی سالگرہ پر جارہی ہوں۔ کہنے لگا۔ ابھی ٹھہرو، میں جب تک نہ آجاؤں، جانا نہیں۔ وہ فوراً بازار گیا اور اس کے لئے تحفہ خرید لایا۔ یہ اسے دے دینا۔ تحفہ کیا لائے ہو۔ مجھے تو دکھاؤ۔ اس نے پیکٹ کھول کردکھایا۔ موتیوں کا خوبصورت ہار تھا۔ ہار دیکھتے ہی نجانے کیا چیز میرے دل کے اندر ٹوٹ گئی ۔ کاش یہ میرے گلے کی زینت بن سکتا۔ پھر فوراً میں نے اس خیال کو جھٹک دیا۔ وہ دن بھی آگیا جب کالج میں داخلہ لینا تھا۔ اریبہ اور میں نے ایک ہی کالج میں داخلہ لیا۔ اب شہریار مجھے کالج سے لینے کے بہانے آجاتا تو اریبہ سے بھی بات کرلیتا۔ اس کے بعد دونوں کی ایسی دوستی ہوگئی کہ یہ مجھے بتائے بغیر باہر ملنے لگے۔ اریبہ میرے یہاں جانے کا بہانہ کرکے گھر سے نکلتی تھی۔
شہریار کی توجہ پڑھائی سے ہٹ گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ ایف ایس سی میں اچھے نمبر نہ لے سکاجس پر اس کے والدین بہت دل شکستہ اور خفا تھے لیکن اسے کوئی غم نہ تھا، کیونکہ وہ اریبہ کی محبت میں اے گریڈ لے چکا تھا۔ چچا چاہتے تھے وہ دوبارہ امتحان دے اور اچھے نمبر لے۔ لیکن وہ میرٹ نہ بناسکا، بالآخر معاملہ گھر والوں پر کھل گیا، تب والد اور چچا دونوں متفکر ہوگئے۔ وہ یہ طے کرچکے تھے کہ میری اور شہریار کی شادی کریں گے۔ ہمیں بالکل بھی علم نہ تھا کہ وہ ہماری آپس میں شادی کا ارادہ کرچکے ہیں، جب یہ بات پتا چلی تو مجھے بہت زیادہ دکھ نہ ہوا کیونکہ ہم اس رشتے سے بھی زیادہ پیارے رشتے میں بندھے ہوئے تھے، دوستی اور اعتبار کے رشتے میں، جو اَب بھی قائم تھا۔
شہریار نے مجھ سے مشورہ کیا کہ اب کیا کریں، میں اریبہ سے شادی کرناچاہتا ہوں۔ میں نے تسلی دی گھبراؤ مت، میں تمہاری پوری مدد کروں گی۔ جب والدین نے ہماری آپس میں شادی کے لئے دباؤ ڈالا توہم دونوں نے شادی سے انکارکردیا بلکہ شور مچا دیا کہ ہمیں شادی نہیں کرنی۔ یہاں تک کہ والدین یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ جب دونوں شادی کے حوالے سے ایک دوسرے کو ناپسند کرتے ہیں تو پھر اس شادی کا نہ ہونا ہی بہتر ہے۔ کچھ دنوں بعد شہریار نے رٹ لگا دی کہ اس نے اریبہ سے شادی کرنی ہے۔ چچا نے مجھ سے پوچھا ۔ اریبہ کیسی لڑکی ہے، میں نے اس کی تعریفوں کے پل باندھ دیئے کہ اس سے اچھی اور کوئی لڑکی نہ ملے گی۔ چچی ان کے گھر، اریبہ کا رشتہ مانگنے گئیں لیکن ان لوگوں نے گول مول جواب دیا۔ کہا کہ یہ ایم اے کرلے پھر شادی کا سوچیں گے، ابھی چار پانچ سال دیر ہے۔
شہریار نے اریبہ سے بات کی کہ تمہارے گھر والے واضح جواب نہیں دے رہے۔ کیا چاہتے ہیں۔ وہ بولی۔ اصل بات یہ ہے کہ میرے لئے امیر گھرانوں سے رشتے آرہے ہیں اور تم ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتے ہو۔ پھر زیادہ تعلیم یافتہ بھی نہیں ہو، جب تک ڈھیر ساری دولت نہ کمالو گے، میرے والدین تمہیں رشتہ نہیں دیں گے۔ اور میں ایم اے ضرور کروں گی۔ تم بھی مزید تعلیم حاصل کرلو، میں آگے پڑھوں یا دولت کمانے بیرون ملک چلا جاؤں۔ وہ بولی۔ مزید پڑھائی میں تو وقت نکل جائے گا اگر دولت کمانے بیرون ملک جاسکتے ہوتو بہتر ہوگا۔ تو کیا اس وقت تک تم میرا انتظار کرلو گی؟ ہاں میں عمر بھر تمہارا انتظار کر لوں گی، بشرطیکہ تم دولت کما سکو۔ اس نے وعدہ کرلیا۔
اب شہریار نے رٹ لگادی کہ میں بیرون ملک جاکر دولت کمانا چاہتا ہوں۔ چچا پریشان ہوگئے۔ انہوں نے ایک دوست سے رابطہ کیا۔ اور بڑی دقتوں سے ویزے کا انتظام کروا کر اسے کویت بھجوا دیا۔ کویت میں چچا کے دوست نے شہریار کوایک کمپنی میں ملازم رکھوا دیا۔ جہاں اس نے بہت محنت مشقت سے کام کیا۔ وہ دن بھی آگیا جب اسے وطن لوٹ کر آنا تھا۔ وہ چار سال بعد لوٹ رہا تھا۔ ہم سب اسے لینے ایئر پورٹ گئے۔ چچا جان اور میرے والد اسے گلے لگا رہے تھے لیکن اس کی نگاہیں ادھر ادھر بھٹک رہی تھیں، جیسے کسی خاص صورت کے دیدار کو تڑپ ہورہی ہوں۔
جب گھر پہنچے تو موقع ملتے ہی سوال کیا۔ شبو… اریبہ کیسی ہے، میں جلد ازجلد اس سے ملنا چاہتا ہوں۔میں نے کہا صبر کرو، ابھی آئے ہو…ایک دوروز میں ہی اس سے مل پاؤ گے ۔شہریار نے بتایا کہ کمپنی کے ایک آفیسر کی بیٹی مجھے پسند کرنے لگی تھی اس نے مجھ سے شادی کی درخواست کی لیکن میں نے اسے ٹھکرا دیا کیونکہ میرا دل ایک پل کے لئے بھی اریبہ کی یاد سے غافل نہ رہا تھا، حالانکہ وہ لڑکی بہت خوبصورت اور ارب پتی باپ کی بیٹی تھی۔ سچ ہے کہ دل کسی کا غلام نہیں ہوتا سوائے محبوب کے۔
شہریار سخت بے چین تھا لیکن اس کی اریبہ تک رسائی نہ ہو پارہی تھی، وہ مجھ سے کہتا کہ اسے اطلاع تو کرو اس سے رابطہ کرکے بتاؤ کہ میں آگیا ہوں اور میں یہی جواب دیتی کہ صبر کرو، بہت جلد اس کے پاس جاؤں گی۔ دراصل میں اسے بتانے کی ہمت نہیں کرپارہی تھی کہ وہ بے وفا تواپنی خوشیوں کے نگر سدھار بھی گئی، بالآخر اس نے خود ہمت کی اور ہماری ایک کلاس فیلو فریحہ جو جانتی تھی شہریارمیرا چچا زاد ہے، سے کسی طور رابطہ کیا، اس نے فریحہ کے بھائی سے کہا کہ شبانہ نے اس کے لئے گفٹ بھیجا ہے۔ جس پر وہ خود دروازے پر آگئی اور شہریار کو پہچان کر اسے اپنے ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔ میری خیرخیریت دریافت کی۔
فریحہ سے شہریار نے کہا کہ وہ دوسرا گفٹ جوشبانہ نے بھجوایا ہے اریبہ کو پہنچانا ہے۔ وہ بولی اب تمہیں اس کے گھر کا پتا نہیں ملے گا۔ کیونکہ اریبہ کی شادی ہوگئی ہے اور وہ لوگ اسلام آباد شفٹ ہوگئے ہیں۔ یہ سن کر میرے کزن کو یقین نہ آیا…وہ اریبہ کے والدین کے گھر گیا تو پڑوسیوں نے بتایا کہ یہ لوگ یہاں سے جاچکے ہیں۔
وہ کن قدموں گھر لوٹا ہوگا یہ میں سمجھ سکتی ہوں، اسے کسی طور یقین نہ تھا کہ اریبہ اس سے بے وفائی کرسکتی ہے۔ وہ ہرحال اس کی شادی کی خبر کی تصدیق چاہتا تھا۔رات دس بجے تک وہ اس کے گھر کے اردگرد مایوس سا پھرتا رہا۔
اگلے دن اس پارک میں جاکر بیٹھ گیاجہاں یہ دونوں کبھی ملتے تھے لیکن وہ ہوتی تو ملتی۔ انسان ایسے ٹوٹے ہوئے لمحات میں خود فریبی کے سہارے ہی زندہ رہ سکتا ہے۔ بالآخر شہریار نے میرے آگے گھٹنے ٹیک دیئے، التجا کی کہ میں اسے سچ بتادوں۔ میں نے کہا ۔ میرے عزیز کزن کیا بتاؤں تمہارے جانے کے ایک سال بعد تک اس نے مجھ سے رابطہ رکھا تھا اور جو خط تم اسے لکھتے رہے، میں بغیر کھولے اسے پہنچا دیا کرتی تھی۔ ایک روز تمہارا نامہ پہنچانے اس کے گھر گئی تو ڈھولکی بج رہی تھی۔ اریبہ سے پوچھا یہ کیا ہے؟ بولی میری ڈھولکی ہے تمہیں نظر نہیں آرہا کیا… دیکھو میرے گھر میں کسی سے ایسی ویسی بات نہ کہہ دینا اور نہ میری والدہ سے اس بارے میں کچھ پوچھنا، ورنہ یہاں رنگ میں بھنگ پڑ جائے گا۔ میرے ایک کلاس فیلو نے مجھے پسند کیا اور اس کے والدین میرا رشتہ مانگنے آگئے۔ والدین کو رشتہ پسند آیا، میں کیا کرتی سر جھکا لیا اوراب ہورہی ہے شادی۔
فریحہ کے بھائی کا گھر اسلام آباد میں اریبہ کے گھر کے قریب تھا وہ ایک بار اریبہ سے مل آئی تھی اور اس کے بارے میں جانتی تھی کہ وہ اپنے شوہر کے ہمراہ خوش وخرم زندگی گزار رہی تھی۔ ایم اے میں دونوں ساتھ پڑھ رہے تھے اور یہ ان کی پسند کی شادی تھی۔ میں یہ سب بتاکر شہریار کو ہرگز صدمہ نہ پہنچانا چاہتی تھی لیکن اسے بھٹکنے سے بچانے کے لئے بالآخر بتانا ہی پڑا، کیونکہ مرنے والے پر تو سب کو صبر آجاتا ہے لیکن جو کھو جاتے ہیں ان پر صبر نہیں آتا… انسان اس کی کھوج میں بھٹکتا رہتا ہے۔
شہریار نے یہ سب سن تو لیا مگر اس کی حالت ایسی تھی جیسے جسم تو سانس لےرہا ہومگر روح اس میںموجود نہ رہی ہو۔ چند روز بعد ہی وہ بیمار پڑ گیا اور اسپتال میں داخل کرادیا گیا۔ دوماہ کے علاج کے بعد ٹھیک ہوا تو اپنے ایک دوست کے پاس اسلام آباد چلاگیا، اللہ جانے کس کام سے۔
ایک دن وہ ایک شاپنگ سینٹر میں گیا، اسے اچانک اریبہ دکھائی دے گئی۔ شاید اس کی دعا قبول ہوگئی تھی، کیونکہ شہریار کی ایک ہی آرزو رہ گئی تھی کہ ایک بار اریبہ مل جائے تو وہ اس سے پوچھے کہ تم نے مجھ سے کیوں بے وفائی کی، میرا انتظار کیوں نہ کیا… یا انتظار نہ کرسکتی تھیں تو وعدہ کیوں کیا۔
اریبہ کو دیکھتے ہی آگے بڑھ کر شہریار نے اس کا راستہ روک لیا۔ وہ اسے دیکھ کر پریشان ہوگئی۔ مگر شہریار نے اسے آگے جانے نہ دیا۔ بے بس ہوکر بولی ۔تم کب آئے؟ میں تھوڑے دنوں پہلے آیا ہوں اور اب اس قابل ہوگیا ہوں کہ تمہارے لئے ایک بڑا سا گھر بنوا سکوں اور تمہیں قیمتی زیورات پہنا سکوں… آؤ اب شادی کرلیں اور اپنے گھر چلیں۔ پیچھے ہٹو… میں شادی شدہ ہوں، اور آئندہ کبھی میرے سامنے مت آنا، ورنہ تمہارے ساتھ بہت برا ہوگا۔ اس نے یہ کہہ کر شہریار کا ہاتھ جھٹک دیا اور آگے بڑھ گئی … جیسے کہتی ہو… تم جیسے بے وقوف بہت دیکھے ہیں۔ میں نے دولت کمانے کا کہا تو تم سچ مچ پردیس چل دیئے… بھلا اتنا انتظار بھی کوئی کرتا ہے کسی کا۔
شہریار گھر آیا توایک لٹا ہوا جواری تھا۔ اگر میں اسے نہ سنبھالتی تو وہ مرجاتا … لیکن میں اس کے دکھ کوجانتی تھی۔ رازدار تھی اس کی، میں نے اپنے دل شکستہ کزن کو سنبھال لیا، اس سے اعتبار اور بھروسے کا رشتہ برقرار رکھا۔ اس کا دکھ سنتی اور آنسو پونچھتی تھی۔
گھر والوں نے ہمیں ہردم ساتھ دیکھا تو پھر سے ہماری شادی کے منصوبے بنانے لگے۔ چچا بولے کہ اب شہریار بہت پیسے کما لایا ہے اور شبانہ بھی اس پر مہربان ہے، کیوں نہ ایک بار پھر ان دونوں کوشادی کے بندھن باندھنے کی کوشش کریں، شاید اب مان جائیں، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بچوں کوسمجھ آجاتی ہے۔
اس بار والدہ نے مجھ سے بات کی تو میں نے انکار نہیں کیا کیونکہ صبح کا بھولا شام کو گھر آچکا تھا۔ صدشکر کہ شہریار کوبھی یہی لگا کہ اس کے دکھی دل کو صرف میرے ہی آنچل میں آرام مل سکتا ہے۔ اس نے شادی سے انکار نہیں کیا۔ البتہ نکاح سے پہلے معافی مانگی کہ جو ہوا اسے بھول جاؤ، میں اسے مزید دکھ نہیں دینا چاہتی تھی کیونکہ وہ پہلے ہی بہت دکھی تھا۔ ہماری شادی ہوگئی تو مجھے لگا کہ دراصل ہم دونوں ایک دوسرے کے لئے ہی بنے تھے۔ اریبہ تو ہوا کا ایک جھونکا تھی، جو میرے نصیب سے چند پھول چرا کر گزر گئی، جبکہ ہمارا سنجوگ عرش پر لکھا گیا تھا۔
دعا کرتی کہ یہ کبھی اداس نہ ہوں، ماضی کی ہر تلخ یاد بھلا دیں اور کوئی بیتی گھڑی… کانٹا بن کر ان کے دل کو زخمی نہ کرسکے۔ اللہ کا شکر کہ آج وہ اپنے بچوں میں بیٹھ کر اس قدر مسرور ہوجاتے ہیں کہ ماضی کی تلخ یادیں بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ ( ش… لاہور)
اختر انکل ہمارے پڑوس میں رہا کرتے تھے۔ وہ ایک سرکاری اسکول میں ٹیچر تھے۔ شفیق اور شریف النفس شخص تھے۔ تمام محلے دار ان کی عزت کرتے تھے۔ مہ وش ان کی اکلوتی بیٹی بچپن سے میری دوست تھی۔ سب دکھ سکھ مجھ سے کرتی تھی۔
انکل کی وفات کے بعد ان کی بیوہ کو پنشن ملنے لگی۔ کچھ محنت، مشقت بھی کی۔ یوں بیٹی کو پروان چڑھایا۔ بالآخر مہ وش نے ایف اے کرلیا، لیکن خرابیٔ صحت کے باعث آگے تعلیم جاری نہ رکھ سکی۔ اس کی صحت کو گھن لگا ہوا تھا۔ خوبصورت ہونے کے باوجود چہرے پر رونق نام کو نہ تھی۔ آئے روز ماں چیک اَپ کے لیے اسپتال لے جاتی۔
ایک دن وہ آئی، کہنے لگی۔ شگفتہ، مجھے اپنے بیوٹی پارلر میں رکھ لو، گھر میں دل نہیں لگتا، مصروف رہنا چاہتی ہوں۔ امی کمزور ہوگئی ہیں۔ سوچتی ہوں کوئی کام سیکھ جائوں تاکہ گھر کے اخراجات میں ان کا ہاتھ بٹا سکوں۔
مہ وش! بیوٹی پارلر کی ڈیوٹی بہت تھکا دینے والی ہوتی ہے۔ تم صبح سے شام تک کھڑی رہ کر یہ کام نہیں کرسکو گی۔ بہتر ہوگا کسی اسکول میں ٹرائی کرو۔ میں نے اسے مشورہ دیا۔ اس نے میرا مشورہ مان لیا۔
ہمارے ایک محلے دار کا گھر کے قریب اسکول تھا۔ وہ مہ وش کے والد کا دوست رہ چکا تھا۔ لہٰذا میری یہ دوست وہاں ٹیچر لگ گئی۔ ملازمت کے بعد کچھ دن ہشاش بشاش رہی۔ پھر تھکی تھکی رہنے لگی۔ ماں دل کے ماہر ڈاکٹر کے پاس لے گئی۔ اس نے کچھ دوائیں باقاعدگی سے کھانے کی ہدایت کردی اور ساتھ بتایا کہ آپریشن ناگزیر ہے کیونکہ دل میں سوراخ ہے۔ آپریشن کے لیے خاصے پیسوں کی ضرورت تھی۔ مہ وش کی ماں پریشان ہوگئی، کیونکہ دو وقت کی دال روٹی کے لیے بھی ماں، بیٹی کو محنت کرنا پڑتی تھی تو آپریشن کے لیے رقم کہاں سے آتی۔
مہ وش دوائیں لینے نزدیکی میڈیکل اسٹور پر جاتی تھی۔ چونکہ خوش شکل اور سنجیدہ لڑکی تھی۔ اسٹور کے مالک کو پسند آگئی۔ وہ مہ وش پر فریفتہ ہوگیا جبکہ جانتا تھا کہ یہ دل کی مریضہ ہے، اس کے باوجود اس نے اس لڑکی کو اپنے دل میں بسا لیا۔ جب یہ دوائیں لینے جاتی تو بہت توجہ دیتا۔ ملازم کے ہاتھ سے نسخہ لے کر خود اٹھ کر دوائیں دیتا۔ رعایتی قیمت لگاتا۔ شروع میں تو مہ وش کو خیال بھی نہ گزرا کہ احسان کیوں اس پر یہ عنایت کرتا ہے لیکن ایک روز جب اس نے دوائوں کے پیسے لینے سے انکار کیا تو وہ حیرت سے اس کا منہ دیکھنے لگی۔
ایسا کیوں، جبکہ میں نے دوائیں خریدی ہیں۔ آپ ہماری مستقل گاہک ہیں۔ وہ بولا۔ تو کیا ہوا… اور بھی کئی آپ کے مستقل گاہک ہوں گے۔ کیا آپ سب کو یونہی مفت دوائیں دیتے ہیں۔ آپ جب یہاں سے گزرتی ہیں تو بہت سی آنکھیں آپ کو دیکھ رہی ہوتی ہیں، ان میں دو آنکھیں میری بھی ہوتی ہیں۔ آپ اتنے اچھے طریقے سے بات کرتی ہیں کہ عزت کرنے کو جی چاہتا ہے۔ آج ہمیں خدمت کا موقع دیجیے۔ احسان کو اپنے جذبات کے اظہار کا سلیقہ نہ تھا۔ مہ وش نے بُرا منایا۔ اس نے پیسے کائونٹر پر پٹخ دیے اور غصے میں دوائیں اٹھانا بھی بھول گئی اور تیزی سے دکان سے نکل گئی۔
جب وہ میرے پاس آئی تو ہانپ رہی تھی۔ میں نے پانی پلایا اور پیٹھ سہلائی۔ میں سمجھی شاید دل کی تکلیف سے سانس اُکھڑ گیا ہے۔ تھوڑی دیر بعد ذرا سنبھلی تو بولی۔ جانتی ہو میڈیکل اسٹور والے نے کیا حرکت کی ہے آج؟ کیا کیا ہے اس نے؟ میں نے حیرت سے پوچھا۔ وہ تو نہایت شریف آدمی ہے۔ اتنا بھی شریف نہیں ہے۔ اس کا غصہ ابھی تک سرد نہ ہوا تھا۔ جب اس نے ساری بات مجھے بتائی تو میں ہنس دی۔ بے وقوف…! کیا ہوا اگر وہ پیسے نہیں لے رہا تھا۔ وہ جانتا ہے کہ تم دل کی مریضہ ہو اور تمہارے مالی حالات بھی جانتا ہے تبھی نیکی کرنے میں پہل کردی۔ بعض لوگ نرم دل ہوتے ہیں۔ اس نے کوئی نازیبا بات تو نہیں کہی نا…؟
میرے سمجھانے پر وہ کچھ ٹھنڈی پڑ گئی۔ بولی۔ مجھے کسی کی ہمدردی نہیں چاہیے۔ ایسی باتیں دل کو گھائل کرتی ہیں۔ ہاں! تم ٹھیک کہتی ہو۔ تم بہت خوددار ہو، جانتی ہوں لیکن دنیا میں سبھی طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ معاف کردو اس بیچارے کو، موٹی عقل کا ہے۔ مجھے یقین ہے آج کے بعد وہ ایسی غلطی کرنے کی جرأت نہیں کرے گا۔
جب بہت دن گزر گئے اور وہ احسان کے اسٹور نہیں گئی، وہ سخت پریشان ہوا۔ پچھتانے لگا کہ خواہ مخواہ اس روز ایسی بات کہہ دی۔ اسی پشیمانی میں احسان دکان پر افسردہ بیٹھا تھا کہ میں ادھر سے گزری۔ وہ جانتا تھا کہ مہ وش میری دوست ہے تبھی بلاجھجھک باہر آگیا۔ شگفتہ باجی! میری بات سنئے۔ میں ٹھہر گئی چونکہ اس کے گھر کی تمام خواتین تقریبات کے موقعوں پر میرے بیوٹی پارلر آیا کرتی تھیں۔ لہٰذا اس سے بات کرنے میں کوئی عار نہ ہوا۔
اپنی دوست مہ وش سے معافی دلوا دیجیے۔ دراصل جو ڈاکٹر ان کا معالج ہے، وہ میرا کزن ہے۔ اس کی زبانی معلوم ہوا ہے کہ مہ وش کا آپریشن لازمی ہے۔ بروقت نہ کرایا تو اس کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ ان کے والد میرے والد کے دوست اور بڑے بھائی کے استاد تھے۔ اس گھرانے کے لیے میرے دل میں بہت عزت ہے۔ آپ مہ وش کو سمجھائیے کہ وہ آپریشن کروانے پر راضی ہوجائے۔ آپریشن کروانے پر تو راضی ہے لیکن لاکھوں کا خرچہ ہے۔ اور یہ آپ جانتے ہیں کہ ان کے مالی حالات…! جانتا ہوں، آپ ان کو مت بتائیے گا آپریشن کا خرچہ میں ادا کروں گا۔ لیکن اس کی زندگی بچانے کی کوشش تو ہمیں کرنی چاہیے۔ وہ خوددار ہے۔ مجھ سے تو آپریشن کے پیسے نہیں لے گی۔ وہ تو مجھ سے نہیں لیتی، کجا آپ سے لے گی۔ کوئی طریقہ سوچیے۔ میں اسے صحت یاب دیکھنا چاہتا ہوں۔ ٹھیک ہے، میں سوچتی ہوں۔ چند دن بعد جواب دوں گی۔ یہ کہہ کر آگے چلی تو اس نے کہا۔ معافی تو دلوائیے۔ جب سے ناراض ہوکر گئی ہے، کچھ کھانے پینے کو جی نہیں چاہتا۔
اگلے روز شام کو مہ وش کے گھر گئی تو وہ افسردہ بیٹھی تھی۔ بھانپ لیا کہ ماں سے جھگڑا ہوا ہے کیونکہ آنٹی بھی چپ چپ تھیں۔ میں نے مہ وش سے پوچھا۔ کیا بات ہے، کیا امی سے لڑکے بیٹھی ہو؟ کیوں منہ پھلا رکھا ہے؟ ہاں! آج ہماری لڑائی ہوئی ہے۔ ارے کیوں، کس بات پر؟ بولی۔ یہ کہتی ہیں ایک اچھا رشتہ ان کی نظر میں ہے، شادی کرلوں۔ میں کیسے کرلوں شادی! دل میں سوراخ ہو جس کے، کیا وہ شادی کرسکتا ہے؟ بات تو تمہاری ٹھیک ہے۔ کس کا رشتہ ہے بتائو تو…
امی کا ایک رشتے دار ہے۔ پینتالیس برس کا ہے۔ بیوی مر چکی ہے، ایک بیٹا ہے اس کا۔ وہ آدمی مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتا اور امی کہتی ہیں کہ تجھے ایک بار دلہن بنی دیکھ لوں تو سکون سے مر سکوں گی۔ ذرا دیکھو تو میری ماں کے خواب…! مجھے کیسے شخص کے سر منڈھ رہی ہیں، یہ بھی تو دیکھو۔ جسے یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ میرے دل میں سوراخ ہے۔ ایک بیوی پہلے مر چکی ہے اور دوسری بھی ایسی اسے مل جائے جو عنقریب مرنے والی ہو تو ظلم ہے اس کے ساتھ…!
اس پر آنٹی سے چپ نہ رہا گیا، بے اختیار بول پڑیں۔ اللہ نہ کرے، کیا اُول فول بک رہی ہو۔ اچھا مٹی ڈالو اس رشتے پر آیندہ اس کا ذکر نہ کروں گی۔ ایک رشتہ اور بھی ہے مہ وش! اگر تم راضی ہوجائو۔ لڑکا پڑھا لکھا، خوبصورت اور خوشحال ہے۔ میں نے موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دل کی بات کہہ دی۔ وہ کیوں کرنے لگا مجھ سے شادی! آج کل میں مرنے والی، کیوں لگائے گا کوئی اپنی خوشیاں دائو پر…
جسے تم سے محبت ہوگی وہ ہر حال میں تم سے شادی کرے گا۔ آزمائش شرط ہے۔ میرے ان الفاظ کو سن کر اس کے چہرے پر ایسی سنجیدگی چھائی کہ میں چپ ہوگئی۔ سوچا کسی اور وقت احسان کا نام لوں گی۔ ایسا نہ ہو یہ اس وقت بگڑ جائے۔
ادھر احسان کو ایک پل چین نہ تھا۔ دل سے مجبور ہوکر ایک روز وہ خود اسکول چلا گیا، جہاں مہ وش پڑھاتی تھی۔ ہیڈ مسٹریس نے اسے بلا کر کہا۔ کوئی صاحب تم سے ملنے آئے ہیں۔ جب ملاقات والے کمرے میں آئی تو سامنے احسان کو دیکھ کر پریشان ہوگئی۔ ہیڈ مسٹریس کے روبرو غصہ بھی نہ دکھا سکتی تھی۔ تحمل سے کام لینے پر مجبور تھی۔ جی کہئے! اتنا کہا کہ احسان کو بات کرنے کا حوصلہ مل گیا۔
معاف کردو مہ وش! اس روز مجھ سے غلطی ہوگئی۔ جس دن سے تم خفا ہوکر گئی ہو، میرا سکون جاتا رہا ہے۔ قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اب کبھی ایسی غلطی نہیں کروں گا اور یہ اپنی دوائیں رکھ لو، کائونٹر پر چھوڑ کر آگئی تھیں۔ اس سے پہلے وہ کچھ کہتی، احسان چلا گیا اور وہ کھڑی سوچتی رہ گئی۔
اس کے بعد کئی بار وہ اس کے اسٹور کے سامنے سے گزری مگر اس شخص نے نظر اٹھا کر نہ دیکھا۔ تبھی سنجیدگی سے اس کے بارے میں سوچنے لگی۔ جانتی تھی کہ دل میں سوراخ ہے، جانے کب زندگی کا چراغ گل ہوجائے، پھر کسی انسان کے لیے کدورت پالے رکھنا اچھی بات تو نہیں۔
اس دن طبیعت ٹھیک نہ تھی، سانس لینے میں دشواری ہورہی تھی، اس کے ہونٹ نیلے ہوگئے تھے۔ جب میں اس کے گھر یہ بتانے کے ارادے سے گئی کہ احسان تم سے شادی کرنا چاہتا ہے، تمہاری بیماری کی سنگینی سے آگاہ ہونے کے باوجود…! لیکن مہ وش کی بگڑی حالت دیکھ کر میری سٹی گم ہوگئی۔ کچھ دیر تک میں اس کے ہاتھ سہلاتی رہی۔ جب ذرا طبیعت سنبھلی تو میں نے کہا۔ میری احسان سے بات ہوگئی ہے، اس کی والدہ تمہارا رشتہ لینے آنے والی ہیں۔
میری زندگی کا بھروسہ نہیں۔ آج کل میں چل بسوں، پھر خواہ مخواہ کسی مخلص آدمی کا دل توڑنا اچھی بات نہیں۔ میرے ہاتھ، پائوں نیلے رہتے ہیں۔ ڈاکٹر جلد آپریشن کرانے کا کہتے تو ہیں مگر اب مجھے ڈر لگتا ہے۔ میں نے مہ وش کو قسم دی کہ تم ضرور احسان سے بات کرو، وہ تمہارا منتظر ہے۔ ایک بار آزما کر تو دیکھو۔ ٹھیک ہے تمہاری یہ آرزو بھی پوری کردوں گی، ذرا طبیعت ٹھیک ہوجائے پھر جائوں گی۔ دوا بھی لینی ہے۔
احسان نے اس قدر ڈھارس بندھائی کہ وہ اس سے شادی کرنے پر آمادہ ہوگئی۔ اس نے مجھ سے کہا۔ شگفتہ! بیماری نے میرا چہرہ مجھ سے چھین لیا ہے۔ تم مجھے اس طرح تیار کرو کہ بہت اچھی لگوں۔ بیماری کے اثرات کو غازے میں چھپا دینا۔ مجھے خوب بنا سنوار دو کیونکہ زندگی چند روزہ ہے، پھر کیوں نہ ہم خوبصورت بن کر جئیں۔ اب جب اسے دوا لینے جانا ہوتا، وہ میرے پاس آتی، بال بنواتی، کہتی۔ میرا چہرہ ایسا بنا دو کہ میں خوش نظر آئوں۔ میں ہلکا سا میک اَپ کر کے اسے تروتازہ پھول جیسا بنا دیتی تو وہ دیر تک خود کو آئینے میں دیکھا کرتی۔
جس روز اسے دلہن بننا تھا۔ دوپہر سے میرے پارلر آبیٹھی جیسے اسے دلہن بننے کی بہت جلدی ہو۔ گرچہ تھکی تھکی تھی پھر بھی زندہ رہنے کی خواہش نے اس کی آنکھوں میں امنگ بھری جوت جگا دی تھی۔ میں نے بڑی محنت اور خلوص کے ساتھ سجایا۔ اس کے گیسو سنوارے اور ان میں موتی پرو دیے۔ وہ ایک تروتازہ پھول جیسی دکھائی دینے لگی۔
چشم بد دور! آج تو تم عروسِ نوبہار لگ رہی ہو۔ واقعی کوئی دیوانہ تم پر مر مٹے گا۔ کہنے لگی۔ وہ تو پہلے ہی مر مٹا ہے۔ یہ بتائو اب میں بیمار تو نہیں لگ رہی نا…؟ بالکل نہیں۔ تم بیمار کب لگتی ہو۔ اگر ایسی بات ہوتی تو وہ پاگل مجھ سے شادی کیوں کرتا جبکہ جانتا ہے چند دنوں کی خوشی ہے یہ…
اللہ نہ کرے۔ ایسے الفاظ اس شبھ گھڑی میں منہ سے نہیں نکالتے۔ اللہ تمہیں لمبی عمر اور دائمی خوشیاں دے۔ میں نے ڈھیر ساری دعائیں دیں۔ رات کو اس کی رخصتی میں شریک ہونے گئی۔ وہ بہت اچھی لگ رہی تھی۔ شبنم کے قطروں سے دھلی ہوئی کسی کلی کی طرح اس کے چہرے پر نور آگیا تھا۔
شادی کے پندرہ روز بعد وہ احسان کے ہمراہ اسلام آباد چلی گئی۔ اس کے دل کا آپریشن ہونا تھا۔ شادیوں کا سیزن تھا، میں اپنے پارلر پر مصروف ہوگئی۔ اس کی خبر نہ لے سکی۔ مہ وش اپنی ماں کو بھی ساتھ لے گئی تھی۔
چھ ماہ بعد احسان کے گھر گئی۔ مہ وش کی امی اس کے ساتھ اسلام آباد میں تھیں۔ ان کے گھر پر تالا پڑا تھا۔ احسان کی بہن نے بتایا۔ وہ تو چلی گئی، وہ اب اس دنیا میں نہیں ہے۔ کیا کہہ رہی ہو؟ میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ کیا آپریشن کامیاب نہیں ہوا؟ آپریشن تو ٹھیک ہوگیا لیکن ایک ماہ بعد اسے بخار ہوا تو پھر نہیں اترا۔ ہم اللہ کے بھروسے پر اسے گھر لائے تھے۔ میرا احسان بہت اداس ہے۔ اس نے علاج پر روپیہ پانی کی طرح بہایا مگر اس کی زندگی کے دن باقی نہ رہے تھے۔ وہ چلی گئی۔ اس کی ساس نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔ احسان کو سمجھایا تو تھا کہ سوچ لو، کہیں خوشیاں ادھوری نہ رہ جائیں۔ وہ نہیں سمجھا، بس تھوڑی سی خوشی کے لیے شادی کرلی۔ آنٹی! دل کا معاملہ ایسا ہی ہوتا ہے۔میں کچھ دیر ان کے پاس بیٹھ کر آگئی۔ آج بھی سوچتی ہوں، زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں لیکن احسان جیسے لوگ بھی اس دنیا میں بہت کم ہیں، جو اپنی خوشیاں تھوڑی دیر کی سہی، دوسروں کے دامن میں بھرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ (ج… کراچی)