مجید میری بہن کا دیور تھا۔ خوش شکل اور شخصیت بھی خوب تھی۔ خوش گفتاری میں تو کوئی اس کا ثانی نہیں تھا۔ مجھے پہلی نظر میں گیا۔ باجی کی نئی نئی شادی ہوئی تھی ، اکثر ان کے گھر جاتے تھے تو وہ مجھ کو باتوں میں لگا لیتا۔ اس کی گفتگو شگفتہ تھی اس قدر کہ گھنٹوں بولتا رہے اور سنتے رہو، ایک لمحے کو بھی بوریت کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ اسے اندازہ ہو چکا تھا کہ میرا جھکاؤ اس کی جانب ہے ، تب ہی باتوں باتوں میں کہتا کہ میں تو بھابی جیسی ہی کسی لڑکی سے شادی کروں گا جس سے میرے خاندان کا رشتہ بھی جڑا ہو گا۔ اشاروں کنائیوں میں اس کی پیشکش مجھے خوب سمجھ میں آرہی تھی لیکن میں نے تحمل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا، سوچا پہلے دیکھ تو لیں کہ یہ لوگ میری بہن کے ساتھ کیسا برتاؤ کرتے ہیں، ان سے دوبارہ رشتہ جوڑنا بعد کی بات ہے۔ جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ وہ سچی محبت تو جانے کب کرے گا لیکن فلرٹ کرنے کا ماہر ہے۔ شاید میں اس کی باتوں میں آجاتی کہ ان ہی دنوں باجی کے سسرال والوں نے گھر پر ایک تقریب کی۔ اس تقریب میں ایک لڑکی مجھے ملی جس کا نام نیلی تھا۔ بے حد خوبصورت لڑکی تھی، وہ خانیوال کی رہنے والی تھی۔ اس روز تو میں بس اسے دیکھتی رہ گی اور زیادہ بات کرنے کا موقع نہ ملالیکن باجی کی ساس کے منہ سے یہ جملہ ضرور سنا جو اپنی بیٹی سے پوچھ رہی تھیں کہ اس لڑکی کو یہاں کس نے مدعو کیا ہے؟ مجھے کیا خبر بیٹی نے جواب دیا۔
ایک روز باجی کے ہمراہ بازار گئی۔ باجی کے دیور مجیب نے کار چلائی تھی۔ بازار میں ہم نے نیلی کو دیکھا۔ وہ مجیب کو دیکھ کر رک گئی تو ہم لوگوں نے یہ بات محسوس کی ۔ باجی نے مجیب سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ یہ میرے دوست کی بہن ہے۔ خیر وہ جلدی سے اس کی طرف چلا گیا۔ ہم سے تھوڑی دور جا کر اس نے لڑکی سے کچھ بات کی ، پھر وہ چلی گئی۔ جب واپس آیا اس کا رنگ کچھ اُڑا اڑا سا تھا۔ ہم دونوں بہنیں چپ رہیں تو خود ہی گویا ہوا اپنے بھائی کے بارے میں بتا رہی تھی کہ شعیب بیمار ہے اور اسپتال میں داخل ہے، تب ہی میں نے کہا ہم نے پوچھا تو نہیں ہے پھر آپ کیوں اپنے بارے میں صفائی دے رہے ہیں۔اس کے بعد سے میرا دل کچھ کچھ اس سے دور ہو گیا جبکہ پہلے میں نے اسے تصور میں بسالیا تھا۔ اس نے بہت لگاوٹ بھری باتوں سے یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ وہ مجھے چاہتا ہے لیکن میری چھٹی حس کہتی تھی کہ یہ آدمی صحیح نہیں ہے۔ جیسے جیسے وہ اعتبار دلانے کی کوشش کرتا، میرا دل اس سے اٹھتا جاتا تھا۔ مجیب کے بڑے بھائی پہلے ہی دو شادیاں کر چکے تھے۔ منجھلا بھائی اکرم جو میرا بہنوئی بنا تھا، ان کی بھی دوسری شادی تھی ، اس کی پہلی بیوی نے طلاق لے لی تھی ۔ باجی سے شادی محبت کی ہوئی تھی، دونوں نے ایک دوسرے کو پسند کیا تھا۔ مجیب تیسرے نمبر کا تھا اور یہ اپنے دونوں بڑے بھائیوں سے بھی چار ہاتھ آگے نکلا۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب مجیب کی والدہ میرے رشتے کیلئے باجی کے کان کھا رہی تھیں اور میرے والدین اس بات پر نیم رضامند ہو گئے تھے کہ ملیحہ کو اسی گھر میں بیاہ دینا چاہئے ، دونوں بہنیں ایک گھر میں ہوں گی تو ہم کو سہولت رہے گی اور ان کو بھی۔ باجی اسکول میں پڑھاتی تھیں جہاں نیلی کی بہن پڑھتی تھی لیکن اس بات کا میری بہن کو علم نہ تھا۔ ایک دن نیلی اپنی چھوٹی بہن کو لینے اسکول آگئی۔ انہوں نے اسے پہچان لیا اور اس کے بھائی کا حال پوچھا جو اسپتال میں تھا۔ وہ بولی میرا تو کوئی بھائی اسپتال میں نہیں تھا۔ یہ آپ سے کس نے کہا ہے؟ مجیب کہہ رہا تھا۔ باجی نے بتایا تو فوراً سنبھل گئی اور کہنے لگی کہ ہاں ہاں وہ یاد آیا لیکن میرا بھائی نہیں بلکہ کزن اسپتال میں تھا اور کزن بھی تو بھائی ہوتا ہے، اس کا انداز بتا رہا تھا کہ وہ جھوٹ بول رہی ہے۔ باجی نے یہ محسوس تو کر لیا کہ کوئی چکر ہے، حقیقت معلوم کرنے کیلئے اس کے ساتھ دوستی بھی کر لی۔ آہستہ آہستہ دوستی بڑھتی گئی، یہاں تک کہ نیلی اپنے دل کا حال میری بہن کے گوش گزار کرنے لگی۔ وہ مجیب کو چاہتی تھی اور اس کے بقول مجیب بھی اس کو دل و جان سے چاہتا تھا۔ کہتی تھی کہ میں اس کی ہر بات مانتی ہوں ، جیسا کہتا ہے ویسا کرتی ہوں کیونکہ وہ بھی میری پوجا کرتا ہے اور مجھ سے شادی کا وعدہ کیا ہوا ہے۔ رفتہ رفتہ وہ ہر بات باجی سے شیئر کرنے لگی۔ خود ہی بتایا کہ ہمارے گھر کے ایک کمرے کا دروازہ پچھلی طرف کی گلی میں کھلتا ہے اور میں نے وہ کمرہ لے لیا ہے، رات کو جب سب سو جاتے ہیں، مجیب ہماری عقبی گلی میں آجاتا ہے، میں دروازہ کھول دیتی ہوں اور وہ مجھ سے میرے کمرے میں ملاقات کر کے چلا جاتا ہے۔ یوں ہماری ملاقاتیں بہت محفوظ ہوتی ہیں اور کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوتی۔ یہ سن کر باجی کافی حیران ہوئیں۔ دیور سے پوچھا تو اس نے قسم کھا کر کہا۔ یہ جھوٹ ہے۔ یہ لڑکی پاگل ہے بس، ایسے ہی بڑکیں مارتی ہے۔ دراصل یہ خود چاہتی ہے کسی طرح ہمارے گھر کی فرد بن جائے۔
ایک روز پھر نیلی یوں کھلی کہ مجیب کہتا ہے کہ بھابی کے گھر والے اس کی شادی اپنی بیٹی ملیحہ سے کرنے کے آرزومند ہیں تا کہ دونوں بہنیں ایک گھر میں آجائیں لیکن میں منع کرتا ہوں کیونکہ مجھے تو شادی بس تم ہی سے کرنی ہے۔ یہ سن کر باجی حیران رہ گئیں کیونکہ ان کے دیور صاحب ان سے تو یہی کہا کرتے تھے کہ نیلی کے گھر والے رشتہ دینے کے آرزومند ہیں مگر میں نے ان سے کہہ دیا ہے کہ میں شادی اپنے خاندان میں کروں گا۔ جن دنوں باجی کے یہاں پہلے بچے کی آمد متوقع تھی، میں ان کے گھر رہنے گئی کیونکہ ان کو میری ضرورت تھی۔ تب ایک رات دو، تین بجے وہ گھر آیا تو کپڑے خون میں لت پت اور سر پھٹا ہوا تھا ، پٹیاں بندھی ہوئی تھیں، اس کا دوست اسے گھر تک لایا تھا۔ انہوں نے یہی کہا کہ گاڑی سے ٹکرا گیا تھا مگر مجیب کی حالت گاڑی سے ٹکرا جانے والی نہیں تھی۔ بہر حال یہ بہت بعد میں پتہ چلا کہ کسی لڑکی کے پیچھے جاتا تھا، رات کو اس کے گھر کی دیوار پھلانگ رہا تھا کہ کمرے میں سوئے اس کے بھائی کی آنکھ کھل گئی۔ لڑکی صحن میں سوتی تھی اور یہ اس کے ساتھ صحن سے چھت پر چلا جاتا تھا۔ بہرحال اس طرح کے کئی اور بھی افسانے ہوئے لیکن اس کے گھر والے اس کے کرتوتوں پر پردہ ڈال دیا کرتے تھے۔ کہتے ہیں کہ برائی کا انجام برا ہی ہوتا ہے۔ جیسے ان بھائیوں نے کئی لڑکیوں کو برباد کیا تھا، ویسے ہی یہ بھی بربادی سے نہ بچ سکے اور ایک دن ان کی چھوٹی بہن بھی کسی لڑکے کے چکر میں بھاگ گئی۔ اس نے دھوکا دیا۔ وہ گھر تو واپس آگئی لیکن گئی عزت تو واپس نہیں آسکتی تھی۔ان حالات کو دیکھتے ہوئے میرے والدین نے میرا رشتہ دینے سے انکار کر دیا۔
ایک روز باجی نے اسکول میں نیلی کی چھوٹی بہن سے اس کے بارے میں پوچھا۔ وہ افسردہ ہو کر بولی کہ فوت ہو گئی ہے۔ یہ سن کر باجی کو بہت افسوس ہوا۔ واقعہ جاننے کیلئے ان کے گھرگئیں، تب نیلی کی ماں نے روتے ہوئے بتایا کہ وہ خود اپنی موت نہیں مری بلکہ اس کو اس کے باپ نے قتل کیا تھا کیونکہ وہ ایک بچے کو جنم دینے والی تھی تاہم ہم کو اس بات کا علم نہ ہوا کہ یہ گناہ کس کا تھا ؟ یہ سن کر میری بہن کو اپنے دیور سے نفرت ہو گئی۔ میرا تو کافی دن سے باجی کے گھر آنا جانا بند تھا۔ ابو نے منع کر دیا کہ ہم نے رشتہ دینے سے انکار کر دیا ہے لہذا مناسب یہی ہے کہ ملیحہ اب ان کے گھر نہ جائے۔ جب مجھے مجیب کی حقیقت کا علم ہوا تو مجھے بھی اس سے نفرت ہو گئی۔ تاہم اب گھر میں دل نہ لگتا تھا تو میں نے کالج میں دوبارہ داخلہ لے لیا۔ بتاتی چلوں کہ ایف اے کے بعد میں گھر بیٹھ گئی تھی۔ اب دوسری بار داخلہ اس لئے لیا کہ بی اے کر سکوں۔ ان ہی دنوں اکرم بھائی سعود یہ چلے گئے اور باجی بھی ان کے ہمراہ گئیں۔ ان کے جانے کے بعد ہمارے رابطے مجیب کے گھر والوں سے منقطع ہو گئے۔ میں نے پڑھائی میں دل لگا لیا۔
تھرڈ ایئر میں میری دوستی ایک لڑکی سے ہو گئی ، بہت نازک سی اور خوبصورت تھی، نام میمونہ تھا۔ کالج ختم ہوتا تو ہم دونوں اکثر اکٹھے بیٹھ کر گاڑی کا انتظار کرتے۔ میں اپنے ابو کے ساتھ گاڑی پر جاتی اور اس کو لینے اس کا کزن آیا کرتا تھا۔ وہ اس کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر گھر چلی جاتی۔ ہماری دوستی رفتہ رفتہ بڑھی اور گھر میں آنا جانا ہو گیا۔ یہ لڑکی اتنی اچھی تھی کہ میرے دل میں گھر کر گئی تھی۔ جی چاہتا ہم دونوں ہر وقت ساتھ رہیں۔ ان ہی دنوں والدین میرے بڑے بھائی کا رشتہ تلاش کر رہے تھے کیونکہ میمونہ مجھے پسند تھی سوچا کیوں نہ ہم اسے بھابی بنالیں؟ یہ بات جیسے ہی میرے ذہن میں آئی، مناسب سمجھا کہ پہلے مومی سے بات کرلوں ۔ میمونہ کو میں پیار سے مومی کہا کرتی تھی۔ جب میں نے اس سے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو وہ مسکرا کر کہنے لگی۔ کاش تم ایک سال پہلے ملی ہوتیں تو میں تمہاری خوشی کیلئے تمہاری بھابی بن جاتی مگر اب میں مجبور ہوں، کسی سے وعدہ کر چکی ہوں۔ اس کے دل میں میری محبت کے چراغ جل رہے ہیں، انہیں بجھا نہیں سکتی۔ وہ کون خوش نصیب ہے مومی؟ میں نے سوال کیا۔ وہی جس کو اپنا کزن کہتی ہوں اور تم کو یہی بتایا ہے کہ ان کا گھر ہمارے مکان سے جڑا ہوا ہے لیکن ایسی بات نہیں ہے۔ اب تم کو سچ بتائے بغیر چارہ نہیں ہے۔ جو مجھے کالج سے لینے آتا ہے، اس کا گھر ہمارے گھر سے دور ہے، اس کا گھر بہت بڑا اور شاندار ہے ، جیسی کہ اس کی گاڑی بڑی اور قیمتی ہے۔ وہ مجھے بہت چاہتا ہے اور میں نے بھی اسی وجہ سے اس کو اپنے مستقبل کا جیون ساتھی منتخب کر لیا ہے کہ ایک تو اس کی گاڑی اور کوٹھی بڑی ہے، پھر وہ مجھے چاہتا بھی ہے، وہ مجھے بہت عیش و آرام سے رکھے گا اور یقینا اس کے پاس بے شمار دولت ہے۔ میری زندگی راحت اور آرام سے بسر ہوگی ۔ ہم کالج سے گھر نہیں جاتے ، سیر کرتے ہیں کبھی مہنگے ہوٹل میں کھانا کھاتے ہیں، شاپنگ کرتے ہیں، یہ سب مجھ کو بے حد اچھا لگتا ہے۔ وہ مجھے اپنے خواب بتارہی تھی اور میں اس کی شخصیت کا یہ دوسرا پہلو پہلی بار دیکھ رہی تھی جواب تک مجھ سے چھپا ہوا تھا۔ تو کیا تم اس کی دولت سے متاثر ہو؟ ہاں مجھے دولت کی بہت چاہ ہے کیونکہ خوشیاں تو انسان کو دولت سے ہی ملتی ہیں۔ مگر مومی جان … دولت ہی تو سب کچھ نہیں ہوتی۔ میں نے کہا تو وہ مسکرا کر بولی۔ بس بس رہنے دو، اب نصیحت مت کرنا ہم کیا ہوں گے خراب ، زمانہ ہی خراب ہے۔ میں جان گئی کہ ان تلوں میں تیل نہیں ہے ، اسی لئے خاموش ہوگئی۔ خیر بھائی کی شادی ہم نے کہیں اور کر دی اور بھائی، بھابی کو لے کر بیرون ملک چلے گئے۔