رات کے آٹھ بجنے والے تھے۔ نبیلہ ڈیوٹی پر جانے کے لئے جلدی جلدی تیار ہورہی تھی۔ وہ آج لیٹ ہورہی تھی۔ بڑی دوڑ دھوپ اور مشکل سے اسے ایک پرائیویٹ اسپتال میں نائٹ شفٹ پر بطور نرس یہ جاب ملی تھی۔ اگرچہ اس نے مارننگ شفٹ میں جاب کی درخواست دی تھی مگر صبح کی شفٹ میں جگہ خالی تھی نا ہی شام کی شفٹ میں… البتہ اس سے یہ ضرور کہا گیا تھا کہ جیسے ہی صبح کی شفٹ خالی ہوئی تو اسے نائٹ ڈیوٹی سے ہٹا کر صبح میں رکھ لیا جائے گا۔ صبح اور شام کی ڈیوٹی آٹھ گھنٹے ہوتی تھی، جبکہ نائٹ ڈیوٹی بارہ گھنٹے کی ہوتی تھی۔ رات آٹھ سے صبح آٹھ بجے تک اس مناسبت سے تنخواہ بھی کچھ زیادہ تھی۔
جاب نبیلہ کی مجبوری تھی۔ بے شک پہلے وہ اپنے شوق کی خاطر نرسنگ کے شعبے میں آئی تھی مگر پھر حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ اب یہی شوق ذریعۂ معاش بن چکا تھا۔ وہ دبلی پتلی اور گوری رنگت کی چوبیس پچیس سالہ لڑکی تھی۔ ایک اوسط درجے کے گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ اس کے ابو کسی سرکاری محکمے میں آفس سپرنٹنڈنٹ تھے۔ نبیلہ ان کی بڑی بیٹی تھی۔ اس سے چھوٹی بہن کوثر اور پھر بھائی تھا نعمان، جسے پیار سے نومی کہتے تھے۔ گھر چھوٹا مگر اپنا تھا۔ جس پوسٹ پر شفیق الدین فائز تھے، وہاں چاروں طرف سے ہن برستا تھا۔ تنخواہ سے زیادہ اوپر کی آمدنی تھی مگر شفیق الدین نے صرف حق حلال کی کمائی کو اپنے ایمان کا حصہ بنا رکھا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کو بھی اس نیک نفس انسان کی یہ ادا بھا گئی تھی کہ اس نے شفیق الدین کی محض تنخواہ کی آمدن میں بہت برکت ڈال دی تھی، گزر بسر اچھی ہورہی تھی۔ انہوں نے اپنے تینوں بچوں کی اچھی تربیت کی تھی اور انہیں پڑھایا لکھایا تھا۔ اس میں ان کی بیگم ثریا خاتون کا بھی ہاتھ تھا جو خود بھی ایک قناعت پسند اور صابر عورت تھی۔
نبیلہ کو نرس بننے کا شوق تھا۔ اس نے جب نرسنگ کورس مکمل کیا تو بدقسمتی سے باپ شفیق الدین کا ایک جانکاہ حادثے میں انتقال ہوگیا۔ ایک تیز رفتار منی بس نے ڈیوٹی پر جاتے ہوئے ان کی بائیک کو ٹکر مار دی تھی۔
نبیلہ پر گھر کی ذمہ داری کا بار آن پڑا تھا۔ ماں کو آنکھوں سے کم نظر آنے لگا تھا۔ چھوٹی بہن کوثر انٹر کا امتحان دے چکی تھی اور اب آگے پڑھ رہی تھی۔ نومی میٹرک میں تھا۔ تینوں بچے شریف اور سعادت مند تھے۔ نبیلہ نے ایک پرائیویٹ اسپتال میں جیسے تیسے جاب ڈھونڈ لی تھی، خواہ وہ نائٹ میں تھی۔
مذکورہ پرائیویٹ اسپتال میں صرف لیڈی ڈاکٹرز کے لئے پک اینڈ ڈراپ کی سہولت رکھی گئی تھی۔ فیمیل نرسوں کے لئے نہیں، حالانکہ ڈاکٹرز سے زیادہ لوئر اسٹاف پر کام کی زیادہ ذمہ داری ہوتی تھی۔ نبیلہ جیسے تیسے دو بسیں بدل کر ڈیوٹی پر پہنچی تو معلوم ہوا کہ ایک ایمرجنسی آئی ہوئی ہے۔ اس کی ساتھی نرس سسٹر آسیہ نے بتایا تھا۔ دونوں آپس میں اچھی دوست تھیں۔ وہ ایک دوسرے کی کلاس فیلوز رہ چکی تھیں۔ اس کی طرح وہ بھی غیر شادی شدہ تھی۔
’’مائی گاڈ! کس قدر خوبرو اور جوان لڑکا ہے اور دیکھو ایک حادثے نے اس کا کیا حشر کردیا ہے۔‘‘ سسٹر آسیہ نے نبیلہ سے بہت تاسف سے کہا۔
’’اچھا…!‘‘ نبیلہ نے بھی دل میں افسوس محسوس کیا۔ ’’بچنے کی کوئی امید ہے اس بے چارے کی؟‘‘
’’پتا نہیں، ابھی تو کوما میں پڑا ہے، آئی سی یو کے بیڈ نمبر تین پر ہے۔ آج کی رات چند گھنٹوں کی نیند بھی گئی، ساری رات اس کی تیمارداری میں گزرے گی۔‘‘
’’ایسا نہیں کہتے آسیہ!‘‘ نبیلہ نے اسے سنجیدگی سے ٹوکا۔ ’’ہم یہاں نیند پوری کرنے نہیں آتے، اپنا فرض نبھانے آتے ہیں۔‘‘
’’اچھا بابا! اب یہ فرائض کا لیکچر چھوڑو اور جاکر تم بھی اس کے کیس کا آرڈر فالو کرو، ڈیوٹی ڈاکٹر منظور بھی وہیں ہیں۔‘‘ آسیہ نے کہا اور نبیلہ اسٹاف روم سے نکل کر آئی سی یو کی طرف بڑھ گئی۔
جنرل وارڈز کی بہ نسبت آئی سی یو میں گہری خاموشی ہوتی تھی اور جانے کیوں نبیلہ کو آئی سی یو کی یہ خاموشی موت جیسی محسوس ہوتی تھی۔ اسے یوں لگتا تھا جیسے موت کا فرشتہ آس پاس ہی گردش کررہا ہو، حالانکہ وہ مضبوط دل گردے کی مالک تھی۔ کئی مریضوں کو اس نے اپنی آنکھوں کے سامنے دھیرے دھیرے موت کی آغوش میں جاتے دیکھا تھا، مگر باوجود اس کے جانے کیا بات تھی آئی سی یو میں داخل ہوتے ہی اس کی عجیب سی کیفیت ہونے لگتی تھی۔
آئی سی یو میں اس وقت صرف تین ہی مریض تھے۔ دو روبہ صحت تھے جبکہ تیسرے بیڈ پر وہ نیا ایڈمٹ ہونے والا بدقسمت نوجوان تھا جس کے بارے میں آسیہ نے اسے بتایا تھا۔ اس کے لواحقین آئی سی یو سے باہر کھڑے رو رہے تھے اور ہر آنے جانے والے اسٹاف سے سسکتے ہوئے نوجوان کی خیریت کے بارے میں دریافت کررہے تھے، نبیلہ اندر داخل ہوئی۔ ڈاکٹر منظور کے ہمراہ ایک اور خاتون تھیں۔ وہ خاصی عمر کی تھیں اور ان کا چہرہ اشک بار تھا، بعد میں معلوم ہوا وہ اس بدنصیب نوجوان کی ماں تھی۔ کھاتے پیتے گھرانے کے لوگ تھے۔ باپ بزنس ٹرپ پر ملک سے باہر تھا۔ اسے اطلاع کردی گئی تھی۔ وہ اپنا ٹرپ کینسل کرکے پہلی دستیاب فلائٹ سے لندن سے واپس لوٹ رہا تھا۔ نوجوان کوما میں تھا، اس کے سرہانے کے اوپر دو مانیٹر نصبب تھے۔ ایک میں اس کے دل کی اور دوسرے میں اس کی نبض کی رفتار آڑی ترچھی لکیروں کی صورت متحرک تھی۔ مصنوعی تنفس والی مشین بھی وہاں موجود تھی۔ نوجوان کے چہرے پر آکسیجن ماسک لگا ہوا تھا۔
ڈیوٹی ڈاکٹر، خاتون کو تسلی دینے کی ناکام کوشش کررہا تھا۔ نبیلہ کو دیکھ کر اس نے اسے کچھ ہدایات دیں۔ نبیلہ نے اثبات میں سر ہلا دیا، اس کے بعد ڈاکٹر خاتون کو ساتھ لئے آئی سی یو سے باہر نکل گئے۔ نبیلہ اس بدنصیب کو بغور دیکھنے لگی، پھر اسے ایک جھٹکا سا لگا۔ وہ اب سرسری نگاہوں کے بجائے بڑے غور سے اسے دیکھ رہی تھی جیسے پہچاننے کی کوشش کررہی ہو۔ اس کی اپنی حالت غیر سی ہونے لگی۔ مزید تصدیق کی خاطر اس نے نوجوان کی میڈیکل فائل دیکھی۔ نام اور ولدیت کے بعد اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ یہ بدنصیب نوجوان نبیلہ کا شناسا تھا۔ اب نبیلہ کا اپنا دم گھٹنے لگا، اس کی آ نکھیں اشکبار ہونے لگیں، ٹانگیں کانپنے لگیں۔ اس میں کھڑے ہونے کی طاقت جیسے سلب ہوگئی تھی۔ اسے چکر سا آگیا۔ وہ بمشکل کائونٹر ٹیبل تک آئی اور وہاں رکھی کرسی پر گرنے کے انداز میں بیٹھ گئی۔
’’وہی ہے… یہ… بالکل وہی ہے… صفدر حیات… مگر…!‘‘ اس کے اندر جنگ سی ہونے لگی۔ گم گشتہ ماضی کے کئی تلخ اور کریہہ مناظر اس کے پردۂ تصور پر چلنے لگے۔ ماضی کے حوالے سے کئی در اس کے بے طرح دھڑکتے دل کے دروازے کی طرح کھلتے بند ہوتے رہے۔ وہ ایک عجیب سی کشمکش کا شکار ہوگئی۔
’’نبیلہ! کیا سوچ رہی ہے تو…؟‘‘ اس کے اندر کوئی چیخا۔ ’’آج وقت تیرے ہاتھ میں ہے، خبردار…! اپنے دشمن کو کبھی معاف نہ کرنا۔ یہ آج تیرے رحم و کرم پر ہے۔ بس ایک ذرا بٹن آف ہی تو کرنا ہے مصنوعی سانس دینے والی مشین کا!‘‘
’’نہیں نبیلہ!‘‘ دفعتاً اس کے اندر ایک اور آواز ابھری جو شاید اس کے ضمیر کی آواز تھی۔ ’’یہ اپنے فرض سے غداری ہے۔ تو اس وقت ایک مسیحا کے روپ میں ہے۔ تو اس وقت نبیلہ نہیں، ایک نرس ہے جس کا کام مرتے ہوئے مریضوں کی تیمارداری کرکے انہیں زندگی کی طرف لوٹانا ہوتا ہے اور پھر یہ بدنصیب تو ویسے ہی زندہ لاش کی صورت تیرے سامنے ہے۔ مرتے ہوئے کو مارنا گناہ ہے اور فرض کی نفی ہے۔‘‘
’’کیا تو بھول گئی نبیلہ!‘‘ پہلی والی غراتی ہوئی شوریدہ آواز دماغ میں گونجی۔ ’’تو بھی تو اس وقت مر رہی تھی، ایک زندہ لاش کی مثل تو تو بھی تھی۔ اس وقت جب یہی شیطان نما انسان تجھ پر ظلم و زیادتی کے پہاڑ توڑ رہا تھا تو بھی تو بے آسرا، مجبور، بے بس اور کمزور تھی۔ بھول گئی کس طرح یہ شیطان طاقت کے نشے سے چور تھا۔ نہیں نبیلہ…! ہرگز نہیں ظالم کو معاف کرنے والا بھی ظالم کہلاتا ہے۔ جانے کتنی معصوم لڑکیوں کو اس نے تباہ کیا ہوگا اور اگر یہ بچ بھی گیا تو نجانے اور کتنی معصوم لڑکیوں کو اپنے شیطانی مقصد کی بھینٹ چڑھاتا رہے گا۔ مار دے اسے، وقت کی نبض مانیٹر میں نہیں تیرے ہاتھ میں ہے۔ کردے مشین کا بٹن آف، چند سیکنڈ ہی کی تو بات ہے۔ جب مانیٹر کی آڑی ترچھی لکیریں سیدھی ہوجائیں گی تو آن کردینا، کسی کو ذرا بھی شبہ نہ ہوگا۔ مار دے اسے، یہ خونی ہے، تیرا مجرم ہے۔ آج تجھے ایک پرانا حساب چکانے کا موقع ملا ہے۔‘‘
’’نہیں… نہیں! میں ایسا نہیں کرسکتی۔‘‘ بے اختیار نبیلہ چیخ پڑی۔
’’کیا ہوا نبیلہ…! کیا نہیں کرسکتیں تم…؟‘‘ معاً ایک حقیقی آواز اس کی سماعتوں میں گونجی اور وہ سنبھل گئی۔ اس کے قریب ساتھی نرس آسیہ کھڑی حیرت سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ نبیلہ نے جلدی سے اپنے آنسو پونچھ کے بات بنائی۔ ’’تم نے ٹھیک کہا تھا آسیہ! بے چارہ اتنا خوبصورت، خوبرو نوجوان ہے۔ اللہ اس پر رحم فرمائے۔‘‘ یہ دعائیہ کلمات ادا کرنے کے بعد نبیلہ کو جیسے سکون سا ملا۔ اس کا ضمیر مطمئن تھا۔ وہ اب پوری توجہ اور تندہی کے ساتھ نوجوان کی تیمارداری میں لگ گئی۔ ساری رات جاگتے ہوئے گزار کر ڈیوٹی ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق پل پل کی خبر اس نوجوان کی سنگین حالت زار کے متعلق اسے بہم پہنچاتی رہی اور مزید ہدایات لیتی رہی۔
تین دن بعد ڈاکٹروں کی ٹیم نوجوان کے ورثاء کو اس خوشخبری سے آگاہ کررہی تھی کہ نوجوان صفدر کو ہوش آگیا ہے، اب اس کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ بلاشبہ اس میں نبیلہ کی خصوصی توجہ اور تیمارداری کا ہی دخل تھا جس کا اعتراف پورے میڈیکل اسٹاف نے بھی کیا تھا۔
٭…٭…٭
نبیلہ نے راشد کو پہلی بار اس وقت دیکھا تھا جب وہ ساتھ والے مکان میں نئے نئے شفٹ ہوئے تھے۔ یہ اوسط درجے کا علاقہ تھا، یہاں سب لوگ مل جل کر رہتے تھے۔ راشد ایک چوبیس پچیس سالہ شریف سا نظر آنے والا لڑکا تھا اور اپنے ماں، باپ کا اکلوتا بھی! باپ کوئی چھوٹی موٹی نوکری کرتا تھا۔ راشد بھی اسی دفتر میں ملازمت کرتا تھا۔ دونوں باپ، بیٹے موٹرسائیکل پر دفتر آتے جاتے تھے۔ محلے داری کی نسبت سے سب سے پہلے راشد کی ماں ہی ان کے ہاں کھیر بنا کر لائی تھی اور تب سے نبیلہ کے گھر ان کا آنا جانا استوار ہوگیا تھا۔ نبیلہ کی ماں ثریا خاتون نے بھی راشد کی ماں کو کھلے دل سے خوش آمدید کہا تھا۔
نبیلہ اس وقت سیکنڈ ایئر میں پڑھتی تھی۔ محلے سے باہر ایک مصروف چوراہے پر کالج کی
پوائنٹ بس آکر رکتی تھی اور نبیلہ اسی کالج پوائنٹ کے ذریعے کالج آیا جایا کرتی تھی، بس چوراہے تک اسے ذرا پیدل چلنا پڑتا تھا۔ گلی میں آتے جاتے اکثر نبیلہ کی نگاہ راشد پر پڑ جاتی تھی جو اپنی بائیک پر اپنے والد کے ساتھ نظر آتا تھا، تب صرف ایک لمحے کے لئے راشد اور نبیلہ کی نظریں چار ہوتی تھیں۔ ایک دو بار راشد نے ان کے گھر کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا تھا۔ جب اس کی ماں کوئی خاص ڈش بناتی تو راشد ہی کے ہاتھ ان کے گھر بھیج دیا کرتی تھی۔ ثریا خاتون بھی اسی طرح ان کا خیال کرتی تھی۔ کبھی ایسا ہوتا تھا کہ دستک دینے پر نبیلہ دروازہ کھولتی۔ راشد اور اس کا باقاعدہ سامنا ہوجاتا تھا مگر راشد اپنی نظریں نیچی ہی رکھتا تھا۔ عورت کو سب سے پہلے مرد کی شرافت متاثر کرتی ہے۔ یہی حال نبیلہ کا تھا۔ اسے راشد اچھا لگنے لگا تھا۔
اس روز وہ بس اسٹاپ پر ذرا دیر سے پہنچی تو کالج کی بس جا چکی تھی۔ نبیلہ کو کسی وجہ سے دیر ہوگئی تھی مگر جانا بھی ضروری تھا۔ آج اس کا ٹیسٹ تھا۔ اب اگر وہ بس پر جاتی تو لیٹ ہوجاتی کیونکہ کالج ایسے روٹ پر تھا جس کے لئے دو بسیں بدلنا پڑتی تھیں اور تاخیر الگ ہوجاتی خواری کے ساتھ…!
سوئے اتفاق اس روز راشد کے والد کی طبیعت ذرا خراب تھی اس لئے راشد اکیلے ہی بائیک پر نکلا۔ محلے کی گلی سے نکل کر جب وہ چوراہے پر آیا تو اس کی نظر بھی بس کے انتظار میں کھڑی نبیلہ پر پڑ گئی جو پریشان سی نظر آرہی تھی اور باربار اپنی رسٹ واچ کی طرف دیکھ رہی تھی۔ راشد کو سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ معاملہ کیا تھا۔ بہرطور وہ اپنی بائیک سمیت اس کے قریب جا پہنچا۔ محلے داری کے حوالے سے کچھ شناسائی تو تھی لہٰذا اسے بڑے ادب سے سلام کرنے کے بعد نہایت شستہ لہجے میں بولا۔
’’آپ شاید لیٹ ہورہی ہیں، مناسب سمجھیں تو آپ کو کالج ڈراپ کردوں، میرا دفتر بھی اسی طرف پڑتا ہے۔‘‘
نبیلہ اس آفر کو رد نہ کرسکی اور کچھ تامل کے بعد سنبھل کر اس کی بائیک پر بیٹھ گئی۔
’’شاید آج آپ کا کالج پوائنٹ نکل گیا ہے؟‘‘ راشد نے بائیک آگے بڑھاتے ہوئے دھیرے سے کہا۔
’’جی…!‘‘ وہ بولی۔ ’’عموماً ایسی صورتحال میں کالج نہیں جاتی ہوں مگر آج ہماری کلاس میں گروپ ٹیسٹ تھا۔‘‘
’’چلیں اچھا ہوا اس بہانے مجھے ایک کارخیر ادا کرنے کا موقع تو ملا۔‘‘ راشد نے مسکرا کر کہا۔ ’’ویسے سچ پوچھیں میں نے آپ کو ڈرتے ڈرتے ہی لفٹ کی آفر کی تھی کہیں آپ مجھے ڈانٹ ہی نہ دیں۔‘‘ اس کی بات پر نبیلہ ہنسی پھر بولی۔
’’آپ کی جگہ کوئی اور ہوتا تو میں ایسا کرنے سے بھی دریغ نہ کرتی، ٹیسٹ جاتا بھاڑ میں مگر آپ کی بات اور ہے۔‘‘
’’اس اعتبار کا شکریہ! یہ میرے لئے فخر کی بات ہے کہ آپ مجھے کوئی ایسا ویسا لڑکا نہیں سمجھتیں۔‘‘ وہ بولا۔
’’آج انکل آپ کے ساتھ نہیں ہیں، خیریت…؟‘‘ نبیلہ نے ہولے سے پوچھا۔
’’ہاں! ان کی آج طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔‘‘ اس نے مختصراً جواب دیا۔
یہ ان کی پہلی باقاعدہ ملاقات تھی پھر آگے چل کر مزید اس طرح کے مواقع میسر آئے تو دل کو بھی دل سے راہ ہوئی۔ محلے داری سے شناسائی اور پھر دوستی تک یہ سفر طے ہوا تو ایک دوسرے کے بارے میں جاننے کا بھی موقع ملا۔ نبیلہ کو وہ ہر لحاظ سے ایک اچھا، شریف اور سلجھا ہوا انسان لگا تھا۔ اس نے بی کام کیا ہوا تھا۔
ایک دن بہت جھجکتے ہوئے راشد نے نبیلہ سے باہر گھومنے کے لئے جانے کی فرمائش کر ڈالی۔ نبیلہ کے لئے یہ مشکل تھا۔ یوں تو دونوں تھوڑی بہت باتیں کرنے کا موقع مل جایا کرتا تھا اور یہ بھی اس وقت جب راشد اپنی ماں کی بنی کوئی سوغات لے کر ان کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتا تھا۔ اگرچہ اس میں بھی ایک بہانے کا دخل ہوتا تھا، تاہم اس قلیل ترین ملاقات پر بھی نبیلہ محتاط رہتی اور راشد کو بھی یہی تلقین کرتی۔
بندہ پیاسا رہے تو پیاس اتنی شدت سے نہیں ستاتی جتنی قطرہ قطرہ پانی ملنے پر ستاتی ہے۔ پیاسے کے لئے تو یہ قطرہ گویا بھڑکتی آگ پر پیٹرول چھڑکنے کے مترادف ہوتا ہے۔ یہی حال راشد کا تھا اور نبیلہ کی بھی کم و بیش یہی کیفیت تھی۔
’’پلیز نبیلہ! کچھ کرو نا!‘‘ اس روز راشد نے بڑی حسرت سے کہا۔ ’’یہ مشکل ہے میرے لئے راشد!‘‘ نبیلہ نے سر جھکا کر ہولے سے کہا۔
’’کسی سہیلی سے ملنے کے لئے جانے کا بہانہ تو بنا ہی سکتی ہو۔‘‘
’’اور اگر تمہاری بائیک پر کسی محلے والے یا والی نے دیکھ لیا تو…؟‘‘ نبیلہ نے پیار سے اسے گھورا۔
’’میں اتنا بے وقوف تھوڑا ہی ہوں، ذرا آگے جاکر تمہارا انتظار کروں گا۔‘‘
’’نا بابا…! مجھے ڈر لگتا ہے۔ یہ ہم جیسوں کے لئے بڑی بات ہے۔‘‘
’’دیکھو، میں جانتا ہوں عزت دار گھرانوں کی لڑکیاں کبھی ایسا نہیں کرتیں اور یہ اچھی بات بھی ہے لیکن میں تم سے ذرا کھل کر بات کرنا چاہتا ہوں، کسی کھلی فضا میں!‘‘ راشد نے کہا۔ نبیلہ کو جانے کیوں اس کی بات پر لاج سی آگئی۔ بولی۔ ’’تم کیا بات کرنا چاہتے ہو؟‘‘
’’کیا اب بھی یہ بتانے کی ضرورت ہے؟‘‘ راشد محبت پاش نظروں سے نبیلہ کے چہرے کی طرف گھورتے ہوئے معنی خیز لہجے میں بولا۔ نبیلہ سرخ ہوگئی، تاہم ہنس کر بولی۔ ’’جب ضرورت نہیں ہے تو باہر جانے کا مقصد…؟‘‘
’’تم ایسے باز نہیں آئو گی۔‘‘ راشد زچ ہوکے بولا۔ ’’تو پھر میں اپنی امی جان کو تمہارے گھر بھیج کر رہوں گا، تمہارا رشتہ مانگنے کے لئے!‘‘
’’نا…نا! ابھی یہ غضب مت کرنا، ابھی تو مجھے آگے پڑھنا ہے، نرسنگ کورس کرنا ہے۔‘‘
’’تو پھر چلو میرے ساتھ!‘‘ راشد نے پیار بھرے انداز میں بلیک میلنگ سے کام لیا تو نبیلہ کو ماننا پڑا، مگر اس شرط کے ساتھ صرف ایک بار کے لئے۔ یوں شام کو ایک روز دونوں بائیک پر سوار ہوکر ساحل سمندر پر جا پہنچے۔ دونوں نے وہاں پیدل ٹہلتے ہوئے کھل کر باتیں کیں، چنے کی چاٹ کھائی پھر جب لوٹنے لگے تو انہیں ایک حادثہ پیش آگیا۔
اس وقت سورج ڈھلنے لگا تھا اور شام گہری ہونے لگی تھی۔ نبیلہ گھر سے ایک سہیلی کے ہاں منگنی کی رسم میں شرکت کرنے کا بہانہ کرکے نکلی تھی جس کی اسے بڑی مشکل سے ہی اجازت ملی تھی۔
لوٹتے سمے عقب سے آنے والی ایک کار تیزی سے انہیں سائیڈ مارتی گزر گئی۔ بائیک کو جھٹکا لگا۔ نبیلہ خوف سے چیخی، بائیک گرتے گرتے بچی تھی۔ راشد کو اس کار والے کی لاپرواہی پر غصہ آگیا۔ اس نے پرطیش انداز میں اپنے دانت بھینچ لئے اور کار کا تعاقب کرتے ہوئے ایک موڑ پر اسے جا لیا۔ اپنی بائیک اس نے کار کے سامنے جا روکی تھی۔
’’اندھے ہو یا نشے میں کار چلا رہے تھے۔ اگر کوئی حادثہ ہوجاتا تو…؟‘‘ راشد نے بائیک سے اتر کر کار والے کے قریب جاکر غصے سے کہا۔ وہ بھی راشد کی طرح ایک نوجوان ہی تھا۔ شکل و صورت اور اپنی وضع قطع سے وہ کوئی رئیس زادہ ہی نظر آتا تھا۔ اس نے ایک تضحیک آمیز نگاہ دونوں پر ڈالی پھر اپنے پرس سے ہزار کا ایک نوٹ نکال کر راشد کی طرف بڑھاتے ہوئے بیزاری سے بولا۔ ’’یہ رکھ لو اور جاکر اپنی اس خوبصورت گرل فرینڈ کے ساتھ مزے کرو، میری جان چھوڑو۔‘‘ اس رئیس زادے کی اس حرکت اور بات نے راشد کے تن بدن میں آگ لگا دی۔ اس نے ہونٹ بھینچ کر آئو دیکھا نہ تائو اس رئیس زادے کے چہرے پر گھونسہ جڑ دیا۔ ضرب کاری تھی، اس کا ہونٹ پھٹ گیا اور وہاں سے خون بہنے لگا۔ مگر اس نے کمال صبر سے کام لیا۔ ڈیش بورڈ پر رکھے ٹشو پیپر باکس سے ٹشو لے کر اپنا خون آلود ہونٹ صاف کیا، پھر کار سے نیچے اتر آیا۔ وہ بھی راشد کی طرح خوبرو اور اسمارٹ تھا۔ نبیلہ اس صورتحال پر خوف زدہ ہوگئی اور راشد کا بازو تھام کر سراسیمہ انداز میں بولی۔
’’چلو راشد! چلو پلیز…!‘‘ مگر راشد ٹس سے مس نہ ہوا۔
رئیس زادے نے راشد کی بائیک کا نمبر نوٹ کیا۔ اس کے بعد اپنی جیب سے سیل فون نکال کر کھڑے کھڑے ایک نمبر ملایا جو شاید کسی قریبی تھانے کا تھا۔ ذرا ہی دیر میں وہاں پولیس آن پہنچی۔ رئیس زادے نے پہلے اپنا تعارف کروایا اس کے بعد نبیلہ اور راشد کی طرف اشارہ کیا۔
’’یہ دونوں مجھے لوٹنے کی کوشش کررہے تھے، میں نے ان پر قابو پانے کی کوشش کی تو اس نے مجھے گھونسہ جڑ دیا۔‘‘ رئیس زادے نے جھوٹ بولا۔
’’چلو دونوں تھانے!‘‘ ایک موٹے پولیس والے نے کرخت لہجے میں ان دونوں کی طرف باری باری گھورتے ہوئے کہا۔
نبیلہ کے تو اوسان ہی خطا ہوگئے۔ تھانے کے نام پر ہی اس کی حالت غیر ہونے لگی۔ وہ رئیس زادہ بڑی شاطرانہ نظروں سے نبیلہ کا جائزہ لے رہا تھا اور اس کی پریشانی سے فوراً سمجھ گیا کہ لڑکی کا تعلق بلاشبہ ایک شریف اور قدامت پرست گھرانے سے تھا۔
’’یہ جھوٹ بول رہا ہے، اس نے ہماری بائیک کو ٹکر ماری تھی۔‘‘ راشد نے غصیلے لہجے میں پولیس والے سے کہا۔ ’’تم میری تلاشی لے سکتے ہو، لوٹنے والوں کے پاس اسلحہ ہوتا ہے اور پھر میں بھاگا نہیں بلکہ اپنی مرضی سے یہاں رکا ہوا ہوں۔‘‘
’’اسلحہ بھی ہم برآمد کرلیں گے۔‘‘ پولیس والا معنی خیز مکاری سے بولا۔ ’’ذرا تم دونوں تھانے تو چلو۔‘‘
اس کی بات پر نبیلہ کو غش آنے لگے۔ پولیس نے راشد کو ہتھکڑی لگائی تو نبیلہ اس رئیس زادے کے سامنے منت سماجت کرتے ہوئے بولی۔
’’دیکھیں پلیز ہمیں معاف کردیں، ان سے کہیں ہمیں چھوڑ دیں، میں ایک شریف لڑکی ہوں۔ میرا بوڑھا باپ اور گھر والے جیتے جی اس بدنامی سے مر جائیں گے۔‘‘
رئیس زادے نے بڑی شیطانی نظروں سے نبیلہ کا جائزہ لیا، پھر پولیس والے سے بولا۔ ’’اس مجنوں کی اولاد کو بے شک لے جائو، اسے چھوڑ دو۔‘‘
اس نے پہلے راشد کی طرف اور آخر میں نبیلہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ نبیلہ کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ وہ عزت کے خوف سے بھی ادھ موئی ہوئی جارہی تھی۔ ایسے حالات سے وہ پہلی بار ہی دوچار ہوئی تھی جس نے اس کی عقل خبط کرکے رکھ دی تھی۔ پھر سب کچھ تیزی سے ہوا۔ پولیس راشد کو لے گئی۔ اب وہاں صرف نبیلہ اور وہ رئیس زادہ رہ گئے۔
’’آئو میں تمہیں تمہارے گھر چھوڑ دوں۔‘‘ میدان صاف دیکھ کر رئیس زادے نے ہراساں اور حیران پریشان کھڑی نبیلہ سے کہا۔
نبیلہ کو دیر ہورہی تھی۔ رات سر پر تھی، اریب قریب میں کسی سواری کا آسرا بھی نہ تھا، تاہم شش و پنج میں مبتلا تھی۔ رئیس زادے نے اس کی کیفیات کا جائزہ لیتے ہوئے، لہجے میں شائستگی سموتے ہوئے کہا۔
’’قصور میرا اتنا بڑا بھی نہیں تھا جس پر تمہارے
سے بوائے فرینڈ نے میرے منہ پر گھونسہ جڑ دیا بلکہ میں تو اسے سوری بھی کہہ چکا تھا۔ شاید بے چارے کو احساس کمتری کھا گیا تھا۔ خیر آپ فکر نہ کریں، میں تھانے فون کردوں گا، پولیس تمہارے بوائے فرینڈ کو چھوڑ دے گی۔ دراصل آج میری سسٹر کی شادی تھی، میں نے اسے پارلر سے پک کرنا تھا، دیر ہورہی تھی مجھے، اسی لئے کار تیز رفتاری سے بھگا رہا تھا۔‘‘
’’آ… آپ… مجھے کسی اسٹاپ تک چھوڑ دیں، میں آگے بس میں چلی جائوں گی۔‘‘ نبیلہ نے جھجکتے ہوئے کہا۔
’’آف کورس! آئیں۔‘‘ رئیس زادے نے جھٹ سے کہا اور اپنے برابر کی سیٹ کا دروازہ کھول دیا۔
’’میرا نام صفدر ہے… صفدر حیات! میں معروف صنعتکار ملک فیاض کا بیٹا ہوں۔ کار اسٹارٹ کرکے آگے بڑھاتے ہوئے اس نے اپنا تعارف کرایا پھر چند لمحوں کے توقف سے سوال کیا۔ ’’آپ کا نام پوچھ سکتا ہوں؟‘‘
’’نبیلہ…!‘‘
’’پیارا نام ہے، آپ کی طرح!‘‘ رئیس زادے صفدر نے کہا پھر بڑی چالاکی سے دانستہ ایک ویران چوراہے پر کار روک دی جہاں دور دور تک کسی سواری کا نام و نشان تک نہ تھا۔ نبیلہ پریشانی سے اِدھر اُدھر دیکھنے لگی۔ صفدر عیاری سے بولا۔ ’’میں نے اپنا کہا پورا کیا، آپ یہاں اتر سکتی ہیں، میرا خیال ہے کوئی نہ کوئی بس تو آ ہی جائے گی۔‘‘
نبیلہ بے بسی سے رو پڑی۔ لوہا گرم دیکھ کر صفدر نے کہا۔ ’’آپ ہی کی ضد تھی، اب بھلا یہاں آپ کو کون سی سواری ملے گی جبکہ آپ کو پہلے ہی گھر سے دیر ہورہی ہے۔ چلیں میں آپ کو گھر پر ہی چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘ کہتے ہوئے اس نے کار آگے بڑھا دی۔ تیر نشانے پر لگتا دیکھ کر اسے یقین ہوگیا تھا کہ اب یہ پریشان حال لڑکی انکار نہیں کرسکتی۔
’’اب دیر تو ہوہی گئی ہے۔ آپ کو یقیناً اپنے گھر والوں کو اپنی تاخیر کا کوئی نہ کوئی جواز بھی دینا پڑے گا۔‘‘ ذرا آگے جاکر صفدر نے مکاری سے کہا۔ وہ بدستور نبیلہ کی ایک ایک کیفیت کا جائزہ لے رہا تھا۔ ’’میرے ذہن میں ایک معقول تجویز آئی ہے، آپ کے گھر والوں کو مطمئن کرنے کی، مگر پہلے آپ یہ بتائیں مجھے کہ یہ سارا معاملہ رازداری کا تھا…؟ میرا مطلب ہے…!‘‘ اس نے دانستہ جملہ ادھورا چھوڑا۔
’’راشد میرے محلے میں ہی رہتا ہے۔‘‘ نبیلہ اس کی بات کا مطلب سمجھ کر بالآخر بولی۔ ’’ہمارے بارے میں کسی کو علم نہیں، میں بھی گھر والوں کو اپنی کسی سہیلی کی منگنی کا بہانہ بنا کر نکلی تھی۔‘‘
’’تو بس کام بن گیا۔‘‘ وہ جھٹ سے بولا۔ ’’ایسا کرتے ہیں سب سے پہلے پارلر سے میں اپنی بہن کو پک کرتا ہوں پھر ہم ساتھ تمہارے گھر چلیں گے تاکہ انہیں بھی یقین آجائے تم نے ان سے جھوٹ نہیں کہا تھا۔ میں اور میری بہن تمہارے گھر والوں سے تاخیر کی معذرت بھی کرلیں گے۔ اس طرح تمہاری بات بھی سچی ہوجائے گی۔‘‘ نبیلہ کو یہ تجویز پسند آئی۔ اسے یوں لگا جیسے اس کے سر سے بار اتر گیا ہو مگر وہ راشد کی طرف سے ابھی تک صفدر کے تسلی دلانے کے باوجود پریشان تھی۔ اسی لہجے میں بولی۔ ’’وہ… وہ راشد…!‘‘
’’اس کی فکر نہ کرو، وہ جلد یا بدیر گھر پہنچ ہی جائے گا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس کے چہرے پر کینہ پروری کی تلخی ابھر آئی تھی۔
صفدر، نبیلہ کو کسی پارلر پر لانے کے بہانے سیدھا ایک فلیٹ میں لے گیا جہاں اس کے تین چار اوباش دوست پہلے ہی سے موجود تھے۔ اس صورتحال پر نبیلہ کی حالت غیر ہوگئی۔
’’لو پکڑو تازہ بہ تازہ شکار…!‘‘ صفدر نے نبیلہ کو اپنے اوباش ساتھیوں کی طرف دھکیلا جو اس کی طرف گرسنہ نظروں سے گھور رہے تھے۔ اس نے بڑے اطمینان سے اپنی جیب سے سیل فون نکالا اور متعلقہ تھانے کا نمبر ملانے کے بعد بولا۔
’’ہاں! ابھی جو راشد نام کا وہ مجرم لڑکا پکڑا ہے، اس کی ایسی حالت بنا دو کہ گھر والے بھی اسے نہ پہچان پائیں۔ تمہارا حصہ پہنچا دیا جائے گا۔‘‘ اس نے شاید اسی پولیس والے سے بات کی تھی جس نے راشد کو ہتھکڑیاں لگائی تھیں۔
یہ صفدر حیات اور اس کے ٹولے کا معمول تھا، ان کا پرانا مشغلہ تھا۔ صفدر اسی طرح معصوم لڑکیوں کو پھنسا کر یہاں لایا کرتا تھا۔ نبیلہ رو رہی تھی، ان درندوں کے آگے ہاتھ جوڑ رہی تھی، ان کی منتیں کررہی تھی مگر اس کی داد فریاد ان کے شیطانی قہقہوں میں دبی جارہی تھی۔ یکایک عزت بچانے کی قوت خوف پر غالب آگئی۔ ایک شیطان کے دھکا دینے پر اس نے سیدھی دروازے کی طرف دوڑ لگا دی۔ وہ سب طاقت کے زعم میں چور نبیلہ کی پھرتی کو نہ سمجھ پائے۔ جب ہوش آیا تو نبیلہ فلیٹ کا دروازہ کھول کر دیوانہ وار باہر دوڑتی ہوئی نکل گئی۔
نجانے کسی طرح ایک بھلا مانس رکشے والا کسی فرشتے کی مانند اسے ٹکرا گیا، اس نے کرایہ بھی نہ لیا اور اسے گھر پہنچا دیا۔
عورت تو کچے گھڑے کی مانند ہوتی ہے، ذرا ہاتھ لگا اور گھڑا تڑخ گیا۔ وہ ٹوٹی تو نہ تھی مگر تڑخ گئی تھی۔ شریف زادی کے لئے یہی بے عزتی کیا کم تھی کہ غیر مردوں کے ہاتھوں نے اسے کھلونے کی طرح اچھالا تھا۔ وہ جیسے تیسے عزت تو بچا آئی تھی مگر یہ بے عزتی اس کے ضمیر میں کانٹے کی طرح چبھ کر رہ گئی۔
اسے راشد کی فکر ستانے لگی۔ بول بھی نہیں سکتی تھی کہ اس کے ساتھ کیا ہونے جارہا تھا۔ اگلے دن راشد کی ڈھنڈیا پڑی تو معلوم ہوا کہ وہ تھانے میں تھا۔ بے چارے کے گھر والے تھانے کی طرف دوڑے۔ ادھر نبیلہ کو باربار راشد کا خیال ستانے لگا کیونکہ اسے یاد تھا اس شیطان صفت انسان صفدر نے پولیس والے کو راشد کے متعلق اپنے سیل فون پر کیسی سنگین ہدایات دی تھیں۔ نجانے اب راشد کا وہ کیا حشر کرنے والے تھے۔ معاملہ ایسا تھا کہ نبیلہ اپنا منہ بھی بدنامی کے خوف سے نہیں کھول سکتی تھی، البتہ یہ ڈر ہورہا تھا کہیں پولیس والے یا پھر خود راشد ہی اصل حقیقت نہ اگل دے۔ پولیس والے تو خیر نبیلہ کو نہیں جانتے تھے مگر کیا راشد تھانے میں نبیلہ کے سلسلے میں اپنا منہ بند رکھ سکتا تھا؟
نبیلہ کو کچھ امید تو تھی کہ چاہے کچھ ہوجائے، راشد اس کا نام زبان پر نہیں لائے گا اور کسی کو بھی اس کے بارے میں نہیں بتائے گا۔ نبیلہ کے دل میں صفدر کا بھی خیال آیا۔ اس کے جی میں تو آئی کہ وہ بھی راشد کے گھر والوں کے ساتھ تھانے جا پہنچے اور صفدر اور اس کے شیطانی ٹولے کے کرتوتوں کے بارے میں اُگل دے۔ مگر وہ پہلے ہی دیکھ چکی تھی کہ کون اس کی بات پر بھروسہ کرتا، الٹا مصیبت اور بدنامی گلے پڑتی۔ بے بسی کے احساس تلے وہ بے اختیار رو پڑی۔
شام کو کہیں جاکر راشد کے گھر والے اسے لئے گھر پہنچے تھے۔ دیوار کے پار شور ابھرا تو نبیلہ کی ماں جھٹ چادر اوڑھے خیریت دریافت کرنے جا پہنچی اور نبیلہ بے چینی سے ماں کی واپسی کا انتظار کرنے لگی، تاہم اس نے خود بھی دیوار کے ساتھ چارپائی لگا کر اس پر کھڑے ہوکے دوسری طرف صحن میں جھانکنے کی کوشش کی تھی اور ایک روح فرسا منظر اسے بھی نظر آیا تھا۔ راشد کے گھر والے زاروقطار رو رہے تھے اور خود راشد انتہائی زخمی حالت میں چارپائی پر پڑا تھا۔ ظالم پولیس والوں نے اس پر بہیمانہ تشدد کیا تھا اور اس کی مرہم پٹی بھی کی تھی۔ راشد کا باپ غصے سے بھرا ہوا تھا۔ بیوی اسے روک رہی تھی کہ پولیس کے خلاف کارروائی کرنے کا کوئی فائدہ نہ تھا، یہی کافی تھا ان کے لئے کہ انہوں نے ان کے بیٹے کو چھوڑ دیا تھا۔
بعد میں نبیلہ کی ماں نے تفصیل اسے بتائی تھی کہ پولیس نے راشد پر اور بھی نجانے کیا کیا بڑے سنگین جرائم تھوپ ڈالے تھے۔ وہ چاہتے تو راشد کے ناکردہ جرائم کا چالان بنا کر اسے سزا بھی دلوا سکتے تھے۔ تاہم معاملہ ختم کردیا گیا تھا مگر راشد اب بستر سے لگ گیا۔ نبیلہ کو اس پر بے حد ترس بھی آیا، وہ سوچنے لگی کہ اسے بھی اتنی سی بات بڑھانا نہیں چاہئے تھی۔ اتنی سی بات پر غصہ دکھانے کا بھلا کیا فائدہ ہوا، سوائے نقصان اٹھانے کے…! کچھ دنوں بعد جب راشد ذرا چلنے پھرنے کے قابل ہوا تو دونوں کی مختصر ملاقات ہوئی۔ راشد، نبیلہ سے ناراض ناراض تھا۔ وجہ پوچھنے پر اس نے کہا۔ ’’اس رات تمہیں بھی میرے ساتھ تھانے چلنا چاہئے تھا، تم نے بڑی خودغرضی دکھائی، مجھے تمہاری فکر ستاتی رہی تھی۔ تم کیسے گھر پہنچی تھیں اس رات…؟‘‘ اس نے گویا پھٹتے ہوئے ایک ساتھ کئی سوال کر ڈالے۔ نبیلہ نے بھی اس سے کچھ نہیں چھپایا۔ جو سچ تھا، وہ اس نے راشد کے سامنے اگل دیا اور اپنے دفاع میں بولی۔
’’میں اس وقت خود بہت خوف زدہ اور پریشان ہوگئی تھی، میری کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا، میں کیا کروں… میں پہلے کبھی ایسے حالات سے کب گزری تھی۔ تم نے دیکھا نہیں تھا کہ وہ پولیس والے صفدر نامی اس اوباش رئیس زادے کا کس طرح حکم مان رہے تھے، ہماری سن رہے تھے وہ…! میں بھی اگر تمہارے ساتھ تھانے جاتی تو بدنامی…!‘‘
’’بدنامی… بدنامی…!‘‘ راشد غصے سے چیخا۔ ’’کیا ہوجاتا پھر ہم نے کون سا سنگین جرم کر ڈالا تھا نبیلہ صاحبہ! تم نے جب محبت کی ہے مجھ سے تو بہادر بھی بن کے دکھانا تھا۔ میں تو تم سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ بس ایک ذرا سیر کو ہی تو نکلے تھے اور مجھے کیا معلوم تم ان بھیڑیوں کے نرغے میں کب تک پھنسی رہیں اور انہوں نے تمہارے ساتھ کیا کیا…؟‘‘
راشد کی بات سن کر نبیلہ سکتے میں رہ گئی۔ بولی۔ ’’کیا تمہیں مجھ پر بھروسہ نہیں۔ اس بات پر بھی نہیں کہ میں کس طرح اس قیامت کی رات کو اپنی عزت بچا کر ان خوفناک درندوں کے نرغے سے نکل بھاگنے میں کامیاب ہوگئی تھی؟‘‘
راشد طنزیہ ہنسی سے بولا۔ ’’میں کیسے بھروسہ کرلوں نبیلہ صاحبہ! جو لڑکی مجھے پولیس والوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کے اس اوباش لڑکے کی کار میں…!‘‘
’’بس کرو راشد…!‘‘ نبیلہ کو بھی اس کی یاوہ گوئی پر غصہ آگیا۔ ’’تم ایک شریف اور پاک دامن لڑکی پر الزام عائد کرکے کیا ثابت کرنا چاہتے ہو؟ کیا تمہیں خود پہلے یہ احساس نہ ہوا تھا کہ میں تمہاری ضد اور اصرار پر مجبور ہوکے تمہارے ساتھ… ایک لڑکے کے ساتھ پہلی بار گھر والوں سے جھوٹ بول کر باہر نکلی تھی۔ حالات اور موقع محل کا تو پہلے تمہیں احساس کرنا چاہئے تھا۔ کیا ضرورت تھی ایک ذرا سی بات پر اس امیرزادے سے الجھنے کی۔ نجانے ایسے کتنے واقعات روزانہ ہوتے ہوں گے، تمہیں بھی درگزر کرنا چاہئے تھا۔ اس کا مطلب ہے اس امیر زادے نے تمہارے بارے میں درست اندازہ لگایا تھا کہ تم نے یہ سب اپنے احساس کمتری میں آکر کیا تھا اور اس کے چہرے پر گھونسہ مار کے اسے لہولہان کر ڈالا تھا اور سنو…! مجھے
تمہارے سامنے تمہید باندھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ میرا اعتبار کرو یا نہ کرو مگر میری پاکدامنی کا گواہ میرا اللہ تو ہے۔ اگر میں اس روز تمہارے ساتھ تھانے چلی بھی جاتی تو بھی تم کیا کرلیتے، بتائو مجھے…؟ وہاں میرا اس سے زیادہ برا حشر کیا جاسکتا تھا۔ تمہیں تو شکر ادا کرنا چاہئے تھا کہ ہماری عزت بچ گئی۔ اپنے گھر والوں کی بدنامی کے بعد کیا میں خوش رہ سکتی تھی اور پھر تمہارا میرے گھر والوں پر کیا خراب اثر پڑتا یہ تم نے سوچا…!‘‘
’’تو اب کیا ہوا…؟‘‘ وہ بولا۔ ’’اب بھی تمہارے گھر والے مجھے ہی مجرم سمجھ رہے ہوں گے۔‘‘
’’ہرگز نہیں!‘‘ نبیلہ مستحکم لہجے میں بولی۔ ’’انہیں پہلے ہی سے معلوم ہے کہ تم شریف لوگ ہو اور پولیس کو تم نے جو بیان دیا تھا، اس پر میں تمہارا احسان نہیں بھولوں گی کہ تم نے میرا نام نہیں آنے دیا۔ میرے گھر والے یہی سمجھ رہے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ پولیس نے ایک معمولی بات کا بتنگڑ بنا کر تم پر بلاجواز تشدد کیا۔‘‘
نبیلہ کی باتوں نے راشد پر خاطرخواہ اثر کیا تھا۔ ایک گہری سانس خارج کرکے گویا اس نے اپنے اندر کی ساری کدورت پھونک ڈالی۔ پھر ہولے سے بولا۔ ’’سوری نبیلہ! میں واقعی جذباتی ہوگیا تھا۔ میں نے تمہیں غلط سمجھا، کیا مجھ سے تم خفا ہو؟‘‘
نبیلہ کی آنکھیں بھیگ گئیں اور اس نے بھی اپنا سر جھکا لیا۔ راشد نے بڑی محبت سے اس کے آنسو پونچھے اور بولا۔
’’میں اب تمہیں کسی امتحان میں نہیں ڈالوں گا اور اب تم بھی مجھے نہیں روکو گی۔ میں چند دنوں میں تمہارے رشتے کے لئے اپنی امی کو بھیج رہا ہوں۔‘‘
’’لل… لیکن! میرا نرسنگ کا خواب…؟‘‘
’’وہ بھی پورا ہوجائے گا۔ شادی کے بعد بھی تم اسے جاری رکھ سکتی ہو، مجھے کوئی اعتراض نہ ہوگا۔‘‘
’’وعدہ…؟‘‘
’’پکا وعدہ…!‘‘
٭…٭…٭
نبیلہ نے خدا کا شکر ادا کیا تھا کہ اس کی زندگی میں ایک بڑا بھونچال آتے آتے پلٹ گیا تھا۔ وہ اب اس تلخ واقعے کو ایک ڈرائونے خواب کی طرح دل و دماغ سے بھلانے لگی تھی، مگر تقدیر کو شاید ابھی اور امتحان مقصود تھے۔
نبیلہ کو معلوم نہ تھا کہ راشد کے اندر کیسا لاوا پک رہا تھا۔ اس نے اس رات کی بات کو اپنی غیرت کا مسئلہ بنا لیا تھا۔ اب یہ اس کا نیک مقصد ہی کہا جاسکتا تھا یا پھر جنون کہ اس نے اس امیر زادے صفدر کی دشمنی کو دل سے لگا لیا تھا۔ نبیلہ سے اس نے اس کے اڈے نما اس فلیٹ کا پتا معلوم کرلیا تھا جدھر وہ دھوکے سے نبیلہ کو لے کر گیا تھا، ساتھ ہی اس نے ایک ذمہ دار پولیس افسر کو بھی ان ساری باتوں سے آگاہ کرتے ہوئے بتا دیا تھا کہ صفدر نامی اس شیطان اور اس کے چیلوں کا کام ہی اس طرح کی عیاشی کرنا ہے جو نجانے اب تک کتنی معصوم بے گناہ لڑکیوں کے ساتھ اس سے بھی زیادہ ظلم کرچکے ہوں گے۔ تب اس افسر نے بھی اس بات کے حوالے سے ایک سنسنی خیز انکشاف کیا تھا کہ انہیں بھی ایک ایسے گروہ کی تلاش ہے جو لڑکیوں کو بھلا پھسلا کر یا دھوکے سے اغوا کرکے اپنے ٹھکانے پر لے جاتے ہیں، پھر ان کی قابل اعتراض ویڈیو بنا کر انہیں بلیک میل کرتے ہیں۔ کچھ لڑکیاں تو خودکشی کرلیتی ہیں یا قتل کردی جاتی ہیں۔ تم ہماری مدد کرو، ایسے گروہ کو کیفرکردار تک پہنچانے کی۔
بس پھر کیا تھا راشد نے فوراً مذکورہ فلیٹ کی نشاندہی کردی۔ مذکورہ پولیس افسر نے کچھ ان کے ٹھکانے کی مخبری کی اور پھر جب اسے مخبر کی طرف سے گرین سگنل ملا تو انہوں نے چھاپہ مارا۔ وہاں وہ ایک مجبور اور بے کس لڑکی کو اٹھا لائے تھے اور رنگے ہاتھوں پکڑے گئے تھے۔ ساتھ ہی اس پولیس افسر نے ان پولیس والوں کے خلاف بھی کارروائی کر ڈالی جو اس گروہ کی سپورٹ کرتے تھے۔ یہ سب راشد کی نشاندہی پر ہوا۔
صفدر اپنے اوباش ساتھیوں کے ساتھ گرفتار ہوچکا تھا لیکن محکمہ جاتی کارروائی کی زَد میں آنے والی ایک پولیس کی ایک کالی بھیڑ نے صفدر کے کان میں یہ بات ڈال دی تھی کہ یہ سب اسی لڑکے راشد کی وجہ سے ہوا تھا۔
جب راشد نے دیکھا کہ اس نے اپنے مقصد میں خاطرخواہ کامیابی حاصل کرلی ہے تو اس نے بڑے فخر و انبساط کے ساتھ نبیلہ کو یہ خوشخبری سنائی کہ اس نے زیادتی کرنے والوں کو اور ان کے سرغنہ صفدر کو بالآخر قانون کی گرفت میں پھنسا کر چھوڑا۔ اس کا خیال تھا نبیلہ خوش ہوگی مگر اس کے برعکس یہ سن کر نبیلہ کے چہرے پر تشویش کے آثار نمودار ہوگئے۔
’’کیا ہوا… تمہیں کوئی خوشی نہیں ہوئی؟‘‘ وہ اس کے تاثرات کا جائزہ لیتے ہوئے بولا۔
’’نہیں! یہ بات نہیں، اچھا ہوا وہ لوگ اپنے انجام کو پہنچے مگر راشد! پتا نہیں کیوں مجھے اس قسم کے حالات اور جھگڑوں سے ڈر لگتا ہے۔‘‘ وہ بولی۔ ’’آئے دن ٹی وی، اخبارات میں آتا رہتا ہے کہ اس طرح کی دشمنیوں کے بعد میں کتنے خطرناک نتائج نکلتے ہیں اور قانون بے بس نظر آتا ہے۔‘‘
’’یہ تمہارا وہم ہے، عورت ہو نا…! سدا کی ڈرپوک ٹھہریں۔ خیر چھوڑو اور سنو!‘‘ وہ چہک کر بولا۔
’’میں نے امی جان سے بات کرلی ہے، انہیں میری پسند پر کوئی اعتراض نہیں۔ ابو سے وہ بعد میں بات کریں گی، پہلے وہ کل آکر تمہاری امی یعنی خالہ کا عندیہ لینا چاہتی ہیں، پھر باقاعدہ بات آگے بڑھائیں گی۔‘‘ اس کی بات پر نبیلہ نے دھیرے سے مسکرا کر اپنا سر جھکا لیا۔
محبت کی منزلیں کبھی اتنی آسان بھی ثابت ہوسکتی ہیں، اس کا اندازہ دونوں کو ہی نہ تھا۔ دونوں کی بات پکی کردی گئی۔ معاملہ ابھی زبانی کلامی تک ہی محدود تھا مگر ان دونوں کے لئے یہی کیا کم تھا کہ دونوں بہت جلد ایک ہونے والے تھے۔ اس رعایت سے دونوں کبھی کبھار سیر و سپاٹے کے لئے بھی نکل جایا کرتے تھے۔
ایک موقع پر وہ بائیک پر کہیں گھومنے کے لئے نکلے تھے۔ دونوں بہت خوش اور شاداں و فرحاں تھے۔ ایک خوبصورت تفریحی مقام سے وہ واپس لوٹنے لگے تو اچانک ایک نسبتاً سنسان مقام پر راشد کو بریک لگانے پڑے۔ بائیک سلپ ہوتے ہوتے بچ گئی۔ پیچھے بیٹھی نبیلہ کے حلق سے چیخ خارج ہوگئی۔ وجہ وہ گاڑی تھی جو اچانک ان کے راستے پر آن رکی تھی۔
راشد بائیک کو سائیڈ اسٹینڈ پر کھڑی کرکے غصے سے کار والے کی طرف بڑھا مگر اس سے پہلے ہی کار کے دو دروازے ایک دم سے کھلے۔ وہ چار نوجوان تھے۔ ایک کو تو راشد بھی پہچان گیا تھا۔ وہ وہی اوباش امیر زادہ صفدر حیات تھا باقی تین اس کے وہی ساتھی جنہیں نبیلہ بھی پہچانتی تھی۔ خوف سے وہ چیخ پڑی۔ راشد کے چہرے پر بھی غصے کی جگہ تشویش آمیز پریشانی نے لے لی۔
’’کیوں ہیرو! کیا سمجھتا تھا تو ہمیں اندر کروا کے بچ جائے گا؟‘‘ صفدر خوف ناک نال والا پستول نکال کر اس کی طرف رخ کرتے ہوئے نفرت سے دانت بھینچ کر بولا اور دوسرے ہی لمحے راشد نے واپس پلٹ کر بھاگنے کی کوشش کی۔ ڈز… ڈز… ڈز…! سناٹے دار فضا میں تین فائر ہوئے۔ صفدر کے ہاتھ میں دبے ہوئے پستول سے تین شعلے برآمد ہوئے جنہوں نے پلک جھپکتے ہی راشد کی زندگی کا چراغ گل کردیا۔ نبیلہ دہشت زدہ رہ گئی۔ راشد کو لہولہان ہوکر گرتے دیکھ کر اسے غش آگیا۔ دفعتاً فائر کی آواز پر کوئی گشتی پولیس گاڑی سائرن بجاتی ہوئی ادھر کو آنے لگی تو صفدر اور اس کے ساتھی نبیلہ کو چھوڑ کر اپنی کار کی طرف دوڑے اور فوراً رفوچکر ہوگئے۔ نبیلہ بے ہوش ہوکر گر چکی تھی۔
اس کی آنکھ ایک اسپتال میں کھلی تھی۔ راشد کی لاش کو بھی پوسٹ مارٹم کے لئے وہیں لایا گیا تھا۔ نبیلہ اور راشد کے گھر والوں کو بھی مطلع کردیا گیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد روتے پیٹتے وہیں آگئے۔ نبیلہ کو تو جیسے سکتہ ہوگیا تھا۔ وہ پولیس کو کوئی بیان دینے سے قاصر ہی تھی۔
کئی دنوں بعد جب نبیلہ اپنے ہوش و حواس میں آئی تو اس نے سوچا قانون شاید صفدر جیسے امیر زادوں کے لئے ہی بنا ہے۔ اگر وہ دوبارہ اس کے خلاف بیان دینے کی کوشش کرتی تو ممکن ہے اس کے گھر والوں پر بھی ویسا ہی عتاب نازل ہوسکتا تھا جو راشد کے گھر والوں پر نازل ہوچکا تھا لہٰذا اس نے پولیس کو نامعلوم افراد کے خلاف بیان دے دیا۔
کچھ دنوں بعد نبیلہ کے گھر والوں نے وہ گھر ہی نہیں محلہ بھی چھوڑ دیا اور کسی دوسری جگہ شفٹ ہوگئے۔ اس دوران نبیلہ کے والد کا بھی ایکسیڈنٹ ہوگیا جس میں وہ جانبر نہ ہوسکے۔ اب ساری ذمہ داری نبیلہ کے کاندھوں پر آن پڑی تھی۔ نبیلہ تب تک نرسنگ کورس مکمل کرچکی تھی اور ایک بڑے پرائیویٹ اسپتال میں جاب کرنے لگی تھی، مگر اس کے دل میں راشد کی موت کا غم ہرا ہی رہا تھا۔ اپنے درد کو مصلحت کوشی تلے چھپائے وہ زندگی بسر کررہی تھی۔ اب اس کا مقصد اپنے دونوں چھوٹے بہن، بھائی کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنا اور کسی قابل بنانا تھا۔ بوڑھی ماں بھی ساتھ تھی۔
٭…٭…٭
اس بدنصیب نوجوان اور اس کے والدین تک بھی یہ بات پہنچ چکی تھی کہ صفدر کی صحت یابی میں سسٹر نبیلہ کا زیادہ ہاتھ تھا۔ صفدر کے والدین نے نبیلہ کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا اور وہ اس کے حسن سلوک اور ذمہ دارانہ فرائض کی انجام دہی کے دل سے معترف ہوئے۔ صفدر بھی نرس نبیلہ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا۔ جب اس نے نبیلہ کو دیکھا تو اسے زبردست جھٹکا لگا۔ اس کا چہرہ شرم اور ندامت کے احساس تلے بجھ کر رہ گیا۔ موت سے زندگی کی طرف پلٹتے ہوئے اور صحت یابی کی خوشی پچھتاوے اور احساس جرم کی آگ میں جھلس سی گئی۔
’’تت… تم… مجھے پہچاننے کے باوجود…؟‘‘ وہ نبیلہ سے بمشکل اتنا ہی کہہ سکا۔
’’ہاں! میں نے تو تمہیں پہلے دن ہی پہچان لیا تھا۔ بھلا میں ایسے ظالم بے حس اور سنگدل شخص کو بھول سکتی ہوں، جس نے میرے ساتھ ایسا ظلم کیا کہ میری ہنستی بستی زندگی اجاڑ کر رکھ دی۔‘‘ نبیلہ ناچاہتے ہوئے بھی اپنے اندر کی نفرت کو نہ چھپا سکی۔ ’’میں چاہتی تو تم سے بہت آسانی سے بے گناہ راشد کی موت اور تمہارے ہاتھوں اپنے اوپر ہونے والے مظالم کا انتقام لے سکتی تھی۔‘‘
’’تو… تو پھر تم نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ مجھے کیوں زندہ رہنے دیا، مار ڈالتیں مجھے مگر اب تمہارے اس حسن سلوک نے میرے اندر کی خلش اور بڑھا دی ہے جو مجھے ساری زندگی بے چین رکھے گی۔ میں تو تم سے معافی مانگنے کے لائق بھی نہ رہا۔‘‘ صفدر ندامت بھرے لہجے میں بولا۔
نبیلہ نے غور سے صفدر کے چہرے کا جائزہ لیا۔ وہ واقعی اس وقت اپنے ہی ضمیر کا قیدی نظر آرہا تھا۔ ایک سسکتا بلکتا قیدی! جو پچھتاوے اور احساس جرم کی شدید چبھن سے بے حال تھا۔ وہ بولی۔
’’اگر میں بھی بدلے میں
کچھ کرتی تو تمہارے اور میرے درمیان کیا فرق رہ جاتا۔ میں اپنے فرض مسیحائی سے منہ موڑ کر تم سے انتقام لے ڈالتی تو یہ اس سے بھی زیادہ بڑا اور ناقابل معافی جرم کہلاتا اور میں اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ اس نے مجھے اس گناہ عظیم سے بچا لیا۔ تمہاری جزا اور سزا کا معاملہ میں اپنے رب پر چھوڑتی ہوں۔‘‘
’’تم مجھے معاف کرسکتی ہو؟‘‘ آئی سی یو کے بیڈ پر دراز صفدر نے بالآخر نبیلہ کا ہاتھ تھام لیا۔ مگر نبیلہ نے انتہائی نفرت سے اپنا ہاتھ چھڑا لیا اور اسی لہجے میں بولی۔
’’میں نے کہا نا کہ میں نے تمہاری جزا و سزا کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا ہے، مجھ سے کوئی امید نہ رکھو۔‘‘ یہ کہہ کر نبیلہ پلٹ گئی اور آئی سی یو سے نکل کر اسٹاف روم کی طرف بڑھ گئی۔ وہاں وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے چہرہ ڈھانپتے رو پڑی تھی۔
٭…٭…٭
کئی روز بیت گئے۔ صفدر کو اسپتال سے ڈسچارج کردیا گیا تھا۔
نبیلہ کو اب مارننگ شفٹ کی ڈیوٹی دے دی گئی تھی اور اس کی متاثرکن کارگزاری کی بنا پر اسے ہیڈ نرس بنا دیا گیا تھا۔ ایک روز اخبار کی ایک سرخی پر اس کی نظر پڑی اور وہ چونک پڑی۔ خبر یہ تھی۔
ملک کے معروف صنعتکار ملک فیاض کے اکلوتے بیٹے صفدر حیات نے ایک ٹرسٹ قائم کیا ہے جہاں بے سہارا لڑکیوں اور عورتوں کی فلاح و بہبود اور ان کی شادیاں کروانے کا فریضہ بھی انجام دیا جاتا ہے۔ اس ٹرسٹ کا نام ’’راشد میموریل ٹرسٹ‘‘ رکھا گیا ہے۔
خبر کے ساتھ ٹرسٹ کے منتظم اعلیٰ صفدر حیات کی بھی تصویر تھی۔ نیچے اس کا نام تھا، ورنہ نبیلہ کو پہچاننے میں دقت ہوتی۔ صفدر نے سفید لباس اور سفید ٹوپی پہن رکھی تھی، اور اس کی وضع قطع بالکل بدلی ہوئی تھی۔
ایک شیطان کو انسانیت کی راہ پر ڈالنے کی خوشی کے احساس تلے نبیلہ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہوگئے۔
(ختم شد)