Thursday, February 13, 2025

Dadi Ki Jannat

پاکستان معرض وجود میں آیا تو ہمارے دادا دادی کی شادی کو صرف ڈیڑھ سال ہوا تھا۔ ان کے گاؤں میں فساد ہوا، کچھ رشتہ دار مارے گئے اور کچھ بچھڑ گئے۔ یہ لوگ بھی جان بچا کر ایک ٹرک میں لاہور آگئے۔ ان دنوں دادی کی گود میں پہلا بیٹا تھا، جو ابھی صرف چند ماہ کا تھا۔ بڑی مشکلوں کے بعد کلیم میں ایک چھوٹا سا دو کمروں کا گھر مل گیا اور پھر دادا جان کی نوکری بھی لگ گئی۔ توکل اللہ پر تھا، اس نے سبیل پیدا کر دی۔ اچھا گزارہ ہونے لگا۔

رفتہ رفتہ خاندان بڑھنے لگا اور ان کے پانچ بیٹے اور بیٹیاں ہو گئیں۔ روکھی سوکھی کھا کر بچوں کو پڑھایا اور ان کی تعلیم و تربیت میں رخنہ آنے نہیں دیا۔ بڑے بیٹے (میرے والد) بی ایس سی کر کے اپنے باپ کی جگہ فیکٹری میں لگ گئے۔ دوسرے نمبر والے چچا ایاز تھوڑے ضدی تھے، گھومنے پھرنے کے شوقین، اس لیے زیادہ پڑھائی نہ کی، مگر والدین کے فرمانبردار تھے۔ تیسرے اور چوتھے نمبر والے چچا دلشاد اور فرہاد نے بھی خوب پڑھا اور سب سے چھوٹے چچا ابرار زیادہ لاڈ پیار کی وجہ سے بگڑ گئے تھے۔ وہ دکان پر بیٹھنے لگے اور ایف اے کے بعد پڑھائی چھوڑ دی تھی۔ ہماری پھوپھیاں بھی بڑی لائق فائق تھیں۔ دونوں نے ایم اے انگلش کر کے اسکول میں پڑھانا شروع کر دیا۔

اب گھر کے حالات کافی بہتر ہو گئے۔ بیٹیاں اپنی تنخواہ سے جہیز کی چھوٹی موٹی چیزیں بنالیتیں۔ اسی دوران دادا نے تگ و دو کر کے چچا ایاز کو بھی نوکری پر لگوا دیا اور فرہاد چچا کو ایم ایس سی کروایا۔ وہ پڑھ لکھ کر خود کو بڑا ماہر اور عقل مند سمجھنے لگے۔ اب وہ بھائیوں سے اونچا بولتے اور ان کو خاطر میں نہ لاتے، جس پر دادی ٹوکتی تھیں۔ کوئی شک نہیں کہ گھر کو سنوارنے میں ان کا بڑا ہاتھ تھا۔ وہ یونیورسٹی کے دوستوں کے گھر آتے جاتے تھے اور انہیں اندازہ تھا کہ لوگوں میں مقبول ہونے کا کیا طریقہ ہے۔ اس لیے انہوں نے گھر کو سنوار کر اس کی حالت اچھی کر دی تھی۔

اب وقت آگیا تھا کہ بیٹوں اور بیٹیوں کی شادیاں ہو جائیں۔ اسی دوران ہماری دادی کا انڈیا جانے کا پروگرام بن گیا۔ وہ اپنے رشتہ داروں سے ملنا چاہتی تھیں۔ وہاں دادی کو اپنے بڑے بھائی کی بیٹی سنجیدہ پسند آگئی۔ دادی نے ٹھان لی کہ وہ اسے اپنی بہو بنا کر لے جائیں گی۔ وہ لڑکی آٹھویں جماعت میں تھی اور ان کا بیٹا بی ایس سی کر کے نوکری کر رہا تھا۔ سنجیدہ سانولی اور دبلی پتلی سی لڑکی تھی، لیکن دادی کو پسند تھی کیونکہ وہ سگی بھتیجی تھی۔ یوں وہ بھائی کی بیٹی سے اپنے بڑے بیٹے یعنی میرے والد کی منگنی کر آئیں کہ دوبارہ چکر لگا تو شادی کر کے اس بچی کو ساتھ لے آئیں گی۔

اس اثنا میں انڈیا اور پاکستان میں دوبارہ جنگ چھڑ گئی۔ دادا ابو نے بڑے بیٹے کا رشتہ کہیں اور کرنا چاہا، لیکن بڑے بیٹے اور ماں نے انتظار کرنے کی ٹھان لی اور سب کچھ اللہ پر چھوڑ دیا۔ یوں ان کا معاملہ التوا میں چلا گیا۔ دادی نے سوچا، کیوں نہ ایاز کا گھر بسا دوں، کوئی بہو تو گھر آجائے۔ اس طرح چچا ایاز کی شادی ماہرہ سے ہو گئی۔ نئی دلہن کو دو تین ماہ تو دادی نے خوب چھپر کھٹ پر بٹھا کر عیش و آرام دیا اور جب کام کے لیے کہا، تو اسے برا لگا۔ اس نے دو تین دن کھانا بنانے میں ہاتھ بٹایا، پھر دو کمروں کے مکان میں سے ایک کمرے میں علیحدہ ہو بیٹھی۔ وہ اب کمرے میں ہی کھانا پکاتی اور سوتی بھی وہیں تھی۔

دادی نے اسے کیا کہنا تھا، جب بیٹے نے کچھ نہ کہا۔ دادی چھپ چھپ کر روتیں، مگر بہو دیوروں سے بہت پیار کرتی تھی۔ اللہ جانے وہ پیار سچا تھا یا دکھاوے کا، بہرحال علیحدہ ہو کر بھی گھر میں کسی قسم کی بد مزگی نہیں ہوئی۔ ہماری دادی نے ہر معاملہ فراست سے سنبھال لیا۔

تین سال بعد انڈیا اور پاکستان کا راستہ کھلا تو دادا دادی کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ فوراً ویزا لگوایا، بڑے بیٹے کو ساتھ لیا، انڈیا گئیں اور سنجیدہ بیگم کو بیاہ کر لے آئیں، جو اپنے تمام رشتہ داروں، بہن بھائیوں، ماں باپ کو چھوڑ کر پاکستان آئی تھیں۔ یہ ہماری امی تھیں۔ شروع میں ان کا دل نہیں لگتا تھا۔ اپنے گھر والے یاد آتے تو بہت روتی تھیں۔ آہستہ آہستہ میاں کے پیار میں کھو گئیں، پھر جب میں پیدا ہوئی تو اولاد کی محبت نے ان کے دل سے میکے کی یاد بھی بھلا دی۔

امی دادی کی بہت فرماں بردار تھیں، لہٰذا ساس نے بھی سارا گھر ان کے ہاتھ میں دے دیا۔ چچا ایاز کی بیوی مکمل طور پر علیحدہ ہو گئیں کیونکہ چچا ایاز کو فیکٹری کی طرف سے مکان مل گیا تھا۔ اب سارا گھر میری امی کے ہاتھ میں تھا۔ وہ دادی کی سگی بھتیجی تھیں، خون کا رشتہ قریبی اور گہرا تھا۔ انہوں نے تینوں دیوروں اور نندوں کو دل سے لگا کر رکھا، ماں سے بڑھ کر پیار دیا۔ سب کے کپڑے دھونا، کھانا پکانا، اور کھانا پکا کر دکان پر بھیجنا، سب انہی کی ذمہ داری تھی۔ وہ نندوں سے زیادہ کام نہیں کرواتی تھیں کیونکہ وہ اسکول سے تھکی ہاری آتی تھیں۔

وقت گزرتا گیا، ہم چار بہن بھائی دنیا میں آگئے۔ امی نے ایک پڑھی لکھی لڑکی سے چچا دلشاد کی شادی کرادی اور ایک سندھی لڑکی سے دوسرے چچا کی۔ اب گھر میں جگہ کم پڑ گئی اور انہیں بڑے مکان میں آنا پڑا۔ اسی دوران دادا کو فالج ہو گیا۔ نئے گھر میں شفٹ ہونے کے ایک مہینے بعد دادا کی وفات ہو گئی۔ ایک بزرگ کم ہوا تو گھر بالکل بے رونق ہو گیا۔ وقت ہر حال میں گزرتا رہتا ہے۔ دو سال بعد دادی نے ایک اچھا گھر دیکھ کر دوسری بیٹی کو بھی بیاہ دیا اور تیسرے بیٹے کی شادی بھی اسی گھر کی لڑکی سے کر دی۔

کہتے ہیں کہ وٹہ سٹہ کی شادی کامیاب نہیں ہوتی، لیکن ہمارے گھر کی تو بات ہی کچھ اور تھی۔ دادی کا دم ایسا تھا کہ سبھی اس گھر کو اچھا کہتے تھے، لہٰذا یہ شادیاں بھی کامیاب ہوئیں۔ گھر میں تینوں بہوئیں ایک ساتھ خوش خوش رہنے لگیں۔ چچا ایاز کی بیوی جب تینوں دیورانیوں کو خوش دیکھتی، تو ان کا بھی دل چاہتا کہ میں اس گھر میں دوبارہ آ جاؤں۔ وہ اکیلی ہونے سے زیادہ پریشان رہتی تھیں۔ کبھی بیمار پڑ جاتیں تو کوئی پوچھنے والا ہوتا اور نہ سر دبانے والا۔ سودا خود لانا پڑتا، سارا کام خود کرنا پڑتا تھا۔

یہاں سب باری باری کام کرتے اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک رہتے تھے۔ انہوں نے میاں کی منت کی کہ ماں کو مناؤ، ہم بھی ان کے ساتھ رہیں گے۔ چچا نے ماں سے بات کی۔ ماں آخر ماں ہوتی ہے، انہوں نے بیٹے کو دوبارہ ساتھ رہنے کی اجازت دے دی۔ سات آٹھ سال تو یہ لوگ مل جل کر رہتے رہے، پھر آہستہ آہستہ چھوٹی چھوٹی باتوں اور بچوں کی وجہ سے رنجشیں ہونے لگیں۔ یہ قدرتی امر تھا، مگر دادی جان نے کہہ دیا تھا کہ جب تک میں زندہ ہوں، کوئی علیحدہ ہونے کا نام نہیں لے گا اور جو علیحدہ ہوگا، وہ مجھے ماں نہ کہے۔

اسی اثنا میں سب سے چھوٹے چچا کی بھی شادی کر دی گئی۔ اب پانچ بہوئیں اکٹھی رہنے لگیں۔ ہر کسی کا اپنا اپنا واش روم تھا مگر تین باورچی خانے، کھانے کا کمرہ، ایک ٹی وی لاؤنج، ایک لان اور دالان سب کے لیے مشترکہ تھے۔ سب مل کر رہتیں، ہنسی مذاق ہوتا۔ نہ شور شرابا اور نہ لڑائی جھگڑا۔ کبھی کبھار بھائیوں میں کوئی بات ہو جاتی مگر بہوؤں میں اتفاق تھا۔ ہر کام کی باری ساس نے لگائی ہوئی تھی۔ جو بہو اسکول میں ٹیچر ہوتی، وہ رات کو کھانا پکاتی، اور جو گھر میں ہوتیں، وہ صبح کا ناشتہ، دوپہر کا کھانا اور صفائی کرتیں۔

ہم سب بچے لان میں اکٹھے آپس میں ہنستے کھیلتے تو گھر میں روز ہی عید کا سماں ہوتا۔ محلے والے دیکھتے اور حیران ہوتے، رشک کرتے۔ بھائیوں کی اکٹھی کمائی میں برکت تھی۔ ایک سے ایک اعلیٰ چیز سب کے لیے گھر میں آتی۔ سب کے کمروں میں اے سی لگے تھے، جن کے بل دادی ادا کرتی تھیں۔ یہ نہیں کہ کوئی کم کماتا ہے تو اسے کم ملے گا اور جو زیادہ کماتا ہے، اسے زیادہ۔ سب کو ایک جیسا مل رہا تھا اور سب خوش بھی تھے۔

جو سنتا، حیران ہوتا کہ آج کل کون یوں اکٹھا رہتا ہے۔ اس دن قیامت کا سماں تھا جب پتا چلا کہ دلشاد چچا کے ہاں کبھی اولاد نہ ہوگی۔ بڑے بھائی اور بھابھی امی اور ابو دلجوئی میں پیش پیش تھے۔ انہوں نے چچا دلشاد اور ان کی بیوی کو تسلی دی اور کہا ہم ہیں نا، فکر کی کوئی ضرورت نہیں۔ جب بڑی بھابھی کی پانچویں اولاد ہوئی تو انہوں نے دادی سے اجازت لے کر اپنا بچہ چچا دلشاد کی گود میں ڈال دیا اور کہا یہ آج سے تمہاری اولاد ہے۔ اس بات سے وہ میاں بیوی بہت خوش ہوئے۔ انہیں ایک نئی زندگی مل گئی اور وہ بچہ ان کے کمرے میں منتقل کر دیا گیا۔

میرا یہ بھائی بہت لائق نکلا۔ ایف سی مکمل کرنے کے بعد نیوی میں چلا گیا اور انجینئر بن گیا۔ گھر میں آئے دن فنکشن ہوتے رہتے تھے۔ تھوڑی سی خوشی کو بھی ایسے منایا جاتا جیسے گھر میں شادی ہو۔ لوگ سمجھتے کہ واقعی کوئی شادی ہے کیونکہ چھوٹے سے فنکشن میں بھی پورے مکان پر چراغاں ہوتا تھا اور سب زرق برق کپڑے پہنتے تھے۔ یہی دادی جان کا حکم تھا۔ دادی کا گھر جنت کہلانے لگا۔ محلے والوں نے ہمارے مکان کا نام دادی ہاؤس سے بدل کر وادی کی جنت رکھ دیا تھا۔

ساری دنیا کی نظریں دادی کی جنت پر تھیں، مگر یہ قدرتی امر ہے کہ وقت ایک سا نہیں رہتا۔ کسی بدخواہ کی نظر لگ گئی اور دن جو چمکتے دمکتے، چہکتے مہکتے گزرتے تھے، ماند پڑ گئے۔ رونقیں خاموش ہو گئیں، یوں کہ دادی کو ہلکا سا بخار ہوا اور پھر بے ہوشی کا دورہ پڑا، جس میں وہ اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ جس دن ان کا جنازہ اٹھا، گھر کے در و دیوار بھی گویا رو رہے تھے۔ بیٹے، بہوئیں، پوتے پوتیاں سب بلک بلک کر رو رہے تھے۔ ایک سال تک گھر پر سوگ کی کیفیت طاری رہی۔ ہنسنے کو جی نہ کرتا، کسی نے کوئی خوشی یا سالگرہ نہ منائی۔

محلے والے کہتے دیکھ لینا، اب سب علیحدہ ہو جائیں گے۔ یہ جنت اسی بزرگ عورت سے آباد تھی، اب یہ جنت ٹوٹ جائے گی۔ پھر وہ دن بھی آ گیا جب چچا فرہاد نے لوگوں کی باتوں کو سچ کر دکھایا۔ ان کے سالے نے گھر کا لالچ دیا کہ ہم تمہاری بیوی کو گھر میں حصہ دیں گے اور تمہیں باہر بھیج دیں گے۔ وہ لالچ میں آ گئے کہ سسرال والے سپورٹ کر رہے ہیں اور اعلیٰ علاقے میں پوش لوگوں کے درمیان گھر مل رہا ہے۔

بڑے بھائیوں نے سمجھایا اور التجا کی۔ کہا جب ہماری آمدنی کم تھی تو گزارا کیا، اب تم زیادہ کما رہے ہو تو ہمیں چھوڑ کر جا رہے ہو؟ جب دیکھا کہ یہ نہیں مان رہے تو چچا فرہاد نے صبح کے وقت، جب سارے بھائی کام پر روانہ ہو گئے، ٹرک منگوایا اور سارا سامان اس میں ڈال کر جانے لگے۔ امی نے ابو کو فون کر کے بلوایا۔ وہ دوڑے آئے اور دونوں بہنوں کو بھی فون کر کے بلوایا، کہ شاید ان کے کہنے سے رک جائیں۔ سب نے روکا، لعن طعن کی کہ اپنا گھر چھوڑ کر سالوں کے پاس جا رہے ہو، لیکن چچا فرہاد نہیں مانے۔

چچا فرہاد کے جانے پر ہم سب بہت روئے۔ اتنا تو شاید دادی کی وفات پر بھی نہ روئے ہوں گے۔ گھر میں افسردگی چھا گئی۔ چچا فرہاد اپنے سسرال جا بسے، جہاں انہیں چھت پر ایک کمرہ ملا۔ نیچے سالے اور ان کی بیویاں رہتی تھیں۔ کہا فی الحال یہاں رہو، جب درمیانی منزل خالی ہوگی تو تمہیں وہاں منتقل کر دیں گے۔ لیکن درمیانی منزل کبھی خالی نہ ہوئی۔

ان کے سالے ہر کام کے بعد طعنہ دیتے۔ کہتے فرہاد، مکھیاں مار رہے ہو؟ بجلی کا بل بھر آؤ۔ چچا فرہاد نے اپنی دکان بیچ دی اور ان کے کام کرنے لگے، لیکن باہر جانے کا خواب پورا نہ ہوا۔ پانچ سال اسی طرح گزر گئے۔

ایک دن عید کے موقع پر چچا فرہاد اچانک گھر آ گئے۔ ہم انہیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے، لیکن ان کی حالت دیکھ کر سب افسوس کرنے لگے۔ وہ خود بھی کفِ افسوس مل رہے تھے کہ بھائیوں کا کہا نہ مان کر بہت بڑی غلطی کی۔

آج بھی ہماری دادی کی جنت آباد ہے، چاروں بھائی اور ان کی بیویاں خوش و خرم ہیں۔ لیکن وہ خوشیاں نہیں لوٹ سکیں جو اس وقت تھیں جب دادی زندہ تھیں اور پانچوں بیٹے اور بہوئیں اکٹھے تھیں۔ چچا فرہاد اب بیمار رہتے ہیں، مالی حالت خراب ہے، اور ان کے بچے ہمارے لیے اجنبی ہو گئے ہیں۔

ہم سب سوچتے ہیں، کاش دادی زندہ ہوتیں تو یہ سب نہ ہوتا۔ اپنوں کی غلطیاں اپنوں کو معاف کرنی چاہیے، مگر چچا فرہاد شاید شرمندگی کے باعث واپس نہیں آتے۔ دادی کی جنت سے ایک شاخ ٹوٹ گئی، جو اب کمزور اور زرد ہوتی جا رہی ہے۔

Latest Posts

Related POSTS