’’تم یہ آئینہ توڑ کیوں نہیں ڈالتیں؟‘‘ عامر نے ہاتھ میں پکڑا ہوا اخبار زور سے میز پر پٹخا اور کمرے سے نکل گیا۔
ماریہ اس کی بات سن کر اپنی جگہ ساکت بیٹھی رہ گئی۔ عامر کا یہ انداز اس کیلئے نیا تھا۔ وہ اس لہجے میں بات کرنے کا عادی نہیں تھا۔ پھر اس کی سمجھ میں یہ نہیں آرہا تھا کہ آخر عامر نے اس ردعمل کا اظہار کس لئے کیا تھا اور اس کی ناراضی کی وجہ دراصل کیا تھی۔
ماریہ نے اپنا بایاں ہاتھ بے اختیار دل پر رکھ لیا جو زور زور سے دھک دھک کررہا تھا۔ اس شاک سے سنبھلنا اس کیلئے مشکل ہورہا تھا کیونکہ عامر نے کبھی اس سے اس لہجے میں بات نہیں کی تھی۔ اسے یکدم یہ خیال ستانے لگا کہ کہیں عامر کے ساتھ کوئی بڑا مسئلہ تو پیش نہیں آگیا تھا جس کی وجہ سے وہ اس قدر پریشان تھا۔ ماریہ اس وقت یہ سوچنا نہیں چاہتی تھی کہ وہ اس سے کچھ چھپانے کی کوشش کررہا تھا۔
اس نے اپنا سر جھٹکا اور اپنا دھیان بٹانے کیلئے اس لسٹ کی طرف متوجہ ہوگئی جو کچھ دیر پہلے اس نے بنائی تھی۔ عامر کے اچانک غصے میں آجانے سے پہلے وہ اسی لسٹ کے بارے میں اس سے تبادلۂ خیال کررہی تھی۔
ماریہ اور عامر کی شادی چھ سال پہلے ہوئی تھی۔ گو کہ ان دونوں کی شادی ارینجڈ تھی تاہم یہ ان کی خوش قسمتی تھی کہ وہ ایک دوسرے کیلئے اچھے جیون ساتھی ثابت ہوئے تھے اور چھ سال کے عرصے میں ان کے درمیان مکمل ہم آہنگی قائم ہوچکی تھی۔ یہی وجہ تھی کی ان کے دوست احباب انہیں ’’پرفیکٹ میچ‘‘ قرار دیتے تھے۔ ماریہ اور عامر کے والد آپس میں دوست تھے۔ ان کی دونوں کی دوستی لڑکپن کے دور سے چلی آرہی تھی۔
عامر اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اس کے والد انجینئر تھے اور ایک پرائیویٹ ادارے میں اچھے عہدے پر فائز تھے۔ عامر کی پرورش انہوں نے بڑے ناز و نعم سے کی تھی اور اچھے سے اچھے اداروں میں اسے تعلیم دلوائی تھی۔ لاڈلا ہونے کے باوجود والدین نے اس کی تربیت اچھے خطوط پر کی تھی اور خود عامر کا مزاج بھی شروع ہی سے بہت سلجھا ہوا تھا۔ زندگی سکون اور آرام کے ساتھ گزر رہی تھی کہ اچانک اس سکون میں ارتعاش پیدا ہوا اور سب کچھ درہم برہم ہو کر رہ گیا۔ عامر کی والدہ جو انتہائی صحت مند اور ہنس مکھ خاتون تھیں، بلڈ کینسر کا شکار ہوکر ایک سال کے اندر اندر دنیا سے چل بسیں۔ عامر اس وقت میڑک کا طالبعلم تھا۔ اس موقع پر ماریہ اپنے والدین کے ہمراہ تعزیت کیلئے ان کے گھر آئی تھی۔ تب ہی اس نے پہلی بار عامر کو دیکھا تھا۔ اس وقت وہ دبلا پتلا سا پندرہ سال کا لڑکا تھا جو اپنی پیار کرنے والی ماں کی ناگہانی موت پر بالکل گم سم سا تھا۔ ماریہ کی عمر اس وقت بارہ سال سے بھی کم تھی لیکن تب اس نے عامر کیلئے اپنے دل میں ہمدردی کا جذبہ محسوس کیا تھا۔ یہ نرم گوشہ شاید ہر عورت کے دل میں موجود ہوتا ہے، خواہ اس کی عمر کچھ بھی ہو۔
تب ماریہ نے سوچا بھی نہیں تھا کہ یہی عامر ایک دن اس کی زندگی کا ساتھی بنے گا۔ گھر آنے کے بعد کچھ دیر تک انہی کا ذکر رہا پھر چند گھنٹوں کے بعد وہ اس بارے میں سب کچھ بھول بھال گئی اور گھر اور اسکول لائف میں مگن ہوگئی۔ اسکول میں اس کے بہت سے دوست اور گھر پر ایک بڑا بھائی اور ایک چھوٹی بہن اس کی توجہ بٹانے اور مصروف رکھنے کیلئے موجود تھے۔ پھر چند سال بعد اس نے گھر میں ذکر سنا کہ عامر کے والد ناصر احمد نے دوسری شادی کرلی تھی۔ انہوں نے اپنی ایک کولیگ سے شادی کی تھی جو برسوں سے ان کے ساتھ کام کررہی تھیں۔ ان کے شوہر کا انتقال چند سال پہلے ہوا تھا لیکن ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ عامر کے والد کو یہ خاتون جن کا نام شائستہ تھے، اپنے گھر کی ویرانی دور کرنے اور اسے ایک بار پھر آباد کرنے کیلئے موزوں لگیں لہٰذا بیٹے سے مشورہ کرنے کے بعد انہوں نے ان سے نکاح کرلیا۔
شائستہ کے گھر میں آنے سے ان دونوں باپ بیٹے کو بہت سکون ملا۔ انہوں نے کبھی اپنے شوہر کو کسی شکایت کا موقع نہیں دیا۔ عامر کی وہ سوتیلی ماں تھیں اور سوتیلی ماں کا تو نام ہی برا سمجھا جاتا ہے لیکن انہوں نے روایتی سوتیلی ماں کا سا کردار نبھانے کی کوشش نہیں کی اور ابتدا میں حتی الامکان عامر کا خیال رکھا۔ عامر اب نوجوانی کی حدود میں قدم رکھ چکا تھا، وہ کم گو اور اپنے کام سے کام رکھنے والا لڑکا تھا۔ اس نے شائستہ بیگم کو اپنے گھر میں قبول کرلیا تھا لیکن ان کے درمیان ضرورت کے مطابق ہی بات چیت ہوا کرتی تھی۔ اس کی سلجھی ہوئی عادتیں دیکھتے ہوئے شائستہ بیگم نے بھی بلاضرورت اس پر حاوی ہونے کی کوشش نہیں کی لیکن اس کی لاتعلقی انہیں اچھی نہیں لگتی تھی۔ انہیں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ عامر انہیں ناپسند کرتا ہے۔ جبکہ عامر کا مزاج ہی ایسا تھا، وہ اپنی دنیا میں رہنے والا لڑکا تھا۔ ان کے گھر کے معاملات بظاہر خوش اسلوبی کے ساتھ چلتے رہے لیکن کبھی کبھی عامر کو اپنے ہی گھر میں اجنبیت کا سا احساس ہوتا تھا کیونکہ اس کے اور شائستہ بیگم کے درمیان ایک غیرمحسوس سا کھنچائو تھا۔ بہرحال وقت گزرتا رہا اور عامر نے ایم بی اے مکمل کرکے ایک ملٹی نیشنل کمپنی جوائن کرلی۔ محنتی اور ذہین تو وہ تھا ہی لیکن قسمت بھی اس پر مہربان تھی لہٰذا اس نے بڑی تیزی کے ساتھ ترقی کی منازل طے کیں۔ پھر جب اس نے اپنا الگ گھر بنا لیا اور اپنی گاڑی بھی خرید لی تو ناصر احمد کو اس کی شادی کی فکر لاحق ہوئی۔
انہوں نے عامر کیلئے کئی لڑکیاں دیکھیں اور بالآخر ان کی نظر انتخاب ماریہ پر آکر ٹہر گئی۔ عامر نے اس معاملے کو مکمل طور پر والد کی پسند اور مرضی پر چھوڑ دیا تھا۔ ماریہ نے اسی سال گریجویشن مکمل کیا تھا لہٰذا اتنے اچھے اور دیکھے بھالے گھرانے کا رشتہ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا تھا۔ سو، دونوں جانب سے بات طے ہونے کے دو ماہ بعد ہی وہ دلہن بن کر عامر کے گھر آگئی جو اب اپنے علیحدہ مکان میں رہنے لگا تھا۔ ناصر احمد اور شائستہ بیگم نے اس کے الگ ہونے پر اعتراض نہیں کیا، ناصر احمد نہیں چاہتے تھے کہ اس کی خوشیوں میں دخل دیں کیونکہ اس نے ہمیشہ فرمانبردار بیٹے کا رول نبھایا تھا اور انہیں کسی شکایت کا موقع نہیں دیا تھا۔ لہٰذا اب اگر وہ خودمختار زندگی گزارنے کا خواہاں تھا تو وہ اس کے راستے میں نہیں آنا چاہتے تھے۔
ناصر احمد اور شائستہ بیگم اپنے گھر میں خوش تھے۔ شائستہ بیگم ملازمت چھوڑ چکی تھیں اور ناصر احمد بھی ریٹائر ہونے والے تھے تاہم ان دونوں کو روپے پیسے کی کوئی کمی نہیں تھی۔ گھر کے کام کاج کیلئے انہوں نے دو ملازم رکھے ہوئے تھے۔ ایک خاتون رضیہ جو گھر کا کام انتظام سنبھالتی تھیں اور ایک لڑکا جو باہر کے کام انجام دیا کرتا تھا اور ضرورت پڑنے پر ڈرائیور کے فرائض بھی انجام دیتا تھا۔ شائستہ بیگم کو اب جوڑوں کا درد رہنے لگا تھا لہٰذا اب ان سے زیادہ کام کاج نہیں ہوتا تھا۔ گھر کے بیشتر کام وہی خاتون کرتی تھیں جو کئی سال سے ان کے پاس تھیں۔
٭…٭…٭
ماریہ کئی منٹوں سے اپنے ہاتھ میں وہ لسٹ لئے اس پر اپنی نظریں جمائے تصورات کی دنیا میں کھوئی ہوئی تھی۔ عامر اپنے کمرے میں تھا اور آفس جانے کیلئے تیار ہورہا تھا۔ یہ لسٹ گھر کے ساز و سامان پر مشتمل تھی، وہ سامان جو شائستہ بیگم نے گزرے ہوئے سالوں کے دوران اپنے گھر کیلئے بڑے شوق سے لیا تھا تاہم اب یہ سامان، فاضل اشیاء کی صورت اختیار کرچکا تھا کیونکہ اسے استعمال کرنے والا کوئی نہیں رہا تھا۔ شائستہ بیگم کو چند روز پہلے ہی دل کا دوسرا دورہ پڑا تھا اور وہ اسپتال میں داخل تھیں۔ ناصر احمد کے انتقال کے بعد وہ اچانک بڑی تیزی کے ساتھ بوڑھی ہوئی تھیں۔ ناصر احمد چند ماہ بیمار رہنے کے بعد دنیا سے رخت سفر باندھ چکے تھے۔ انہیں نمونیے کا اٹیک ہوا تھا جو ان کی جان لے کر ہی رہا۔ ان کی موت کے بعد شائستہ بیگم ایک دم جیسے ڈھے سی گئی تھیں۔ جوڑوں کے درد اور ذیابطیس میں تو وہ پہلے ہی مبتلا ہوچکی تھیں، اب ان کے دل نے بھی صحیح رفتار سے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔
دل کا دوسرا دورہ سہنے کے بعد ان کی حالت نازک ہوچکی تھی۔ لہٰذا اب انہیں ہمہ وقت دیکھ بھال کی ضرورت تھی۔ ان کی حالت پر عامر خاصا فکرمند تھا، اس نے ان کے بارے میں ڈاکڑز سے بھی مشورہ کیا تھا۔ ڈاکٹرز کا یہی کہنا تھا کہ انہیں اکیلے گھر میں نہ رہنے دیا جائے۔ شائستہ بیگم جو اب ہارٹ اٹیک سے قدرے سنبھل چکی تھیں، خاموشی سے یہ سب کچھ دیکھ رہی تھیں۔ انہوں نے عامر اور ماریہ کو اپنے پاس بلایا اور جیسے ایک دم اپنا فیصلہ سنا دیا کہ اب وہ اولڈ ہوم میں رہیں گی۔ نہ جانے کب انہوں نے شہر میں قائم ایک اچھے اولڈ ہوم کے بارے میں معلومات حاصل کرلی تھیں جسے جدید خطوط پر استوار کیا گیا تھا اور وہاں معمر افراد کے لئے تمام سہولتیں موجود تھیں۔ اخراجات کا انہیں مسئلہ نہیں تھا کیونکہ اس کیلئے شوہر کی اور خود ان کی پنشن کافی تھی۔ اس کے علاوہ انہوں نے گھر کو کرائے پر اٹھانے کیلئے بھی کہہ دیا تھا۔ فی الحال رضیہ ہی ان کے گھر کی دیکھ بھال کررہی تھی اور وہیں ٹہری ہوئی تھی لیکن اسے جلد ہی اپنے گائوں واپس جانا تھا کیونکہ اب اس کا بیٹا اسے واپس بلا رہا تھا۔ اس کی عمر بھی اب خاصی ہوچکی تھی لہٰذا بیٹا جو اب اپنے پیروں پر کھڑا ہوچکا تھا، نہیں چاہتا تھا کہ اس کی ماں مزید نوکری کرے۔
سب کچھ طے پاچکا تھا، ماریہ نے شائستہ بیگم کے کہنے پر ان کے گھر میں موجود سامان کی فہرست تیار کرلی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس میں سے وہ جو سامان لینا چاہیں، لے لیں اور رضیہ اگر کچھ لے جانا چاہے تو وہ لے جاسکتی ہے۔ اضافی سامان کے بارے میں وہ خود فیصلہ کرلیں کہ اس کا کیا کرنا تھا۔
ماریہ خالی خالی نظروں سے سامان کی فہرست کو گھور رہی تھی اور یہی سوچے جارہی تھی کہ عامر نے آخر آئینہ توڑنے کی بات کیوں کی اور اس بات سے اس کا کیا مطلب تھا؟ وہ کم از کم اتنا تو جانتی تھی کہ عامر کی کوئی بات بلامقصد نہیں ہوتی تھی۔ کیا اس بات سے اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ آئینہ دیکھنا یعنی خودنمائی چھوڑ دے… لیکن اس میں یہ عادت کب تھی!
ماریہ نے اپنا سر جھٹکا، گویا ذہن میں در آنے والی سوچوں سے پیچھا چھڑانا چاہ رہی ہو اور ایک بار پھر فہرست کی جانب متوجہ ہوگئی۔ شائستہ بیگم کے گھر کا تقریباً سارا فرنیچر پرانی طرز کا اور بھاری تھا۔ شیشم کی لکڑی کی بنی ہوئی الماری اور رائٹنگ ٹیبل۔ بھاری بھرکم ڈریسر اور آرام کرسیاں۔ یہ سب چیزیں اس
کے کام کی تھیں اور نہ ہی انہیں اولڈ ہوم منتقل کیا جاسکتا تھا کیونکہ وہاں انہیں ایک چھوٹے سے کمرے میں رہنا تھا۔
’’میں جارہا ہوں‘‘ عامر نے کمرے سے نمودار ہوتے ہوئے کہا۔ وہ آفس جانے کیلئے تیار ہوچکا تھا۔ ’’واپسی پر میں ماما سے ملتا ہوا آئوں گا۔‘‘
ماریہ نے اس کی بات کے جواب میں گردن ہلائی۔ وہ جانے کیلئے آگے بڑھا مگر پھر اس کی جانب پلٹا اور بولا۔ ’’اس سے پہلے کہ تم آئینہ توڑو، اس میں اچھی طرح اپنے آپ کو دیکھ لینا!‘‘ اس کی آواز حسب عادت دھیمی لیکن لہجہ چبھتا ہوا تھا۔
ماریہ اس کی بات پر ایک بار پھر اس کی جانب دیکھتی رہ گئی۔ چند لمحوں کے بعد اس نے خود کو سنبھالتے ہوئے پوچھا۔ ’’تم آخر کہنا کیا چاہتے ہو؟ کون سا آئینہ؟ کیا یہ شائستہ ماما کا کوئی آئینہ ہے؟‘‘
’’نہیں ماریہ!‘‘ اس نے ماریہ کی حیرانی کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا۔ ’’یہ تمہارا آئینہ ہے۔ دوسری تمام چیزوں کی طرح تمہارا اپنا آئینہ!‘‘ یہ کہہ کر وہ ہموار قدم اٹھاتا باہر کی جانب چل دیا۔
وہ سخت ذہنی الجھن میں گرفتار تھی۔ اسے یہ سب کچھ بالکل اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ اس نے عامر کو کبھی اتنے برے موڈ میں نہیں دیکھا تھا۔ پھر وہ جس طرح اس سے پیش آرہا تھا، وہ بھی اس کیلئے تکلیف وہ تھا۔ وہ پلٹی اور سٹنگ ہال میں چلی آئی، یہاں دیوار کے ساتھ ایک قد آدم آئینہ آویزاں تھا۔ آئینے پر نظر پڑتے ہی وہ ٹھٹھک کر اس میں اپنا عکس دیکھنے لگی۔ اضطراب کے عالم میں اسے اپنا عکس بھی اجنبی محسوس ہورہا تھا۔ ماتھے پر پڑی ہوئی لکیریں، حیران و پریشان آنکھیں اور پھیکی رنگت۔ یہ سب اس کیلئے نامانوس سا تھا۔
اپنی سوچوں سے الجھتے ہوئے اس نے آئینے کے خوبصورت فریم کی طرف ہاتھ بڑھایا… اس کی انگلیاں فریم پر تراشے گئے خوبصورت نقش و نگار سے ٹکرائیں۔ یہ آئینہ خاصا پرانا تھا لیکن آج بھی اس کی آب و تاب روز اول کی مانند قائم تھی۔ عامر کے والد نے یہ آئینہ اس کی حقیقی والدہ کیلئے خصوصی طور پر بلجیم سے منگوایا تھا۔ اپنے گھر میں شفٹ ہوتے وقت عامر اسے اپنے ساتھ لے آیا تھا۔ اسے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے شائستہ بیگم کو یہ آئینہ پسند نہیں تھا۔ انہیں اچھا نہیں لگتا تھا کہ وہ اس آئینے میں اپنا عکس دیکھیں جو ناصر احمد نے اپنی پہلی بیوی کو بطور تحفہ پیش کیا تھا۔
اس کے برعکس ماریہ کو یہ آئینہ بہت اچھا لگتا تھا اور عامر بھی اس بات سے واقف تھا۔ اس کا ذہن اب تک اسی بات میں الجھا ہوا تھا کہ آئینہ توڑنے سے عامر کی کیا مراد تھی۔ دفعتاً اس نے ایک جھرجھری سی لی… ادھوری بات جاننے یا کسی بھی معاملے کی تہہ تک نہ پہنچ پانے سے اسے ہمیشہ سے بہت کوفت ہوتی تھی۔ اپنی توجہ بٹانے کیلئے اس نے بالوں میں لگا ہوا کلپ نکال کر انہیں سنوارنا شروع کردیا۔ ابھی وہ بالوں کو صحیح طور سے باندھنے بھی نہیں پائی تھی کہ اطلاعی گھنٹی بج اٹھی۔ اس نے دروازے پر جا کر دیکھا، وہاں ایک نوجوان کھڑا تھا جس نے آنکھوں پر رنگین چمکدار شیشوں والا دھوپ کا چشمہ لگایا ہوا تھا۔
’’کیا نادر صاحب کا گھر یہی ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’نہیں!‘‘ اس نے مختصراً کہا۔
’’تو پھر ان کا گھر کون سا ہے؟‘‘ وہ ڈھیٹ بنا اپنا جگہ کھڑا تھا۔
’’ایک تو تم نوجوانوں کو نہ جانے کیوں اس قدر فضول چشمے لگانے کا شوق ہوتا ہے۔ کم از کم کسی سے بات کرتے وقت تو اس چشمے کو اتار دینا چاہیئے۔ یہ سراسر بدتہذیبی کی علامت ہے کہ آپ تو پوری ڈھٹائی کے ساتھ کسی کی آنکھوں میں جھانکتے رہیں اور دوسرا آپ کی آنکھوں کی بجائے ان شیشوں میں اپنی ہی شکل دیکھتا رہے۔‘‘ اس نے گویا اپنی ساری جھنجھلاہٹ اس نوجوان پر نکال دی جو شرمندہ ہونے کی بجائے دانت نکالے اس کی تقریر سے محظوظ ہورہا تھا۔
اس نے اپنا چشمہ اتارا اور ماریہ کی آنکھوں میں جھانکتا ہوا بولا۔ ’’سوری ڈئیر!‘‘
’’ایکسکیوز می!‘‘ ماریہ اس کی بے باکی پر جھلس کر رہ گئی۔ ’’زیادہ بے تکلف ہونے کی ضرورت نہیں، تمیز سے بات کرو۔‘‘
’’جی اچھا!‘‘ اس نے سعادت مندی سے کہا اور ایک بار پھر اپنا سوال دہرایا۔ ’’نادر صاحب کا گھر؟‘‘
’’وہ بالکل سامنے والا۔‘‘ اس نے بادل ناخواستہ بتایا۔
’’تھینک یو۔‘‘ اس نے اپنا چشمہ ناک پر ٹکایا اور ہاتھ ہلاتا ہوا اپنی کار کی طرف بڑھ گیا۔
ماریہ نے دروازہ بند کرکے لاک لگایا اور نوجوان کے انداز و اطوار پر پیچ و تاب کھاتی ہوئی اندر چلی آئی۔ ’’بدتمیز!‘‘ وہ بڑبڑائی۔
کتنا عجیب لگتا ہے کسی سے بات کرتے ہوئے اس کے چشمے میں اپنا عکس دیکھتے رہنا، اس نے سوچا۔
معاً اس کے کانوں میں عامر کا کہا ہوا جملہ گونجا۔ ’’تم یہ آئینہ توڑ کیوں نہیں ڈالتیں؟‘‘
اس کی نظر ایک بار پھر بے اختیار ہال کی دیوار پر آویزاں آئینے کی طرف اٹھ گئیں۔ آئینے میں اسے اپنا عکس دکھائی دے رہا تھا۔ اس نے اپنی آنکھوں میں جھانکا تو اس نوجوان کی آنکھوں پر لگا فصول سا چشمہ یاد آیا جس کے شیشوں میں اسے اپنا عکس نظر آرہا تھا۔ اس نے سوچا کہ اسے اپنا عکس دیکھ کر جھنجھلاہٹ کیوں محسوس ہورہی تھی… شاید اس لئے کہ وہ اس لمحے اپنے عکس کی بجائے نوجوان کی آنکھیں دیکھنا چاہتی تھی تاکہ اس سے بات کرتے وقت ذہنی رابطہ قائم رکھ سکے۔
’’میرے خدا!‘‘ اس کے منہ سے بے اختیار نکلا۔ حقیقت اس پر عیاں ہوتی جارہی تھی۔ اس کے کانوں میں جیسے کسی نے سرگوشی کی۔ ’محض اپنی طرف نہیں بلکہ دوسروں کی طرف بھی دیکھو۔ اس آئینے کو توڑ ڈالو جو تمہیں اپنی طرف سے نظر نہیں ہٹانے دیتا اور تمہیں دوسروں کو دیکھنے کا موقع ہی نہیں ملتا!‘
اب عامر کی کہی ہوئی بات کا مطلب اس کی سمجھ میںآرہا تھا کہ اسے اپنی ذات کے محور سے نکل کر دوسروں کی جانب توجہ دینی چاہیئے۔ عامر نے اسے وہی سمجھانا چاہا تھا جو اس نے کیا تھا۔ یہ الگ بات تھی کہ وہ اسے واضح الفاظ میں اپنا مطلب سمجھانے کا حوصلہ نہیں کرپایا تھا۔ وہ ایک نرم دل انسان تھا جو انسانوں کا دردآشنا تھا۔ ماریہ نے اپنی آنکھیں ملتے ہوئے سوچا۔ وہ ہر ایک کے کام آنے کی کوشش کرتا تھا۔ اپنی سوتیلی ماں کے چھوٹے موٹے کام وہ اب بھی بخوشی نمٹایا کرتا تھا۔ اس کی یہی کوشش ہوتی تھی کہ وہ انہیں کسی متوقع زحمت سے بچا لے۔
اس کی یہی کوشش ہوتی تھی کہ اگر وہ کسی کی مشکل حل کرسکتا ہے تو ضرور کرے۔ سو، وہ یہ کیسے گوارا کرسکتا تھا کہ اپنی سوتیلی ماں کو اس کے حال پر چھوڑ دے۔ یہ سب باتیں سوچ کر شدت جذبات کے باعث ماریہ کو اپنا چہرہ تپتا ہوا سا محسوس ہورہا تھا۔ گویا وہ اسی بات پر ماریہ سے خفا تھا کہ وہ اس سارے قصے کے دوران خاموش تماشائی بنی رہی تھی اور اس نے ایک بار بھی یہ نہیں کہا تھا کہ وہ شائستہ بیگم کو اپنے ہاں رکھ لیں گے۔ وہ اپنی فطری شرافت کے سبب بیوی کو مجبور کرنا نہیں چاہتا تھا تاہم اس کی خواہش تھی کہ اسے خود اس بات کا احساس ہوجائے۔
٭…٭…٭
اس نے جلدی جلدی شائستہ بیگم کیلئے کھانے کی کچھ چیزیں تیار کیں اور انہیں پیک کرکے اسپتال جانے کیلئے تیار ہوگئی۔ شائستہ بیگم اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئیں۔ اس نے اصرار کرکے انہیں ہاتھ سے تھوڑا سا دلیہ کھلایا۔ اسی اثناء میں عامر بھی وہاں پہنچ گیا۔ اس نے شائستہ بیگم کی مزاج پرسی کی، انہوں نے اسے دعائیں دیں تو وہ کچھ خفیف سا نظر آنے لگا۔ ماریہ نے دیکھا وہ اپنی سوتیلی ماں سے نظریں چرا رہا تھا۔ ماریہ نے دل ہی دل میں شرمندگی محسوس کی۔
پھر اس نے اپنی تمام تر ہمت مجتمع کرکے شائستہ بیگم کو مخاطب کیا۔ ’’ماما، کل رات میں نے اور عامر نے آپس میں بات کی اور یہ فیصلہ کیا کہ آپ کو اپنے گھر لے جائیں۔اب آپ ہمارے ساتھ رہیں گی۔‘‘
وہ عامر کی طرف دیکھنے سے گریز کررہی تھی جو حیرت زدہ انداز میں اس کا چہرہ تک رہا تھا۔ ماریہ کی نظریں اس وقت شائستہ بیگم کے جھریوں بھرے چہرے پر مرکوز تھی جو خوشی کے باعث جھلملا سا رہا تھا۔ ’’نہیں ، نہیں…‘‘ انہوں نے اپنے ہاتھ کو حرکت دیتے ہوئے کہا۔ ’’تم لوگوں کو بلاوجہ میری وجہ سے تکلیف ہوگی۔‘‘
ماریہ نے آگے بڑھ کر ان کی پیشانی پر بوسہ دیا۔ ’’ماں بھی کبھی کسی کیلئے تکلیف کا باعث بنتی ہے۔‘‘
وہ پیچھے ہٹی تو اس کی نظریں عامر کی طرف اٹھ ہی گئیں۔ اس کی آنکھیں اس لمحے ستاروں کی مانند جھلملا رہی تھیں جن میں اسے خوش آئند مستقبل کا عکس دکھائی دے رہا تھا۔ (ختم شد)