Friday, May 16, 2025

Dadi Ki Haveli

میری عمر تیرہ برس تھی جب اپنے والدین سے بچھڑی۔ صرف والدین سے ہی نہیں تایا، تائی، ان کے بچوں اور پیار کرنے والی دادی سے بھی! بس اک ذرا زمین ہلی اور سبھی مجھ سے اوجھل ہوگئے یا میں گم ہوگئی۔ یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب ہم سب اکٹھے رہا کرتے تھے۔ ہمارا بھرا پرا کنبہ تھا جس کی سرپرست دادی جان کی شفیق ذات تھی۔ تائی مجھ سے بہت پیار کرتی تھیں۔ وہ مجھے اپنی بہو بنانے کے خواب دیکھتی تھیں۔ میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی مگر سب کی لاڈلی تھی اور شاہ میر تو میرا بچپن کا ساتھی تھا۔ وہ میرے تایا کا بیٹا تھا جس کے ساتھ میری شادی کے منصوبے بن چکے تھے لیکن ہمیں بڑوں کے ارادوں سے کوئی غرض نہ تھی۔ ان کے ارادوں سے بے نیاز ہم بچپن کے ساتھی! میں، آمنہ ، شاہ میر اور فریحہ سب اکٹھے کھیل کود کر بڑے ہوئے تھے۔ دادی جان کا گھر بہت کشادہ اور وسیع تھا جو انہی کے نام سے دادی کی حویلی کہلاتا تھا۔ رشتے دار جب ہمارے گھر آنے کا ارادہ کرتے، یہی کہتے کہ دادی کی حویلی جانا ہے حالانکہ وہ صرف ہماری دادی تھیں لیکن دادی کی حویلی کی نسبت سے وہ سب کی دادی ہوجاتی تھیں۔ ہماری دادی تو بے مثال تھیں۔ انہوں نے جس قدر پیار ہم سے کیا، اس کی فی زمانہ مثال نہیں ملتی۔ جب میں بارہ برس بعد وطن لوٹ رہی تھی تو ہوائی جہاز میں بیٹھی یہی سوچے جارہی تھی کہ دادی زندہ بھی ہوں گی؟ میں انہیں دیکھ پائوں گی کہ نہیں…! وہ حویلی میں مجھے دکھائی نہیں دیں گی، ایسا تو تصور بھی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ کیا بتائوں کہ اپنوں سے بچھڑ جانے کا دکھ کیا ہوتا ہے اور اپنوں سے ملنے کی چاہ کس قدر تڑپاتی ہے۔ جب تک انسان زندہ رہتا ہے، یہ تڑپ صرف وہی جانتے ہیں جو اپنوں سے بچھڑ جانے کا دکھ جھیلتے ہیں۔ ایئرپورٹ پر اتری اور آصف سے کہا کہ اب یہاں بالکل نہیں رکنا، اسلام آباد بھی واپسی پر گھوم لینا۔ گاڑی بائر کرو اور پنڈی اس جگہ چلو جہاں پر ہماری دادی کی حویلی ہے۔ آصف نے میرے جذبات سمجھتے ہوئے کہا ۔ جانتا ہوں تمہیں اپنے گھر جانے کی بہت جلدی ہے، میں تمہیں وہیں لئے چلتا ہوں۔ سوچ رہا ہوں تمہارا یہ حال ہے تو تمہیں دیکھ کر تمہارے تایا، تائی اور ان کے بچوں کا کیا حال ہوگا، یقیناً وہ خوشی سے رو پڑیں گے۔ اللہ نہ کرے جو میرے اپنے روئیں۔ ایسی باتیں منہ سے مت نکالئے۔ یونہی باتیں کرتے کرتے ہم اس قدیم عمارت کے سامنے پہنچ گئے جہاں کبھی گیٹ کے ایک پلے پر دادی کی حویلی کی تختی آویزاں ہوا کرتی تھی۔ آج یہاں کوئی تختی تھی اور نہ وہ پھولوں سے لدی بیلیں تھیں جو کبھی گیٹ کے اوپر سے دیواروں پر پھیلی ہوئی تھیں جن کے بیچ ہمارا گھر ایک دلہن کی طرح بناسنورا ہوا کرتا تھا۔ آج دیواروں کے اردگرد جھاڑ جھنکار اور گیٹ مٹی سے آٹا ہوا اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ یہاں اب برسوں سے کوئی نہیں رہتا۔ اپنے گھر کو ویران دیکھ کر جو کبھی میرے بچپن کی خوشیوں کا گہوارہ تها، میرا دل بیٹھ گیا۔ یہاں پہنچنے سے قبل جو خوشی تھی، وہ اب کافور ہوچکی تھی۔ میرے بجھے ہوئے چہرے پر آصف نے نظر ڈالی اور کہا۔ سعدیہ ! حوصلہ رکھو سبھی وقت کے ساتھ نقل مکانی کرتے ہیں۔ مدت بعد آئی ہو، حویلی میں رہنے والے اب کسی نئے گھر میں شفٹ ہوگئے ہوں گے- حویلی میں کوئی چوکیدار تو ہوگا، ابھی سب کچھ معلوم ہوجائے گا۔ گیٹ پر گاڑی رکوا کر ہم نے اردگرد دیکھا۔ دور دور تک کسی انسان کا نام و نشان نہ تھا۔ بڑی مایوسی ہوئی۔ بھاری قدموں سے واپس لوٹنے کو تھے کہ ذیلی سڑک سے ایک شخص آتا دکھائی دیا۔ وہ ہماری طرف بی آرہا تھا۔ تھوڑی سی دیر میں وہ ہمارے قریب پہنچا۔ بولا۔ صاحب! ادھر کوئی نہیں آتا، آج گیٹ پر گاڑی دیکھی تو میں سمجھا کہ فیض صاحب آئے ہیں۔ فیض میرے تایا کا نام تھا۔ میں نے کہا۔ ہاں! میں انہی کی بھتیجی ہوں، گھر دیکھنا چاہتی ہوں۔ حویلی کی چابی کس کے پاس ہے؟ کہنے لگا۔ میرے پاس ہے۔ فیض صاحب نے دی ہوئی ہے تاکہ کبھی کبھی گیٹ کھول کر اندر بابر دیکھ لیا کروں۔ جب کبھی وہ آتے ہیں، مجھے فون کردیتے ہیں کہ صفائی کروا دو۔ اب تو مدت سے ان کا کوئی فون نہیں آیا۔ یہ حویلی ویران پڑی ہے۔ اس نے گیٹ کھولتے ہوئے کہا۔ میں لندن سے آئی ہوں اور یہ میرے شوہر آصف ہیں۔ ہم دونوں آج ہی آئے ہیں اور صبح ہونے کا بس انتظار کیا اور سیدھے ادھر آگئے ہیں۔ مجھے چوکیدار کی زبانی اپنے عزیزوں کے زندہ ہونے کا ثبوت مل گیا۔ چائے، پانی وغیرہ! جو حکم کریں؟ اس نے کہا۔ کچھ نہیں چاہئے۔ پانی وغیرہ ہے ہمارے پاس…! تم باہر ٹھہر جائو، ہم ذرا اندر کا چکر لگا لیں۔ وہ بولا۔ ٹھیک ہے بی بی…! میں ادھر ہی ٹھہرتا ہوں۔ میں ہولے ہولے قدم بڑھاتی حویلی کے آپنی گیٹ سے آگے بڑھنے لگی۔ خشک پتوں کے چرچرانے کی آواز سناٹے میں عجیب لگ رہی تھی۔ اندر داخل ہوتے ہی دل کی اور بی کیفیت ہوگئی۔ وہ رہائشگاہ جہاں کبھی رونق ہوتی تھی اور ہم بچے دوڑتے پھرتے تھے، آج یہاں ویرانی کا راج تھا۔ حویلی کا اندرونی لان جو کبھی پھولوں اور بیل بوٹوں سے سجا رہتا تھا، اب زمانے کی ستم ظریفی اور گزرتے وقت کی شکست و ریخت کی داستان بیان کررہا تھا۔ جوں جوں آگے جارہی تھی، دل ڈوبتا جارہا تھا۔ گونگی بہری فضا بتا رہی تھی کہ برسوں سے یہاں کوئی نہیں آیا۔ وہ لوگ جن کے ملنے کی آرزو مجھے اتنے برس تڑپاتی رہی تھی، نجانے کہاں جا چھپے تھے۔ سارے درخت، درودیوار سبھی منظر گونگے تھے۔ کوئی ایسا نہ تھا جس سے میں اپنے پیاروں کے متعلق پوچھ سکتی۔ آصف خاموش سائے کی مانند مجھ سے دو قدم پیچھے چل رہے تھے۔ وہ مجھے مزید ڈسٹرب کرنا نہیں چاہتے تھے۔ لان کے کونے میں پیپل کے درخت کی طرف بڑھتے دیکھ کر آصف نے پوچھا۔ کیا گھر کے اندر نہیں جائو گی؟ نہیں…! مجھ میں ویران کمروں میں جانے کا حوصلہ نہیں۔ جنہیں دیکھنے کی شدید آرزو لے کر یہاں آئی تھی، وہ تو جانے کہاں کھو گئے ہیں، اندر جاکر کیا کروں گی۔ ایسی ہولناکی کہ کھانے کو دوڑتی ہے۔ پرانے درخت کے نیچے ایک بینچ ابھی باقی تھی۔ میں اس پر بیٹھ گئی۔ آصف ذرا دیر یہاں بیٹھ جائو، میں خود کو تھکا ہوا محسوس کررہی ہوں۔ سعدیہ ! بینچ پر بہت گرد ہے، اسے ذرا سا صاف تو کرنے دو۔ اس نے جیب سے رومال نکال کر کہا۔ یہ اتنی زیادہ ہے کہ اس چھوٹے سے رومال سے صاف نہیں ہوگی۔ گرد کپڑوں کو لگتی ہے تو لگنے دو۔ گرد کو جب جھاڑیں گے تو ہ خود اتر جائے گی۔ اس نے میری بات سنی ان سنی کردی اور تھوڑی سی جگہ اپنے بیٹھنے کیلئے رومال سے صاف کرلی۔ وہ دیکھو درخت کی اس شاخ پر جھولا بندھا ہوتا تھا۔ لیکن اب تو یہاں کوئی جھولا نہیں ہے، ہر طرف سوکھے پتوں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ مجھے تو اب بھی نظر آرہا ہے۔ وہ جھولا…! میرے تصور کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں۔ دیکھتی رہو اپنے تصور کی آنکھوں سے! وہ سوکھے پتوں پر بوٹ مار کر انہیں توڑنے لگا۔ تبھی ان پتوں کے اندر پڑی کوئی چیز اس کے بوٹ سے ٹکرا گئی۔ اس نے اسے اٹھا لیا۔ یہ ایک ٹوٹی ہوئی گڑیا تھی جو بوٹ کی چوٹ لگنے سے مزید ٹوٹ گئی۔ یہ گڑیا میری ہے۔ میں ہر وقت اسے اپنے ساتھ رکھتی تھی۔ میں نے بلک کر اس کے ہاتھ سے وہ گڑیا لے لی جس کے بال مٹی مٹی اور چہرہ بھی خاک آلود تھا۔ اس نے کچھ کہے بغیر ٹوتا ہوا کھلونا مجھے دے دیا اور میں اسے ہاتھ میں لیتے ہی ماضی کے دریچوں میں گزرتی یادوں کی دنیا میں چلی گئی۔ ہمیشہ شاہ میر میری گڑیا چھین کر یہاں پتوں میں چھپا دیا کرتا تھا۔ بچپن بیت گیا۔ میں آٹھویں تک پہنچ گئی مگر گڑیا میرے ساتھ رہی۔ اسے شاہ میر مجھ سے چھین کر چھپاتا رہا اور میں ڈھونڈتی رہی۔ گڑیا ہمیشہ مجھے مل جاتی تھی مگر آج یہ آصف کو مل گئی تھی۔ مجھے لگتا ہے تم کچھ زیادہ جذباتی ہوگئی ہو یہاں آکر! ضروری نہیں یہ وہی گڑیا ہو تمہاری والی…! یہاں اور بھی بچے آئے ہوں گے، ان میں سے کسی کی ہوسکتی ہے۔ نہیں…! میں اسے پہچانتی ہوں۔ یہ میری ہی ہے۔ ٹھیک ہے بھئی! جیسے تم خوش، ویسے ہم خوش…! حالانکہ گڑیاں سبھی ایک جیسی ہوتی ہیں۔ مجھے آمنہ اور فریحہ یاد آئے لگیں جن کے ساتھ رہنے کی وجہ سے مجھے کبھی بہنوں کی کمی محسوس نہ ہوئی تھی۔ صبح سویرے دادی سب کو نماز کے لیے جگا دیتیں۔ ہم ناشتہ کرتے اور اسکول چلے جاتے۔ ہر صبح بیدار ہونے کی بیزاری سے جان بچانے کے لیے چھٹی والے دن سے ایک روز پہلے دادی سے کہتے۔ کل صبح مت جگانا دادی! کل ہمیں دیر تک سونا ہے۔ اچھا! ٹھیک ہے۔ وہ کہتیں۔ تھوڑی دیر کے لیے اٹھ جانا، نماز پڑھ کر پھر بے شک سو جانا۔ وہ صبح یاد آئی جب میں اٹھی تو امی سامان پیک کررہی تھیں۔ ہم کہاں جارہے ہیں امی؟ دوسرے شہر! جہاں تمہارے ابو کی پوسٹنگ ہوگئی ہے بیٹی! میرے والد صاحب اپنوں سے الگ رہنے پر اداس تھے مگر جانا ہی تھا۔ وہ جس محکمے میں آفیسر تھے، ان کی کہیں بھی پوسٹنگ ہوسکتی تھی۔ میں بھی اپنوں سے بچھڑنے پر اداس تھی۔ دادی، تایا، تائی، شاه میر، اس کی بہنیں آمنہ اور فریحہ سبھی آبدیدہ تھے۔ جب ہماری گاڑی حویلی سے نکلی، میں نے بھیگی آنکھوں سے گھر کو دیکھا تھا، ہاتھ ہلایا تھا۔ انہوں نے بھی ہاتھ ہلا کر خداحافظ کہا تھا۔ یہاں پر آئے ہمیں ایک ماہ ہوا تھا اور میرا داخلہ اسکول میں ہوگیا تھا کہ ایک صبح اسکول جانے کو تیار ہورہی تھی تو ابو نے آواز دی۔ سعدیہ ! جلدی کرو اور گاڑی میں بیٹھو، مجھے دیر ہورہی ہے۔ میں ان کے ہمراہ گاڑی میں بیٹھ گئی۔ وہ مجھے اسکول چھوڑتے پھر اپنے دفتر چلے جاتے تھے۔ اتنا یاد ہے جونہی میں نے گاڑی سے نکل کر اسکول کی طرف قدم بڑھایا تھا کہ زور کی گڑگڑاہٹ سنی۔ ایسی خوفناک آواز اس سے پہلے کبھی نہیں سنی تھی۔ بس مجھے چکر سا آگیا۔ جہاں کھڑی تھی، وہاں گر گئی۔ اس کے بعد معلوم نہیں کیا ہوا۔ ہوش آیا تو اسپتال میں تھی۔ ایک انکل اور آنٹی میرے قریب کھڑے کہہ رہے تھے۔ شکر ہے بچی کو بوش آگیا ہے۔ پھر ایک آواز میری سماعت سے ٹکرائی۔ بیٹی! آنکھیں کھولو۔ میں نے آنکھیں کھول کر ادھر ادھر دیکھا۔ ہر طرف نامانوس چہرے نظر آئے۔ امی ، ابو کہیں دکھائی نہ دیئے۔ میری نظریں انہیں ڈھونڈنے لگیں۔ تمہارے ابو اور امی گھر پر ہیں، تم ٹھیک ہو جائو تو تمہیں لے چلیں گے ان کے پاس…! میری حالت تسلی بخش ہوگئی تو یہ دونوں مہربان میاں، بیوی مجھے اپنے ساتھ لے آئے۔ جب اپنے والدین کا پوچھتی وہ کچھ نہ بتاتے بس ٹال جاتے۔ سر پر چوٹ لگی تھی، میری یادداشت پر اثر پڑا تھا۔ امی، ابو کے سوا کچھ یاد نہ آتا تھا۔ ذہن پر زور دیتی تو سر دکھنے لگتا، کانوں میں وہی خوفناک گڑگڑاہٹ گونجنے لگتی اور میں پریشان ہوجاتی۔ میری ذہنی حالت خراب ہوگئی تھی۔ ڈاکٹروں کو دکھایا۔ انہوں نے کہا کہ ابھی اس بچی سے کوئی سوال نہ کریں، کچھ مت پوچھیں۔ رفتہ رفتہ سب کچھ یاد آجائے گا۔ ازخود گھر والوں کے بارے میں بتائے گی۔ چھ ماہ بعد انکل اور آئٹی مجھے لندن لے آئے۔ میرا علاج ہوا۔ کافی حد تک میں ٹھیک ہوگئی۔ وہ مجھ سے یہ بات چھپانا چاہتے تھے کہ میرے والدین زلزلے میں ہلاک ہوچکے ہیں۔ وہ مجھے مزید دکھ نہیں دینا چاہتے تھے۔ کہتے تھے ۔بیٹی! آپ کو حکومت نے یہاں علاج کیلئے بھجوایا ہے۔ ضرور ایک دن آپ کو گھر واپس لے چلیں گے۔ آپ یہاں رہ کر تعلیم حاصل کریں۔ ان لوگوں نے مجھے بہت پیار دیا اور پھر میں نے اپنوں کے پیار کو دل میں دبا دیا۔ سوچا چلو پڑھائی کرلوں۔ یقین تھا کہ یہ اچھے لوگ ہیں جو مجھ سے پیار کرتے ہیں، ضرور ایک دن میرے والدین کے پاس لے جائیں گے۔ جب میں پوری طرح ٹھیک ہوگئی بالآخر میرے انکل اور آنٹی نے طریقے سے سمجھا کر بتایا کہ بیٹی! تمہارے والدین زلزلے میں ہلاک ہوگئے ہیں، اب تم وہاں جاکر زیادہ دکھی ہوجائو گی۔ بہتر ہے کہ ہماری بیٹی بن کر ہمارے پاس رہو۔ اس روز میں بہت روئی تھی پھر میں نے فیصلہ کرلیا کہ اتنے مہربان لوگوں کو اداس کرکے ہرگز نہیں جائوں گی جنہوں نے مجھے بیٹی بنایا، علاج کروایا۔ یہ بھی مظفرآباد کے رہنے والے تھے۔ لندن میں گھر اور کاروبار تھا۔ جن دنوں زلزلہ آیا، یہ اپنوں سے ملنے وہاں آئے ہوئے تھے اور میں انہیں مل گئی۔ یہ بے اولاد تھے، انہوں نے مجھے والدین جیسا سچا پیار دیا۔ مجھ پر جان چھڑکتے تھے۔ مجھے یہی بتایا گیا کہ میرے سارے لوگ ختم ہوگئے ہیں لیکن ایسا نہیں تھا۔ دادی کی حویلی بہت مضبوط تھی، پرانے وقتوں کی۔ جہاں یہ رہائشگاہ تھی، وباں زلزلے سے نقصان بھی بہت کم ہوا تھا۔ امی ، ابو کے سوا باقی سب لوگ سلامت تھے شاید انہوں نے مجھے ڈھونڈا ہوگا یا والدین کی وفات کی تصدیق پر ان کا خیال ہوگا کہ میں بھی زلزلے کی نذر ہوچکی ہوں۔ خدا جانے! لیکن اب میرا ان کے ساتھ کوئی رابطہ نہ تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ دادی کی حویلی سے تایا نقل مکانی کرکے لاہور چلے گئے تھے اور ان کا رابطہ ہمارے ساتھ نہیں ہو پایا تھا۔ لندن آئے ہوئے مجھے دس سال ہوچکے تھے۔ انکل اب کافی بوڑھے ہوگئے تھے۔ وہ بیمار ہوگئے تو میں اور زیادہ دکھی رہنے لگی کیونکہ سفید بالوں اور سفید رنگت والا یہ فرشتہ صورت آدمی میرے لئے ابو جیسا ہی مہربان تھا۔ جس نے میرا بے حد خیال رکھا تھا اور آنٹی بھی کچھ کم محبت نہ کرتی تھیں۔ یہ دونوں نہ ہوتے تو شاید میں مر جاتی۔ ان لوگوں نے کبھی اپنے عزیزوں کے بارے میں نہیں بتایا۔ مجھ سے اب بچھڑنا نہیں چاہتے تھے۔ انہوں نے بعد میں میرے تایا کو بھی ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ ان کے خیال میں سبھی مر چکے تھے۔ انکل جب زیادہ بیمار تھے، انہوں نے میری شادی اپنے دوست بیٹے آصف سے کردی۔ یہ لوگ اکثر انکل کے گھر آتے تھے۔ آصف نے مجھے دیکھا، پسند کیا اور مجھ سے شادی کی خواہش کا اظہار اپنے والدین کیا۔ یوں مجھے ایک اچھا جیون ساتھی ملا۔ میری شادی کے ایک سال بعد انکل کی وفات ہوگئی، ایک بار پھر مجھے اسی صدمے سے گزرنا پڑا جو والدین کی وفات کی خبر سن کر ہوا تھا۔ ایک دن مجھے اداس دیکھ کر آصف نے کہا۔ میں تمہیں پاکستان لئے چلتا ہوں ،وہاں تم اپنے گھر کو دیکھنا اور اپنے رشتے داروں کے بارے میں معلومات حاصل کرنا۔ کیا خبر وہ زندہ ہوں۔ اس کی یہ تسلی میرے لئے نئی زندگی کی نوید بن گئی۔ میں نے چھ ماہ اور انتظار کیا بالآخر ہم نے پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھ دیا۔ یہاں آنے پر اداس بھی تھی اور خوش بھی کہ چوکیدار نے تایا اور ان کے گھر والوں کا پتا بتا دیا تھا۔ بم حویلی سے نکل کر لاہور آئے۔ آصف کے رشتے دار بھی اسی شہر میں رہتے تھے لیکن وہ پہلے مجھے تایا کے گھر لے آئے۔ جب ہم نے چوکیدار کے دینے نمبر پر فون کیا تو شاہ میر نے اٹھایا ۔ اس کے لہجے میں خوشی تھی۔ کہا کہ آجائو، ابو بھی گھر پر ہیں۔ بس فوراً آجائو جہاں بھی ہو۔ ہم تو سمجھے تھے کہ تم چچا جان اور چچی کے ہمراہ چلی گئی ہو۔ شکر کہ تم زندہ ہو۔ اس کے ان الفاظ نے میرے کانوں میں رس گھول دیا تھا۔ جب ہم تایا کے گھر پہنچے تو میں بہت پرجوش تھی مگر یہ دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ تایا اور تائی نے بے حد سرد مہری سے میرا استقبال کیا۔ پیاری دادی اس جہاں میں نہیں رہی تھیں، آمنہ اور فریحہ کی شادیاں ہوچکی تھیں۔ شاہ میر نے اپنی بیوی سے ملوایا۔ وہ بھی بڑے نپے تلے انداز میں ملی۔ صرف ایک شاہ میر ہی تھا جو مجھے زندہ دیکھ کر خوش نظر آتا تها باقی سب لوگ اتنے اجنبی سے ہوگئے تھے جیسے کہ وہ میرے زندہ لوٹ آئے پر دکھی ہوگئے ہوں۔ میں اپنوں کا یہ رویہ دیکھ کر حیران رہ گئی۔ میں تو سمجھی تھی کہ وہ دوڑ کر گلے لگائیں گے اور خوشی کا اظہار کریں گے۔ تائی نے کہا۔ آج دوپہر کا کھانا کھا کر جانا۔ شام سے پہلے نہیں جانے دوں گی۔ دل نے جھرجھری سی لی۔ یہ کیا کہہ رہی ہیں۔ ہم تو کچھ دن کے لئے یہاں رہنے آئے تھے کہ یہ میرے اپنوں کا گھر تھا، میرا میکہ تھا۔ ابو، امی نہ رہے تو کیا ہوا، تائی، تائی بھی تو ماں، باپ جیسے ہوتے ہیں۔ ابھی میں حیرت ، تائی کو دیکھ رہی تھی کہ تایا نے بیوی کو گھرکا۔ ارے بھئی لندن سے وہ بھی چند دنوں کے لئے! انہیں سو کام ہوں گے، اوروں سے بھی ملنا ہوگا۔ ہمارے گھر رہنے تھوڑی آئے ہیں۔ احمق ہو تم بھی! پھر مجھ سے مخاطب ہوئے۔ بیٹا! اگر جانا ہے تو ہماری طرف سے کوئی اڑچن نہیں ہے۔ جب فراغت ملے پھر آجانا یا فون کردینا۔ جہاں ٹھہرے ہوگے، میں ملنے آجائوں گا۔ میرا دل جو اتنے برس سے ان لوگوں سے ملنے کو تڑپ رہا تھا، دھڑکنا بھول گیا۔ آصف نے کہا۔ تایا جی! آپ فکر نہ کریں یہاں میرے رشتے دار بھی ہیں، بم وہاں ٹھہر جائیں گے۔ شاہ میر نے محسوس کیا کہ اس کے والدین نے میرے ساتھ اچھا برتائو نہیں کیا مگر وہ چپ تھا شاید اپنی بیوی کی وجہ سے جو تیوری چڑھائے بیٹھی تھی۔ ملازم نے چائے لا کر رکھی، مجھ سے نہیں پی گئی۔ آصف نے بھی کہہ دیا۔ انکل! میں چائے نہیں پیتا۔ ہم چلنے کو ہوئے تو تائی نے بے جان آواز میں کہا۔ ”بیٹا! کبھی کبھی لندن سے فون کرتی رہا کرو۔ آمنہ اور فریحہ کو بتائوں گی تم آئی تھیں تو دکھ کریں گی کہ تم سے نہ مل سکیں۔ میں اور زیادہ حیرت سے ان کا منہ دیکھنے لگی کہ یہ انہیں ابھی فون کرکے کیوں نہیں کہتیں کہ آجائو، دیکھو کون آیا ہے؟ سعدیہ آئی ہے اور وہ زندہ ہے، لندن سے ملنے آئی ہے۔ تو یہ تھے اپنے جن سے ملنے کو میں رویا کرتی تھی۔ آصف سے شرمندگی محسوس ہورہی تھی جس سے کہا کرتی تھی کہ دعا کرو میرے اپنے زندہ ہوں اور مجھے مل جائیں۔ میں بہت دن ان کے پاس رہوں گی۔ ہم تایا کے گھر سے نکلے تو مجھے خجل دیکھ کر میرے شوہر نے کہا۔ رنج مت کرو اور شکر کرو کہ یہ لوگ زندہ ہیں، زلزلے میں نہیں چلے گئے۔ تبھی میرے دل نے کہا۔ کہاں زندہ ہیں؟ جب تک ان سے نہیں ملی تھی، زندہ تھے میرے دل میں مگر اب زندہ مل گئے تو لگتا ہے کہ میرا دل بھی دادی کی حویلی کی طرح خالی اور ویران ہوگیا ہے۔ چوکیدار کا شام کو فون آگیا۔ بولا۔ بی بی! آپ گئے تھے اپنے تایا کے گھر مگر دوبارہ نہیں جانا۔ انہوں نے مجھے بہت ڈانٹا ہے کہ ان کا پتا اور فون نمبر آپ کو کیوں دیا۔ آپ کا جائیداد میں حصہ ہے نا ۔ انہیں ڈر ہے کہ آپ اپنا ۔ لینے آئی ہیں۔ میں نے کہا۔ بابا! ان سے کہنا کہ مجھے اپنا حصہ نہیں لینا، اطمینان رکھیں۔ میں تو صرف منے آئی تھی – الله نے مجھے بہت کچھ دے رکھا ہے اب دوبارہ اپنوں سے ملنے کی آرزو نہیں کروں گی –

Latest Posts

Related POSTS