ماں کے انتقال کے بعد بھائی ابھی کمسن تھا۔ بڑی بہن ہونے کے ناتے مجھے نہ صرف گھر سنبھالنا تھا بلکہ اپنے بھائی کا بھی خیال رکھنا تھا۔ حالانکہ میری عمر زیادہ نہیں تھی، مگر حالات نے وقت سے پہلے سمجھدار کر دیا۔
ہم دو ہی بہن بھائی تھے۔ ابو صبح ڈیوٹی پر چلے جاتے اور شام کو لوٹتے۔ دن کے وقت ہم دونوں ہی اس اجاڑ مکان میں ایک دوسرے کا سہارا تھے۔ سچ ہے، جب ماں یا باپ کا سایہ سر سے اٹھ جائے، تو وقت کی کڑی دھوپ معصوم بچوں کو بہت جلد بالغ کر دیتی ہے۔ ٹھوکریں کھانے کے بعد معصومیت کہیں کھو جاتی ہے، اور شعور وقت سے پہلے در آتا ہے۔میں بھی وقت سے پہلے باشعور ہو گئی تھی۔ تاہم انوار کی ذمہ داری نے مجھے کسی اور جانب متوجہ ہونے کا موقع نہ دیا۔ تعلیم بھی جاری نہ رکھ سکی۔ بھائی کے لیے میری محبت دیکھ کر ابو نے رشتے داروں کے اصرار کے باوجود دوسری شادی نہ کی۔ میں اور انوار ایک دوسرے کے دوست بن گئے اور زندگی کسی نہ کسی طرح گزرنے لگی۔
انوار نے میٹرک اچھے نمبروں سے پاس کیا اور ایف ایس سی پری میڈیکل میں داخلہ لیا۔ اس کی ذہانت کے پیش نظر ہم سب یہی سمجھتے تھے کہ وہ میرٹ پر داخلہ حاصل کر لے گا۔ انوار کالج سے آکر وہاں کی ساری باتیں مجھے بتاتا۔ وہ کالج کی دنیا سے بہت متاثر تھا اور کہتا، آپی یوں لگتا ہے جیسے برسوں کے بعد ایک پنجرے سے آزادی ملی ہو۔یہ آزادی اس کے لیے اہم تھی، لیکن اس نے کبھی اس کا غلط فائدہ نہیں اٹھایا۔ وہ باقاعدگی سے اپنی کلاسز اٹینڈ کرتا اور شام کو اکیڈمی بھی جاتا تاکہ پڑھائی میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔
کالج میں اس کی کلاس میں ایک لڑکی، رخشندہ، بھی پڑھتی تھی۔ انوار پہلی بار اسے دیکھ کر حیران رہ گیا تھا۔ اس نے مجھ سے کبھی اس بارے میں بات نہیں کی، لیکن ایک روز کمرے کی صفائی کرتے ہوئے اس کی ڈائری میرے ہاتھ لگ گئی۔ اس میں لکھا تھا:میں نے رخشندہ کو پہلی بار دیکھا تو میرا دل دھڑکنا بھول گیا۔ اس کے حسن نے مجھے مبہوت کر دیا۔ وہ اپنی خوبصورتی کے ساتھ دلکش باتیں بھی کرتی ہے۔ جب وہ ایک خاص انداز سے میری طرف دیکھتی ہے، تو میں سب کچھ بھول جاتا ہوں۔یہ پڑھ کر مجھے احساس ہوا کہ میرا بھائی بڑا ہو گیا ہے اور کسی اجنبی راہ پر نکل چکا ہے۔ میں اسے ہمیشہ ایک معصوم بچہ سمجھتی تھی۔ایک شام، جب وہ گھر آیا، تو میں نے اس سے بات کی۔ رخشندہ کا نام سن کر وہ سٹپٹا گیا۔ کہنے لگا، باجی، وہ میری کلاس فیلو ہے اور مجھے اچھی لگتی ہے۔میں نے اسے سمجھایا، تمہیں ڈاکٹر بننا ہے، اپنی پڑھائی پر دھیان دو، لڑکیوں پر نہیں۔وہ خاموش ہو گیا، جیسے بات سمجھ تو لی ہو، مگر ماننے کو تیار نہ تھا۔ایک دن اس کی نوٹ بک میں ایک خط ملا، جو اس نے رخشندہ کے نام لکھا تھا:رخشندہ، میں تمہیں چاہنے لگا ہوں۔ یہ بات تم سے کافی عرصے سے کہنا چاہتا تھا، مگر ہمت نہ ہوئی۔ آج تم نے میرے سلام کا جواب مسکرا کر دیا تو حوصلہ ملا۔ محبت اعتراف کی محتاج نہیں، لیکن دل یہ بھی برداشت نہیں کرتا کہ تم میری حالت سے بے خبر رہو۔ تمہارے بغیر زندگی بیکار لگتی ہے۔ تمہارے جواب کا بے چینی سے انتظار ہے۔
یہ پڑھ کر مجھے بہت دکھ ہوا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ انوار کو سمجھاؤں گی کہ یہ خط نہ دے۔ مگر وہ میرے ارادے سے بے خبر تھا اور اپنی راہ پر بڑھتا جا رہا تھا۔ چند دن بعد اس نے بتایا کہ رخشندہ نے اس کی محبت کو قبول کر لیا ہے۔ ان دونوں کے درمیان خط و کتابت ہونے لگی، اور انوار اپنی دنیا میں مگن ہو گیا۔اس کی پڑھائی پر توجہ ختم ہو گئی۔ وہ کالج کم جانے لگا اور زیادہ وقت رخشندہ سے ملاقاتوں میں گزارنے لگا۔ میں نے اسے بہت سمجھایا، مگر وہ میری کسی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیتا تھا۔انوار کی دیوانگی دیکھ کر میرا دل بیٹھنے لگا تھا۔ وہ اپنی زندگی اور خوابوں کو برباد کر رہا تھا، اور میں بے بس ہو کر صرف دعا کر سکتی تھی کہ خدا اسے صحیح راستہ دکھائے۔سالانہ امتحان میں دو ماہ باقی رہ گئے تھے، لیکن انوار اپنی دھن میں مگن تھا۔ پچھلے کچھ دنوں سے وہ مجھے چپ چپ لگا تو میں نے دریافت کیا۔ معلوم ہوا کہ اکیڈمی میں ایک اور لڑکا آیا ہے، اور رخشندہ اب اس میں دلچسپی لینے لگی ہے۔ انوار کو یہ بات بری لگ رہی تھی۔ میں نے اسے کہا کہ اگر وہ رخشندہ سے محبت کرتا ہے اور وہ بھی اس کے جذبات کا احترام کرتی ہے، تو اسے منع کر دے کہ وہ اس لڑکے سے نہ ملا کرے۔ انوار کو میری بات پسند آئی۔شام کو جب وہ گھر آیا تو بہت غصے میں تھا۔ کہنے لگا، میں نے رخشندہ کو منع کیا، تو اس نے صاف کہہ دیا، تم کون ہوتے ہو مجھے منع کرنے والے؟ تمہارے جیسے کئی لڑکے میری زندگی میں آئے اور گئے۔ یہ سن کر انوار کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ اس کے دماغ میں طوفان برپا تھا، اور وہ کہنے لگا، باجی، اگر میں اس وقت آپ کی بات مان لیتا تو آج میری یہ حالت نہ ہوتی۔
اس دن کے بعد انوار نے اکیڈمی جانا چھوڑ دیا۔ کئی دنوں بعد، میرے بار بار اصرار پر وہ اکیڈمی گیا تو معلوم ہوا کہ رخشندہ ایک نئے لڑکے کے ساتھ فرار ہو گئی ہے۔ یہ خبر انوار کے لیے دوسرا بڑا صدمہ تھی۔ اس کے دل میں نفرت پیدا ہو گئی، اور وہ مجھ سے بھی اکھڑا اکھڑا رہنے لگا۔ عورت ذات پر اس کا اعتماد ختم ہو چکا تھا۔ اب وہ کسی ہنستی مسکراتی لڑکی کو دیکھتا تو اس کا خون کھول جاتا۔ رخشندہ نے اس کے ذہن میں عورت کا جو مثبت تصور میں نے بٹھایا تھا، وہ توڑ دیا تھا۔انوار کا تعلیم سے دل اچاٹ ہو گیا تھا۔ ڈاکٹر بننے کا خواب دیکھنے والا میرا بھائی زندگی سے ہی مایوس ہو چکا تھا۔ ایف ایس سی کی تیاری کا وقت گزر چکا تھا، اور اس نے پرائیویٹ ایف اے کا امتحان دینے کا فیصلہ کیا۔ بڑی مشکل سے اس نے ایف اے پاس کیا، لیکن نمبر اچھے نہیں آئے۔ اس کے باوجود، ہم سب کے لیے یہ خوشی کی بات تھی کہ اس نے اپنی مایوسی کے باوجود امتحان دیا۔ تاہم، تعلیم کا سلسلہ یہیں ختم ہو گیا۔ ابو نے اسے ایک دکان پر سیلز مین کی نوکری دلوائی تاکہ اس کا دل بہل سکے۔
کچھ دن بعد، ایک رشتے دار کے ہاں شادی تھی۔ ابو نے کہا، انوار، تم بھی ساتھ چلو۔ اس سے تمہارا دل بہل جائے گا۔ انوار جانا نہیں چاہتا تھا، لیکن میری ضد پر وہ مان گیا۔ شادی میں یاسمین نامی ہماری دور کی رشتہ دار لڑکی بھی موجود تھی۔ یاسمین شوخ اور زندہ دل تھی، اور اس کی باتوں سے محفل گل و گلزار ہو جاتی تھی۔ وہ انوار کو دیکھ کر اور بھی شوخی پر اتر آئی، لیکن انوار اسے نظرانداز کرتا رہا۔ وہ اس حد تک عورتوں سے بدگمان ہو چکا تھا کہ ہر لڑکی کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگا تھا۔یاسمین بہت محبت سے سب کا خیال رکھتی تھی، خاص طور پر ہمارا۔ میں جانتی تھی کہ وہ انوار میں دلچسپی رکھتی ہے، لیکن انوار اس سے دور ہی رہتا تھا۔ میری خواہش تھی کہ انوار یاسمین کی طرف متوجہ ہو، مگر یہ بات میں اس سے کہہ نہیں سکتی تھی۔ آخر کار، جب ہم لاہور واپس آئے، تو یاسمین بہت اداس نظر آئی۔ اس کی حالت دیکھ کر میرا دل کٹ سا گیا، لیکن انوار بالکل بے نیاز رہا۔
کچھ دن بعد یاسمین کا ایک خط آیا جو انوار کے نام تھا۔ خط میں اس نے اپنی دلی کیفیت کا اظہار کیا تھا۔ لکھا تھا کہ شادی میں آپ سے ملاقات ہوئی۔ آپ میرے دل میں بچپن سے جگہ بنائے ہوئے ہیں، لیکن آپ سے بات کرنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ اس دفعہ جب آپ آئے، تو میں نے فیصلہ کیا کہ آپ سے اپنے جذبات کا اظہار کروں، مگر آپ نے مجھ سے سیدھے منہ بات تک نہیں کی۔ یقین کریں، میں آپ کو دل سے چاہتی ہوں، اور اگر آپ نہ ملے، تو میری زندگی بے معنی ہو جائے گی۔یہ خط پڑھ کر میں پریشان ہو گئی۔ میں نے سوچا کہ انوار کو یہ خط دکھاؤں یا نہیں۔ اسی دوران انوار آ گیا۔ میں نے خط اسے دکھا دیا۔ اس نے پڑھ کر خاموشی سے خط پھاڑ دیا اور گھر سے نکل گیا۔ کچھ دن بعد یاسمین کا ایک اور خط آیا، اور میں نے انوار سے کہا، اگر تم اسے پسند نہیں کرتے تو اسے واضح جواب دے دو، تاکہ وہ مزید امید نہ رکھے۔ انوار نے جواب دیا، اگر آپ کو اس سے اتنی ہمدردی ہے تو خود جواب لکھ دیں۔میں نے انوار کی جانب سے یاسمین کو جواب دیا کہ میں تم سے محبت نہیں کرتا۔ میں پہلے ہی کسی اور کو پسند کرتا ہوں اور اسی سے شادی کروں گا۔ تم میرا خیال دل سے نکال دو۔ یہ خط لکھنے کے بعد میں خود کو ہلکا محسوس کرنے لگی۔ مجھے لگا کہ یاسمین اب انوار کے بارے میں سوچنا چھوڑ دے گی۔
چھ ماہ بعد ہمیں معلوم ہوا کہ یاسمین بہت بیمار ہے۔ ایک رشتے دار نے بتایا کہ وہ علاج کے لیے کسی بڑے شہر لے جائی جا رہی ہے اور بار بار ہمارا ذکر کرتی ہے۔ میں نے انوار سے کہا، چلو، اسے دیکھ آئیں۔ پہلے تو انوار نہیں مانا، مگر آخر کار میری ضد کے آگے ہار گیا۔ہم گاؤں پہنچے، مگر انوار یاسمین کے گھر جانے پر تیار نہیں تھا۔ میں نے اصرار کیا کہ صرف ایک بار میری خاطر اس سے مل لو۔ انوار آخر کار مان گیا اور یاسمین سے ملنے گیا، مگر اس سے کوئی بات نہ کی۔ یاسمین کی حالت دیکھ کر میرا دل بھر آیا، لیکن انوار کے چہرے پر کوئی تاثر نہ تھا۔ہم یاسمین سے مل کر واپس آ گئے۔ اس کی ماں نے بتایا کہ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یاسمین کو کوئی خاص بیماری نہیں، لیکن اس کی حالت کی بہتری کے لیے اس کی شادی کر دینا بہتر ہوگا۔ میں نے انوار سے کہا کہ اگر تم یاسمین سے شادی کر لو تو شاید وہ ٹھیک ہو جائے۔ یہ سن کر وہ بھڑک اٹھا اور مجھ سے بات کرنا بند کر دی۔ہمارے واپس آنے کے ایک ہفتے بعد انوار کے نام ایک خط موصول ہوا۔ میں نے وہ خط کھولے بغیر انوار کو دے دیا۔ جیسے ہی انوار نے خط پڑھنا شروع کیا، اس کی رنگت بدل گئی۔ میں نے اس کے ہاتھ سے خط لے لیا اور خود پڑھنے لگی۔ خط یاسمین کا تھا۔ اس میں لکھا تھا کہ میں نے اپنے والدین اور گھر والوں کو بتا دیا تھا کہ میں انوار سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔ میں نے انہیں آپ کے گھر رشتہ بھیجنے کے لیے بھی راضی کر لیا تھا، لیکن آپ کے رویے کی وجہ سے یہ قدم نہ اٹھا سکی۔ آپ کے پہلے جوابی خط نے میری زندگی بدل دی۔ آپ کسی اور کو چاہتے ہیں، اور میرا دل ہمیشہ یہی گواہی دیتا رہا کہ آپ مجھے ہی چاہیں گے۔اس خیال نے میری زندگی اجیرن کر دی۔ میں بیمار ہو گئی، اور میری حالت مسلسل بگڑتی جا رہی ہے۔ اب امی نے میرا نکاح میرے خالہ زاد سے کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ لیکن میں کسی کو وہ مقام نہیں دے سکتی جو آپ کو دے چکی ہوں۔اسی مہینے میری شادی ہونے والی ہے، لیکن جب آپ کو یہ خط ملے گا، میں اس دنیا میں نہیں ہوں گی۔ ماں اور باپ کو انکار نہیں کر سکتی، اور اپنے تصوراتی محبوب سے بے وفائی بھی نہیں کر سکتی۔ اگر مجھ سے کوئی کوتاہی یا غلطی ہوئی ہو، تو معاف کر دیجئے گا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے اور آپ اپنی شریک حیات کے ساتھ ایک مثالی زندگی گزاریں۔
انوار یہ خط پڑھ ہی رہا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ آنے والے نے اطلاع دی کہ یاسمین اب اس دنیا میں نہیں رہی۔یہ خبر سن کر میرے دل پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ انوار کو سکتہ ہو گیا۔ میں نے اسے گلے لگایا، تو وہ بے اختیار رونے لگا۔ روتے ہوئے اس نے پوچھا کہ کیا وہ خط آپ نے لکھا تھا۔ میں نے شرمندگی سے کہا کہ ہاں، انوار۔ لیکن میں نہیں جانتی تھی کہ وہ لڑکی اتنی سنجیدہ تھی۔ میرا خیال تھا کہ اس طرح وہ تمہیں دل سے نکال دے گی۔ لیکن آج اس نے ثابت کر دیا کہ اگر لڑکی وفا کرنے پر آ جائے، تو اس کے عزم اور حوصلے کو کوئی نہیں توڑ سکتا۔انوار نے آہستہ سے کہا کہ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ رخشندہ جیسی لڑکیوں کے ساتھ دنیا میں یاسمین جیسی لڑکیاں بھی ہوتی ہیں۔ واقعی، عورت ایک ایسی پہیلی ہے جسے سمجھنا بہت مشکل ہے۔ میں خود بھی یہ نہیں جان سکا کہ عورت کے کتنے روپ ہیں۔وقت گزرتا گیا۔ میری شادی ہو گئی، لیکن انوار نے آج تک شادی نہیں کی۔ پہلے عورت سے نفرت نے اسے روک رکھا تھا، اور اب یاسمین کی وفا کی یادیں اسے کسی اور کے ساتھ بندھنے نہیں دیتیں۔ وہ نہیں چاہتا کہ یاسمین کے خلوص کو بھلا کر وہ کسی اور سے شادی کرے، جس نے اس کے لیے اپنی جان دے دی۔
یاسمین کے لیے دعا ہے کہ خدا اسے جنت میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ انوار کے لیے میری دعا ہے کہ خدا اسے سکون اور خوشیوں سے نوازے۔ میں ایک بہن ہوں، اور اپنے بھائی کو یوں سوگواری میں تنہا بھٹکتے ہوئے دیکھنا میرے لیے بہت تکلیف دہ ہے۔