میں ساتویں جماعت میں تھی، جب چچا جان کی شادی ہوئی۔ اس تقریب کے بعد دادا جان نے جائیداد کا بٹوارہ کرنے کا ارادہ کیا، لیکن بڑے بیٹے کا موجود ہونا لازمی تھا۔ ان دنوں تایا حیدر آباد میں تھے اور ہم سب ملتان میں تھے۔ تایا کو حیدر آباد سے بلوایا گیا لیکن وہ کسی ضروری کام کی وجہ سے نہیں آسکے۔ تب دادا جان نے فیصلہ کیا کہ ہم سب حیدر آباد چلتے ہیں اور وہاں کی زمینوں کا بٹوارہ کر دیتے ہیں۔ یوں ہم سب تایا ابو کے پاس چلے گئے۔
بٹوارے کے لیے سب اکٹھے ہو گئے، تو تایا ابو کہنے لگے: ملتان والی زمینوں کا تم لوگ آپس میں بٹوارہ کر لو، لیکن حیدر آباد والی زمین کا اصل حق دار میں ہوں، کیونکہ گزشتہ بیس سال سے میں ہی ان کو سنبھال رہا ہوں۔اس پر دادا جان نے کہا: حیدر آباد والی زمین مالیت کے حساب سے زیادہ ہے اور تم تینوں بھائی میرے لیے برابر ہو۔ میں برابر بٹوارہ کروں گا۔
خیر، بٹوارہ تو ہو گیا، لیکن کچھ تلخیاں باقی رہ گئیں۔ ظاہر ہے تایا اس بات پر بہت ناخوش تھے۔ انہوں نے کہا کہ تم لوگوں نے میرا حق نہیں دیا۔ آج کے بعد تم لوگوں سے تعلق ختم ہے۔ حالانکہ دادا جان سے ان کی کوئی ناراضی نہ تھی، کیونکہ انہوں نے انصاف کے تقاضے پورے کیے تھے۔ فیصلہ یہ ہوا کہ وہ ہر سال ہماری زمینوں کا نفع دیں گے، لیکن دو سال گزرنے پر بھی انہوں نے ہمیں کوئی معاوضہ نہیں دیا۔ لہٰذا ابو نے فیصلہ کیا کہ حیدر آباد والی زمین وہ خود سنبھالیں گے اور اب وہیں رہیں گے۔ یوں ہم نے ملتان کو خیر باد کہہ کر حیدر آباد میں تایا کے قریب ہی گھر لے لیا۔
زمین کاشت کرنے کے ساتھ ساتھ ابو نے کاروبار بھی شروع کر دیا۔ ان دنوں میں آٹھویں اور تایا کا بیٹا انصر نویں جماعت کا طالب علم تھا۔ ابو اور تایا جان کی ناراضی برقرار تھی، البتہ ہم بہن بھائی ان کے گھر جاتے تھے، لیکن وہاں سے صرف انصر ہمارے گھر آتا تھا۔ اس کا دل ہم سب سے لگ گیا۔ وہ ایک خوبصورت اور خوب سیرت انسان تھا۔ وہ آتا تو سب ہی اس کے ساتھ پیار و محبت سے پیش آتے اور کافی دیر تک باتیں کرتے رہتے۔ رفتہ رفتہ وہ مجھ سے زیادہ مخاطب ہونے لگا، جس پر پتا نہیں کیوں، میرے بھائی چڑ کھانے لگے اور اس سے دور دور رہنے لگے۔ وہ مجھ سے عمر میں ایک سال بڑا تھا۔ اس کا روز آنا، محبت سے ملنا اور باتیں کرنا مجھے اچھا لگنے لگا۔ امی بھی اس کی خاطر مدارات کا کہتیں اور ہم حتی المقدور اس کی مہمان نوازی میں کوئی کسر نہ چھوڑتے۔
پہلے تو یہاں میرا دل نہیں لگا، پھر انصر کی وجہ سے یہ شہر مجھے اپنا سا لگنے لگا اور دل ہی دل میں، میں اسے چاہنے لگی، مگر میں اپنے دلی جذبات ظاہر کرنے کی ماہر نہیں تھی۔ ایک دن وہ ہمارے گھر بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے واشنگ مشین لگائی تو اتفاقاً اس میں کرنٹ آیا۔ مجھے کرنٹ لگا تو زور سے چیخ نکل گئی۔ تب اس نے اپنی جان پر کھیل کر میری جان بچا لی۔ اس واقعے نے میرے دل میں اس کا مقام اور اونچا کر دیا۔ اس نے بھی ایک روز مجھ سے اپنے دلی جذبات کا اظہار کر دیا۔ پہلے تو میں چپ سنتی رہی، پھر منہ موڑ کر چلی گئی۔
اب وہ روز آنے لگا۔ ایک دن اس نے کہا: ہمارے والدین کے درمیان زمین کی وجہ سے ناراضی ہے، اگر ہمارا آپس میں رشتہ ہو جائے، تو یہ ناراضی ختم ہو سکتی ہے۔ میں نے اس کی اس تجویز کا کوئی جواب نہ دیا۔ ظاہر ہے، میرے بس میں تو کچھ نہیں تھا۔ ایک دن اس نے میری کتاب اٹھالی، کچھ دیر کی ورق گردانی کے بعد کتاب واپس رکھی اور چلا گیا۔ میں نے کتاب کھولی، تو اس میں ایک خط رکھا ہوا تھا۔ لکھا تھا تمہیں میں نے ایک تجویز دی تھی، تم نے جواب نہیں دیا۔ کیا میری تجویز پسند نہیں آئی یا تم اس سے اتفاق نہیں کرتیں؟ خدا کے لیے کچھ تو جواب دو، کزن انصر۔میں نے اسی وقت ایک پرچہ لیا اور اس پر تحریر لکھی قابل احترام کزن انصر، لڑکی کی عزت نازک شے ہے۔ اس کے دامن پر ذرا سا بھی داغ نہیں لگنا چاہیے، ورنہ لوگ اسے پاک دامن نہیں کہتے۔ پھر لڑکیاں والدین کے حکم کی محتاج ہوتی ہیں۔ جس طرح ماں باپ کہیں، ان کا ہر حکم ماننا پڑتا ہے۔ ویسے تم مجھے اپنے گھر والوں میں سب سے زیادہ اچھے لگتے ہو۔
یہ خط میں نے اسے دے دیا۔ اس نے پڑھا تو اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار نظر آنے لگے۔ تب میں نے کہا: ڈیئر کزن! ویسے تو ہمارا ملن بہت مشکل ہے، کیونکہ ہمارے والدین میں ناراضی برقرار ہے لیکن پھر بھی میں تمہارے ساتھ ہوں۔ اگر قسمت نے ساتھ دیا تو اس رشتے کو ضرور نبھاؤں گی۔ ان الفاظ نے اس میں ایک نئی امنگ پیدا کر دی۔ اسے لگا، جیسے وہ مجھے حاصل کر لے گا، لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
اس بات کو کچھ ہی دن گزرے تھے کہ ہماری چاہت کو کسی کی نظر لگ گئی۔ اس نے کچھ لکھ کر میری کتاب میں رکھا ہی تھا کہ میرے بھائی نے کتاب اٹھائی۔ کھول کر دیکھا تو اس میں خط تھا۔ بھائی نے خط پڑھا اور لے جا کر ابو کو دے دیا۔ ابو نے مجھے بلایا اور پوچھا: “کیا یہ تحریر انصر نے لکھی ہے؟ میں نے اقرار کیا۔ انکار کی گنجائش ہی کب تھی۔ تب ابو غصے میں آگئے۔ پہلے تو مجھے برا بھلا کہتے رہے کہ مجھے تم سے ایسی امید نہ تھی، پھر خط تایا کو بھجوا دیا۔ تایا ابو نے انصر کو بہت ڈانٹا کہ تم چچا کی بیٹی سے عشق لڑا رہے ہو۔ جانتے ہو کہ انہوں نے میرے خون پسینے سے آباد زمین چھین لی اور اب میرے گھر کے سامنے ہی گھر لے کر میرے سینے پر مونگ دلنے آ بیٹھے ہیں۔ تم ان کی بیٹی سے شادی کرو گے؟ اس سے بہتر ہے کہ تم مجھے گولی مار دو۔ وہ میرا بھائی نہیں، غاصب ہے، دشمن ہے اور اب تم بھی ویسے ہی ہو۔ لہٰذا یہاں سے دفع ہو جاؤ۔ یہ کہہ کر تایا نے انصر کو گھر سے نکال دیا۔
انصر گھر سے نکل کر ملتان آ گیا، مگر ڈر کی وجہ سے دادا اور چچا کی طرف نہیں گیا بلکہ ہوٹلوں میں رہتا رہا۔ میرے بھائیوں کو معلوم تھا کہ تایا نے اسے نکال دیا ہے، لیکن انہوں نے کسی کو نہیں بتایا۔ دوسرے شہر میں اکیلے لڑکے پر بہت سی مصیبتیں آسکتی ہیں۔ ایک بار پولیس والوں نے اسے آوارہ گردی کے الزام میں پکڑ لیا۔ جو رقم اس کے پاس تھی، چھین لی، پھر چھوڑ دیا۔ اب رقم کے بغیر اس کا وہاں رہنا مشکل ہو گیا، تب اس نے سوچا کہ کسی دوست سے مدد مانگنی چاہیے۔ فون پر اس نے کسی دوست کو کہا کہ میں تمہارے پاس لاہور آرہا تھا کہ راستے میں جیب کٹ گئی، تو اب تم ہی مہربانی کر کے ملتان آجاؤ اور مجھے لے جاؤ، میں فلاں ہوٹل میں ہوں اور میرے پاس ہوٹل کا بل ادا کرنے کے لیے رقم بھی نہیں ہے۔ پہلے تو دوست نے ہاں کہہ دی، پھر سوچا کہ انصر اپنے دادا کے پاس کیوں نہیں گیا؟ اس کے دادا اور چچا تو وہیں رہتے ہیں۔ اقبال کے پاس دادا جان کا نمبر تھا۔ اس نے ان کو فون کر دیا کہ انصر ملتان میں فلاں ہوٹل میں مصیبت میں ہے، اسے وہاں سے لے جائیے۔ میں لاہور سے نہیں آسکتا، کیونکہ میرے امتحانات ہو رہے ہیں۔
انصر اپنے دوست کا منتظر تھا کہ چچا وہاں پہنچ گئے اور کہا۔ چلو میرے ساتھ گھر۔ پہلے تو اس نے انکار کیا، مگر پھر ان کے اصرار پر جانا پڑا۔ چچا جان کہہ رہے تھے کہ تمہارے دوست نے اطلاع دی تھی کہ تم یہاں ہو اور تمہاری جیب کٹ گئی ہے اور تمہارے والد صاحب نے بھی تمہارے دادا کو فون کر کے بتایا ہے کہ تم گھر سے بغیر بتائے آگئے ہو۔ بیٹا! ایسے حالات میں کم از کم ہمیں آزما لیتے ۔ دادا جان اور چچا کو اصل معاملے کا ابھی تک علم نہیں تھا۔ انہوں نے تایا کو اطلاع کی کہ فکر مند نہ ہونا، یہ ہمارے پاس آ گیا ہے۔
چار دن بعد تائی کا فون آیا کہ انصر کو جلد روانہ کر دیں ، اس کے ابو کی طبیعت سخت خراب ہے۔ دادا جان نے پوتے کو روانہ کر دیا۔ تایا کی طبیعت کچھ خراب تھی، انہوں نے بیٹے کو سمجھایا کہ تمہاری شادی نازیہ سے نہیں ہو سکتی کیونکہ میں نے تمہارے چچا سے کہا تھا کہ میرا تم لوگوں سے زندگی بھر کا تعلق ختم ہے، تو اب ہم آپس میں رشتے کیسے کر سکتے ہیں۔ لہذا تم ہمیشہ کے لیے نازیہ کو بھولو اور آگے پڑھنے کی تیاری کرو۔ انصر نے آگے پڑھنے سے انکار کر دیا تو باپ نے کہا۔ بیٹا! میرا تو کام سمجھانا تھا، آگے تمہاری مرضی ہے۔ مجھے اس بات کا بہت دکھ ہوا کہ بڑے بھائی نے صرف جائیداد کی خاطر زندگی بھر کے لیے رشتہ توڑ دیا-
یوں ہی دن گزر گئے، انصر ہمارے گھر نہیں آیا۔ اس نے سوچا کہ نازیہ سے ملنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے، اگر میں اس کے کالج میں داخلہ لے لوں تو اس سے مل سکوں گا۔ یوں اُس نے میرے کالج میں داخلہ لے لیا۔ جب میں نے اسے پہلے دن کالج میں دیکھا تو اپنے تمام دکھ اور تکلیفیں بھول گئی۔ اس کی جدائی میں گزرے ہوئے لمحات یاد آئے تو آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ ہمارے کالج میں آ گیا ہے اور اب میں اسے روز مل سکوں گی۔ میں کھڑی اسے دیکھتی رہی۔ کچھ دیر انتظار کے بعد وہ خود ہی میرے پاس آ گیا اور پوچھا۔ کیا مجھ سے ناراض ہو؟ میں نے کہا۔ نہیں تو، تم نے بھلا ایسا کیوں سوچا؟ میرا یہ کہنا تھا کہ اس کا مرجھایا ہوا چہرہ کھل اٹھا، تب مجھے یوں لگا جیسےیہ اس کی زندگی کا حسین ترین لمحہ ہو۔ تم کہاں چلے گئے تھے؟ میں تمہارے لیے بہت پریشان تھی۔ میں کہیں بھی چلا جائوں، تمہیں اس سے کیا؟ وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا۔ میں نے کہا۔ تمہاری غلطی کی وجہ سے ہمارے درمیان دوری آئی، کیا تمہیں اس کا احساس ہے؟ یہ سن کر اس کی آنکھیں بھر آئیں اور میں کچھ کہے بغیر وہاں سے چلی آئی۔ دوسرے دن جب اس نے مجھے اکیلے بیٹھے دیکھا، وہ میرے پاس آگیا۔ کیا ابھی تک خفا ہو، آخر بات کیوں نہیں کرتیں؟ میں نے وضاحت کی۔ انصر، میں بہت مجبور ہوں۔ تمہارا خط پڑھنے کے بعد بھائی نے مجھے بہت مارا تھا۔ ابو بھی خفا ہیں۔ بتائو میں کیا کروں؟ چلو ہمارا پھر بھی نقصان کم ہوا کہ خدا نے ہمیں کالج میں اکٹھا کر دیا۔ سال بھر ہم کالج میں ملتے رہے اور یہ سال ایک حسین خواب کی طرح پلک جھپکتے گزر گیا۔ جانے کیوں چاہنے والوں کے سروں پر ہمیشہ جدائی کے سائے منڈلاتے ہی رہتے ہیں۔ ایف ایس سی کے بعد ابو اور بھائیوں کو پتا چل گیا کہ انصر بھی میرے کالج میں پڑھتا ہے، تو انہوں نے مجھے کالج سے اٹھا لیا۔ اس کے بعد انصر نے مجھ سے ملنے کی بہت کوشش کی، مجھے خط لکھے، لیکن میں نے والد اور بھائیوں کے ڈر سے جواب نہ دیا، البتہ زبانی ایک کلاس فیلو کے ذریعے اسے پیغام بھیجوایا کہ خدارا مجھے خط مت لکھا کرو، کیونکہ اگر کسی کو پتا چل گیا تو قیامت آجائے گی۔ یوں ہمارا رابطہ بحال ہو کر بھی ختم ہو گیا-
یہ جدائی گرچہ میرے لیے کسی عذاب سے کم نہ تھی۔ دل اُسے دیکھنے کو ترستا تھا، لیکن قسمت میں شاید اس سے دوری لکھی تھی۔ ایک دن ابو نے فیصلہ سنا یا کہ اب ہم واپس ملتان میں رہیں گے۔ انہوں نے زمین کسی کے حوالے کردی تھی۔ انصر کو بھی اس فیصلے کا علم ہو گیا تھا۔ آخری دنوں میں میں نے کئی بار اُسے اپنے گھر کے سامنے کھڑے دیکھا، وہ ہمیں رخصت کرنے بھی آیا، لیکن بس ہمیں دور سے جاتے دیکھتا رہا، الوداع کہنے کی توفیق نہیں ہوئی۔
میں نے اسے بھلانے کی کوشش کی ، مگر نہ بھلا سکی۔ یوں ہی وقت گزرتا رہا۔ جب چچا کے بیٹے کا عقیقہ تھا، دادا جان نے تایا کو بھی بلایا، مگر کوئی نہیں آیا، انصر آیا بھی تو ابو نے اسے گھر رکنے سے منع کر دیا۔ وہ آدھا دن چچا کے گھر گزار کر اپنے دوست کے گھر چلا گیا۔ اس دوران میں اس سے مل سکی اور نہ بات کر سکی، البتہ دور سے دیکھا ضرور تھا۔ یہی ہماری آخری ملاقات تھی۔ اس کے بعد ابو نے اپنے دوست کے بیٹے سے میرا رشتہ طے کر دیا۔ میرے سسر کافی امیر آدمی اور زمین دار تھے۔ ان کا بیٹا صرف ایف اے پاس تھا، کوئی کام نہیں کرتا تھا ، کیونکہ اللہ نے بہت دے رکھا تھا۔ ان کو کام کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ جب میری فاران سے شادی ہو رہی تھی، لگتا تھا جیسے کوئی کنویں میں دھکا دے رہا ہے، کیونکہ مجھے انصر بہت یاد آرہا تھا۔ میں اسے یاد کر کے اتنا روئی کہ میرا سارا میک آپ ڈھل گیا تھا۔ مجھے اس کی باتیں یاد آنے لگیں، کیا وہ اب کبھی نہ آئے گا؟ جو مجھ سے ملنے کی آرزو میں ملتان آجاتا تھا، وہ ملے بغیر واپس چلا گیا-
میری شادی کے دو سال بعد میری پھپھو کی بیٹی کی شادی تھی۔ تایا کو بھی دادا جان نے بلوا بھیجا، لیکن صرف انصر ہی آیا ۔ وہ دادا جان کے گھر ٹھہرا ہوا تھا۔ مجھے اطلاع ملی کہ انصر آ گیا ہے تو جی چاہا کہ ابھی اڑ کر چلی جائو، مگر نہیں گئی۔ مجبور تھی، پائوں میں بیڑیاں پڑ چکی تھیں، اخلاقی طور پر میں اُن کی پابند تھی ۔ شادی میں کہیں نہ کہیں جھلک ضرور نظر آجاتی تھی، مگر اس سے بات کرنے کا حوصلہ کس میں تھا۔ اگر بات کرتی تو مجرم قرار دی جاتی۔ اب میں کسی کی بیوی تھی .
اس کے بعد وہ مسئلہ شروع ہوا، جس نے میری زندگی تباہ کردی۔ خدا جانے کیونکر میرے شوہر کے دھیان میں یہ بات آئی کہ مجھے جائیداد سے حصہ ملنا چاہیے۔ وہ مجھے مجبور کرنے لگے کہ جاکر اپنے باپ سے حصہ لائو۔ والد صاحب کسی صورت حصہ نہیں دینے والے تھے کیونکہ ہمارے خاندان میں بیٹیوں کو جائیداد میں حصہ نہیں دیا جاتا تھا، بہنیں اپنے حصے بھائیوں کے حق میں چھوڑ دیتی ہیں، البتہ ان کو جہیز کافی دیا جاتا ہے اور دکھ سکھ ہو تو لڑکی کا ساتھ اس کے بھائی اور والد کو لازمی دینا ہوتا ہے، چاہے ان کی ساری زمین اور جائیداد کیوں نہ بک جائے، وہ اپنی بیٹی کو تنہا کبھی نہیں چھوڑتے۔ جب فاران نے بہت مجبور کیا، تو میں والد کے پاس آئی –
والد صاحب نے میری بات تحمل سے سنی اور کہا، بیٹی، یہ ہمارے خاندان کا اصول ہے کہ بیٹیاں اپنی مرضی سے اپنے حصے بھائیوں کو دے دیتی ہیں۔ ہم نے تمہیں جہیز میں سب کچھ دیا اور ہمیشہ تمہارے دکھ سکھ میں تمہارے ساتھ کھڑے رہے۔ لیکن اگر تمہارے شوہر کو لگتا ہے کہ تمہیں جائیداد کا حصہ چاہیے، تو میں تمہیں یہ حق دے سکتا ہوں، مگر اس کا فیصلہ تمہیں کرنا ہوگا۔
یہ بات میرے لیے بہت مشکل تھی۔ میں نے فاران کو سمجھانے کی کوشش کی کہ میرے والد اور بھائی ہمیشہ میرے ساتھ ہیں اور مجھے جائیداد کے حصے کی کوئی ضرورت نہیں، لیکن وہ اپنی ضد پر قائم رہے۔ ان کے مسلسل رویے نے ہماری زندگی میں دراڑ ڈال دی۔ ان کے دل میں شک پیدا ہو گیا کہ شاید میں اپنے خاندان کے لیے ان کی اہمیت کم کر رہی ہوں۔
کچھ وقت بعد، فاران کا رویہ بد سے بدتر ہوتا گیا۔ وہ میرے خاندان کے بارے میں نازیبا باتیں کرنے لگے، اور ہمارے رشتے میں تلخی بڑھتی گئی۔ میں نے اپنے بچوں کی خاطر اس رشتے کو بچانے کی بہت کوشش کی، لیکن فاران کی ضد اور تلخ رویے نے ہر راستہ بند کر دیا۔ آخر کار، وہ مجھے چھوڑ کر الگ ہو گئے۔
میں نے اس وقت اپنے والدین کے گھر واپس آنے کا فیصلہ کیا۔ میرے والد اور بھائیوں نے نہ صرف میرا استقبال کیا بلکہ میری زندگی کو دوبارہ سنوارنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ میں نے اپنی زندگی کے باقی دن اپنے بچوں کی پرورش اور ان کی تعلیم میں لگا دیے۔
اگرچہ میرا دل ہمیشہ انصر کے لیے دھڑکتا رہا، لیکن زندگی نے ہمیں دوبارہ ملنے کا موقع نہیں دیا۔ شاید یہ ہماری قسمت تھی۔ میں نے سیکھا کہ زندگی میں کچھ کہانیاں کبھی مکمل نہیں ہوتیں اور کچھ خواب ہمیشہ ادھورے رہتے ہیں۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ، میں نے اپنی قسمت کو قبول کر لیا اور اپنی زندگی میں آگے بڑھنے کی راہ ڈھونڈ لی۔