ماں کے انتقال کے بعد رشتہ داروں نے میرے ابا کی دوسری شادی کرادی۔ یہ عورت غیر خاندان سے تھی، پر نخوت اور تیز مزاج۔ اس نے گھر میں قدم رکھتے ہی میرے باپ کے راج پات پر قبضہ جمالیا اور ہمیں غصے بھری نظروں سے دیکھنے لگی۔ ان دنوں میں دس برس کی اور میرا بھائی اختر چھ سال کا تھا۔ ہمارے گھر آنے والی یہ مہارانی بھائی کو کیا ماں کا پیار دیتی، مجھے ہی اسے سنبھالنا تھا۔ جب تک میں باپ کے گھر تھی، معصوم اختر کو نئی ماں کی چیرہ دستیوں سے بچالیتی تھی۔ کہتے ہیں کہ لڑکیاں امربیل کی طرح بڑھتی ہیں۔ چھ برس پلک جھپکتے گزر گئے اور میں سولہ سال کی ہوگئی۔ تب ابا نے مجھے اپنے کزن کے بیٹے معظم سے بیاہ دیا۔ میں سسرال آگئی اور خدا کا شکر ادا کیا کہ سوتیلی ماں سے جان چھوٹی۔ اب اختر کی فکر کھائے جاتی تھی۔ سوتیلی ماں دن رات ابا کے کان بھر رہی تھی کہ خواہ مخواہ بیٹے کی تعلیم پر خرچ کرتے رہتے ہو، اسے کھیتی باڑی پر لگاؤ تو کچھ فائدہ بھی ہو۔ شروع میں تو ابا نے بیوی کی باتوں پر کان نہ دھرے، لیکن بالآخر ان کے بھی کان پک گئے۔ جب اختر آٹھویں کا امتحان دے رہا تھا تو انہوں نے اپنی زوجہ محترمہ کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔
ایک روز اختر بخار کی وجہ سے اسکول نہیں گیا۔ ابا شہر گئے ہوئے تھے، واپس آئے تو ماں بولی: جب تم شہر سے باہر جاتے ہو تو یہ لڑکا اسکول سے ناغہ کرلیتا ہے۔ ایسے یہ خاک پڑھے گا؟ اسے پڑھائی سے دلچسپی ہے ہی نہیں۔ ابا نے بیوی کی بات کا یقین کرلیا اور اختر پر بہت غصہ ہوئے۔ اس کے ماتھے کو چھو کر بھی نہیں دیکھا کہ بخار ہے یا نہیں۔ بس اتنا کہا: تم اب اسکول نہیں جاؤ گے، جبکہ ان کے دونوں چھوٹے بیٹے، جو دوسری بیوی سے تھے، اسکول جاتے تھے۔ تب اختر بولا: ابا! دونوں بھائی تو اسکول جاتے ہیں، مجھے بھی پڑھنے دیں۔ اگر آج میری سگی ماں زندہ ہوتی تو کیا آپ مجھے اسکول جانے سے منع کرتے؟ اس پر ابا کو غصہ آگیا اور انہوں نے اختر کو دو تھپڑ جڑ دیئے کہ میرے سامنے زبان چلاتا ہے۔ کدھر ہیں اس کی کتابیں؟ گم کرو ان کو۔ اس پر ماں نے کتابیں کنویں میں پھینک دیں۔ اس روز میرا بھائی خوب رویا اور بغیر سوچے سمجھے گھر سے نکل گیا۔ ان دنوں اس نے آٹھویں پاس کی تھی اور نویں کلاس میں گیا تھا۔ سوائے میرے، اختر کا اس دنیا میں اور کوئی نہ تھا۔ وہ میرے پاس آیا اور تمام احوال سنا کر بولا: مجھے اپنے دوست کے پاس کراچی جانا ہے۔ وہ وہاں ایک مل میں کام کرتا ہے، مجھے بھی نوکری دلوادے گا۔ میں کراچی میں رہ کر نوکری کروں گا اور پڑھتا بھی رہوں گا۔ میں نے اسے سمجھایا کہ ابھی چند دن تم میرے پاس رک جاؤ، تمہارے بہنوئی یہیں تمہارے لیے کوئی بندوبست کردیں گے۔ لیکن وہ بولا: نہیں، اب مجھے یہاں نہیں رہنے دیں گے اور میں ماں کے ظلم و ستم سے تنگ آچکا ہوں۔ ابا بھی وہی زبان بولنے لگے ہیں، جو ماں کہتی ہے۔ ایسا کب تک چلے گا؟ یہ نہ ہو کہ میں کسی روز خودکشی کرلوں یا دریا میں چھلانگ لگا دوں۔ اس کے تیور دیکھ کر ڈر گئی۔ اس کے جانے کا غم تو بہت تھا، مگر اب روک بھی نہیں سکتی تھی، لہذا کچھ رقم دے دی تاکہ بس کا کرایہ بھر سکے۔ رقم پاس ہوگی تو چند دن کا گزارہ کر لے گا۔ کیا خبر، جاتے ہی نوکری نہ ملے۔ رقم لے کر وہ چلا گیا، مگر جلدی میں دوست کا خط اس کی الماری میں رکھا رہ گیا، جس میں اس کا پتہ درج تھا۔ وہ لڑکا کبھی بھائی کے ساتھ ساتویں کلاس میں پڑھتا تھا، اس کے بعد ماں باپ کے ساتھ کراچی چلا گیا تھا۔
اختر کراچی کا ٹکٹ خرید کر ریل میں بیٹھ گیا۔ جیب میں میرے دیئے ہوئے چند سو روپے تھے۔ جب وہ کینٹ اسٹیشن پر اترا تو یاد آیا کہ جلدی میں وہ خط تو اٹھایا ہی نہیں، جس پر دوست کا پتہ لکھا ہوا تھا۔ وہ سوچ میں پڑگیا کہ اب کیا کرے؟ کہاں جائے؟ کوئی جان پہچان شہر میں تھی نہیں، اتنا یاد تھا کہ دوست نے جو خط بھیجا تھا، اس کے لفافے کی بیک سائیڈ پر پتے میں “ناظم آباد” لکھا ہوا تھا، البتہ مکان نمبر وغیرہ ذہن میں نہ رہا۔ ایک ٹیکسی والے سے کہا کہ مجھے ناظم آباد جانا ہے۔ راستے میں ٹیکسی ڈرائیور نے باتوں باتوں میں اندازہ لگالیا کہ یہ لڑکا شہر میں پہلی بار آیا ہے اور اسے کراچی کے راستوں سے واقفیت نہیں ہے۔ اس نے ناظم آباد چورنگی پر ٹیکسی روکی اور کہا: یہاں اتر جاؤ، ناظم آباد آگیا ہے۔ پھر زیادہ کرایے کا مطالبہ کردیا۔ اختر بولا: لالہ جی، آپ تو بہت کرایہ مانگ رہے ہو۔ اتنا کہنا تھا کہ ڈرائیور کا منہ غصے سے لال بھبھوکا ہوگیا۔ اس نے جھپٹ کر اس کی جیب سے بٹوہ نکالا اور یہ جا، وہ جا۔ اختر بیچارہ بے بس کھڑا دیکھتا رہ گیا۔ سمجھ ہی نہ سکا کہ یہ کیا ہوگیا ہے۔ وہ بے بس سا، ہونقوں کی مانند سڑک پر کھڑا تھا اور جیب میں کچھ نہیں تھا۔ پھر وہ وہیں ایک درخت سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا۔ دو گھنٹے وہ اسی حالت میں کھڑا رہا۔ اچانک ایک سیٹھ والا اس کے پاس آیا اور کہنے لگا: میں جب اپنی گاڑی یہاں کھڑی کر کے گیا تھا، تو تم یہاں کھڑے تھے۔ اب اتنی دیر بعد آیا ہوں تو بھی تم یہیں کھڑے ہو، کیا بات ہے؟ اختر نے مختصراً اپنا احوال سنادیا۔ وہ شخص اسے گاڑی میں بٹھا کر اپنے گھر لے آیا، کپڑے دیے، کھانا دیا، اور اس کے بعد انٹرویو شروع ہوا۔ سیٹھ سوال کرتا جاتا، اختر جواب دیتا جاتا تھا۔ آخرکار سیٹھ نے اُسے سمجھایا: بیٹا! تم ابھی کم عمر ہو، شہر کا تمہیں کوئی تجربہ نہیں ہے اور یہاں کوئی جان پہچان بھی نہیں ہے۔ بہتر ہے، تم میرے پاس رہ جاؤ۔ اس شخص کا نام سیٹھ منان تھا۔ ان کے چار بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ اختر ان کے پاس رہنے لگا۔ سیٹھ صاحب کا کاروبار اچھا چل رہا تھا، روپے پیسے کی کمی نہ تھی۔ میاں بیوی اور بچے صوم و صلوۃ کے پابند تھے۔ انہوں نے میرے بھائی کو چند دن پرکھا اور پھر اپنا لیا۔ وہ ان لوگوں میں خوش رہنے لگا۔ سیٹھ صاحب کا بڑا بیٹا لندن میں تعلیم حاصل کر رہا تھا، باقی بچے بھی پڑھ رہے تھے۔ روز صبح سب ہی اسکول چلے جاتے تھے، تب بھائی کو اپنا وہ وقت یاد آجاتا، جب وہ بھی اسکول جایا کرتا تھا۔ گھر میں اُس کا کام بس اتنا تھا کہ ڈرائیور کے ساتھ سبزی منڈی جاتا اور دکان سے جو چیزیں خریدنی ہوتی تھیں لے آتا، اور بھی کچھ ہلکا پھلکا سا کام کرتا تھا، مگر وہ یہ نہیں سمجھتا تھا کہ یہ اس کی نوکری ہے۔ گھر والے بھی یہی کہتے تھے کہ تم گھر کے فرد ہو، نوکر نہیں۔ اسی لیے وہ ان سے تنخواہ بھی نہیں مانگتا تھا اور نہ ہی انہوں نے دی۔ وہ تین سال ان کے ساتھ رہا۔ ڈرائیونگ بھی سیکھ لی۔ جو ماسٹر بچوں کو ٹیوشن پڑھانے آتا تھا، اختر بھی اس سے پڑھتا تھا۔ اس کی میٹرک کی تیاری ہوگئی تو پرائیویٹ امتحان دے کر میٹرک پاس کرلیا۔ وہ مجھے خط لکھتا تھا کیونکہ جاتے وقت میں نے اس سے وعدہ لیا تھا کہ جہاں بھی رہو، مجھے خط لکھتے رہنا تاکہ تمہاری خیریت ملتی رہے، ورنہ مجھے سکون نہ ملے گا۔ ایک روز جب میں بیمار تھی، اُسے لکھ دیا کہ بیمار ہوں، آکر مل جاؤ۔ میں تمہارے لیے بہت اداس ہوں۔ اس نے سیٹھ کو میرا خط دکھایا تو سیٹھ نے اسے نہ صرف چھٹی دے دی، بلکہ تین سال کی تنخواہ، جو اچھی خاصی رقم بنتی تھی، دے کر اُسے کپڑوں کے ایک سوٹ کیس کے ساتھ رخصت کیا۔ گاؤں پہنچتے ہی وہ میرے پاس آیا۔ اب وہ ماشاء اللہ جوان سال تھا۔ ایک ماہ کی چھٹی لے کر آیا تھا اور دو ماہ رہ گیا۔ سیٹھ کے خط آنے لگے کہ بیٹا واپس آ جاؤ۔ کیوں نہیں آتے؟ وجہ لکھو۔
ہمارے گاؤں میں ایک شخص بے روزگار لوگوں کو بیرون ملک بھیجتا تھا۔ بھائی نے اس سے بات کی۔ اس نے مقررہ رقم لے کر اختر کو سعودی عرب بھیج دیا۔ سعودی عرب جانے کے بارے میں سیٹھ اور اس کے گھر والے بے خبر تھے۔ اکثر ان کے خط بھائی کے نام آتے تو میرے شوہر خطوط کو اختر کو بھجوا دیتے تھے۔ اختر ان خطوط کا جواب نہ دیتا کیونکہ اب اسے ان لوگوں سے شرم آتی تھی کہ بغیر بتائے جاکر ان سے دغا کی تھی۔ کچھ عرصہ بعد آخرکار ان کو خط لکھ ہی دیا کہ کمانے کی خاطر وہ دیارِ غیر میں ہے، لیکن اطلاع نہیں دے سکا، اس کے لیے معافی کا خواستگار ہے۔ اس خط کا جواب سیٹھ کے بیٹے کی طرف سے آیا تو اختر کے دل پر قیامت گزر گئی کیونکہ سیٹھ کا ایک حادثے میں انتقال ہوگیا تھا اور کاروبار پر اس کے پارٹنر نے قبضہ کرلیا تھا۔ ان کے گھر والے سب اچانک بہت سی مالی پریشانیوں میں گھر گئے تھے۔ اختر نے خط پڑھا تو تڑپ کر رہ گیا۔ اس کو اجنبی شہر میں سہارا دینے والے آج مشکلات کا شکار تھے اور وہ ان سے کوسوں دور، دو بول تسلی کے بھی نہ دے سکتا تھا۔ اختر وہاں جس شخص کے پاس ڈرائیور تھا، اس نے دیانت سے کام کرنے پر اختر کو اپنا بیٹا بنالیا تھا۔ بھائی نے اُسے بتایا کہ اس کے محسن کا کنبہ پریشانیوں میں گھرا ہے اور وہ ان کی مالی مدد کرنا چاہتا ہے، تو اس کے کفیل نے اس کی ماہانہ تنخواہ بڑھا دی اور کہا کہ تم ابھی جاؤ مت، یہاں سے ان کی مالی مدد کرتے رہو۔ پس پھر وہ تنخواہ کا بیشتر حصہ سیٹھ کی بیوی کو بھیجنے لگا، جس کو وہ ماں کہتا تھا۔ یہ رقم بھیج کر اختر کو بہت خوشی ہوتی۔ دلی سکون اور طمانیت ملتی تھی کہ وہ مرحوم کے گھر رقم بھیج کر احسان کا بدلہ چکا سکتا ہے۔ اُسے لگتا، جیسے وہ یہ رقم اپنے ہی گھر والوں کو بھیج رہا ہے۔ جلد ہی سیٹھ کا بڑا لڑکا لندن سے تعلیم مکمل کر کے لوٹ آیا اور اپنے وطن میں اُسے ایک غیر ملکی کمپنی میں اعلیٰ عہدہ مل گیا، یوں اس کنبے کے گرتے ہوئے حالات سنبھل گئے۔ جب اختر چھٹی لے کر پاکستان آیا تو سب سے پہلے سیٹھ کے گھر گیا۔ انہوں نے ایک بیٹے کی طرح اُسے گلے لگایا۔ سیٹھ کی بیوی نے کہا، اختر بیٹے، اگر تم بروقت ہماری مدد نہ کرتے تو میرے بچے اپنی تعلیم مکمل نہ کرپاتے۔ خیر، اختر سمجھتا تھا کہ اس نے تو اپنا فرض پورا کیا ہے کیونکہ ان لوگوں نے بھی تو اجنبی شہر میں اس کو اس وقت اپنے گھر میں رکھا تھا، جب نہ اس کا رہنے کا ٹھکانہ تھا اور نہ کوئی دوسرا آسرا تھا۔ انہوں نے بغیر کسی واقفیت اور ضمانت کے اس پر اعتبار کرلیا تھا۔ اُن لوگوں نے اختر کو اپنے پاس روک لیا کیونکہ اب بھی ان کو اس کی بہت ضرورت تھی۔ وہی ان کے گھر کی دیکھ بھال کرتا اور ڈرائیوری بھی کرتا تھا۔ سیٹھ کی بیوی اکثر اس سے کہتی کہ بیٹا اختر! ماں باپ کا حق بہت ہوتا ہے۔ تم اتنے نیک ہو کہ ہم غیروں کو ماں باپ سمجھا اور اولاد جیسا حق ادا کیا۔ تمہیں چاہئے کہ اب اپنے اصل ماں باپ کا بھی حق ادا کرو اور دیر نہ کرو۔ بزرگوں کی زندگی کا کیا بھروسہ، بعد میں انسان کو پچھتانا پڑتا ہے۔ اس نے کچھ اس طرح سمجھایا کہ بھائی والد کے گھر جانے پر رضامند ہو گیا۔ اس کا دل گرچہ اب بھی وہاں جانے پر راضی نہ تھا، پھر بھی اس خاتون کے کہنے سننے پر وہ گاؤں آگیا۔ ایک مدت بعد بابا سے ملنے گھر پہنچا تو ان کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ باپ ضعیف ہوچکا تھا اور ماں بھی پہلے جیسی نہ رہی تھی۔ باپ دیکھ کر رونے لگے اور سوتیلی نے گلے لگایا۔ اس کا جی نہ چاہتا تھا سوتیلی ماں کے گلے لگے، مگر مجبوراً چپ رہا۔ یہاں گھریلو مالی حالات بہت خراب تھے۔ باپ کی دکان بند ہوچکی تھی، زمین بھی بیٹوں نے تھوڑی تھوڑی کر کے بیچ دی اور روپیہ بزنس کے شوق میں ٹھکانے لگا دیا۔ دونوں ہی لڑکے نافرمان نکلے۔ باپ کا یہ حال دیکھ کر اختر کو دوبارہ جهد لوٹنا پڑا۔ اب وہ آدھی سے زیادہ تنخواہ گھر بھجوانے لگا تاکہ ان کے گھریلو اخراجات کے علاوہ باپ کا علاج بھی ہوسکے۔ دو سال بعد اسے چھٹی ملی تو وہ اس وجہ سے گھر لوٹا کہ باپ بیمار ہے اور چھوٹے بھائیوں کے حالات بھی دیکھنے ہیں۔ کب تک وہ نکمے پھریں گے؟ ان کو کوئی دکان ہی ڈال دے، تو والدین کے لئے روزی روٹی کا کوئی ذریعہ بنے۔ گھر آیا تو پتا چلا کہ حالات اور بگڑ چکے ہیں۔ جو جمع پونجی بچائی تھی، اس سے دونوں سوتیلے بھائیوں کو دکان لے کر دی اور سامان بھی ڈال دیا۔ ایک ماہ کی چھٹی بڑھا لی اور باپ کا علاج معالجہ کرانے لگا۔
ابا کے گھر کے قریب میری سگی والدہ کی خالہ زاد بہن نسرین رہتی تھیں، جو ہم سے پیار بہت کرتی تھیں، تبھی اختر کو ان سے بہت انسیت تھی۔ وہ ان کے گھر جانے لگا۔ ان کی ایک لڑکی ثانیہ، جو اس کی ہم عمر تھی، وہ اس کو پسند کرنے لگی۔ بھائی کو بھی وہ اچھی لگی اور دونوں نے شادی کا خیال بنالیا۔ نسرین خالہ نے اپنی بیٹی کا جھکاؤ اختر کی جانب پایا تو سوچا کہ لڑکا بُرا نہیں، کماؤ ہے اور میرا بھانجا ہے۔ انہوں نے بھائی سے بات کی اور بولیں، بیٹے، میں پسند کی شادی کے خلاف نہیں ہوں۔ ہم ایک ہی خاندان سے ہیں۔ بہتر ہے کہ تم والدین کو لے آؤ اور ثانیہ سے منگنی کرلو تاکہ لوگ باتیں نہ بنائیں۔ بھائی نے گھر میں ماں سے بات کی۔ اس عورت نے اوپری دل سے تو خوشی ظاہر کی لیکن ابا سے جانے کس ڈھنگ سے بات کی کہ وہ نسرین خالہ کا نام سن کر آگ بگولہ ہوگئے اور اختر کو بُرا بھلا کہنے لگے کہ آتے ہی محلے میں عشق بازی کرنے لگے۔ اگر شادی ہی کرنی ہے تو ہم سے کہو۔ میں تمہاری شادی مسعودہ سے کرادیتا ہوں، وہ تمہاری امی کی بھانجی ہے۔ بس تمہیں اُسی سے شادی کرنا ہے، یہی میرا حکم ہے۔ ابا پھر بیوی کی باتوں میں آگئے تھے۔ اس کے اپنے لڑکے تو نکمے تھے۔ اب لڑائی چھڑ گئی۔ میں اور بھائی ایک طرف اور ابا ایک طرف جبکہ ماں نے چپ سادھ رکھی تھی۔ اختر نے مجھ سے مشورہ کیا۔ بھیا، تم اماں ابا کو اب رہنے دو۔ مانکے اپنے مطلب اور مقاصد ہیں۔ تم ان کی مالی مدد کرتے رہنا، لیکن شادی تم اپنی پسند سے کرو مگر ان کے شوہر بغیر ابا امی کے مجھے بیٹی کا ہاتھ نہیں دیں گے۔ فکر مت کرو، تمہارے بہنوئی اور میں تمہارا رشتہ لے کر جائیں گے اور ان کو راضی کرلیں گے۔ میں نے شوہر سے بات کی، انہوں نے کہا۔ میں تمہارے والد کے پاس جاتا ہوں، امید ہے انہیں منالوں گا۔ وہ گئے بھی، مگر سوتیلی ماں سر سے ایک پل کو نہ ہٹی، یوں معظم کھل کر بات نہ کر سکے اور ابا تو نسرین خالہ کا نام سن کر ہی چراغ پا ہوگئے۔ کہنے لگے کہ میں اختر کی شادی اپنی بیوی کی بھانجی سے ہی کروں گا۔ یہ میرا آخری فیصلہ ہے، اب دوبارہ مجھے سمجھانے مت آنا۔ معظم نے جب یہ احوال دیا، میں رونے لگی۔ تب انہوں نے کہا کہ میں یہ کر سکتا ہوں کہ ان کی سول میرج کروادیتا ہوں۔ تم اس معاملے سے لا تعلق رہنا اور لڑکی نکاح کے بعد والدین کے گھر چلی جائے گی۔ جب تک اختر سعودی عرب سے اس کا ویزہ لے کر نہ آجائے، یہ بات اسے راز رکھنی پڑے گی۔ پھر ایسا ہی ہوا۔ ان کے دوست کی مدد سے ان دونوں کا نکاح ہوگیا، اس کے بعد اختر فوراً سعودی عرب روانہ ہوگیا، تاکہ وہاں جا کر ضروری قانونی کاغذات بنوا کر بیوی کو بلوا سکے۔ میں مانتی ہوں کہ میں نے اپنے والد کی رضا کے بغیر قدم اُٹھایا۔ بے شک کوئی مجھے نافرمان اور بھائی کو ناخلف کہے، مگر میں نے اپنے بھائی کی خوشی پوری کر کے کچھ بُرا نہیں کیا۔ میرے بھائی کو زندگی کی خوشیاں مل گئیں۔ تمام عمر میں پہلی بار اُسے حقیقی اور دلی خوشی ملی تھی، جو اس کا حق تھا۔ ابا کافی مدت اختر سے ناراض رہے مگر بعد میں وہ راضی ہوگئے، البتہ سوتیلی ماں کے بارے میں کچھ نہ کہہ سکتی کہ اس کے دل پر کیا گزری۔