Tuesday, May 20, 2025

Dasktak Adhi Raat Ki

میرے والد کے ہاں شادی کے دس برس بعد تک اولاد نہ ہوئی۔ ڈاکٹر حکیم، پیر، فقیر، دوا دارو اور تعویذ گنڈے آزما لئے لیکن ثمر مراد جھولی میں نہ آیا۔ ہر طرف سے مایوس ہو کر ماں باپ صبر کر کے بیٹھ گئے کہ بہت سوں کے ہاں اولاد نہیں ہوتی ، آخر وہ بھی اس دنیا میں جی رہے ہیں۔ جینا لازم تھا کہ جب تک زندگی کے دن پورے نہ ہوں، انسان کو اس جہان سے نجات نہیں ملتی۔ اپنی زندگی پر اختیار ہے اور نہ موت پر بس چلتا ہے۔ یہ اللہ کی مرضی ہے اور اس کے اختیار میں ہے جب تک چاہے چلائے ، جب چاہے حیات کا اختام کر دے۔ دنیا عجیب و غریب واقعات سے پٹی پڑی ہے۔ ایسے میں ایک واقعہ میرے والدین کے ساتھ بھی پیش آیا ۔ شادی کے گیارہویں برس ایک روز آدھی رات کو گھر کے دروازے پر کسی نے دستک دی۔ والد صاحب کی اس دن طبیعت کچھ ٹھیک نہ تھی، انہیں کھانسی اٹھ رہی تھی، بار بار کھانے سے نیند اچٹ گئی تھی اور ان کی کھانسی کی وجہ سے میری والدہ بھی سو نہ پارہی تھیں۔ غرض کہ اس رات دونوں ہی جاگ رہے تھے۔ جب دو تین بار دستک ہوئی تو والدہ نے شوہر سے کہا۔ ذرا دیکھئے آدھی رات کے سے اس وقت کون آیا ہے. خدا خیر کرے۔ والد صاحب دروازے پر پہنچے اور پوچھا۔ کون ہے؟ جواب نہ ملا تب دروازہ کھول کر دیکھا۔ ایک بے کسی غریب شخص سردی سے کانپ رہا تھا۔ وہ فالج زدہ تھا۔ اس کا آدھا دھڑ کمزور تھا۔ وہ ایک ٹانگ گھسیٹ کر چلتا تھا۔ زبان میں بھی لکنت تھی۔ بات نہ کر سکتا تھا۔ والد نے پوچھا کون ہو؟ کہاں سے آئے ہو، کیا چاہتے ہو؟ بڑی مشکل سے اٹک اٹک کر بولا ۔ پردیسی ہوں، فیصل آباد سے آیا ہوں، غلط بس میں بیٹھ گیا، یہاں اترا تو کسی کو نہیں جانتا۔ رات ہو گئی ادھر اُدھر پھرتا رہا ہوں، اب آوارہ کتے مجھے کو خوفزدہ کر رہے ہیں، اس لئے آپ کا دروازہ کھٹکھٹا دیا ہے۔ مجھے اندر آنے دیں ۔ آج کی رات پناہ چاہیے سخت  سردی ہے، کل صبح چلا جاؤں گا۔ اس کی حالت سے آشکار تھا کہ سچ بول رہا ہے۔ والد صاحب نے کچھ سوچ کر دروازہ کھول دیا۔ اس کو بازو سے تھام کر اندر لے آئے۔ گیراج میں چار پائی پڑی ہوئی تھی، اس پر بٹھایا ، پھر امی سے کہا کہ کچھ کھانے کو ہے تو دے دو، ایک غریب مسافر ہے، اس کو کھلانا ہے۔ والدہ کچن میں گئیں اور کھانا گرم کر کے دے دیا۔ والد صاحب نے اس آدمی کو کھانا کھلایا اور اپنے ڈرائیور کا بستر کھول کر چار پائی پر بچھا دیا اور کہا کہ رضائی اوڑھ کر سو جاؤ۔ وہ کھانا کھا کر آسودہ ہوا اور چار پائی پر لیٹ کر سو گیا۔ سخت سردی اور کتوں کے غول سے اس کی  جان بچی۔ صبح ہوئی تو والد نے ناشتہ بھی کرا دیا اور پوچھا۔ بولو اب کیا چاہتے ہو؟ اس نے اسی طرح بہت دشواری سے اٹک اٹک کر کہا کہ فیصل آباد جانے والی بس میں سوار کرا دیں۔ صیح ڈرائیور آ گیا۔ والد نے اس کو ٹکٹ کی رقم دے کر کہا کہ جاؤ اس غریب آدمی کو مطلوبہ بس میں بٹھا کر آ جاؤ۔ چلتے وقت اس بے کس نے ہاتھ اٹھا کر دعا دی۔ خدا تمہارے بچوں کو سلامت رکھے۔ والد صاحب نے کہا۔ تمہاری دعا اپنی جگہ لیکن میاں افسوس کہ شادی کے گیارہ برسوں بعد بھی اللہ تعالیٰ نے مجھے کو اس نعمت سے محروم رکھا ہے جس کو اولاد کہا جاتا ہے۔  لہذا یہ دعا میرے کام کی نہیں ہے کوئی اور دعا دو۔ اس شخص نے جیب سے ایک پڑیا نکالی اور بولا ۔ اللہ تعالیٰ تم کو ضرور اولاد کی نعمت سے نوازے گا۔ یہ پڑیا ہے اس میں میرے پیر و مرشد کی عطا کردہ راکھ ہے۔ آدھی تم پانی سے پھانک لینا اور آدھی اپنی بیوی کو کھلا دینا ۔ ان شا اللہ جلد اولاد کی خوشخبری ملے گی۔ والد صاحب اس مسکین و بے بس آدمی کی اس ادا پر ہنس پڑے جو خود بغیر سہارے ٹھیک طرح چل نہ سکتا تھا، وہ اولاد کے لئے مرشد کی عطا کردہ راکھ دے رہا تھا۔ بہر حال اس کا دل رکھنے کو انہوں نے وہ پڑیا اس سے لے لی۔ جب وہ چلا گیا تو پڑیا کو کھول کر دیکھا۔ واقعی اس میں راکھ تھی۔ والدہ کو قصہ بتایا۔ وہ ضعیف الاعتقاد زیادہ تھیں۔ پیروں، فقیروں کو مانتی تھیں۔ انہوں نے بسم اللہ پڑھ کر آدھی راکھ جو چٹکی بھر ہوگی ، خود پھانک لی اور آدھی اپنے شریک حیات کو دے کر کہا کہ تم بھی پھانک لو کیا خبر آدھی رات کو اللہ پاک نے ہمارے گھر رحمت کا فرشتہ بھیجا ہو اس معذور انسان کو ہمیں آزمانے کے لئے ۔ والد صاحب نے  راکھ کو ہوا میں اُڑا کر کہا کہ اگر ایسے لولے لنگڑے انسانوں کی دی ہوئی دوائیں تیر بہ ہدف ہو جائیں تو یہ خود نہ ان کو کھا کر صحیح و سالم ہو جائیں ، پھر لنگڑے لولے کیوں رہیں ۔ تم بھی کمال بات کرتی ہو۔ میں نے شخض ترس کھا کر اس کو گیراج میں پناہ دی کہ کہیں آوارہ کتے بھنبھوڑ نہ ڈالیں، بیچارہ فالج کا مارا دوڑ بھی نہ سکتا تھا۔

خیر نیکی کر دریا میں ڈال والی بات سمجھ کر اس واقعے کو فراموش کر دیا لیکن دو ماہ بعد والدہ کو احساس ہوا کہ وہ امید سے ہیں۔ کسی کو یقین نہ آ رہا تھا۔ چیک اپ کرایا تو لیڈی ڈاکٹر نے تصدیق کر دی۔ بس پھر میرے والدین کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ یہ محض اتفاق تھا۔ رب کی مہربانی تھی کہ ایک مسافر بے کس کو آدھی رات میں پناہ دی تھی یا پھر اس راکھ کی پڑیا کی کرامت تھی، یہ اللہ جانتا ہے لیکن مراد بر آئی تھی اور انہونی ہو گئی تھی۔ والدہ کے یہاں ایک ساتھ دو بچوں کی پیدائش ہوئی۔ دونوں جڑواں بچیاں تھیں۔ بد قسمتی سے ایک صحیح سالم مگر دوسری بچی کچھ کمزور اور بیمار پیدا ہوئی۔ میں وہ  تھی جو صبح سالم تھی اور میری جڑواں بہن شاکرہ تھی جس کی ایک ٹانگ پیدائشی کمزور تھی اور ایک بازو بیکار تھا۔ خیر یہ اللہ کی مرضی، بہت علاج اس کا کرایا لیکن شفا نہ ہوئی۔ ہم دونوں وقت کے ساتھ ساتھ بڑی ہوتی گئیں۔ میں ٹھیک ٹھاک بھاگ دوڑ سکتی تھی، چل پھر سکتی تھی لیکن شاکرہ چل پھر نہ سکتی تھی کیونکہ آدھا دھڑ بیمار تھا۔ ٹانگ اور بازو دونوں بے جان تھے۔ وہ اب وہیل چیئر پر زندگی بسر کرنے پر مجبور تھی ۔ یوں وہ مجھ سے زیادہ خوبصورت تھی۔ جب تک والدین زندہ رہے  اس کی دیکھ بھال کرتے رہے، کیونکہ ہم دونوں ان کی منتوں مرادوں کے پھول تھے۔ وہ دونوں کو چاہتے تھے کہ ہم بہنیں ان کی آنکھوں کا نور اور دل کی ٹھنڈک تھیں۔ تاہم مجھے سے زیادہ ان کو شاکرہ کی فکر کھائے جاتی تھی۔ میں نے بی اے پاس کر لیا اور وہ اسکول بھی نہ جاسکی ، اپنی معذوری کی وجہ سے کوئی ہنر نہ سیکھ پائی۔ بس تھوڑا بہت جو امی ابو اور میں نے اسے گھر پر پڑھا دیا ، اس نے پڑھ لیا۔ بی اے کے بعد میں نے یونیورسٹی جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ والد صاحب نے داخلہ دلوا دیا کیونکہ ان کو میری ہر خوشی کا پاس رہتا تھا۔ ہم دونوں بہنوں کے بعد ان کے یہاں پھر اولاد نہ ہوئی۔ ہم ہی ان کا سب کچھ تھے۔ جب میں نے ایم اے کر لیا، والدین کو میری شادی کی فکر ہوئی۔ انہی دنوں مجھے کو اپنے کلاس فیلو ریحان نے پر پوز کر دیا جو مجھ سے محبت کرنے لگا تھا۔ میں بھی اسے پسند کرتی تھی۔ اس نے شادی کے لئے کہا تو میں نے جواب دیا۔ اپنے والدین کو ہمارے گھر بھیجو۔ امی ابو ہاں کر دیں گے تو ہماری شادی ہو جائے گی۔ وہ اپنے والدین کے ہمراہ ہمارے گھر آیا۔ میرے والدین نے اس کو پسند کیا لیکن ساتھ عجیب شرط رکھ دی کہ اگر اس کے والدین اپنے دوسرے بیٹے کے لئے شاکرہ کا رشتہ قبول کر لیں تو وہ میرا بیاہ ریحان سے کر دیں گے ورنہ انکار ہے۔ یہ شرط سن کر اس کے والدین سکتے میں آگئے کیونکہ شاکرہ گر چہ خوبصورت تھی  ,پڑھی لکھی بھی نہ تھی۔ بہر حال اس وقت انہوں نے یہی جواب دیا کہ سوچ کر بتا ئیں گے لیکن گھر جا کر اس معاملے پر سردمہری اختیار کر لی گئی تھی۔ ریحان کو مجھ سے بہت محبت تھی اور وہ میرے علاوہ کسی اور سے شادی نہ کرنا چاہتا تھا۔ یہی حال میرا بھی تھا لیکن اس کے والدین میرے والدین کی شرط پوری کرنے سے قاصر تھے۔ ریحان کا ایک ہی چھوٹا بھائی تھا جو انجینئر نگ کے آخرمی سال میں تھا۔ جب اس نے والدین کی زبانی میرے گھر والوں کی شرط کا سنا تو ریحان کی خاطر اس نے شاکرہ کو دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ دراصل وہ اپنے بھائی سے بہت محبت کرتا تھا اور ریحان کو کسی صورت مایوس دیکھنا نہ چاہتا تھا۔ اصرار کر کے وہ والدین کو ہمارے گھر لایا۔ اس کا نام فیضان تھا۔ فیضان شاکرہ سے ملا۔ کچھ دیر باتیں کیں، پھر اس نے میرے اور اپنے والدین کو رضامندی کا عندیہ دے دیا کہ وہ شاکرہ سے شادی کرے گا۔ یہ ایک بہت بڑی خوشخبری تھی میرے والدین کے لئے۔ مگر ریحان کے ماں باپ بالکل خوش نہ تھے۔ ایک بیٹے کی خوشی کی خاطر دوسرا قربانی کا بکرا بن گیا تھا۔ ایک معذور لڑکی کو قبول کر رہا تھا۔ والدین کو فیضان نے تاویلیں دے کر قائل کر لیا۔ یوں ہم دونوں بہنوں کی شادی ایک ہی گھرانے میں دو بھائیوں سے ہو گئی۔ پہلے شاکرہ دلہن بنی اور پیا گھر رخصت ہو گئی۔ وہیل چیئر وہ اپنے ساتھ جہیز میں لے کر گئی۔ دوسرے روز میرا نکاح اور پھر رخصتی ہوگئی۔ یہ ایک انہونی تھی جو ہو گئی۔ میرے دیور نے ہم پر رحم کھا کر شاکرہ سے شادی نہیں کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ اسے پہلی نظر دیکھتے ہی محبت ہوگئی تھی۔ وہیل چیئر پر بیٹھی ایک معذور لڑکی کی معصوم صورت نے جانے فیضان پر کیا جادو کیا کہ اس کی معذوری بھی ارادے کی راہ میں حائل نہ ہو سکی اور دونوں آج نہایت کامیاب ازدواجی زندگی گزار رہے ہیں۔ خدا کی قدرت کہ ہم ابھی تک اولاد سے محروم ہیں لیکن فیضان اور شاکرہ کو اللہ تعالٰی نے چار پیارے پیارے بچوں سے نوازا ہے جن کو ہم اپنے بچے سمجھتے ہیں۔ یہ اللہ کی دین ہے جس کو چاہے جو دے، جس پر جب چاہے مہربان ہو جائے۔ اپنی حکمتیں وہ خود جانتا ہے جو راز ہم نہیں جان سکتے ، وہ ان رازوں کا امین ہے۔ ہم اب بھی ایک ساتھ رہتے ہیں۔ میری بہن اولاد جنم دینے کے قابل ہے لیکن پال نہیں سکتی لہذا ان کی اولادوں کو میں نے بہت پیارے اپنے بچے سمجھ کر پالا ہے۔ یہ بچے مجھے بڑی امی اور اپنی سگی ماں کو چھوٹی امی کہتے ہیں اور ہم چاروں ان سے اس قدر محبت کرتے ہیں کہ ان کی وجہ سے علیحدہ نہیں ہوتے ، اکٹھے رہتے ہیں۔

Latest Posts

Related POSTS