Monday, September 16, 2024

Dhoop Rahe Na Chahon | Teen Auratien Teen Kahaniyan

Dhoop Rahe Na Chahon | Teen Auratien Teen Kahaniyan
میرا دیور ندیم ایک خوبرو نوجوان تھا۔ جب اس نے میری شادی میں میری چھوٹی بہن قمر کو دیکھا تو وہ اس کے دل میں بس گئی۔ پھر جب دوچار بار قمر مجھ سے ملنے ہمارے گھر آئی تو وہ ندیم کی دلکش مسکراہٹ کا شکار ہوگئی۔ وہ بھی اسے پسند کرنے لگی۔
قمر میرے دیور کو پسند کرنے لگی ہے، یہ بات گھر والوں کو معلوم نہ تھی ورنہ امی، ابو اسے ہمارے گھر آنے سے روک دیتے، تاہم مجھے شروع دن سے دونوں کی پسندیدگی کا اندازہ ہوگیا تھا۔ سوچا ندیم خوبصورت ہے اور گریجویشن مکمل کرنے والا ہے، اچھی جاب مل گئی تو امی سے قمر کے رشتے کی بات کروں گی۔ دونوں بہنیں ایک گھر میں آجائیں گی تو اچھا رہے گا۔ میری شادی کو ابھی چھ ماہ ہوئے تھے۔ سسرال والے میرے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آرہے تھے۔ رفیق حیات سے بھی محبت ملی تو آرزو کرنے لگی کہ قمر کی شادی ندیم سے ہوجائے تاکہ دیور اور چھوٹی بہن دونوں کی خوشی پوری ہو۔ ندیم کسی نہ کسی بہانے امی کے گھر جانے لگا۔ کبھی ہماری ساس سے گاجر کا حلوہ اور کبھی مٹھائی خرید کر لے جاتا اور کہتا کہ والدہ اور بھابی نے بھجوائی ہے۔ موقع ملتا تو قمر سے بھی دوچار باتیں کرلیتا۔ اسی طرح دونوں نے چوری چھپے آپس میں ساتھ نباہنے کا وعدہ کرلیا۔
ایک روز ندیم نے مجھ سے کہا۔ بھابی اگر آپ قمر سے میری شادی کرا دیں تو میں عمر بھر آپ کا احسان مند رہوں گا۔ آپ اتنی اچھی بہو ثابت ہوئی ہیں کہ اب امی، ابو کو ہرگز قمر کے بہو بنانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اب آپ نے اپنے والدین کو راضی کرنا ہے۔ میں نے امی سے بات کی۔ وہ خاموش ہوگئیں لیکن والد نے شور مچا دیا کہ ایک بیٹی دی ہے کافی ہے۔ میں قمر کی شادی اپنے بھائی کے بیٹے نوید سے کروں گا۔ بڑے بھائی سے وعدہ کرچکا ہوں۔ والد کا ٹکا سا جواب سن کر گھر لوٹ آئی۔ ندیم بے چینی سے میرا انتظار کررہا تھا پوچھا۔ بھابی! خوشخبری لائی ہیں نا…؟
صبر سے کام لو بھیا! ابھی کامیابی نہیں ملی۔ ایک بار اور کوشش کروں گی۔ دراصل ابا جان، تایا جی کو زبان دے چکے ہیں اور یہ سگے بھائیوں کا معاملہ ہے۔ بات بنتی مشکل نظر آرہی ہے۔ یہ سن کر ندیم کا منہ لٹک گیا۔ میرا دیور سخت پریشان رہنے لگا۔ اس نے بی۔اے کے پرچے بھی ٹھیک سے نہ دیئے۔ اس کی پریشانی دیکھ کر میں نے کچھ تحفے خریدے اور امی کے پاس چلی گئی۔ انہوں نے پوچھا۔ یہ کیا لائی ہو…؟ کچھ تحفے ہیں، میری ساس کے بھائی سعودی عربیہ سے لائے ہیں۔ آنٹی نے کچھ جوڑے، پرفیوم اور جیولری قمر کے لئے بھی دی ہے۔
اماں کا ماتھا ٹھنک گیا، بولیں۔ وہ ایسی دریا دل کیونکر ہوگئیں اور یہ سب قمر کے لئے بھجوانے کی ضرورت کیا ہے، کوئی مطلب ضرور ہے؟ آپ ٹھیک کہتی ہیں امی جان! مطلب کے بغیر کون کسی کے لئے سوچتا ہے۔ آپ مطلب اچھی طرح جانتی ہیں کہ وہ ندیم کے لئے قمر کا ہاتھ مانگنا چاہتی ہیں۔ تم نے اس روز اپنے والد کا جواب سن تو لیا تھا۔ وہ کسی طور اپنے بھائی سے کیا وعدہ نہ توڑیں گے۔ اب تم یہ تحفے واپس لے جائو اور اپنے گھر میں سکون سے رہو۔ باربار رشتے کی بات کرکے اپنا اور ہمارا سکون برباد مت کرو۔
والدہ سے کچھ نرم گوشے کی امید تھی، ادھر سے بھی سختی سے انکار سنا تو ناامید ہوگئی کہ اب دال گلنے والی نہیں ہے۔ قمر کو سمجھایا کہ تم ندیم کا خیال دل سے نکال دو، میں اپنے دیور کو بھی سمجھاتی ہوں۔ جو امر ممکن نہیں ہے، اس کے لئے دونوں کا ہلکان ہونا خود کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ میرا گھر الگ متاثر ہوگا۔ جب قمر نے جان لیا کہ وہ والدین کی رضا سے ندیم کی نہیں ہوسکتی تو اس نے چوری چھپے ندیم سے رابطہ کیا۔ اللہ جانے دونوں میں کیا کھچڑی پکتی رہی نتیجہ یہ نکلا انہوں نے میرا بھی خیال نہ کیا اور اپنی خوشی کی خاطر کورٹ میرج کرنے کی ٹھان لی۔
ندیم کا رزلٹ آگیا۔ وہ بی۔اے کے دو مضامین میں رہ گیا تھا، حالانکہ اچھا طالب علم تھا، کبھی فیل نہ ہوا تھا لیکن اس کے سر پر جب سے عشق کا بھوت سوار ہوا تھا، پڑھائی سے بیگانہ ہوگیا تھا۔ یہاں تک کہ جب قمر نے کہا کہ کورٹ میرج کرنے کی ہمت اس میں نہیں ہے، وہ اس کا ساتھ نہیں دے سکتی تو اس نے نشے کا سہارا لیا تاہم اندر کی باتوں کا ہمیں علم نہ تھا۔ قمر کو ہی اس نے بتایا تھا کہ وہ نشہ کرنے لگا ہے، اگر وہ کورٹ
میرج پر تیار نہیں ہوگی تو ایک روز اتنا نشہ کرے گا کہ جان نکل جائے گی۔ ندیم کی اس دھمکی سے ڈر کر قمر نے وعدہ نباہنے کی ہامی بھر لی۔ ایک دن وہ والدین کو بتائے بغیر گھر سے چلی گئی اور ندیم کے ساتھ کورٹ میرج کرلی۔
قمر کا خیال تھا کہ میں ندیم کی بھابی ہوں، میکے والوں نے پھٹکار دیا تو کیا، ندیم کے والدین، بھائی قبول کرلیں گے۔ میری بہن مجھے اور ندیم کو دربدر نہ ہونے دے گی۔ جب ندیم نے فون پر میرے شوہر کو اطلاع دی تو وہ سکتے میں آگئے۔ مجھے بتایا، میں بھی ہل کر رہ گئی۔ ایک طرف سسرال، دوسری طرف میکہ…! امی جان کو فون پر بتایا تو وہ بھڑک اٹھیں۔ بولیں۔ ہرگز اس نامراد لڑکی کو گھر میں گھسنے دینا اور نہ اس کی پشت پناہی کرنا، ورنہ ہمارا تم سے بھی ناتا ختم ہوجائے گا۔ جانتی ہو کہ قمر کے اس اقدام سے تمہارے والد کو کتنا صدمہ پہنچا ہے؟ وہ غائب ہوئی تو انہوں نے مجھے کہا کہ لگتا ہے یہ بدبخت ندیم کے ساتھ گئی ہے۔ سحر سے کہہ دو اس کے ساتھ ناتا رکھا تو سمجھو کہ ہم دونوں اس کے لئے مر گئے۔
یہ میرے لئے ہوشربا دھمکی تھی۔ میرے واقعی حواس جاتے رہے۔ ایک طرف والدین، دوسری طرف بہن! ظاہر تھا ندیم لڑکا تھا۔ والدین اپنے بیٹے کو کچھ عرصے بعد سہی گلے لگا لیتے لیکن میری پوزیشن اپنے میکے اور سسرال دونوں میں خراب ہوگئی تھی۔ ہمیں قطعی یہ اندازہ نہ تھا کہ قمر اتنی بڑی غلطی کرسکتی ہے۔ اس صدمے سے ماں، باپ دونوں ہی نیم جان تھے، کیونکہ محلے میں بدنامی ہوگئی تھی کہ ان کی بیٹی گھر سے بھاگ گئی ہے۔ ابو بیمار ہوکر بستر پر پڑگئے۔ ان کے دل میں اب قمر کے لئے نفرت کے سوا کچھ نہ تھا۔ والدین کے لئے یہ وہ دکھ تھا جسے تمام عمر تازہ رہنا تھا۔ انہوں نے سب سے کہہ دیا کہ قمر ہمارے لئے مر چکی ہے۔ مجھ سے بھی کہہ دیا۔ خبردار! جو تم نے اس کے ساتھ کسی قسم کا رابطہ رکھا۔ یہ کہہ کر گویا میرے اپنے ماں، باپ نے مجھے ایک بہت بڑے امتحان میں ڈال دیا۔ میرے والدین سمجھ رہے تھے شاید مجھے اس بات کی پہلے سے سن گن تھی، کیونکہ میں چاہتی تھی کہ قمر میری دیورانی بنے۔ کوئی دوسری لڑکی ہمارے گھر ندیم کی بیوی بن کر نہ آئے تبھی امی، ابا پر زور بھی ڈالا تھا۔
یہ دونوں کورٹ میرج تو کر بیٹھے مگر اب جاتے کہاں! چند دن ہوٹل میں رہے۔ جب ندیم کی جیب خالی ہوگئی تو دوچار دن ایک دوست نے ٹھہرا لیا لیکن کب تک کوئی کسی کو ٹھہرا سکتا ہے۔ ندیم کی ملازمت تھی اور نہ کوئی ذریعہ آمدنی! قمر بھی گھر سے خالی ہاتھ نکلی تھی سوائے اس ہلکے سے زیور کے جو وہ پہنے ہوئے تھی۔ ندیم نے میرے خاوند کو فون کیا۔ بھائی جان! جو ہوگیا سو ہوگیا، اب ہم کہاں جائیں؟ کیا سڑک پر بیٹھیں…؟
لاکھ ان کو برابھلا کہتے تھے، آخر بھائی تھے۔ بے یارومددگار ان دونوں کو نہ چھوڑ سکتے تھے۔ والد سے مشورہ کیا۔ میرے سسر بولے۔ ہم قمر کے والدین کو بعد میں معافی تلافی کرکے منا لیں گے۔ ان کو گھر آنے دو۔ غیرت گوارا نہیں کرتی کہ میری بڑی بہو کی بہن دربدر ہو۔ سسر نے اجازت دے دی اور کہا کہ ان کا ولیمہ ہوگا۔ ہم اپنے قریبی رشتے داروں اور محلے والوں کو مدعو کریں گے تاکہ سب قمر کو ہماری بہو تسلیم کرلیں اور عزت کریں۔ ان کو عزت سے گھر لانے میں ہی ہماری بھی عزت ہے۔
ولیمے کا اہتمام ہوا تو ہمارے کسی رشتے دار نے ابو کو خبر کردی۔ والد نے مجھے فون کیا۔ خبردار! جو تم اس ولیمے میں شریک ہوئیں۔ بہتر ہے میکے آجائو ورنہ پھر ہم سے ناتا نہ رکھنا۔ ان لوگوں کو ہماری عزت کا ذرّہ بھر بھی پاس نہیں ہے۔ ہمارے گھر سے لڑکی بھگا کر خوشیاں منا رہے ہیں، ولیمہ کرکے لوگوں کو مدعو کررہے ہیں۔ تم نے ان کا ساتھ دیا تو تم ہماری بیٹی نہ رہو گی۔
والد کا فون سن کر مجھے چکر آگیا۔ سانپ اور مینڈک والا معاملہ تھا۔ اگلتے بنتی تھی اور نہ نگلتے۔ کہاں جاتی، ان دنوں امید سے تھی۔ شوہر مجھے چاہتے تھے۔ ساس، سسر، نندوں، دیور سب کا اچھا سلوک تھا۔ اپنے ہنستے بستے گھر کو چھوڑ کر کیونکر میکے جا بیٹھتی۔ مجھے والدین اور سسرال میں سے ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ بہت سوچنے کے بعد میں نے میکے پر اپنے گھر اور شوہر کو ترجیح دی۔ والدین کا غصہ بجا مگر ان کا مطالبہ میرے حق میں صحیح نہ تھا کہ میں اپنا گھر چھوڑ کر میکے چلی جائوں۔
ولیمے میں مجھے اپنی ساس کے ساتھ کھڑا رہنا پڑا۔ مہمانوں کا استقبال اور ان کی
خاطرداری آخر میں اس گھر کی بڑی بہو تھی اور آنے والی بھی میری سگی بہن تھی۔ والدین نے مجھ سے بھی ناتا ختم کرلیا۔ اس بات کا افسوس قمر کو تھا۔ رخصتی کے وقت ماں، باپ کی دعائیں بھی وہ نہ سمیٹ سکی تھی، تاہم وہ بہت خوش تھی کہ اس کا خواب پورا ہوا تھا۔ اس خوشی میں اس نے والدین کے دکھ اور سارے زمانے کو بھلا دیا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ خمار اترنے لگا۔ ندیم اور قمر دونوں مکمل طور پر والد اور میرے شوہر نسیم کے دست نگر تھے۔ ندیم بی۔اے پاس نہ کرسکا تھا، نوکری بھی ملنی محال تھی۔ دوبارہ امتحان دینے کی تیاری کی لیکن کچھ غلط دوستوں نے اسے گھیر لیا اور وہ اب زیادہ وقت گھر سے باہر رہنے لگا۔
ندیم شروع سے لاپروا تھا۔ وہ پڑھائی میں زیادہ سنجیدہ نہ تھا۔ نسیم انجینئر تھے، جبکہ وہ بی۔اے فیل تھا۔ دونوں بھائیوں کے مزاج اور عادت میں بھی کافی فرق تھا۔ ندیم نے کالج چھوڑ دیا اور کمانے کے بارے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا تو سسر پریشان رہنے لگے۔ کئی بار سمجھایا۔ بیٹا! میں بوڑھا آدمی ہوں، زیادہ عرصہ تم لوگوں کا بوجھ نہ اٹھا پائوں گا۔ نسیم بھی کب تک تم لوگوں کی کفالت کرے گا۔ بہتر ہے کہ اپنے مستقبل کے بارے میں سوچو۔ ابھی سے کوئی منصوبہ بندی کرو، کل کلاں بچے ہوگئے تو ان کو کون پالے گا؟ عمر بھر کوئی کسی کے اہل و عیال کو نہیں پالتا خواہ سگا بھائی ہی کیوں نہ ہو۔
لاابالی ندیم باپ کی نصیحت ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑا دیتا۔ جب ماں اور بیوی نے بھی اسے سمجھانا شروع کیا تو وہ زیادہ تر گھر سے باہر رہنے لگا۔ ماں، باپ سے بات نہ کرتا اور قمر سے بھی الجھ پڑتا۔ احساس ہوا کہ اس کی صحت گرنے لگی ہے۔ رنگ روپ اور چہرے کی آب و تاب ماند پڑتی جاتی ہے۔ جلد ہی یہ حقیقت سامنے آگئی کہ وہ نشہ کرنے لگا تھا۔ کبھی اس قدر آپے سے باہر ہوجاتا کہ ذرا سی بات پر بے تحاشا گالیاں بکنے لگتا تھا۔ اس کا رویہ نارمل نہ رہا تھا۔
قمر مجھ سے رقم لیتی اور ندیم کے مطالبے پر چپکے سے اسے دے دیتی تاکہ وہ پرسکون رہے اور گھر والوں کا سکون خراب نہ کرے۔ جب نشے کے لئے پیسے مل جاتے، موڈ بہت اچھا ہوجاتا اور وہ قمر کو اپنی محبت کے میٹھے بول بول کر اپنا اسیر کرلیتا۔ قمر پریشان رہنے لگی لیکن شوہر کا گلہ شکوہ کس سے کرتی؟ کبھی روتی، کبھی ہنس پڑتی۔ جب ندیم کی صحت گرنے لگی اور اس کا رویہ انتہائی ترش اور مریضانہ ہوگیا تو گھر والوں پر راز کھل گیا کہ وہ نشہ کرنے لگا ہے، بلکہ باقاعدہ نشے کا عادی ہوچکا ہے۔
اس بات کا علم مجھے اور نسیم کو بھی اس وقت ہوا جب پانی سر سے گزر گیا تھا۔ ہم سمجھ رہے تھے کہ بیروزگار انسان جو دوسروں سے اپنے اخراجات کے لئے پائی پائی کا محتاج ہو، اس کا رویہ ایسا ہی تلخ اور غیر معمولی ہوجاتا ہے۔ تبھی نسیم چھوٹے بھائی کا ہاتھ تنگ نہ ہونے دیتے تھے۔ اگر جانتے کہ ان کے خون پسینے کی کمائی نشے کی نذر ہورہی ہے تو وہ کوئی تدبیر بروقت کرکے اپنے چھوٹے بھائی کو اس جال میں پھنسنے سے بچا لیتے۔ قمر نے یہ راز دیر سے کھولا۔ ندیم نے کوئی کام نہ کرنے کی قسم کھا لی۔ اس کی جوانی کو گھن لگ چکا تھا۔ ہم ان کا خرچہ بھی پورا کرتے اور قمر مجھ سے چپکے چپکے شوہر کے نشے کے لئے رقم بھی مانگتی رہتی۔
وہ اب پچھتا رہی تھی کہ اس نے کتنا غلط فیصلہ جلدی میں کرلیا تھا۔ ناحق اپنی زندگی برباد کی اور ساتھ ماں، باپ کو بھی اتنا بڑا دکھ دینے کا سبب بنی۔ مجھے بھی والدین کی ناراضی اور قطع تعلقی سے دکھ پہنچا تھا۔ میں پھر بھی اپنے گھر میں آباد تھی۔ قمر جو یہ سمجھ رہی تھی کہ ہر شے کو دائو پر لگا کر ندیم جیسی متاع پا لی ہے تو وہ اب آٹھ آٹھ آنسو رو رہی تھی لیکن کسی سے کیا کہتی، یہ اس کا اپنا کیا دھرا تھا۔ وہ ہم پر مستقل بوجھ تھی۔ ہم یہ بوجھ بھی اٹھا رہے تھے لیکن ندیم نے قیامت مچا رکھی تھی۔ اسے نشے کے لئے روز رقم درکار تھی۔ سسر ریٹائرڈ تھے اور نشئی بیٹے کے لئے ان کی پنشن ناکافی تھی۔ قمر زیادہ پس رہی تھی کہ ندیم رقم کا مطالبہ بیوی سے کرتا۔ جانتا تھا کہ قمر میری بہن ہے اور میں اپنی بہن کو روتا نہیں دیکھ سکتی۔ میرے اور قمر کے رشتے کو اس نے ہماری کمزوری جان لیا تھا۔ وہ قمر سے کہتا۔ رقم دو۔ وہ نہ دیتی تو میرے سامنے اس کو مارنے پیٹنے لگتا۔ اس وقت تک ستاتا، جب تک رقم اسے نہ مل جاتی۔
اس صورتحال سے میں تنگ آگئی۔ کب
رقم کا مطالبہ کرتی۔ وہ کہتے نشے کے لئے تمہاری بہن سے میرا بھائی رقم مانگتا ہے تو مت دو۔ ادھر ندیم قمر کا ناک میں دم کر ڈالتا۔ وہ روتی سسکتی میرے پاس آتی۔ میری جان عذاب میں آگئی۔ اب تو دل سے چاہتی تھی کہ قمر کہیں چلی جائے لیکن کہاں…! والدین کے گھر کے دروازے اس پر بند تھے اور اسی کی وجہ سے مجھ پر بھی میکے کے در بند ہوئے تھے۔ رشتے دار! کون کسی کو رکھتا ہے ایسے حالات میں! قمر کا میرے سوا کوئی نہ تھا۔ رو کر میرا ہی دامن پکڑتی تھی۔ ساس بھی اب قمر کا خیال نہ کرتی تھیں۔ کہتیں کہ ہم نے کب کہا تھا کہ یہ گھر سے بھاگ کر ہمارے بیٹے سے شادی کرلے؟ ندیم برا بھلا جیسا بھی تھا، ہمارا بیٹا تھا۔ وہ شادی سے پہلے تو ایسا نہ تھا۔ اب قمر کا یہ حال کہ زخموں سے چور بخار میں بھی سارے گھر کا کام کرتی اور کوئی اس کا حال پوچھنے کا روا دار نہ تھا۔
ان دنوں میں دوسرے بچے کو جنم دینے والی تھی۔ کام کاج نہ کرسکتی تھی۔ قمر اکیلی ہی تمام گھر کا بوجھ سنبھال رہی تھی۔ میری نند کے رشتے کے لئے مہمان آگئے۔ قمر کو بخار تھا اور دس آدمیوں کا کھانا تیار کرنا تھا۔ وہ بستر سے نہ اٹھ سکتی تھی پھر بھی باورچی خانے میں جانا پڑا۔ دقتوں سے کام کررہی تھی۔ غسل خانے جاکر قے کرتی پھر آکر کھانا بنانے لگتی۔ نندیں اپنی آرائش و زیبائش میں مصروف تھیں، ساس مہمانوں کے ساتھ بیٹھی تھیں۔ میں اپنی بہن کی بے بسی دیکھ رہی تھی اور آنسو بہا رہی تھی۔
رات کو اسے شدید بخار چڑھا۔ دوبار میں اس کے کمرے میں گئی، اسے پانی اور ’’پین کلر‘‘ دیا۔ وہ اکیلی پڑی تھی۔ آدھی رات کو ندیم آیا۔ میں اپنے کمرے میں آگئی۔ چلو برا بھلا جیسا ہے، اس کا جیون ساتھی ہے، پانی تو دے دے گا۔ ذرا دیر بعد قمر کے سسکنے کی آواز سنائی دی۔ ندیم اس سے رقم مانگ رہا تھا اور وہ کہہ رہی تھی۔ آپا سو گئی ہیں، میں آدھی رات کو رقم کہاں سے لائوں، کس سے مانگوں؟ تبھی اس نے قمر کے گلے میں پڑی سونے کی چین کا مطالبہ کردیا۔ تو یہ دے دو۔ یہ ہرگز نہ دوں گی۔ یہ میری امی کی نشانی ہے۔ میں نے ایف۔اے پاس کیا تھا، انہوں نے تحفے میں دی تھی۔ قمر نے گلے پر ہاتھ رکھا۔ ندیم نے بیوی کا گلا دبا دیا اور زبردستی چین گلے سے نوچ کر گھر سے باہر نکل گیا۔
اس واقعے نے قمر کا دماغ ہلا کر رکھ دیا۔ بخار میں شوہر کی ایسی بدسلوکی نہ سہہ سکی۔ وہ بھی بہکی بہکی باتیں کرنے لگی جیسے کسی کا ذہنی توازن بگڑ جاتا ہے۔ اب وہ بیٹھے بیٹھے اکثر ڈر جاتی۔ اپنا گلا دونوں ہاتھوں سے چھپاتی جیسے گلا دبانے والے سے خود کو بچا رہی ہو۔ روتی اور پھر چلانے لگتی۔ تمام گھر والے اس سے نالاں ہوگئے۔ انہوں نے ندیم پر بھی اپنے گھر کے دروازے بند کردیئے۔ سسر نے کہا۔ اگر اب یہ آئے تو کوئی دروازہ نہ کھولے۔ اچھا ہے کہ جن آوارہ دوستوں کے ڈیرے پر رہتا ہے، وہاں ہی مر جائے۔
میرے شوہر بیچارے پر سارے کنبے کا بوجھ تھا۔ وہ دن، رات کمانے میں لگے تھے تاکہ بہنوں کی شادیاں کرسکیں اور گھر کے اخراجات بخوبی پورے ہوں۔ وہ ان جھمیلوں میں پڑتے تو ڈیوٹی پر نہ جاسکتے تھے۔ ہمارے گھر کا سکون غارت ہوچکا تھا۔ آخر میں نے ہمت کی اور میکے چلی گئی۔ در کھٹکھٹایا، امی نے کھولا۔ مجھے دیکھ کر تیوری پر بل ڈال لئے مگر اندر آنے دیا۔ میں رو کر ان کے گلے سے لگ گئی اور تمام احوال اکھڑی سانسوں میں سنایا۔ انہوں نے تحمل سے سنا۔ آخر ماں تھیں اور قمر ان کی بہت لاڈلی تھی۔ اس کی ذرا سی تکلیف پر تڑپ جاتیں تھیں۔ بیٹی کا یہ حال جان کر ممتا کی ماری نہ رہ سکیں اور میرے ساتھ اس کو دیکھنے ہمارے گھر آگئیں۔
قمر کو پاگلوں جیسے حال میں دیکھ کر میری ماں کی آنکھوں سے آنسو تھمنے کا نام نہ لیتے تھے۔ گلے سے لگا کر بھینچ لیا اور میرے بھائی کو فون کیا کہ گاڑی لائو، قمر کو گھر لے جانا ہے۔ بھائی جان کی کیا مجال ماں کا حکم ٹالتے۔ قمر کو دیکھا تو وہ بھی رونے لگے۔ دونوں نے اسے سہارا دے کر اٹھایا اور اپنے ساتھ لے گئے تب میں نے سکھ کا سانس لیا کہ وہ اپنوں میں چلی گئی تھی۔ اپنے ہی اس حالت میں اس کا ساتھ دے سکتے تھے۔
والد کو امی نے سمجھا دیا۔ ماں اولاد کی ہزار غلطیاں معاف کرسکتی ہے تو وہ قمر کو کیسے چھوڑ دیتیں۔ قمر بھی اپنوں کی آغوش میں پہنچ کر سکون میں آگئی۔ بھائی جان نے اس کا علاج کرایا۔ وہ رفتہ رفتہ صحت یاب ہونے لگی۔ اس نے
سہولت کا سانس لیا کہ وہ رشتے اسے نصیب ہوگئے تھے جن سے وہ محروم ہوچکی تھی۔
میرے والدین نے قمر کو دوبارہ سسرال نہ بھیجا۔ کیوں بھیجتے، کس کی خاطر…؟ ہیروئن کا نشہ ندیم کی ہڈیوں میں اتر چکا تھا۔ اس کو دیمک کی طرح چاٹ کر کھوکھلا کرچکا تھا۔ والد خلع چاہتے تھے لیکن اس کی نوبت نہ آئی اور ایک دن ندیم کے مرنے کی خبر آگئی۔ قدرت نے خود قمر کو اس کی اذیت بھری قید سے آزاد کرا دیا تھا۔ ہمیں ندیم کی وفات کا بہت دکھ تھا۔ میرے ساس، سسر رو رو کر نیم جان تھے لیکن مرنے والوں کو کون دوبارہ لا سکتا ہے۔ وہ جس دنیا میں چلے جاتے ہیں، وہاں سے لوٹ کر آنا ممکن نہیں ہوتا۔ اللہ نشے کی لت سے سب نوجوانوں کو بچائے اور جو ان کو نشے پر لگاتے ہیں، اللہ ان کو ہدایت دے۔ (ن… لاہور)

Latest Posts

Related POSTS