Tuesday, March 18, 2025

Dukh Bhari Zindagi

بچپن میں طے شدہ رشتے بہت کم راس آتے ہیں کیونکہ بچوں کے مزاجوں کا پتا نہیں ہوتا۔ امی جان کو اپنی بہن سے بہت محبت تھی لہذا انہوں نے دور اندیشی سے کام نہ لیا، صرف اپنی بہن کی خوشی کی خاطر مجھے خالہ کی پھیلی ہوئی جھولی میں ڈال دیا۔ شادی کے بعد پتا چلا شوہر اچھے کردار کا نہ ہو تو شادی عذاب ہو جاتی ہے۔ وہ رنگین مزاج شخص تھا۔ مجھے اپنے شوہر کی محبت نہ ملی بلکہ اس نے اپنی رنگ رلیوں کی وجہ سے میری زندگی اجیرن کر دی۔ میں قسمت پر شاکر رہنے والی عورت تھی، کسی سے شکوہ نہ کیا۔ وقت پلک جھپکتے گزرنے لگا۔ دو بیٹیوں کی ماں تھی۔ سوچا کہ ان کی اچھی پرورش کرنے میں اپنے دُکھوں کو بھلا دینا چاہئے۔ اب نواز تو ٹھیک ہونے سے رہے کہ وہ ان میں سے تھے جنہیں پوتڑوں کے بگڑے کہا جاتا ہے۔ وقت کے ساتھ بچیاں بڑی ہو رہی تھیں مگر وہ اپنی اولاد سے بھی لاپروا ر ہے اور میں اولاد کی نعمت سے مزید سر فراز ہوتی گئی، یہاں تک کہ میرے آنگن میں چار بچے کھیلنے لگے۔ اب مجھے شوہر کے بارے میں سوچنے اور کڑھنے کی کب فرصت تھی، یہ بچے ہی میری آنکھوں کا نور اور دل کا سرور تھے۔ میں نے ساری توجہ ان کی پرورش پر لگادی۔ یہ فکر چھوڑ دی کہ کب میرے گھر کا سر براہ گھر سے جاتا ہے اور کب واپس آتا ہے۔ بچے زیادہ ہو گئے مگر نواز  نے خرچے میں اضافہ نہ کیا۔ خرچہ کم پڑنے لگا۔ جوں توں گزارہ کرتی تھی مگر ان سے لڑتی جھگڑتی اس وجہ سے نہ تھی کہ اس لڑائی جھگڑے کا میرے بچوں پر برا اثر پڑے گا۔ جو مرد گھر میں دلچسپی نہیں رکھتے اور باہر اپنی خوشیاں تلاش کرتے ہیں، آخر ان پر بُرے دن آجاتے ہیں۔ مجھ پر بھی وہ برا دن آ گیا۔ جب مجھے خبر ملی، نواز نے دوسری شادی ایک رقاصہ سے کرلی ہے۔ یہ اطلاع میرے لئے موت کی خبر جیسی تھی کیونکہ میں جانتی تھی کہ اب مجھے اکیلے ہی اپنے بچوں کو پالنا پو سنا ہو گا۔ میرا اندیشہ درست نکلا۔ دوسری شادی کرنے کے بعد نواز گھر کا رستہ بھول گیا۔ اس نے ایک نیا گھر جو بسالیا تھا۔ رفتہ رفتہ اس نے خرچہ دینا بھی بند کر دیا۔ میں نے لوگوں کے گھروں سے کپڑے لا کر سینے شروع کر دیئے۔ مزدوری تلاش کرتی ، سردیوں میں رضائیاں سلائی کرتی ، گرمیوں میں کچھ اور چھوٹے موٹے کام ڈھونڈتی۔ کھانا ایک وقت پکاتی۔ ایک وقت ہم چنے کھا کر سو جاتے۔ ایسے کانٹوں بھرے دن بسر کر کے میں نے بچوں کو پالا ۔ کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتی تھی۔ کھانا کم کھاتی، بچوں سے کہتی بھوک نہیں ہے۔ وہ جانتے تھے کہ میں جھوٹ بول رہی ہوں تا کہ وہ پیٹ بھر کر کھا لیں۔ غربت میں پلنے والے بچے بہت حساس ہو جاتے ہیں لہذا جب حامد اور علی بڑے ہوئے تو انہوں نے اسکول جانا بند کر دیا۔ انہی دنوں نواز گھر آئے مگر وہ بہت بیمار تھے۔ ان کی صحت اتنی گر چکی تھی کہ سہارے سے چل سکتے تھے،  دوسری بیوی  بنگلا اور گاڑی سب مال و دولت لپیٹ کر انہیں اس عالم کسمپرسی میں پہنچا کر ناتا توڑ چکی تھی جب کوئی دیکھنے والا نہ رہا، آخر کار میں یاد آئی، اور گھر آئے تو بستر پر پڑ گئے، ان کو جگر کا کینسر ہو گیا تھا اور اب بیماری آخری اسٹیج پر تھی۔ میرے پاس پیسے کہاں تھے کہ ان کا علاج کراتی لیکن ان کی بیماری نے بھی مجھ کو زحمت نہ دی اور وہ چند روزہ باقی ماندہ زندگی کے دن ہمارے پاس گزار کر اللہ کو پیارے ہو گئے۔ میرے بچوں نے شاید باپ کا آخری دیدار کرنا تھا، سو کر لیا۔ میرے چچازاد بھائی کی شہر میں ورکشاپ تھی۔ میرے بچوں نے وہاں جانا شروع کر دیا تا کہ کام سیکھ لیں اور چار پیسے بھی کما کر گھر لا سکیں۔ جب انہوں نے پوری طرح کام سیکھ لیا تو ان کو روز کی اجرت بھی ملنے لگی اور گھر کا گزارہ چلنے لگا۔۔ ان دنوں میں بیمار رہنے لگی تھی۔ زیادہ محنت نہیں کر سکتی تھی۔ بہت غم ہوتا تھا کہ میں نے کیا سوچا تھا اور میرے بچے کیا بن رہے ہیں۔ میں نے تو ان کو پڑھانے لکھانے اور اعلیٰ تعلیم دلانے کا خواب دیکھا تھا۔ ان کو ڈاکٹر اور انجینئر بنانا چاہتی تھی اور یہ ورکشاپ میں مستری بن رہے تھے۔اللہ کا شکر ہے چلو پھر بھی میرے بچے ہنر مند تو ہو گئے ہیں۔ بچے مجھے تسلی دیتے۔ غربت تو انسان کو سڑکوں پر بھٹکاتی ہے ، بھکاری تک بنادیتی ہے۔ ہم پھر بھی کوئی کام تو سیکھ گئے ہیں۔ وہ اپنی ننھی سی عقل سے میرا حوصلہ بڑھاتے تھے اور میں آنسو پوچھ لیا کرتی تھی۔ لیکن مجھے ان کو کام کرتے دیکھ کر بہت دکھ ہوتا تھا کہ یہ تو ان کے پڑھنے لکھنے اور کھیلنے کو دنے کے دن تھے۔ بڑے بیٹے کو پڑھنے کا بہت شوق تھا، جب وقت ملتا وہ کتا بیں لے کر بیٹھ جاتا۔ یوں اپنی ہمت سے اس نے پرائیوٹ میٹرک کر لیا۔ انہی دنوں میرے سسر کے ماموں زاد بچوں کا احوال پوچھنے آئے۔ وہ اثر و رسوخ والے آدمی تھے ۔ ہمارا حال دیکھا تو رنجیدہ ہو گئے بولے۔ بیٹی تم چاہو تو میں تمہارے بڑے لڑکے کو سعودی عربیہ بھجوا دوں۔ وہاں میرے بیٹے کی ورکشاپ ہے۔ یہ ادھر کام پر لگ جائے گا۔ میں نے ہامی بھر لی۔ انہوں نے کمال شفقت سے علی کو اپنے بیٹے کے پاس بھجوادیا۔ یہ سب اتنی جلدی ہوا کہ مجھے کچھ سوچنے اور سمجھنے کا موقع نہ ملا۔ بیٹے کے جانے سے میں اداس تھی۔ لیکن پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لئے قربانی دینی پڑتی ہے، سو میں نے بھی قربانی دی۔ چند روپوں کی خاطر جدائی کاؤ کچھ برداشت کیا۔ وہاں محنت مزدوری سے جو معاوضہ ملتا، علی گھر بھجوادیتا۔ اس کی شبانہ روز محنت سے گھر کے حالات بدلنے لگے ،تب میں نے حامد کو دوبارہ اسکول میں داخل کر واد یا تا کہ یہ بھی کم از کم میٹرک پاس کرلے۔ سعودی عربیہ سے رقم آتی رہی۔ میرے گھر میں اب دو وقت کی روٹی پوری تھی، اس لئے گھر میں سکون کی لہر دوڑ گئی ، اب صبح و شام کی روٹی کی خاطر مجھ کو پاپڑ نہیں بیلنے پڑتے تھے۔ علی چار سال تک مسلسل پر دیس میں مشتقت کرتا رہا۔ اتنی لمبی اس کی جدائی میں نے سہی کہ دل کمزور ہو گیا۔ بات بات پر آنسو نکل پڑتے تھے۔ دن رات اس کے لئے دعائیں کیا کرتی تھی۔ جب وہ لوٹا تو ہمارے گھر میں خوشحالی آچکی تھی۔ وہ اپنے ساتھ گھر یلو آسائش کی چھوٹی موٹی اشیاء بھی لایا تھا۔ سچ ہے کہ جب بیٹے جو ان ہو جائیں تو مائوں کی فکریں کم ہو جاتی ہیں اور وہ کمائو ہو جائیں تو کھ بھی گٹھنے لگتے ہیں۔ ایسا ہی میرے ساتھ بھی ہوا۔ اب ایک ہی فکر تھی کہ کب ان کا گھر آباد ہو اور میں ان کی خوشیاں دیکھوں۔ ان کے سہرے کی خوشی دیکھنے کو تو جی رہی تھی۔ میں نے اپنی پڑوسن کے سامنے دامن پھیلایا اور اس نے اپنی دونوں بچیاں میرے دونوں بیٹوں کے عقد میں دے دیں۔ ان بہوئوں کے گھر آجانے سے میری ویران زندگی میں رونق آگئی۔ دونوں بہت اچھی اور خوش مزاج تھیں۔ انہوں نے آتے ہی گھر کو سنبھال لیا اور میری لڑکیوں کے بیاہ کی فکر میں لگ گئیں۔ ہماری سمدھن اچھی عورت تھی۔ اس نے میری بچیوں کے رشتے تلاش کرنے میں مدد دی۔ یوں میں اپنی لڑکیوں کو بیاہنے میں کامیاب ہو گئی۔ اسی دوران علی نے اپنے چھوٹے بھائی حامد کو بھی سعودی عربیہ بلوالیا۔ دوسال دونوں نے وہاں محنت سے کمایا اور میرا گھر بھر دیا۔ اب میرے پاس کسی شے کی کمی نہ تھی۔ اللہ نے پوتے بھی عطا کر دیئے۔ اب میں نے بیٹوں سے حج و عمرہ کرانے کی خواہش کی۔ انہوں نے میری اس آرزو کو بھی پورا کر دیا۔ مجھے میرے لائق بیٹوں کی بدولت عمرہ و حج کی سعادت نصیب ہو گئی۔ دونوں لڑکوں نے مجھے کو خوب شاپنگ کرائی اور اپنی بیویوں کے لئے بھی عمدہ جوڑے لے کر دیئے، اپنے بچوں کے لئے کھلونے اور دیگر چیزیں لئے میں لدی پھندی گھر لوٹی۔ گو یا اب میری سب خواہشیں پوری ہوگئی بیوی بچوں کے لئے ہماراگھر سکون کا گہوارہ تھا۔ میری اور میری بہوئوں کی سوائے ایک بات کے ہر بات میں بنتی تھی ، دراصل یہ دونوں بہنیں ضرورت سے زیادہ کھانا بنا لیتی تھیں اور رات کو جب کافی سارا کھانا بچ جانا تو اسے ضائع کر دیتیں۔ اس بات پر میراجی جلتا اور میں بہت کڑھتی تھی۔ روزانہ ان کو سمجھاتی ، کبھی پیار سے کبھی غصے سے کہ میری بچیو! اس طرح کی لاپروائی نہ کیا کروں، بچا ہوا کھانا چھینکنے سے رزق کی بے حرمتی ہوتی ہے اور ہمار ارازق اس بات سے ناراض ہوتا ہے یا تو کسی کو دے دیا کر دیا پھر اتنا بنایا کرو کہ کھانا ضائع نہ ہو۔ اس پر وہ کہتیں کہ ہم بچا ہوا کھانا دینے کہاں جائیں، کوئی دروازے پر صدا دے کر لے جائے تو لے جائے۔ ہمارا بچوں والا گھر ہے ، ہم سے اتنا ناپ تول کر کے کھانا نہیں بن سکتا۔ آپ نے کچن ہم پر چھوڑا ہے تواب آرام سے بیٹھی رہا کریں اور پکا ہوا کھانا ہاتھ میں ہم سے لیں۔ ہماری کھانے پکانے میں ہر روز کی یہ مداخلت چھوڑ دیں۔میں دو چار دن چپ رہتی مگر پھر برداشت نہ کر پاتی تو کہہ بیٹھتی کیوں اتنا سار اسالن بنالیا۔ اتنی زیادہ بریانی پکا لی ہے ، اب پھر ا سے باسی کہہ کر پھینک رہی ہو۔ اللہ تعالی ناراض ہوتے ہیں، ایسا نہ کیا کرو۔ اس بات سے وہ مجھ سے چڑنے لگی تھیں، کبھی زبان نہ چلا تیں تھیں میرے سامنے ، اب چلانے لگیں یہاں تک کہہ دیتیں کہ کیونکہ آپ نے تمام عمر غربت میں گزاری ہے، دانے دانے کو ترسنا پڑا، آپ کو تو اب آپ کا دل ایسا چھوٹا ہو گیا ہے ، آپ سے ہمارا کھلا کھانا پینا برداشت نہیں ہوتا۔ یہ آپ کی نیچر بن گئی ہے کہ ذرا ذرا سی چیز کو سمیٹ کر رکھنا، ہم سے یہ نہیں ہوتا۔ ہم ہمیشہ سے خوشحال گھر میں پلی بڑھی ہیں ہم کو ٹینشن ہوتی ہے۔ امی جان، آپ کی اس غریبی والی فطرت بہوئوں کا اس طرح کہنا مجھے بہت ناگوار گزرنے لگا تو میں نے معاملہ ان کی مرضی پر چھوڑ دیا اور زبان بند کر لی کہ یہ جانیں اور ان کے کام، گھر تو اب انہی کا ہے۔ میں کب تک جیوں گی ، ان کو نہیں سدھرنا نہ سُدھریں۔ بس دل پر جتنا بوجھ ہوتا سہ لیتی مگر لب سی لئے۔ میرے بیٹوں کو سعودی عربیہ گئے کئی سال ہو گئے تھے اور اب وہ گھر کو لوٹ رہے تھے۔ میری اور گھر بھر کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ میری بہو گھر کی صفائی میں لگی تھیں۔ اسے سجا سنوار رہی تھیں، ان کے بچوں کے باپ آنے والے تھے ، انہوں نے کئی نئے جوڑے اپنے اور بچوں کے سلوائے تھے۔ جب علی اور حامد کی آمد کو ہفتہ رہ گیا تو ان کے بچوں نے اپنے باپ اور چچا کو خوش آمدید کہنے کے لئے غبارے خریدے اور گھر کے دروازے کو رنگ برنگی کاغذی پٹیوں اور پھولوں سے سجایا۔ وہ ایسے خوشی منارہے تھے جیسے کہ گھر میں عید کا سماں ہو ۔ لیکن ان کی خوشیوں کو نجانے کس کی نظر لگ گئی، جو میرے بچوں کی آمد سے چار دن قبل یہ خبر آگئی کہ جدہ جاتے ہوئے وہ دونوں کار کے حادثے میں جاں بحق ہو گئے ہیں۔ موت برحق ہے مگر جوان بیٹوں کی موت کون مال برداشت کر سکتی ہے۔ یہ خبر سُن کر جو مجھ پر گزری وہ میں ہی جانتی ہوں۔ میں نے اپنے اللہ سے فریاد کی کہ اے میرے رب میں کتنی بد نصیب ماں ہوں جو اپنے بیٹوں کا آخری دیدار بھی نہ کر سکی۔ گھر میں کہرام مچا تھا، چھوٹی بہو کو دیکھ کر دل درد سے پھٹنے لگا۔ وہ تو سکتے کی کیفیت میں پتھر بنی بیٹھی تھی اور بڑے بہو نے بھی بیوگی کی چادر میں اپنا وجود چھپالیا تھا۔  وہ چھ ماہ میرے ساتھ رہیں پھر میکے چلی گئیں۔ میں نے بھی ان کو نہیں روکا کیونکہ جوان تھیں اور جوان بچیوں کو اب میں نہ سنبھال سکتی تھی۔ ان کے والدین زندہ تھے وہی ان کو سنبھال سکتے تھے ۔ جس وقت وہ بچوں سمیت چلی گئیں، میں نے رو کر کہا۔ اے کاش! بیٹے خریدے جا سکتے۔ زندگی لوٹائی جاسکتی تو میں اپنا سب کچھ دے کر ان کو لے آتی۔ اتنی پیاری بہوئوں کو اس طرح بے آسرا ہو کر گھر سے جانے نہ دیتی لیکن بیٹے وہ انمول دولت ہیں جو خریدنے سے نہیں ملتے۔ البتہ سڑکوں پر اور جنگوں میں تہہ تیغ ہو جاتے ہیں تو ان سانحوں پر سوائے صبر چارہ نہیں ہوتا۔ میری بہوئوں کے والد جب تک زندہ رہے انہوں نے میرے پوتوں اور پوتی کو کوئی تکلیف نہ ہونے دی۔ تمام خرچہ ان کا اٹھاتے تھے اور میرا بھی خیال رکھتے تھے لیکن ان کے انتقال کے بعد میری بہوئوں پر بھی وہی دن آگئے جو مجھے پر آئے تھے۔ انہوں نے بھی میری طرح محنت مشقت شروع کر دی۔ اپنے بچے پالنے کے لئے ان کی قسمت بھی مجھ جیسی ہوئی۔ ایک دن میں ان سے ملنے گئی ، مجھے اپنے پوتے نظر نہیں آئے۔ میں نے ان کے بارے پوچھا کہ فراز اور سر فراز کہاں ہیں؟ بہو بولی۔ کام پر لگادیا ہے۔ وہ ورکشاپ میں کام سیکھنے گئے ہیں۔ یہ سُن کر میرا کلیجہ کٹ گیا۔ اپنے بچوں کو جب میں نے کام سیکھنے کو بھیجا تھا، اتنا قلق تو مجھے تب بھی نہ ہوا تھا جتنا آج ہوا تھا۔ کیا ان کو اسکول سے اٹھالیا ہے ؟ میں نے دُکھی ہو کر بہو سے سوال کیا۔ ہاں ماں جی اور ہم کیا کرتے ۔ اسکول میں پڑھانے کے لئے سرمایہ چاہئے اور کچھ کام سیکھ لیں گے تو کچھ کما کر لے آئیں گے۔ بہو ٹھیک کہہ رہی تھی۔ مجھے اس کا تجربہ تھا۔ میں ان ہی حالات میں حامد اور علی کو ان کے بچپن میں کام پر بھیجنے کو مجبور ہو گئی تھی۔ میری زندگی کی تاریخ ایک بار پھر خود کو پوتوں کی صورت حال میں دُہرارہی تھی۔ وہ سب کچھ ہو رہا تھا پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لئے ۔ میرے بچے پھر ملک سے باہر جارہے تھے۔ میرا جی کانپ گیا۔ میں نے بہو سے التجا کی۔ ان کو کمانے کی خاطر باہر جانے نہ دو۔ پہلے بھی میرے دو شہزادے کمانے گئے تھے پھر لوٹ کر زندہ نہیں آسکے۔ بہو کہنے لگی ، اگر آپ کے پوتے کمانے نہیں جائیں تو کیا کریں گے ، یہاں روزی ملنی مشکل ہو گئی ہے۔ اب تو ملک میں پہلے سے بھی زیادہ حالات خراب ہو چکے ہیں۔ ان کی شادیاں کرنی ہیں، چھوٹے دو کو پڑھانا ہے۔ آخر یہ پیسہ کہاں سے آئے گا۔ ان کے نانا فوت ہو گئے ہیں، وہ ہوتے تو آسرا ہوتا۔ ان کا کوئی ماموں بھی نہیں ہے۔ بُرے دنوں میں صرف یہی رشتے کام آتے ہیں۔ میں نے کہا اللہ تعالیٰ کرم کرے اور جو دن مجھے دیکھنے پڑے اور میرے ان پیاروں کو دیکھنے پڑے وہ کسی گھرانے کو نہ دیکھنے پڑیں، میری بس یہی دُعا سب کے لئے ہے۔

Latest Posts

Related POSTS