“تم نے پوری طرح اس جگہ کا نقشہ سمجھ ليا ہے” شمس اور نائل کے ہمراہ ان کی پوری ٹيم اس وقت انکی مخصوص جگہ پر موجود تھی۔
“جی سر۔۔ يہ پورا نقشہ اسی جگہ کا ہے۔ اور يہ جو ميں نے ريڈ لائن لگائ ہے۔ يہ اس جگہ رسائ حاصل کرنے کا سب سے محفوظ راستہ ہے ہمارے لئے۔ اس راستے پر زيادہ تر ڈاکو موجود ہوتے ہيں۔
وہاں کا کوئ رہائشی بھی اس جگہ سے رات کے اس پہر نہيں گزرتا۔” ذيشان نے ٹيبل پر پھيلاۓ نقشے پر مارک کرتے ہوۓ کہا۔
“اور يہ جو گرين لائن والا راستہ اس پر دکھائ دے رہا ہے۔ يہ ان کے خاص لوگو استعمال کرتے ہيں۔ يہ شارٹ کرٹ راستہ بھی ہے اور دوسرا يہاں پر بھی کسی کی نظر کم ہی پڑتی ہے۔ مگر يہ کافی کچا راستہ ہے۔ جس پر سواۓ جيپ کے اور کوئ دوسری گاڑی نہيں جاتی” اس نے ايک اور راستے کی نشاندہی کی۔
“ٹھيک ہوگيا۔ بس پھر اللہ کا نام لے کر نکلو تم لوگ بھی” اپنی کرسی سے کھڑے ہوتے شمس نے اپنی گيارہ بندوں پر مشتمل ٹيم ديکھی۔
“ٹھيک ہے سر” وہ سب بھی اپنے اپنے يونيفارم ميں اٹھ کھڑے ہوۓ۔ سب اس وقت سياہ يونيفارم ميں اسلحے سے ليس تھے۔
“يہ دونوں بندے آج پکڑے جانے بہت ضروری ہيں۔ ورنہ ہمارا يہ کيس کمزور پڑ سکتا ہے” شمس نے انہيں پھر سے تنبيہہ کی۔
“ان شاءاللہ سر”وہ سب يک زبان ہوۓ۔ جن ميں سب سے بلند آواز نائل کی تھی۔
________________________
فاران کچھ دير پہلے ہی يماما کے فليٹ سے واپس آيا تھا۔ مگر وہاں بھی اسے ايسا کوئ تسلی بخش ثبوت نہيں ملا جس کی بناء پر وہ کسی پر کوئ الزام لگا سکتا۔
مگر اسے اتنا يقين ضرور تھا کہ اس کام کے پيچھے وقار يا وہاج ميں سے ہی کوئ تھا۔
کچھ دن پہلے جيسے وہ يماما کے آفس آکر اسے دھمکی لگا کر گيا تھا اس سب سے يہ بات واضح ہوتی تھی کہ يقينا اس سب ميں کہيں نہ کہيں وہ ملوث ہے۔
“کيا بنا” ربيعہ غم سے نڈھال اس وقت بمشکل خود کو سنبھال کر فاران کے کمرے ميں آئيں۔
سارا دن لوگوں کا تانتا بندھا رہا تھا۔ رو رو کر انکی آنکھيں بری طرح سوجھ چکی تھيں۔
فاران بيڈ کے ساتھ پشت ٹکاۓ بيٹھا تھا۔ آنکھيں سامنے ديوار پر ٹکی تھيں۔
ماں کو کمرے ميں آتے دیکھ کر سيدھا ہو کر بيٹھا۔
وہ آہستہ روی سے چلتی ہوئيں اسکے سامنے بيڈ پر بيٹھيں۔
“ابھی تو کچھ پتہ نہيں چلا۔ بس اب اس کی گاڑی اور فليٹ پر موجود فنگر پرنٹس کے نشانوں کا کچھ پتہ چلے تو معاملہ آگے بڑھاؤں گا” ان کے ہاتھ پکڑ کر بے بسی سے وہ سر جھکا گيا۔
“ميری بچی کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوری ہونے والی تھی۔ اللہ يہ کيا ہوگيا۔۔ميں۔۔ ميں بالکل تہی دست رہ گئ” فاران کے ہاتھ تھامنے کی دير تھی۔ وہ پھر سے رونے لگ گئيں۔
اور وہ جس نے سارا وقت ضبط سے سب معاملات سنبھالے تھے۔ ماں کے سامنے سارا ضبط کھو گيا۔
“ميں اسے ہميشہ منع کرتا تھا۔ يماما يوں لوگوں کے ساتھ ضد مت لگايا کرو۔ يہ دنيا بھيڑيوں کی ہے۔ مگر۔۔” وہ ماں کی گود ميں سر رکھے شدت گريہ سے رو پڑا۔
“مگر وہ نہيں سنتی تھی۔ اس پر تو بس ايک ہی دھن سوار تھی۔ لوگوں کو انصاف دلانے کی۔ اور اب۔۔ اب جب وہ اپنے خاندان کو انصاف دلوانے چلی تھی۔ تو يوں ان درندوں اور بھيڑيوں کی نذر ہوگئ” دونوں پھوٹ پھوٹ کر رودئيے۔
“اس نے ہمارا بھی نہ سوچا۔ کہ ہم اس کے بنا کيسے رہيں گے” آنسو تھے کہ آنکھوں سے ختم نہيں ہورہے تھے۔
وہ دل کا سب غبار ماں کے سامنے نکال رہا تھا۔
ربيعہ داياں ہاتھ اسکے کندھے پر پھير رہی تھيں اور بائيں ہاتھ سے اپنے آنسو صاف کررہی تھيں۔
“بس بيٹا۔ مجھے تو يہ تکليف کھاۓ جارہی ہے۔ کہ نجانے ميری بچی نجانے کس تکليف سے گزری ہوگی۔۔ يہی سوچ سوچ کر لگتا ہے دل پھٹ جاۓ گا” منہ پر ہاتھ رکھے وہ سسکيوں سے رو رہی تھيں۔
“ميں چھوڑوں گا نہيں۔ اسے جس نے ميری يماما کے ساتھ يہ سب کيا ہے۔ ميں مان ہی نہيں سکتا کہ يہ حادثہ تھا۔۔” جب دل کھول کر رو ليا تب آنسو صاف کرکے وہ ماں کی گود سے اٹھا۔ انکے ہاتھ تھامے وہ ايک بار پھر وثوق سے بولا۔
“يماما کے قاتلوں کو پکڑنے کے ساتھ ساتھ۔ اب جس کام کا بيڑہ ہماری يماما نے اٹھايا تھا۔ اسے ميں پايہ تکميل تک پہنچاؤں گا۔ اس کے جن دشمنوں کی سزا باقی رہ گئ ہے وہ ميں دلواؤں گا۔ اب وہاج اور وقار کا کيس ميں لڑوں گا” وہ ايک عزم سے بولا۔
ربيعہ نے دکھتی آنکھوں سے بيٹے کو ديکھا۔ جس کے چہرے پر الگ ہی روشنی تھی۔ وہ جانتی تھيں کہ يماما ان کے بيٹے کی اولين خواہش بن چکی تھی۔ مگر وہ يہ بھی جانتی تھيں کہ يماما کی خواہش کوئ اور تھا۔ اور اس کے علاوہ وہ کسی کا تصور نہيں کرسکتی تھی۔
اسی لئےفاران کی خواہش جاننے کے باوجود انہوں نے کبھی يماما سے يہ تذکرہ نہيں کيا تھا۔ انہيں يماما کی خوشی ہميشہ سے زيادہ عزيز تھی۔
مگر کيا پتہ تھا کہ وہ اتنی مختصر زندگی لکھوا کر لائ تھی۔
“ضرور بيٹا۔ شايد ميری بيٹی کی روح کو تبھی سکون ملے۔ ميری بچی۔۔ ميری يماما” وہ پھر سے رونے لگيں۔
فاران نے انہيں کندھے سے لگا ليا۔
_______________________
جب سے وہ يماما کی سچائ اسکے سامنے رکھ کے گيا تھا۔ يماما تب سے وہيں کتنی ہی دير حيران بيٹھی تھی۔ آخر يہ کون تھا۔
اب تک ماضی کی فلم چلا کر وہ ہزار بار سوچ چکی تھی کہ اپنی شادی کے بارے ميں اس نے فاران، ربيعہ اور احمد کے علاوہ کبھی کسی کو بتايا ہے کہ نہيں۔
مگر بھولے سے بھی اسے کوئ ايسا لمحہ ياد نہيں آيا کہ اس نے کسی اور سے اس سب کا تذکرہ بھی کيا ہو۔
وہ بہت محتاط تھی۔ پڑھائ کے دوران بھی وہ بس سب سے سلام دعا کی حد تک بات چيت کرتی تھی۔ دوست کا درجہ سواۓ فاران کے اس نے کسی کو نہيں دے رکھا تھا۔
فاران تھا بھی اتنا اچھا دوست کہ اس کے ہوتے يماما کو کبھی ضرورت ہی نہين پڑی تھی کہ وہ کسی اور سے دوستی بھی کرتی۔
کافی دير گزر چکی تھی۔
وہ کچھ سوچتی ہوئ کمرے سے باہر نکلی۔ پورے کاٹيج مين خاموشی تھی۔
وہ آہستہ سے سيڑھياں اتر کر اس کمرے کی جانب بڑھی۔
جہاں صبح ناشتے کے بعد اس نے شہنشاہ کو جاتے ديکھا تھا۔
مگر اس لمحے وہاں کوئ بھی نہيں تھا۔ پورا کمرہ چھان مارا مگر وہاں کوئ ذی روح نہ تھا۔ کمرہ بھی اپنے مالک کی طرح شان و شوکت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔
اس کا بيڈ ہی تاج کی شکل کا تھا۔ کمرے ميں جابجا تلواريں ديواروں سے لٹکی تھيں۔ تو کہين بندوقيں تھيں۔
دبيز قالين پورے فرش پر بچھا تھا۔
وہ کچھ سوتی ہوئ آہستہ سے ان بندوقوں کی جانب بڑھی۔
ہاتھ لگا کر ان ميں سے ايک بندوق اٹھانی چاہی
“ميم۔ آپ کو اس کی اجازت نہيں” يکدم اس کے پيچھے سے خاموشی ميں ايک نسوانی آواز سنائ دی۔
وہ صحيح معنوں ميں اچھل پڑی۔
يکدم مڑ کر پيچھے ديکھا۔ تو ايک لڑکی سياہ لباس ميں سليقے سے بالوں کو پيچھے باندھے۔ ہلکے سے ميک اپ ميں سپاٹ چہرہ لئے موجود تھی۔
اسے يکدم شہنشاہ کی بات ياد آئ۔ “تم ہر وقت ميرے بندوں کی نگرانی ميں ہو” کتنا صحيح کہا تھا اس نے نجانے يہ لڑکی آئ کہاں سے تھی۔
“تم کون ہو؟” يماما نے تيوری چڑھا کر اس سے پوچھا۔
“ملازم” اس نے يک لفظی جواب ديا۔
“تم آئ کہاں سے ہو؟” يماما نے ايک اور سوال کيا۔ وہ لڑکی خاموش رہی۔
“ميں نے کچھ پوچھا ہے تم سے” وہ کڑک دار آواز مين بولی۔
“ميں آپ کے کسی سوال کا جواب دينے کی پابند نہيں ميم” نہايت مہذب انداز ميں اس نے صفا چٹ جواب يماما کو دیا۔
“واہ۔۔ شہنشاہ کی طرح اس کے ملازم بھی شہنشاہ ہی ہيں” وہ دل ميں سوچ کر رہ گئ۔
“آپ پليز اپنے کمرے ميں جائيں۔ یا پھر باہر لاؤنج ميں” وہ روبوٹ کی طرح بول رہی تھی۔
“حکم تو ميں کسی کے باپ کا بھی نہين مانتی۔ رہوں گی تو اب اسی کمرے ميں” اس کے حکميہ انداز پر وہ بھی طيش مين آگئ۔
“آپ کی مرضی ہے ميم۔۔ سر بہت غصہ کريں گے۔” وہ پھر سے اسے تنبيہہ کرنے لگی۔
“تمہارے سر کو مين کسی کھاتے ميں نہيں لاتی۔ جاؤ يہاں سے” يماما نے اسے ٹالنا چاہا۔
“سوری ميم۔۔ آپ کا وہ حکم ہمين ماننے کی اجازت نہيں جس ميں آپ کو خطرہ ہو۔ يا پھر آپ سر کے لئے خطرے کا باعث بنيں” يماما اس کی حاضر جوابی پر حيران ہوۓ بغير نہ رہ سکی۔ چن کر ملازم رکھے تھے۔
“تمہارے خيال ميں ۔۔ ميں تمہارے باس کو مارنے کے لئے يہاں سے گن يا پھر کوئ تلوار چرا لوں گی؟” يماما نے پھر سے اس سے سوال کيا۔
“ملازم اپنی سوچ اور سمجھ بوجھ نہيں رکھتے ميم۔” اس کے جواب پر اب کی بار وہ ہولے سے مسکرائ۔
“بھئ ماننا پڑے گا شہنشاہ کی ہر چيز ہی لاجواب ہے۔۔ ويسے تمہيں ڈر نہيں لگتا اپنے سر سے۔۔عجيب بھوتوں والا حليہ ہے” وہ کہاں باز آنے والوں ميں سے تھی۔ اسے باتون ميں الجھا کر پورے کمرے کا جائزہ بھی ليتی جارہی تھی۔
“ميم۔۔ يہاں ہر بات ريکارڈ ہو رہی ہے” اس نے يماما کو اطلاع دی۔
“ہاہاہا۔۔ اگر ريکارڈ نہ ہورہی ہوتی تو تم يقينا ميری بات سے اتفاق کرتی” وہ قہقہہ لگا کر بولی۔
مگر سامنے والی سپاٹ چہرہ لئے ہی کھڑی رہی۔
“ميم پليز کسی چيز کو ہاتھ مت لگائيں۔” اب وہ بيڈ کے سائيڈ ٹيبلز کے درازوں کا جائزہ لينے لگی۔
اس لڑکی نے پھر سے اسے نہ صرف روکا۔ بلکہ اسکے پاس آکر سختی سے اس کا ہاتھ ہٹا کر دراز بند کيا۔
“ديکھو ميں تمہارے ساتھ کوئ بدتميزی نہيں کرون گی۔ پليز مجھے يہاں سے نکلوا دو” وہ اب کی بار پيچھے ہو کر شرافت سے کھڑی اس سے مدد مانگنے لگی۔
“اس کا جواب آپ کو سر ہی ديں گے۔ ہميں جس کام کے لئے رکھا ہے ہم وہی کرتے ہين۔ آپ اب باہر چليں” اب وہ يماما کو بازو سے پکڑ کر باہر لے آئ۔ يماما بھی خاموشی سے باہر آگئ۔
کيونکہ دراز ميں موجود اپنا موبائل وہ بے حد خاموشی سے اٹھا چکی تھی کہ اس لڑکی کو بھی علم نہ ہوا۔
_________________