Tuesday, March 18, 2025

Dhokay Ki Haqiqat

میں سترہ سال کی تھی جب یہ واقعہ پیش آیا۔ اگرچہ میں اسے بھلا دینا چاہتی ہوں، مگر کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جو آپ کی زندگی اور ذہن پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔ آپ چاہیں بھی تو انہیں بھلا نہیں سکتے۔میرا نام کنول ہے۔ میں ایک خوشحال گھرانے سے تعلق رکھتی ہوں۔ ہم تین بہنیں ہیں۔ ایک کی شادی ہو چکی ہے، جبکہ باقی دو کی شادیاں ہونا باقی تھیں۔ جب میں فرسٹ ایئر میں تھی، مجھے چیٹنگ کا بہت شوق تھا۔ میں سوچتی تھی کہ کیا پتا میرا آئیڈیل کہیں کمپیوٹر پر ہی مل جائے۔ میں آن لائن گیمز کھیلتی تھی، جن میں شطرنج بھی شامل تھا۔ مجھے چپس کھیلنے میں بہت مزا آتا تھا، کیونکہ وہاں چیٹ بھی کر سکتے تھے، حالانکہ مجھے چیس کھیلنا نہیں آتی تھی، مگر میں چیٹ کرنے کی خاطر کھیلتی تھی۔ ان دنوں مجھے ذرا بھی عقل نہیں تھی۔ایک دن میں نے ایک لڑکے سے چیٹنگ شروع کی۔ اس کا نام سعد تھا۔ اس نے مجھے سلام کیا، میں نے سلام کا جواب دیا، پھر اس نے پوچھا کہ آپ کہاں رہتی ہیں؟ یوں ہماری گفتگو کا آغاز ہوا۔ میں نے اسے ایم ایس این پر ایڈ کر لیا۔

یہ رمضان المبارک کا مہینہ تھا۔ وہ کینیڈا میں رہتا تھا۔ اس کی ایک بہن اور ایک بھائی تھا۔ وہ مجھے وقت بتاتا اور میں اسی وقت روزانہ آن لائن ہو جاتی۔ آپ لوگ سمجھ رہے ہوں گے کہ میں یہ سب چھپ کر کر رہی تھی، مگر ایسی بات نہیں تھی۔ میری بہن، جن کی شادی ہو چکی تھی، انہیں معلوم تھا کہ میں کسی لڑکے سے چیٹنگ کرتی ہوں۔سعد مجھ سے بہت قریب ہوتا گیا۔ کوئی دن ایسا نہ ہوتا تھا جب ہم چیٹ نہ کرتے ہوں۔ پھر ہم ایک دوسرے کو ای میلز بھی بھیجنے لگے۔ ایک دن سعد بہت سنجیدہ تھا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کنول، تم کسی کو پسند کرتی ہو؟ میں نے کہا، ہاں۔ پھر میں نے یہی سوال اس سے کیا تو اس نے بتایا کہ وہ ایک لڑکی کو پسند کرتا تھا، مگر اب اس کی شادی ہو چکی ہے۔ میں نے افسوس کا اظہار کیا۔تھوڑے عرصے میں مجھے محسوس ہوا کہ سعد مجھ میں دلچسپی لینے لگا ہے۔ وہ ہر روز کوئی نہ کوئی کارڈ بھیجتا۔ میں بھی اس کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے لگی تھی۔ وہ کہتا تھا، میں خوش نصیب ہوں کہ مجھے تم جیسی معصوم اور صاف ذہن کی لڑکی ملی ہے۔ ایک دن اس نے مجھے بتایا کہ اس کی بہن کی شادی پاکستان میں ہوگی۔ وہ بہت خوش تھا کہ یوں ہم مل سکیں گے۔میرے گھر والوں کو معلوم ہو چکا تھا کہ میں سعد کا انتظار کر رہی ہوں، جبکہ اس نے میرے بارے میں اپنی ایک بہن کے سوا کسی کو کچھ نہیں بتایا تھا۔ ایک دن وہ آن لائن آیا۔ آج وہ کچھ زیادہ ہی سنجیدہ تھا۔ کہنے لگا، میں تمہیں اپنے گھر کی عزت بنانا چاہتا ہوں۔ میری خوشی کی انتہا نہ رہی کہ وہ مجھے پروپوز کر رہا تھا اور وہی شخص تھا جسے میں بھی اپنے جیون ساتھی کے روپ میں دیکھنا چاہتی تھی۔ میں نے یہ بات فوراً اپنی بہن کو بتائی تو انہوں نے سعد سے فون پر بات کی۔دن آہستہ آہستہ گزر رہے تھے۔ ہماری چاہت بڑھتی جا رہی تھی۔ سعد نے بتایا کہ وہ دبئی جا رہا ہے۔ پھر وہ دسمبر میں دبئی چلا گیا، جہاں ہماری چیٹنگ کم ہو گئی۔ اس نے بتایا کہ اس کی بہن کی شادی پاکستان کے بجائے دبئی میں ہوگی۔ ہم دونوں اداس ہو گئے کہ اب کیا ہوگا، لیکن پھر میں نے سب کچھ اللہ پر چھوڑ دیا۔ اس کی بہن کی شادی ہو گئی۔ ان دنوں مجھے محسوس ہونے لگا کہ وہ مجھے نظر انداز کر رہا ہے۔ میں نے اپنے اس خدشے کا اظہار بھی کیا تو اس نے کہا، کنول، ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ میں بس بہت مصروف ہوں۔ایک دن اس نے مجھ سے کہا کہ یہاں سب گھر والے پوچھ رہے ہیں کہ کیا مجھے کوئی لڑکی پسند ہے، تو میں انہیں بتا دوں۔ وہ مجھ سے میری تصویر مانگ رہا تھا۔ میں خوش ہو گئی اور ایک تصویر اسکین کرکے بھیج دی۔ پھر میری امی نے بھی اسے فون کیا اور کہا، بیٹا، میں کنول کی تصویر بھیج رہی ہوں، آپ اپنے گھر والوں کو دکھا دیجیے گا۔ اس نے جواب دیا، آپ بے فکر ہو جائیں، میری نیت صاف ہے۔کافی دن گزر گئے۔ جب میں تصویر کی بات کرتی، سعد بات گول کر جاتا۔ امی کو شک ہونے لگا کہ اتنے دن گزرنے کے باوجود اس نے تصویر اپنے گھر والوں کو کیوں نہیں دکھائی؟ میری بہن نے بھی اسے ای میل کی۔ وہ بولا کہ اس کے گھر میں کچھ پریشانیاں چل رہی ہیں۔ تب باجی کہنے لگیں، کنول، یہ معاملہ شفاف نہیں لگ رہا۔ مجھے دال میں کچھ کالا نظر آ رہا ہے۔ سیدھی بات کہوں تو یہ لڑکا ٹھیک نہیں لگ رہا۔ مگر میں ایسی کوئی منفی سوچ ذہن میں نہیں لانا چاہتی تھی۔بالآخر حقیقت سامنے آ گئی۔ سعد میری طرح کسی اور لڑکی کے ساتھ بھی یہی کھیل کھیل رہا تھا۔ یہ بات مجھے اس وقت معلوم ہوئی جب میری چیٹنگ دیا سے ہوئی۔

سعد مجھ سے شادی کی جو باتیں کرتا تھا، وہی باتیں اس نے دیا سے بھی کی تھیں۔ یہ وہی لڑکی تھی، جس کے بارے میں سعد نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ کسی لڑکی کو پسند کرتا تھا مگر اب اس کی شادی ہو چکی ہے۔ حقیقت میں دیا کی شادی نہیں ہوئی تھی۔سعد نے دیا کو بھی میرے بارے میں بتایا ہوا تھا، مگر جھوٹ بولا تھا کہ کنول نام کی ایک لڑکی میرے پیچھے پڑی ہوئی ہے، حالانکہ ایسا کچھ نہیں تھا۔ سعد نے خود مجھے پروپوز کیا تھا۔ دیا نے بتایا کہ سعد نے اسے یہ کہہ کر چھوڑ دیا تھا کہ اس کی منگنی اس کی کزن سے ہو گئی ہے۔ وہ بیچاری بھی اپنی چاہت کے زخم سہلا رہی تھی۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا سچ تھا اور کیا جھوٹ۔ یہ تو اللہ ہی جانتا ہے، مگر میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ وہ اتنا دھوکے باز ہوگا۔اس کا اندازہ مجھے بعد میں ہوا جب میری چیٹنگ سعد کی کزن سے ہوئی۔ اس نے بتایا کہ سعد دیا کو پسند کرتا ہے اور اس سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ یہ سن کر میں سخت ڈپریشن کا شکار ہو گئی۔ میرا یہ حال ہو گیا کہ میرے گھر والے میری حالت دیکھ کر روتے تھے۔ نہ میں کھاتی تھی، نہ پیتی تھی آخرکار، غصے میں آ کر میں نے کینیڈا میں اس کے گھر فون کر دیا اور اس کی ماں کو سب کچھ بتا دیا کہ آپ کا بیٹا کیا کر رہا ہے اور اس نے میرے ساتھ کیا کیا ہے۔ اس نے میری والدہ اور بہن کو شادی کا یقین دلا کر میری تصویر بھی منگوائی تھی۔ مگر اس کی والدہ بجائے اپنے بیٹے کی غلطی تسلیم کرنے یا معذرت کرنے کے، الٹا مجھ پر الزام لگانے لگیں۔ بے شک غلطی میری بھی تھی، مگر وہ مجھے ہی قصوروار ٹھہرا رہی تھیں۔میری پڑھائی کا ایک سال بھی اسی چکر میں ضائع ہو گیا۔ تعلیم چھوٹ گئی۔ اب سوچتی ہوں کہ چیٹنگ کرکے کہاں پھنس گئی تھی۔ امتحان سر پر تھے، مگر میری یہ حالت تھی کہ امتحان دینے کے قابل نہ تھی۔ گھر والوں نے کہا کہ چھوڑ دو امتحان، زندگی ہے تو سب کچھ ہے۔ پہلے اس ذہنی صدمے سے نکلو، پھر سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ یہ وقتی بات ہے۔لڑکیاں ذہنی طور پر کسی کو اپنا سمجھ کر باتیں کرتی ہیں۔ باتوں باتوں میں گھریلو معاملات اور دل کا حال بتا بیٹھتی ہیں، پھر پریشان ہوتی ہیں، اور بعض اوقات تو بلیک میل بھی ہو جاتی ہیں۔ شکر ہے، میں نے کوئی ایسا گھریلو احوال نہیں دیا تھا کہ وہ مجھے بلیک میل کر سکتا، مگر اپنی ذات کے ٹھکرائے جانے کا غم، اپنی اہانت کا دکھ، اور سب سے بڑھ کر یہ احساس کہ کوئی ہمیں بیوقوف بنا رہا تھا، دھوکہ دے رہا تھا، ہمیں بے وقعت سمجھ کر کھیل رہا تھا، یہ سب باتیں بہت تکلیف دہ تھیں۔ خاص طور پر ان لڑکیوں کے لیے، جو اپنے اندر سچائی رکھتی ہیں۔مجھے بھی ایسی ہی ایک صورتحال سے گزرنا پڑا، اور میری درد بھری کہانی صرف وہی لڑکیاں سمجھ سکتی ہیں، جو اپنے جذبات میں سچی ہوں اور پھر یکایک انہیں معلوم ہو کہ ان کی سچائی کو مٹی میں ملا دیا گیا ہے۔ میں بیمار پڑ گئی، مگر اس لیے نہیں کہ میری شادی نہیں ہو پائی، بلکہ اس لیے کہ میں نے جس شخص کو اپنے تخیلات کے آسمان پر بٹھایا تھا، وہ مٹی کا ڈھیر نکلا۔

میری آنکھ نے دھوکا کھا لیا تھا۔ دکھ یہ نہیں تھا کہ سعد مجھے نہ ملا، بلکہ یہ تو اچھا ہوا کہ مٹی کا ڈھیر میرے دامن میں نہ گرا۔ دکھ تو اس بات کا تھا کہ میری تعلیم ادھوری رہ گئی۔ وہ لڑکی جو مستقبل میں ڈاکٹر بننے کے خواب دیکھ رہی تھی، اپنی ذات کی ستائش میں پڑ کر ملیامیٹ ہو گئی۔ نہ اِدھر کی رہی، نہ اُدھر کی۔گھر والے سمجھاتے تھے کہ چھوڑو، وہ ایک دھوکے باز تھا، اچھا ہوا وقت پر پتا چل گیا۔ مگر میں خود کو الزام دیتی کہ آخر میں نے اسے کیوں نہ پہچانا۔ جب باجی کہتی تھیں کہ کنول، وہ صحیح لڑکا نہیں ہے، تو میں نے ان کی فراست پر یقین کیوں نہ کیا۔ امی اور باجی سعد کو بددعائیں دیتیں کہ جیسے اس نے کیا، ویسا ہی اس کی بہنوں کے ساتھ ہو۔ میں انہیں روکتی کہ ایسا نہ کہیے۔ کسی نے فراڈ تب ہی کیا جب ہم نے اس پر اعتبار کیا۔ پھر ہم نے کسی پر اعتبار ہی کیوں کیا۔امی کہتی تھیں کہ اگر اس نے تم سے شادی نہیں کرنی تھی، تو تمہیں پروپوز کیوں کیا۔ میں نے کہا کہ امی، آپ ماں بن کر سوچتی ہیں، زمانے کی آنکھ سے بھی دیکھیے۔ اس میں میرا بھی کتنا قصور ہے۔ اس پر تو کوئی فرق نہیں پڑ رہا ہوگا، وہ اب بھی لڑکیوں کو بے وقوف بنا رہا ہوگا، مگر اللہ کا شکر ہے، میں اس کے جال سے جلد نکل گئی۔میری دعا ہے کہ خدا ایسے لڑکوں اور مجھ جیسی لڑکیوں کو ہدایت دے۔ لڑکے سیدھی راہ اختیار کریں اور لڑکیاں بھی۔اب امی کہتی تھیں کہ تمہارے ماموں کا لڑکا کیا برا تھا، جس کا رشتہ تم نے ٹھکرا دیا۔ وہ تمہیں سچائی کے ساتھ پسند کرتا تھا۔ اس کے والدین کتنی چاہت سے تمہیں بہو بنانا چاہتے تھے، اور تم نے اسے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ وہ گاؤں سے آیا ہوا ہے، پینڈو ہے۔ حالانکہ گاؤں کے سادہ ماحول میں پرورش پانے اور وہاں کے اسکول میں پڑھنے کے باوجود اس نے یہاں ایک بہترین تعلیمی ادارے میں داخلہ لیا۔ تو کیا ایسے لڑکے ترقی نہیں کرتے۔ ایسے لڑکے ہی سچے ہوتے ہیں اور اسی لیے ترقی کرتے ہیں کہ انہیں محنت اور دیانت پر بھروسہ ہوتا ہے اور وہ اپنی راہیں خود بناتے ہیں۔امی نے پوچھا کہ اب بتاؤ، تمہارا کیا خیال ہے۔ تب میں نے سر جھکا لیا اور کہا کہ امی جان، ابو اور آپ کا فیصلہ مجھے قبول ہے۔ آپ کے فیصلے زیادہ وقعت رکھتے ہیں کیونکہ ان میں زندگی بھر کا تجربہ ہوتا ہے۔ ہم بچے ناسمجھ اور ناتجربہ کار ہیں، ہر چمکتی شے کو سونا سمجھ لیتے ہیں۔آج میں اپنے ماموں زاد، راحیل، کے ساتھ خوش و خرم اور کامیاب ازدواجی زندگی گزار رہی ہوں۔ میری تمام لڑکیوں کو یہی نصیحت ہے کہ ایسے لڑکوں پر بالکل بھروسہ نہ کریں، جن کے خاندان کا پتا نہ ہو، چاہے وہ امریکہ میں رہتے ہوں یا کینیڈا میں۔ ایسے لڑکوں سے دور رہیں جو آپ کی بہت زیادہ تعریف کرتے ہوں، کیونکہ جھوٹی تعریف وہی کرے گا، جس کا آپ سے کوئی مطلب ہو۔ایک اور بات کہنا چاہوں گی کہ نیٹ پر اپنی تصویر بالکل نہ بھیجیں، اسی میں آپ کی بھلائی ہے، ورنہ میری طرح دکھ اور خجالت سے دامن بھرے گا، پھر کوئی نصیحت کام نہ آئے گی، آنسوؤں کے سوا۔

Latest Posts

Related POSTS