Friday, March 29, 2024

Darveshi Dhamal

ہمارے گھر کا ماحول بہت اچھا تھا – والدین ہمارے ساتھ دوستوں کی طرح رهتے تھےمیرے اپنے بھائی کے ساتھ دوستی تھی ہم ایک دوسرے کے قریب تھے کیونکہ گھر میں ہم چارہی تو لوگ تھے – اپنے دل کی باتیں بھی میرے ساتھ کر لیا کرتا تھا- ان دنوں ہم ایک چھوٹے سے شہر میں رہا کرتے تھے۔ یہاں کے کالج میں میرے بھائی کا دل نہ لگا تو والد نے ان کو قریبی شہر کے ایک بڑے کا لج میں داخل کرادیا، جہاں ہو سٹل بھی تھا۔ اب وہ ماہ دو ماہ بعد گھر آتے۔ ایک روز اچانک دس روز بعد ہی آگئے۔امی نے پوچھا۔ خیر تو ہے عادل بیٹے ؟ ابھی گئے تھے اور ابھی آگئے ۔ کہا۔ امی جان ہو سٹل کا کھانا اچھا نہیں لگتا۔ معدے میں دردسار بنے لگا ہے ۔ وہ بولیں۔ ارے میاں تمہاری بھی کیا بات ہے ۔ کبھی اپنے شہر کا کالج ٹھیک نہیں لگتا تو کبھی لاہور کے ہوسٹل کا کھانا اچھا نہیں لگتا۔ یوں کہونا کہ پڑھائی میں جی نہیں لگتا۔ وہی بات ہو گئی کہ ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا۔ والدہ نے یہ مثال بس ویسے ہی بول دی لیکن مجھے لگا عادل بھائی حقیقتا پر یشان ہیں۔ابھی میں ان کے چہرے پر موجود پریشان کن تحریر پڑھ ہی رہی تھی کہ وہ میرے پاس آگئے۔ شام کا وقت تھا اور میں چاول صاف کر رہی تھی۔ کہنے لگے۔ گڑیا ایک بات بتاؤں ! امی کومت بتانا۔ ہاں بھی بتاؤ میں امی کو نہیں بتاؤں گی ۔ بات کچھ عجیب سی ہے ۔ پتا نہیں تم کو بتانی بھی چاہیے یا نہیں لیکن یہ سچ بات ہے کہ میرے ہوسٹل میں جن آگئے ہیں ، اس لئے میں گھر آگیا ہوں۔ دراصل میں ان سے الجھنانہ چاہتا تھا۔ عادل بھائی کی بات سن کر میری ہنسی نکل گئی۔ میں نے کہا۔ بھیا جی ! جانتی ہوں یہ سب جن ون ، تمہاراوہاں دل ہی نہیں لگ رہا تھا، اس لئے آگئے ہو۔ اب بہانے مت بناؤ۔ تم وہاں پڑھنے گئے ہو ، دل لگانے نہیں گئے۔اب پڑھنا تو ہے ۔ وقت ضائع کرنے کا کیا فائدہ، میری مانو تو کل ہی واپس چلے جاؤ ورنہ اباناراض ہوں گے کیونکہ تم نے ہی ضد کی تھی لاہور جا کر پڑھنے کی۔ بات یہ ہے گڑیا کہ میرے روم میٹ نے مجھے عجیب سا واقعہ سنا یا ہے ۔اس نے مجھے میرے دوست کی آب بیتی ،اس طرح سنائی ہے کہ اس کے جانے کے بعد سے مجھ کو اس کمرے میں وحشت ہونے لگی ہے ، تب ہی میں چلا آیا ہوں۔ واقعہ تو بتاؤ۔ میں نے اشتیاق سے سوال کیا۔ واقعہ یہ ہے کہ میرادوست زمان جو چونیاں کے قریب ایک گاؤں کا رہنے والا ہے ،اس کے گاؤں کے نزدیک ایک پہاڑی پر ایک بزرگ کامزار ہے۔ اس مزار پر ہر جمعرات کو عرس ہوتا تھا۔ عقیدت مند لوگ آتے ، قوالیاں ہو تیں ، دھمال پڑتے ۔ یہ یہاں کا رواج تھا۔ ایک دن زمان بھی اپنے دوست کے ہمراہ وہاں قوالی سننے گیا۔ اس کا دوست ساجد ا یک خوبرو نوجوان تھا جس کا قد نکلتا ہوا، رنگ گورا اور بال گھنگریالے تھے۔ وہ واقعی حسین لڑکا تھا۔ اس کا کسرتی بدن اور صحت مند سراپاد کچھ کر شہر کے نوجوان اس پر رشک کرتے تھے ۔ ساجد کے دو ہی شوق تھے کبڈی کھیلنا اور دھمال ڈالنا۔ اس کو دھمال پر بڑی مہارت حاصل تھی۔ جب وہ ڈھول کی تھاپ پر تیز تیز رقصاں ہوتا تو دیکھنے والے محو ہو جاتے اور وہ خود بھی مست ہو جاتا۔ ایک دن اس نے کچھ قلندروں کو وہاں دھمال ڈالتے دیکھا تو زمان اور ساجد سے نہ رہا گیاوہ بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے۔ ساجد نے تو ایسا کمال دکھایا کہ دیکھنے والے تصویر بن گئے۔ اس نے اس درویشی رقص کو اس محویت سے کیا کہ وہ مست ہو گیا اور اس کو اپنا ہوش ہی نہ رہا۔ رات کو جب یہ دونوں دوست گھر لوٹے تو بے حد تھکے ہوئے تھے۔ آتے ہی لیٹ گئے اور ان کو نیند نے آلیا۔ ساجد اورزمان کے گھر بھی قریب قریب تھے اور یہ بچپن کے ساتھی تھے ۔اطہر نے بتایا صبح میں ماجد کے گھر گیا تو اس کو ہلکا ہلکا بخار تھا۔ ہم نے آج اکٹھے چونیاں بھی جانا تھا مگر ساجد نے کہا کہ اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ سارے بدن میں درد ہے ۔ میں نے ساجد کو سمجھایا کہ تم وہاں جب رقص کناں ہوتے ہو تو تم کو اپنا ہوش بھی نہیں رہتا۔ تم اس طرح آپے سے باہر مت ہو جایا کرو۔ کل تم نے جب ان درویشوں کے ساتھ مست ہو کر اور بال کھول کر دھمال ڈالی تو اس کی وجہ سے تم کو بخار ہوا ہے ، کیو نکہ تم بہت تھک گئے ہو۔ تم خود کو اس قدر کیوں تھکا دیتے ہو ؟ اس نے کہا۔ مجھے خبر ہی نہیں رہتی ، جب میں دھمال ڈالتا ہوں تو لگتا ہے اس دنیا میں نہیں ہوں بلکہ دوسری دنیا میں پہنچ گیا ہوں۔ میں اس دن اکیلا ہی چونیاں چلا گیا جب میں واپس آیا توامی نے بتایا کہ ساجد کی طبیعت بہت خراب ہو گئی تھی تھی اس کی ماں ہمارے گھر تم کو بلانے آئی تھی۔ اب نجانے اس کا کیا حال ہے ۔اس کو ڈاکٹر کے پاس لے جانا تھا۔ قصہ مختصر ،زمان اپنے دوست کے گھر گیا۔ اس کی حالت عجب تھی۔ سر کے بال کھڑے تھے اور آنکھیں سرخ انگارہ ہو رہی تھیں۔ حسین چہرہ بگڑ گیا تھا اور ہاتھ پاؤں مڑے ہوۓ تھے۔ لگتا تھا کہ کوئی غیر مرئی طاقت ہے جو اس کو تکلیف دے رہی ہے۔اس کے منہ سے جھاگ نکل رہا تھا اور گردن ایک جانب کو مڑی ہوئی تھی۔ زمان کہنے لگا۔ میں ساجد کی صورت دیکھ کر ڈر گیا تھا کیو نکہ اس کی شکل اپنی صورت نہ رہی تھی بلکہ کسی اور کی نظر آرہی تھی جو کافی دہشت ناک تھی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ میرے دوست ! کچھ کہو تو تمہیں کیا ہو گیا ہے ؟ پہلے تو وہ کچھ نہ بولا پھر زمین پر لیٹ کر تڑپنے لگا۔ اس نے کہا۔ یار پتا نہیں مجھے کچھ ایسا محسوس ہو رہا ہے ، جیسے میرے اندر کوئی اور سما گیا ہے جو مجھے کھینچ اور توڑ مروڑ رہا ہے۔ اس کے بعد اس کی آواز بدلنے لگی۔اس کی آنکھیں سرخی سے دہک رہی تھیں۔ وہ کسی اور زبان میں گفتگو کر نے لگاجو میری سمجھ میں نہ آرہی تھی۔ میں نے چاہا کہ اس کو کسی ڈاکٹر کے پاس لے جاؤں مگر اس کی حالت غیر ہورہی تھی۔ وہ چلنے کے قابل نہ بھی تھا۔ بقول زمان ، میں خود ہی ڈاکٹر کے کلینک چلا گیا اور اس کو گھر لے آیا۔ جب میں اور ڈاکٹر ماجد کے پاس پہنچے وہ سو چکا تھا۔ ڈاکٹر نے کہا۔ اب اس کو مت جگاؤ ، بے آرام نہ کرو۔ میں کچھ دوائیاں لکھ دیتا ہوں، جاگے تو کھلادینا پھر میرے کلینک پرلے آنا۔ اس واقعہ کے دوماہ تک ساجد ٹھیک ٹھاک رہا۔ ایک دن جب ہم ایک ویران جگہ دوست کا پلاٹ دیکھنے گئے تو ساجد نے ہمیں حیران کر دیا۔ ہمارے ایک دوست شریف نے آبادی سے کچھ دور نئی کالونی میں پلاٹ خریدا تھا۔ یہ کالونی غیر آباد تھی۔ دوسرا دوست اکرم بھی ایک پلاٹ یہاں پر لینا چاہتا تھا۔ شریف ہم کو جگہ دکھانے لے گیا تھا۔ وہاں سب تو پلاٹ دیکھنے میں محو ہو گئے، مگر ساجد سامنے میدان کی سمت دیکھنے لگا۔ اس کی آنکھوں میں اچانک چمک آگئی اور وہ کہنے لگا۔ دیکھو وہ سامنے کیا شاندار تقریب ہو رہی ہے۔ ہم نے دیکھاتو کسی کو چٹیل میدان کے سوا کچھ نظر نہ آیا۔ شام کا وقت تھا سب نے سمجھا کہ اس کو وہم ہو رہا ہے ۔ یار ساجد کیاد کچھ رہے ہو ؟ کسی اور کو تو وہاں کچھ نظر نہیں آرہا۔ وہ کہنے لگا۔ اتنے سارے لوگ ہیں۔ عورتوں اور مردوں کے خوبصورت زرق برق کپڑے پہنے ہوۓ ہیں اور تم لوگوں کو وہاں کچھ بھی نظر نہیں آرہا؟ وہاں شادی ہو رہی ہے۔ آسمان تک روشنی کی چمک اٹھ رہی ہے۔ تینوں دوست حیرت سے اس کی باتیں سن رہے تھے۔ شریف بولا۔ شاید یہ پاگل ہو گیا ہے ۔ نہیں یہ پاگل نہیں ہے۔ میں اس کی پہلے کیفیت دیکھ چکا ہوں۔ ساجد سے کہا۔ یار بڑی بھوک لگی ہے۔ کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ اس شادی میں ہم کو بھی تھوڑ اسا کھانے کو مل جاۓ۔ شریف نے کہا۔ وہ سامنے دیگیں پڑی ہیں۔اچھا ٹھہرو، میں لاتا ہوں۔ ساجد نے جواب دیا۔ وہ چند قدم گیا تھا کہ ہم نے دیکھا وہ واپس آرہا ہے۔ اس کے ہاتھ پلاؤ تھا اور اس پر گوشت کے بڑے بڑے روسٹ پارچے رکھے ہوئے تھے ۔ سب ششدر رہ گئے۔ سبھی ڈر گئے ۔ کھانے کی بھری پرات وہیں چھوڑ کر تینوں دوست گاڑی میں بیٹھ کر گھر آگئے۔ ساجد کے گھر والے متعد د ڈاکٹروں کے پاس لے گئے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جوں جوں علاج کرواتے ، اس کی حالت زیادہ بگڑتی جاتی۔ پھر ایک بزرگ سے مشورہ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ آپ ڈاکٹر سے اس کا علاج کرانے کے ساتھ کسی ایسے عالم کے پاس بھی لے جائے جو عبادت گزار ہو ، اس سے دعا کرائیں ۔انہوں نے ایک نیک بزرگ کا پتا بھی دیا۔ ساجد کے بھائی اس کو وہاں لے گئے۔ تقریب سات روز وہ اس عالم دین کے گھر پر مہمان رہے اور اس پر آیات قرآنی دم کرواتے رہے۔ تب عالم صاحب نے خواب دیکھا اور بتایا کہ جب یہ مزار پر دھمال کر رہا تھا تو وہاں دو تین عور تیں بھی تھیں۔ایک بڑی بہن جس کا شوہر بھی ساتھ تھا اور دوسری چھوٹی جو دھمال کے وقت قریب کھڑی تھی۔ اس کو ماجد کا دھمال اتنا چھالگا کہ وہ اس کے قرب کی متمنی ہو گئی۔ بڑی بہن کے پاس علم ہے ،اسی وجہ سے چھوٹی بہن اس سے ڈرتی ہے۔ کبھی کبھی یہ تینوں جب ماحد کے قریب ہوتے ہیں تو اس کی حالت غیر ہو جاتی ہے۔ عالم صاحب نے مسلسل قرآنی آیات پڑھیں اور ماجد پر دم کرتے رہے ۔ اب ماجد کی حالت سنبھل گئی ۔ جب زمان نے یہ باتیں میرے بھائی سے کیں تب سے اس کا دل ہوسٹل کے کمرے میں نہ لگ رہا تھا۔ تاہم اس نے زمان کی باتوں کا مذاق اڑایا اور کہا کہ تم نے من گھڑت قصہ بنایا ہے اور میں اس پر یقین نہیں کرنے والا۔ تب زمان نے بھائی سے کہا کہ تم میرے ساتھ گاؤں چلنا، میں تم کو ساجد سے ملوادوں گا۔ تم خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لینا۔ میں زمان کے ساتھ اس کے گاؤں چلا گیا۔ ساجد کو دیکھا تو افسوس ہوا اس کی حالت درست نہ تھی۔ اسی دن جمعرات کی شام یہ لوگ وہاں دھمال دیکھنے گئے۔ تبھی ساجد بولا کہ وہ دیکھو ، وہ رہے ۔ سب نے ایک سمت دیکھا، جہاں عور توں کا رش تھا۔ وہ نہایت حسین لڑکی تھی ، سبز رنگ کے کپڑے پہنے تھی۔ ایسی حسین لڑکی میں نے پہلے بھی نہ دیکھی تھی۔ اس کے ساتھ ایک ادھیڑ عمر عورت تھی، جس کے منہ پر چادر تھی۔ سبز کپڑوں والی لڑکی بار بار ساجد کو کچھ کہ رہی تھی ۔ اس کے ہاتھ پر کسی نے حلوے کا ڈ بار کھ دیا۔ تھوڑی دیر پہلے اس کو دوستوں نے کہا تھا کہ یار حلوہ تو کھلاؤ۔ ہمارا حلوہ کھانے کو دل چاہ ر ہا ہے۔ اب سبھی اس ڈبے کو حیرت سے دیکھ رہے تھے کہ یہ کہاں سے آگیا ؟ ساجد کے ہاتھ تو خالی تھے۔ بھیٹر میں دیکھا تو وہ حسین عور تیں بھی غائب تھیں۔ بھائی کیا آپ نے حلوہ کھایا؟ نہیں گڑیا، میں نے تو چکھا بھی نہیں اور وہاں سے بھاگ آیا۔ ہو سٹل گیا تو دیکھا کہ وہاں بھی حلوے کا ڈ بار کھا ہے جبکہ جاتے ہوۓ کمرہ لاک کر کے گیا تھا۔ میں خوف زدہ ہو کر سیدھا بس اڈے چلا گیا اور گھر آ گیا ہوں۔ اس کے بعد میرا بھائی اس ہوسٹل نہ گیا۔ خدا جانے بھیانے یہ داستان گھڑ کر سنائی تھی یا واقعی وہ سچ کہہ رہے تھے ؟ یہ راز انہوں نے آج تک نہیں بتایا۔ جب بھی اس سے پوچھا تو یہ جواب دیا کہ ہاں یہ واقعہ سچ ہی تھا۔ اس کے بعد بھائی نے لاہور والا کالج چھوڑ دیا اور واپس آکر اپنے شہر کے کالج میں داخلہ لے لیا اور تعلیم مکمل کی۔ ابو تو آج تک کہتے ہیں کہ عادل نے گھر سے دوری کو برداشت نہ کرتے ہوۓ یہ داستان گھڑی تھی ورنہ ایسی کوئی بات نہ تھی۔ اس واقعے کے بعدغیر ماورائی طاقتوں پر میرا اعتقاد اور بھی پختہ ہوگیا کیونکہ میرا بھائی اتنا ڈرپوک نہ تھا کہ وہ یہ ابا جان سے نہ کہہ پاتا کہ میں گھر سے دور نہیں رہ سکتا اور نہ میرے ابّا جی اتنے ظالم تھے کہ وہ بھائی کو ان کی مرضی کے بغیر زبردستی ہوسٹل بھیجتے

Latest Posts

Related POSTS