گاڑی ایک خوبصورت دو منزلہ گھر کے آہنی گیٹ کے پاس رکی۔ گیٹ پر ایک پلیٹ لگی ہوئی تھی جس پر مکان کا نمبر ’پی نوے‘ موٹے حروف میں لکھا ہوا تھا۔ کار سے ایک نوجوان نے باہر نکل کر پہلے گیٹ کا تالا کھولا۔ ’کی چین‘ پر بھی اس کوٹھی کا نمبر لکھا ہوا تھا۔ وہ پورا گیٹ کھول کر دوبارہ ڈرائیونگ سیٹ سنبھال کر گاڑی اندر لے گیا۔ وسیع گیراج میں گاڑی کھڑی کرنے کے بعد باہر نکلا اور گیٹ بند کرنے لگا جبکہ اس کے ساتھ والی سیٹ پر براجمان خرم نے گاڑی سے نکل کر دائیں بائیں دیکھا اور بولا ۔’’میری سمجھ میں نہیں آیا کہ تم نے اتنی دور کوٹھی کیوں بنائی ہے۔‘‘
’’شہر سے بیس کلو میٹر ہی تو دور ہے۔‘‘ اس نوجوان نے لاپروائی سے جواب دیا۔ وہ گیٹ بند کرکے گاڑی کے پاس آگیا تھا۔
’’بیس کلو میٹر کم فاصلہ ہوتا ہے کیا؟‘‘ خرم نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔
’’یہ نئی کالونی بنی تھی۔ سستی جگہ تھی۔ میں نے زیادہ جگہ لے کر اس پر گھر تعمیر کرلیا لیکن اس کالونی میں چند مکان بننے کے علاوہ آبادی بڑھی نہیں۔‘‘ نوجوان بولا اس کا نام مظہر تھا اور وہ دونوں اسکول کے زمانے کے اچھے بے تکلف دوست تھے۔
مظہر آگے بڑھا اور اس نے مین دروازے کا قفل کھولا۔ دونوں اندر چلے گئے۔ ایک مختصر سی راہداری کے بعد کشادہ لائونج تھا۔ جہاں صوفے اور دوسرا سامان قرینے سے رکھا ہوا تھا۔
’’میں تجھے اپنا گھر دکھاتا ہوں۔‘‘ مظہر اسے بیڈ روم میں لے گیا۔ پھر وہ ایک ایک کمرا دکھانے لگا، بیسمنٹ بھی تھی جہاں صرف ایک ہال نما کمرا تھا۔ پھر وہ اسے اوپر لے گیا۔ ایک کمرے میں دیوار کے ساتھ تین ایل ای ڈی ٹی وی لگے تھے۔ ایک پر دنیا بھر کے چینلز آتے تھے، دوسرے پر مظہر خفیہ کیمروں کے ذریعے باہر کے مناظر دیکھ سکتا تھا اور تیسری اسکرین پر اپنے خفیہ کیمروں کے ذریعے گھر کے اندر نظر رکھ سکتا تھا۔
مظہر نے اسے تینوں اسکرین آن کرکے دکھائیں تو خرم نے پوچھا۔ ’’یہ سب تم نے کیوں کیا…؟‘‘
’’تم جانتے ہو کہ کیونکہ غیرآباد علاقہ ہے، اس لیے یہ سارا انتظام کیا تاکہ سب کچھ میری نظر میں رہے۔‘‘ مظہر نے بتایا۔
’’اتنا انتظام کیا ہے، اب رہائش بھی کرلو۔‘‘ خرم ہنستے ہوئے بولا۔
’’پہلی بات یہ کہ میری بیوی نہیں مانی، دوسرے اب میرا پھر جرمنی جانے کا پروگرام بن گیا ہے۔ میں جلد اپنی بیوی بچوں سمیت جرمنی جارہا ہوں۔‘‘ مظہر نے بتایا۔
’’ہاں بھئی جس نے بھاری کرنسی کمائی ہو، اُسے معمولی سی کرنسی کیسے راس آئے گی۔‘‘ خرم مسکرا کر بولا۔
’’جانتے ہو میں تمہیں یہاں کیوں لایا ہوں؟‘‘
’’مجھے کیا پتا… تم نے کہا چلو میرے ساتھ اور میں تمہاری گاڑی میں بیٹھ گیا۔‘‘ خرم نے کہا۔
’’یہاں کوئی چوکیدار رہنے کو تیار نہیں ہے۔ اس لیے تم ہفتے میں ایک بار یہاں آیا کروگے۔‘‘
’’تمہارا مطلب ہے میں یہاں چکر لگاکر دیکھوں کہ کوئی چور اپنا کام تو نہیں کرگیا۔ لیکن یار میرے پاس تو موٹرسائیکل بھی نہیں ہے، میں یہاں کیسے آئوں گا۔‘‘ خرم نے عذر پیش کیا۔
’’وہ گھر جہاں آج کل ہماری رہائش ہے وہاں میری گاڑی کھڑی ہوگی۔ میں چوکیدار کو ہدایت کردوں گا تم اس گاڑی پر یہاں آجانا، کچھ وقت گزارنا، کیبل پر پروگرام دیکھنا۔‘‘
’’تم میرے دوست ہو اس لیے میں آجایا کروں گا۔ اب چلو چلتے ہیں۔‘‘ خرم اپنی جگہ سے اُٹھا۔ وہ دونوں گیٹ کو مقفل کرکے شہر کی طرف چل پڑے۔
دسمبر کی سرد شام تھی۔ آسمان پر ہلکے ہلکے بادل کسی آوارہ گرد کی طرح گھومتے دکھائی دے رہے تھے، ہوا میں ٹھنڈک کا احساس بڑھ گیا تھا، اسکول کے بچے جو قریبی میدان میں کھیل کود سے فارغ ہوگئے تھے، ایک دوسرے سے باتیں کرتے، چھیڑتے، ہنستے ہوئے اپنے اپنے گھروں کی طرف جارہے تھے۔ مظہر نے خرم کو اس کے گھر کے پاس اتار دیا۔
وہ شہر چھوٹا تھا لیکن خوبصورت تھا۔ اس شہر کی بہت سی چیزیں وجہ شہرت تھیں لیکن سردار غلام قادر ایک ایسا سیاست دان تھا جس نے سیاست میں آکر اس شہر کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کردیا تھا۔ وہ ایسا بارعب سیاست دان تھا کہ جب بولتا تھا تو بڑے بڑے چپ ہوجاتے تھے اور جب وہ کسی کے حق کے لیے لڑتا تھا تو یہ بات طے ہوجاتی کہ اب غلام قادر اس کا حق لے کر ہی دم لے گا۔
غلام قادر نے ایمانداری سے سیاست کی تھی۔ حرام کھایا تھا اور نہ حرام کھانے دیا تھا۔ باپ دادا کی زمین، جائداد اتنی تھی کہ وہ کیا اس کی سات پشتیں بیٹھ کر کھا سکتی تھیں۔ اس لیے اسے کوئی فکر نہیں تھی۔ وہ اپنا ہر کام بے فکری اور نڈر ہوکر کرتا تھا۔
کسی کو غلام قادر کی سچائی اور ایمانداری پسند نہ آئی تو اُسے گولی سے اُڑادیا گیا۔ اس کے قاتل کا سراغ نہیں ملا۔ علاقے کے لوگ کہتے تھے کہ اسے اپنوں نے ہی مروایا ہے کیونکہ نئی پود ڈھیروں پیسہ کمانے کے چکر میں تھی۔ انہیں اپنی عیاشیوں کے لیے آزادی کی ضرورت تھی اور اس آزادی میں غلام قادر کی روک ٹوک پسند نہیں تھی۔
غلام قادر کے بعد سیاست اس کے بیٹوں میں منتقل ہوگئی لیکن وہ شہرت اور عزت نہیں ملی جو اُسے حاصل تھی، کیونکہ کسی نے بھی غلام قادر کے انداز کو نہیں اپنایا تھا۔ پھر غلام قادر کا پوتا مہتاب احمد لندن سے پڑھ کر آیا تو اسے جس نے دیکھا وہ تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکا۔
مہتاب احمد خاندان کا وہ سپوت تھا جو اس خاندان کا لگتا ہی نہیں تھا۔ وہ بہت وجیہ اور پُرکشش تھا۔ نکلتا ہوا قد، سفید رنگت اور خوش لباس۔ وہ بہت چھان بین کے بعد اپنا لباس منتخب کرتا تھا۔ اس کا لائف اسٹائل منفرد تھا۔ لڑکیاں تو ایک طرف، اسے مرد بھی رک کر دیکھتے تھے۔ اس کی ہر بات میں انفرادیت تھی۔
مہتاب احمد کی شہرت اس کے لائف اسٹائل کی وجہ سے تو تھی ہی لیکن جب وہ الیکشن جیت کر اسمبلی ہال میں پہنچا تو میڈیا کی نگاہیں بھی اس پر مرکوز ہوکر رہ گئیں اور یوں اس کے لائف اسٹائل کا خاص و عام میں ذکر ہونے لگا۔ مہتاب احمد کا نام اس کے دادا غلام قادر نے رکھا تھا لیکن اس میں اپنے دادا کی کوئی خوبی نہیں تھی۔ اس کے کام کرنے کا اپنا انداز تھا۔
مہتاب احمد حسن پرست تھا۔ ایک بار جو لڑکی اس کی نگاہ میں سما جاتی تھی، وہ خاموش شکاری کی طرح اس کے پیچھے لگ جاتا۔ اور اس کی یہ خامی کسی پر عیاں نہیں تھی۔
غلام قادر نے جس محلے میں رہائش رکھی تھی، ساری زندگی اس نے وہیں گزار دی تھی۔ اب بھی اس کی اولادیں اس علاقے سے باہر نہیں نکلی تھیں۔
غلام قادر کا ایک مخصوص درزی تھا جس کا نام فقیر حسین تھا۔ فقیر حسین ایسا درزی تھا کہ اس کے ہاتھ کی نفاست اور سلائی کا کوئی جواب نہیں تھا۔ غلام قادر کو جب بھی سوٹ سلوانا ہوتا، وہ فقیر حسین کو اپنے گھر بلالیتا۔ فقیر حسین ہی غلام قادر کے بیٹوں کے بھی کپڑے تیار کرتا تھا۔ فقیر حسین کی وفات کے بعد اس کے بیٹے رشید نے اس کی جگہ لے لی۔ وہ بھی اپنے باپ جیسا ماہر کاریگر تھا۔ سب اسے ماسٹر رشید کہتے تھے۔
اب اپنے باپ کی جگہ ماسٹر رشید ان کے گھر جانے لگا تھا۔ اس طرح غلام قادر کے خاندان سے فقیر حسین کی اولاد کا تعلق ختم نہیں ہوا تھا۔ ماسٹر رشید کے پانچ بیٹے تھے، اس نے چار کو اپنا آبائی فن سکھا دیا تھا۔ اس کے چاروں بیٹوں نے الگ دکانیں کھول لی تھیں اور چاروں کی شادیاں بھی ہوگئی تھیں۔
ماسٹر رشید کا ایک بیٹا ایسا تھا جو آبائی کام کرنا ہی نہیں چاہتا تھا۔ ماسٹر رشید نے بہت کوشش کی کہ وہ کسی طرح کام سیکھ لے، اسے سختی سے، پیار سے ہر طرح سے سکھانے کی کوشش کی لیکن اس کا دماغ اور سوچ اس کام کے لیے راضی نہیں تھی۔
ماسٹر رشید کے سب سے چھوٹے بیٹے کا نام خرم تھا۔ وہ اپنے تمام بھائیوں سے زیادہ خوبصورت تھا اور کچھ اس کے رہن سہن نے اسے مزید پُرکشش بنادیا تھا۔ اُسے درزی کے کام سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ وہ اداکار بن کر شہرت کمانا چاہتا تھا۔ وہ بڑے اداکاروں جیسی شہرت، عزت اور دولت کا خواہاں تھا۔ وہ ہر وقت ان لوگوں کے بارے میں سوچتا تھا جو شہرت کا آسمان چھو چکے تھے۔ وہ چاہتا تھا کہ پوری دنیا اس کا نام جانے، اور جب وہ گھر سے باہر نکلے تو لوگوں کی نگاہوں کا مرکز ہو۔ میڈیا بھی اس کے پیچھے بھاگے۔ اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لیے اس نے کئی اداروں کو اپنی تصویریں بھیجی تھیں لیکن کہیں سے کوئی جواب نہیں آیا تھا۔
خرم کالج میں ہونے والے ہر ڈرامے میں موجود ہوتا۔ اس نے مقامی طور پر اسٹیج پر بھی اداکاری کی تھی۔ لیکن ٹیلی وژن کی اسکرین پر آنے کی خواہش پوری نہیں ہوئی تھی۔ یہ خواہش اسے ہر وقت مضطرب رکھتی تھی۔
خرم کا دھیان صرف اداکاری پر مرکوز تھا۔ ایک ٹھنڈی شام کو خرم اپنے کمرے میں لگے آئینے کے سامنے ایک فلم کے مکالمے بول رہا تھا۔ اسی دوران دروازہ زور سے کھلا اور اس کی ماں زبیدہ تیزی سے اندر آئی۔ اس نے اُسے دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’یہ کیا ہورہا ہے؟‘‘
’’مستقبل کا عظیم اداکار اپنی اداکاری کو نکھار رہا ہے۔‘‘ خرم نے متانت لیکن اس انداز میں کہا جیسے وہ کیمرے کے سامنے کھڑا مکالمہ بول رہا ہو۔
’’تجھے یاد ہے تیرا باپ کیا کام بتاکر گیا تھا؟‘‘ زبیدہ نے اسے گھور کر کہا۔
’’کیا کام بتاکر گئے تھے؟‘‘ خرم نے اپنی ماں کی طرف دیکھ کر پوچھا۔
’’یاد نہیں ہے تجھے؟‘‘
’’یاد ہوتا تو آپ سے کیوں پوچھتا۔‘‘
’’تیری اس منحوس اداکاری نے تجھے کسی کام کا نہیں چھوڑا۔ سارے کام بھول کر اداکاری میں لگے رہتے ہو۔‘‘ زبیدہ نے ڈانٹا۔
’’آپ میری اداکاری کو منحوس نہ کہا کریں۔ ایک دن آئے گا امی جب آپ کا یہ بیٹا شہرت کی بلندیوں کو یوں چھوئے گا جیسے چاند آسمان کو چھوتا ہے۔‘‘
’’چاند آسمان کو چھوتا نہیں ہے، وہ رہتا ہی آسمان پر ہے۔‘‘ زبیدہ نے اس کی غلطی درست کی۔
’’میرا یہی مطلب تھا۔ میں بھی شہرت کی بلندی پر پہنچ کر آسمان کی بلندیوں میں گم ہوجائوں گا۔‘‘ خرم تیزی سے بولا۔ ’’ویسے ابو نے مجھے کیا کام بتایا تھا؟ مجھے یاد نہیں آرہا۔ پلیز امی بتادیں۔‘‘
’’اب تیرا باپ ہی تجھے یاد دلائے گا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ جانے لگی۔
’’ایک منٹ امی… ابو مجھے کام کے ساتھ ساتھ جسمانی اذیت بھی دیں گے۔ اس لیے بہتر ہے کہ آپ مجھے بتادیں۔ یقین کریں کہ میں بھول گیا ہوں اور ابا کے آنے کا بھی وقت ہوگیا ہے۔‘‘ خرم جلدی سے زبیدہ کے سامنے کھڑا ہوگیا۔
’’کیا بتاکر گئے تھے کہ تجھے کہیں جاکر کیا کرنا ہے۔‘‘ زبیدہ نے اس کے چہرے
کی طرف دیکھا۔
خرم یاد کرنے لگا۔ ’’مجھے کہیں جانا تھا، کہاں جانا تھا یاد نہیں آرہا۔‘‘
زبیدہ نے اس کا کان پکڑ کر کھینچا اور بولی۔ ’’تجھے غلام قادر کے گھر جانا تھا۔ اس کے بیٹے کا کپڑا لینے۔‘‘
’’ہاں… یاد آیا۔ اس سے پہلے کہ ابا جی آجائیں میں ابھی لے کر آیا۔‘‘ خرم کو یاد آتے ہی تیزی سے کمرے سے نکل کر بھاگا۔ باہر اندھیرا چھا چکا تھا اور سردی میں بھی اضافہ ہوگیا تھا۔
٭…٭…٭
اس علاقے میں غلام قادر نے جو کوٹھی بنوائی تھی، اَب اس میں اس کا بیٹا شمشاد قادر رہتا تھا۔ اس کے باقی بیٹوں نے اسی علاقے میں اپنے الگ گھر بنالئے تھے۔ شمشاد قادر، مہتاب احمد کا باپ تھا اور وہ رہائش ’قادر ہائوس‘ کے نام سے معروف تھی۔
ماسٹر رشید کے گھر کے افراد کو یہ امتیاز حاصل تھا کہ وہ کسی بھی وقت اس گھر میں آجاسکتے تھے۔ گیٹ پر موجود چوکیدار بھی اس کو نہیں روکتے تھے۔ ماسٹر رشید کے سارے بیٹوں کے ساتھ سب کا اچھا تعلق تھا۔
جونہی خرم گیٹ کے پاس پہنچا، چھوٹی کھڑکی سے چوکیدار نے اس کا چہرہ دیکھ کر گیٹ کھول دیا۔
’’کہاں سے بھاگے آرہے ہو؟‘‘ چوکیدار نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’چچا شمشاد گھر پر ہیں؟‘‘ خرم نے پوچھا۔
’’وہ ابھی تھوڑی دیر پہلے گئے ہیں۔ مہتاب بابو گھر پر ہیں، ان کو اطلاع کروں۔‘‘ چوکیدار نے پوچھا۔
’’چچا شمشاد نے سوٹ سینے کے لیے دینا تھا، وہ کپڑا لینے آیا ہوں‘‘ خرم بولا۔
’’تم اب آئے ہو، انہوں نے صبح سے ہمیں بتا رکھا ہے۔‘‘ دوسرا چوکیدار بولا اور اُٹھ کر اپنے کیبن سے ایک شاپر اُٹھاکر اس کی طرف بڑھا دیا۔
’’تم لوگ جانتے ہو کہ میں ایک مصروف آدمی ہوں۔ مجھے سو کام ہوتے ہیں۔‘‘ خرم نے شاپر لے کر یوں کہا جیسے وہ واقعی بہت مصروف ہو اور اپنی شوٹنگ چھوڑ کر یہاں آیا ہو۔
’’تیری مصروفیت کون نہیں جانتا، تم واقعی بہت مصروف ہو۔‘‘ پہلے چوکیدار نے طنزاً کہا تو دوسرا چوکیدار بھی ہنسنے لگا۔
’’تم لوگ ہنس کر میرا وقت ضائع کررہے ہو۔‘‘ خرم کہہ کر جانے لگا تو پیچھے سے مہتاب احمد کی آواز سنائی دی۔
’’خرم… ادھر آئو میرے پاس۔‘‘
خرم نے رک کر عقب میں دیکھا تو سامنے مہتاب احمد کھڑا تھا۔ اس کی شخصیت میں سحر تھا۔ اسے دیکھتے ہی دیکھنے والا اس کی شخصیت کے زیر اثر آجاتا تھا۔
خرم اس کے پاس چلاگیا۔ مہتاب برآمدے میں پڑی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ گیا۔ خرم اس کے سامنے کھڑا ہوگیا۔
’’آپ کب آئے اسلام آباد سے؟‘‘
’’میں رات آیا تھا۔‘‘
’’مزے ہیں آپ کے، جب چاہیں چلے جاتے ہیں اور جب چاہیں آجاتے ہیں۔ ایک ہم ہیں کنویں کے مینڈک… نہ کہیں جاتے ہیں اور نہ کہیں آتے ہیں… اوپر سے ابو کہتے ہیں درزی بن جائو۔‘‘
’’بن جائو درزی… تم لوگوں کا یہ آبائی کام ہے۔‘‘ مہتاب بولا۔
’’میں درزی بننے کے لیے پیدا نہیں ہوا۔‘‘
’’پھر کیوں پیدا ہوئے ہو؟‘‘ مہتاب نے ہنس کر پوچھا۔ ساتھ ہی اس نے خرم کو کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ خرم بیٹھ گیا۔
’’ایک دن زمانہ دیکھے گا کہ خرم کتنا بڑا اداکار ہے۔ شہرت میرے گھر کی لونڈی ہوگی۔‘‘ خرم نے کہا۔
’’اداکاری کا بھوت ابھی تک تمہارے سر سے نہیں اترا؟ میں سمجھا تھا کہ تم سب کچھ بھول کر اپنے کام میں لگ چکے ہوگے۔‘‘
’’یہ اداکاری مجھے شہرت دے گی، پیسہ دے گی، میں کیسے اس بھوت کو سر سے اتار سکتا ہوں۔‘‘ خرم بولا۔
’’شہرت کا جنون ہے تمہیں، اچھا… اداکاری کرکے تو دکھائو۔ دیکھتا ہوں تم کیسے اداکار ہو۔‘‘ مہتاب اپنی دونوں ٹانگیں سامنے والی کرسی پر پھیلاکر بولا۔
’’اداکاری تو میرے خون میں دوڑتی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے مختلف فلموں کے مکالمے بولنا شروع کردیئے۔
مہتاب نے تالی بجائی اور کہا۔ ’’تم تو کمال کے اداکار ہو۔‘‘
’’دیکھا… میرے اندر اداکاری کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ لیکن مجھے میرے گھر والے اداکار نہیں مانتے۔‘‘ خرم یہ کہتے ہوئے اداس ہوگیا۔ ’’ایک گزارش کروں آپ سے۔‘‘
’’ہاں بولو۔‘‘
’’آپ بہت بڑے سیاست دان ہیں۔ کسی ٹی وی چینل میں میری سفارش کردیں۔‘‘ خرم نے کہا۔
مہتاب اس کی بات سن کر سوچنے لگا۔ ’’میرا ایک کلاس فیلو تھا، الیاس جہانگیر اس کا نام ہے۔‘‘
خرم نے فوراً اس کی بات کاٹ دی۔ ’’وہ ٹیلی وژن کے بہت بڑے ڈائریکٹر ہیں، ان کے کئی سیریل چل چکے ہیں۔ ان دنوں بھی ایک بڑے چینل پر اُن کا ڈرامہ سیریل چل رہا ہے۔ وہ آپ کے دوست ہیں؟‘‘
’’ہاں وہ میرا اچھا دوست ہے، ابھی چار ماہ پہلے اس سے میری ملاقات اسلام آباد میں ہوئی تھی۔ وہ وہاں مجھ سے ملنے آیا تھا، اس کی شوٹنگ چل رہی تھی۔‘‘ مہتاب نے بتایا۔
’’پھر تو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ آپ مجھے ان کے پاس بھیج دیں۔ میں ان کو اپنی اداکاری سے ایسا مطمئن کروں گا کہ وہ خود آپ کو فون کرکے بتائیں گے کہ مہتاب احمد آپ نے جو ٹیلنٹ بھیجا ہے وہ کمال کا ہے۔‘‘ خرم پُرجوش ہوکر بولا۔
اس کی بات سن کر خرم کو ہنسی آگئی۔ ’’اس نے مجھے اپنا کارڈ دیا تھا، مجھے اس نے کراچی آنے کی دعوت بھی دی تھی۔‘‘
’’تو ابھی ان کو فون کریں۔‘‘ خرم جلدی سے بولا۔
’’میں دیکھوں گا کہ وہ کارڈ کہاں ہے۔ شاید میرے سیکرٹری کے پاس ہو۔ تم فکر مت کرو۔ میں اس سے بات کرکے تمہیں کراچی بھجوادوں گا۔‘‘ مہتاب نے اسے یقین دلایا۔
’’بھول نہ جائیے گا۔ آپ دیکھیں گے کہ میری اداکاری سے تہلکہ برپا ہوجائے گا۔ مجھے اداکاری کا جنون ہے اور میرا یہ جنون اس وقت پورا ہوگا جب میں ٹیلی وژن کی اسکرین پر آئوں گا۔ آج کل ٹیلی وژن بہت بڑا میڈیا بن گیا ہے… فلم سے بھی بڑامیڈیا۔‘‘ خرم بولا۔
’’تم بے فکر رہو، سمجھو کہ تمہارا کام ہوگیا۔‘‘ مہتاب اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑا ہوا اور یقین دلاتے ہوئے بولا۔ ’’تم کراچی ضرور جائوگے۔‘‘
خرم خوش ہوگیا اور خوش خوش اپنے گھر کی طرف چل دیا۔ وہ کپڑوں کا شاپر اٹھانا بھول گیا تھا۔
٭…٭…٭
خرم جونہی گھر میں داخل ہوا، ماسٹر رشید کی آواز اس کے کان میں پڑی۔ ’’آئیے آئیے ہم آپ کا ہی دسترخوان پر انتظار کررہے ہیں… تشریف لے آئیے۔‘‘
خرم نے دیکھا کہ برآمدے میں چٹائی پر سب گھر والے موجود ہیں اور کھانا لگ رہا تھا۔
’’سلام علیکم ابو جی۔‘‘ خرم نے اپنا ہاتھ ماتھے کی طرف لے جاکر سلام کیا۔
’’وعلیکم سلام۔‘‘ ماسٹر رشید کی گھورتی ہوئی آنکھیں خرم پر مرکوز تھیں۔ خرم کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ پھر اسے یاد آیا کہ کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا بہت ضروری ہیں ورنہ اس پر ڈانٹ یوں پڑے گی جیسے برسات میں بارش ہوتی ہے۔
خرم ہاتھ دھوکر دسترخوان پر بیٹھ گیا۔ ماسٹر رشید نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ’’کہاں سے تشریف لارہے ہیں؟‘‘
’’آپ پہلے کھانا کھالیں۔‘‘ زبیدہ نے ماسٹر رشید کو ٹوکا۔
ماسٹر رشید نے زبیدہ کی طرف دیکھ کر کہا۔ ’’اگر آپ مجھے دو منٹ ان سے بات کرنے کا موقع دے دیں تو مہربانی ہوگی۔‘‘
’’میں نے کب روکا ہے، کھانا کھانے کا کہہ رہی تھی، کھانا ٹھنڈا ہوجائے گا اور پھر آپ کہیں گے کہ ٹھنڈا ہوگیا ہے۔‘‘
’’ابھی روٹی پک رہی ہے تب تک وقفہ سوال کرلیتے ہیں۔‘‘ ماسٹر رشید کا بات کرنے کا یہی انداز تھا۔ زبیدہ چپ ہوگئی۔ ماسٹر رشید پھر اس کی طرف متوجہ ہوا۔ ’’میں نے آپ سے سوال کیا تھا کہ آپ کہاں سے تشریف لارہے ہیں؟‘‘
’’چچا شمشاد کے گھر گیا تھا۔ کپڑے لینے جو انہوں نے سلوانے ہیں۔‘‘ خرم نے جواب دیا۔
’’کہاں ہے وہ کپڑا؟‘‘ ماسٹر رشید نے سوالیہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔
اس سوال نے خرم کو چونکا دیا۔ ایک دم یاد آیا کہ وہ شاپر تو وہاں ہی بھول آیا۔ وہ مہتاب کو اپنی اداکاری کے جوہر دکھاتا رہا اور جس کام کے لئے گیا تھا وہ ادھورا ہی چھوڑ آیا تھا۔ سوچنے لگا کہ کیا جواب دے۔
’’میں نے تم سے کچھ پوچھا ہے؟‘‘ ماسٹر رشید نے کہا۔
’’کپڑا میں نے لے لیا تھا، بے خیالی میں وہاں ہی بھول آیا۔‘‘ خرم نے اٹکتے ہوئے جواب دیا۔
’’لوجی سن لو، کپڑا وہاں سے لے لیا تھا اور اسی جگہ بھول کر آگیا۔ جھوٹ کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔‘‘ ماسٹر رشید نے اسے گھورا۔ اس کے بھائی اور بھابیاں دبے دبے انداز میں ہنس رہے تھے۔
’’میں جھوٹ نہیں بول رہا۔‘‘ خرم بولا۔
’’بند کرو بکواس… چھوڑو یہ جو تم ہر وقت ناٹک کرتے رہتے ہو۔ بندوں کی طرح کام کرو۔ کل صبح جس بھائی کے ساتھ دکان پر بیٹھنا چاہو اس کی دکان پر چلے جانا۔ لیکن اب کوئی بہانہ نہیں چلے گا۔‘‘ ماسٹر رشید نے غصے سے کہا۔
’’روٹی آگئی ہے اور سب آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔‘‘ زبیدہ نے ایک بار پھر ٹوکا تاکہ ماسٹر رشید کی ڈانٹ کسی طرح ختم ہوجائے۔
’’ایک بات اور کان کھول کرسن لو۔ کھانا کھانے کے بعد تم فوراً واپس جائوگے اور کپڑا لے کر آئو گے۔ میں صحن میں بیٹھا تمہارا انتظار کروں گا۔ پندرہ منٹ تک نہ آئے تو پھر کوئی تمہارے لیے دروازہ نہیں کھولے گا۔‘‘ ماسٹر رشید نے حکم سنایا۔
کھانا کھاتے ہوئے سب اِدھر اُدھر کی باتیں بھی کرنے لگے۔ ایک خرم تھا جو چپ سر جھکائے کھانا کھانے میں مصروف تھا۔ زبیدہ بار بار اپنے بیٹے کی طرف دیکھتی اور پھر کھانا کھانے لگ جاتی۔ خرم کے بھائیوں کو خرم کی کوئی پروا نہیں تھی۔ انہوں نے اپنی اپنی دکانیں سنبھالی ہوئی تھیں اور اب ماسٹر رشید کا یہ حکم سن کر دل میں پریشان ہوگئے تھے کہ کہیں خرم ان کی دکان پر نہ آجائے۔
چاروں بھائیوں کی بیویاں بھی طنزیہ نگاہوں سے خرم کی طرف دیکھ لیتی تھیں۔ وہ بعد میں اس کا خوب مذاق اُڑاتی تھیں۔ خرم کی مجبوری یہ تھی کہ وہ درزی نہیں بننا چاہتا تھا۔ اس کے خواب کچھ اور تھے اور وہ اپنے خوابوں کے پیچھے بھاگتے ہوئے اپنے آبائی پیشے سے اجتناب برت رہا تھا۔
کھانا ختم کرتے ہی خرم اُٹھا تو اسی وقت ماسٹر رشید نے اپنی گھڑی میں وقت دیکھتے ہوئے یاد دلایا۔ ’’صرف پندرہ منٹ۔‘‘
’’جی۔‘‘ خرم یہ کہہ کر گھر سے باہر چلاگیا۔
’’خرم جلدی آجانا۔‘‘ پیچھے سے زبیدہ نے آواز لگائی۔
’’بس فوراً آیا امی۔‘‘ خرم گھر سے نکل گیا۔ باہر نکلتے ہی اس نے تیز تیز قدم قادر ہائوس کی طرف اٹھانے شروع کردیئے۔
٭…٭…٭
خرم تیز تیز قدم اُٹھاتا قادر ہائوس پہنچا۔ اس نے شاپر لیا اور اُلٹے
واپس ہوگیا۔ وہ وہاں سے نکلا ہی تھا کہ ماسٹر رشید کا ایک پرانا دوست حاکم علی سامنے سے آرہا تھا۔ اس نے آواز دی۔ ’’خرم… ادھر آئو۔‘‘
خرم کے قدم فوراً رک گئے۔ حاکم علی موٹرسائیکل کو پکڑے اسے دھکیلتے ہوئے پیدل ہی جارہے تھے۔ خرم نے پوچھا۔ ’’موٹرسائیکل خراب ہوگئی ہے چچا جی؟‘‘
’’ارے خراب نہیں ہوئی۔ پٹرول ختم ہوگیا ہے۔ ادھر آئو۔ اسے پکڑو۔ میں تھک گیا ہوں۔‘‘ حاکم علی کا رویہ ہمیشہ بے تکلفانہ رہتا تھا۔ وہ ریٹائرڈ سرکاری ملازم تھے۔ ساری زندگی انہوں نے ہنس کھیل کر گزاری تھی۔
خرم نے سوچا کہ ابو نے پندرہ منٹ دیئے تھے۔ اگر وہ پندرہ منٹ کے بعد گھر پہنچا تو یقیناً اس کو گھر کا دروازہ بند ملے گا۔ خرم یہ بات جانتا تھا کہ اس کے ابو جو بات کہہ دیں اس پر قائم رہتے ہیں۔ پھر وہ خود دروازہ کھولیں گے اور نہ ہی کسی دوسرے کو کھولنے دیں گے، بے شک ان کو صحن میں چارپائی بچھا کر ہی کیوں نہ سونا پڑے۔
’’او سوچ کیا رہے ہو۔ موٹرسائیکل ہے، ریل گاڑی کا انجن نہیں ہے جسے پیدل لے جانے میں تمہیں کوئی مسئلہ ہوگا… آئو ادھر اسے پکڑو۔‘‘
حاکم علی اس کے ابو کے پرانے بے تکلف دوست تھے۔ اب یہ بھی گستاخی تھی کہ وہ ان کی بات نہ مانتا اور یہ بات اپنی جگہ طے تھی کہ اس کے ابو نے پندرہ منٹ کا وقت دیا تھا۔ اس نے اپنی گھڑی میں وقت دیکھا۔ دیئے گئے وقت میں محض چار منٹ رہ گئے تھے۔
ناچار خرم ان کی طرف بڑھا اور موٹرسائیکل ان سے لے لی اور دونوں پیدل چلنے لگے۔ اب موٹرسائیکل کو خرم دھکیل رہا تھا۔
حاکم علی بولے۔ ’’اچھا ہوا کہ تم مجھے مل گئے۔ میں تھک گیا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ موٹرسائیکل اسی جگہ چھوڑ کر گھر چلا جائوں۔ مشین انسان کو کھینچے تو بہت اچھا ہے اور اگر مشین انسان کو کھینچنی پڑے تو یہ بہت بُرا ہے بھائی۔‘‘
’’آپ پٹرول ڈلوالیتے۔ اب تو جگہ جگہ پٹرول لے کر بیٹھے ہیں لوگ۔‘‘ خرم نے گھڑی کی طرف دیکھا تو پندرہ منٹ پورے ہوگئے تھے۔ اس کا دل زور سے دھڑکا۔ اس نے سوچا کہ ابو نے اب دروازہ بند کردیا ہوگا۔
’’یہ لوگ ناپ تول میں کمی کرتے ہیں، اس لیے نہیں ڈلوایا۔‘‘ حاکم علی نے اپنی منطق جھاڑی۔
خرم نے ایک بار پھر گھڑی دیکھی، اس کے چہرے پر پریشانی عیاں ہوگئی تھی۔ حاکم علی نے دیکھ لیا تھا کہ خرم کچھ پریشان ہے۔
’’کیا بات ہے، چہرے پر بارہ کیوں بج رہے ہیں۔ کوئی غلط کام ہوگیا ہے تو مجھے بتادو میں تمہارے ابا کے پاس چلا جاتا ہوں۔ ساری دنیا کی بات وہ رد کرسکتا ہے لیکن میری بات رد کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔‘‘
’’ایسی بات نہیں ہے وہ!‘‘ خرم نے کہنا چاہا۔
حاکم علی کی ایک عادت تھی کہ وہ دوسرے کو کم ہی بولنے کا موقع دیتے تھے۔ اس لیے وہ اس کی بات کو کاٹ کر بولے۔ ’’میرا گھر آگیا ہے، تم ایسا کرو کہ موٹرسائیکل اندر کھڑی کرو اور دیکھو چائے پیئے بغیر نہیں جائوگے۔‘‘
’’میں رات کو چائے نہیں پیتا، پھر مجھے نیند نہیں آتی۔ ویسے بھی مجھے ایک کام سے جانا ہے۔‘‘ خرم جلدی سے بولا۔
حاکم علی نے اپنے گھر کا دروازہ بجایا۔ ٹھیک دو منٹ کے بعد دروازہ کھل گیا۔ دروازہ حاکم علی کی بیٹی ہادیہ نے کھولا تھا۔ حاکم علی اندر چلے گئے اور خرم موٹرسائیکل اندر کھڑی کرنے لگا جب کہ ہادیہ دروازے پر موجود رہی۔ جونہی خرم نے موٹرسائیکل اندر کھڑی کی، ہادیہ نے دروازہ بند کردیا۔
ہادیہ کو دیکھ کر اسے ایسا لگتا تھا جیسے وہ آسمان سے اتری ہوئی حور ہو۔ وہ اتنی خوبصورت اور پُرکشش تھی کہ جب بھی خرم اس کی طرف دیکھتا، اس کے دل میں کچھ ہونے لگتا تھا لیکن حاکم علی کیونکہ اس کے ابو کے پرانے دوست تھے، دونوں گھرانوں کا ایک دوسرے کا ہاں آنا جانا تھا، اس وجہ سے اس نے کبھی ہادیہ کو نظر بھر کر نہیں دیکھا تھا اور نہ ہی اس نے کوئی ایسی بات کی تھی کہ وہ بات اس کے ابو تک پہنچتی اور اس کی جان پر بن جاتی۔
خرم نگاہیں جھکائے جانے لگا تو حاکم علی کی آواز آئی۔ ’’ہادیہ… اسے جانے مت دینا… تم چائے بنائو۔‘‘
خرم بے بسی سے بولا۔ ’’چچا مجھے جانا ہے، مجھے دیر ہورہی ہے۔‘‘
’’بالکل نہیں… چائے تو پینی پڑے گی۔‘‘ حاکم علی نے اس کا بازو پکڑلیا اور اسے لے کر اندر چلے گئے۔
’’ابو ناراض ہوں گے۔‘‘ خرم بولا۔
’’تیرے ابو کو منانا آتا ہے مجھے۔ اطمینان سے بیٹھ جائو۔ آج تیری چاچی بھی گھر میں نہیں ہے، میں اور ہادیہ ہی ہیں۔ جب سے تیری چاچی اپنے بھائی کے گھر گئی ہیں، گھر سونا سونا لگ رہا ہے اور میرے کانوں نے کوئی بات بھی نہیں سنی ہے۔‘‘ حاکم علی کہہ کر مسکرائے۔
طوعاً کراہاً خرم کو بیٹھنا پڑا۔ اس نے گھڑی میں وقت دیکھا۔ وہ بہت لیٹ ہوچکا تھا۔ خرم نے سوچ لیا کہ جو ہونا تھا وہ ہوچکا ہے۔ وہ زیادہ دیر کوئی بات دل پر نہیں لیتا تھا، لیکن باپ کی دھمکی اس کے دل میں کھٹک رہی تھی۔
جس کرسی پر خرم بیٹھا تھا وہ کچن کے دروازے کے سامنے تھی اور حاکم علی اس کے سامنے چارپائی پر بیٹھے تھے۔ جب خرم کچن کی طرف دیکھتا تو اس کی نظر کچن کے اندر چلی جاتی۔ اندر کھڑی ہادیہ، حاکم علی کو نظر نہیں آرہی تھی۔
حاکم علی اپنا ایک پرانا قصہ لے کر بیٹھ گئے تھے۔ خرم مجبوری کی حالت میں بیٹھا ان کا قصہ سن رہا تھا۔ وہ اس بے دلی سے سن رہا تھا کہ اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ابھی حاکم علی نے کیا کہا ہے۔
اچانک قصہ سنتے سنتے اس نے گردن گھمائی تو اس کی نظر کچن پر پڑی۔ اندر ہادیہ اپنے دونوں ہاتھ سینے پر باندھے کچھ اس انداز میں خرم کی طرف دیکھ رہی تھی جیسے اسے اس کی اس حالت پر ترس آرہا ہو۔ جونہی خرم کی نظر اس پر پڑی، وہ مسکرائی اور پیچھے ہٹ گئی۔
یہ منظر اس کی آنکھوں میں محفوظ ہوگیا۔ اس نے پہلی بار ہادیہ کو اس طرح مسکراتے ہوئے دیکھا تھا۔ اس کی دلکش مسکراہٹ نے خرم کو گھائل کردیا تھا۔ اس کے دل کی دھڑکن ایک دم تیز ہوگئی تھی۔
حاکم علی اپنے ماضی کا قصہ سناتے سناتے رکے اور اس کی طرف دیکھ کر بولے۔ ’’کیا ہوا؟‘‘
’’کچھ نہیں… کچھ بھی نہیں۔‘‘ خرم نے جواب دیا۔
’’گھبرا سے گئے ہو؟‘‘ حاکم علی اس کا جائزہ لینے لگے۔ ’’اچانک ایسی گھبراہٹ کیوں تھی۔ کہیں ابو کی شکل تو نظروں کے سامنے نہیں آگئی؟‘‘
’’ابا نے کہا تھا کہ اگر تم پندرہ منٹ تک گھر نہ آئے تو دروازہ بند کردوں گا۔‘‘ خرم نے انکشاف کیا۔
’’پتا نہیں تیرے ابو کو کب عقل آئے گی۔ اپنی مرضی ٹھونستا رہتا ہے۔ تم اطمینان سے چائے پیو، میں تمہیں خود گھر چھوڑ کر آئوں گا۔‘‘
خرم کے دل سے ابو کا خوف دور ہوگیا۔ وہ جانتا تھا کہ اگر چچا حاکم اسے گھر چھوڑنے چلے گئے تو پھر کوئی مسئلہ نہیں رہے گا۔
اسی اثنا میں ہادیہ چائے لے کر آگئی۔ اس نے چائے خرم کی طرف بڑھاتے ہوئے اپنے دلکش چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ عیاں کی اور کچن میں چلی گئی۔ خرم اور حاکم علی چائے پیتے رہے اور ان کا قصہ بھی چلتا رہا۔
اب اچھی خاصی دیر ہوگئی تھی۔ چائے ختم ہوگئی لیکن قصہ ختم نہ ہوا۔ اسی دوران حاکم علی کا فون بجنے لگا۔ دوسری طرف ان کی بیگم صاحبہ تھیں۔
’’لو میاں تم اب نکلو… بیگم صاحبہ کا فون آگیا ہے۔ لمبی بات ہوگی۔‘‘ حاکم علی بھول گئے کہ انہوں نے اسے گھر چھوڑنے کا کہا تھا۔ وہ اُٹھ کر کمرے میں چلے گئے۔ اپنی بیگم کی فون کال موصول ہوتے ہی وہ ایک دم بیگانے ہوگئے تھے۔
خرم اپنی جگہ سے اُٹھا اور دروازے کی طرف بڑھا تو عقب سے ہادیہ نے کہا۔ ’’مجھے لگتا ہے آج آپ کی خیر نہیں ہے۔‘‘
’’جو کچھ ہوگا تمہارے ابا کی وجہ سے ہوگا۔‘‘ خرم متانت سے بولا۔
’’کس نے کہا تھا چائے پینے کے لیے رکو… چلے جاتے۔‘‘ ہادیہ نے کہا۔
’’وہ جانے دیتے تو جاتا نا۔‘‘
’’بندے کو جانا ہو تو کوئی روک نہیں سکتا۔‘‘ ہادیہ نے کہا۔
’’تمہارے ابا کے سامنے کسی کی نہیں چلتی۔ وہ بولنے پر آجائیں، روکنے پر آجائیں یا پھر کسی کو بھیجنے پر تل جائیں ان کو کوئی روک نہیں سکتا۔‘‘ خرم نے کہا۔
ہادیہ ہنسنے لگی۔ اس نے ہنستے ہنستے دروازہ کھول دیا۔
’’تشریف لے جائیں، اگر اماں کی کال کٹ گئی تو ابا کا نیا قصہ شروع ہوجائے گا۔‘‘ ہادیہ نے خبردار کیا۔
’’یہ ریٹائر سرکاری آفسر قصے کیوں نہیں لکھنا شروع کردیتے؟‘‘ خرم نے مشورہ دینے کی کوشش کی۔
’’آج سنا رہے ہیں، کل لکھنا بھی شروع کردیں گے۔‘‘
’’وہ دن کب آئے گا؟ جب وہ قصے لکھا کریں گے؟‘‘ خرم بولا۔
’’جب ان کا قصہ کوئی نہیں سنے گا تو پھر وہ لکھنا شروع کردیں گے۔‘‘ ہادیہ یہ کہہ کر ہنسی۔ خرم نے جونہی گھر کے باہر قدم رکھا، ہادیہ نے آہستہ سے کہا۔ ’’شب بخیر۔‘‘
’’اس شب میں خیر ہوتی ہے کہ نہیں… اللہ ہی جانتا ہے۔‘‘ خرم کا جواب سن کر ہادیہ مسکرائی اور اس نے دروازہ بند کردیا۔
خرم تیز تیز چلتا اپنی گلی میں پہنچ گیا۔ اس کے قدم ایک دم رک گئے۔ اسے یاد آیا کہ شاپر وہ پھر حاکم علی کے گھر بھول آیا ہے۔ اب وہ اس تذبذب میں تھا کہ واپس جاکر شاپر لے آئے یا گھر میں داخل ہونے کی کوشش کرے۔ چنانچہ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ گھر جانے کی فکر کرے، شاپر وہ صبح بھی لے لے گا۔
وہ اپنے گھر کے دروازے پر پہنچا تو دروازہ بند تھا۔ اس نے گھڑی میں وقت دیکھا۔ رات کے ساڑھے دس بج رہے تھے۔ سردی کی وجہ سے گلی سنسان تھی۔ خرم نے دروازہ کھٹکھٹانے کے لیے ہاتھ اُٹھایا اور جونہی وہ دروازے پر دستک دینے لگا، اس کا ہاتھ رک گیا۔
خرم نے سوچا کہ ابو یقیناً برآمدے میں چارپائی بچھائے لیٹے ہوں گے۔ دروازے پر دستک سن کر وہ بالکل نہیں اُٹھیں گے۔ امی دروازہ کھولنے کے لیے بھاگیں گی۔ ابو انہیں فوراً روک دیں گے۔ امی کی کوشش ہوگی کہ کسی طرح دروازہ کھول دیں، لیکن ابو کھولنے نہیں دیں گے اور اگر امی نے دروازہ کھولنے کی کوشش کی تو ابو امی کو بھی اپنے غصے کی زد میں لے آئیں گے۔ اس طرح اس کی امی کو اس کی وجہ سے ابو کی ڈانٹ سننے کو ملے گی۔
یہ سوچ کر خرم پیچھے ہٹ گیا اور دروازے کے پاس ہی بیٹھ گیا۔ وہ معصومیت سے سوچ رہا تھا کہ اس کا دیر سے آنے میں کوئی قصور نہیں ہے، چچا حاکم نہ ملتے تو وہ کب کا گھر پہنچ چکا ہوتا۔
خرم باہر بیٹھا سوچ میں مبتلا تھا اور اندر برآمدے میں چارپائی بچھائے ماسٹر رشید اور زبیدہ بیٹھے تھے۔ دونوں کی نگاہیں دروازے کی طرف تھیں۔ دونوں کے چہرے پریشان تھے اور دونوں کی آنکھوں میں
نیند نہیں تھی۔ ماسٹر رشید نے اندر سے دروازے کی کنڈی بھی نہیں لگائی تھی۔
’’پتا نہیں کہاں چلا گیا ہے؟‘‘ زبیدہ ہولے سے بولی۔
’’میں نے کہا تھا کہ اگر تم پندرہ منٹ میں واپس نہ آئے تو میں دروازہ نہیں کھولوں گا۔ میری اس دھمکی کا بھی اس پر کوئی اثر نہیں ہوا، وہ اپنی آوارہ گردیوں میں لگا ہوا ہے۔‘‘ ماسٹر رشید نے دھیمے لہجے میں شکوہ کیا۔
’’مجھے لگتا ہے کہ اسے کسی وجہ سے آنے میں دیر ہوگئی اور وہ ڈر کی وجہ سے گھر نہیں آیا۔‘‘ زبیدہ نے اپنا خیال ظاہر کیا۔
’’میں نے کون سا دروازہ اندر سے بند کررکھا ہے، اس نے آکر ایک بار بھی دروازہ کھٹکھٹایا ہوتا تو وہ خود بخود کھل جاتا۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ وہ اپنے آوارہ اور ڈرامے باز دوستوں کے ساتھ کہیں بیٹھا ہے۔‘‘ ماسٹر رشید خود بھی پریشان تھا۔
’’میں کہتی ہوں آپ ذرا باہر جاکر دیکھ آئیں۔‘‘
’’باہر کیا دیکھوں؟‘‘
’’ذرا بازار تک جائیں۔ دیکھیں کہ خرم کہیں وہاں تو نہیں بیٹھا ہوا۔‘‘ زبیدہ نے استدعا کی۔
’’اس سردی میں میں کہاں جائوں؟‘‘
’’میں کسی بچے کو جگاتی ہوں۔‘‘
’’رہنے دو۔ وہ سب بے فکر گھوڑے بیچ کر سوئے ہوئے ہیں۔ ان کو کوئی احساس ہی نہیں ہے۔‘‘ ماسٹر رشید نے کہا۔
’’اب ان بچوں کو کیا پتا کہ خرم آیا کہ نہیں آیا، وہ وقت پر اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔‘‘ زبیدہ نے اپنے بچوں کی بھی صفائی پیش کی۔
’’تم سوجائو۔ میں دروازے کی کنڈی لگا دیتا ہوں۔‘‘ ماسٹر رشید اُٹھنے لگا۔
’’رہنے دیں… آپ سوجائیں، میں ایک بار باہر دیکھ لوں۔‘‘ زبیدہ نے کہا اور بستر سے نکل کر دروازے کی طرف چل دی۔
زبیدہ آہستہ آہستہ چلتی دروازے تک پہنچی۔ اس نے دروازہ کھولا اور باہر دیکھا تو گلی سنسان تھی۔ محض پانچ منٹ قبل خرم اس جگہ سے اُٹھ کر چلتا ہوا گلی کے چوک میں پہنچ کر دائیں طرف مڑگیا تھا۔ زبیدہ نے دائیں بائیں دیکھا اور دروازہ بند کرکے اندر سے کنڈی لگادی۔ اس کا چہرہ مزید پریشان اور اداس ہوگیا تھا۔
٭…٭…٭
خرم محلے کے بازار میں پہنچ گیا۔ جہاں مونگ پھلی، پان سگریٹ کی دکانیں کھلی تھیں۔ خرم نے دائیں بائیں دیکھا اور پھر ایک بند دکان کے تھڑے پر بیٹھ گیا۔ سردی لگ رہی تھی۔ اس نے جیکٹ پہنی ہوئی تھی۔ پیروں میں چپل تھی، وہ صرف سوٹ کا کپڑا لینے گیا تھا۔ اسے کیا پتا تھا کہ اسے حاکم علی مل جائیں گے۔ خرم کے پیر یوں ٹھنڈے ہو رہے تھے جیسے برف میں لگے ہوں۔
خرم سوچنے لگاکہ رات اس جگہ بیٹھ کر گزارنا بہت مشکل ہے۔ اچانک اسے خیال آیا کہ کیوں نہ وہ چچا حاکم کے گھر چلا جائے اور رات وہیں گزار لے۔ ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک ایک ہلچل سی برپا ہوئی۔ اس نے دیکھا کہ ایک طرف سے کچھ نوجوان تیزی سے بھاگتے آرہے ہیں۔ بھاگتے ہوئے وہ نوجوان دائیں بائیں گلیوں میں چلے گئے اور پھر خرم نے ان نوجوانوں کے پیچھے پولیس کو آتے دیکھا۔ جو ان کے پیچھے گلیوں میں چلی گئی۔
خرم کھڑا ہوگیا۔ اس دوران اس کے سامنے سے دو نوجوان بھاگ کر گزرے تو پیچھے پولیس بھی بھاگتی ہوئی گئی اور ایک پولیس والا جو پیچھے آرہا تھا، اس نے آئو دیکھا نہ تائو… خرم کو مضبوطی سے پکڑلیا۔
’’چھوڑو مجھے۔‘‘ خرم نے مزاحمت کی۔
’’کیوں چھوڑیں۔‘‘ پولیس والے نے اپنی گرفت مضبوط کرتے ہوئے کہا۔
خرم اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کرنے لگا اور وہ اپنے جسم کو جھٹکے دیتے ہوئے بولا۔ ’’میں نے کیا کیا ہے… مجھے چھوڑو۔‘‘
پولیس والے نے اسے اس مضبوطی سے گرفت میں لیا ہوا تھا کہ وہ اس کی گرفت سے نکل نہیں پارہا تھا۔ اس دوران ایک پولیس والا اور آگیا۔ اب دو پولیس والوں سے اپنا آپ چھڑانا مشکل ہوگیا۔ اس کی مزاحمت اور کوشش بے سود ہورہی تھی۔
’’لے چلو اسے۔‘‘ پہلے پولیس والے نے کہا۔ دونوں اسے زبردستی ایک طرف لے جانے لگے۔
’’میں نے کیا کیا ہے… مجھے کیوں پکڑا ہے۔‘‘ خرم نے رک کر کہا۔
’’بکواس بند کرو … ورنہ یہیں الٹا لٹکا کر مارنا شروع کردیں گے سمجھے۔‘‘ پولیس والا دھاڑا۔
’’میں نہیں جائوں گا۔‘‘ خرم زمین پر بیٹھ گیا۔
’’تیرا تو باپ بھی جائے گا۔‘‘
دونوں پولیس والے اسے کھینچتے ہوئے پولیس وین کی طرف لے گئے اور انہوں نے وین میں اُسے اس طرح ڈالا جیسے وہ انسان نہ ہو۔ اس کا سر کسی سخت چیز سے ٹکرایا اسے تکلیف ہونے لگی۔
خرم نے دیکھا کہ وین میں کچھ اور نوجوان بھی بیٹھے تھے۔ اس دوران پولیس والے تین اور نوجوانوں کو بھی لے آئے اور انہیں بھی انہوں نے وین کے اندر ٹھونس دیا۔ اس کے بعد پولیس والے وین کے پیچھے کھڑے ہوگئے اور وین چلنے لگی۔ خرم کے علاوہ جتنے لوگ اس وین میں موجود تھے، خوش و خرم ایک دوسرے سے باتیں کررہے تھے۔ ایک خرم تھا جو پریشان ہوکر ان سب کے چہروں کو دیکھ رہا تھا۔
’’میں نے کیا کیا ہے… مجھے چھوڑو… میں تو وہاں بیٹھا ہوا تھا۔‘‘ خرم نے ایک بار پھر احتجاج کیا۔
’’چپ کر کے بیٹھے رہو۔‘‘ پولیس والے نے ڈانٹا۔ ’’تم نے جو کیا ہے، وہ تھانے جاکر بتائیں گے۔‘‘
’’گاڑی روکو… مجھے اتارو۔‘‘ خرم چلاّیا۔
’’چپ ہوتے ہو یا میں ایک خوراک دوں۔‘‘ پولیس والا اس کی طرف قہر آلود نگاہوں سے دیکھتے ہوئے دھاڑا۔
’’میں نے کیا جرم کیا ہے؟‘‘ خرم نے اس بار زور سے بولنے کی بجائے دھیمے انداز میں کہا۔ (جاری ہے)