Saturday, January 18, 2025

Deewangi | Episode 3

’آپ مجھے یہاں بند کرکے نہیں جاسکتے۔‘‘ یہ کہہ کر خرم نے اس شخص کو دھکا دے دیا۔ وہ بستر پر جاگرا۔ خرم تیزی سے دروازے کی طرف بڑھا لیکن اسے لگا جیسے اس کی ٹانگ کو کسی نے کھینچ لیا ہو۔ خرم نے گردن گھما کر پہلے اپنے عقب میں دیکھا۔ وہ شخص بستر پر اطمینان سے لیٹا ہوا تھا، اس نے خرم کی ٹانگ بھی نہیں پکڑی ہوئی تھی۔ خرم نے اپنے پیر کی طرف دیکھا تو چونک گیا۔
خرم کے پیر میں ایک زنجیر تھی اور اس میں تالا لگا تھا اور دوسرا سرا دیوار کے ساتھ لگے کنڈے میں تھا۔ وہاں بھی تالا لگا ہوا تھا۔
زنجیر اتنی لمبی تھی کہ وہ آسانی سے کمرے میں چل پھر سکتا تھا۔ فریج تک جا سکتا تھا اور باتھ روم میں جانے میں بھی اسے آسانی تھی لیکن وہ کھڑکی تک نہیں جاسکتا تھا۔
وہ شخص مسکراتا ہوا اپنی جگہ سے اٹھا اور بولا۔ ’’تم اس کمرے کے اندر آزاد ہو، اطمینان سے گھومو پھرو۔‘‘ وہ ایک بار پھر مسکرایا اور اس نے دیوار کی جانب اشارہ کیا۔ خرم نے اس طرف دیکھا۔ دیوار کے کونے میں ایک کیل لگی ہوئی تھی۔ اس کیل پر دو چابیاں لٹک رہی تھیں۔
’’ان چابیوں کی طرف دیکھو، یہ چابیاں زنجیر کے تالوں کی ہیں۔ افسوس یہ کہ تم ان چابیوں تک نہیں پہنچ سکتے۔ تم ان چابیوں کو دیکھتے رہو اور حسرت سے ہاتھ ملتے رہو کہ تم انہیں چھو بھی نہیں سکتے۔‘‘ وہ شخص ہنستا ہوا کمرے سے نکل گیا۔ خرم چلاّنے لگا۔ اس کی آواز اس کمرے تک ہی محدود تھی۔
٭…٭…٭
ایک ہفتہ بیت گیا۔
خرم نے گھر رابطہ نہیں کیا تھا۔ ماسٹر رشید نے کئی بار کوشش کی کہ خرم سے بات ہوجائے لیکن اس کا موبائل فون مسلسل بند جارہا تھا۔ ماسٹر رشید اور اس کے گھر والوں کی پریشانی بڑھتی جارہی تھی۔
کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا ہوگیا ہے۔ ماسٹر رشید اپنے دوست حاکم علی کے پاس پہنچا اور اسے ساری صورت حال سے آگاہ کیا۔ یہ سن کر حاکم علی بھی پریشان ہوگیا۔ ہادیہ اور اس کی ماں نے سنا تو وہ بھی دم بخود رہ گئیں۔
’’کیا کروں… میری سمجھ میں نہیں آرہا۔‘‘ ماسٹر رشید نے پریشانی کے عالم میں کہا۔
’’ہماری دوڑ تو قادر ہائوس تک ہے۔ وہاں جاکر اپنا مسئلہ بیان کرتے ہیں۔ شاید وہ ہماری مدد کریں۔‘‘ حاکم علی نے تجویز پیش کی۔
دونوں اسی وقت اٹھ کر قادر ہائوس چلے گئے۔ وہاں مہتاب موجود تھا۔ اس نے دونوں کو بڑے احترم سے بٹھایا اور دلبر کو کچھ کھانے پینے کا سامان لانے کے لیے بھیج دیا۔
’’خرم کو اداکاری کا بہت شوق تھا۔ ایک ہفتہ ہوگیا ہے۔ وہ کراچی گیا تھا لیکن اس سے رابطہ نہیں ہورہا۔ اس کا فون بند جارہا ہے۔‘‘ ماسٹر رشید سے پریشانی کی وجہ سے بات نہیں ہورہی تھی۔
’’میں نے اسے منع بھی کیا تھا، یہ شوق چھوڑ دو، اس میں کچھ نہیں رکھا لیکن وہ بضد تھا۔ اس کا مطلب ہے وہ کراچی چلا گیا۔‘‘ مہتاب بولا۔
’’کہہ رہا تھا کسی ادارے نے اسے بلایا ہے۔‘‘ ماسٹر رشید نے کہا۔
’’ادارے ایسے ہی نہیں بلا لیتے چچا جی۔ خرم نے آپ سے جھوٹ کہا۔ آپ فکر نہ کریں، میں کراچی میں موجود اپنے دوستوں کو فون کرتا ہوں۔‘‘ مہتاب نے پہلے ان کے دل میں خرم کے لیے غلط فہمی پیدا کی اور پھر تسلی دی۔
’’بہت شکریہ۔ ابھی فون کرلیں۔‘‘ حاکم علی نے کہا۔
مہتاب نے گھڑی کی طرف دیکھا۔ دن کے گیارہ بجے تھے۔ ’’اس وقت تو وہ سو رہے ہوں گے۔ میں بارہ بجے کے بعد ان کو فون کروں گا۔ آپ فکر نہ کریں، سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘
مہتاب نے ان کو ایک بار پھر تسلی دی۔ وہ دونوں اٹھ کر چلے گئے۔ ماسٹر رشید اپنی دکان پر چلے گئے۔ جب حاکم علی اپنے گھر پہنچا تو وہ چونک گیا۔ سامنے اس کی بیوی کے ہاتھ، پیر اور منہ بندھا ہوا تھا۔
حاکم علی نے جلدی سے اس کے ہاتھ، پائوں اور منہ کھولا اور پوچھا۔ ’’کیا ہوا؟‘‘
’’آپ کے جانے کے بعد دو خواتین آئی تھیں۔ انہوں نے ہم پر پستول تان لیے اور پھر ایک نے مجھے باندھا۔ اس کے بعد انہوں نے پستول ہادیہ کی کمر سے لگایا اور اسے باہر لے گئیں۔‘‘
’’کہاں لے گئیں ہادیہ کو… کون تھیں وہ؟‘‘ حاکم علی چلّایا۔
’’مجھے نہیں معلوم کون تھیں وہ…‘‘
حاکم علی باہر کی طرف دوڑا۔ گلی میں ایک خاتون سے پوچھا تو اس نے بتایا۔ ایک گاڑی آپ کے دروازے پر رکی تھی اور پھر ہادیہ دو خواتین کے ساتھ باہر نکلی تھی اور گاڑی میں بیٹھ کر چلی گئی تھی۔
حاکم علی بھاگتا ہوا ماسٹر رشید کے گھر پہنچا۔ اسے ساری بات بتائی۔ وہ دونوں ایک بار پھر مہتاب کے سامنے کھڑے تھے۔ حاکم علی کا جسم کانپ رہا تھا۔ مہتاب ان کی بات سن کر حیران تھا۔
’’دن دیہاڑے ایسا کام ہوگیا۔ دلبر تھانے فون ملائو۔‘‘ مہتاب نے کہا۔ دلبر نے کال کرنے کے بعد موبائل مہتاب کو دے دیا۔ مہتاب بات کرتا ہوا ایک طرف چلا گیا۔ پھر بات ختم کرنے کے بعد ان کے پاس آیا اور بولا۔ ’’میں نے پولیس کو اطلاع کردی ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ ہو کیسے گیا؟‘‘
’’میری بیٹی کو لے گئیں۔‘‘ حاکم علی کے منہ سے آواز نہیں نکل رہی تھی۔
’’آپ حوصلہ رکھیں۔ میرا دل کہہ رہا ہے معاملہ کچھ اور ہے۔‘‘ مہتاب سوچتے ہوئے بولا۔
’’کیا بات ہوسکتی ہے؟‘‘ ماسٹر رشید نے دریافت کرنا چاہا۔
مہتاب نے جواب دینے کی بجائے ایک بار پھر دلبر کو ایک آدمی کا نام بتاتے ہوئے کہا کہ وہ اسے کال کرے۔ دلبر اسے کال کرنے لگا۔ جب کال ملی تو اس نے موبائل فون مہتاب کو دے دیا۔
مہتاب ایک بار پھر بات کرتا ہوا دوسری طرف چلا گیا۔ وہ کچھ دیر تک بات کرتا رہا۔ بات ختم کرنے کے بعد وہ ان کے پاس آکر بولا۔ ’’یہ کراچی کا ایک بااثر آدمی ہے جس سے ابھی میں نے بات کی ہے۔ میرا دوست ہے۔ ہر اچھی بری جگہ اس کے آدمی ہیں۔ ابھی ایک گھنٹے میں مجھے یہ سب بتا دیں گے خرم کہاں ہے اور کہیں وہ بات تو نہیں ہے جو میرے دماغ میں گھوم رہی ہے؟‘‘
’’وہ کیا بات ہے، ہمیں بھی بتائیں؟‘‘ ماسٹر رشید نے فکرمندی سے پوچھا۔
مہتاب نے ان کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ ’’آپ تشریف رکھیں، ابھی میں اپنے دوست کے فون کا انتظار کررہا ہوں۔ وہ کیا بتاتا ہے، پھر دیکھتے ہیں۔‘‘
ماسٹر رشید چپ چاپ حاکم علی کے پاس بیٹھ گیا۔ دونوں کے افسردہ چہرے لٹکے ہوئے تھے۔
اس دوران پولیس بھی آگئی۔ پولیس ہادیہ کی ماں اور گلی والوں سے پوچھ گچھ کرکے آئی تھی۔ مہتاب نے ان کو ہدایت دی کہ وہ جلد ازجلد ہادیہ کو تلاش کریں۔ پولیس والوں نے روایتی انداز میں تسلی دی اور چلے گئے۔
ایک گھنٹے سے زیادہ وقت ہوگیا تھا جب مہتاب کے دوست کا فون آیا۔ مہتاب ایک طرف ہوکر اس سے تفصیلی بات کرتا رہا۔ جب کال ختم ہوئی تو اس نے ماسٹر رشید اور حاکم علی کی طرف دیکھا۔ ان کی سوالیہ نگاہیں مہتاب کے چہرے پر مرکوز تھیں۔
’’خرم کو کیا جوئے کی بھی عادت تھی؟‘‘ مہتاب نے پوچھا۔
ماسٹر رشید نے ایک دم کہا۔ ’’خرم میں ایسی کوئی عادت نہیں تھی۔‘‘
’’آپ تو دکان پر ہوتے ہیں۔ وہ کیا کرتا ہے، اس کی آپ کو کیا خبر۔ میرا دوست بتا رہا تھا کہ خرم وہاں کے ایک بڑے جوئے خانے میں کسی سے جھگڑ پڑا تھا۔ میرے دوست کا چھوٹا بھائی اس جگہ موجود تھا اور اسی نے ان کی لڑائی رفع دفع کرائی تھی۔ خرم وہاں اکیلا نہیں گیا، اس کے دوست بھی ساتھ ہیں۔ خرم اور اس کے دوستوں نے اس جگہ سے کافی پیسہ جوئے میں جیتا۔ پھر دوسرے دن انہوں نے اتنا پیسہ ہارا کہ خرم نے اپنی منگیتر بھی دائو پر لگا دی۔‘‘
حاکم علی اور ماسٹر رشید نے سنا تو دونوں ہی دنگ ہی رہ گئے۔ حاکم علی کو لگ رہا تھا جیسے اس کی سانس رک رہی ہے۔ مہتاب ان کے قریب ہوکر بولا۔ ’’مجھے یہ اندیشہ اس لیے تھا کہ خرم ایک بار یہاں بھی جوا کھیلتے ہوئے پکڑا گیا تھا اور دلبر نے اسے چھڑایا تھا۔ خرم نے منت سماجت کی تھی کہ وہ گھر والوں کو نہ بتائے۔ میں نے اسے بلا کر سمجھایا تھا کہ اگر تم آئندہ جوا نہ کھیلنے کا وعدہ کرو تو میں تمہارے گھر والوں کو نہیں بتائوں گا۔ اس نے وعدہ کیا لیکن وہ باز نہیں آیا۔‘‘
ماسٹر رشید اور حاکم علی گم صم بیٹھے تھے۔ ان کے لیے یہ نیا انکشاف تھا۔ کچھ توقف کے بعد مہتاب پھر بولا۔ ’’دلبر کو کل کسی سے پتا چلا تھا کہ ہمارے علاقے کے کچھ نوجوان کراچی گئے ہیں، ان کا وہاں جوا کھیلنے کا پروگرام تھا۔ میں نے اپنے جس دوست کو فون کیا ہے، اس کا ایک دوست جواخانہ چلاتا ہے، اس لیے خرم کا پتا آسانی سے چل گیا۔‘‘
’’ہماری تو عزت گئی۔‘‘ حاکم علی نے دکھ بھرے لہجے میں کہا۔
’’آپ فکر نہ کریں۔ اس بات کو اپنے تک محدود رکھیں، وہ بااثر لوگ ہیں۔ آپ اپنے اپنے گھروں کو جائیں، اطمینان رکھیں، آپ کی عزت کو کچھ نہیں ہوگا۔‘‘ مہتاب نے دونوں کو تسلی دے کر گھر بھیج دیا۔
ان کے جاتے ہی مہتاب کے چہرے پر ایک مکار مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس نے بڑی ہوشیاری سے خرم پر الزامات لاد کر اپنی چال کامیاب کرلی تھی۔
مہتاب نے دلبر کے قریب ہوکر پوچھا۔ ’’سب ٹھیک ہے؟‘‘
’’جی! بالکل ٹھیک ہے۔‘‘ دلبر نے جواب دیا۔
’’ابھی ایک ہفتہ خاموش رہو۔ ہادیہ کا پورا خیال رکھو، کسی طرح کی اسے تکلیف نہ ہو۔ وہاں جو چوکیدار ہے، اسے رہنے دینا اور روزانہ ایک چکر لگا لیا کرنا۔‘‘ مہتاب اسے ہدایت دے کر اندر چلا گیا۔
٭…٭…٭
ماسٹر رشید اور حاکم علی کے گھرانوں میں صف ماتم بچھی ہوئی تھی۔ سب کچھ سننے کے بعد ماسٹر رشید کی ہمت نہیں ہورہی تھی کہ وہ حاکم علی سے نگاہیں ملا سکے۔ ماسٹر رشید اور حاکم علی نے اپنے گھر والوں سے حقیقت مخفی رکھی تھی۔ ان کی نظریں قادر ہائوس پر لگی تھیں۔ انہیں یقین تھا کہ مہتاب ان کے لیے ضرور کچھ کرے گا۔
ایک خرم کی ماں تھیں جو قادر ہائوس سے امید لگانے کی بجائے نوافل پڑھنے میں مشغول تھیں۔
٭…٭…٭
خرم کو اندازہ نہیں تھا کہ اسے کتنے دن ہوگئے ہیں اس کمرے میں قید ہوئے۔ وہ اس کمرے میں چل پھر سکتا تھا لیکن اتنا ہی جتنی اس کو زنجیر اجازت دیتی تھی۔ صبح، دوپہر اور شام کو ایک آدمی آتا تھا۔ وہ اسے چائے اور کھانا دے جاتا تھا، فریج میں پھل رکھ دیتا تھا اور پانی کی بوتلیں بدل دیتا تھا۔
خرم نے کئی بار کوشش کی کہ وہ چابی جو دیوار میں ایک کیل پر لٹک رہی تھی، اسے کسی طرح سے اتار لے لیکن اس کا ہاتھ وہاں تک جاتا نہیں تھا۔ خرم اس جگہ سے نکلنے کا طریقہ سوچ رہا تھا لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ یہاں سے کیسے نکلے۔ آخرکار خرم کے ذہن
میں ایک بات آئی۔ اس نے باتھ روم کی اس جگہ پر تولیہ اچھی طرح ٹھونس دیا جہاں سے پانی جاتا تھا، پھر اس نے پانی چھوڑ دیا اور باتھ روم پانی سے بھر گیا۔
تھوڑی دیر کے بعد نوجوان اس کے لیے کھانا اور گرم چائے لے کر آیا تو خرم نے کہا۔ ’’باتھ روم کا پائپ بند ہوگیا ہے، پانی نہیں نکل رہا ،کہیں ایسا نہ ہو کہ پانی کمرے میں آجائے۔‘‘
وہ نوجوان باتھ روم میں چلا گیا۔ اس نے اس جگہ کو دیکھا جہاں سے پانی جاتا تھا۔ خرم نے تولیہ اس طرح اندر تک ٹھونسا ہوا تھا کہ نہیں پتا چل رہا تھا کہ پانی کیوں نہیں نکل رہا۔
’’پانی رک کیسے گیا؟‘‘
’’معلوم نہیں۔ تم ایسا کرو کوئی ڈنڈا لے آئو تاکہ میں اس کی مدد سے اس کے اندر پھنسی ہوئی چیز نکال سکوں ورنہ یہ کمرا پانی سے بھر جائے گا۔‘‘
اس نوجوان نے کچھ دیر سوچا اور پھر باہر چلا گیا۔ خرم اس انتظار میں تھا کہ وہ نوجوان ڈنڈا لے آئے۔ تھوڑی دیر کے بعد دروازہ کھلا تو نوجوان کے ہاتھ میں ایک ڈنڈا تھا۔
’’یہ لو… میں یہاں کھڑا ہوں۔‘‘ نوجوان نے ڈنڈا اس کی طرف بڑھا کر کہا۔
خرم نے ڈنڈے کو پکڑ کر اسے غور سے دیکھا۔ وہ ایک مضبوط ڈنڈا تھا۔ خرم اب موقع ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس نے ہاتھ گھما کر غیر متوقع طور پر اس نوجوان کے سر پر وار کردیا۔ وہ نوجوان تکلیف سے بلبلایا اور سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ خرم نے یکے بعد دیگرے اس پر ڈنڈے سے حملہ کیا۔ نتیجے میں نوجوان نیم بے ہوش ہوگیا۔
خرم نے اس کو کھینچا اور جس جگہ چابی لٹک رہی تھی، وہاں تک لے گیا۔ اس نے اپنا ایک پیر اس نیم بے ہوش نوجوان کے سینے پر رکھا اور ڈنڈے کی مدد سے چابی نیچے گرا دی اور پھر اسے اپنی طرف کھینچ لیا۔
خرم نے چابی اٹھا کر پیر کی زنجیر کھولی اور اسے نوجوان کے پیر پر باندھ کر تالا لگا دیا۔ اس نے جیب کی تلاشی لی۔ جیب میں کچھ پیسے اور ایک موبائل فون تھا۔
خرم نے موبائل فون سائلنٹ پر لگایا اور ابھی جانے ہی لگا تھا کہ وہ نوجوان برق رفتاری سے اٹھا اور خرم کو پیچھے سے دبوچ لیا۔ نوجوان کے دونوں ہاتھ خرم کے گلے کے گرد حمائل تھے اور خرم کی آنکھیں ابل کر باہر نکل رہی تھیں۔ خرم نے اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کی۔ دونوں میں مزاحمت شروع ہوگئی۔ بمشکل خرم نے اس سے اپنے آپ کو چھڑایا اور اس کے پیٹ میں دو تین گھونسے رسید کردیئے۔ وہ نوجوان ایک بار پھر پیٹ پکڑ کر بیٹھ گیا۔
خرم نے تالے کی چابی اٹھائی اور بولا۔ ’’چابی ساتھ لے جارہا ہوں۔ میں اسے وہاں نہیں لٹکائوں گا۔ بہت اذیت ناک ہے یہ۔ جب بھی میں چابی دیکھتا تھا اور اسے چھو نہیں سکتا تھا تو مجھے بہت تکلیف ہوتی تھی۔‘‘
خرم نے چابی جیب میں ڈالی، ڈنڈا پکڑا اور باہر نکل کر دروازے کے تالے میں لٹکتی ہوئی چابی سے دروازہ مقفل کیا اور چابی اپنی جیب میں ڈال لی۔ وہ دبے پائوں آگے بڑھا اور سیڑھیاں اتر کر نیچے چلا گیا۔
نیچے کوئی نہیں تھا۔ اس نے ایک کمرے کے دروازے کے پاس رک کر کان لگا کر کچھ سننے کی کوشش کی۔ اسے کوئی آواز نہیں آئی۔ وہ دوسرے کمرے تک پہنچا تو اندر کسی کے بولنے کی آواز آئی۔ اس نے رک کر غور سے سننا چاہا۔ اس کی دانست میں کوئی موبائل فون پر بات کررہا تھا۔ پھر آواز آنا بند ہوگئی۔
اچانک دروازہ کھلا اور خرم چونک گیا۔ اس کے سامنے وہ آدمی کھڑا تھا کہ جب خرم کو ہوش آیا تو وہ اس کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے خرم کو دروازے پر کھڑا دیکھا تو حیرت زدہ رہ گیا۔
خرم لمحہ ضائع کئے بغیر اس آدمی کا گلا ایک ہاتھ سے دبوچ کر اسے دھکیلتا ہوا اندر لے گیا اور اسے بیڈ پر گرا کر اس کے منہ پر مکے برسانے شروع کردیئے۔ اس دوران خرم کی نظر بیڈ کی تپائی پر پڑے پستول پر پڑی۔
خرم نے پستول اٹھا کر اس کی گردن پر رکھ دیا۔ اسی وقت بیڈ پر پڑا اس آدمی کا موبائل فون بول پڑا۔ خرم نے دیکھا اسکرین پر مہتاب کا نام تھا۔ خرم کو حیرت ہوئی۔ اس نے غصے سے کہا۔ ’’اسپیکر آن کرکے فون اٹھائو اور اس سے بات کرو۔ اگر کوئی گڑبڑ کی تو گولی مار دوں گا۔‘‘
اس آدمی نے فون اٹھا کر اسپیکر آن کیا تو دوسری طرف سے مہتاب کی چہکتی ہوئی آواز آئی۔ ’’ہیلو جہانگیر! میرا مہمان کیسا ہے؟‘‘
’’وہ بالکل ٹھیک ہے۔‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’اس کا اچھی طرح خیال رکھنا۔ اس شہر میں واپس آنے نہ پائے۔ میں نے ہیرا چُرا لیا ہے۔ میری بات سمجھ گئے ہو نا؟‘‘
’’جی! میں سمجھ گیا ہوں۔‘‘
’’اوکے بائے۔‘‘ مہتاب نے فون بند کردیا۔
خرم کے لیے یہ باتیں بڑی حیران کن تھیں۔ اس نے جہانگیر کو کرسی پر بیٹھنے کا حکم دیا اور پستول تان کر بولا۔ ’’بتائو حقیقت کیا ہے ورنہ گولی مار دوں گا۔‘‘
جہانگیر نے کچھ دیر خرم کی طرف دیکھا اور خاموش رہا۔ خرم نے اس بار پہلے سے زیادہ درشت لہجے میں کہا تو جہانگیر بولا۔ ’’مہتاب میرے ایک دوست کا دوست ہے۔ اس نے مجھے حکم دیا تھا کہ میں تمہیں پکڑ کر بند کردوں۔‘‘
’’مہتاب نے ایسا کیوں کیا تھا؟‘‘
’’میں نہیں جانتا۔‘‘ جہانگیر نے ابھی جواب دیا ہی تھا کہ خرم نے اس کے منہ پر پستول کا بٹ اس قوت سے مارا کہ وہ تکلیف سے چیخ اٹھا اور اس کے منہ سے خون نکلنے لگا۔ خرم نے پھر پستول تان لیا اور بولا۔ ’’اگر اب نہ بتایا تو گولی چلا دوں گا۔‘‘
جہانگیر نے کچھ سوچا اور بولا۔ ’’مجھے اتنا پتا چلا تھا کہ مہتاب کو تمہاری منگیتر اتنی پسند آئی تھی کہ وہ اسے اپنی ہوس کا نشانہ بنانا چاہتا تھا، اس لیے اس نے تمہاری منگیتر کو اغوا کرلیا لیکن اس بات کا کسی کو پتا نہیں ہے۔‘‘
خرم اس کی بات سن کر دم بخود رہ گیا۔ جس کو وہ فرشتہ سمجھ رہا تھا، وہ اصل میں شیطان تھا۔
’’اس نے ہادیہ کو اغوا کرکے کہاں رکھا ہے؟‘‘
’’یہ مجھے نہیں معلوم۔‘‘ جہانگیر نے جواب دیا۔ خرم نے اس کے سر پر پستول کا بٹ مارا تو وہ تکلیف سے چیخ اٹھا۔ خرم نے پھر حملہ کیا تو اس کی گردن ایک طرف ڈھلک گئی۔ وہ بے ہوش ہوگیا تھا۔
خرم نے رسی تلاش کرکے اسے اچھی طرح باندھا، اس کے منہ میں کپڑا ٹھونسا، الماری کی تلاشی لی۔ ایک دراز سے بہت سے پیسے مل گئے۔ اسے اس نے جیب میں ڈالے، پستول اور دوسری جگہوں سے اپنی انگلیوں کے نشان مٹا کر کمرے کی لائٹ بجھا دی۔ دروازہ مقفل کیا اور باہر نکل گیا۔
باہر نکل کر اس نے گیٹ کو تالا لگایا اور اس کی چابی پھینکنے ہی لگا تھا کہ اسے خیال آیا۔ وہ اتنی دور کیسے جائے گا۔ اس نے گیٹ کھولا، گاڑی نکال کر گیٹ مقفل کیا اور گاڑی میں بیٹھ کر نکل گیا۔
اس جگہ جرائم پیشہ لوگ اپنے مقاصد پورے کرتے تھے۔ یہاں کوئی نہیں آتا تھا۔ وہ دونوں اس مکان میں قید تھے اور بندھے ہوئے تھے۔ ان کے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔
٭…٭…٭
خرم ہوائی جہاز کے ذریعے واپس اپنے شہر پہنچ گیا۔ اس نے شیرو کے ڈیرے کا رخ کیا۔ شیرو وہاں موجود نہیں تھا لیکن اس کو اطلاع کردی گئی۔ اس نے حکم دیا تھا کہ وہ خرم کی مہمان نوازی کریں۔ خرم کو ایک اچھے کمرے میں بٹھا دیا گیا تھا۔
ڈیڑھ گھنٹہ انتظار کے بعد شیرو واپس آیا تو اس نے خرم کا چہرہ دیکھتے ہی پوچھا۔ ’’خیریت تو ہے؟‘‘
’’آپ نے مجھے اپنا چھوٹا بھائی کہا تھا؟‘‘ خرم نے یاد دلانے کی کوشش کی۔
’’میں نے کہا تھا اور مانتا بھی ہوں کہ تم میرے چھوٹے بھائی ہو۔‘‘ شیرو نے جواب دیا۔
’’مجھے آپ سے ایک کام ہے۔ کیسے بھی ہو، میرا یہ کام کرنا ہے آپ نے۔‘‘ خرم بولا۔
’’کیا کام ہے؟‘‘ شیرو نے پوچھا۔
’’مہتاب کو اغوا کرکے ایک جگہ پہنچانا ہے۔‘‘ خرم نے کہا۔
شیرو اس کی طرف متحیر نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولا۔ ’’یہ کیا کہہ رہے ہو تم؟‘‘
’’آپ میرا کام کرسکتے ہیں یا نہیں؟‘‘ خرم نے دوٹوک انداز میں پوچھا۔
’’میرے لیے یہ کام مشکل نہیں ہے۔ کل دوپہر کے بعد ہم دونوں ایک ساتھ کہیں جارہے ہیں۔ چکمہ دے کر مہتاب کو تمہاری بتائی ہوئی جگہ پہنچا دینا میرے بائیں ہاتھ کا کام ہے لیکن میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ اسے تم اغوا کیوں کرانا چاہتے ہو؟‘‘ شیرو نے کہا۔
’’باقی تفصیل بعد میں بتائوں گا۔ بس اتنا جان لیں اس نے میری عزت پر ہاتھ ڈالا ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔
’’کسی کی عزت پر ہاتھ ڈالنا، میری نظر میں بہت بڑا جرم ہے۔ بتائو مہتاب کو کہاں پہنچانا ہے؟‘‘ شیرو نے اس کا چہرہ دیکھ کر کہا۔
خرم نے اسے تفصیل سے بتایا کہ اسے کہاں پہنچانا ہے۔ شیرو نے بھی اسے ایک منصوبے سے آگاہ کیا۔ ان باتوں سے فارغ ہوکر خرم نے اپنے ساتھ لائے ہوئے موبائل فون کو آن کیا اور ماسٹر رشید کو کال کی۔
تھوڑی دیر کے بعد ماسٹر رشید کی آواز سنائی دی۔ ’’ہیلو کون؟‘‘
’’ابا جی! میں خرم بول رہا ہوں۔‘‘ خرم بولا۔
دوسری طرف سے ایک دم ماسٹر رشید نے کہا۔ ’’کہاں ہو تم اور تم نے یہ کیا حرکت کی ہے؟ ہمیں کسی کے سامنے منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔‘‘
’’کیا کیا ہے میں نے؟‘‘ خرم نے پوچھا۔
’’اب کیا بتائوں کہ کیا کیا ہے تم نے؟‘‘ ماسٹر رشید کا لہجہ دھیما تھا کیونکہ وہ اس وقت اپنی دکان پر تھا۔
’’ابا جی! مجھے بتائیں کہ کیا بات ہے؟ مجھے صاف بتائیں، میں جاننا چاہتا ہوں۔‘‘ خرم نے جلدی سے کہا اور ساتھ ہی اسپیکر بھی کھول دیا۔ شیرو بھی سننے لگا۔ دوسری طرف سے ماسٹر رشید نے تفصیل بتانی شروع کردی جسے سن کر خرم کے ساتھ شیرو بھی حیران ہوتا گیا۔
جب بات مکمل ہوگئی تو خرم نے کہا۔ ’’ابا جی! مہتاب کے اندر ایک بھیڑیا چھپا ہوا ہے۔ ہم ہی کیا، اسے کوئی نہیں سمجھ سکا کہ وہ کیا ہے۔ آپ میرا یقین کریں، میں نے ایسا کچھ نہیں کیا اور میں اپنی بے گناہی ثابت کردوں گا اور اس بھیڑیئے کا چہرہ لوگوں کے سامنے بھی لے کر آئوں گا۔‘‘
’’تم اس وقت کہاں ہو؟‘‘
’’آپ بے فکر ہوجائیں، میں بالکل ٹھیک ہوں۔ سب ٹھیک ہوجائے گا اور میرا ذکر کسی سے نہ کریں۔ جو باتیں آپ کے ساتھ ہوئی ہیں، انہیں اپنے تک رکھیں۔ میں آنے والے چند گھنٹوں میں ساری حقیقت سامنے لے آئوں گا اور اپنے دامن پر لگا داغ بھی مٹا دوں گا۔ بس اتنا ذہن میں رکھیں کہ جو کیا ہے، وہ مہتاب نے کیا ہے۔ اسی نے مجھے کراچی میں قید کرایا تھا۔ میں وہاں سے بھاگ آیا ہوں۔‘‘ خرم بولا۔
’’یہ کیا کہہ رہے ہو تم؟‘‘ ماسٹر رشید سن کر پریشان ہوگیا۔
’’میں سچ کہہ رہا ہوں۔ بس آپ تھوڑا انتظار کرلیں۔‘‘ خرم نے اتنا کہہ کر فون بند


کردیا۔
شیرو سوچتے ہوئے بولا۔ ’’’مہتاب کو جانتا ہوں لیکن وہ اتنا گھنائونا ہے، یہ میں نہیں جانتا تھا۔‘‘
’’اب آپ نے سن لیا، مجھے بس مہتاب چاہیے۔‘‘
’’میرا وعدہ ہے کہ میں تمہارا کام کردوں گا لیکن تم اپنا مقصد حاصل کرنے کے بعد یہ شہر چھوڑ کر چلے جائو گے؟‘‘ شیرو نے پوچھا۔
’’میں شہر کیوں چھوڑوں گا؟‘‘ خرم نے اس کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔
’’مہتاب ایک طاقتور آدمی ہے۔ جب اسے پتا چلے گا کہ اس اغوا کے پیچھے تم ہو تو وہ تمہاری اور تمہارے گھر والوں کے لیے زمین تنگ کردے گا۔‘‘ شیرو بولا۔
’’سفر کے دوران میں یہی سوچتا آیا ہوں کہ مجھے کیا اور کیسے کرنا ہے۔ میں جو کچھ کروں گا، اس طرح کروں گا کہ اسے شک نہ ہو۔ میں اپنا چہرہ اس کے سامنے نہیں لائوں گا۔ میں ہادیہ کا پتا اس سے نہیں پوچھوں گا۔ اگر میں نے ہادیہ کے بارے میں پوچھا تو وہ جان جائے گا۔ اس لیے میں نے سب کچھ کیسے کرنا ہے، میں نے اپنے دماغ میں سوچ لیا ہے۔‘‘
’’اچھی بات ہے۔ تم بہت احتیاط اور اس رازداری سے کرنا کہ میں تمہیں ان گلیوں میں آزاد گھومتا ہوا دیکھوں۔‘‘
’’ایسا ہی ہوگا۔ اس کے فرشتوں کو بھی علم نہیں ہوگا کہ اس سارے کھیل کے پیچھے میں ہوں۔‘‘
’’میں کل تمہاری مطلوبہ جگہ پر مہتاب کو پہنچا دوں گا۔ تم بے فکر رہو۔‘‘ شیرو نے اسے یقین دلایا۔
٭…٭…٭
شیرو سے مہتاب ضرورت پڑنے پر کوئی کام لیتا تھا۔ اس لیے اس کا مہتاب کی طرف زیادہ آنا جانا نہیں تھا۔ اس وقت بھی ایک پراپرٹی کی خریداری کا معاملہ تھا جو متنازع پراپرٹی تھی۔ متنازع ہونے کی وجہ سے مہتاب اونے پونے یہ پراپرٹی خرید لیتا تھا اور پھر اسے اپنے نام منتقل کرا کے سونے کے بھائو بیچ دیتا تھا۔ اب جو پراپرٹی وہ خریدنا چاہتا تھا، اس میں شیرو کا ہونا بہت ضروری تھا، اس لیے وہ دو گھنٹے کے بعد اس کے ساتھ نکلنے والا تھا۔
خرم سیدھا اپنے دوست مظہر کے اس مکان پر چلا گیا جو شہر سے دور اور خالی تھا۔ گیٹ کی چابی لے کر خرم نے کی چین کی طرف دیکھتے ہوئے چوکیدار سے پوچھا۔ ’’یہ کی چین جس پر اس نے اپنے اس مکان کا نمبر لکھوایا ہے، خاص طور پر بنوائے تھے؟‘‘
’’نہیں جناب، جب وہ کالونی بنی تھی اور جن لوگوں نے پلاٹ خریدے تھے تو پلاٹ نمبر کے ساتھ کی چین دیئے گئے تھے۔‘‘ چوکیدار نے بتایا۔ خرم گاڑی لے کر چلا گیا۔
٭…٭…٭
شیرو اپنے ایک آدمی کے ساتھ اپنی گاڑی میں نکلا اور اس جگہ رک گیا جہاں مہتاب سے ملاقات کی بات ہوئی تھی۔ وہ ایک چورنگی تھی جس کے اردگرد شاپنگ پلازے، ریسٹورنٹ اور بوتیک وغیرہ تھے۔ اس جگہ رش رہتا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد مہتاب اپنی پجیرو میں وہاں آگیا۔ اس کے پیچھے ایک گاڑی تھی جس میں اس کے محافظ بیٹھے ہوئے تھے۔ پجیرو میں ڈرائیور کے ساتھ دلبر اور پچھلی سیٹ پر مہتاب بیٹھا ہوا تھا۔
شیرو کے ایک آدمی نے کار کا ٹائر بدلنا شروع کردیا۔ اس نے خود ہی ہوا نکالی تھی اور پھر آہستہ آہستہ ٹائر بدلنے لگا تھا۔ شیرو کار سے باہر نکل کر دوسری طرف منہ کئے کھڑا تھا۔
دلبر اس کے پاس جاکر بولا۔ ’’کیا ہوا؟‘‘
’’ٹائر پنکچر ہوگیا ہے۔‘‘
دلبر نے یہ بات مہتاب کو بتائی تو مہتاب نے دلبر کو پیغام دیا کہ شیرو سے کہو کہ اس کی گاڑی میں آجائے۔ شیرو نے انکار کردیا۔ اس نے کہا کہ میڈیا ہر وقت مہتاب کے تعاقب میں رہتا ہے، اس لیے وہ نہیں چاہتا کہ وہ میڈیا کی نظر میں آئے۔ مہتاب نے اس کی بات سے اتفاق کیا۔ مہتاب کے کہنے پر اس کا ڈرائیور گاڑی کچھ آگے لے گیا۔ جونہی اس کے محافظ گاڑی آگے بڑھانے لگے، ایک کار تیزی سے آکر ان کی گاڑی کے آگے رک گئی اور اندر سے ایک لڑکا باہر نکل کر مارکیٹ کی طرف جانے لگا تو ایک محافظ نے اسے آواز دے کر کہا۔ ’’یہ گاڑی ہٹائو، ہم نے آگے جانا ہے۔‘‘ لڑکے نے رک کر اپنے عقب میں دیکھا۔ اس کی گاڑی کے دائیں طرف بھی گاڑیاں تھیں۔ اگر وہ اپنی گاڑی آگے بڑھاتا تو مہتاب کے محافظوں کی گاڑی آگے نکل سکتی تھی۔ وہ واپس کار میں بیٹھا اور کوشش کی کہ ان کی کار کو راستہ مل جائے۔
محافظوں نے تیزی سے اپنی گاڑی نکالی اور جونہی وہ آگے بڑھے تو یہ دیکھ کر دنگ رہ گئے کہ مہتاب کی پجیرو دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ انہوں نے متلاشی نگاہوں سے دائیں بائیں دیکھا لیکن اس کی کار کہیں نہیں تھی۔ ایک محافظ نے شیرو کی طرف دیکھا۔ اس کا آدمی کار کا ٹائر بدل کر سامان سمیٹ رہا تھا۔
محافظوں نے دائیں بائیں اچھی طرح تسلی سے دیکھ لیا لیکن مہتاب کی پجیرو کہیں نہیں تھی۔ جس دوران وہ اس لڑکے سے جو شیرو کا ہی ایک آدمی تھا، اس کی کار آگے بڑھوا رہے تھے، اس اثنا میں دو آدمی مہتاب کے دائیں بائیں بیٹھ چکے تھے اور انہوں نے اسلحہ اس کی پسلیوں پر لگا کر کسی کو آواز نکالنے کا بھی موقع نہیں دیا تھا اور اس کے حکم پر ڈرائیور نے پجیرو آگے بڑھا دی تھی۔
شیرو کا آدمی جب سامان سمیٹ چکا تو اس نے محافظوں کی گاڑی کی طرف دیکھا۔ اس نے ایک محافظ سے اشارے سے پوچھا کہ مہتاب کی گاڑی کدھر گئی۔ محافظ نے اپنے کندھے اُچکا کر لاعلمی کا اظہار کیا۔ شیرو بظاہر حیرت سے دائیں بائیں دیکھ رہا تھا لیکن وہ دل میں خوش تھا کہ اس کے آدمیوں نے کام دکھا دیا ہے۔
٭…٭…٭
مہتاب کی پجیرو تیز رفتاری سے دوڑ رہی تھی۔ جب وہ کچھ دور گئی تو ایک کار اور آگئی اور پجیرو کو اوورٹیک کرکے آگے جا کر کھڑی ہوگئی۔ مہتاب کے ساتھ بیٹھے ایک آدمی نے ڈرائیور کو گاڑی روکنے کا اشارہ کیا۔ اس نے پجیرو ایک طرف روک دی۔ اس کار سے کئی آدمی باہر نکلے۔ انہوں نے ڈرائیور اور دلبر کو گاڑی سے باہر نکالا۔ انہیں ایک طرف کھڑا ہونے کا حکم دیا۔ وہ ایک طرف کھڑے ہوگئے۔
ان میں سے ایک نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی اور ایک آدمی نے درشت لہجے میں دلبر سے کہا۔ ’’جب تک تیرے فون پر ہماری کال نہ آجائے، مہتاب کے اغوا ہونے کی بات تیرے منہ سے نہیں نکلنی چاہیے ورنہ مہتاب کی لاش کسی ویرانے میں ملے گی۔‘‘
پھر پجیرو تیزی سے وہاں سے نکل گئی۔ وہ آدمی بھی اپنی کار میں بیٹھ کر چلے گئے۔ دلبر اور ڈرائیور وہاں کھڑے رہ گئے۔ راستے میں مہتاب کے ساتھ بیٹھے ایک آدمی نے جیب سے ایک محلول نکال کر رومال پر ڈالا اور مہتاب کے منہ پر رکھ دیا۔ وہ بے ہوش ہوگیا۔ پجیرو کی رفتار مزید تیز ہوگئی۔
٭…٭…٭
شیرو نے اپنا وعدہ نبھا دیا تھا۔ اس کے آدمیوں نے بے ہوشی کی حالت میں مہتاب کو اس مکان میں پہنچا دیا تھا جو خرم کے دوست کی ملکیت تھا اور شہر سے کافی فاصلے پر بھی تھا۔ اس طرف لوگوں کی آمدورفت نہیں تھی۔ خرم نے بالکل ویسا ہی انتظام کیا تھا جیسا اسے قید کرتے وقت کیا گیا تھا۔
شیرو کے آدمیوں نے کمرے میں زمین پر پڑی زنجیر سے اس کا ایک پائوں باندھ دیا۔ اس زنجیر کا دوسرا سرا دیوار میں پیوست ایک لوہے کے مضبوط ہک کے ساتھ تھا اور وہ زنجیر بھی اتنی لمبی تھی کہ کمرے کی ایک مخصوص حد تک جاتی تھی۔ خرم نے کمرے میں کیل کے ساتھ زنجیر کے تالے کی چابی لٹکانے کی غلطی نہیں کی تھی۔
مہتاب ابھی تک بے ہوش تھا اور زمین پر بچھے گدے پر لیٹا تھا۔ کمرے کا دروازہ بند تھا اور اس کے پائوں میں زنجیر پڑی ہوئی تھی۔ خرم اس کمرے کا کیمرا آن کرکے ٹی وی اسکرین پر دیکھ رہا تھا کہ مہتاب بے ہوش پڑا ہے۔ خرم نے تمام کیمرے آن کردیئے تھے جس کی مدد سے وہ اس مکان کے اندر جھانک سکتا تھا۔
٭…٭…٭
دلبر سیدھا قادر ہائوس پہنچا اور شمشاد کے کمرے کے باہر کھڑے ہوکر اس نے آہستہ سے دستک دی۔
تھوڑی دیر کے بعد اندر سے شمشاد کی بارعب آواز آئی۔ ’’کون ہے؟‘‘
’’میں ہوں دلبر… اندر آنے کی اجازت چاہتا ہوں۔ ایمرجنسی ہوگئی ہے۔‘‘ دلبر نے جلدی سے کہا۔
’’اندر آجائو۔‘‘ اندر سے آواز آئی تو دلبر سہمے ہوئے بچے کی طرح اندر چلا گیا۔ سامنے کرسی پر براجمان شمشاد پائپ پی رہا تھا۔ اس نے سوالیہ نگاہوں سے دلبر کی طرف دیکھا۔
’’اب پھوٹو بھی کیا ایمرجنسی ہوگئی ہے؟‘‘ جب دلبر کچھ نہ بولا تو شمشاد نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے غصے سے کہا۔
وہ ایک دم گھبرا کر بولا۔ ’’بڑے صاحب! مہتاب صاحب اغوا ہوگئے ہیں۔‘‘
’’کیا بکواس کررہے ہو؟‘‘ شمشاد اپنی کرسی سے اٹھ کر گرجا۔
دلبر نے ساری تفصیل بتائی۔ شمشاد چپ چاپ سنتا رہا۔ جب دلبر چپ ہوا تو شمشاد نتھنوں سے آگ برساتا ہوا بولا۔ ’’تم سب کے سب نکمے اور فضول ہو… فون ملائو، میں بات کروں ایس پی سے۔‘‘
’’بڑے صاحب! اغوا کرنے والوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر ہم نے یہ خبر کسی کو دی تو وہ اسی وقت صاحب جی کو گولی مار دیں گے۔‘‘
اس کی بات سن کر شمشاد بولا۔ ’’پھر کیا کروں؟‘‘
’’ہمیں ان کی کال کا انتظار کرنا چاہیے۔‘‘
’’تم نمبر ملائو، میں ایس پی سے بات کرتا ہوں۔‘‘
’’صاحب جی! انہوں نے بڑی سختی سے مجھے کہا تھا کہ اگر کسی کو اطلاع کی تو وہ اسی وقت صاحب جی کو گولی مار دیں گے۔‘‘ دلبر نے ایک بار پھر روکنا چاہا۔
شمشاد چپ ہوگیا۔ اس کا پورا جسم مضطرب تھا۔ اسی بے چینی میں وہ تیز تیز پائپ کے کش لے کر دھواں چھوڑنے لگا۔ پھر وہ بڑبڑایا۔ ’’کون لوگ ہوسکتے ہیں یہ؟‘‘
’’معلوم نہیں بڑے صاحب۔‘‘
’’مہتاب کے باڈی گارڈز کہاں تھے؟‘‘ شمشاد پھر گرجا۔
’’وہ اسی جگہ موجود تھے۔ اغوا اس قدر آناً فانا ہوا کہ کسی کو کچھ پتا ہی نہیں چل سکا۔‘‘ دلبر نے بتایا۔
’’اگر مہتاب کو کچھ ہوا تو یاد رکھنا میں تم سب کو بھی زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ ایک ایک کو مار دوں گا، تمہیں بھی مار دوں گا۔ سمجھے۔‘‘ شمشاد نے دلبر کا گریبان پکڑ کر درشت لہجے میں کہا۔ دلبر گھبرا کر اس کا چہرہ دیکھنے لگا۔
شمشاد نے دلبر کا گریبان ایک جھٹکے سے چھوڑا اور کرسی پر بیٹھ کر سوچنے لگا کہ کیا کرے۔ اس کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ دلبر ٹھیک کہہ رہا ہے۔ ابھی وہ ان کی فون کال کا انتظار کریں تو زیادہ مناسب ہے۔ اس کے بعد انہیں کیا کرنا چاہیے، پھر سوچا جائے گا۔
’’یہاں اسی کمرے میں رہنا اور اپنا موبائل فون نکال کر اپنے ہاتھ میں پکڑ لو۔ معلوم نہیں میرے نمبر پر ان کی کال آتی ہے کہ تمہارے فون پر۔‘‘
’’جی بہتر۔‘‘ دلبر نے اپنا موبائل فون جیب سے نکال کر ہاتھ میں تھام لیا۔
’’کتنے آدمی تھے وہ؟‘‘ شمشاد نے سوال کیا۔
’’پہلے دو تھے جو ہمارے ساتھ گاڑی میں
بیٹھے، پھر آگے ایک کار اور آگئی تھی۔ اس کے اندر سے کئی لوگ باہر نکلے تھے۔‘‘
’’تم سب مفت کی روٹیاں توڑتے ہو۔ اندھے ہوگئے تھے، تم لوگوں کی آنکھوں کے سامنے وہ مہتاب کو لے گئے اور تم لوگوں کو پتا ہی نہیں چلا؟‘‘ شمشاد کو ایک بار پھر غصہ آگیا۔ دلبر سہم کر سر جھکائے کھڑا رہا۔
٭…٭…٭
ماسٹر رشید نے جب سے خرم سے بات کی تھی، وہ بھی مضطرب ہوگئے تھے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کریں۔ ماسٹر رشید حاکم علی کے گھر چلے گئے۔ وہاں دونوں میاں بیوی افسردہ بیٹھے تھے۔
ماسٹر رشید نے حاکم علی کے قریب بیٹھ کر آہستہ سے کہا۔ ’’ابھی تھوڑی دیر پہلے مجھے خرم کا فون آیا تھا۔‘‘
ماسٹر رشید کی بات سن کر دونوں میاں بیوی نے چونک کر ان کی طرف دیکھا۔ ماسٹر رشید بولے۔ ’’خرم نے مجھے بتایا ہے کہ وہ صرف اداکاری کے لیے گیا تھا۔ اس نے کوئی ایسی حرکت نہیں کی جس سے آپ لوگوں کی بدنامی ہو۔‘‘
’’ماسٹر رشید۔‘‘ حاکم علی نے متانت سے کہا۔ ’’تم اپنے بیٹے کی صفائی پیش کررہے ہو؟‘‘
’’میرا یہ مطلب نہیں ہے۔‘‘
’’پرانی دوستی کا لحاظ ہے ورنہ تم اور تمہارے گھر والے اس وقت تھانے میں ہوتے۔ میں تم سب کے خلاف پرچہ کٹوا دیتا۔‘‘
’’حاکم علی! تم کیسی بات کررہے ہو؟ میں سچ کہہ رہا ہوں، مجھے خرم نے کال کرکے بتایا…‘‘
’’تمہارا رابطہ خرم سے ہے۔ اسے بولو کہ وہ میری بیٹی کو حفاظت سے میرے گھر پہنچا دے ورنہ میں کچھ بھی کر گزروں گا اور پرانی دوستی کو بھول جائوں گا۔‘‘ حاکم علی نے اس کی بات کاٹ کر درشت لہجے میں کہا کہ ماسٹر رشید اس کا منہ دیکھتا رہ گیا۔
حاکم علی کی بیوی سب کچھ سن رہی تھی۔ اسے اپنے شوہر کے رویئے پر حیرانی اس لیے تھی کیونکہ اس نے اس سے حقیقت مخفی رکھی تھی۔
’’بھائی صاحب سے آپ کس طرح بات کررہے ہیں؟‘‘ حاکم علی کی بیوی نے مداخلت کی۔
’’تمہیں میں نے اصل حقیقت بتائی نہیں ہے۔ اس کے بدبخت بیٹے نے…‘‘
حاکم علی نے ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ ماسٹر رشید نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔ ’’حاکم علی! چپ ہوجائو۔ دیکھو انتظار کرلو۔ اگر میرا بیٹا قصوروار ہوا تو میں سزا کے لیے بیٹے کو ہی نہیں اپنے آپ کو بھی تمہارے سامنے پیش کردوں گا۔‘‘
حاکم علی چپ ہوگیا جبکہ حاکم علی کی بیوی سوالیہ نگاہوں سے کبھی اپنے شوہر اور کبھی ماسٹر رشید کی طرف دیکھ رہی تھی۔ کمرے میں تین افراد بیٹھے تھے لیکن وہاں خاموشی ایسی تھی جیسے وہ تینوں مُردہ ہوں۔
کچھ دیر کے بعد ماسٹر رشید اپنی جگہ سے اٹھا اور بولا۔ ’’میں چلتا ہوں، اللہ سب ٹھیک کردے گا۔‘‘
ماسٹر رشید چلتا ہوا دروازے تک پہنچ گیا۔ وہ دونوں اپنی جگہ براجمان رہے جبکہ اس سے قبل جب بھی ماسٹر رشید ان کے گھر آتا تھا تو وہ دونوں اسے دروازے تک چھوڑنے جاتے تھے۔ حاکم علی کی بیوی چاہتی تھی کہ حاکم علی اٹھے تو وہ بھی اس کے ساتھ ہوجائے لیکن وہ منہ دوسری طرف پھیرے بیٹھا رہا۔
حاکم علی کی بیوی نے اٹھ کر دروازہ بند کردیا اور حاکم علی کے پاس آکر کہا۔ ’’آپ مجھ سے کوئی بات چھپا رہے ہیں؟‘‘
حاکم علی نے سر اٹھا کر اپنی بیوی کی طرف دیکھ کر کہا۔ ’’کوئی ایسی بات نہیں ہے۔‘‘
’’آپ مجھ سے ضرور کوئی بات چھپا رہے ہیں۔ آپ بتانے لگے تھے اور رشید بھائی کے کہنے پر آپ چپ ہوگئے تھے۔‘‘
حاکم علی کو اپنی بیوی سے بہت محبت تھی۔ اس نے کبھی اس سے کوئی بات نہیں چھپائی تھی۔ پریشانی کے عالم میں اس نے ماسٹر رشید سے درشت لہجے میں بات کی تھی اور جو بات ان کے درمیان تھی، وہ بتانے لگا تھا۔
کچھ بھی تھا، ماسٹر رشید اس کا دوست تھا۔ یہ سوچ کر اس نے اپنی بیوی کو حقیقت بتانے کی بجائے کہا۔ ’’کوئی بات نہیں تھی۔ جانے غصے میں میرے منہ سے کیا نکلنے لگا تھا۔ اب تم مجھ سے مزید سوال نہ کرنا۔ میں بہت پریشان ہوں۔‘‘ حاکم علی اٹھا اور اپنے بستر پر لیٹ گیا۔ اس کی بیوی سوچ رہی تھی کہ اس سے کوئی بات ضرور مخفی رکھی جارہی ہے۔
٭…٭…٭
مہتاب کو اغوا ہوئے دو گھنٹے ہوگئے تھے۔ شمشاد انتظار کی سولی پر لٹکا ہوا تھا۔ مہتاب کے فون میں نیٹ بھی تھا اور واٹس ایپ بھی ۔ خرم نے بے ہوشی کی حالت میں جب مہتاب گدے پر لیٹا ہوا تھا اور اس کے پائوں میں زنجیر تھی تو اس نے اس کی ایک مختصر سی ویڈیو بنائی اور شمشاد کے موبائل فون پر بھیج دی۔ ساتھ ہی خرم نے اسے مہتاب کے فون سے میسج کردیا۔ ’’ڈیڈی! اپنا واٹس ایپ چیک کریں۔‘‘
شمشاد نے جونہی میسج پڑھا، اس نے جلدی سے اپنا واٹس ایپ کھولا اور مہتاب کی ویڈیو دیکھی اور دلبر کو بھی دکھائی۔
’’مہتاب کو باندھا ہوا ہے۔‘‘ شمشاد نے کہا۔
’’چھوٹے صاحب بے ہوش ہیں۔‘‘ دلبر بولا۔
پھر میسج آیا۔ ’’پیارے ڈیڈی! میں بالکل ٹھیک ہوں۔ آپ فکر نہ کریں اور میری اس ویڈیو اور اغوا کی بات کو جتنا پوشیدہ رکھ سکتے ہیں، پوشیدہ رکھیں۔ میں جلدی واپس آجائوں گا۔ یہ ساری بات آپ اپنے اور دلبر تک ہی رکھیں۔‘‘
پیغام پڑھنے کے بعد شمشاد نے دلبر کی طرف دیکھ کر پوچھا۔ ’’اب بتائو تم کیا کہتے ہو؟‘‘
’’جب تک کوئی واضح پیغام نہیں مل جاتا، میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔‘‘ ولید نے سوچتے ہوئے کہا۔
’’میں کہتا ہوں خفیہ طریقے سے پولیس کو اطلاع کردیتے ہیں۔‘‘ ابھی شمشاد نے اتنا ہی کہا تھا کہ ایک اور پیغام آگیا۔
لکھا تھا۔ ’’پیارے ڈیڈی! میں جانتا ہوں کہ آپ کے تعلقات بہت اوپر تک ہیں۔ ہم پوری مشینری استعمال کرسکتے ہیں لیکن فی الحال آپ ایسا کچھ نہ کریں کیونکہ جن لوگوں کے پاس میں مہمان ہوں، وہ بھی آپ پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ذرا سی بھی غلطی ہوگئی تو وہ مجھے نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ احتیاط لازمی ہے۔‘‘
اس میسج نے دونوں کو ایک بار پھر حیران پریشان کردیا۔ دلبر بولا۔ ’’ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ جن لوگوں نے چھوٹے صاحب کو اغوا کیا ہے، وہ کوئی عام لوگ نہیں ہیں۔ اگر وہ عام لوگ ہوتے تو ان کی جرأت نہیں ہوسکتی تھی کہ وہ قادر ہائوس کی طرف دیکھتے!‘‘
’’تمہاری بات ٹھیک ہے۔‘‘
’’میں تمام باڈی گارڈز جن کی موجودگی میں چھوٹے صاحب اغوا ہوئے تھے، ان کو انڈرگرائونڈ کردیتا ہوں تاکہ کوئی بات نہ نکلے اور انہیں کوئی نقصان نہ پہنچے۔‘‘ (جاری ہے)

Latest Posts

Related POSTS