Sunday, December 15, 2024

Dhoka aur Dardmandi

شاہ میراں ایک غریب لڑکی تھی جبکہ منیر خان ایک امیر شخص تھا۔ مگر محبت اندھی ہوتی ہے۔ یہ امیری اور غریبی سے ماورا ہو جاتی ہے۔ تاہم، عشق کی راہ پھولوں بھرا راستہ نہیں ہوتی، بلکہ یہ آگ کا کھیل ہے جو دل سے دل تک پہنچتی ہے۔

منیر، شادی کے بعد بھی دوستوں کے ساتھ ان محفلوں میں جاتا رہا جہاں رقص و سرود کی مجلسیں سجتی تھیں۔ جب محبت دونوں طرف برابر لگی، منیر نے شاہ میراں سے شادی کا فیصلہ کر لیا۔ لیکن لڑکی کے والدین نے اس محبت کو کلنک کہہ کر اس شادی کو ناممکن بنا دیا۔ ان کا ماننا تھا کہ شاہ میراں، جو ان کے روزگار کا ذریعہ تھی، اپنی مرضی سے زندگی نہیں گزار سکتی۔چند دنوں تک منیر اور شاہ میراں شدید غم اور مایوسی میں ڈوبے رہے۔ دونوں اس دلدل سے نکلنے کی ہمت نہ رکھتے تھے۔ نازک دل شاہ میراں کی آہوں نے منیر کے دل کو چیر کر رکھ دیا۔

منیر پہلے سے شادی شدہ اور تین بچوں کا باپ تھا۔ اس کی پہلی بیوی اس کے دل کو نہ بھائی، اور دولت کی فراوانی اسے بالا خانوں کی طرف لے گئی۔ محبوبہ کی جدائی کا غم اسے بے چین رکھتا۔ راتوں کو وہ لمبی سنسان سڑکوں پر چلتا رہتا، گویا دل کا درد قدموں کی تھکن سے کم کرنے کی کوشش کر رہا ہو۔اسی دوران، منیر کا دوست ضیاء اس کے ساتھ آ کر رہنے لگا۔ ضیاء نے اس کی حالت پر افسوس کیا اور اسے سنبھالنے کی کوشش کی۔ جب منیر نے غم مٹانے کے لیے شراب کا سہارا لیا تو ضیاء نے اسے روکا اور کہا کہ محبت وہ جذبہ ہے جو انسان کو مضبوط بناتا ہے، کمزور نہیں۔ تمہیں شاہ میراں سے شادی کے لیے لڑنا چاہیے، نہ کہ نشے میں ڈوب جانا چاہیے۔دوست کی باتوں نے منیر کو جھنجھوڑ دیا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ شاہ میراں کو ہر حال میں اپنا بنائے گا۔ تمام مخالفتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے، وہ شاہ میراں کے پاس پہنچا اور اسے کہا کہ اگر میرے ساتھ چلنا ہے تو ہر مشکل کے لیے تیار رہو، ورنہ میں یہ ملک چھوڑ دوں گا۔ پھر تمہیں میری محبت نصیب نہیں ہوگی۔شاہ میراں نے اس کی بات مان لی، اور دونوں نے نکاح کر لیا۔ نکاح کے بعد منیر نے اپنی پہلی بیوی سے علیحدگی اختیار کر لی۔

شاہ میراں کے ساتھ زندگی ایک نئی بہار لے کر آئی۔ دونوں نے ایک چھوٹا سا گھر بسایا، جسے وہ اپنی جنت کہتے تھے۔ ایک سال بعد، شاہ میراں نے ایک بیٹی کو جنم دیا، اور ان کی خوشیوں میں مزید اضافہ ہو گیا۔منیر کا گمان تھا کہ ان کی خوشیوں کو کبھی زوال نہیں آئے گا، لیکن ہر عروج کو زوال ہوتا ہے۔ ان کی مسرتوں بھری دنیا رفتہ رفتہ بدلنے لگی، اور وہ مشکلات کا سامنا کرنے پر مجبور ہو گئے۔ہوا یہ کہ ایک روز ایک بدبخت اس کے گھر آیا جو اس کا منہ بولا انکل تھا۔ وہ مشکلات اور حالات  سے تنگ آ کر منیر کے گھر آیا تھا۔ منیر نے برے وقت میں اس پر ترس کھا کر اسے سہارا دیا اور اپنے گھر میں جگہ دی۔ اس نے اس احسان کا بدلہ یوں دیا کہ منیر کا گھر تباہ کر دیا۔ اس ویرانی کے عفریت کا نام صابر تھا۔ یہ انکل ان کے چمن میں خار بن کر آگیا اور ان محبت بھرے گلابوں کے درمیان رہنے لگا۔ وہ اس چمن کی حفاظت کرنے کی بجائے، ان کے دلوں میں بھٹکنے اور انہیں زخمی کرنے لگا۔

عورت تو یوں بھی کانوں کی کچھی کہلاتی ہے، اور شاہ میراں کچھ زیادہ ہی نادان نکلی۔ اس نے بدخواہی کے اس سیلاب کو روکنے کی بجائے، محبت کو کچا گھڑا بنا کر سیلاب کے حوالے کر دیا۔ اب میاں، بیوی میں روز الجھاؤ رہنے لگا۔ منیر، میراں کو سمجھاتا، لیکن وہ نہ سمجھتی۔ یہاں تک کہ انکل صابر ان دونوں کے درمیان نفرت کا بیج بونے میں کامیاب ہو گیا۔ وہ دن بھی آگیا جب شاہ میراں روٹھ کر اپنے رشتہ داروں کے گھر چلی گئی، کیونکہ صابر کے کہنے پر منیر نے اس پر بدراہ ہو جانے کی تہمت لگائی تھی۔

ایک ماہ صبر کے بعد وہ بیوی کو لینے گیا۔ اس کے سسرال والے، جو مرضی کی شادی کرنے کی وجہ سے ابھی تک منیر کے لیے اپنے دل میں کینہ رکھتے تھے، ان کے ہاتھ موقع آ گیا۔ انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ اپنی بے عزتی کا بدلہ لے لیا جائے۔ جب وہ گھر میں داخل ہوا، تو میراں کی ماں نے داماد کا گالیوں سے استقبال کیا۔ اس کو حیرت تو بہت ہوئی جب اس کی اپنی شاہ میراں بھی پیچھے نہ رہی۔ اس نے سنا کہ منیر گالیوں کے جواب میں اس کی ماں کو برا بھلا کہنے لگا ہے، تو گلدان اٹھا کر شوہر کے کھینچ مارا۔ یہاں پھول آڑے آگئے، جو ڈھال بن گئے۔ پھول ہی گلدان سے اچھل کر منیر کے چہرے پر لگے اور گلدان ایک طرف جاپڑا۔ وہ سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ شاہ میراں سے ہی وہ چوٹ کھائے گا۔ سنگ مرمر کا بھاری گلدان تو زمیں بوس ہو گیا، مگر شاہ میراں کے گھر والوں کا حوصلہ بڑھ گیا۔ گویا وہ اسی اشارے کے منتظر تھے، اس پر ٹوٹ پڑے۔ منیر کا بازو دو جگہ سے ٹوٹ گیا اور وہ ٹوٹے ہوئے بازو اور کرچی کرچی دل کے ساتھ وہاں سے پلٹ آیا۔ وہ ایسی اوقات کے لوگ نہ تھے، سو انتقامی کارروائی نہ کی۔ بے شک سسرال میں جان بچ گئی، مگر عزت تو خاک میں مل گئی تھی۔ عزت تو اسی دن خاک میں مل گئی تھی جب اس نے ان خاک نشینوں کی لڑکی کو اپنے گھر کی عزت بنایا تھا، جبکہ میراں ایک تھیڑ میں اس لیے ناچتی تھی کیونکہ اس کی ماں بھی رقاصہ تھی۔ یہ وہ لوگ تھے جو فن کے لیے نہیں، تماش بینوں کی جیبوں سے روپیہ نکالنے کے لیے سر عام محفلوں میں ڈھل جاتے تھے اور اپنی لڑکیوں کو بھی عزت سے بیاہنے کی بجائے محفلوں کی زینت بنا دیتے تھے۔

چوٹیں کھا کر منیر اسپتال میں پڑا تھا اور اس وقت کو کوس رہا تھا جب وہ پہلی بار رقص دیکھنے شاہ نوراں کے کوٹھے پر چڑھا تھا، جو شاہ میراں کی ماں تھی۔ جانتا اگر کہ اتنی بلندی سے گرنا پڑے گا تو وہ ان رقاصاؤں کے بالا خانوں کی سیڑھیاں چڑھ کر اوپر نہ جاتا۔ سچ ہے کہ محبت کسی کو خوار کرتی ہے، مگر طوائف زادی کی محبت تو واقعتاً آدمی کو ذلیل و خوار کر ڈالتی ہے۔پہلی بیوی نے کتنا سمجھایا تھا کہ اس گھرانے سے راہ و رسم نہ رکھو۔ دوسری شادی کرنا ہے تو کسی اچھے گھرانے سے کرو، مگر وہ تو عشق کے مرض میں گرفتار تھا۔ بیوی اس کو اپنی سب سے بڑی دشمن لگتی تھی۔جب اسپتال میں تنہا پڑا تھا، انکل صابر اس کی مزاج پرسی کو آئے۔ وہ اکیلا شخص تھا جو روزانہ ان کی عیادت کو آتا تھا، حالانکہ ان کی صورت دیکھ کر منیر کے دل کے زخم ہرے ہو جاتے تھے۔ بالآخر اسپتال سے چھٹی ملی، انکل منیر کو سہارا دے کر گھر لے آئے۔ اب وہ اس کے ساتھ پوری ہمدردی کرتے تھے اور منیر دل میں کہتا تھا کہ تم نے ہی تو میرے گھر کا گھر وا کیا ہے اور میرے سکون کو تہس نہس کیا ہے۔ میں بھی کسی دن تم کو سمجھ لوں گا۔ انکل شاید اسی دن کے خواب دیکھ رہے تھے کہ منیر تنہا ہو جائے تو تیسری بار گھر بسانے کا مشورہ دیں۔اب وہ کہتے، منیر میاں! اس طوائف زادی کا خیال دل سے نکالو اور نیا گھر بسا لو، کیونکہ طوائف کبھی اچھی بیوی نہیں ہو سکتی۔ تم نے میراں کے ساتھ سنجوگ باندھ کر بڑی غلطی کی ہے۔ منیر دکھ سے کہتا، سارے خاندان میں بدنامی ہو چکی ہے۔ ایسا نہ کہو، ابھی تمہارا انکل زندہ ہے۔ کوئی تم کو گلے لگائے نہ لگائے، میں لگاؤں گا تم کو گلے، بیٹے! میری بیٹی مسرت جبیں میں کیا کمی ہے، اور کمی تو تم میں بھی نہیں ہے۔تو پھر ٹھیک ہے انکل! مگر میری ایک شرط ہے۔ آپ کو یہ شادی ایک ہفتہ میں کرانی ہو گی۔ ایسا نہ ہو کہ شاہ میراں کا بھوت پھر سے مجھ کو چمٹ جائے۔انکل تو اسی گھڑی کے انتظار میں تھے۔ سرپٹ دوڑ پڑے اور ہفتہ میں اپنی بیٹی کو منیر میاں کے نکاح میں لے آئے، یہ سوچے بغیر کہ اس شخص کی ایک پہلی بیوی اور تین بچے بھی ہیں۔

شادی کی رات ہی مسرت جبیں نے منیر احمد خان کو آگاہ کر دیا کہ وہ ہر گز اس سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی کیونکہ وہ اپنے ہمسایہ لڑکے کو چاہتی تھی اور اس سے شادی کرنا چاہتی تھی، مگر اس کے والد نے یہ منصوبہ بنایا تھا کہ کسی طرح شاہ میراں کو بدگمان کر کے آپ میاں، بیوی کے درمیان دراڑ ڈال کر جدائی ڈالیں اور پھر میری شادی آپ سے کرا دیں، کیونکہ ان کو آپ کی دولت کا لالچ تھا۔ جبکہ وسیم جس سے میں پیار کرتی ہوں اور شادی کرنا چاہتی تھی، وہ متوسط گھرانے کا لڑکا ہے۔ مجھ کو اس شادی کا اتنا رنج ہے کہ سوچ لیا تھا کہ تمام حقیقت آپ کے گوش گزار کر دوں گی۔ اب آپ کی مرضی، شادی کا بندھن رکھیں یا نہ رکھیں، مجھ کو کوئی ملال نہ ہو گا۔ یہ مسرت نے منیر سے کہا۔ گویا دوسرے معنوں میں وہ مہذب طریقے سے طلاق مانگ رہی تھی۔منیر نے صبح ہوتے ہی عدالت جا کر طلاق کے کاغذات تیار کروائے اور جب انکل صابر بیٹی کے نام کو بھی کر دینے کا مطالبہ لے کر اس کے پاس آئے تو منیر نے یہ کاغذات اس کے ہاتھوں میں تھما کر کہا، انکل! نہ تو مجھے کسی قسم کے جہیز کا لالچ تھا، ورنہ آپ کی ہی کو، میری کو بھی کلائی ہے، اس کو جو چیز چاہے وہ میں اس کو اس کی خوشی کے لیے دے رہا ہوں۔ اب اس پر آپ خوش ہیں یا ناخوش، میں نہیں جانتا، لیکن اس کو قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیں۔ میں جانتا ہوں کہ آپ نے ہی شاہ میراں پر تہمت دھر کے مجھ کو اس سے اور اس کو مجھ سے بدگمان کیا اور ہم میں دوریاں پیدا کیں، جبکہ ہم دونوں بزرگ جان کر آپ پر بھروسا کرتے رہے۔

یہ واقعہ منیر نے اپنے دوست ضیاء کو بتایا تو وہ بھی دکھی ہو گیا کہ یہ کیا ہو گیا۔ کیا خبر کہ شاہ میراں بے گناہ ہو اور اس پر صابر نے ناحق تہمتیں لگائی ہوں تاکہ شوہر کا دل اس سے برا ہو اور ان میں جدائی پڑے۔ گھر برباد ہو جائے، سو ایسا ہی ہو گیا۔ انکل کی بیٹی مسرت کو صرف ایک رات کے بندھن کے بعد طلاق ہو گئی تھی۔ اس کا دکھ اپنے پرائے سبھی کر رہے تھے۔ وہ منیر کو برا بھلا کہہ رہے تھے، جبکہ منیر کہہ رہا تھا کہ جیسا انکل صابر نے کیا، اپنی نیت کے مطابق پایا۔ اب اپنی بیٹی کو گھر بٹھائے اور آنسو بہائے۔ یہ میراں کے گھر کو برباد کرنے کی سزا ہے۔ یاد رکھیے گا کہ کسی کا گھر اُجاڑنا اچھی بات نہیں ہوتی۔ وہ یہ بات اب اچھی طرح سمجھ چکا تھا۔سارا جگ منیر سے ناراض تھا، سبھی نے اسے ظالم کہا۔ اس نے بھی اپنے دل کے کان اور آنکھوں کے جھروکوں کو بند کر لیا۔ اب وہ تھا یا اس کا دل، دیوانہ جسے میراں سے محبت تھی۔

ایک دن اچانک ایک دوست کی شادی میں اس کا سامنا میراں سے ہو گیا۔ وہ وہاں رقص کرنے کو لائی گئی تھی۔ منیر نے اسے کہا،  خدا کے لیے میراں! تم یہ راستہ چھوڑ دو اور شرافت کی زندگی میں واپس لوٹ آؤ۔ نہ تو خود کو تباہ کرو، نہ مجھے برباد کرو۔ تم جانتی ہو کہ تمہارے بغیر میرا گھر اور زندگی دونوں سونے ہیں۔ تم بھی ویران دل ہی رہو گی میرے بغیر! پھر دنیا میں اتنی ویرانیاں سمیٹنے سے کیا حاصل جبکہ زندگی مختصر سی ہے۔میں تو کیا، تیسری بیوی بھی تیرا گھر آباد نہیں کر سکی۔ اب جاؤ اور پہلی بیوی کو مناؤ، اور اسی سے گھر کو آباد کرو۔ وہ تمہارے خاندان سے ہے، شریف زادی ہے اور تمہاری اولاد کی ماں بھی ہے۔ میرا جو مقام تھا، میں وہاں پر ہوں، اور تمہاری پہلی بیوی کا جو مقام ہے، وہ اس کو دے دو۔ اسی میں تمہاری بھلائی ہے۔ تم مجھے تنگ نہ کرو۔میراں نے کہا، ایسا نہ ہو کہ تمہاری جدائی میں میں ساری دنیا کے باغ اجاڑ دوں۔ دل میں اندھیرا ہو جائے تو آدمی قدم قدم پر ٹھوکریں کھانے لگتا ہے۔ اب میری بیٹی تم نے مجھ سے جدا کر دی ہے، اس کے بغیر بھی میرے دل میں اندھیرا ہو گیا ہے۔ تو یہ بات ہے۔منیر نے کہا، ٹھیک ہے، میں تمہاری بچی تم کو واپس دے دیتا ہوں، اس یقین کے ساتھ کہ تم اس کو اپنی پہلی بیوی کے ہاتھوں میں ہی سونپوں گے۔ وہ اس کی اچھی پرورش اور دیکھ بھال کرے گی، تو میں دل پر صبر کی سل رکھ لوں گا۔منیر کے لیے یہ سودا برا نہ تھا۔ اس نے بچی کے بدلے یہ وعدہ کیا کہ وہ لوٹ کر پہلی بیوی کے پاس چلا جائے گا اور میراں کی زندگی میں واپس نہیں آئے گا۔ میراں چاہتی تھی کہ اس کی بیٹی غلط ماحول میں نہ رہے۔ وہ تو برباد ہو ہی چکی تھی اور اب اپنے نام نہاد گھرانے کے بس میں تھی، مگر وہ بچی کے مستقبل کو بچا سکتی تھی۔ اس کے اندر ایک اچھی روح تھی، اسی وجہ سے اس نے بیٹی کی جدائی سہہ لی اور بیٹی کو منیر کو واپس کر دیا۔

منیر نے اپنی پہلی اور خاندانی بیوی کو پھر سے قبول کر لیا۔ اس کے پاس رہنے سہنے لگا، جس نے میراں کی بیٹی کی بہت اچھی طرح پرورش کی اور اس کو اپنی اولاد سے بڑھ کر پیار دیا۔ اب منیر کو وہ بری نہیں لگتی تھی۔ اس میں وہ بات تھی جو باقی عورتوں میں نہ تھی۔ منیر نے نشہ چھوڑ دیا تھا، وہ اب غلط جگہوں کا بھی رشتہ نہ رہا تھا۔ اس نے باور کر لیا کہ پہلی بیوی ہی اس کی اصل جیون ساتھی ہے، جس نے نہ صرف اس کی عزت کی ہمیشہ پاسداری کی، بلکہ اس کی اولاد کی بھی صحیح تربیت کی اور میراں کی بیٹی کو بھی غلط ماحول میں پرورش پانے سے بچا لیا۔

Latest Posts

Related POSTS