Tuesday, March 18, 2025

Dhuaan aur Ahatain

اچھے دنوں میں والد صاحب نے دو منزلہ مکان بنوا لیا تھا۔ جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو یہ دو منزلہ مکان ہی کام آیا۔ میں نے اوپر کی منزل کرائے پر دینے کی ٹھانی۔ بھائی نصرت ایک میڈیکل اسٹور پر ملازم تھے اور ان کی تنخواہ گزر بسر کو کافی تھی۔ امی کو بھائی نے مشورہ دیا کہ میں نے امام صاحب کو کہہ دیا ہے کہ اگر کوئی اچھے لوگ ملیں تو ہمارا مکان کرائے پر لگا دیں۔ تم نے ٹھیک کیا ہے بیٹے! سارا دن تم اسٹور پر ہوتے ہو، کسی نہ کسی طرح معاش کا مسئلہ حل کرنا ہی ہے۔ہفتے گزرے تھے کہ ایک شام جب نصرت بھائی گھر میں داخل ہوئے، والدہ نے ان کو آواز دی۔ بیٹا! تھوڑی دیر کے لیے ادھر آنا۔ اس وقت مغرب کی اذان ہو رہی تھی۔ بھائی کا معمول تھا کہ وہ مغرب کے وقت گھر آ جاتے تھے، پھر کپڑے بدل کر نماز پڑھنے مسجد کی راہ لیتے۔نصرت بھائی نے امی کی آواز پر لبیک کہا۔ کپڑے بدلنے کی بجائے وہ امی کی طرف آئے اور پوچھا، جی امی جان! آپ نے کچھ کہا؟ کیا کوئی خاص بات ہے؟ہاں بیٹا! آج امام صاحب کے لڑکے کے ساتھ ایک شخص آیا تھا۔ اس شخص کو کرائے کے لیے گھر چاہیے تھا، وہ مغرب کے بعد آنے کا کہہ کر گیا ہے۔ٹھیک ہے امی جان! میں امام صاحب سے بات کر لوں گا۔

بھائی نماز پڑھ کر آئے تو بتایا کہ اس شخص سے مسجد میں ملاقات ہو گئی ہے، جسے کرائے پر مکان چاہیے تھا۔ یہ امام صاحب کے بیٹے کے ساتھ پڑھتا تھا، اس کا پرانا کلاس فیلو ہے۔ امام صاحب نے کہا کہ میری اس شخص سے جان پہچان نہیں ہے، لیکن میرے بیٹے کا ہم جماعت رہا ہے۔ اگر آپ لوگوں کو ٹھیک لگے تو معاملہ طے کر لیں، ورنہ کوئی اور کرائے دار مل جائے گا۔تم نے پھر کیا فیصلہ کیا نصرت؟ امی جان نے پوچھا۔امی جان! میں نے بات کی ہے، مجھے تو یہ بندہ ٹھیک لگا ہے۔ مختصر فیملی ہے، میں نے کرائے پر مکان دینے کی ہامی بھر لی ہے۔ کل یہ لوگ ایڈوانس دے کر سامان لے آئیں گے۔ آپ کو صحیح لگے تو ایڈوانس لے کر ان کو گھر کی چابی دے دینا۔اگلے دن بھائی نصرت ڈیوٹی پر گئے ہوئے تھے۔ جمال احمد نامی شخص آیا اور بتایا کہ میں آپ کا گھر دیکھنا چاہتا ہوں، کل آپ کے بیٹے سے بات ہوئی تھی۔ امی نے اوپر کی منزل پر بنا ہوا پورشن دکھایا۔ انہوں نے گھر پسند کر لیا اور ایڈوانس کی رقم دے دی۔ سامان ایک دو روز بعد لانے کو کہا۔تین دن بعد یہ کرائے دار سامان لے کر آگیا۔ اس وقت تین افراد تھے: میاں، بیوی اور ایک لڑکی جو گیارہ سال کی تھی۔ انہوں نے مکان کی صفائی کرائی اور سامان شفٹ کر لیا۔

جمال نوجوان آدمی تھا۔ اس کی بیوی بھی جوان تھی اور اس کا نام ارجمند بانو تھا۔ جلد ہی وہ ہم سے گھل مل گئی۔ مجھے بہن، نصرت بھائی کو بھائی جان اور امی کو اماں جان کہتی تھی۔ اس طرح اس نے ہمارے ساتھ رشتہ بنا لیا۔ امی ایک بیٹی کی طرح اس کو چاہتی تھیں۔ وہ بہت با ادب اور تابعدار قسم کی لڑکی تھی۔ بھائی جان سے تو جمال احمد کی ہفتے میں ایک بار صرف چھٹی کے دن ہی ملاقات ہوتی تھی۔ ایک دن باتوں باتوں میں انکشاف ہوا کہ جمال نے یہ شادی اپنے والدین سے چھپ کر کی تھی۔ اب اس کی خواہش تھی کہ بغیر کسی لڑائی جھگڑے کے اس کے والدین ارجمند بانو کو اپنی بہو تسلیم کر لیں اور اپنے گھر لے جائیں۔ اس نے خواہش ظاہر کی، نصرت بھائی! آپ اور آپ کی امی جان درمیان میں پڑ کر میرے والدین سے ہمارا ملاپ کروا دیں۔امی جان سے بات کرتا ہوں۔ بھائی نے جمال کو جواب دیا۔ امی سے بات کی تو والدہ نے سمجھایا، بیٹا! ایسے معاملات نازک ہوتے ہیں۔ ہمارا ان لوگوں سے کوئی ناتا، واسطہ، یا جان پہچان نہیں ہے۔ جمال کے ماں، باپ بھلا ہماری کیوں سنیں گے؟نصرت بھائی نیک دل اور سیدھے سادے، ہر ایک سے ہمدردی کرنے والے تھے۔ امی کو سمجھانے لگے کہ کوشش کرنے میں کیا حرج ہے۔ یہ ہمارے کرائے دار تو ہیں اور کرائے داروں کا بھی مالک مکان سے ایک سماجی بندھن قائم ہو جاتا ہے۔ اگر وہ نہ مانے تو نہ سہی، نیکی کے کام میں قدم اٹھانے میں تو کوئی حرج نہیں ہے۔تب والدہ بولیں، ٹھیک ہے، لیکن جمال احمد سے کہو کہ پہلے وہ جا کر اپنے ماں، باپ کے موڈ اور مزاج کو دیکھ آئے، وہاں کے حالات کا اندازہ کر لے، پھر ہی ہم اس کے ساتھ جائیں گے۔جس دن یہ طے پایا، اس سے اگلے دن جمال اپنے گاؤں چلا گیا۔ جاتے ہوئے کہہ گیا، دو چار دن میں لوٹ آؤں گا۔

گیارہ دن گزر گئے، لیکن وہ نہ لوٹا۔ اس دوران جمال کی بیوی ارجمند بانو کے ماں، باپ اور بیٹی سے ملنے آئے۔ وہ لوگ تین روز رہ کر چلے گئے، اور اپنی چھوٹی لڑکی، جو بہن کے ساتھ رہ رہی تھی، اس کو بھی لے گئے تھے۔ اب ارجمند بانو اکیلی رہ گئی تھی۔ خرچہ بھی اس کے پاس ختم ہو گیا تھا۔ وہ بہت پریشان تھی۔ امی جان بار بار تسلی دیتی تھیں، مگر وہ یہی کہتی تھی، اگر جمال نہ آیا تو میں کیا کروں گی؟ آپ لوگوں کا کرایہ بھی کہاں سے دوں گی؟تم اس کی فکر مت کرو، ہم تم سے نہ مانگیں گے اور جمال بھی آ ہی جائے گا، کوئی مجبوری آڑے آگئی ہو گی۔ والدین کے پاس گیا ہے، کسی دشمن کے پاس تو نہیں گیا۔ کیوں تم اس قدر گھبرا رہی ہو؟ امی نے ارجمند بانو کو تسلی دی، مگر اس کی گھبراہٹ اور بے چینی میں کمی نہ آئی۔ وہ بولی، وہ نہ آئے تو میں جان دے دوں گی، امی جان! مگر میکے واپس نہ جائوں گی۔اس کی پریشانی دیکھ کر امی جان نے نصرت بھائی سے کہا، بیٹا! بانو بہت پریشان ہے، تم جاؤ جا کر جمال کا پتا کر کے آؤ، وہ اوپر اکیلا رہنے سے گھبراتی ہے۔دوسری صبح بھائی کی چھٹی تھی۔ وہ صبح ہی بیدار ہو کر جمال کے گاؤں روانہ ہو گئے۔ دوپہر کو بھائی فاضل پور پہنچے۔ اڈے پر ہی جمال مل گیا۔ بھائی نے پوچھا، تم کیوں نہیں آرہے ہو؟ تمہاری بیگم وہاں بہت پریشان ہے، تبھی امی نے تم کو واپس لانے کو بھیجا ہے، کہ تمہارا پتا کروں۔

کچھ ایسا مسئلہ ہو گیا کہ مجھے ادھر ٹھہرنا پڑا ہے۔ جمال نے کہا۔ دراصل میرے کزن کا ایک دوست، جو خوشحال گھرانے سے ہے، اس کی دوستی کسی لڑکی سے تھی۔ ان دونوں کو لڑکی کے گھر والوں نے کسی جگہ دھر لیا اور کیس درج کروا دیا۔ انہوں نے میرے کزن کے ساتھ میرا نام بھی کیس میں لکھوا دیا کہ ہم اس کے لڑکے کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔جس نے ان کی لڑکی کو ورغلایا ہے، اس کے پرچے میں میرا نام بھی آ گیا ہے۔ بڑی مشکل سے میرا نام تو نکال دیا گیا ہے، مگر اس وجہ سے ان لوگوں سے دشمنی پڑ گئی ہے۔ ہم چھپتے چھپتے پھرتے تھے۔ اب تم یہ ایک مہربانی کرو، یہاں فی الحال میری اور ارجمند کی شادی کے بارے میں کسی سے کوئی بات نہ کرنا۔ میں دو چار دن میں آ جاؤں گا۔ میری بیوی کو تسلی دینا اور یہ کچھ رقم جو جیب میں ہے، یہ بھی اس کو دے دینا۔ مکان کا کرایہ میں ادا کر دوں گا۔بھائی نصرت کو بھی لوٹنے کی جلدی تھی۔ تھوڑی دیر بعد وہ اڈے سے ہی ملتان آنے والی لاری میں بیٹھ گئے۔ بھائی جان رات ایک بجے گھر پہنچے۔ صبح رقم امی کے حوالے کی اور کہا کہ ارجمند کو تسلی دیں اور یہ رقم بھی دے دیں کہ جمال نے خرچے کے لیے بھجوائی ہے۔ کہنا کہ تسلی رکھے، جمال دو چار دنوں میں آ جائے گا۔شام کو ارجمند بانو خود بھائی جان کے پاس آئی کہ اس کی تسلی نہ ہو پارہی تھی۔ نصرت بھائی نے کہا، بہن ارجمند بانو، تسلی رکھو۔ میں جمال سے مل کر آ رہا ہوں، وہ جلد آنے والا ہے۔ گاؤں میں ایسا کچھ واقعہ ہو گیا ہے کہ اس کو رکنا پڑ گیا۔

دور روز بعد جمال لوٹ آیا تو ہم سب کو اطمینان ہوا۔ جمال کو آئے ہفتہ بھی نہ ہوا تھا کہ ایک محلے دار بھائی کے پاس آیا۔ کہا کہ آپ کے کچھ مہمان آئے ہیں اور آپ کا مکان تلاش کر رہے ہیں۔ میں ان کو لے آیا ہوں۔ بھائی جان اسٹور سے باہر آ گئے جہاں سامنے ٹیکسی رکی ہوئی تھی۔ بھائی نے ان میں بیٹھے لوگوں سے بات کی، پوچھا، آپ کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں؟ انہوں نے کہا، جمال نے آپ کا پتا دیا ہے، ہم اس کے بہن، بھائی ہیں۔ بھائی نے کہا، اچھا! اگر اس نے میرا پتا آپ کو دے دیا ہے تو پھر تشریف لے چلئے۔ میری والدہ گھر میں ہیں، میں تھوڑی دیر میں اسٹور کے مالک سے چھٹی لے کر پہنچ جاؤں گا۔نصرت بھائی گو مگو میں تھے کہ عجیب آدمی ہے۔ خود منع کیا تھا کہ میرے رشتہ داروں کو نہ بتانا اور خود ہی میرے گھر کا پتا بھی بتا دیا کہ جہاں اس کی بیوی ارجمند بانو بھی رہتی ہے۔ بہر حال شام کو بھائی جان چھٹی لے کر آگئے۔ امی جان نے بتایا کہ مہمان تو چلے گئے مگر ان کے جانے کے بعد جمال اور اس کی بیوی بھی ہم سے لڑ کر چلے گئے ہیں۔ جمال نے مجھ سے کہا ہے کہ تمہارے بیٹے نے میرا راز افشا کر کے میرے ساتھ بڑی دشمنی کی ہے۔ میرے خاندان والوں کو بلوا کر اب وہ میرا قتل کرانا چاہتا ہے۔ یہ سن کر بھائی جان تو حیرت میں ڈوب گئے کہ یہ کیا ماجرا ہے۔امی نے بتایا کہ وہ ہفتہ بعد اپنا سامان اٹھا کر لے جانے کا کہہ کر گئے ہیں۔ وہ رات گزر گئی۔ صبح ناشتہ کرنے کے بعد بھائی اسٹور جانے کو تیار ہو رہے تھے کہ در پر دستک ہوئی۔ در کھولا تو دو برقع پوش عورتیں بڑی تیزی سے آئیں اور سیدھی امی جان کی طرف چلی گئیں۔ تھوڑی دیر بعد زور زور سے رونے کی آواز آنے لگی۔ یہ عورتیں کہہ رہی تھیں، جمال نے بڑا دھوکا کیا ہے۔ پہلے اس نے منگنی خالہ کی بیٹی سے کی، اب چھپ کر شادی رچالی۔ ہم خاندان میں کیا منہ دکھائیں اور بھانجی کے سامنے کس منہ سے جائیں؟ آپ کے گھر ہمارا بیٹا رہتا ہے، تو ایک بار اس کو ہم سے ملوادیں۔نصرت بھائی نے جمال کی ماں کو تسلی دی کہ خالہ جان! آپ پریشان نہ ہوں۔ جب اس نے مکان کرائے پر لیا تو کسی کو علم نہ تھا کہ اس نے شادی والدین کی مرضی سے نہیں کی ہے، نہ مجھے اور نہ اس کے دوست کو کہ جس نے مکان دلوایا۔ ہم اس کے اس عمل میں شامل نہیں ہیں۔ آپ ہفتے بعد آجائیں، وہ اپنا سامان اٹھانے آئے گا، آپ اس سے مل لینا۔جمال کی ماں اس پر بولی، یہ سامان میں لے کر جاؤں گی، یہ میرے بیٹے کا سامان ہے، اس پر صرف میرا حق بنتا ہے۔امی جان نے سامان نہ اٹھانے دیا، کہا کہ بہن، جب تک جمال نہ آجائے، میں سامان کسی کے حوالے نہیں کروں گی۔ یہ اس کی امانت ہے، وہی لے کر جائے گا۔ وہ خاتون خفا ہو کر چلی گئیں۔

دوسرے دن جمال کی ماں کے ہمراہ اس کے والد بھی آگئے۔ وہ اونچا اونچا بولنے لگے۔ یہ اتوار کا دن تھا اور بھائی گھر پر تھے۔ نصرت بھائی اس بزرگ کے سامنے مجرم کی طرح نظر آ رہے تھے۔ وہ ادب کی وجہ سے چپ تھے، مگر بڑے میاں گرج رہے تھے کہ میرے بیٹے کا سامان ہے، میرے حوالے کر دو، ہم اس کی ہر شے کے حقدار ہیں۔ ٹھیک ہے لیکن جب تک جمال یا اس کی بیوی نہ آجائیں، سامان حوالے نہیں کر سکتا۔ وہ آئے گا تو اس کو کیا جواب دوں گا؟ اس پر وہ اور غصہ ہونے لگے اور جیب سے ایک خط نکال کر دکھایا کہ دیکھو جمال نے یہ خط مجھے خود دے کر تمہارے پاس بھیجا ہے۔ خط میں لکھا تھا:ابا جان! معاف کر دیجئے۔ ارجمند بانو میری بیوی نہیں ہے اور نہ میں نے اس کے ساتھ نکاح کیا ہے۔ اس کے ساتھ کیسے نکاح ہو سکتا ہے جبکہ اس کا تو پہلے سے نکاح کسی کے ساتھ ہے؟ یہ عورت زبردستی میرے گلے پڑ گئی۔ یوں سمجھ لیں میرا اس کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں ہے۔ آپ میرا خط نصرت صاحب کو دکھا دیں گے تو وہ آپ کو سامان اٹھانے دے گا۔نصرت بھائی نے وہ خط پڑھ کر بڑے میاں کو پکڑا اور کہا کہ میں کسی ایسے رقعے کو نہیں مانتا۔ جب تک از خود جمال نہ آئے گا، میں کسی کو اپنے کرایے دار کی کسی شے کو ہاتھ نہیں لگانے دوں گا۔ وہ لوگ گرجتے برستے چلے گئے، لیکن ہم سوچتے رہ گئے کہ اگر یہ خط واقعی جمال کا تحریر کردہ ہے تو کیا کوئی سامان کی خاطر اتنا گر سکتا ہے کہ بیوی کو بیوی ماننے سے انکار کر دے۔

ہفتے بعد ارجمند بانو اپنی بہن کے ساتھ آ گئی۔ امی اس پر خفا ہونے لگیں کہ تم عجیب لوگ ہو، ہمیں خواہ مخواہ مصیبت میں پھنسا دیا ہے۔ تب وہ رونے لگی۔ بولی، میں ساری بات آپ کو بتا دیتی ہوں کیونکہ میں آپ کو سگی ماں کی جگہ اور نصرت کو دل سے بھائی مانتی ہوں۔ پھر اس نے بتایا:میں چھوٹی سی تھی، ماں فوت ہو گئی اور باپ نے دوسری شادی کر لی، اس عورت نے مجھے بہت ستایا۔ گیارہ سال کی عمر میں میری شادی منان نامی شخص سے کر دی۔ شادی کے عوض اس نے منان سے اچھی خاصی رقم لی۔ تبھی اس شخص نے مجھے بیوی نہیں، ایک زر خرید لونڈی سمجھا۔ چار سال تک میں منان کے حقارت آمیز سلوک کا نشانہ بنتی رہی۔ ماں کبھی کبھی آجاتی تھی۔ جب میں نے ایک بچی کو جنم دیا، ماں کی آمد و رفت زیادہ ہو گئی۔ اور شوہر کی بد سلوکی دیکھ کر مجھ سے ہمدردی کرنے لگی۔ کہتی، مجھے کیا خبر کہ یہ اتنا ظالم انسان ہے، تم پر اتنے ستم توڑے گا۔ جانتی تو اس سے کبھی تیری شادی نہ کرتی۔ باپ تیرے امر گیا ہے، ورنہ وہ اس کو مزا چکھا دیتا۔اس طرح میں زمانے کی ستائی کو ماں نے ورغلایا، میرے شوہر کو تم لوٹا دی اور مجھے گھر لے آئی۔ چند دن خوب آؤ بھگت کی اور خیال رکھا۔ میں نے بھی پہلی بار سکھ کا سانس لیا لیکن اس کے بعد جب ان کے مقاصد کا علم ہوا تو میں ششدر رہ گئی۔

اب علم ہوا کہ میری سوتیلی ماں اچھے چال چلن کی نہیں ہے۔ مجھے بھی اس نے اپنے رستے لگانا چاہا۔ ایک روز گھر میں ماں تھی جو غیر شخص کے ساتھ رہتی تھی اور اس کو اپنا دوسرا شوہر ظاہر کرتی۔ اسی غیر شخص کے حوالے کیا تو سب کچھ سمجھ میں آگیا۔ اس رات کسی طرح میں ماں کے گھر سے عزت بچا کر نکل جانے میں کامیاب ہو گئی لیکن بھاگ کر اب جاتی کہاں؟ بس اڈے پر کھڑی تھی کہ جمال پاس آ گیا۔ وہ مجھے ادھر ادھر دیکھتے دیر سے تاک رہا تھا۔ پوچھا، کہاں جانا ہے؟ میں نے رو کر مختصر احوال بتا دیا۔ اس نے تسلی دی اور بولا، مجھ سے شادی کرو گی تو میرے ساتھ چلو۔ اس طرح میں اس کے ساتھ ہوئی۔ وہ شہر میں ملازمت کرتا تھا اور اپنے دوست کے پاس رہتا تھا۔ یہ مجھے وہاں لے آیا اور اپنے دوست کی فیملی سے ملایا۔ دوست سے نہ جانے کیا کہا۔ اگلے دن ایک فارم لے آیا اور کہا، اس پر انگوٹھا لگا دو۔ تمہارے پہلے شوہر پر تنسیخ نکاح کا کیس کرنا ہے۔ اس کے بغیر تمہاری مجھ سے شادی نہیں ہو سکتی۔مجھے جمال اور اس کا ساتھ پہلی نظر میں اچھا لگا تھا، یعنی ہمارے دلوں نے ایک دوسرے کو قبول کیا تو میں نے انگوٹھا لگا دیا۔ کیس چلا، تب تک میں جمال کی فیملی کے ساتھ رہی۔ وہ خود گاؤں چلا جاتا، جب پیشی ہوتی، آ جاتا۔ اس طرح کیس کے اختتام تک چلتا رہا۔ وہ دن بھی آ گیا کہ کیس کا فیصلہ ہو گیا۔ مجھے عدالت سے خلع مل گیا اور پھر ہم نے نکاح کر لیا۔ میں نے عدت کے دن بھی جمال کے دوست کے گھر گزارے تھے۔ یہ لوگ اچھے تھے، ہماری شادی میں بھی شریک ہوئے تھے۔ ہمارے نکاح کے گواہ ہیں۔ اہم بات یہ کہ جمال کے دوست نے نکاح کے وقت میرے ماموں سے رابطہ کیا، وہ بھی نکاح میں شریک ہوئے تھے۔ میرے یہ ماموں سوتیلی ماں کے بھائی تھے، مگر یہ اپنی بہن کے جیسے نہیں تھے، یہ اچھے انسان تھے۔ انہوں نے میری امی کے ساتھ بھی صلح کروا دی تاکہ میں سسرال میں عزت پاسکوں۔ کہا کہ اس نے دوسری شادی کر لی ہے اور عزت کی زندگی گزار رہی ہے۔میری بچی وفات پا چکی تھی جو میری سوتیلی ماں کے پاس تھی۔ جب ماں نے بتایا تو مجھے دکھ تو ہوا مگر میں نے اس کو اللہ کی رضا جانا۔ نکاح کے بعد جمال نے گھر کرائے پر لے لیا اور ہم یہاں آ گئے۔

اس کی آپ بیتی سن کر مجھے امی جان اور نصرت بھائی کو دکھ ہوا اور ہم نے اس کو معاف کر دیا۔ دوپہر کو اسی دن اچانک جمال بھائی کے والدین دوبارہ ہمارے گھر آ گئے۔ ان کے ساتھ دور رشتہ دار مرد بھی تھے۔ یہ جمال کا سامان اٹھانے آئے تھے۔ حیرت کی بات یہ کہ اس پورے قصے کا مرکزی کردار جمال ابھی تک غائب تھا۔جمال کے والدین ارجمند بانو پر گرجنے لگے کہ تم ایسی بازاری عورتوں کا تو کام ہی صاحب جائیداد لڑکوں کو پھانسنا ہے۔ میں تم کو ابھی پولیس کے حوالے کرتا ہوں۔ بیچاری ارجمند رورہی تھی۔ پہلے تو ہم خاموشی سے سنتے رہے، مگر امی نہ رہ سکیں۔ وہ بولیں، خان صاحب ہم آپ کو نہیں جانتے۔ جس کا سامان ہے جب تک وہ نہیں آئے گا، ہم کسی چیز کو ہاتھ نہ لگانے دیں گے۔ میں نے اوپر کی منزل میں جہاں ان کا سامان ہے تالا لگا دیا ہے اور اب آپ ہمارا تالا توڑ کر دکھائیں۔ ہم بھی پولیس میں رپورٹ کرائیں گے۔ پہلے آپ بیٹے کو لائے، پھر سامان اٹھائے۔ ان کے ساتھ آئے رشتہ دار نے کہا، آپ پولیس کو درمیان میں نہ لائیں۔ ہم شریفوں کی طرح آپس میں بات چیت سے معاملہ طے کر لیتے ہیں۔اگر یہ عورت اپنے نکاح کا ثبوت دے سکتی ہے تو ہم اس کو بہو مان لیتے ہیں۔ ارجمند بولی۔ جہاں جس گھر میں میر انکاح ہوا تھا یہ وہاں چلیں۔ وہ لوگ میرے نکاح کے گواہ ہیں۔ اس کے سوا اور کوئی نکاح کا ثبوت میرے پاس موجود نہیں ہے۔ تب تو یہ سب کچھ ایک فراڈ ہے ارجمند بانو۔ جمال کے چچا نے کہا۔ اب اس سامان پر تیرا کوئی حق نہیں ہے۔ ہم حیران تھے کہ تھوڑے سے سامان کی خاطر یہ لوگ کس طرح انسانیت سے گری ہوئی باتیں کر رہے ہیں۔ رات تک کچھ طے نہ ہو سکا۔ بالآخر نصرت بھائی بولے۔ آپ سب لوگ رات کو یہاں سو جائے۔ صبح میں ارجمند بانو کے بتائے پتے پر اس کے دوست کا گھر تلاش کرتا ہوں۔ اس سے شاید جمال کا پتا معلوم ہو جائے۔ تبھی اس کے والد بولے۔ جمال میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ ہمارے سامنے آئے۔ وہ نہیں آئے گا۔ سمجھا بجھا کر امی اور بھائی نے ان کو راضی کیا اور بستر وغیرہ بھی اوپر کی منزل پر لگا دیئے۔ ارجمند کو بھی وہاں ہی سونے کے لئے بھیج دیا کہ وہ ابھی تک ہماری کرائے دار تھی۔ بیٹھک میں جمال کے دونوں چچائوں کے لئے بستر لگا دیئے گئے۔ وہ وہاں چلے گئے۔

کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ارجمند نیچے آگئی اور امی سے لپٹ کر رونے لگی۔ بولی۔ امی جان میں جان چکی ہوں کہ جمال اب نہیں آئے گا کیونکہ اس کے والدین اس پر برہم ہیں۔ وہ شادی شدہ ہونے سے انکار نہ کر دے۔ آپ مجھ کو اپنے پاس رکھ لیں۔ میں لوٹ کر اب اپنی ماں کے گھر نہ جائوں گی۔ جہاں میر اسوتیلا باپ بھی اس کے ساتھ رہتا ہے۔ امی نے کہا۔ بانو حوصلہ رکھو۔ جمال ضرور آئے گا۔ ہم تم کو اپنے پاس نہیں رکھ سکتے۔ ابھی تو تم کو اپنی امی کے گھر ہی جانا ہو گا۔ وہ بولی۔ مجھے کسی کی ملازمہ رکھوادیں۔ میں برتن دھولوں گی۔ آپ پر بوجھ نہ بنوں گی۔ ماں نے سمجھایا کہ لڑکی یہ نہیں ہو سکتا۔ نجانے تمہارے پہلے شوہر کا کیا معاملہ ہے۔تمہاری ماں اور اس کے رشتے دار بھی ہمارے دشمن ہو جائیں گے۔ یہ لوگ ہم پر اغوا کا پرچہ درج کروادیں گے۔ ہم کس کس کو جواب دیں گے۔ تم فی الحال اپنا سامان اٹھائو اور ماں کے پاس چلی جائو۔ وہ سوتیلی سہی، تمہاری شادی میںشریک نہ ہوئی، اس کا بھائی تو شریک ہوا ہے۔ تم اسی ماموں کو جاکر معاملہ گوش گزار کر و۔ وہ تمہاری مدد کریں گے۔ امی کی باتوں سے ارجمند مایوس ہو گئی۔ نصرت بھائی اپنے کمرے میں سب باتیں سن رہے تھے۔ وہ آگئے تو ارجمندان کے آگے ہاتھ جوڑنے لگی۔ بھائی نصرت ، میں نے تم کو بھائی کہا ہے۔ تم ہی اس بے آسرا بہن کو پناہ دے دو۔ نصرت نے بھی کہا۔ بے شک تم میری بہن جیسی ہو مگر بانو بہن تم کو ہماری مجبوریوں کا اندازہ نہیں ہے۔ہم مجبور ہیں۔ اب سو جائو۔ صبح دیکھیں گے کہ کیا کرنا ہے مگر وہ سوئی نہیں۔ وضو کر کے نفل پڑھنے اور خدا سے دعائیں مانگتی رہی۔ کچھ دیر بعد وہ اوپر چلی گئی۔ صبح کے وقت اس کی ساس وضو کرنے نیچے آئی کہ فجر کی نماز کا وقت تھا۔ امی نے بھی وضو کیا کہ نماز پڑھ لیں۔دو چار منٹ گزرے ہوں گے کہ ایک چیخ بلند ہوئی۔ اتنے میں امی بھی چیچنے لگیں کہ مکان کو آگ لگ گئی ہے۔ ہم سب صحن سے اوپر دیکھنے لگے ، جہاں سے شعلے نظر آرہے تھے۔نصرت بھائی جان بھاگ کر اوپر پہنچے۔ عجیب منظر دیکھا۔ ارجمند کا جسم جل رہا تھا۔ شعلے اس کے چاروں طرف بھڑک رہے تھے۔ وہ چھت پر باورچی خانے کی دیوار کے پاس کھڑی تھی۔ پھر وہ جلتی ہوئی غسل خانے کی طرف دوڑی۔اتنے میں امی جان بھی پہنچ گئیں۔

اس وقت تک بانو پانی کا نلکا کھول کر خود پر پانی گرا چکی تھی۔ ہمارے پہنچنے سے پہلے اس نے اپنی آگ خود بجھائی تھی۔ ماں نے اس پر چادر ڈالی۔ اس کے کپڑے تو جل کر بھسم ہو چکے تھے۔ نصرت بھائی اور میں نے مل کر اس کو چار پائی پر ڈالا، اس وقت بھی وہ ہوش میں تھی۔ بولی۔ نصرت بھائی پولیس کو بلوائے میں نے بیان لکھوانا ہے۔ میں نے اپنے آپ کو خود آگ لگائی ہے۔ مجھے کسی نے نہیں جلایا۔ ایسا نہ ہو کہ جمال کے والدین پر الزام آجائے۔ کسی پڑوسی نے پہلے ہی پولیس کو فون کر دیا تھا کہ ان کی چھت سے ہماری چھت کا منظر واضح نظر آرہا تھا -آنا فانا پولیس آگئی۔ تھانہ ہمارے گھر سے قریب ہی تھا۔ ارجمند بانو کہہ رہی تھی۔ اب یہ لوگ خوش ہو جائیں۔ جس سامان کی خاطر یہ لوگ پریشان ہو رہے تھے ان کو ہی مل جائے گا۔ میں تو اب نہ بچوں گی۔پولیس کو اس نے چند جملوں میں بمشکل یہ بیان دیا کہ میں نے خود کو خود جلایا ہے تا کہ میں درمیان سے ہٹ جائوں اور میرا شوہر اپنی منگیتر سے شاید کرلے۔ میں اپنے ساس سسر کو راضی کرنا چاہتی تھی جو میری اور جمال کی پسند کی شادی سے غمزدہ تھے مگر انہوں نے مجھے نہیں جلایا۔ میر اسامان بھی ان کو لے جانے دینا۔ یہ کہہ کر اس نے دم توڑ دیا۔ جمال کی والدہ سے پوچھا گیا تو وہ بولی۔ میں فجر کی نماز پڑھ رہی تھی۔ سجدے میں تھی کہ ارجمند بانو کے چیخنے کی آواز آنے لگیں۔ میں نے نماز توڑ دی۔ اٹھ کر دیکھا تو وہ چھت کے درمیان کھڑی تھی اور اس کے کپڑوں میں آگ لگی کے والد نے بھی یہی بیان دیا کہ وہ نماز کے لئے وضو کرنے کو غسل خانے میں تھے کہ چلانے کی آواز پر باہر نکلے۔ یہ منظر دیکھا تو دل دہل گیا کہ جلتی ہوئی ارجمند غسل خانے کی طرف بھاگی جارہی تھی۔ بعد میں جمال کے والدین پولیس والوں سے ملتے رہے۔ نصرت بھائی تو اس کو لے کر اسپتال چلے گئے تھے۔ اس نے کب دم دیا مجھے نہیں معلوم ، مگر سب نے اس کو اتفاقی حادثہ قرار دے دیا۔

پولیس نے بھی جو کار روائی کرنا تھی کر لی اور جمال کے والدین کو بے قصور قرار دیا لیکن میں آج بھی سوچتی ہوں کہ ارجمند بانو کی خود کشی میں کیا ہم سب بھی قصور وار نہیں۔ اس کی سوتیلی ماں سابقہ شوہر ، جمال اور اس کے والدین اور وار ماں سابقہ ، اور ہم، کہ آخر میں اس نے ہاتھ جوڑ کر ہم سے بھی تو پناہ کی درخواست کی تھی مگر مصلحتوں کے سبب سبھی نے اس کو مرنے کے لئے مایوس چھوڑ دیا۔ اگر ہم نے اخلاقی سہارا دیا ہوتا تو شاید یہ نہ ہوتا۔

Latest Posts

Related POSTS