والد صاحب کی طبیعت میں دیانت داری تھی۔ انہوں نے ہمیں بھی قناعت کی زندگی بسر کرنے کی تلقین کی۔ انہوں نے جماعت اول سے ہی اپنے اکلوتے بیٹے کو خود پڑھانا شروع کیا۔ وہ اس کو تعلیم یافتہ ہی نہیں ایک نیک انسان بھی دیکھنا چاہتے تھے۔ والد صاحب کی توجہ اور محنت کی وجہ سے اعجاز ہر جماعت میں اول آنے لگے اور میٹرک بھی فرسٹ پوزیشن لی۔ میٹرک کے بعد ماموں ہمارے گھر مبارک باد دینے آئے اور خواہش ظاہر کی کہ اعجاز میرے ساتھ چلے اور کاروبار میں ہاتھ بٹائے۔ یہ محنتی لڑکا ہے مجھے ایسے ہی نوجوان کی ضرورت ہے لیکن اعجاز نے انکار کر دیا۔ اُسے پڑھنے کا شوق تھا، وہ کسی صورت ماموں جان کے ساتھ نہیں جانا چاہتا تھا۔ ماموں نے امی ابو کو سمجھایا کے میڈیکل یا انجینئر نگ میں داخلہ نہیں ملنے کا۔ خواہ مخواہ پڑھائی میں وقت ضائع کرنے کی بجائے ابھی سے کام پکڑلے تو تجربہ آئے گا اور کمانا بھی شروع کر دے گا۔ آپ لوگوں کی غربت جلد دور ہو جائے گی۔ میرے والدین تو ماموں کے سمجھانے سے راضی ہو گئے کہ وہ اپنے کاروبار میں اعجاز کو شراکت دار بنانے کا ارادہ رکھتے تھے مگر بھائی کسی طور راضی نہ ہوا اور گھر والوں سے جھگڑ کر حیدر آباد چلا گیا۔ اس نے وہاں کالج میں چچا جان کے ذریعے داخلہ لے لیا۔ چچی ذرا سخت مزاج تھیں، وہ اعجاز بھائی کو گھر میں نہیں رکھنا چاہتی تھیں لہذا چچانے اس کے رہنے کا ہوسٹل میں بندوبست کر دیا۔ ایک ماہ بعد اعجاز کو آفس میں بلوایا گیا۔ میڈم نے اس سے درخواست کے بارے میں پوچھا جو اس نے انٹرویو کے وقت پر نسپل سے فارورڈ کروائی تھی۔ اعجاز نے ان کو بتایا کہ وہ درخواست فارم کے ساتھ جمع کروادی گئی تھی۔ میڈم نے کہا۔ تمہاری درخواست فارم کے ساتھ فائل میں نہیں ہے، تب اعجاز نے کہا کہ وہ گھر جا کر درخواست کے بارے پتا کرے گا، شاید وہ گھر والی فائل میں موجود ہو۔ اعجاز بھائی کے ساتھ آٹھ دس لڑکے اور بھی تھے۔ کچھ نے تو فوراً درخواستیں لا کر جمع کروادیں اور باقیوں نے دو تین دن میں جمع کروانے کا وعدہ کر لیا۔ ویک اینڈ پر اعجاز گھر آگیا۔ اس نے اور ہم سب گھر والوں نے بہت تلاش کیا مگر مطلوبہ درخواست نہ مل سکی ، تب میڈم نے کہا کہ کسی بڑے کو گھر سے لائو۔ ابو آفس ڈیوٹی کے باعث اس کے ہمراہ نہیں جا سکتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ تم اپنے چچا کو لے جائو۔ چچا بیمار تھے ، وہ بھی نہ جاسکے ، یوں دو تین ہفتے گزر گئے۔ میڈم نے ایک دن پھر اعجاز بھائی کو آفس بلایا اور خوب ڈانٹ ڈپٹ کی۔ وہ روہانسے ہو کر گھر آگئے۔ جب چچا کی طبیعت سنبھلی تو ان کو لے کر دوبارہ میڈم کے پاس گئے۔ انہوں نے سخت لہجے میں بات کی اور کہا کہ اب اس معاملے کا فیصلہ پرنسپل صاحب ہی کریں گے کہ تم اس کا لج میں رہ سکتے ہو یا نہیں۔ چچا جان پرنسپل سے ملے مگر وہاں بھی مایوسی ہوئی۔ انہوں نے بھائی کا ایڈمیشن ہی کینسل کرنے کا ارادہ ظاہر کر دیا۔ چچا جان نے بھی اسی کالج سے پڑھا تھا۔ وہ اپنے پرانے پروفیسر کے پاس گئے۔ انہوں نے کہا کہ اعجاز کو کالج میں چھوڑ جائو میں خود پر نسپل سے بات کروں گا۔ چچا اعجاز کو ہوسٹل تو چھوڑ کر چلے گئے لیکن میرے بھائی کے دل پر ایسا اثر ہوا کہ وہ بیمار ہو گیا اور ویک اینڈ پر بھی گھر نہ آیا۔ انہی دنوں ماموں ہمارے گھر آئے۔ امی نے ان کو اپنی پریشانی سے آگاہ کیا۔ وہ بولے۔ یہ اچھا ہوا، اعجاز آئے تو اس کو کہنا کہ جو بڑوں کا کہنا نہیں مانتے ان کا یہی حال ہوتا ہے۔ اگلے دن اعجاز نے انتظار کیا۔ جب سابقہ پر وفیسر ہوسٹل نہ آئے تو گھبرا کر اس نے خود ہی اپنا ایڈمیشن کینسل کروا دیا اور کتابیں وغیرہ اٹھا کر گھر آگیا۔ وہ اس روز بہت افسردہ تھا۔ اس نے والد صاحب کو بتایا کہ کالج والوں نے میر ایڈمیشن کینسل کر دیا ہے۔ والد صاحب نے کہا۔ تم نے بڑی جلدی کی، تمہاری درخواست فائل میں رہ گئی تھی۔ وہ کاغذات میں کہیں اوپر نیچے ہو گئی ہو گی۔ تم کو پروفیسر صاحب اور چچا کا انتظار کرنا چاہئے تھا یا پھر تم دوبارہ جا کر چچا سے مل لیتے ۔ تم کو خود سے اپنا ایڈمیشن کینسل نہیں کروانا چاہئے تھا۔ کوئی نہ کوئی صورت نکل ہی آتی۔ والد صاحب کی باتیں سن کر بھائی پھر پچھتانے لگا کہ یہ میں نے کیا کیا۔ ماموں کو پتا چلا کہ اعجاز آیا ہے تو وہ پھر آگئے۔ کہا کہ تم میرے ساتھ چلو اور میرے کام میں ہاتھ بٹائو۔ اعجاز نے پھر انکار کر دیا۔ اس کو تعلیم کے جنون نے اندھا کر رکھا تھا۔ ہماری پھپھو ، سانگھڑ میں رہتی تھیں، وہ سانگھڑ چلا گیا اور جا کر پھپھو کو ساری بات بتائی۔ انہوں نے کہا۔ تم میرے پاس رہ جائو، میں تمہاری تعلیم کے اخراجات برداشت کروں گی۔ یوں آسرا ملتے ہی بھائی نے وہاں گورنمنٹ کالج میں داخلہ لے لیا۔ گورنمنٹ کالج میں ، ان دنوں پڑھائی کا ماحول ایسا مؤثر نہ تھا، بھائی نے مجبوراً ٹیوشن پڑھنی شروع کر دی۔ اس قدر دل لگا کر پڑھا کہ ان کا شمار اچھے طالب علموں میں ہونے لگا۔ ہر ٹیسٹ میں میرے بھائی کی پوزیشن آنے لگی۔ پروفیسرز جو میرے بھائی کو ٹیوشن پڑھاتے تھے، ان سب نے اعجاز کو ضلع کا سب سے بہترین اسٹوڈنٹ قرار دے دیا۔ ان میں سے ایک نے بھائی سے کہا۔ اعجاز تمہیں کیمسٹری پر خاص توجہ دینی چاہئے ، لہذا جس دن کیمسٹری کا پرچہ ہو تم ضرور میرے پاس آنا۔ یوں ہی ایک دن جب وہ فزکس کی ٹیوشن پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ گیا تو سر نے اس کو ٹیوشن کے بعد روک لیا۔ جب دوسرے لڑکے چلے گئے سر نے اس سے تنہائی میں بات کی۔ اعجاز تمہارے والد صاحب کیا کام کرتے ہیں؟ اور کون تم کو سپورٹ کرتا ہے ؟ انہوں نے پھر پھوپھا کے کاروبار وغیرہ کا پوچھا، یوں تمام شجرہ پوچھ ڈالا۔ اس کے بعد سر نے اعجاز کو دبے لفظوں پیپرز حل کروانے کی آفر دی۔ بھائی نے کہا کہ سوچ کر جواب دوں گا۔ بھائی نے گھر آکر والد صاحب سے مشورہ کیا۔ انہوں نے سختی سے روکا۔ تبھی اعجاز نے پروفیسر صاحب کو منع کر دیا اور کہا کہ اللہ نے چاہا تو میری محنت ضرور رنگ لائے گی۔ استاد صاحب خاموش ہو گئے۔
امتحان سر پر آپہنچے۔ اعجاز بھیا نے دن رات ایک کر کے خوب تیاری کی تھی اور امتحان کو تقریباً پانچ ماہ گزر گئے ہوں گے۔ بھائی ان دنوں گھر آیا ہوا تھا اور رزلٹ بھی آنے والا تھا۔ ایک دن ابو نے بھائی کو سوتے میں اٹھایا اور کہا کہ اپنا رول نمبر بتائو، تمہارا نتیجہ آگیا ہے۔ اپنا نمبر بتانے پر معلوم ہوا کہ اس پر تو کاپی کیس ہوا ہے۔ بھائی سوچ میں پڑ گیا کہ یہ سب کچھ کیسے ہو گیا۔ اس نے فور اسامان اٹھایا اور کالج چلے گئے۔ کالج سے پتا چلا کہ ان پر کاپی کیس نہیں ہوا، بھیانے پوری لسٹ حاصل کی۔ جن لڑکوں پر کاپی کیس ہوا تھا، ان میں اعجاز کا نام نہیں تھا۔ اب وہ پریشان تھے کیا کروں، کدھر جائوں۔ کس سے مدد کے لئے کہوں؟ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ میرے ماموں کا اثر و رسوخ تھا مگر وہ کبھی تعلیم کے معاملے میں بھائی سے مخلص نہیں تھے۔ انہوں نے اس معاملے میں کبھی بھائی کی مدد کی ہی نہیں تھی۔ البتہ ہمارے پھوپھا کے بھائی نوید نے کہا کہ میں تمہارا مسئلہ حل کرا دوں گا۔ تم فکر مت کرو، ہاں مگر کچھ نہ کچھ خرچے کا انتظام کرو۔ ایک تو بھائی کی عمر کم تھی، اوپر سے کسی کا کوئی بھروسہ بھی نہیں تھا۔ گھر کا دوسرا کوئی فرد ان کے ہمراہ نہیں تھا۔ وہ نوید کی بات پر یقین کر بیٹھا اور ان کی شرط کے مطابق امی کی دو سونے کی چوڑیاں بیچ کر روپے اس کو تھما دیئے۔ اس بات سے ابو کر بھی لاعلم رکھا۔ نوید نے وعدہ کیا تھا کہ ایک دو ہفتوں میں یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔ بھائی اب روز نوید کے گھر جاتا، مگر ناامیدی اور مایوسی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوتا۔ چکر لگاتے دو ماہ گزر گئے اور کچھ نہ بنا۔ ان دنوں میرا بھائی کن عذابوں سے گزرا، میں بیان نہیں کر سکتی۔ سارا سارا دن سوتے رہنا، پڑھنا اور نہ لکھنا، تنہائی میں اپنے آپ سے باتیں کرنا۔ اب پڑھائی میں دن بہ دن اُن کا معیار گرتا جارہا تھا۔ استاد پوچھتے اعجاز تمہیں کیا ہو گیا ہے ؟ وہ کچھ نہ بتا پاتا۔ انٹر کے امتحانوں کی تاریخی آگئی مگر اعجاز نے فارم نہیں بھرے کیونکہ پہلے امتحانوں کا فیصلہ ہو تو آگے فارم بھرے۔ ایک دوست نے کہا کب تک دوسروں کے بھروسے رہو گے، چلو ہم خود بورڈ چلتے ہیں۔ اعجاز کو بورڈ آفس جانے سے ڈر لگتا تھا کہ پتا نہیں وہ لوگ اس کے ساتھ کیا کریں۔ متعلقہ برانچ سے پتا چلا کہ اس کے کاپی کیس کا لیٹر کالج بھجوا دیا گیا ہے۔ کالج آکر پتا چلا کہ لیٹر یہاں پہنچا ہی نہیں۔اس نے کچھ دن انتظار کیا مگر لیٹر نہ آیا۔ دوبارہ بور ڈ کا رخ کیا ، انہوں نے پھر وہی جواب دیا۔ وہ کالج واپس آیا تو پھر مایوسی ہوئی۔ چند دنوں بعد کالج سے ایک لیٹر ملا، جس میں حاضری کی تاریخ پانچ درج تھی جبکہ لیٹر تیرہ کو موصول ہوا گویا کہ جس تاریخ کو پیش ہونا تھا، وہ کب کی گزر چکی تھی۔ لیٹر لے کر وہ بچارا پھر سے بورڈ گیا۔ کلرک سے فریاد کی کہ تم نے مجھے اتنی تاخیر سے کیوں لیٹر بھیجا ہے، وہ الٹا گلے پڑ گیا۔ پرنسپل صاحب کو بتایا۔ انہوں نے کہا بیٹا، انتظار کرو اور جو بورڈ تمہارے بارے فیصلہ کرے اس کو قبول کر لو۔ وہ اگلے دن پھر بورڈ گیا تو معلوم ہوا کمیٹی نے ایک پیپر کینسل کر دیا ہے۔ اور وہ بھی سب سے مضبوط جو اس کا سبجیکٹ تھا یعنی بیالوجی کا۔ بھائی دُکھ سے نڈھال تھا لیکن تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیا۔ فارم کی تاریخ ملی اور بھائی نے فارم جمع کروادیئے۔ اب امتحان میں صرف تین دن تھے مگر سلپ نہ آئی۔ کالج والوں نے کہا۔ تم بورڈ سے پتا کرو۔ بورڈ جا کر پتا کیا تو انہوں نے کہا کہ تمہارے فارم ہی بورڈ میں نہیں پہنچے۔ کالج سے وہ لسٹ لی جن کے فارم بورڈ بھجوائے گئے تھے، مگر یہ بھی کار آمد ثابت نہ ہوا۔ اعجاز ، ڈائریکٹر صاحب سے بھی ملا، پھر بورڈ میں بیٹھے مختلف لوگوں سے ملا کہ کوئی میری مدد کرے گا، کوئی تو احساس کرے گا مگر کسی نے مدد نہ کی۔ مایوس ہو کر میرا بھائی اپنے ایک دوست کے پاس گیا۔ اس کی کوششوں سے اسے نئے فارم ملے پھر بورڈ جا کر خود فارم جمع کروائے۔ چھ سو روپے فالتو دیئے اور دستی سلپ لے کر آیا۔ اگلے دن امتحان تھا۔ وہ انٹر میڈیٹ تو کلیئر کر گیا مگر سی گریڈ میں ، پھر اس کو تعلیم اور تعلیم دینے والوں سے ہی نفرت ہو گئی۔ اعجاز کالج سے فارغ ہو کر گھر آیا۔ پھر کسی نے اس کو ان ہاتھوں کے بارے بتایا، جنہوں نے اس کو اتنا رلایا تھا۔ پتا چلا کر وہ وہی پر وفیسر تھے ،انہوں نے یہ سب کچھ پیسے دے کر کام نہ کروانے کی وجہ سے کیا اور چند روپوں کی خاطر میرے بھائی کا مستقبل برباد کر دیا۔ یوں میرا پیارا ہونہار بھائی میرے باپ کے گھر کا اُجالا ان کا اکلوتا چراغ گل ہو گیا۔ اعجاز نے دلبرداشتہ ہو کر خود کشی کر لی اور اسے کوئی ڈاکٹر نہ بچا سکا۔ میں سوچتی ہوں، کہ یہ کیوں کہتے ہیں۔ پڑھو گے لکھو گے بنو گے نواب کھیلو گے کودو گے ہو گے خراب- میں یہ پوچھتی ہوں کیا یہ ان کو زیب دیتا ہے جو مقدس درس گاہوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان درندہ صفت لوگوں سے کون حساب لے گا؟ جو علم کے سوداگر ہیں اور علم کو بکائو جنس سمجھتے ہیں۔ کیا ہم جیسے متوسط طبقے کے پسے ہوئے لوگ جو شرافت کے مارے ہیں۔ معاشرے کے ایسے لوگوں سے حساب لے سکتے ہیں جو ہر عملے میں موجود ہیں۔ ہم کس کس سے لڑ سکتے ہیں۔ ہمارے زخموں سے خون رستا ہے۔ جیبیں خالی ہیں، سفید پوشی کا بھرم رکھنا مشکل ہو گیا ہے مگر رشوت کا بازار گرم ہے۔ کیا ایماندار ہونا جرم ہے ؟ کیا ایمان داری کا یہی انعام ہے؟