شیبا سے میری گاڑھی چھنتی تھی۔ اچانک سُنا کہ اس کے والد کو بزنس میں نقصان ہو گیا ہے۔ اپنی سہیلی کی پریشانی سے میں بھی پریشان ہو گئی۔ وہ ہمارے پڑوسی تھے۔ دیکھتے دیکھتے ان کے گھر کے حالات دگرگوں ہوتے گئے ، قیمتی گاڑی بک گئی، اس کی جگہ انہوں نے ایک سیکنڈ ہینڈ پرانی گاڑی لے لی۔ ان کے گھر میں تین نوکر تھے ، ایک ڈرائیور، ایک مالی اور ایک گھریلو کام کے لئے ملازم ۔ اب صرف ڈرائیور باقی رہ گیا، جو ڈرائیونگ کے ساتھ دیگر کام بھی کرتا – شیبا کے بھائی منور کو پہلے بیرون ملک بھجوانے کا پروگرام تھا۔ پھر اسے مقامی کالج میں داخل کرادیا گیا۔ منور اچھا لڑکا تھا، میرے گھر والے اسے پسند کرتے تھے۔ اس کے ہمارے گھر آنے جانے پر بھی ان کو کوئی اعتراض نہ تھا۔ میں انگریزی میں کمزور تھی۔ شیبا کا بھی کچھ ایسا ہی حال تھا۔ وہ اپنے بھائی سے انگلش کے مضمون میں مدد لیتی تو میں بھی اس کے ساتھ پڑھ لیا کرتی۔ کبھی کبھار کچھ سمجھنا ہوتا تو منور میری ہیلپ کر دیتا تھا۔ وہ بہت سنجیدہ لڑکا تھا۔ اس کی خاموشی پر مجھ کو حیرت ہوتی تھی۔ اس کی سنجیدگی گھریلو ماحول اور ان کے بدلتے ہوئے حالات کی وجہ سے تھی۔ شیبا پر بھی ان دنوں سکوت طاری تھا۔ وہ مجھے اپنے حالات سے آگاہ کرتی رہتی تھی۔ ان سے قسمت اس قدر خفا تھی کہ اب فیس اور ضروری تعلیمی اخراجات کے لئے بھی رقم نہ رہی تھی۔ میں اپنی سہیلی کی باتیں سنتی تو بہت دکھ ہوتا تھا۔ جب یہ لوگ شروع میں آئے تھے ، ان کے یہاں کسی شے کی کمی نہ تھی، روپے کی ریل پیل تھی اور اب یہ عالم ہو گیا تھا کہ ہر شے ادھار پر چل رہی تھی۔ ایک دن ابو گھر آئے تو کچھ پریشان لگ رہے تھے۔ کہنے لگے ۔ صفدر کی ماں ! آج میں ایک بہت بُری خبر سُن کر آیا ہوں۔ میں مظہر صاحب کو ایسا نہیں سمجھتا تھا۔ سنا ہے انہوں نے منشیات کا کاروبار شروع کر دیا ہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ بہت بُری بات ہے ان کے بچوں کا کیا ہو گا۔ ان کے گھر میں ایک پریشانی کا عالم ہے۔ اس پریشانی کے عالم میں کسی پست حوصلہ آدمی کی طرح مظہر نے بھی منشیات میں پناہ ڈھونڈ لی ہے۔ شروع میں کسی کو اس بات کا یقین نہ آیا، لیکن یہ ایک حقیقت تھی ، انکل واقعی ہیروئن بیچنے لگے تھے۔ جب شیبا کی ماں کو پتا چلا، اس نے خاوند کو منع کرنا چاہا مگر مرد خود مختار اور اپنی مرضی کے مالک ہوتے ہیں۔ بیچاری عورت کی کب سنی جاتی ہے۔ شیبا کے دونوں ماموں آئے۔ انہوں نے بھی انکل مظہر کو اس امر سے باز رکھنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا۔ اگر آپ چاہیں تو سرمایہ ہم آپ کو دلوا دیتے ہیں، لیکن خدارا ! آپ کسی غلط کام میں نہ پڑیں۔ جب ایک بار کوئی اس دلدل میں اتر جاتا ہے تو پھر وہ کب باہر آسکتا ہے۔ یہی انکل کا معاملہ تھا۔ وہ دلدل میں اتر چکے تھے۔ لہذا انہوں نے اپنے سالوں کو یہ جواب دیا کہ میری مدد کرنا تھی تو اس وقت کرتے جب میرے بچوں کے لئے روٹی دال کے لالے پڑ گئے تھے۔ تب کیوں نہیں خبر لی ؟ اب جب میں نے نئے بزنس میں قدم رکھ دیا ہے اور روپیہ بھی آنے لگا ہے ، تو آپ کو میری بھلائی سوجھ رہی ہے۔ اب میں آپ کا احسان لینے سے مر جانا بہتر سمجھوں گا۔ یہ ٹکا سا جواب سن کر وہ لوگ مایوس ہو کر چلے گئے لیکن اس کے بعد مظہر صاحب نے بیوی کی پٹائی کر ڈالی اور اسے یہ سبق اچھی طرح سے سکھا دیا کہ آئندہ اس کے رشتہ داروں نے ان کے کاروباری معاملات میں مداخلت کی تو تم کو طلاق دے دوں گا۔ میں سونے کا کاروبار کروں یا مٹی کا، اس بات سے تمہارے بھائیوں کا کوئی لینا دینا نہیں۔ وہ دن آخری ثابت ہوا۔ اس کے بعد شیبا کی ماں نے میکے میں اپنے گھر کے حالات بتانے سے توبہ کر لی۔ اب ان کے گھر کے مالی حالات پھر سے سدھرنے لگے ، بینک بیلنس بڑھنے لگا۔ گھر کا خرچہ پہلے کی طرح کھلا چلنے لگا، تاہم اکثر اوقات ان کے گھر میں بے سکونی اور کشیدگی بھی محسوس ہوتی تھی۔ جب لوگ منور سے کہتے کہ تمہارا باپ ہیروئن کا دھندا کرتا ہے ، ان کو روکو تو وہ اپنے والد سے کہتا۔ ابو جان آپ جو کام کر رہے ہیں اس سے باز آجائیے ور نہ کسی دن عزت مٹی میں مل جائے گی اور لوگ ہم سے کلام کرنا پسند نہ کریں گے۔ باپ بیٹے کے منہ سے ایسے بڑے بول سُن کر خفگی محسوس کرتا اور منور کو احمق کا بچہ کہہ کر دھتکار دیتا۔ منور باپ کا غصّہ دیکھ کر سہم جاتا اور مظہر انکل کی بیوی بھی ان سے ہمہ وقت ڈری سہمی رہنے لگی۔ ایک دن پولیس کا چھاپہ پڑا اور وہ انکل مظہر کو پکڑ کر لے گئے ۔ گھر کی بھی تلاشی لی گئی لیکن گھر سے کچھ بھی برآمد نہ ہوا لیکن اس واقعے سے گھرانے کی عزت و آبرو مٹی میں مل گئی اور منشیات کے کاروبار کے لیبل نے ان لوگوں کی ساری خوشیاں نگل لیں۔ باپ جیل میں تھا۔ اس دوران تمام بوجھ منور کے کندھوں پر آپڑا۔ اس بیچارے کا تعلیمی کیریئر دائو پر لگ گیا۔ ادھر گھر کے اخراجات پورا کرنے کے لئے اس نے ٹیوشن پڑھانی شروع کر دی۔ اب میں بھی اس سے ٹیوشن پڑھنے لگی اور ٹیوشن فیس بھی دینے لگی کیونکہ میرے والدین کا خیال تھا کہ اس طرح ہم ان کی مدد کر سکتے ہیں – میں ایک لاابالی لڑکی تھی جس کا احساسات کی دُنیا میں ڈوب جانا ممکن بات نہ تھی مگر اس دنیا میں رہنے والا کوئی بھی انسان جذبات اور احساسات کے وار سے نہیں بچ سکتا۔ میں ان دنوں منور کی مشکلات سے بیگانہ نہ رہ سکتی تھی۔ اگرچہ میں نے اپنے دل میں اٹھنے والی ہر آواز کود با دیا لیکن ہمدردی کے جذبات کو نہ دبا سکی۔ مجھے منور کی حالت دیکھ کر دکھ ہوتا تھا اور میں شیبا کے اُداس رہنے پر بھی پہروں کڑھتی تھی۔ منور بیچارا نوعمر لڑکا اپنی تعلیم جاری رکھے ہوئے تھا۔ وہ ٹیوشن پڑھانے کے ساتھ ساتھ اپنے والد سے ملاقات کرنے باقاعدگی سے جیل بھی جاتا تھا۔ اوپر سے روزانہ لوگوں کی طنزیہ اور کڑوی کسیلی باتیں سنتا اور ان کی تیکھی نظروں کے وار بھی سہتا تھا۔ اس کو کتنے کام تھے۔ اتنی سی عمر میں قدرت نے اس پر بے پناہ ذ مہ داریاں ڈال دی تھیں۔ میں زیادہ دن تک منور کی سوالی نگاہوں سے لا تعلق نہ رہ سکی۔ اس کے اندر چھپے ہر جذبے کو سمجھنے لگی۔ اب میں جس قدر اس کے بارے سوچتی، میری بے چینی میں اضافہ ہوتا جاتا تھا۔ اس بے چینی سے بچنے کے لئے میں منور سے ملنے سے گریز کرنے لگی۔ پڑھنے بیٹھتی تو کتابوں اور پڑھائی سے لا تعلق سی ہو جاتی تھی۔ یہ شاید اس بات کا چھپا ہوا اعتراف تھا کہ مجھے منور کی پریشانیوں پر دکھ رہنے لگا تھا، اس کا درد مجھے اپنا درد محسوس ہوتا تھا۔ میں اس کی مدد نہ کر سکتی تھی۔ اس لئے کڑھتی تھی۔ شیبا میری دوست تھی، مجھے عزیز تھی۔ وہ اپنے ابو کو یاد کر کے روتی اور اپنے گھر کی پریشانیوں کا حال بتا کر دل کا بوجھ ہلکا کرتی تھی تا کہ میں اس کی غمگساری کر سکتی ، اس کا دکھ بھی بانٹ سکتی۔ پپرز ہو گئے، چھٹیاں ہو گئیں۔ ابو نے گائوں جانے کی تجویز رکھی۔ میرا دل خوش ہونے کی بجائے اداس ہو گیا۔ امی نے پوچھا۔ تم اپنی پھپھو اور چچاؤں کے ہاں جانے سے خوش نہیں ہو ؟ پہلے تو تم ہی اصرار کیا کرتی تھیں کہ گائوں ضرور جانا ہے ، اب کیا ہو گیا ہے ؟ میں چلی جائوں گی تو شیبا بہت اداس ہو جائے گی۔ امی جان پہلے ہی وہ اپنے والد کے لئے پریشان رہتی ہے۔ ان کے گھر کے حالات دیکھئیے ! ایک میں ہی ہوں جو اسے ڈھارس دیتی ہوں۔ میرے جانے سے تو وہ رورو کر مر جائے گی۔ یہ تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ میں اس کی ماں سے بات کرتی ہوں، ہم اس کو بھی ساتھ لئے جاتے ہیں، اس کا جی بہل جائے گا۔ ماں نے شیبا کی امی سے بات کی۔ انہوں نے اجازت دے دی۔ اس بات سے میں اتنی خوش ہوئی کہ کیا بتائوں۔ میں نے جلدی سے تیاری باندھی۔ مجھے شیبا کے ساتھ رہنے کی عادت سی ہو گئی تھی۔ خوشی خوشی ہم گائوں پہنچے۔ شیبا بھی ماحول تبدیل ہونے کے باعث کچھ دیر کو اپنے دُکھ بھول کر مسکرانے لگی۔ گائوں میں پہلا دن بہت پر جوش اور خوشیوں بھرا گزرا، سبھی ملنے آرہے تھے۔ اچانک پھر اگلے دن مجھ پر اداسی کا دورہ پڑ گیا جیسے میری ذات کا کوئی حصہ گم ہو گیا ہو۔ میں اپنی اس کیفیت کی وجہ نہیں جان سکی، لیکن شام تک اداسی گہری ہوتی گئی، جیسے میرے دل کی بوٹیاں کوئی خونخوار پرندہ نوچ رہا ہو۔ اتنے بھرے پرے گھر میں بھی میں شدت سے تنہائی محسوس کر رہی تھی، جانے کیوں؟ میں نے اپنی اس کیفیت کا ذکر شیبا سے کیا کہ میرا دل نہیں لگ رہا ہے۔ جانے کس بات کی کمی ہے ؟ تب اس نے مجھے معنی خیز نظروں سے دیکھا اور بولی۔ کہیں منور بھائی کی پریشانی تو نہیں ؟ میں نے کہا۔ نہیں تو ۔ تبھی وہ خاموش ہو گئی۔ میری پھپھو کا بیٹا ند یم بہت ہنس مکھ تھا۔ اس کی میرے ساتھ خوب بنتی تھی۔ شیبا ساتھ بیٹھی ہوتی تو ندیم بات مجھ سے کرتا لیکن اس کا مرکز گفتگو شیبا ہوتی تھی۔ میں سمجھتی تھی لیکن اپنی سہیلی کے احترام میں چپ رہتی تھی۔ البتہ اکیلے میں ، اپنے کزن کے کان ضرور کھینچتی کہ تم کسی وجہ سے میری سہیلی کو مرعوب کرنے کی کوشش کرتے ہو۔ ایک دن ندیم نے ہاتھ باندھ کر کہا۔ میری پیاری کزن ! میں تمہاری دوست سے شادی کرنا چاہتا ہوں، تم میری چاہت کی سفیر بن جائو۔ اپنی سہیلی کی مرضی معلوم کرو اور اس کی والدہ سے بات کرو، نہیں تو اپنی امی سے کہو کہ اس رشتے میں مدد کریں۔ تم خود کہہ دو۔ پاگل لڑکی ! اگر خود کہہ سکتا تو تمہاری منت کیوں کرتا؟ مجھے ممانی جان سے لحاظ آتا ہے، میرے دل کی بات تم ان تک پہنچائو گی۔ کیا تم سنجیدہ ہوندیم ! ہاں بھئی ، کیا اتنا بڑا انجینئر تم سے جھوٹ بولے گا، وہ بھی ایسے اہم معاملے میں۔ اچھا ٹھیک ہے میں بات کروں گی بے فکر رہو۔ اگر ندیم شیبا کو اپنا لے تو میری سہیلی کے دن بدل جائیں گے ، وہ فاقوں کے حالات سے نکل کر ایک دولت مند گھرانے کی بہو بن جائے گی۔ خوشیاں اس کا مقدر بن سکتی ہیں اور پھر ندیم بھی اپنے سسر کی رہائی میں مددگار ہو سکتا ہے۔ کیوں نہ میں کوشش کروں اپنی سہیلی کو افسردگی کے سمندر میں سے نکالنے کے لیے۔ میں نے پہلے شیبا سے پوچھا۔ اُس نے کہا۔ ندیم اچھا لڑکا ہے۔ اس نے ہاں کہہ دی تو مجھے اعتراض نہ ہو گا۔ ندیم زیادہ دلیر نکلا، مجھ سے پہلے ہی اس نے شیبا سے خود بات کر کے اس کو راضی کر لیا تا ہم میں نے امی سے بات کی۔ وہ بولیں گھر جا کر میں شیبا کی امی سے بات کروں گی۔ جب میں نے شیبا سے دوبارہ پوچھا کہ تم نے کیا سوچا ہے تو اس نے جواب دیا۔ میں نے خود ندیم سے بات کر لی ہے کیونکہ سمجھ گئی تھی وہ کیا چاہتا ہے۔ اس وقت شیبا کی خوشی دیدنی تھی۔ اس کی مسکراہٹ کسی فاتح جیسی تھی۔ اس نے مجھے کہا۔ میں تم جیسی بزدل نہیں۔ آج کل اچھے رشتے کہاں ملتے ہیں اور تمہارے ندیم بھائی میں کون سی کمی ہے، یقیناً جب میری ماں کو پتا چلے گا کہ اس کی بیٹی نے اچھے گھرانے کے لڑکے کا انتخاب کیا ہے، ان کو اپنے کندھوں کا بوجھ ہلکا محسوس ہو گا۔ ہم کچھ دن گائوں رہنے کے بعد شہر واپس آگئے۔ اسٹیشن پر ہمیں لینے منور آیا ہوا تھا۔ مجھے دیکھ کر اس نے سر کو جھکا لیا۔ بے حد کمزوراور تھکا تھکا لگ رہا تھا جیسے برسوں کے رت جگے بھگت چکا ہو ۔ ہم دونوں سنجیدہ اور کم گو تھے۔ میں اس سے بہت کچھ کہنا چاہتی تھی ، مگر جب بھی کچھ کہنا چاہتی میری زبان گنگ ہو جاتی تھی۔ زبان پر بھاری تالے لگ جاتے تھے۔ ایک روز ندیم بھائی اور اس کے والدین گائوں سے ہمارے گھر آئے۔ وہ اپنے والدین کو رشتے کے لئے منا کر لایا تھا لیکن شیبا کی امی نے کہا کہ ابھی ہمارے حالات ایسے ہیں کہ ان حالات میں بیٹی کی ڈولی اٹھنی مشکل ہے۔ میرا خاوند جیل میں ہے اور محلے والے ہم سے منہ پھیر چکے ہیں۔ ایک آپ کا گھرانہ ہے جو ہم سے تعلق نباہ رہا ہے۔ امی ان کی مجبوری سمجھ چکی تھیں۔ انہوں نے پھپھو سے کہا کہ بیٹی کو سادگی سے رخصت کرنے کے لئے بھی تو آخر کچھ نہ کچھ رقم درکار ہوتی ہے۔ واقعی ان کے حالات ایسے ہیں کہ دو وقت کا چولہا جلنا مشکل ہو رہا ہے۔ منور کالج سے آکر سارا دن ٹیوشن پڑھاتا ہے ، اگر ان کی مالی مدد ہو جائے تو شاید شیبا کی امی مان جائے۔ تب پھپھو نے آنٹی سے بات کی۔ کہا کہ ہم شادی کا دونوں طرف کا خرچہ خود اٹھا ئیں گے ، جہیز بھی نہیں لیں گے ۔ ابو نے منور کو بلا کر الگ سمجھایا کہ ان حالات میں تمہاری بہن بہت اچھے گھر میں جارہی ہے ، تمہارا باپ جیل میں ہے، ایسار شتہ پھر نہ ملے گا، بہن کو بیاہ کر رخصت کرو اور اپنے کندھوں کا بوجھ ہلکا کرو، ان لوگوں کی ضمانت میں دیتا ہوں، یہ میرے رشتہ دار ہیں۔ آپ میرے بزرگ ہیں انکل۔ میرے ساتھ چل کر جیل میں ابو سے بات کر لیں تو مجھے کوئی اعتراض نہ ہو گا۔ ابو منور کے ساتھ انکل مظہر سے ملنے جیل گئے۔ ان کو تمام بات سمجھائی اور انہوں نے رضامندی دے دی۔ یوں شیبا کی قسمت کھل گئی اور وہ ندیم کی دلہن بن کر گائوں چلی گئی۔ ندیم کے والد بڑے زمیندار تھے ، دولت مند لوگ تھے۔ انہوں نے شیبا کو سونے سے پیلا کر دیا۔ اس کے نام ایک مربع زمین لکھ دی۔ شیبا کے ٹھاٹ ہو گئے ، اب جب وہ میکے آتی ، بڑی سی ایئر کنڈیشن گاڑی میں آتی ۔ پہلے وہ میری سہیلی تھی ، اب رشتہ دار بن چکی تھی۔ اب بھی مجھ سے والہانہ محبت کرتی تھی اور مجھے سب سے زیادہ خوشی اس بات کی تھی کہ اب وہ منور کی پریشانیاں بانٹنے کے قابل ہو چکی تھی۔ جو کام میں نہ کر سکی ، وہ کر سکتی تھی۔ ہر چاہنے والے کو پیار کی منزل نہیں ملتی، میں بھی انہی بد نصیبوں میں سے ایک تھی۔ انہی دنوں خاندان سے میرے لئے ایک اچھار شتہ آگیا۔ لڑکا انجینئر تھا اور سعودی عربیہ میں کما رہا تھا۔ والد صاحب نے اچھا گھرانہ دیکھ کر فورا ہاں کر دی۔ میں مشرقی لڑکی کیا کر سکتی تھی۔ والدین کی اطاعت میں خاموشی سے سر جھکا لیا۔ اپنا حال دل کس کو بتاتی کہ میں منور کو جیون ساتھی بنانا چاہتی ہوں لیکن منور کے حالات ایسے تھے کہ مستقبل بنانے کے لئے ابھی اس کو ایک عمر چاہئے تھی۔ والد صاحب نے اس کی تعلیم کا خرچہ اٹھایا تو وہ کہیں گریجویشن کر پایا لیکن وہ اندر سے بالکل کھو کھلا ہو چکا تھا، اس میں جینے کی امنگ ہی باقی نہ رہی تھی۔ تمام وقت سگریٹ پیتا رہتا تھا۔ والد نے بہت سمجھایا، اس نے سگریٹ پینا ترک نہ کیا۔ کچھ دن چھوڑ دیتا پھر سے پینے لگ جاتا۔ اچانک انہونی ہوئی کہ میری منگنی کے بعد اچانک ایک دن منور کی والدہ آئیں اور انہوں نے منور کے لئے میرے رشتے کی بات کی۔ والد صاحب نے کہا۔ بہن ! آپ پہلے کہاں تھیں ؟ اب جب بیٹی کی منگنی ہو چکی ہے آپ رشتے کے لئے آگئی ہیں۔ میں منگنی توڑ کر آپ کو رشتہ نہیں دے سکتا، ویسے بھی آپ کے گھر سے بیٹی لی ہے ، یہ بڑی بات ہے ورنہ ان حالات میں جب آپ کا خاوند جیل میں ہے ، کون ایسے گھرانے سے رشتہ جوڑتا ہے۔ اس جواب سے آنٹی توچپ ہو گئیں مگر منور ہل کر رہ گیا۔ میں جان گئی کہ منور ہی نے ماں کو بھیجا ہے ورنہ آنٹی تو حالات ٹھیک ہونے تک بچوں کے بیانے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔ اس کے بعد وہ بیمارپڑ گیا، اسے اسپتال داخل ہونا پڑا اورحالت مخدوش ہو گئی۔ شیبا بھائی کی تیمارداری کو گائوں سے پہنچی لیکن وہ مجھ سے اور ہمارے سارے گھرانے سے ناراض اور بد ظن تھی کہ والد نے میرارشتہ دینے سے منع کر دیا تھا۔ اگر چہ دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ منور حالات سے لڑتے لڑتے تھک گیا تھا اور اب اس میں دم ہی باقی نہ رہا تھا مزید صدمات سہنے کا۔ اس کی زندگی میں نہ تو روشنی کی کوئی کرن باقی رہ گئی تھی۔ مجھ کو جلد ہی میرے منگیتر کے ساتھ شادی کے بندھن میں جکڑ دیا گیا۔ سلیم اچھے انسان تھے لیکن مجھ کو مسلسل منور کا خیال ستاتا رہتا تھا، اس وجہ سے بھی کہ وہ مسلسل بیمار تھا اور اسپتال میں پڑا ہوا تھا۔ تاہم میں اب شادی شدہ تھی۔ مجھے اپنے خاوند کو قبول کرنا ہی تھا۔ یہی میر امقدر تھا اور میں اتنی بہادر اور بے دھڑک لڑکی بھی نہیں تھی۔ اپنے باپ کی لاج رکھنے پر مجبور تھی۔ انہوں نے مجھے بہت پیار سے پالا پوسا تھا۔ میں ان کی عزت پر بٹہ نہیں لگا سکتی تھی۔ اپنے گھر والوں کی عزت کے لئے میں نے اپنے دل کا خون کیا تھا۔ آٹھ دن کے اندر اندر میری شادی کر دی گئی۔ شادی کے دو ماہ بعد میری ملاقات اچانک بازار میں منور سے ہو گئی۔ وہ صدیوں کا بیمار لگ رہا تھا۔ بہت غمزدہ تھا۔ اس کی حالت دیکھ کر کلیجہ منہ کو آرہا تھا۔ میں نے اسے تسلی دی۔ میں سوچ رہی تھی کہ میں نے تو کبھی اس شخص سے محبت کی بات نہیں کی تھی اور نہ کبھی اس نے اظہار کیا تھا پھر یہ کیسا درد کا رشتہ ہمارے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے موجود اورچھپا رہا۔ جو کچھ تھا وہ ہمارے دلوں میں تھا۔ وہ مجھ کو نہ پا کر دکھی تھا اور میں گھر بسا کر بھی سکھی نہ تھی۔ وہ مجھ سے دوبارہ ملنے کا وعدہ چاہتا تھا۔ میں نے اسے سمجھایا کہ اب ہمارا ملنا اذ یت کو بڑھا دے گا اس لئے اب ہمارے رستے جدا ہی رہیں تو اس میں عافیت ہے۔ وہ رو رہا تھا اور میں اسے روتا چھوڑ کر چلی آئی۔ گھر آکر میں نے سلیم سے کہا کہ مجھے پاکستان میں نہیں رہنا۔ وہ مجھے سعودی عربیہ لے آئے ۔ یوں میں اپنے شہر سے اتنی دور آگئی کہ جہاں میرے قدموں کے بہک جانے کا امکان ہی نہ رہا۔ خدا کا شکر کہ میں ثابت قدم رہی اور میں نے اپنا گھر اپنے بچے تباہی سے بچالئیے۔ البتہ افسوس ہوا جب سُنا کہ انکل مظہر جیل میں چل بسے۔ اس کے بعد منور بھی سنبھل نہ سکا اور ایک دن محنت مزدوری کرتے کرتے، ایک زیر تعمیر عمارت سے گر کر دم توڑ گیا۔