Monday, January 13, 2025

Dewana | Complete Urdu Story

اسکول کا اولڈ اسٹوڈنٹ ڈے تھا۔ اسکول کی انتظامیہ کی دعوت پر بہت سے پرانے طالب علم اسکول میں جمع ہوئے تھے۔ سب ایک دوسرے کو دیکھ کر حیران ہورہے تھے کہ سب کتنے بدل گئے تھے۔ سب نے زندگی کے مختلف شعبے اختیار کرلئے تھے۔ ایک دوسرے کے ساتھ اسی بارے میں بھی بات کررہے تھے۔ اپنی چھوٹی چھوٹی تقریروں میں اپنا تعارف کراتے ہوئے پرانی خوشگوار یادوں کو تازہ کیا تھا۔ بہت سے پرانے ہم جماعت جن میں تعلق ٹوٹ چکا تھا، ان سب نے ایک دوسرے کے فون نمبر لے لئے تھے تاکہ رابطہ بحال رہ سکے۔
تھوڑے سے ورائٹی پروگرام اور کھانے کے بعد سب آہستہ آہستہ رخصت ہونے لگے۔ کیٹ بھی واپس جانے کے لئے اپنی گاڑی کا دروازہ کھول ہی رہی تھی کہ ایک شخص قریب آیا جو قدرے نروس سا لگتا تھا۔ ’’کیٹ…! میں ڈونے ریبل ہوں… میرا خیال ہے کہ تم نے مجھے پہچانا نہیں۔‘‘
کیٹ نے غور سے اس کی طرف دیکھا اور رسمی سے لہجے میں بولی۔ ’’میرا خیال ہے کہ تم بہت بدل گئے ہو، ورنہ میں ضرور تمہیں پہچان لیتی… اب تم نے نام بتایا تو مجھے یاد آگیا ہے۔ کیسے ہو تم… سب ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے نا؟‘‘
’’ہاں! میں ٹھیک ہوں… میں اسی امید پر یہاں آیا تھا کہ تم سے ملاقات کرسکوں گا۔ تمہیں دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی ہے… تم آج کل کہاں رہتی ہو؟‘‘
’’میں یہاں اپنے شوہر کے ساتھ ایک ہوٹل میں ٹھہری ہوئی ہوں، ہمارا آگے جانے کا بھی پروگرام ہے۔‘‘ کیٹ نے گفتگو ختم کرنے کے انداز میں کہا۔
’’اچھا… اچھا… اس ہوٹل میں…! مجھے بھی وہیں جانا ہے، تم مجھے وہاں تک لفٹ دے سکتی ہو پلیز! اس طرح راستے میں ہمیں بات کرنے کا موقع بھی مل جائے گا۔ تقریب میں سارا وقت تم لوگوں میں گھری رہیں، میں تم سے کوئی بات ہی نہیں کرسکا۔‘‘
’’اچھا…!‘‘ کیٹ نے تھوڑے تذبذب سے کہا۔ ’’چلو پھر جلدی سے آجائو۔‘‘
اس کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ وہ تقریباً بھاگ کر دوسرے دروازے تک آیا اور دروازہ کھول کر برابر والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔
کیٹ الجھن کا شکار تھی۔ رات اس کی اپنے شوہر مائیکل سے کسی بات پر تلخ کلامی ہوگئی تھی۔ اسے احساس تھا کہ وہ کچھ زیادہ ہی جذباتی ہوگئی تھی۔ صبح وہ ابھی سو رہی تھی کہ مائیکل چلا گیا تھا اور اسے بات کرنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ وہ اس وقت یہ سوچنا چاہتی تھی کہ مائیکل کے ساتھ ہونے والی اس تلخی کا ازالہ کس طرح کیا جائے، مگر اب یہ شخص خواہ مخواہ ہی اس کے ساتھ بیٹھ گیا تھا حالانکہ وہ اسے اچھی طرح جانتی بھی نہیں تھی۔ صرف اسے اتنا ہی یاد تھا کہ وہ بھی ان کا کلاس فیلو تھا، مگر کلاس کا کوئی نمایاں یا قابل لڑکا نہیں تھا۔
کچھ دیر دونوں کے درمیان خاموشی رہی۔ کیٹ کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس سے کیا بات کرے۔ وہ بھی شاید ایسی ہی کیفیت سے دوچار تھا مگر پھر پہل اسی نے کی۔ ’’کیٹ! کیا تم نے مجھے بالکل نہیں پہچانا؟‘‘
’’ہاں… شاید!‘‘ کیٹ نے غیر واضح جواب دیا۔
’’تم مجھے سالانہ کنسرٹ میں ملی تھیں تو تم نے بتایا تھا کہ تم شادی کررہی ہو اور دوسرے شہر جاکر رہو گی پھر تم مختلف شہروں میں رہتی رہی ہو… میں ہمیشہ تمہارے بارے میں باخبر رہتا ہوں۔ مجھے سب پتا ہے کہ تم کہاں کتنا عرصہ رہی ہو۔‘‘
’’اچھا…!‘‘ کیٹ کو حیرت ہوئی اور اسے کچھ عجیب سا بھی لگا۔
’’تمہیں مختلف شہروں میں رہنا اچھا لگتا ہے؟‘‘ اس نے باتوں باتوں میں اپنا ہاتھ کیٹ کے گھٹنے پر رکھ دیا۔
’’اے مسٹر…! خبردار یہ میرا گھٹنا ہے۔‘‘ کیٹ نے بظاہر بے ضرر لہجے میں کہا لیکن اسے اس کی یہ بے تکلفی پسند نہیں آئی تھی۔
’’مجھے معلوم ہے کہ تمہیں مختلف شہروں میں رہنا پسند نہیں۔‘‘ وہ بولا اور اس نے ہاتھ ہٹا لیا۔
کیٹ نے ایک نگاہ اس پر ڈالی۔ اس نے بڑے فریم کا سیاہ چشمہ لگا رکھا تھا جس سے اس کا آدھا چہرہ چھپ گیا تھا۔ اس کے ہونٹ بھنچے ہوئے تھے۔
سامنے ہی ہوٹل کے بورڈ نظر آنے لگے تھے۔ ’’دیکھو گاڑی کو آخر تک لے جائو۔ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ مجھے کہاں اترنا ہے۔‘‘ اس نے پھر اس کے گھٹنے پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔ اس بار اس کی گرفت سخت تھی۔
اچانک کیٹ کو احساس ہوا کہ اس کے ہاتھ میں کوئی ایسی چیز ہے جو اس کے گھٹنے میں چبھ رہی ہے۔ اس نے آنکھ کے گوشے سے اس طرف دیکھا اور دھک سے رہ گئی۔ ڈونے کے ہاتھ میں پستول تھا۔ وہ مدھم لہجے میں کہہ رہا تھا۔ ’’میں اس کو استعمال بھی کرسکتا ہوں۔‘‘
اسٹیئرنگ وہیل پر کیٹ کے ہاتھوں میں لرزش تھی۔ وہ پچھتا رہی تھی کہ اس نے اس شخص کو لفٹ کیوں دی تھی۔ جس طرح وہ کہہ رہا تھا، وہ اس طرف گاڑی موڑ تو رہی تھی لیکن اس کا ذہن بڑی تیزی سے سوچ رہا تھا کہ اسے کیا کرنا چاہئے۔ کیا وہ گاڑی کو کہیں ٹکرا دے یا شیشہ اتار کر شور مچا دے۔
’’کیٹ…! کوئی ایسی ویسی حرکت نہ کرنا۔ میرے پستول میں چھ گولیاں ہیں، تمہارے لئے ایک کافی ہوگی، میں باقی گولیاں ضائع نہیں کروں گا۔ وہ سامنے جو وین کھڑی ہے، گاڑی اس کے برابر پارک کردو۔‘‘
کیٹ کو مجبوراً اس کی بات پر عمل کرنا پڑا۔ وہ ساتھ ساتھ ہدایات دے رہا تھا۔ ’’اب دروازہ کھول کر باہر نکلو… تم میرے نشانے پر ہو… خبردار چیخنا مت!‘‘
کیٹ باہر نکلی، وہ اس کے بازو پر ہاتھ رکھے ہوئے باہر نکلا۔ اس نے گاڑی کی چابی نکال کر پھینک دی پھر اس نے تیزی کے ساتھ کیٹ کو آگے دھکیلا اور ساتھ کھڑی ہوئی سلیٹی رنگ کی وین کا دروازہ کھولا۔ ایک ہی ہاتھ سے اس نے کیٹ کو اٹھا کر وین میں ڈال دیا اور فوراً ہی اس کے پیچھے اندر آگیا۔ وین کا دروازہ بند ہوگیا۔
’’ڈونے…! تم یہ کیا کررہے ہو؟ ہم کلاس فیلو ہیں، دوست ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ بات…!‘‘
لفظ اس کے منہ میں ہی رہے۔ اس نے ایک ہاتھ سے اسے پچھلی سیٹ پر دھکیل دیا۔ اس نے کیٹ کی کلائیوں میں ہتھکڑیاں ڈال دیں۔ کیٹ نے مزاحمت کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے ایک رومال اس کے چہرے پر رکھ دیا۔ وہ بے سدھ سی ہوگئی۔ اسے کچھ پتا نہیں چل رہا تھا کہ وہ کہاں ہے، اس کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔
٭…٭…٭
مائیکل واپس ہوٹل آیا تو اس کے ذہن میں بھی کیٹ کے ساتھ ہونے والی بدمزگی تھی۔ وہ ٹھیک کہتی تھی کہ انہیں خانہ بدوشوں کی طرح شہر شہر نہیں پھرنا چاہئے تھا۔ انہیں کسی ایک شہر میں اپنا گھر بنانا چاہئے جس کے آنگن میں ان کے پیارے پیارے بچے کھیلیں۔ مائیکل نے اپنی کمپنی سے بات کی تھی۔ انہوں نے یقین دلایا تھا کہ وہ اگلے سال اسے ہیڈ آفس میں ایک مستقل سیٹ دے دیں گے تاکہ وہ ایک ہی شہر میں رہ سکے۔
وہ کیٹ کو یہ خوشخبری سنا کر منا لینا چاہتا تھا لیکن جب وہ اپنے کمرے میں داخل ہوا تو اسے یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ کیٹ ابھی تک نہیں لوٹی تھی۔ کمرے میں خاموشی پھیلی ہوئی تھی لیکن کیٹ کے وجود کا احساس ہوتا تھا۔ وہ ہوٹل کے کمرے میں بھی ایک گھریلو پن پیدا کردیتی تھی۔ گلدان میں تازہ پھول سجے تھے۔ اس کے نزدیک چھوٹے سے سنہری فریم میں ان کی شادی کی تصویر تھی۔
بیڈ کے ساتھ رکھی ہوئی میز پر وہ کتابیں رکھی تھیں، جو کیٹ پڑھنے کے لئے ہمراہ لے آئی تھی۔ ڈریسنگ ٹیبل پر تمام سامان ترتیب سے رکھا تھا اور الماری میں لباس ہینگروں پر لٹکے ہوئے تھے۔ اسے کیٹ کی یہ صفائی ستھرائی اور ترتیب ہمیشہ ہی بہت پسند تھی۔ جب سے ان کی شادی ہوئی تھی، وہ ہوٹلوں میں رہتے آئے تھے، جنہیں کیٹ اپنے سگھڑ پن سے گھر میں ڈھال دیتی تھی۔
مائیکل یہی سوچ رہا تھا کہ کیٹ کے آنے تک وہ نہا دھو کر تیار ہوجائے تاکہ وہ اسے ایک بہت اچھے ڈنر پر یہ خوشخبری سنا سکے۔ اس کے ساتھ مل کر یہ سوچے کہ انہیں کہاں گھر بنانا چاہئے۔
ساڑھے چھ بج چکے تھے۔ اس نے اخبار بھی دیکھ لیا تھا۔ ٹی وی کھلا تھا لیکن اس کی توجہ اس طرف نہیں تھی۔ وہ کیٹ کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا، پھر آٹھ بج گئے، ساڑھے آٹھ ہوئے۔ اب اسے غصہ آنے لگا۔ یقیناً کیٹ ابھی تک اس سے ناراض تھی۔ اس نے ڈنر باہر کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا، مگر اسے اطلاع تو کرنی چاہئے تھی۔ اس کا موبائل بھی بند تھا۔ جب نو بجے تو مائیکل نے کیٹ کی ایڈریس بک کو کھنگالا اور اس کی ایک کلاس فیلو کو فون کیا جس کے بارے میں اسے معلوم تھا کہ وہ تقریب میں ضرور جائے گی۔ اس نے بتایا کہ کیٹ تو پانچ بجے ہی چلی گئی تھی۔
اب مائیکل فکرمند ہوا۔ اسے معلوم تھا کہ کیٹ کی عادت لمبی ناراضی پالنے کی نہیں تھی۔ وہ جلد صلح پر آمادہ ہوجاتی تھی لیکن آج نہ جانے کیا بات تھی کہ وہ واپس نہیں آئی تھی، نہ ہی اس نے اطلاع ہی دی تھی۔ کہیں اس کے ساتھ کوئی حادثہ نہ ہوگیا ہو۔ یہ خیال آتے ہی اس کی پریشانی میں مزید اضافہ ہوگیا۔ اس نے پولیس کو فون ملایا۔
٭…٭…٭
کیٹ ہوشیار ہوئی تو ہتھکڑیاں اس کی کلائیوں میں چبھ رہی تھیں، بیڑیاں ٹخنوں کے ساتھ رگڑ کھا رہی تھیں، اس کے منہ میں بھی کچھ ٹھنسا ہوا تھا، جس کی وجہ سے اسے سانس لینا دشوار ہورہا تھا۔ اس نے سر جھٹک کر خود کو صورتحال سے روشناس کرایا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ شخص اس کے ساتھ اس طرح کا سلوک کیوں کررہا تھا۔ آخر وہ چاہتا کیا تھا۔
وین کسی نامعلوم منزل کی طرف جارہی تھی۔ ڈرائیور کی سیٹ اسکرین کے پیچھے تھی، اس لئے وہ اس کو دیکھ نہیں سکتی تھی۔ اس نے وین پر ایک نگاہ دوڑائی تو اسے لگا کہ وہ غیر معمولی کشادہ ہے۔ اس میں چھوٹا سا ایک کاٹ تھا، جس پر وہ دراز تھی۔ وین میں تاریکی تھی۔ وہ اس میں ایک میز بھی دیکھ رہی تھی۔ جب کوئی گاڑی قریب سے گزرتی تھی تو وہ میز پر پڑے ہوئے مختلف اوزار بھی دیکھ سکتی تھی۔ وہ سوچنے لگی کہ ڈونے ان اوزاروں کے ساتھ کیا کرتا ہے۔
سڑک ناہموار تھی جس سے وین کو جھٹکے لگ رہے تھے۔ وہ پریشانی سے ایک ایک لمحہ گنتی رہی کہ یہ شخص کب اس خوفناک سفر کو تمام کرتا ہے۔
پھر اس نے ڈرائیونگ سیٹ کے درمیان لگی ہوئی اسکرین ایک طرف ہٹائی اور بولا۔ ’’لو ہم گھر پہنچ گئے۔‘‘
وہ دروازہ کھول کر باہر نکلا اور اس نے پچھلا دروازہ کھولا۔ کیٹ گھبرا کر ایک طرف سمٹ گئی۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر اس کے منہ میں ٹھنسا ہوا کپڑا نکالا، جس نے اس کی سانس روک رکھی تھی۔
اسے شدید کھانسی کا دورہ پڑ گیا۔ ڈونے نے آگے بڑھ کر اسے اٹھنے میں مدد دی، اس کو سہارا دے کر نیچے اتارا۔ کیٹ کی ٹانگیں سن ہوچکی تھیں، اس سے کھڑا نہیں ہوا جارہا تھا۔ اس نے پوری آنکھیں کھول کر چاروں طرف نگاہ دوڑائی۔
وہ ایک ویران سا فارم ہائوس تھا جس کے چاروں
طرف کوئی آبادی نہیں تھی، کیونکہ اسے ایک بھی روشنی یا کوئی کھڑکی نظر نہیں آرہی تھی۔ ایک گندے سے پورچ میں ایک زنگ آلود جھولا لگا ہوا تھا۔ جگہ جگہ گھاس بڑھی ہوئی تھی اور خودرو بیلیں درختوں پر چڑھی ہوئی تھیں۔ گھنے درختوں کی وجہ سے سورج کی روشنی کم ہوگئی تھی۔ چاروں طرف ایک پراسرار سی ملگجی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔
ڈونے اس کے ساتھ چلتا ہوا رہائش گاہ تک آگیا۔ اس نے دروازہ کھولا اور کیٹ کو اندر لے آیا۔ اس نے بٹن دبا کر چھت پر لگی ہوئی لائٹ جلائی۔
اچانک روشنی ہوجانے سے کیٹ کی آنکھیں بند ہوگئیں۔ اس نے پلکیں جھپکا کر دیکھنے کی کوشش کی کہ اس کے اردگرد کیا ہے۔
وہ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جس کے ایک کونے میں پیانو رکھا تھا، جس کا روغن جگہ جگہ سے اکھڑا ہوا تھا۔ وہاں ایک کائوچ اور کرسی بھی موجود تھی جو کثرت استعمال سے بدرنگ اور بوسیدہ ہوچکی تھیں۔ فرش کے درمیان میں پڑے ہوئے قالین کی حالت بھی زیادہ بہتر نہیں تھی۔ ایک کونے میں کتابوں کا شیلف رکھا تھا، جس میں اسکول نوٹ بکس بے ترتیبی سے پڑی تھیں۔
’’دیکھو…!‘‘ ڈونے نے کہا اور کیٹ کو دوسری دیوار کی طرف گھما دیا۔ وہ یہ دیکھ کر دنگ رہ گئی کہ پوری دیوار پر اس کی وہ تصویر لگی تھی جو کالج سے رخصت ہونے پر لی گئی تھی۔ چھت سے ایک گندا سا پوسٹر لٹکا ہوا تھا جس پر بڑے بڑے بھدے حروف میں لکھا ہوا تھا۔ ’’گھر آنا مبارک ہو پیاری کیٹ…!‘‘
٭…٭…٭
سراغ رساں جمی ہوٹل پہنچا تو مائیکل اس کا انتظار کررہا تھا۔ وہ اس پر برہم تھا کہ اس نے آنے میں اتنی دیر کیوں کردی تھی۔ وہ بے حد پریشان تھا کہ کیٹ ابھی تک گھر کیوں نہیں آئی تھی۔
سراغ رساں نے اطمینان سے ایک کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ ’’دیکھو تمہاری بیوی کو غائب ہوئے ابھی چوبیس گھنٹے نہیں ہوئے، تمہارا اس کے ساتھ کوئی جھگڑا تو نہیں ہوا تھا؟‘‘
’’ہاں! ہمارے درمیان کچھ تلخی تو ہوئی تھی لیکن اتنی بھی نہیں کہ وہ ناراض ہوکر گھر ہی نہ آئے۔‘‘ مائیکل نے کہا۔
’’میرا خیال ہے کہ وہ اپنا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لئے کہیں ڈنر کرنے کے لئے رک گئی ہوگی۔ اگر وہ آئندہ چوبیس گھنٹے تک واپس نہ آئی تو ہم اس کی باقاعدہ رپورٹ بنائیں گے… آپ ہمیں اپنی بیوی کی ایک تصویر دے دیں۔‘‘ جمی نے کہا۔
مائیکل نے فریم سے تصویر نکال کر اس کو دے دی اور وہ رخصت ہوگیا لیکن کچھ ہی دیر بعد وہ پھر اس کے دروازے پر دستک دے رہا تھا۔ مائیکل دروازہ کھول کر بولا۔ ’’مسٹر جمی! خیریت ہے؟‘‘
’’آپ کی بیوی کی گاڑی پارکنگ کے آخری سرے پر کھڑی ہے اور چابیاں باہر زمین پر گری ہوئی ہیں۔‘‘ جمی نے جیسے دھماکا کیا۔
مائیکل ابھی اس دھچکے سے سنبھلا نہیں تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔ جمی بھی اندر آگیا۔
’’ہیلو مائیکل! مجھے افسوس ہے کہ مجھے یہ کرنا پڑا… مجھے سوچنے کے لئے وقت چاہئے۔ میں نے کار، پارکنگ میں چھوڑ دی ہے۔ بس ہمارا ساتھ یہیں تک تھا۔ اب طلاق ہی ہمارے مسئلے کا حل ہے۔‘‘ کیٹ نے بڑی تیزی سے کہا۔
مائیکل کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ وہ پریشانی سے بولا۔ ’’کیٹ…! تم یہ فیصلہ جذبات میں آکر کررہی ہو… دیکھو میری بات سنو۔‘‘
لیکن فون بند ہوچکا تھا۔ جمی نے تسلی کے انداز میں کہا۔ ’’گھبرائو نہیں یار…! یہ عورتیں ایسے ہی الٹے سیدھے فیصلے کرتی ہیں، بغیر سوچے سمجھے…! میری دوسری شادی بھی بالکل اسی انداز میں ٹوٹی تھی۔‘‘
’’لیکن اس کی تمام چیزیں یہاں ہیں۔ کپڑے، میک اپ کا سامان…! وہ بھلا اس کپڑوں میں جو وہ پہنے ہوئے تھی، سب کچھ کس طرح چھوڑ سکتی ہے۔‘‘
’’گھریلو جھگڑوں میں ایسا ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں مسٹر مائیکل! ہم اس واقعے کو بطور گھریلو جھگڑے کے ہی درج کریں گے۔‘‘ وہ اس سے ہاتھ ملا کر چلا گیا۔
مائیکل فون کے قریب بیٹھا رہا۔ اس امید پر کہ کیٹ پھر فون کرے گی۔ شاید وہ اپنا ارادہ بدل لے گی… وہ پھر رابطہ کرے گی، لیکن رات ہوگئی اور کیٹ کی طرف سے کوئی فون نہیں آیا۔
آخر مایوس ہوکر وہ اٹھ گیا اور کپڑے تبدیل کرکے بستر پر گر پڑا۔ اس نے ٹیلیفون کو قریب رکھ لیا تھا کہ پہلی گھنٹی پر ہی ریسیور اٹھا لے۔
٭…٭…٭
ڈونے نے ریسیور کیٹ کے ہاتھ سے چھین کر رابطہ منقطع کردیا۔ کیٹ کا جی چاہ رہا تھا چیخ چیخ کر روئے۔ مائیکل کی آواز نے اسے بہت جذباتی کردیا تھا لیکن ڈونے کو اس کی کوئی پروا نہیں تھی۔
وہ مسکرا کر کہہ رہا تھا۔ ’’بہت خوب! تم نے اس احمق شخص کو بالکل ٹھیک جواب دیا۔‘‘
اس نے فون کروانے سے پہلے کیٹ کو دھمکی دی تھی کہ اگر وہ فون نہیں کرے گی تو وہ مائیکل کو شوٹ کردے گا۔
’’تم جانتی ہو کیٹ! جب سے تم لوگ ہوٹل میں آکر ٹھہرے تھے، میں دو مرتبہ تمہارے کمرے میں گیا ہوں… میں اس ہوٹل میں کام کرنے جاتا رہتا ہوں۔ کمرے کی چابی بنوا لینا کچھ اتنا زیادہ مشکل نہیں۔‘‘ ڈونے نے بتایا۔
کیٹ حیرت اور پریشانی سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ وہ اسے بیڈ روم میں لے گیا۔ جس میں فضول سے فرنیچر کے ساتھ ایک ڈبل بیڈ تھا جس پر شوخ پھولوں کی بیڈ شیٹ بچھی ہوئی تھی۔
وہ بڑے فخر سے بولا۔ ’’میں نے سیلز گرل سے پوچھا تھا کہ خواتین کیسی بیڈ شیٹ پسند کرتی ہیں تو اس نے مجھے یہ لینے کا مشورہ دیا۔‘‘
پھر اس نے ڈریسنگ ٹیبل کی طرف اشارہ کیا جہاں کنگھی، برش اور دوسری چیزیں پڑی ہوئی تھیں۔ ’’یہ دیکھو یہ بالکل ویسی ہی ہیں جیسی تمہاری ہوٹل میں تھیں۔‘‘ پھر اس نے الماری کھولی۔ ’’یہ دیکھو تمہارے نئے لباس… ان کا سائز وہی ہے جو تم نے ہوٹل میں رکھے ہوئے تھے۔ میں نے انہیں بڑے شوق سے خریدا ہے، امید ہے تمہیں یہ سب بہت پسند آئیں گے اور نیچے کے خانے میں دیکھو… میں تمہارے لئے جوتے بھی لایا ہوں، یہ بھی تمہارا سائز ہے۔ اس میں ہر طرح کے فیشن ایبل جوتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ میری بیوی بہترین کپڑے پہنے اور بہت خوبصورت لگے۔‘‘
پریشان کیٹ کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ ’’ڈونے…! میں تمہاری بیوی نہیں بن سکتی۔‘‘
’’مگر تمہیں بننا ہوگا۔ میں جانتا ہوں کہ تم بھی مجھ سے شادی کرنا چاہتی تھیں۔ جس طرح میں تم سے شادی کرنے کا خواہاں تھا… مائیکل پتا نہیں کیوں راستے میں آگیا تھا۔‘‘
کیٹ نے سر جھٹک کر اِدھر اُدھر دیکھا کہ اس پاگل شخص سے کس طرح جان چھڑائے کہ اچانک اس کی نگاہ اس زنجیر پر پڑی جو ایک کونے میں لپیٹ کر رکھی ہوئی تھی۔ اس کا ایک سرا بیڈ کے قریب تھا اور دوسرا سرا دھات کی ایک پلیٹ کے ساتھ جڑا ہوا تھا جو دیوار میں لگی ہوئی تھی۔ اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔
ڈونے بھی اس کی نگاہ کے تعاقب میں دیکھ رہا تھا۔ وہ بے حد مستعد تھا اور ہر بات کا خیال رکھ رہا تھا۔ وہ بہت نرمی سے بولا۔ ’’تم پریشان نہ ہو کیٹ…! میں نے ہر کمرے میں یہ انتظام کررکھا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ تم مجھے چھوڑ کر کہیں چلی جائو پھر دن کو مجھے کام پر بھی تو جانا ہوگا، تب لائونج میں تم بہت آرام سے رہوگی۔ تمہیں کسی قسم کی کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔‘‘
کیٹ کے ہونٹوں سے ایک لفظ نہیں نکل رہا تھا۔ نہ ہی کچھ سمجھ میں آرہا تھا کہ اس تمام صورتحال کا مقابلہ کس طرح سے کیا جاسکتا تھا۔
وہ اسے لائونج میں لے آیا جہاں کھانے کی میز بھی رکھی ہوئی تھی۔ اس نے بہت بدمزہ سے برگر خود بنائے تھے اور بڑے اشتیاق سے وہ کیٹ کو پیش کررہا تھا اور باربار کھانے پر اصرار کررہا تھا۔
کیٹ کی بھوک مرچکی تھی لیکن مجبوراً اس نے کچھ زہرمار کیا اور کافی پینے لگی۔ ڈونے نے اپنا کھانا ختم کرلیا اور کیٹ سے بولا۔ ’’تم انتظار کرو، میں ابھی آتا ہوں۔‘‘
تھوڑی ہی دیر میں وہ واپس آگیا۔ کیٹ نے دیکھا کہ وہ داڑھی صاف کرچکا تھا۔ وہ اس کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔ ’’میں نے یہ داڑھی اس لئے بڑھائی تھی کہ اسکول کے لوگ مجھے پہچان نہ سکیں۔ اب دیکھو میں کتنا مختلف لگ رہا ہوں۔‘‘
کیٹ نے اپنی کافی ختم کرلی تو وہ بولا۔ ’’تم تھکی تھکی لگ رہی ہو… میں تمہیں ابھی بیڈ روم میں چھوڑ آئوں گا لیکن اس سے پہلے میں تمہیں اپنی پہلی کتاب کا ایک باب سنائوں گا جو میں نے تمہارے بارے میں لکھی ہے۔‘‘ وہ اٹھ کر شیلف میں سے ایک کتاب اٹھا لایا۔
کیٹ بے یقینی کے ساتھ اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ وہ اتنی الجھ گئی تھی کہ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ سب واقعی حقیقت میں ہورہا ہے یا وہ کوئی ڈرائونا خواب دیکھ رہی ہے۔
جب وہ اس کے سامنے کرسی پر آکر بیٹھ گیا تو اسے حقیقت کی تلخی کا اندازہ ہوا۔ کمرے میں خنکی تھی لیکن ڈونے پسینے میں شرابور معلوم ہورہا تھا۔ اس کی آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے تھے، چہرے پر کچھ عجیب سے تاثرات!
اس کی آنکھیں بہت ہی نیلی نظر آرہی تھیں، گویا اس نے رنگین لینسز لگا رکھے ہوں، حالانکہ کالج کے زمانے میں اس کی آنکھیں بھوری تھیں۔ اس نے قدرے شرمیلے انداز میں کہا۔ ’’مجھے ایسے لگ رہا ہے جیسے کالج کا زمانہ لوٹ آیا ہے۔‘‘
کیٹ کچھ نہیں کہہ سکی۔ حالات کی تلخی نے اسے ساکت کررکھا ہے۔
ڈونے اپنی کتاب کا پہلا باب پڑھنے لگا۔
’’کل رات میں کیٹ کے ساتھ کلب گیا تھا۔ ہم نے وہاں خوب لطف اٹھایا، موسیقی سنی، ڈانس کیا اور جب کلب خالی ہونے لگا تو ہم لوٹے لیکن جب میں کیٹ کو اس کے گھر کے سامنے اتارنے لگا تو اس نے دونوں ہاتھوں سے چہرہ ڈھانپ لیا اور رونے لگی۔ اس نے مجھے بتایا کہ اس کے گھر والے اسے ایک ایسے شخص کے ساتھ شادی کرنے پر مجبور کررہے ہیں جسے وہ بالکل پسند نہیں کرتی۔ وہ میرے علاوہ کسی اور سے شادی کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی۔ جب میں اس کے قابل ہوجائوں گا کہ اس کی دیکھ بھال کرسکوں، وہ تب تک میرا انتظار کرے گی۔ میری خوبصورت کیٹ…! میں تمہیں کبھی مایوس نہیں کروں گا۔ میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں ہی تم سے شادی کروں گا کوئی اور نہیں!‘‘
٭…٭…٭
اس طرح کی کچھ تصوراتی کہانیاں سنانے کے بعد وہ اٹھا اور کیٹ سے بولا۔ ’’تم واش روم میں جاکر نائٹ سوٹ پہن لو، برش وغیرہ کرلو۔‘‘ اس نے کپڑے اس کو تھماتے ہوئے کہا۔
وہ ایک چھوٹا سا واش روم تھا جو کچھ زیادہ صاف نہیں تھا۔ کیٹ لباس تبدیل کرتے ہوئے سوچتی رہی کہ آگے اسے کیا کرنا ہوگا۔ یہ سوچ کر اسے خوف آرہا تھا کہ وہ نیم پاگل شخص اس سے کئی گنا زیادہ طاقتور تھا۔ وہ اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی تھی۔ اسی لئے وہ سوچ رہی تھی کہ اسے کونسا طریقہ اختیار کرنا ہوگا۔
وہ باہر نکلی تو


نے دزدیدہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا کہ وہ کس موڈ میں ہے۔
اس نے بیڈ روم کا دروازہ کھولا۔ ’’کیٹ…! آئو آرام کرلو۔‘‘
کیٹ نے خود کو سنبھالا۔ اس نے طے کرلیا تھا کہ وہ اس کے سامنے کسی کمزوری کا مظاہرہ نہیں کرے گی۔ وہ اعتماد سے قدم رکھتی آگے بڑھی اور بیڈ پر بیٹھتے ہوئے بولی۔ ’’ڈونے…! میں بہت تھک گئی ہوں، میں سونا چاہتی ہوں۔‘‘
’’تم گھبرائو نہیں میں تمہیں پریشان نہیں کروں گا… یہ میرا وعدہ ہے جب تک ہماری شادی نہیں ہوجاتی، ہم علیحدہ کمروں میں رہیں گے۔‘‘
کیٹ نے اطمینان کا سانس لیا۔ وہ ابھی تک وہیں کھڑا تھا، جیسے اس کے لیٹنے کا انتظار کررہا ہو۔
کیٹ نے تکیئے پر سر رکھا۔ ڈونے نے اسے چادر سے ڈھانپ دیا اور بولا۔ ’’مجھے افسوس ہے کیٹ! میں کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتا۔ میں نہیں چاہتا کہ جب میں سو جائوں تو تم مجھے چھوڑ کر چلی جائو، اس لئے مجھے کچھ انتظام کرنا ہی پڑے گا۔‘‘ اس کے ساتھ ہی اس نے کیٹ کے پائوں میں زنجیر ڈال دی۔
اس کی وہ رات جاگتے ہی گزری، دعائیں مانگتے، یہاں سے نکلنے کے منصوبے بناتے…! مائیکل کے بارے میں سوچتے ہوئے کہ وہ اس کو تلاش کررہا ہوگا۔ اس کو کیسے پتا چلے گا کہ ایک پاگل شخص نے اسے قید کررکھا ہے۔ اس پریشانی اور مصیبت میں وہ اس قدر تھک گئی کہ بالآخر رات کے آخری پہر اس کی آنکھ لگ گئی۔
صبح وہ نیند سے جاگی۔ اس نے آنکھیں کھولیں تو اسے ڈونے بیڈ کے قریب کھڑا نظر آیا۔ اس نے گھبرا کر آنکھیں پوری طرح سے کھول دیں اور چادر سے خود کو ڈھانپ لیا۔
’’میں دیکھ رہا تھا کہ تم آرام سے سو رہی ہو… تم سوئی ہوئی اتنی خوبصورت لگ رہی تھیں کہ میں یہیں کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔ کیٹ! بس تم اس شخص سے اپنی جان چھڑائو جو تمہارا شوہر بنا ہوا ہے تاکہ پھر ہم شادی کریں۔‘‘
کیٹ نے بیزاری سے اس کی بات سنی۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ اسے کہے کہ وہ کیا بکواس کررہا ہے لیکن یہ اسے اشتعال دلانے والی بات تھی۔ اسی لئے وہ خاموش رہی۔
اس نے زنجیر کھول دی اور بولا۔ ’’تم اپنے ضروری کام کرکے میرے لئے ناشتہ بنا دو۔ تمہیں پتا تو ہوگا کہ تمہارا مستقبل کا شوہر اچھا کھانے کا شوقین ہے۔‘‘
ناشتے کے بعد اس نے لائونج کی تمام کھڑکیاں بند کردیں۔ اس کے پائوں میں ایک مرتبہ پھر زنجیر ڈال دی اور بولا۔ ’’مجھے افسوس ہے کہ مجھے کھڑکیاں بند کرنی پڑ رہی ہیں، لیکن میں یہ خطرہ مول نہیں لے سکتا کہ کوئی شخص قریب سے گزرتے ہوئے اندر دیکھ لے۔ میں نے زنجیر کو ناپ لیا ہے، تم بڑے آرام سے واش روم استعمال کرسکتی ہو۔ میز پر کچھ سینڈوچز اور جوس موجود ہے۔ تم پیانو پر پریکٹس بھی کرسکتی ہو اور اگر کچھ پڑھنا چاہو تو شیلف میں میری کتابیں رکھی ہوئی ہیں۔‘‘ اس نے مزید کہا۔ ’’میں نے فون کا سسٹم ایسا کردیا ہے کہ تم کوئی کال نہیں کرسکتیں اس لئے یہ کوشش نہ کرنا، تمہیں مایوسی ہوگی۔ میں مختلف جگہوں پر مرمت کا کام کرتا ہوں۔ میری وین ہی میری ورکشاپ ہے۔ آج کا دن کافی مصروف ہے، میں چھ سات بجے تک واپس آسکوں گا۔‘‘ وہ اس کی جانب جھکا اور اس کی ٹھوڑی چھو کر بولا۔ ’’مجھے یاد کرنا کیٹ…! جس طرح میں تمہیں یاد کرتا ہوں ہر لمحہ…!‘‘
وہ رخصت ہوگیا تو کیٹ نے اطمینان کا سانس لیا کہ وہ کم ازکم اس تمام صورتحال پر سکون سے غور تو کرسکے گی۔ اس کی موجودگی تو جیسے اس کے اعصاب پر سوار ہوگئی تھی، اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں جیسے سلب ہوکر رہ گئی تھیں۔
کھڑکیوں کے شٹر بند ہونے کی وجہ سے کمرے میں نیم تاریکی تھی۔ چھت پر لگے ہوئے مدھم بلب کی وجہ سے کمرے میں سائے لمبے سے ہورہے تھے۔ کیٹ نے اٹھ کر زنجیر کی لمبائی کا اندازہ کیا اور اس جگہ کو دیکھا جہاں زنجیر ایک دھاتی پلیٹ کے ساتھ لگی ہوئی تھی، جس میں چار بڑے پیچ تھے۔ کیٹ سوچنے لگی کہ اگر وہ اس پلیٹ کو اکھاڑنے میں کامیاب ہوجائے تو وہ باہر نکل سکتی ہے مگر یہ علاقہ شہر سے دور تھا۔
وہ اس زنجیر کے ساتھ کتنی دور تک جاسکتی تھی، اسے کچھ اندازہ نہیں تھا لیکن کسی ٹرک یا گاڑی کے راستے میں ملنے کا امکان تو ہوسکتا تھا جو اس کی مدد کرسکتے تھے۔ اسے ہمت نہیں ہارنی چاہئے، یہاں سے نکلنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
پھر اس نے پورے کمرے کا جائزہ لیا۔ ایک چیز جو اس کے کام آسکتی تھی وہ چاقو تھا لیکن یہ دیکھ کر وہ بہت مایوس ہوئی کہ وہ چاقو پلاسٹک کا تھا۔ وہ جتنی بھی کوشش کرتی، وہ دھاتی پلیٹ کے پیچوں کو ہلا بھی نہیں سکتی تھی۔
اس کی آنکھیں آنسوئوں سے بھر گئیں۔ وہ ہونٹوں ہی ہونٹوں میں بدبدانے لگی۔ ’’پلیز مائیکل…! میری خبر لو… مجھے اس جہنم سے نکالو… ورنہ یہ پاگل مجھے بھی پاگل کردے گا۔‘‘
اسے یہ خیال بھی آیا کہ شاید کوئی شخص یہاں آجائے۔ شاید پوسٹ مین آکر گھنٹی بجائے مگر یہ ممکن نہیں تھا۔ یہاں جو اس نے ڈونے کے نام آئے ہوئے خطوط دیکھے تھے، وہ کسی پوسٹ بکس نمبر پر بھیجے گئے تھے۔ گویا ڈونے کی ڈاک یہاں نہیں آتی تھی، اس لئے پوسٹ مین کے یہاں آنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔
وہ مایوسی کے عالم میں کتنی ہی دیر یونہی بیٹھی رہی، پھر اس کی نگاہ شیلف پر پڑی، جہاں سیاہ اور سفید نوٹ بکس کی پوری ایک قطار رکھی تھی۔ اس نے ان میں سے کچھ کتابیں نکالیں اور صوفے پر بیٹھ کر ان کی ورق گردانی کرنے لگی۔
وہ سب کتابیں ایک ہی جیسی تھیں۔ اس میں زیادہ تر تصوراتی کہانیاں لکھی ہوئی تھیں۔ کچھ میں اس نے مستقبل کے منصوبے بنائے ہوئے تھے جیسے ایک ڈائری میں لکھا ہوا تھا۔
’’جب کیٹ اور میں ایک ہوجائیں گے تو ہم جنگل میں کیمپ لگانے جائیں گے۔ وہاں ہم اسی طرح ایک ٹینٹ میں رہیں گے جس طرح ہمارے باپ، دادا ماضی میں رہا کرتے تھے۔ ہم شکار کریں گے، لکڑیاں اکٹھی کرکے کھانا پکائیں گے، مل کر کھائیں گے۔ رات کو تاروں بھرے آسمان تلے سوئیں گے تو کیٹ جنگلی جانوروں کی آوازیں سن کر خوف زدہ ہوکر مجھ سے لپٹ جائے گی۔‘‘
ایک جگہ اس نے لکھا تھا۔ ’’میں اور کیٹ آج شاپنگ کے لئے گئے تھے۔ میں نے اسے ایک بے حد خوبصورت لباس لے کر دیا۔ اس نے اس کے ساتھ پہننے کے لئے سینڈل کی فرمائش کی تو میں نے اسے وہ بھی خرید دیئے، حالانکہ وہ کافی مہنگے تھے۔ کیٹ مجھ سے بہت پیار کرتی ہے۔ جب ہم چلتے ہیں تو وہ ہمیشہ میرا ہاتھ پکڑ لیتی ہے۔ ہم ایک ساتھ چلتے ہیں، ہم اکھٹے جئیں گے، اکھٹے مریں گے۔ ہم دو محبت کرنے والوں کی طرح ہمیشہ جنت میں رہیں گے۔‘‘
ایک کے بعد ایک… کیٹ وہ کتابیں پڑھتی جارہی تھی، حالانکہ اس فضولیات کو پڑھنے میں اس کے سر میں درد شروع ہوگیا تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ جیسے جیسے ان کتابوں کو پڑھتی تھی، اسے ڈونے کے پاگل پن کی گہرائی کا اندازہ ہورہا تھا جو اسے پریشان اور خوف زدہ کررہا تھا۔
وہ اس پر بھی غور کررہی تھی کہ اس پاگل شخص کے چنگل سے کیسے نکلے۔ وہ خود تو اسے آسانی سے جانے نہیں دے گا مگر اسے کوئی حل، کوئی تجویز نہیں سوجھ رہی تھی کہ اسے کیا کرنا ہوگا۔ وقت لمحہ لمحہ کرکے گزر رہا تھا۔
دروازہ کھلا اور ڈونے واپس آگیا۔ اس کا موڈ خراب تھا اور وہ غصے میں معلوم ہوتا تھا لیکن وہ آتے ہی بولا۔ ’’کیٹ…! آج میں نے بہت کام کیا، میں نے پورے دو ہزار ڈالر کما لئے ہیں۔ میں یہ سب کچھ تمہارے لئے کررہا ہوں۔ ہم شادی کے بعد پوری دنیا کا چکر لگائیں گے اور خوب مزہ کریں گے۔‘‘ پھر اس نے کچھ توقف کے بعد کہا۔ ’’کیٹ…! میں دن بھر تمہیں بہت یاد کرتا رہا لیکن جب میں ہوٹل پہنچا تو میرا موڈ بہت خراب ہوا… تمہارا وہ نام نہاد ظالم شوہر مائیکل ابھی تک ہوٹل میں ٹھہرا ہوا ہے۔ عجیب شخص ہے وہ جگہ جگہ لوگوں سے تمہارے بارے میں پوچھتا پھرتا ہے… اس نے تمہاری تصویریں بھی ہر جگہ تقسیم کردی ہیں۔‘‘
کیٹ کا دل دھڑک اٹھا۔ گویا مائیکل کو پتا چل گیا تھا کہ اس کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آچکا ہے، وہ اسے تلاش کررہا ہے۔ کاش! اسے کوئی بتا دے کہ وہ یہاں اس پاگل کی قید میں ہے۔ وہ کسی طرح یہاں آکر اسے لے جائے مگر اسے کون بتائے…؟
وہ بڑی شدت کے ساتھ اس کے پاس جانا چاہتی تھی۔ وہ جہاں بھی اسے رکھے، وہ اس کے ساتھ رہے گی، وہ کبھی اس سے نہیں لڑے گی۔
’’کیٹ…!‘‘ ڈونے کی آواز پر وہ اپنے خیالات سے چونکی اور اس نے سر جھٹک کر ڈونے کی طرف دیکھا۔
’’یہ سب تمہارا قصور ہے کیٹ…! تم نے فون پر اسے یقین نہیں دلایا کہ تم اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتیں… تمہیں اس سے طلاق چاہئے۔‘‘ وہ غصے سے اس کی طرف بڑھا۔
کیٹ گھبرا کر پیچھے ہٹی اور ہراساں نگاہوں سے اس کی طرف تکنے لگی۔ پیچھے ہٹنے سے اس کے پائوں کی زنجیر کھنچ گئی جس سے اس کی ٹانگ کی خراش میں سے خون رسنے لگا۔ ڈونے کی نگاہ اس پر پڑی تو وہ ٹھٹھک گیا۔
’’یہ کیا ہوگیا؟‘‘ اس نے پریشانی سے کہا۔ ’’اوہ کیٹ…! تمہیں اس سے کتنی تکلیف ہورہی ہوگی؟‘‘
وہ دوڑ کر واش روم میں گیا اور ایک تولیئے کا ٹکڑا گیلا کرکے لے آیا۔ اس کی ٹانگ پر وہ نرمی سے تھپتھپاتے ہوئے بولا۔ ’’اس سے تمہیں کافی فرق پڑے گا کیٹ…! میں تمہیں یہ زنجیریں تو نہیں پہنانا چاہتا لیکن مجھے یہ اس وقت تک رکھنی پڑیں گی جب تک تمہیں مجھ سے محبت نہیں ہوجاتی۔ جب تمہیں مجھ سے محبت ہوجائے گی تو تم مجھ سے ایک لمحہ بھی جدا رہنا پسند نہیں کرو گی۔‘‘ وہ خودکلامی کی سی کیفیت میں بولتا جارہا تھا۔
اور کیٹ کے دل میں ہول سے اٹھ رہے تھے۔
’’کیٹ! کیا تم یہ پسند کرو گی کہ ہم اپنے پہلے بچے کا نام ڈونے جونیئر رکھیں؟ مجھے یقین ہے کہ وہ لڑکا ہی ہوگا… اگر لڑکی ہوئی تو پھر تم اپنی پسند سے اس کا نام رکھنا۔‘‘
کیٹ ساکت سی اس کی طرف دیکھتی جارہی تھی۔
٭…٭…٭
ڈونے نے ایک مرتبہ پھر اسے مجبور کیا تھا کہ وہ مائیکل کو فون کرکے کہے کہ وہ اب اس سے محبت نہیں کرتی۔ وہ فون پر نمبر ملا کر بالکل اس کے سر پر کھڑا تھا۔ کیٹ کو مجبوراً کہنا پڑا۔ ’’مائیکل…! تم یہ کیا فضول حرکتیں کررہے ہو… میں تنگ آچکی ہوں تمہاری ان حماقتوں سے… آخر تم ہوٹل چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔ میری تصویریں جگہ جگہ بانٹ کر میری توہین نہ کرو… میں اپنی مرضی سے یہاں آئی ہوں۔ سمجھے تم…!‘‘
اس نے فون اس کے ہاتھ سے چھین کر رکھ دیا۔ کیٹ کی آنکھوں میں آنسو آگئے لیکن وہ انہیں پی گئی۔
اسے محسوس ہورہا تھا کہ ڈونے اندر ہی اندر کوئی منصوبہ بنا رہا تھا۔ اس کے چہرے پر عجیب تاثرات تھے۔ اس کی دیوانگی جیسے بڑھتی
جارہی تھی۔ اسی لئے کیٹ نے سوچا تھا کہ اسے اپنا رویہ تبدیل کرلینا چاہئے۔ شاید اس طرح وہ اس سے اپنی کوئی بات منوانے میں کامیاب ہوجائے۔
اس روز کیٹ نے رات کا کھانا خود بنایا۔ اس کے ساتھ مدد کراتے ہوئے ڈونے کا موڈ بہت اچھا ہوگیا تھا۔ کھانا کھانے کے بعد کیٹ نے کچھ دیر پیانو بجایا۔ وہ اس کے ساتھ مل کر گانا گاتا رہا۔ پھر کیٹ نے اس سے اس کے ماضی کے بارے میں مختلف سوال کئے۔ اس کے خاندان اور اس کی ماں کے بارے میں… وہ بہت دیر تک اپنی ماں کے بارے میں باتیں کرتا رہا۔
جب وہ سونے کے لئے اٹھے تو وہ اس کے پائوں میں زنجیر ڈالتے ہوئے بولا۔ ’’کیٹ…! ہم اسی طرح اپنی شادی کے لئے بہت سے پروگرام بنائیں گے۔‘‘
کیٹ چونکی لیکن اس پر کچھ ظاہر کئے بغیر بولی۔ ’’لیکن سب سے پہلے تو ہمیں شادی کے سفید جوڑے کی ضرورت ہوگی۔‘‘
’’ہاں… ہاں! میں نے اس کے بارے میں سوچا ہی نہیں تھا۔‘‘ وہ بولا۔
کیٹ نے سنبھل کرکہا۔ ’’یہ تو تم جانتے ہو نا کہ ہر عورت چاہتی ہے کہ اپنی شادی کا لباس خود خریدے۔‘‘
’’ٹھیک ہے… میں کل تمہیں کسی بڑی مارکیٹ میں لے جائوں گا… وہاں سے تم اپنی پسند کا لباس لے لینا۔‘‘ وہ بڑی فراخدلی سے بولا۔
شدتِ جذبات سے کیٹ کا سانس پھول گیا۔ یہ اس کے پاس وہ واحد موقع ہوگا جس سے اگر وہ فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہوگئی تو وہ اس پاگل شخص سے پیچھا چھڑا سکتی تھی۔
کیٹ نے فوراً خود پر قابو پا لیا اور ڈونے پر کچھ ظاہر نہیں ہونے دیا کہ وہ کیا سوچ رہی ہے۔
اگلے روز وہ واقعی کام پر سے جلدی واپس آگیا۔ جب اس نے کیٹ کے پائوں سے زنجیر نکال کر اسے وین میں بٹھایا تو کیٹ کا دل بڑی تیزی سے دھڑکنے لگا۔ اس کے اعصاب تن گئے۔ وہ اس پر غور کرنے لگی کہ وہ کس طرح کسی کو متوجہ کرسکتی تھی یا کس طرح ڈونے کے چنگل سے نکل سکتی تھی۔
وہ اسے ایک بوتیک میں لے گیا اور جاتے ہی سیلز گرل سے بولا۔ ’’ہمیں ایک بہت خوبصورت سفید لباس چاہئے جو شادی پر پہنا جاسکے۔‘‘
سیلز گرل نے کیٹ کی طرف دیکھا۔ ’’کیا آپ کے ذہن میں کوئی خاص اسٹائل ہے میڈم!‘‘
کیٹ بری طرح بے چین ہوگئی کہ سیلز گرل تک اپنی بات کس طرح سے پہنچائے۔ اپنی آنکھ کے گوشے سے، سر کی جنبش سے یا ہاتھ کے اشارے سے…! ان میں سے کچھ بھی ممکن نہیں تھا کیونکہ ڈونے کا ہاتھ اس کی جیب میں تھا، جس میں اس نے پستول پکڑ رکھا تھا۔
اگر وہ کوئی بے احتیاطی کرتی تو اس کا مطلب وہاں سب لوگوں کی موت تھا۔ اس کی دیوانگی ڈونے سے کچھ بھی کروا سکتی تھی۔
کیٹ نے ایک نظر میں وہ حصہ دیکھ لیا تھا جہاں کپڑے پہن کر سائز اور فٹنگ دیکھی جاتی تھی۔ اگر اسے وہاں جانے کا موقع مل جائے تو شاید کوئی تدبیر کارگر ہوجائے۔
سیلز گرل نے بتایا کہ کیٹ کے سائز کا ان کے پاس ایک ہی لباس ہے۔ ڈونے نے جلدی سے کہا۔ ’’اسے پیک کردو۔‘‘
’’نہیں…! میں پہلے اس کو ٹرائی کروں گی، وہ سامنے ٹرائی ایریا ہے۔‘‘ کیٹ نے جلدی سے لباس سیلز گرل کے ہاتھ سے لے لیا اور پردہ اٹھا کر اندر جانے لگی تو ڈونے بولا۔ ’’میں باہر دروازے پر ہی ہوں۔‘‘ اس کے لہجے میں سخت تنبیہ تھی۔
کیٹ نے اندر آکر چاروں طرف دیکھا۔ کہیں کوئی ایسی چیز نہیں تھی جس سے وہ کوئی پیغام لکھ سکتی۔ پھر اسے کچھ پنیں نظر آئیں۔ اس نے پن اٹھا کر دیوار پر ہیلپ لکھنے کی کوشش کی۔ وال پیپر بہت سخت تھا۔ پن سے اس پر کوئی لفظ کندہ کرنا بہت مشکل تھا، مگر اس نے جیسے تیسے وہاں ایک لفظ ’’ایچ‘‘ بنایا ہی تھا کہ اسے ڈونے کی آواز سنائی دی۔
’’جلدی کرو کیٹ…! میں تمہارا انتظار کررہا ہوں۔‘‘ اس نے پردے کا ایک گوشہ ہٹا کر اندر جھانکا۔ ’’یہ لباس تم پر بہت سج رہا ہے… بس اب جلدی سے باہر آئو۔‘‘
کیٹ نے لباس پہننے میں کچھ دیر لگائی تاکہ وہ ڈریسنگ روم کی دیوار پر لفظ پورے کرسکے۔ وہ ابھی ’’ای‘‘ لکھنے کی کوشش کر ہی رہی تھی کہ ڈونے نے پھر پردہ ہٹایا۔ ’’ڈارلنگ! تم اتنی دیر کیوں لگا رہی ہو، جلدی کرو، ہمیں دیر ہورہی ہے۔‘‘
کیٹ لرز گئی، پن اس کے ہاتھ سے گر گئی۔ ڈونے نے سر اندر ڈال کر چاروں طرف دیکھا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر باہر آگیا۔
وہ باہر گاڑی میں آکر بیٹھے تو کیٹ نے دیکھا کہ وین کے ساتھ ایک گاڑی کھڑی ہے۔ اس میں ایک شخص بیٹھا گاڑی اسٹارٹ کررہا تھا۔ کیٹ شیشے میں سے اس کی طرف دیکھنے لگی۔ اس نے اتفاقاً ایک نگاہ وین پر ڈالی، کیٹ کی نگاہ سے اس کی نگاہ ملی۔ کیٹ آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے کچھ پیغام دینا چاہتی تھی کہ اسے اپنے پہلو میں پستول کی نال کی چبھن محسوس ہوئی۔ اس کے ساتھ ڈونے کی آواز سنائی دی۔ ’’کیٹ! اگر تم نے ذرا سی بھی آواز نکالی تو میں اس شخص کے سر میں گولی مار دوں گا۔‘‘
کیٹ کانپ گئی۔ تب تک وہ شخص گاڑی نکال لے گیا۔ ڈونے اس کی طرف متوجہ ہوا۔ اس نے بیدردی سے اسے پیچھے رکھے کاٹ میں دھکیل دیا۔ سخت ہاتھوں سے اس کے منہ میں کپڑا ٹھونسا اور اسے ہتھکڑیاں اور بیڑیاں لگائیں۔ پھر وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا اور غیر معمولی تیز رفتاری سے گاڑی چلانے لگا۔ کیٹ کی آنکھوں میں آنسو آرہے تھے۔ اسے اپنی بے بسی کا شدت سے احساس ہورہا تھا۔ یہ خوف بھی اسے پریشان کررہا تھا کہ ڈونے غصے میں تھا، اب نہ جانے اس کا رویہ کیا ہو۔
گاڑی کے تیزی کے ساتھ موڑ مڑنے کی وجہ سے ڈونے کے کچھ اوزار بھی نیچے لڑھک آئے۔ یہ دیکھ کر کیٹ کو امید کی ایک کرن نظر آئی۔ ڈونے اپنے خراب موڈ کے زیراثر گاڑی دوڑائے لئے جارہا تھا۔ اگر وہ پیچ کش اٹھانے میں کامیاب ہوجائے تو وہ دیوار کے ساتھ لگی ہوئی پلیٹ کے پیچ کھول سکتی تھی۔ اس خیال کے آتے ہی اس میں نئی ہمت آگئی۔ اس نے کسی نہ کسی طرح کوشش کرکے وہ پیچ کش اٹھا کر لباس کے ڈبے میں ڈال لیا۔
وین گھر پہنچ گئی۔ وہ اس کو اندر لے کر آیا۔ اس نے دیکھے بغیر لباس والا ڈبہ ایک طرف ڈالا اور اس کی طرف گھورتے ہوئے بولا۔ ’’کیٹ…! مجھے بتائو تم کب مجھ سے محبت کرو گی؟‘‘ اس کی سانس تیز چل رہی تھی اور اس کی آنکھوں میں وحشت تھی۔
کیٹ گھبرائی لیکن اس نے خود کو سنبھالا اور اعتماد سے بولی۔ ڈونے…! مجھے پتا بھی تو چلے کہ تم مجھ سے کیوں محبت کرتے ہو… تم نے اپنی کتابوں میں جو کچھ لکھا ہے، مجھے پڑھ کر سنائو۔‘‘
وہ چونک کر اس کی طرف دیکھنے لگا۔ کیٹ نے اپنی آواز میں تحکم پیدا کیا۔ ’’ڈونے! مجھے ابھی اپنی کتاب پڑھ کر سنائو۔‘‘
ڈونے نے شانے جھکائے اور شیلف میں سے کتابیں نکالنے لگا۔
٭…٭…٭
اگلے روز جیسے ہی ڈونے کام پر نکلا، کیٹ نے پیچ کش نکالا اور دھاتی پلیٹ سے پیچ نکالنے کی کوشش کرنے لگی۔ یہ ایک بہت مشکل کام تھا۔ پیچ بہت سختی سے کسے ہوئے تھے اور پیچ کش بہت چھوٹا تھا۔ وہ زور لگا لگا کر پسینے میں شرابور ہوگئی۔ اسے کوشش کرتے نہ جانے کتنا وقت گزر گیا، بالآخر وہ پیچ ڈھیلا ہوگیا۔
وہ سانس لینے کو کچھ دیر رکی اور اس نے پھر کام شروع کردیا۔ وہ باربار وقت بھی دیکھ رہی تھی کہ کہیں ڈونے کے واپس آنے کا وقت نہ ہوجائے۔ خدا خدا کرکے دوسرا پیچ نکلا اور وہ تیسرے پیچ کے ساتھ زور آزمائی کررہی تھی کہ باہر گاڑی رکنے کی آواز سنائی دی۔ کیٹ دھک سے رہ گئی۔ اس کا دل ڈوبنے لگا۔ پیچ کش کو بیڈ کے نیچے چھپا کر وہ زنجیر سنبھالتی ہوئی اٹھی اور ہانپتی ہوئی صوفے پر آکر بیٹھ گئی۔ اس کی سانس سے سانس نہیں مل رہی تھی۔
پھر گھنٹی کی آواز سنائی دی۔ کسی نے دروازے پر دستک دی۔ کیٹ چونکی۔ یہ کوئی اور تھا، ڈونے تو سیدھا اندر آجاتا تھا۔ وہ اپنی زنجیر سنبھالتی ہوئی اٹھی اور کھڑکی کے قریب آکر پوری قوت سے چلائی۔ ’’میں کیٹ مائیکل ہوں… پلیز میری مدد کرو… جاکر پولیس کو خبر کرو… جائو… جلدی جائو… مدد… مدد… مدد!‘‘
وہ مسلسل چلاتی رہی… جب تک کہ اسے گاڑی کے واپس جانے کی آواز نہیں آگئی، اس کا حلق سوکھ گیا تھا، تھکن سے وہ نڈھال ہوگئی تھی۔ اس نے ایک گلاس پانی پیا۔ اس کا ذہن بڑی تیزی سے کام کررہا تھا۔ اسے ڈونے کے آنے سے پہلے پہلے یہاں سے نکل جانا چاہئے تھا۔ وہ دیوانوں کی طرح تیسرے پیچ کے ساتھ زورآزمائی کرنے لگی مگر وہ کسی طرح نکلنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ وقت ہاتھ سے نکلتا جارہا تھا۔ وہ پریشانی، فکر سے پاگل ہورہی تھی۔ آخر وہ تنگ آکر اٹھی اور زنجیر کو دونوں ہاتھوں میں سنبھال کر اس نے اندھا دھند زور لگا کر اس دھاتی پلیٹ کو دیوار سے اکھاڑنے کی کوشش شروع کردی۔
بے بسی کے مارے وہ بلند آواز سے رو رہی تھی، چیخ رہی تھی۔ زنجیر کو جھٹکے دے رہی تھی کہ اچانک اسے ایک زور دار جھٹکا اس طرح لگا کہ وہ اپنا توازن برقرار نہیں رکھ سکی اور صوفے سے جا ٹکرائی۔ ’’اوہ خدایا!‘‘ وہ سنبھلی اور بے یقینی سے دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی۔ یہ کیسے ہوگیا تھا؟ یہ کس طرح ممکن تھا…؟ وہ حیرت سے اس دھاتی پلیٹ کو دیکھ رہی تھی جو دیوار کے پرانے پلستر کی وجہ سے اکھڑ آئی تھی۔
اسے چند لمحے سوچنے سمجھنے میں لگے۔ پھر وہ دروازے کی طرف دوڑی۔ اس نے جلدی جلدی دروازے کے بولٹ کھولے۔ اپنی زنجیر اور دھاتی پلیٹ سنبھالتی وہ باہر نکل آئی۔ یہاں آتے جاتے وہ دیکھ چکی تھی کہ قریب ہی جنگل ہے۔ وہ وہاں چھپ سکتی تھی۔ کسی درخت کے پیچھے چھپ کر وقت گزارنا، ڈونے کے ساتھ رہنے سے بہت بہتر تھا۔
اپنا پائوں گھسیٹتی وہ آگے بڑھتی رہی۔ سورج سر پر چمک رہا تھا بالآخر وہ ایک گھنے درخت کے پیچھے چھپنے میں کامیاب ہوگئی جہاں سے وہ ڈونے کے گھر اور سڑک پر نگاہ رکھ سکتی تھی۔ اس کا دل دھک دھک کررہا تھا۔ تھکن سے وہ بے حال ہوچکی تھی، اسے اپنے پائوں پر کھڑے ہونا بہت مشکل لگ رہا تھا۔
وہ ابھی درخت تک پہنچی تھی کہ اسے ڈونے کی وین کی آواز سنائی دی۔ وہ گاڑی سے اترا اور تیز قدموں سے دروازے کی طرف چلا گیا۔ دروازہ کھلا دیکھ کر وہ ٹھٹھکا، دوڑ کر اندر گیا اور پاگلوں کی طرح گرتا پڑتا واپس آیا۔ کیٹ سانس روک کر اسے دیکھ رہی تھی۔ وہ اس اندیشے سے لرز رہی تھی کہ اگر وہ اسے تلاش کرتا اس طرف نکل آیا تو وہ کب تک اس کی نگاہوں سے بچ پائے گی۔
وہ پستول ہاتھ میں لئے ہوئے کیٹ کی طرف بڑھ رہا تھا کہ کسی گاڑی کے آنے کی آواز سنائی دی۔ وہ اچھل کر گھر کے اندر داخل ہوا مگر اس نے دروازہ بند نہیں کیا۔ یوں جیسے انتظار میں کھڑا ہوگیا کہ موقع ملے تو فائر کرسکے۔ کیٹ نے دیکھا کہ وہ ایک پولیس کار تھی۔ گاڑی ڈونے کی وین کے ساتھ رک گئی اور اس کا


کھلا اور دو پولیس اہلکار باہر نکلے۔ وہ یقیناً اس سے بے خبر تھے کہ ڈونے ان کے انتظار میں برآمدے کی طرف بڑھ رہا ہے۔
کار کا پچھلا دروازہ کھلا اور دو بندے اس میں سے باہر نکلے۔ ان پر نظر پڑتے ہی کیٹ کی روح آنکھوں میں سمٹ آئی۔ اس کے سارے وجود میں بے چینی کی ایک لہر سی اٹھی۔ ان میں سے ایک مائیکل تھا۔ مائیکل کو دیکھ کر اس کی آنکھوں سے آنسو بڑی تیزی کے ساتھ آپ سے آپ بہنے لگے تھے۔ اس نے تیزی سے ڈونے کی طرف دیکھا۔ وہ دبے پائوں پورچ کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں پستول تھا اور وہ فائر کرنے کے لئے موقع کی تلاش میں تھا۔
’’اوہ خدایا…! وہ کہیں مائیکل کو نشانہ نہ بنا لے۔‘‘ اس خیال نے جیسے کیٹ کو پاگل کردیا۔ وہ رہائش گاہ سے کچھ اتنی زیادہ دور نہیں تھی۔ وہ بغیر سوچے سمجھے درخت کی اوٹ سے باہر نکل آئی اور اپنی پوری قوت سے چلائی۔ ’’میں یہاں ہوں ڈونے…! میں یہاں ہوں… میں یہاں ہوں۔‘‘
خاموشی میں اس کی آواز یکدم گونجی تو ڈونے نے بدک کر اس کی طرف دیکھا اور پستول سے فائر کرتا ہوا اس کی طرف دوڑا۔ کئی گولیاں کیٹ کے دائیں بائیں سے گزریں۔ اس کے ساتھ ہی کچھ اور گولیاں چلنے کی آواز سنائی دی۔ ڈونے لڑکھڑایا اور آدھے راستے میں گر گیا۔
مائیکل برستی گولیوں کی پروا کئے بغیر کیٹ کی جانب اندھا دھند بھاگا۔ کیٹ کو بھی اب کسی چیز کی پروا نہیں تھی۔ مائیکل اس کے سامنے تھا اور اسے ہر حال میں اس تک پہنچنا تھا۔ سراغ رساں اور پولیس اہلکار جذباتی لوگ تو نہیں تھے مگر کیٹ اور مائیکل کی بے تابی دیکھ کر ان کی آنکھیں بھی نم ہوگئیں۔
(ختم شد)

Latest Posts

Related POSTS