Thursday, February 13, 2025

Dhoke Ki Lakeerain

جب قسمت کے ستارے پلٹ جاتے ہیں، ہاتھوں کی لکیروں میں بدلا تو آنے لگتا ہے۔ اوج پر جاتے انسان بھی منہ کے بل گر پڑتے ہیں، تبھی انسان اپنی حیثیت کا اندازہ لگا کر صبر واستقامت کی دعا مانگتے ہیں۔ نادانی میں دل کو ٹھیس لگ جائے تو بھی ہم قسمت کو قصور وار ٹھہراتے ہیں۔ تاہم یہ بات صحیح نہیں۔ کیوں ہم کٹھ پتلی جیسے دوسروں کی انگلیوں میں اپنی ڈوریں تھما دیتے ہیں کہ جب تک ان کا جی چاہے کھیل لیں، پھر وہ اس ڈور کو توڑ کر چلتے بنیں۔ دنیا میں بے سکونی کی اصل وجہ یہ ہے کہ آدمی کے کئی روپ ہوتے ہیں۔ مرد کاروپ ایک باپ، بھائی، بیٹا، شوہر … یہ سب بہت قابل احترام رشتے ہیں۔ اگر یہ رشتے تکلیف پہنچائیں تو ان کو معاف کرنے کا پورا اختیار ہے۔ کبھی کبھی جب اپنوں کی زیادتیاں حد سے بڑھ جاتی ہیں، خاموشی سے رشتے توڑنے کا اختیار بھی ہم ہی کو ہوتا ہے۔ خون کے رشتے تو پھر خصوصی طور پر رعایت طلب ہوتے ہیں لیکن سماجی رشتوں میں بھی اخلاقی اقدار کا پاس رکھنا ضروری ہوتا ہے جیسے کہ استاد اور شاگرد کارشتہ کہ جن کو پہلے زمانے کی کہاوت کے باوصف ماں، باپ کا درجہ دیا جاتا تھا۔ میں بھی اپنے شفیق استاد ظاہر صاحب کو روحانی باپ کا درجہ دیتی تھی، انہیں عظیم سمجھتی تھی۔ دل سے احترام کرتی تھی کہ انہوں نے مستقبل بنانے میں میری مدد کی تھی۔ وہ مجھے فری ٹیوشن پڑھاتے رہے تھے لیکن پھر ان کی شخصیت کا ایک ایسا پہلو سامنے آگیا کہ ان کی عظمت کا بھرم باقی نہ رہا۔ یقین کی شکست کا صدمہ مجھے تار تار کر گیا اور حالات ایسے موڑ پر لے آئے کہ جہاں آگے ریگزار کے سوا کچھ نہ تھا۔ پہلے زمانے کی کہاوت کہ اساتذہ ماں، باپ کی جگہ ہوتے ہیں، بوسیدہ لگی۔ آج زمانہ بدل گیا ہے ۔ ہر کسی پر بھروسہ کرنا بے وقوفی کے سوا کچھ نہیں۔ کوئی اتفاق کرے یا نہ کرے، بات تو سبھی اپنے تجربے کی روشنی میں کرتے ہیں اور ہر کوئی اپنے ہی تجربات سے نتائج اخذ کرتا ہے۔ سو، میرا خیال یہی ہے کہ استاد، شاگرد پر میلی نظر ڈال سکتے ہیں۔ کسی وجہ سے مجھے کالج کو عارضی طور پر خیر باد کہنا پڑا تو بہتر مستقبل کی خاطر ایک انسٹی ٹیوٹ ہیں آئی کہ کسی صورت مستقبل سنوارنا ہے اور والدین کا سہارا بننا ہے۔ مذکورہ ادارے کی بہت شہرت تھی۔ مہنگائی کے اس دور میں گھر سے دور روزانہ کا سفر طے کر کے تعلیم حاصل کرنا اور ہر ماہ بھاری ٹیوشن فیس کی ادائیگی ہم جیسے سفید پوش لوگوں کیلئے ایک امتحان ہی تو تھا لیکن اس کے سوا چارہ نہ تھا۔ یہ حقیقت بھی جانتی تھی کہ کسی اچھے ادارے کو جوائن کئے بغیر اندھیرے راستوں پر روشن مستقبل کی مشعل کا جلنا مشکل ہے۔

اچھے اداروں میں داخلہ نہ لے سکنے کے باعث ہزاروں ذہین طلبہ اپنی ذہانت کے خزانے کے ساتھ مٹی میں مل گئے۔
اگر ذہانت ہے اور سفارش نہیں ہے تو پھر آپ کو ٹاپ کلاس طالب علم ہونا چاہئے۔ والدین کے پاس مجھے اعلیٰ اداروں میں تعلیم دلوانے کو بھاری رقم نہ تھی۔ انہوں نے بڑے پاپڑ بیل کر داخلہ فیس کا بندوبست کیا اور انہی واقف کار پروفیسر صاحب کی سفارش سے بہت دقتوں کے بعد اچھے ادارے میں داخلہ مل گیا۔ میں خود کو ایک خوش قسمت ترین لڑکی سمجھنے لگی جو غربت کی ظلمت سے نکل کر کامیابی کے زینے کی پہلی سیڑھی طے کرنے جارہی تھی۔ یہ ایک ایسا جانا مانا ادارہ تھا کہ جہاں طالب علموں کو خصوصی توجہ سے روشن مستقبل کی جانب گامزن ہونے میں مدد دی جاتی تھی، صحیح سمت میں رہنمائی کی جاتی تھی، اساتذہ قابل اور اچھے تھے۔ میری کلاس کے جو استاد تھے ،ان کے بھی نام کا ڈنکا بجتا تھا۔ یہ تھے سر ظاہر صاحب اور میڈم مہناز .. دونوں ہی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اچھے گھرانوں سے تھے۔ کلاس روم کے ساتھ ہی ان کو آفس ملا ہوا تھا۔ اگر کوئی طالب علم کی تو تعلیمی الجھن یا مسئلے ۔ کے بارے میں ان سے رابطہ کرنا چاہتا تو کلاس کے بعد ٹیوشن آفس میں ان سے سوال سمجھ سکتا تھا۔ یہ دونوں کمال شفقت سے ہم کو علیحدہ سے بھی پڑھا اور سمجھا دیتے تھے۔
شروع میں ان کی شخصیت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ بالآخر یہ لوگ عام لوگوں جیسے ہی ثابت ہوئے۔ میں فطر تاثر میلی تھی۔ نہ لوگوں سے اتنا تکلف برتتی کہ مغرور کہلائوں اور نہ اتنی گھل نی گھل مل جاتی کہ زمانہ میرے بارے غلط سوچنے لگے۔ میں کلاس فیلوز کے علاوہ اساتذہ سے بھی حد فاصل قائم رکھتی تھی لیکن ظاہر صاحب غالباً فطر ت دوستانہ رویہ رکھتے تھے۔ وہ اپنے شاگردوں خصوصاً لڑکیوں سے بلا تکلف باتیں کرتے ۔ ان کی اپنی خاتون کو لیگ میڈم مہناز سے بھی بڑی بے تکلفی تھی۔ یہ محترمہ چالیس بیالیس کے سن کی تھیں جبکہ موصوف خود پچاس برس کے قریب ہوں گے۔ خوشحالی کے باعث دونوں اپنی عمروں سے کم نظر آتے تھے۔ جلد ہی بزرگوار ظاہر صاحب اور میڈم مہناز کی دوستی منگنی کے رشتے میں بدل گئی۔ مجبوری کے سبب ان کی شادی میں ایک سال کی تاخیر ہو گئی۔ پروفیسر ظاہر صاحب کی ایک عزیزہ میری کلاس فیلو تھی۔ میری اس سے دوستی تھی، وہی ان کے بارے خبریں دیا کرتی تھی۔ اس لڑکی کا نام رمشا تھا۔ ایک بار اس نے بتایا کہ سر ظاہر تم کو بہت پسند کرتے ہیں۔ وہ ہمارے گھر آتے ہیں تو تمہارا بہت ذکر کرتے ہیں۔ مجھ سے بھی تمہارے بارے میں پوچھتے ہیں۔ لگتا ہے تم سے عشق ہو گیا ہے۔ میرا امیج جو اپنے محترم استاد کے بارے تھا، متزلزل ہوتا گیا۔ کیا۔ کسی کو عظیم سمجھ کر اس کی تعظیم کرو اور پھر آپ کے یقین کو یقین کو شکست ہو جائے تب صدمہ تو ہوتا ہے۔ میں ایک محنتی طالبہ تھی، تبھی اساتذہ میں تو قیر تو قیر پاتی تھی، وہ میرے گرویدہ ہو جاتے ۔ یہ الگ بات تھی مگر جس انداز کی پسندیدگی کا ذکر رمثانے کیا، یہ اچنبھے کی وجہ ضرور بنی۔

بظاہر تو یہی دیکھا کہ ظاہر صاحب ہمہ وقت مہناز کی طرف متوجہ ہوتے۔ جب کسی کام سے ان کے آفس جانا ہوتا، کلاس کے بعد کوئی سوال سمجھ میں نہ آتا، علیحدہ سے رہنمائی لینے کی ضرورت پڑتی، ان کے دفتر جاتی۔ وہ مہناز سے باتوں میں اس قدر محو ہوتے کہ ہماری آمد کو نظر انداز کر دیتے۔ ہم دیر تک ان کی توجہ کے منتظر کھڑے رہتے اور ان کی گفتگو کا سلسلہ نہ ٹوٹتا۔ ان دونوں کو اس امر کا قطعی احساس نہ رہتا کہ طالب علم دیر سے ان کی توجہ کے منتظر کھڑے ہیں، ان سے بات کرنے کیلئے انتظار کر رہے ہیں۔ یہ کسی کی پروا کئے بغیر ایک دوسرے کی ذات میں گم رہتے۔ اس رویئے سے بد دل ہونے لگی۔ جی چاہتا کہ ادارہ چھوڑ دوں مگر کیا کرتی مجبوری تھی۔ مالی حالات اس کی اجازت نہ دیتے تھے اور اچھے ادارے میں داخلہ ملنا آسان نہ تھا۔ میرا گھر بھی شہر کے آخری سرے پر تھا۔ مجھے تو شہر تک آنے کی مسافت ہی مارے ڈالتی تھی۔ سر ظاہر صاحب سے میں نے کلاس میں سوال پوچھنا اور بولنا چھوڑ دیا۔ گم صم بیٹھی رہتی، شاید ظاہر صاحب نے محسوس کر لیا کہ میں کسی ذہنی الجھن میں ہوں۔ وہ میری جانب توجہ کرنے لگے کیونکہ پہلے کلاس میں سب سے زیادہ سوال میں ہی کرتی تھی۔ انہوں نے مجھے آفس میں بلایا اور وجہ دریافت کی۔ میں نے بتادیا کہ آپ مصروف ہوتے ہیں اور کچھ سوال مجھے سمجھ نہیں آرہے۔ گھر میں بھی پڑھائی میں مدد دینے والا کوئی نہیں، ٹیوشن نہیں رکھ سکتی۔ کیا کروں اچھے نمبر لا نمبر لانا چاہتی ہوں۔ بولے ، آپ کو جب پڑ کو جب پڑھائی میں کو کوئی پرابلم ہو ، آفس آکر سمجھ جایا کریں، میں توجہ دوں گا۔ اب آپ کو شکایت نہ ہو گی۔ اس کے بعد وہ میری جانب خصوصی توجہ کرنے لگے ۔ ایک روزان کی عزیزہ رمشا نے بتایا کہ مہناز اور سر ظاہر کے درمیان جھگڑا رہنے لگا ہے اور اس کی وجہ تم ہو۔ میں وجہ ہوں ؟ حیران رہ گئی۔ کیسے ؟ یہ تو نہیں بتا سکتی مگر ان کی منگنی ٹوٹنے کا خطرہ ہے۔ اس عمر میں منگنی ہونا ہی ایک معجزہ تھا اور پھر اس کا ٹوٹ جانا بہت افسوسناک بات تھی لیکن وہی ہوا جور مشا نے بتایا تھا۔ خبر اڑ گئی کہ پروفیسر ظاہر صاحب اور میڈم مہناز کی منگنی ٹوٹ گئی ہے۔ میں سوچ میں پڑ گئی کہ اتنی گہری لگاوٹ کہ یہ گھنٹوں منگیتر سے باتیں کرتے تھے اور اب منگنی ٹوٹ گئی ہے۔ ایک روزر مشا سے پوچھا۔ تم کو قسم ہے سچ بتادو کہ منگنی کیوں ٹوٹی ہے ؟ وہ بولی۔ جب سے تم کو پسند کرنے لگے ہیں، ان کو مہناز میں کشش نظر نہ آتی تھی۔ اس کا اظہار بھی انہوں نے میڈم سے کر دیا کہ وہ تم کو پسند کرنے لگے ہیں اور ان کے ساتھ شادی سے معذرت
خواہ ہیں۔

یہ بات تو میں نے محسوس کر لی تھی کہ وہ مجھ میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ ان کے انداز سے ، ڈھکے چھپکے الفاظ اور ذو معنی جملوں سے۔ میں کوئی چھوٹی بچی نہ تھی کہ اشاروں کی زبان نہ سمجھ پاتی، ذو معنی جملوں سے معنی اخذ نہ کر سکتی لیکن ایک سلجھے ہوئے گھرانے سے تعلق رکھتی تھی جہاں بیٹیوں کو ہر حال میں ماں، باپ کی عزت کا پاس رکھنا سکھایا جاتا ہے۔ تبھی سوچا کہ کسی کو بتائے بغیر، کسی کو مورد الزام ٹھہرائے بغیر یہ ادارہ چھوڑ دوں، پھر والدین کی غربت اور بے بسی کا خیال آجاتا جن کا کوئی بیٹا نہ تھا، میں ہی بڑی بیٹی تھی اور باقی چار نے ابھی پڑھنا تھا۔ والدین نے مجھ سے امیدیں لگائیں اور کتنی مشکلات سہہ کر پڑھا رہے تھے۔ کچھ وقت اس ادارے میں گزار لیا تھا، کچھ اور برداشت کرلوں تو اپنی منزل پا لوں گی۔ صبر و تحمل سے کام لینا تھا شاید کہ انہی سوچوں میں وقت کٹ جاتا اگر میڈم مہناز کا رویہ محمصانہ نہ ہو جاتا۔ انقلاب اس وقت آیا جب انہوں نے منفی رویہ دکھانا شروع کر دیا۔ اب وہ مجھ سے ٹھیک طرح بات نہ کرتیں۔ رمشا کے سامنے بھی انہوں نے میری بے عزتی شروع کر دی کہ گلاب کی وجہ سے میری منگنی ٹوٹی ہے۔ اس سارے معاملے کا مجھ کو علم ہی نہ تھا کہ کب سر ظاہر اور مہناز میڈم کا جھگڑا ہوا اور وجہ میں بنی … کب انہوں نے ایک دوسرے سے کنارہ کر لیا، شاید کہ خود سر نے ہی اپنی منگیتر کو یہ باور کرایا تھا کہ وہ ان کی بجائے مجھ سے شادی کے خواہاں ہیں حالانکہ میری اور ان کی عمر میں بہت فرق تھا اور ہمارے درمیان ایسی کوئی انڈراسٹینڈنگ بھی نہ ہوئی تھی۔ مجھے گمان ہوا کہ سر نے اپنی منگیتر کے دل میں اپنی اہمیت زیادہ کرنے کو یہ شوشا چھوڑا ہے کیونکہ اکثر مردوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ منگیتر یا بیوی سے کہتے ہیں کہ فلاں مجھ پر مرتی ہے۔ وہ یہ نفسیاتی حربے اپنی محبوبہ کا زیادہ التفات پانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ میڈم مہناز نے مجھے مورد الزام ٹھہرادیا اور حسد کی آگ میں جلنے لگیں جبکہ اس سارے قصے میں میرا کوئی قصور نہ تھا، سوائے اس کے سر مجھے زیادہ توجہ اور ٹائم دیتے تھے۔ اپنے آفس میں بٹھا کر میں منٹ یا آدھ گھنٹہ چھٹی کے بعد علیحدہ سے پڑھا دیتے تھے۔ میں بھی خوش تھی کہ وہ کمی پوری ہو رہی تھی جو پریشان رہنے کی وجہ سے میں کلاس میں پیچھے ہو رہی تھی۔ میڈم اب مجھ سے ٹھیک طرح بات نہ کرتیں۔ سلام کے جواب میں منہ پھیر لیتیں، دوسری طالبات سے ہنس ہنس کر بات کر تیں اور مجھے نظر انداز کر دیتیں۔ وہ جان بوجھ کر میری اہانت کرنے لگی تھیں۔ بے شک وہ پہلے ایسی نہ تھیں۔ وہ تو فرشتہ صفت مشہور تھیں مگر اندر ہی اندر کون سا احساس محرومی تھا جس کی وجہ سے اب وہ مجھ سے بد ترین سلوک کرنے لگی تھیں۔ ان کے اس رویئے سے میرے دل و ذہن زخمی رہنے لگے اور پڑھائی پر اثر پڑا۔ میرا اب تک یہی خیال تھا کہ سر ظاہر میڈم سے بہت محبت کرتے ہیں اور یہ سارارڈ عمل ان کا وقتی ہے۔ میں نے ان سے بھی میڈم کی شکایت نہ کی۔ بھلا کیونکر میں اپنے محترم استاد سے ان کی منگیتر کی برائی کر سکتی تھی۔ یہ میری سالگرہ کا دن تھا، ہم جماعتوں کے اصرار پر بڑا سا کیک لائی تھی۔ جب میڈم کی طرف کیک لے کر گئی، انہوں نے مجھے پرے دھکیل دیا اور میر اہا ل دیا اور میرا ہا تھ جھٹک دیا۔ وہاں اسٹوڈنٹس موجود تھے۔ میرے دل کو دھچکا لگا۔ بہت دکھ ہوا۔ اس قدر کہ بلند آواز سے رونا چاہتی تھی کہ آخر میرے ساتھ وہ یہ سب کچھ کیوں کر رہی تھیں۔ میں تو ان کا دل جیتنا چاہتی تھی، دلوں کو صاف کرنا چاہتی تھی ، اسی لئے کیک ان کو پیش کیا تھا مگر ان کا دل مجھ سے کڑوا ہو چکا تھا اور حقیقت بالکل عیاں ہو گئی تھی۔ ان کو یہ غلط فہمی اندر اندر دیمک کی طرح چاٹ رہی تھی کہ میں سر ظاہر صاحب کو کیوں اس قدر عزیز ہو گئی ہوں کہ وہ خصوصی طور پر مجھے پڑھانے لگے ہیں۔ یقیناً خود سر نے غلط فہمی ڈالی تھی اور کچھ انہوں نے بد گمانی کے وسیلے سے اپنے دل کو پٹی پڑھائی ہو گی۔ ساری کلاس کے سامنے مجھ سے اپنی سکی نہ سہی گئی مگر آنا کا بھرم رکھنے کو یہ تکلیف نگل گئی، آنسوپی لئے۔ سر ظاہر کی طرف دیکھا مگر وہ خاموش رہے۔ ظاہر ہے ان کو اپنی عزت اور محبت مجھ سے زیادہ عزیز تھی۔ انہوں نے اسٹوڈنٹس کے جانے کے بعد اکیلے میں بھی میڈم مہناز کو ان کی اس بد تمیزی پر سر زنش نہ کی۔ ایک لفظ نہ کہا۔ میر ادل ٹوٹ گیا، رونے لگی۔ دونوں نے مجھے چپ نہ کرایا اور کلاس روم میں روتا چھوڑ کر ایک ساتھ اٹھ کر باہر چلے گئے۔ کافی دیر تک اکیلی ہی گم صم بیٹھی رہی۔ اس واقعہ کے کچھ دنوں بعد پروفیسر صاحب نے مجھے بلا کر کہا۔ گلناب، میں اس ادارے کو تمہاری وجہ سے چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ بہتر ہے کہ تم بھی چھوڑ دو۔ میں تمہارا داخلہ کسی اچھے اور ادارے میں کرادوں گا۔ تم کو داخلہ فیس بھی نہیں دینی پڑے گی۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ تمہاری تعلیمی کفالت کرتار ہوں گا تا کہ دوسرے ادارے میں جانے کی مشکلات کو نمٹا سکوں۔ استا ہا۔ استاد کے وعدے پر بھروسہ کر کے میں نے ادارے کو خیر باد ر باد کہہ دیا۔ وہ بھی کچھ دن نہ گئے لیکن پھر انہوں نے دوبارہ جانا شروع کر دیا۔ مجھے رمشا نے فون کر کے بتایا تو حیران رہ گئی کہ یہ کیا ماجرا ہے۔ سر کو فون کیا۔ انہوں نے صاف بات نہیں کہی، ٹال مٹول سے کام لیا۔ مجھے یہ حقیقت بعد میں معلوم ہوئی کہ مہناز نے شرط رکھی تھی کہ گلناب اس ادارے کو چھوڑ دے، تبھی وہ پروفیسر صاحب سے صلح کرے گی ورنہ پروفیسر ظاہر کو بھی یہاں کی ملازمت چھوڑنی ہوگی۔

اپنی ملازمت اور محبت دونوں کو بچانے کیلئے سر نے میری قربانی دی اور میرا مستقبل تاریک کر دیا۔ سالانہ امتحان میں صرف چھ ماہ باقی تھے کہ میں بے منزل ہو گئی۔ سچ ہے عورت کتنی بھی پڑھ لکھ جائے، وہ حسد کی آگ سے اپنے دل کا دامن نہیں بچا سکتی۔ شک و شبہ تو ویسے بھی محبت کے تاج محل کو جلا کر راکھ کر دیتا ہے۔ مجھے گمان بھی نہ تھا کہ سر ظاہر جھوٹ بول کر مجھے دھوکا دے رہے ہیں۔ وہ اس وجہ سے مجھ سے انسٹی ٹیوٹ چھڑوانا چاہتے ہیں کہ ان کی منگیتر میرا ان کی نظروں کے سامنے ہونا برداشت نہیں کر سکتی۔ کچھ دن صدمے میں رہنے کے بعد ایک روز موصوف سے رابطہ کیا کیونکہ پڑھائی کا حرج ہو رہا تھا۔ انہوں نے کوئی واضح بات نہ کی۔ ان کا وعدہ یاد دلایا، خاموش رہے۔ میں نے غصے کا اظہار کیا تب بھی ڈانٹا اور نہ معاملے کی وضاحت کر کے سکون دلانے کی کوشش کی، فون رکھ دیا۔ سمجھ گئی کہ میرے دونوں استادوں نے میرے ساتھ زیادتی کی ہے۔ پروفیسر صاحب نے جھوٹی تسلی دے کر اور میڈم نے ادارے سے نکلوا کر میری تعلیم اور صلاحیتوں کا نقصان کیا۔ دونوں نے ہی بے رخی اختیار کر لی اور میں احساس کمتری کے گڑھے میں گرتی چلی گئی۔ بہت زیادہ دکھی تھی۔ میرا کیریئر اور قیمتی سال بر باد ہو چکا تھا۔ نجانے کیوں انہوں نے مجھ سے کون سا کھیل کھیلا جبکہ میں تو استاد جان کر ان کی دل سے عزت کرتی تھی۔ ان لوگوں نے میری آنکھوں میں آنسو بھر دیئے۔ ایک بار پروفیسر صاحب کے آفس بھی گئی، ان کی منت کی کہ اپنا وعدہ یاد کریں۔ مجھے تعلیم مکمل کرنے دیں، مجھ سے پڑھائی کا حق تو نہ چھینیں۔ اگر مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو علم سے محروم نہ کریں۔ میں مفلس و غریب کی بیٹی ہوں۔ اعلیٰ ادارے میں صرف پڑھنے کے خواب ہی دیکھ سکتی ہوں۔ انہوں نے میری درخواست پر کان نہ دھرے۔ میرے ذہنی خلفشار اور مسائل کو دور کرنے کی بجائے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے رابطہ ہی ختم کر دیا۔ بہت افسوس ہوا کہ میں نے لوگوں کو پہچانے میں بہت دیر کر دی۔ انہوں نے کبھی مجھے شاگرد سمجھا ہی نہ تھا۔ آخری دنوں دوسرے طالب علموں کو معلومات فراہم کرتے، توجہ دیتے اور مجھے نظر انداز کرتے تھے۔ میڈم مہناز تو مجھے ایک پل بھی نہ دیکھنا چاہتی تھیں۔ نجانے سر ظاہر نے ان سے جوش جذبات میں میرے بارے میں کیا کہہ دیا تھا مگر میرے مستقبل کے پیروں پر کلہاڑی انہوں نے ہی ماری تھی جس سے میڈم صاحبہ برافروختہ ہوئیں اور مجھے اپنی نفرت کا ٹارگٹ بنایا۔ بے شک کچھ دن تک تو بڑی اذیت میں رہی پھر اللہ نے مدد کی۔ میرے بابا جان کے ایک دوست ان کی عیادت کو آئے کیونکہ والد کافی بیمار تھے ، بستر پر پڑے تھے۔ ان مہربان دوست نے ہمارا حال دیکھ کر میری تعلیم کے بارے میں پوچھا۔ میں نے ” من و عن سب کچھ ان کو بتا دیا۔ انہوں نے ہماری مدد کی۔ مجھے داخلہ دلوایا، داخلہ فیس بھری، سال کا تعلیمی : فلیمی خر چادیا اور میں نے اپنی لگن سے تعلیم کو پورا کیا۔ رزلٹ آیا۔ میں نے ٹاپ کیا تھا۔ مجھے فوراً بہت اچھی ملازمت مل گئی۔ دیکھتے دیکھتے ترقی کر کے میں اعلیٰ افسران کی فہرست میں آگئی اور پھر خدا نے ایک دن اس قابل کر دیا کہ میں نے اپنا انسٹی ٹیوٹ کھول لیا۔ آج میرا تعلیمی ادارہ ٹاپ پر جارہا ہے، ساکھ ہے ، عزت ہے اور یہ میری محنت اور لگن ہے کہ خدا نے اس قابل کیا ہے کیا کبھی نان شبینہ کو محتاج تھے اور اب کئی نادار طالب علموں کو مفت تعلیم کی سہولت دی ہوئی ہے۔ ان کو لیپ ٹاپ لے کر دیئے ہیں جو خود خریدنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ میرے دل پر جو ٹھیس لگی تھی، یہ اسی کا ثمر ہے۔ عہد کیا تھا کہ اپنا انسٹی ٹیوٹ بنائوں گی اور ذہین طلبہ کی دست راست بن جائوں گی۔ میں آج بھی سوچتی ہوں تو پریشان ہو جاتی ہوں کہ کیا اساتذہ ایسے ہوتے ہیں جیسے کہ سر ظاہر اور میڈم مہناز تھے۔ یقینا سب برے نہیں ہوتے لیکن کچھ اب بھی انہی کی طرح ہیں جو بناوٹ کا نقاب اوڑھے خود کو عظیم کہلواتے ہیں۔ سر ظاہر کو تو ان کا کھویا ہوا سبھی کچھ مل گیا تھا لیکن کیا دلی سکون بھی ملا ؟ اب مجھے کسی پر بھروسہ نہیں آتا، سوائے اس عظیم طاقت کے کہ جو واقعی عظیم ہے اور وہ میرا رب کریم ہے۔ آج میں اپنی آپ بیتی سے ہر لڑکے اور لڑکی کو یہ ذہن نشین کرانا چاہتی ہوں کہ مردوں اور لڑکوں کی ذات عجیب ہوتی ہے۔ وہ ہر بازی دماغ سے کھیلتے ہیں اور دماغ سے کھیلا ہوا شطرنج ہمیشہ فتح یاب ہوتا ہے۔ وہ جیت جاتے ہیں اور ساری زندگی اسی خوش فہمی میں رہتے ہیں کہ جیت ہمیشہ ان کی ہی ہو گی۔

Latest Posts

Related POSTS