Thursday, February 13, 2025

Dard Ka Soda

آنکھ کھولی تو بری گھڑی نے اپنا منحوس سایہ مجھ پر ڈال دیا۔ میرا معصوم بچپن محرومیوں کی گود میں بسر ہوا۔ چھوٹی چھوٹی خواہشیں افلاس کی کند چھڑی سے ذبح ہوتی رہیں۔ جوانی آئی تو بدبختی بھی ساتھ لائی۔ جب گڑیوں سے کھیلنے کے دن تھے، ماں باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ ترس کھا کر چچا گھر لے آئے، تبھی میرے ننھے ننھے ہاتھوں نے ہنڈکلیا سے کھیلنے کے بجائے برتن دھونا، جھاڑو لگانا اور کپڑے دھونا سیکھا۔

یہ دن ایسے تھے جیسے کسی اکیلے مسافر کے راستے میں تپتی دھوپ اور ببول کے کانٹے ہوتے ہیں۔ آج تک اُن نوکیلے دنوں کی یاد میرے رگ و پے میں چھبتی رہتی ہے۔ ماں باپ کا تصور کرتی ہوں تو جگر سے لہو ٹپکنے لگتا ہے۔ سولہ کا سن ہوا تو چچا اور دادا مجھ یتیم پر رحم کھاتے دیکھ کر اپنا منہ ادھر ادھر پھیرنے لگے اور چچی جھرجھریاں لینے لگیں۔ گلی محلے کے لڑکے میری جھلک دیکھ لیتے تو کہتے، میاں جی کے دروازے پر پڑے پردے کے پیچھے کوئی قیامت ہے یا بلا ہے۔ اب اس بلا کو کسی کے سر منڈھنے کی فکر گھر والوں کو چپکے چپکے ستانے لگی تھی۔

پڑوسنیں آتیں تو مجھ پر گہری نظر ڈال کر چچی سے سرگوشی میں کہہ جاتیں، جوان لڑکی ہے بہن، جلدی سے اس کے ہاتھ پیلے کرو۔ زمانہ برا ہے، ہم اچھے ہیں تو کیا ہوا۔ خود کو نہ جانچو، زمانے کی فکر کرو۔ چچی دادا سے پوچھتیں، پوتی کو کب بیاہنے کا ارادہ ہے؟ دادا جواب دیتے، کوئی اچھا رشتہ آئے تو ہم بھی جلدی اس فرض سے نمٹنا چاہتے ہیں۔ چچی کہتیں، ہاں، جو بھی رشتہ آئے، زیادہ سوچ بچار میں نہ پڑیں۔ آپ کو تو بڑھاپے کی جھپکیاں آنے لگی ہیں اور آپ کے سپوت ٹھہرے سدا کے لاپروا، ان کی بھتیجی کے بیاہنے کی کوئی فکر ہی نہیں۔

دادا کی گہری جھپکیاں بڑھاپے کی آخری ہچکی میں بدل گئیں، مگر میرے ہاتھ پیلے کرنے کوئی نہ آیا۔ جب چچا کو میری گزرتی عمر کا احساس ہوا تو وہ بھی فکر میں پڑ گئے۔ ہم جس علاقے کے باسی تھے، وہاں شادی کے وقت لڑکیوں کو نکاح میں دینے کے عوض دولہا یا اس کے وارثوں سے رقم لینے کا رواج تھا۔ لہٰذا جو بھی رشتہ آیا، وہ میری زندگی کا گاہک ہی آیا۔ تبھی چچا نے سوچا کہ جب بیچنا ہی رسم نکاح میں شامل ہے، تو پھر کسی ایسے کو داماد کیوں نہ بنائیں کہ لڑکی بھی امیر گھر میں جائے اور ہماری غربت کا بھی کچھ مداوا ہو جائے۔ تبھی انہوں نے مجھے کوہاٹ کے ایک امیر گھر کے سربراہ حاجی صاحب کے ہاتھ بیچ دیا۔ اس نے بدلے میں میرے چچا کی جھولی کو روپوں سے بھر دیا۔ یوں میرے جسم و جان کا سودا ہو گیا۔

ہمارے یہاں یہ رسم نہ تھی، اور چچا میرا ایسا بیاہ نہ چاہتے تھے، مگر غربت ان کی مجبوری بن گئی کیونکہ ان کے بہت سے بچے تھے۔ میں چچا کے افلاس بھرے گھر سے ایک کھاتے پیتے خوشحال گھر میں منتقل ہو گئی۔ نیا شہر، نیا گھر، اور نیا ماحول کئی دنوں تک دل پر وحشت طاری رہا۔ پھر وقت کے ساتھ ذہن نے نئے حالات سے سمجھوتہ کر لیا اور گھبراہٹ دور ہو گئی۔ سسرال والوں کے اچھے سلوک اور اچھی خوراک سے میرا رنگ و روپ نکھرتا گیا۔

میں ان پڑھ، گنوار لڑکی تھی، لیکن میرے حسن کا یہاں کوئی ثانی نہ تھا اور میری عادتیں اچھی تھیں۔ بڑوں کا ادب اور سلیقہ مندی میری شخصیت کا حصہ تھے۔ شرافت گھٹی میں پڑی تھی۔ کبھی کسی غلط ہاتھ نے مجھ کو نہیں چھوا، نہ کسی کی میلی نظر مجھ پر پڑی۔ کوئی نظر بھر کر دیکھتا تو میں سمٹ کر گلنار ہو جاتی۔ میری معصوم اور بے ساختہ باتوں نے میرے شوہر کا دل جیت لیا۔حاجی صاحب کی بیوی اب مجھے بہو نہیں بلکہ بیٹی سمجھنے لگیں۔ مجھے بچپن سے محنت مشقت کی عادت تھی، سو بن کہے گھر کے سارے کام کر دیتی تھی۔ میرے سگھڑاپے نے اُن کے مکانوں کو محلوں کی شان عطا کر دی تھی۔ ان کو میرے جیسی بہو چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہ ملتی۔ یہ ہیرا خوش قسمتی سے اُن کے گھر کی زینت بنا تھا۔ مجھے خرید لانے کے بعد فوراً ہی دو چار رشتے داروں کو اکٹھا کر کے حاجی صاحب نے میرا نکاح اپنے بیٹے محبوب خان کے ساتھ پڑھوا دیا۔ ساس سسر نے گھر پر ہی مجھے زیورِ تعلیم سے آراستہ کر کے مجھ میں جو کمی رہ گئی تھی، اسے پوری کرنے کی کوشش کی۔

اب میں ہر غم اور فکر سے آزاد تھی۔ اتنا اچھا شوہر پا کر میں سمجھتی تھی کہ یہی میری زندگی کی معراج ہے۔ وہ بھی میرے بغیر کھانا نہ کھاتے تھے۔ اس دوران میری گود ہری ہو گئی۔ میں خوشی سے پھولی نہ سماتی تھی، مگر افسوس کہ یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی۔ بچہ چند دن زندہ رہنے کے بعد فوت ہو گیا۔ میں بیٹے کو کھو کر بلک بلک کر روئی۔ یوں لگا کہ میرے روشن گھر میں اندھیرا بھر گیا ہے۔ ہر دم گھٹا گھٹا سا رہتا۔ دن رات آنسو گرتے رہے، پھر اس سیلاب بلا نے میرا سکون بہا دیا۔ آنکھوں سے اشک امنڈ امنڈ کر آتے اور میرے گھروندے کا تنکا تنکا بہا لے جاتے۔

ذرا سی بات کے بہانے میری زندگی بدل گئی۔ میرے شوہر کو اچانک نئے کاروبار کی سوجھی اور وہ اس سلسلے میں لاہور چلے گئے۔ ان کا جانا تھا اور میری بدبختی کا آغاز ہو گیا۔ میرا پورشن سسرال کے ایک گوشے میں واقع تھا۔ جو مہمان آتے، وہ سسر کے حصے میں ٹھہرتے تھے۔ اس دن ساس اپنی بیٹی کے گھر دوسرے گاؤں گئی ہوئی تھیں اور سسر، محبوب خان کے ساتھ نئے کاروبار کے سلسلے میں کچھ لوگوں سے ملنے چلے گئے تھے۔ اُن کے جاتے ہی سسر کے ایک رشتہ دار آ گئے۔ وہ پہلے بھی کئی بار آ چکے تھے۔ ساتھ ان کی بیوی بھی تھیں۔ میں نے انہیں عزت سے بٹھایا اور کھانے وغیرہ کا پوچھا۔ انہوں نے سوال کیا کہ حاجی صاحب اور ان کی بیوی کب آئیں گے؟ میں نے کہا کہ شاید شام تک آ جائیں گے۔ اس شخص کا نام شیر از خان تھا۔ اس نے کہا، میں نے بیوی کو شہر کے اسپتال میں دکھانا ہے۔ میں انہیں اسپتال لے جا رہا ہوں، تب تک حاجی صاحب یا ان کی بیوی آ جائیں گے۔ یہ کہہ کر دونوں میاں بیوی چلے گئے۔

دوپہر کو شیراز خان نے دوبارہ دروازے پر دستک دی۔ وہ اکیلا تھا۔ میں نے پوچھا، چاچا! آپ کی بیوی کہاں ہیں؟ افسردہ لہجے میں بولا، اُسے ڈاکٹر نے اسپتال میں داخل کر لیا ہے۔ آپریشن بتایا ہے۔ ہم کسی تیاری کے بغیر آئے تھے، اب ایک شال، تکیہ، تھرماس، چائے کے گلاس اور کپ ایک ٹوکری میں رکھ دو۔ مجھے یہ سامان لے کر اسپتال جانا ہے۔ تمہارے ساس سسر آئیں تو بتا دینا کہ جان بی بی اسپتال میں داخل ہیں۔ میں نے تمام اشیا باسکٹ میں رکھ دیں اور کہا، چاچا، کھانا بھی بنا ہوا ہے، میں ٹفن میں ڈال کر دے دیتی ہوں۔ آپ اسپتال میں کہاں کھانا لیتے پھریں گے؟وہ راضی ہو گیا اور میرے سسر کے کمرے میں بیٹھ گیا۔

میں نے کھانا ٹفن میں ڈال کر اسے دینے گئی، لیکن مجھے معلوم نہ تھا کہ اس کی نیت میں فتور آ چکا ہے۔ جیسے ہی میں نے باسکٹ لے کر وہاں پہنچی، اس نے جلدی سے کمرے کی اندر سے کنڈی لگا دی۔ میں نے اسے اپنے سسر کی عزت کا واسطہ دیا، مگر وہ شیطان اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب ہو گیا اور پھر وہاں سے نکل گیا۔ میں صدمے سے خود کو جیتے جی مردہ سمجھنے لگی۔ روتے ہوئے کچن میں جا بیٹھی اور چولہے کی راکھ سے اپنے سر کو خاک آلود کر لیا۔ جب تک ساس واپس نہ آئیں، میں روتی رہی۔

ساس مجھے اس حالت میں دیکھ کر گھبرا گئیں۔ میں ان کے گلے لگ کر رو پڑی۔ الفاظ تو آنسوؤں میں بہہ گئے۔ کچھ دیر بعد میں نے ہچکیوں میں اپنی بیتی قیامت کا احوال ان کو بتا دیا۔ وہ غم کے مارے سکتہ میں چلی گئیں۔ مہینہ بھر بعد وہ خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ میرے غم نے ان کا کلیجہ شق کر دیا تھا۔ ایک دن وہ لڑکھڑانے لگیں۔ میں نے اپنا غم بھلا کر انہیں سنبھالا۔ بڑی مشکل سے انہیں کچن کی دیوار کے پاس پڑے تخت پر لٹا دیا، مگر ان کا بدن ٹھنڈا اور بے جان ہو چکا تھا۔ ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر چکی تھی۔

یوں اس نیک بخت عورت کا سہارا بھی جاتا رہا اور میں دنیا کا مقابلہ کرنے کے لیے اکیلی رہ گئی۔ میری ساس نے تو میرے لٹنے کی داستان نہ اپنے شوہر کو بتائی تھی اور نہ بیٹے کو، مگر میں خاموش نہ رہ سکی اور محبوب کو ہر بات بتا دی۔ اس کا ردِعمل عجیب تھا۔ وہ مجھ سے متنفر ہو گیا اور بے رخی برتنے لگا۔ یہ صورتِ حال نہ اسے برداشت تھی اور نہ مجھے۔ ایک روز وہ تجارت کا بہانہ بنا کر آذربائیجان چلے گئے اور پھر واپس نہ لوٹے۔اب میں اور حاجی صاحب گھر میں تنہا رہ گئے۔ وہ بےچارے بیٹے کی جدائی میں سلگتے رہتے تھے اور شریکِ حیات کی وفات نے ان کا دل توڑ دیا تھا۔ کاروبار میں بھی دل نہیں لگتا تھا، مگر بزنس دیکھنا ان کی مجبوری تھی۔ جب انہیں دوسرے شہر جانا ہوتا تو میری فکر لگی رہتی کیونکہ اب میری ذمہ داری ان پر تھی۔ ان کا گھر پر رہنا ضروری تھا، اور ان کی خدمت بجا لانا میری مجبوری تھی۔ کھانے کے معاملے میں وہ لازماً گھر کا کھانا کھاتے کیونکہ باہر کے کھانے سے بیمار پڑ جاتے تھے۔

ایک دن میں نے ہمت کر کے ان سے کہہ دیا، چاچا جی، آپ دوسری شادی کر لیں۔ وہ حیرت سے بولے، بیٹی! اس عمر میں مجھے کون رشتہ دے گا؟ میں نے جواب دیا، مگر آپ بھی تو تنہا نہیں رہ سکتے۔ دیکھ بھال کے لیے آپ کو شریکِ حیات کی ضرورت ہے۔ میں تو صرف کھانا پینا کر سکتی ہوں، لیکن دکھ بیماری میں تو بیوی ہی ساتھ دیتی ہے۔ آپ کے پاس روپے پیسے کی کمی نہیں۔ اگر کوئی رشتہ نہیں ملتا تو آپ کوئی عورت خرید کر اس سے نکاح کر لیں۔ آخر آپ نے مجھے بھی تو خریدا اور بہو بنایا۔ ایسے ہی اپنا بھی گھر بسا لیں۔ یوں مجھے بھی اکیلے گھر میں رہنے سے جو تنہائی اور گھبراہٹ محسوس ہوتی ہے، وہ ختم ہو جائے گی۔

میری بات ان کی سمجھ میں آ رہی تھی، مگر لحاظ کی وجہ سے خاموش تھے۔ بالآخر میں نے کوشش کر کے اپنے گاؤں میں ایک ایسے گھرانے کا سراغ لگا لیا جو غریب مگر شریف لوگ تھے۔ ان کی بیٹی کی عمر پینتیس سال کے قریب ہو چکی تھی، اور وہ بن بیاہی بیٹھی تھی کیونکہ ان لوگوں میں رشتہ کے بدلے رقم لینے کی روایت نہیں تھی۔ میں نے ایک ملازمہ کے ذریعے بات چلائی اور حاجی صاحب کا گھر بسانے میں مدد کی۔ حاجی صاحب پینسٹھ سال کے تھے، مگر صحت مند تھے۔ ان کی دوسری بیوی آ گئی، تو ہم دو عورتیں ہو گئیں اور میں اکیلی نہ رہی۔

میرے سسر کا غم تو ہلکا ہو گیا، لیکن میرا غم جو میرے سینے پر پہاڑ جیسے بوجھ کی طرح تھا، آج بھی ویسا ہی ہے۔ میں آج بھی اپنے محبوب شوہر کا انتظار کر رہی ہوں۔ محلے داروں اور گاؤں والوں کی نظر میں میں ایک باوفا بیوی اور عزت دار عورت ہوں، جس کو سب جھک کر سلام کرتے ہیں۔ میں دوسری شادی نہیں کرنا چاہتی کیونکہ مجھے اپنے محبوب خان کے لوٹ آنے کا انتظار ہے، جو میں اپنی زندگی کی آخری سانس تک کرتی رہوں گی۔ نہیں معلوم محبوب خان زندہ بھی ہیں یا نہیں، مگر میں انہیں زندہ ہی تصور کرتی ہوں۔

برسوں پہلے جو زہر میرے جسم میں اترا تھا، اس نے میری روح اور ضمیر کو نیلا کر دیا تھا۔ خدا جانے اس بوڑھے شیطان کو قدرت کی طرف سے کوئی سزا ملی یا نہیں، مگر مجھے تو بنا کسی قصور کے ایک طویل سزا بھگتنی پڑی۔ اب تو موت ہی مجھے اس سزا سے رہائی دلا سکتی ہے، کیونکہ میں ایک خریدی ہوئی عورت ہوں۔

Latest Posts

Related POSTS