میری بڑی بہن کا نام ناظرہ تھا۔ وہ مجھ سے دس برس بڑی تھیں۔ میری پیدائش کے وقت امی جان اللہ کو پیاری ہو گئیں اور میں ایک دن کی عمر میں ممتا کے سائے سے محروم ہو گئی۔ والد صاحب کے لئے میری پرورش بڑا مسئلہ تھا۔ پھپھو عمر رسیدہ تھیں، والد صاحب کے ساتھ رہتی تھیں۔ وہ بیوہ تھیں، تبھی ابونے ناظرہ کی دیکھ بھال ان کے سپرد کر دی تھی لیکن مجھے دو دن کی نوزائیدہ بچی کی دیکھ بھال ان کے بس کی بات نہ تھی۔ والد نے مجھے خالہ جان کے سپرد کر دیا۔ میں خالہ کے گھر پرورش پانے لگی ۔ جب پندرہ برس کی ہوئی تو خالہ جان بیمار پڑ گئیں جب انہوں نے ابو کو بلوا کر کہا کہ سلیمان بھائی! میری زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں، بہتر ہے آپ اپنی بچی کو لے جائیں۔ ابو مجھے گھر لے آئے ۔ اس وقت بڑی بہن ناظرہ پچیس برس کی ہو چکی تھیں۔ پھپھو اب بھی ساتھ رہتی تھیں لیکن وہ زیادہ سوشل نہ تھیں ۔ باجی ناظرہ کا رشتہ نہ ہو سکا تھا اور اس بار ے میں والد صاحب بہت فکر مند تھے۔ جب میں ابو کے گھر آئی ، دل میں بڑے ارمان تھے کہ باجی سے ملوں گی۔ مجھے دیکھ کر بڑی بہن خوش ہوگی اور ہم ساتھ رہیں گے، وقت خوبصورت ہو جائے گا۔ یہاں معاملہ اس کے برعکس نکالا۔ باجی نے مجھے خوش دلی سے قبول نہ کیا۔ چاہئے تو یہ تھا کہ وہ میرا والہانہ استقبال کرتیں کہ ہم بہنیں مدت بعد ملی تھیں لیکن انہوں نے بدسلو کی شروع کر دی۔ حیران تھی کہ یہ سگی بہن کیسی ہے، شاید کہ میں ان کو کانٹے کی طرح کھٹکنے لگی تھی۔ وہ اکیلے رہنے کی عادی ہو چکی تھیں ، اب اپنی راج دھانی میں کسی کی شراکت گوارا نہ تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ میں بھی باجی سے بدظن ہو گئی۔ ابو ہم دونوں سے ایک سا پیار کرتے تب باجی جل جاتیں ۔ وہ ہمارے لئے ایک سے کپڑے اور چیزیں لاتے۔ میری بہن ان چیزوں کو جو میرے لئے ہوتیں، چھپا دیتیں یا خراب کر ڈالتیں۔ میں روتی تو پھوپی چپ کراتیں اور سمجھاتیں کہ صبر کرو اور والد سے شکایت نہ کرو، وہ دکھی ہو جائیں گے۔میرے دل میں اپنی بہن کے لئے جگہ پیدا نہ ہو سکی اور میں ان سے دور دور رہنے لگی۔ وہ بلائیں بھی تو جواب نہ دیتی تھی کیونکہ مجھے ان پر اعتبار نہ رہا تھا کہ جانے کب کیا رویہ اختیار کر لیں۔ میں خالہ کے گھر خوش رہا کرتی تھی۔ ان کی بیٹیاں خیال کرتیں ، بہن جیسا پیار دیتیں اور سگی بہن کا یہ حال کہ مجھ کو دیکھتے ہی تیوری چڑھا لیتیں۔ حقارت کا اظہار یوں کرتیں کہ جہاں میں بیٹھ جاتی ، یہ وہاں سے اٹھ جاتیں یا پھر منہ پھیر کر برابر سے نکل جاتیں۔ ایسے نفرت بھرے ماحول میں جینا دو بھر ہو گیا۔ خالہ کے گھر کو یاد کر کے روتی جہاں اپنائیت اور محبت تھی ، تنہائی کا ذرہ بھر احساس نہیں تھا۔ وہ گھر میرا نہ تھا، پھر بھی میرا تھا اور یہ جو میرے والد کا گھر تھا، وہ باجی کا تھا۔ ہر دم یہ احساس دلاتی تھیں کہ یہ گھر میرا ہے، جانے تم کہاں سے آگئی ہو میرا دل جلانے کو … ان کے منہ سے نکلے الفاظ تیر کی طرح لگتے تھے، آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ۔ سوچتی آج تو ضرور ابو سے شکایت کروں گی مگر پھپھو ہر بار آڑے آجاتیں کہ بیٹی ! صبر کرو، صبر کا بڑا اجر ہے۔ یہ سن سن کر اب تو ان کی باتوں پر غصہ آنے لگا تھا۔ مسئلہ اصل یہ تھا کہ میں خوبصورت تھی اور باجی ناظر و معمولی صورت کی تھیں۔ میری نو خیز عمر تھی لہذا جو مجھے دیکھتا ، بے اختیار شکل وصورت کی تعریف کرتا۔ اس پر باجی کا جی جلتا تھا، جسد محسوس کرتی تھیں۔ پانچ سال ایسے ہی گھٹ گھٹ کر گزار دیئے۔ اب باجی کی عمر ڈھلنے لگی تھی ، ابھی تک رشتہ نہ ہوا تھا۔ رشتہ دیکھنے جو آتے ، ان کی بجائے مجھے پسند کر لیتے ۔ ابو کہتے کہ نہیں پہلے بڑی کی شادی کروں گا، بعد میں چھوٹی کی ہوگی ۔ اس جواب پر رشتے واپس ہو جاتے ۔
ایک روز خالہ میرے لئے اپنے دیور کے بیٹے سلطان کا رشتہ لے کر آئیں ۔ والد نے ان کو بھی وہی جواب دیا۔ خالہ نے کہا۔ دیکھو بھائی! میرا فائزہ پر بہت حق ہے۔ یہ دو دن کی تھی جب گو دلیا تھا اور پندرہ برس پالا ہے، اب تم یہ رشتہ نہیں ٹھکراؤ گے۔ اگر ابھی شادی مقصود نہیں تو ہم انتظار کئے لیتے ہیں۔ پہلے بڑی کا بیاہ کرلو، فائزہ کا بعد میں کر دینا مگر منگنی ابھی کر دو تا کہ ہمارے دل کو تسلی رہے۔ خالہ کا احسان ایسا نہ تھا کہ والد ان کو ناراض کرتے ۔ انہوں نے بات مان لی اور میری منگنی سلطان سے کر دی۔ منگنی کے بعد ہمارے سونے گھر میں بہار آگئی۔ خالہ اور ان کی بیٹیاں آئے دن ہم سے ملنے کو آنے لگے۔ کبھی کبھی ان کے ساتھ سلطان بھی آتے۔ سلطان کو میں اچھی لگتی تھی۔ بہانے سے آتے، باتیں کرنے لگتے۔ میری خالہ زاد بہ نہیں ساتھ ہوتیں، رونق ہو جاتی ۔ رفتہ رفتہ میں بھی سلطان سے مانوس ہو گئی ، ان کا انتظار کرتی ۔ ہفتہ بھر نہ آتے تو شکوہ کرتی اور خالہ زاد بہن ربیعہ کو پیغام دیتی کہ سلطان سے کہو آئیں، ہمارا چی اداس ہے۔ سلطان ہفتہ میں ایک بار آنے لگے۔ ہم بات چیت کرتے ، یہ بات باجی کو بری لگتی۔ سلطان کو دیکھ کر ان کے چہرے کا رنگ بدل جاتا ، ناگواری کا اظہار کرنے لگتیں جیسے کہ ان کے سینے پر سانپ لوٹ جاتا ہو۔ رفتہ رفتہ ناظرہ باجی نے میرا جینا حرام کر دیا۔ مجھے سلطان سے بات کرنے نہ دیتیں، خاطر تواضع سے روکتیں حتیٰ کہ چائے بناتی تو گرا دیتیں۔ وہ خود تو گھر کی مالکہ بنی ہوئی تھیں اور مجھ سے نوکرانی جیسا سلوک کرتی تھیں۔ ہر وقت کی اس بے عزتی لعنت ملامت کو میں کب تک سہتی۔ سلطان سے بھی یہ باتیں چھپاتی کہ کہیں وہ گھر آنا نہ چھوڑ دیں یا کہ رشتہ ہی نہ توڑ دیں۔پھچھونے ناظرہ کو بہت سمجھایا کہ یہ چھوٹی بہن ہے ، اس کے ساتھ ایسا نارواسلوک مت کیا کرو۔ وہ باز نہ آتیں۔ اصل میں تو ان کو اس بات کا رنج تھا کہ میری منگنی ہوگئی تھی اور ان کا رشتہ ابھی تک نہیں ہو سکا تھا۔ میری اور سلطان کی محبت کو بھی وہ اچھی نگاہ سے نہ دیکھتی تھیں۔ ہماری محبت ان کو بری طرح کھٹکتی تھی کیونکہ میری خوشی ان سے برداشت نہیں ہو پارہی تھی اور ان کی حسد بھری طبیعت کا میرے پاس کوئی علاج نہیں تھا۔ اب وہ مجھ کو مجبور کرنے لگی کہ تم سلطان کے سامنے نہ جایا کرو۔ اگر وہ مہمان بن کر آجاتا ہے تو میں بڑی بہن ہوں، میں اس سے بات کروں گی۔ چائے وغیرہ میں ہی دیا کروں گی۔ تم کو اپنے منگیتر سے پردہ کرنا ہوگا، اس کے سامنے نہیں جانا ہوگا۔ یہی ہمارے خاندان کی روایت ہے، اس روایت کا پاس نہ کرو گی تو ابا سے کہہ کر تمہارا یہ رشتہ ختم کروا دوں گی۔ دنیا اس کو گھر آنے سے منع کر دیا لیکن یہ نہ بتایا کہ اپنی بڑی بہن کی خاطر ایسا کرنے پر مجبور ہوں۔ سلطان کو یہ غلط نہی ہوگئی کہ میں اس سے بیزار ہوگئی ہوں اور شادی نہیں کرنا چاہتی شاید کہ میرا خیال تبدیل ہو گیا ہے۔ اس نے اپنے گھر والوں سے بھی کہہ دیا کہ فائزہ مجھ سے میں نے باجی کی یہ روک ٹوک ماننے سے انکار کر دیا تو انہوں نے اپنی انا کا مسئلہ بنالیا اور یوں یہ جھگڑا طول پکڑتا گیا۔ تھک ہار کر میں نے سلطان سے بات چیت چھوڑ دی اور شادی نہیں کرنا چاہتی کیونکہ اس کا محبت بھرا رویہ بدل گیا ہے اور گھر آنے سے بھی منع کر دیا ہے۔ خالہ نے مجھ سے پوچھا۔ میں اگر باجی کی شکایت کرتی تو وہ مجھے ہرگز معاف نہ کرتیں اور جینا دوبھر کر دیتیں تبھی کہہ دیا کہ فی الحال جب تک باجی کی شادی نہیں ہوتی ، سلطان ہمارے گھر نہ آئیں اور نہ ان کے گھر والے آئیں ورنہ ان کی بے عزتی ہو جائے گی۔
خالہ سمجھیں کہ شاید میں ان کی بے عزتی کرنے کا کہہ رہی ہوں کیونکہ باجی کا نام لینے سے خوفزدہ تھی لہذا میں نے گول مول بات کر دی۔ خالہ کو بہت برا لگا اور وہ خاموش ہو کر چلی گئیں۔ اس دوران باجی کے لئے رشتے آئے مگر وہ مجھے پسند کر لیتے تھے۔ ایک بہت اچھا رشتہ تھا۔ ابو نے سوچا کہ سلطان والے تو رشتے سے پیچھے ہٹ گئے ہیں کیوں نہ فائزہ کو ادھر دے دوں ۔ یہ درمیان سے ہٹے گی تو بڑی کا موقع بنے گا۔ انہوں نے امیر لوگ دیکھ کر میرا رشتہ زبان سے کر دیا اور میں بزدلی کی وجہ سے ابو سے یہ وضاحت بھی نہ کر سکی کہ سلطان کے گھر والوں کا قصور نہیں ہے بلکہ باجی کے مجبور کرنے پر میں نے خود ان کو روکا ہے اور گھر آنے سے منع کیا ہے۔ باجی نے بھی والد صاحب کو بالا بالا یہی باور کرا دیا تھا کہ فائزہ ، سلطان سے رشتہ نہیں کرنا چاہتی ، اسی وجہ سے ان لوگوں کو گھر آنے سے منع کیا ہے۔ ایسی مایہ نہی میں میری شادی زمان خان سے ہو گئی اور میں کسی کو بھی اپنے حالات کی وضاحت نہ دے سکی۔ اس وقت بڑی شدت سے ماں کی کمی محسوس ہوئی۔ اگر وہ آج زندہ ہوتیں تو ان سے حال دل کہتی اور یوں میرے پیار کی گھری نہ لیتی ۔ خالہ تو ناراض تھیں، انہوں نے آنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ ان کو بھی دل کی بات نہ بتا سکی۔ وہ مجھے گستاخ اور مجرم کہتی تھیں۔ میری شادی کے بعد جیسے میری بہن کو سکون آگیا ہو۔ سازش کا شکار ہو کر میں تو ملتان سے لاہور بیاہ کر چلی گئی اور اپنے نصیب سے سمجھوتا کر لیا لیکن والد صاحب کو بعد میں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور وہ خالہ کو منانے ان کے گھر گئے۔رشتے کی باتیں پھر سے ہونے لگیں اور خالو جان نے ناظرہ کو سلطان کے لئے مانگ لیا۔ ابو تو یہی چاہتے تھے کہ کسی طور بڑی کا رشتہ ہو۔ انہوں نے فورا ہاں کر دی ۔ سلطان کو بھی والدین نے دباؤ ڈال کر منا لیا اور میری باجی میرے سابقہ منگیتر کی بیوی بن گئیں۔ سلطان نے والدین کی خوشی کو سپر ڈالی تھی حالانکہ اس کے دل میں ابھی تک میری یاد باقی تھی۔ اسے علم نہ تھا کہ ناظرہ ہی کی سازش سے میں اور وہ ایک دوسرے سے دور ہوئے تھے۔ باجی اب بھی اسے یہی یقین دلاتی تھیں کہ فائزہ نے خود انکار کیا تھا۔ وہ تم سے شادی نہ کرنا چاہتی تھی ، اس لئے تم کو گھر آنے سے منع کیا تھا۔ باجی تو اپنی چال میں کامیاب خوش و خرم ہو گئیں لیکن میری قسمت کھوئی نکلی۔ جس بندے سے میری شادی والد صاحب نے امیر کبیر جان کر کر دی تھی ، وہ پہلے سے شادی شدہ نے امیرکبیر کر کردی تھی وہ پہلے سے شدہ اور تین بچوں کا باپ تھا۔ بیوی ، بچے ساتھ لے گئی تھی۔ زمان خان نے پہلی زوجہ کو طلاق نہ دی تھی بلکہ وہ روٹھ کر میکے جابیٹھی تھی۔ جب اسے معلوم ہوا کہ زمان نے اور شادی کر لی ہے تو وہ اپنے بھائیوں کے ہمراہ واپس آگئی۔ تین بچے اس کے تین قومی ہتھیار تھے اور اس کی پوزیشن اپنے با اثر ورسوخ بھائیوں کی بدولت کافی مضبوط تھی۔
کافی جھگڑے کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ زمان مجھے طلاق دیں گے اور پہلی بیوی بچے ان کے پاس رہیں گے۔ بچوں کی خاطر اس شخص نے اپنے سالوں کی شرط مانی اور مجھے طلاق دے کر میکے بھیجوا دیا۔ مجھے تو بے قصور طلاق ہوئی تھی لیکن میری بہن نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ میں نے سلطان کی وجہ سے گھر نہیں بسایا اور طلاق لے کر آگئی ہوں حالانکہ ان دنوں میں امید سے تھی۔ بڑی بہن نے مجھے رکھنے سے انکار کر دیا۔والد صاحب اکیلے تھے۔ انہوں نے شرط رکھی تھی کہ جب تک وہ زندہ ہیں، ناظرہ ان کے پاس رہے گی اور سلطان گھر داماد ہوں گے۔ اب جس گھر میں ناظرہ اور سلطان ہیں، ناظرو رہے اور گھر اور رہتے تھے، مجھے بھی وہاں ہی رہنا تھا کیونکہ یہ میرے والد کا گھر تھا اور میں کہاں جاتی، وہ بھی اس حال میں جبکہ میں امید سے تھی۔ جلد ہی مجھے یہ احساس ہو گیا کہ یہاں رہنا تو سوکن کے ساتھ رہنے سے بھی زیادہ دشوار ہے۔ سلطان میرا خیال رکھتے تھے جبکہ سگی بہن میرے بدن سے سانس بھی کھینچ لینا چاہتی تھی۔ ناظرہ کا جب مجھے گھر سے نکالنے پر کوئی بس نہ چلا تو اس نے ایک نہایت گھناؤنا الزام دھر دیا کہ فائزہ کو جب طلاق ہوئی تھی، یہ امید سے نہیں تھی بلکہ اب امید سے ہو گئی ہے اور سلطان اس کے مجرم ہیں۔ جب والد صاحب نے ایسی بات سنی ، وہ بہت پریشان ہوئے کیونکہ وہ ضعیف ہو گئے تھے۔ ایسے پے در پے صد سے کہنے کی تاب ان میں نہ تھی۔ سلطان کو ناظرہ کے اس الزام نے سخت برافروختہ کر دیا تھا۔ اب ساری سازش ان کی سمجھ میں آگئی کہ ان کو حاصل کرنے کی خاطر ناظرہ نے یہ سارا کھیل بنایا تھا۔ انہیں میری حالت پر دکھ تھا اور پھر انہوں نے ایسا فیصلہ کر دیا کہ جس کا تصور بھی ہم نہ کر سکتے تھے۔ انہوں نے کھلم کھلا بیوی کو یہ کہہ کر طلاق دے دی کہ جو عورت مجھ پر اور سگی بہن پر ایسا گھناؤنا الزام لگا سکتی ہے، وہ میری بیوی رہنے کے لائق نہیں ہے۔ اس کو اس بہتان پراسی کوڑے لگنے چاہئیں۔ بہر حال میں کوڑے تو نہیں لگواسکتا لیکن میں اس بہتان باز عورت کو اپنی زندگی سے علیحدہ کرتا ہوں۔وہ باجی کو طلاق دے کر گھر سے چلے گئے ۔ اب تو وہ میرے خون کی پیاسی ہو گئیں تبھی میں نے خالہ کو فون کر دیا اور وہ آکر مجھے اپنے گھر لے گئیں ۔ بچے کو جنم دینے تک میں ان کے پاس رہی ، پھر انہوں نے میری شادی سلطان سے کرادی۔ یوں خدا نے میری کھوئی ہوئی محبت مجھے لوٹا دی حالانکہ اس سارے معاملے میں میرا کوئی دوش نہ تھا، یہ سب کچھ میری بہن کی حماقتوں سے ہوا تاہم اب لوگ باجی ناظرہ سے ہی ہمدردیاں جتلاتے ہیں اور مجھے دوشی ٹھہراتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ میں خود زمان سے طلاق لے کر آئی تھی اور اپنی بہن کا گھر اس وجہ سے خراب کیا کہ سابقہ منگیتر سے شادی کرنا چاہتی تھی۔ یہ تو سلطان جانتے ہیں یا پھر میرا خدا گواہ ہے کہ ایسا کچھ میں نے سوچا اور نہ کیا۔ یہ جو کچھ ہوا، اللہ تعالیٰ کی مرضی سے خود بخود ہو گیا لیکن والد بھی مجھ سے خفار ہے اور بہن بھی۔ میرا ضمیر مطمئن ہے کہ میں نے کوئی برائی اور غلطی نہیں کی ۔ آج میں سلطان کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزار رہی ہوں۔ میرے چار بچے ہیں اور پہلا بچہ جو زمان خان کی اولاد ہے، اسے بھی سلطان نے اپنی اولاد جیسا ہی پیار دیا ہے۔ میرا یہ بیٹا عدنان انہیں اپنا باپ کہتا ہے اور اسی کی خاطر ہم اپنا وطن چھور کر دیار غیر میں آگئے ہیں تا کہ لوگوں کی زہر آلود باتیں سن کر میرے عدنان کی معصومیت مجروح نہ ہو جائے۔