موسم گرما کی ایک قدرے خوشگوار صبح تھی۔ آج کا دن سرمد کے لئے بہت اہم تھا، کیونکہ آج اسے جیل کی کوٹھری سے نجات ملنا تھی۔ جیلر نے اسے رسمی الوداعی ملاقات کے لئے طلب کیا اور کہا۔ ’’مجھے خوشی ہے کہ تم یہاں سے رخصت ہورہے ہو، ساتھ ہی اس بات کا یقین ہے کہ تم آئندہ اپنی صلاحیتیں تعمیری کاموں میں آزمائو گے اور بہت اوپر تک جائو گے۔‘‘
’’شکریہ سر! آپ نے میرے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ میں کوشش کروں گا کہ آپ کی توقعات پر پورا اتروں۔ مجرم بننا کسی کی خواہش نہیں ہوتی۔ وقت اور حالات کے ہاتھوں مجبور ہوکر انسان جرم کا ارتکاب کرتا ہے۔‘‘ سرمد بولا۔
’’بہرحال تم آئندہ ہر قسم کے جرم سے دور رہنا۔ میں تمہاری مدد کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ جیلر کے لہجے میں مخصوص پدرانہ شفقت رچی ہوئی تھی۔ ’’مجھے لگتا ہے تمہارا تعلق کسی اچھے خاندان سے ہے۔ جس شخص نے تمہاری پرورش کی، اس نے کبھی بتایا نہیں کہ تم کس کی اولاد ہو؟‘‘
’’نہیں! نظیر چاچا میرے والدین کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے۔ میں انہیں اپنا باپ سمجھتا ہوں۔ انہوں نے بتایا تھا کہ چودہ سال کی عمر میں مجھے چوٹ لگی تھی، جس کے نتیجے میں مجھے اپنے ماضی کی کوئی بات یاد نہیں رہی تھی۔ ڈاکٹر نے چاچا کو بتایا تھا کہ اگر میرا علاج مستقل ہوتا رہا تو عین ممکن ہے کہ میری یادداشت بحال ہوجائے، مگر میرا علاج کون کرواتا۔ چاچا نظیر نشے کا عادی تھا۔ اس نے مجھے محض اس لئے سہارا دیا تھا کہ میں اس کے بڑھاپے کا سہارا بن سکوں۔ اُسے کون سا میری تربیت سے دلچسپی تھی۔ اسے محض نوٹوں سے مطلب تھا۔ میںکیا کررہا ہوں، کہاں سے پیسہ لا رہا ہوں، اسے اس سے کوئی غرض نہیں تھی۔ خیر چھوڑیں اس ذکر کو! مجھے چاچا نظیر کے ذکر سے اس کی اذیت ناک موت یاد آجاتی ہے۔‘‘
’’اگر تم چاہو تو تمہاری یادداشت کا علاج ہوسکتا ہے۔ کئی دماغی امراض کے ڈاکٹر میرے جاننے والے ہیں۔‘‘
’’نہیں صاحب! مجھے کچھ یاد نہیں کرنا۔ پسماندہ غریب علاقے میں پرورش، غربت میں پلنا، سرکاری اسکول میں استاد سے پٹائی! میں تو اپنا ماضی بھول جانا چاہتا ہوں۔‘‘
’’لیکن تمہارا اپنا خاندان بھی تو ہوگا۔ چاچا نظیر سے ملنے سے پہلے تم کسی خاندان کا حصہ تو رہے ہوگے؟ تمہارے والدین آج بھی تمہاری راہ دیکھ رہے ہوں گے۔‘‘ جیلر نے تاسف سے کہا۔
’’وہ لوگ برسوں پہلے مجھے بھلا چکے ہوں گے۔ ہوسکتا ہے کہ میرا باپ بہت ظالم آدمی رہا ہو اور میں اپنے ظالم باپ کی مار کے خوف سے گھر سے نکل بھاگا ہوں۔ اب میں صرف آگے کی طرف دیکھنا چاہتا ہوں، پیچھے کی طرف نہیں!‘‘
’’بہت اچھی بات ہے۔ اب تم جا سکتے ہو۔ خداحافظ!‘‘ جیلر کی گفتگو ختم ہوتے ہی سرمد نے اپنا سامان اٹھایا اور باہر نکل گیا۔
بس میں سفر کرتے ہوئے وہ نیہا کے بارے میں سوچنے لگا۔ نیہا ایک پرائیویٹ اسپتال میں نرس تھی۔ سرمد کی اس سے ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ اپنے ہاتھ پر لگی چوٹ کے سلسلے میں اسپتال گیا تھا۔ سرمد نے نیہا کو پہلی مرتبہ اسپتال کے ایمرجنسی روم میں دیکھا تھا۔ وہ اسے پہلی نظر میں اچھی لگی تھی۔ نیہا ایک سانولی، پرکشش لڑکی تھی۔ اس کے ہونٹ گلابی اور بھرے بھرے تھے۔ آنکھیں سیاہ تھیں۔
سرمد نے پٹی کرواتے ہوئے نیہا سے سرسری انداز میں پوچھا تھا کہ اس کی شفٹ کس وقت ختم ہوتی ہے تو نیہا نے کسی جھجک کے بغیر بتا دیا تھا کہ رات نو بجے۔
اس رات جب وہ نیہا سے اسپتال کے باہر ملا تو اسے یوں لگا کہ اس کی اور نیہا کی برسوں پرانی شناسائی رہی ہے۔ نیہا سے سرمد کی دوستی آٹھ ماہ رہی، پھر ایک رات پولیس نے اسے ڈکیتی کے الزام میں گرفتار کرلیا۔ جیل جانے کے بعد اس کی نیہا سے ملاقات نہیں ہوسکی تھی۔ وہ جلد ازجلد نیہا سے ملنا چاہتا تھا۔ اس کی سوچوں کا تسلسل اس وقت ٹوٹا جب کنڈیکٹر نے اس سے کرایہ طلب کیا۔ اس نے فوراً جیب سے پیسے نکال کر اس کی طرف بڑھائے۔
’’کرایہ بڑھ گیا ہے، دس روپے اور دو!‘‘ کنڈیکٹر نے اسے گھورتے ہوئے یوں دیکھا جیسے وہ اسے دھوکا دے رہا ہو۔ سرمد نے جیب سے دس روپے کا ایک نوٹ نکالا اور اس کی طرف بڑھا دیا۔ بس میں طویل سفر کرنے کے بعد وہ اپنے گھر میں موجود تھا۔
سرمد نے نہا کر کپڑے تبدیل کئے۔ دوستوں سے ملنے کے بجائے وہ نیہا سے ملنے اسپتال روانہ ہوگیا۔ اسپتال پہنچنے پر اسے پتا چلا کہ نیہا یہاں سے جاب چھوڑ کر جا چکی ہے اور اس نے کسی اور اسپتال میں ملازمت کرلی ہے۔ سرمد نے کلرک سے اس اسپتال کا پتا معلوم کیا جہاں نیہا اب ملازمت کررہی تھی۔ پتا ملتے ہی سرمد اسپتال کی طرف روانہ ہوگیا۔
استقبالیہ پر پہنچ کر سرمد نے نیہا کے بارے میں پوچھا تو وہاں ڈیوٹی پر موجود لڑکی نے بتایا کہ نیہا کینٹین میں لنچ کرنے گئی ہے۔ وہ فوراً کینٹین پہنچ گیا۔ نیہا ایک نرس کے ساتھ بیٹھی کھانا کھانے میں مصروف تھی۔ سرمد اس کی ٹیبل کے پاس پہنچا اور بولا۔ ’’کیسی ہو نیہا…؟‘‘ اسے اچانک دیکھ کر وہ متوحش سی ہوگئی۔
’’سرمد… تم… اوہ خدایا!‘‘
’’سوری تم حیران ہوگئیں۔‘‘
’’تم کب رہا ہوئے؟‘‘ نیہا نے پوچھا۔
’’آج صبح…!‘‘ سرمد نے مسکرا کر کہا۔ ’’نیہا! تم بڑی مشکل سے ملی ہو۔‘‘
نیہا مسکرا کر بولی۔ ’’ہاں! میں نے دو سال پہلے یہاں ملازمت کی ہے۔ یہ میری دوست ہے عبیرہ اور عبیرہ! یہ سرمد ہے۔ میں نے اس کے بارے میں تمہیں بتایا تھا۔‘‘
’’نیہا اکثر آپ کا ذکر کرتی ہے۔‘‘ عبیرہ نے کہا۔ پھر اٹھتے ہوئے بولی۔ ’’اچھا! اب تم لوگ باتیں کرو، میں چلتی ہوں۔‘‘
اس کے جاتے ہی سرمد نے نیہا کے برابر والی کرسی سنبھال لی۔ کچھ دیر دونوں کے درمیان خاموشی رہی۔ ’’نیہا! تم اچھی لگ رہی ہو۔‘‘ بالآخر سرمد نے کہا۔
’’مگر تم نہیں…!‘‘ نیہا بولی۔ ’’تم مجھے تھکے ہوئے لگ رہے ہو۔‘‘
’’ہاں! جیل کی مشقت اچھے اچھوں کو تھکا دیتی ہے۔‘‘
’’اسی لئے میں نے تمہیں مشورہ دیا تھا کہ تم یہ غلط کام چھوڑو اور کوئی کام کرو۔‘‘ پھر اس نے کہا۔ ’’میں تمہارے لئے کھانا منگواتی ہوں۔‘‘ نیہا نے فوراً سرمد کے لئے کھانا منگوایا۔
’’نیہا! میں نے تمہیں بہت یاد کیا۔‘‘
نیہا نے اپنا ہاتھ بڑھا کر اس کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ ’’میرا دل چاہ رہا تھا کہ تم سے ملوں، مگر ہمت نہیں ہوئی۔ تم نے آئندہ کے بارے میں کچھ سوچا ہے؟‘‘ نیہا نے پوچھا۔
’’ابھی تو کچھ نہیں سوچا۔ میرے پاس رقم نہیں کہ میں کوئی کاروبار کرسکوں۔ مجبوراً مجھے اپنی مجرمانہ سرگرمیاں جاری رکھنا ہوں گی۔‘‘ وہ ذرا توقف کے بعد بولا۔ ’’کیا تم مجھے کچھ رقم دے سکتی ہو؟‘‘
’’میں ضرور دے دیتی۔‘‘ نیہا نے کہا۔ ’’اگر میرے پاس کچھ ہوتا۔‘‘
’’مگر تم جاب تو کررہی ہو؟‘‘
نیہا نے نفی میں سر ہلایا۔ ’’ابھی میرے اکائونٹ میں کوئی رقم نہیں ہے۔ جو کچھ تھا، مامی کے علاج پر خرچ ہوگیا۔ تین ماہ پہلے ان پر فالج کا اٹیک ہوا تھا۔ میرے علاوہ ان کا ہے کون جو ان کا علاج کراتا۔‘‘
’’ٹھیک ہے، میں خود ہی بندوبست کرلوں گا۔‘‘ سرمد نے کہا اور کھانا کھانے لگا۔
اگلے دن سرمد رات کو ہوٹل میں بیٹھا کھانا کھانے میں مصروف تھا۔ اس کی توجہ ان دو افراد کی جانب مبذول ہوگئی جو سامنے ٹیبل پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں ایک سفید بالوں والا لحیم شحیم آدمی تھا اور دوسری ایک نوجوان لڑکی تھی جس کی آنکھیں نیلی اور ہونٹ گلاب کی پنکھڑی جیسے تھے۔ وہ لڑکی حسن کی ایک عمدہ مثال تھی۔ سفید بالوں والا شخص سرمد کا بغور جائزہ لے رہا تھا۔ پھر وہ اپنی کرسی سے اٹھا اور سرمد کے پاس پہنچ کر کہا۔ ’’میں معذرت چاہوں گا میرا مقصد آپ کو بلاوجہ گھورنا نہیں تھا۔ مجھے
یوں محسوس ہورہا ہے جیسے ہم شناسا ہیں، مگر آپ کا نام میرے ذہن میں بالکل نہیں آرہا۔‘‘
’’سرمد…!‘‘ سرمد نے اس کی مشکل آسان کرتے ہوئے جواب دیا۔
’’سرمد…! نہیں میرا خیال ہے کہ میں غلطی سے آپ کو کوئی اور سمجھ بیٹھا ہوں۔ اظفر ایاز سے آپ کی مشابہت حیرت انگیز ہے۔‘‘
’’میں نے اظفر ایاز کا نام کبھی نہیں سنا۔‘‘ سرمد بولا۔
وہ سفید بالوں والا شخص متعجب نہیں ہوا۔ مسکرا کر بولا۔ ’’آپ ہمارے ساتھ ڈنر کریں۔ میرا نام سجاد احسن ہے اور میرے ساتھ میری بھتیجی زوباریہ ہے۔‘‘
سرمد اٹھ کر ان کی ٹیبل پر جا بیٹھا۔ کھانے کے دوران وہ چچا، بھتیجی سے گفتگو میں مصروف رہا۔ گفتگو کے دوران سرمد نے انہیں جیل جانے کے بارے میں بتایا اور پیش آنے والے واقعات بھی سنا ڈالے۔
کھانے سے فارغ ہوکر جب سجاد احسن رخصت ہونے لگے تو انہوں نے ایک کارڈ سرمد کو دیا۔ ’’اس میں میرے گھر کا پتا لکھا ہوا ہے۔ تم مجھ سے ملنے ضرور آنا میرے بچے! میں تمہارا انتظار کروں گا۔ میرے وسیع تعلقات ہیں۔ میں تمہیں جاب دلوانے میں مدد دے سکتا ہوں۔‘‘
’’آپ نے اتنے خلوص سے کہا ہے تو بھلا کون انکار کرسکتا ہے۔ میں کل ہی آپ کے گھر آئوں گا۔‘‘ سرمد نے جواب دیا۔
زوباریہ نے اپنی مسکراہٹ اس پر نچھاور کردی۔ یہ ان مسکراہٹوں میں سے ایک تھی جس کا مطلب تھا کہ ملاقات یہیں ختم نہیں ہونی چاہئے۔
اگلے دن شام کو سرمد، سجاد احسن کے فلیٹ میں موجود تھا۔ رسمی گفتگو کے بعد سجاد نے بتایا کہ ان کا تعلق پولیس کے محکمے سے تھا۔ وہ راولپنڈی میں ملازمت کرتے تھے، ریٹائرمنٹ کے بعد وہ کراچی شفٹ ہوگئے تھے۔
’’جانتے ہو سرمد…! زوباریہ نے مجھ سے شرط لگائی تھی کہ تم آج ضرور آئو گے اور تم آگئے۔ یہ اچھا ہوا یا برا…؟‘‘
’’بہت اچھا ہوا۔‘‘ سرمد نے کن انکھیوں سے زوباریہ کی طرف دیکھتے ہوئے قہقہہ لگایا۔
’’انکل سجاد! آپ سرمد کو اظفر ایاز کے بارے میں بتائیں، میں آپ لوگوں کے لئے چائے بنا کر لاتی ہوں۔‘‘ زوباریہ بولی اور اٹھ کر اندر چلی گئی۔
اس کے جاتے ہی سرمد نے کہا۔ ’’انکل سجاد! یہ اظفر ایاز کون ہے؟‘‘
’’بہت امیر آدمی کا اکلوتا بیٹا ہے۔ بے جا لاڈپیار نے اسے بگاڑ دیا تھا۔ کم عمری میں وہ موٹرسائیکل سڑک پر دوڑاتا پھرتا تھا۔ اس کی موٹرسائیکل کی ٹکر سے ایک بچہ مر گیا۔ اسے پولیس سے زیادہ اپنے باپ سے خوف تھا، ان کے ڈر سے وہ غائب ہوگیا۔ اس کی گمشدگی کا مقدمہ اس تھانے میں درج ہوا جہاں میں تعینات تھا۔ ہم نے اسے ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر کامیابی نہیں ملی۔ میری ریٹائرمنٹ سے ایک سال پہلے اظفر کے باپ کا انتقال ہوگیا۔ اس کے باپ نے مرنے سے پہلے اپنی تمام وراثت اپنے گمشدہ بیٹے کے نام کردی تھی۔ اسے آخر وقت تک یقین تھا کہ اس کا بیٹا زندہ ہے اور تمہیں دیکھ کر یوں لگ رہا ہے ایاز احمد کا اندازہ درست تھا۔ تمہارے نقوش گمشدہ ایاز احمد کے بیٹے سے بہت ملتے ہیں۔ تمہیں اظفر ایاز بننے پر کوئی اعتراض تو نہیں ہے، کروڑوں کی جائداد حاصل کرنے کے لئے؟‘‘ سجاد نے شیریں لہجے میں کہا۔
’’نصف نصف کا سودا طے کرلیں۔‘‘ زوباریہ ٹرے اٹھائے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولی۔
سرمد حیرت زدہ بیٹھا تھا۔ کئی دنوں سے اسے یوں لگ رہا تھا جیسے تقدیر اس پر مہربان ہونے والی ہے اور آج اس کا یہ اندازہ درست ثابت ہوگیا تھا۔ اس نے خوابیدہ لہجے میں کہا۔ ’’میں اظفر ایاز بننے کے لئے تیار ہوں۔ آپ بتائیں مجھے کیا کرنا ہوگا؟‘‘
’’سب سے پہلے تو تمہیں یہ ظاہر کرنا ہوگا کہ جب تم پنڈی سے فرار ہوئے تو کسی حادثے کے نتیجے میں تم اپنی یادداشت کھو بیٹھے۔ نتیجے میں تمہیں یاد نہیں رہا کہ تم کس کی اولاد تھے۔ تم نظیر چاچا کو اپنا سب کچھ سمجھتے رہے۔‘‘
’’ہاں! یہ تو سچ ہے۔ اس کے لئے مجھے کسی ایکٹنگ کی ضرورت نہیں۔‘‘
’’پھر تم تیاری کرو، پرسوں ہم یہاں سے روانہ ہوجاتے ہیں۔ میں تمہاری ملاقات مسز ایاز سے کرا دیتا ہوں۔ تم میرے بتائے ہوئے پلان پر چلنا، بڑی آسانی سے جائداد تمہارے ہاتھ آجائے گی۔‘‘ سجاد نے مطمئن لہجے میں کہا۔
چائے پیتے ہوئے سرمد کا ذہن اس منصوبے کے تانے بانے بننے میں مصروف تھا جس کے ذریعے وہ کروڑوں کی دولت ہتھیا سکتا تھا۔ اس کے خواب پورے ہونے والے تھے۔ ایک آسودہ زندگی اس کی منتظر تھی۔
دو دن بعد وہ سجاد احسن کے ساتھ روانہ ہوگیا۔ سرمد نے جانے سے پہلے نیہا کو اپنے پلان کے متعلق کچھ نہیں بتایا۔ اسے صرف اتنا کہا کہ وہ کسی کام کے سلسلے میں پنڈی جارہا ہے۔ وہ اس سے رابطے کی کوشش نہ کرے۔
٭…٭…٭
سرمد کی ملاقات مسز ایاز سے ہوئی۔ اس وقت وہ بستر مرگ پر تھیں۔ سرمد کو دیکھتے ہی ان کی آنکھوں میں شناسائی پیدا ہوئی، مگر ان کی طبیعت اتنی خراب تھی کہ وہ جانبر نہ ہوسکیں۔ ان کی وفات کے بعد ایاز احمد کے وکیل سے سرمد کی ملاقات ہوئی۔ ایاز احمد کے وکیل کا نام مسعود خان تھا۔ مسعود خان نے سرمد کا سر تا پا جائزہ لیا اور کہا کہ وہ اس کے متعلق مکمل تحقیقات کرنے کے بعد کوئی فیصلہ کریں گے۔
مسعود خان نے ڈاکٹروں اور اعلیٰ مشاہرہ لینے والے برین ایکسپرٹس کی خدمات حاصل کیں، جنہوں نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ٹرین کے حادثے کے نتیجے میں سرمد کی یادداشت متاثر ہوئی ہے۔ اسے بچپن کا زمانہ یاد نہیں۔ سجاد احسن کے پاس مسعود خان کو قائل کرنے کے لئے ایک تدبیر تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ سرمد جب اپنے پاپا کے خوف سے پنڈی سے فرار ہوا تھا تو کراچی پہنچنے سے قبل ٹرین حادثے میں اپنی یادداشت کھو بیٹھا۔ چاچا نظیر ایک چرسی اور جواری شخص تھا۔ اس نے سرمد کو اپنا بیٹا بنا لیا۔ اس کے زیرتربیت سرمد نے چوری کرنا سیکھ لیا اور جرائم کی دلدل میں دھنس گیا، ورنہ فطرتاً سرمد ایسا نہیں ہے۔ سرمد کے چہرے پر دائیں رخسار پر تل کا نشان تھا۔ اظفر ایاز کے چہرے پر بھی اسی جانب تل تھا۔ شواہد کی روشنی میں سرمد کو اظفر ایاز کے طور پر قبول کرلیا گیا اور اس طرح ایاز احمد کی وراثت کا وہ حقدار بن گیا۔ سرمد کے لئے اتنی بڑی دولت کا حاصل کرنا، کسی خواب کی مانند تھا۔ ان خوابوں میں سے ایک جنہیں اکثر جیل میں دیکھتے ہوئے وہ بیدار ہوجایا کرتا تھا۔ آج سرمد کروڑوں کی وراثت کا مالک تھا اور کوئی بھی یہ دولت اس سے چھین نہیں سکتا تھا۔ سرمد نے ابھی تک سجاد احسن کے ساتھ معاملات نہیں نمٹائے تھے۔ وہ اپنا حصہ مانگ رہے تھے اور سرمد ان کو کچھ دینا نہیں چاہتا تھا۔ اس نے سجاد احسن سے کہا کہ وہ ایک دم جائداد فروخت نہیں کرسکتا، اس لئے انہیں انتظار کرنا ہوگا۔ سجاد احسن انتظار کرنے پر رضامند ہوگئے تھے۔ انہوں نے زوباریہ کو اپنے پاس بلوا لیا تھا۔ زوباریہ، سرمد سے بے تکلف ہونے کی کوشش کرتی مگر سرمد کو اس سے بالکل دلچسپی نہیں تھی۔ اس کے خوابوں کی ملکہ نیہا تھی۔ نیہا سے وہ اکثر فون پر بات کرتا رہتا تھا۔ اس نے نیہا کو یقین دلایا تھا کہ وہ بہت جلد جائداد فروخت کرکے کراچی آجائے گا، جہاں وہ دونوں شادی کرلیں گے۔ سجاد احسن سائے کی طرح سرمد کے ساتھ ساتھ رہتے۔ انہوں نے شمالی علاقہ جات کی سیر کا پروگرام بنایا۔ سرمد اور زوباریہ بھی ان کے ساتھ تھے۔ جنت نظیر وادیوں میں گھومتے ہوئے سرمد کا ذہن یہ سوچنے میں مصروف تھا کہ کس طرح سجاد احسن کو ٹھکانے لگایا جائے، مگراس کے ذہن میں کوئی عمدہ منصوبہ نہیں آرہا تھا۔
چھ ماہ کا عرصہ پلک جھپکتے گزر گیا۔ اس عرصے میں سرمد کو یقین ہوگیا کہ وہ پورے اعتماد سے سجاد احسن کے معاملے کو نمٹا سکتا ہے۔ ایک روز ڈنر سے فارغ ہوتے ہی اس نے سجاد سے زوباریہ کی موجودگی میں گفتگو کی، جس کا اختتام اس وعدے پر ہوا کہ وہ ہر ماہ پچاس
ہزار روپے انکل سجاد کو اس وقت تک ادا کرتا رہے گا جب تک کہ ان کے حصے کی نصف رقم ادا نہیں ہوجاتی۔ سرمد کو اس بات کی فکر نہیں تھی کہ اس نے کیا وعدہ کیا ہے۔ اس کا وعدہ نباہنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ سجاد احسن کی آنکھیں رقم کا ذکر سن کر جس انداز سے جگمگا رہی تھیں، اس سے سرمد کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ وہ اپنے حصے کی رقم حاصل کرنے کے بعد اس سے مزید رقم کے مطالبے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ تفصیلات طے ہوگئیں تو سرمد نے تجویز پش کی کہ باہر چل کر آئسکریم کھائی جائے۔
’’یقینا بڑا عمدہ خیال ہے۔ میں اپنا میک اَپ درست کرکے آتی ہوں۔‘‘ زوباریہ بولی اور اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔ سجاد کے چہرے پر ایک آسودہ مسکراہٹ پھیل گئی۔ ان کا ذہن آنے والی دولت کے متعلق سوچ رہا تھا۔
٭…٭…٭
اتوار کا دن تھا۔ زوباریہ صبح سو کر اٹھی تو اسے نوکر کی زبانی اطلاع ملی کہ سجاد احسن کے کمرے کا دروازہ لاک ہے اور وہ آوازیں دینے کے باوجود دروازہ نہیں کھول رہے۔ زوباریہ جیسے ہی سجاد احسن کے کمرے کے پاس پہنچی، اسی وقت سرمد بھی وہاں آگیا۔ اس نے نوکر کے ساتھ مل کر دروازے کا لاک توڑ دیا۔
کمرے کے اندر سجاد احسن بستر پر مردہ حالت میں پڑے تھے۔ سرمد نے فوراً ڈاکٹر کو بلوایا۔ اس نے آتے ہی ان کی موت کی تصدیق کردی۔ ڈاکٹر کے جانے کے بعد زوباریہ، سرمد سے مخاطب ہوئی۔ ’’میں اچھی طرح جانتی ہوں انکل سجاد طبی موت نہیں مرے ہیں، انہیں تم نے زہر دیا ہے۔‘‘
’’شٹ اَپ! اپنا منہ بند رکھو۔ تم بلاوجہ مجھ پر الزام لگا رہی ہو۔‘‘ سرمد ایک دم غصے میں آگیا۔
’’میں پولیس کو کال کرتی ہوں۔ لاش کا پوسٹ مارٹم کرنے پر ساری حقیقت واضح ہوجائے گی، تب تمہیں پتا چل جائے گا کہ میں یہ بات ایسے ہی نہیں کہہ رہی ہوں۔‘‘ سرمد کے ماتھے پر یکدم پسینہ آگیا۔
’’سرمد…! تمہیں حقیقت معلوم ہوتی تو تم انکل کے خلاف قدم اٹھانے سے باز رہتے۔ تم نے انتہائی بے وقوفی کی ہے۔ انکل نے تمہاری فرضی شخصیت اور بہروپ کے مکمل شواہد کو محفوظ کیا ہوا ہے۔ ان کی موت کی صورت میں، میں وہ شواہد حاصل کرسکتی ہوں اور اگر مجھے کچھ ہوگیا تو وہ تمام شواہد پولیس کے پاس چلے جائیں گے، مگر تم فکر مت کرو، میں ان شواہد کو پولیس کے پاس جانے نہیں دوں گی۔‘‘
’’کیوں! تمہاری اس مہربانی کا مطلب…؟‘‘ سرمد نے اسے گھورا۔
زوباریہ کا چہرہ تاثرات سے عاری تھا۔ اس نے کہا۔ ’’اس لئے کہ میں تم سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔ تم جیسے دولت مند شخص سے شادی کا خواب ہر لڑکی دیکھتی ہے، پھر مجھ میں کیا کمی ہے۔ میں اچھی خاصی خوبصورت ہوں۔ انکل کی موت کے بعد میں تنہا رہ گئی ہوں۔ تم مجھے سہارا دو گے تو اس کا تمہیں ہی فائدہ ہوگا۔ میں بحیثیت بیوی تمہارے خلاف گواہی نہیں دے سکوں گی۔‘‘ زوباریہ نے انتہائی شائستہ اور ملائم لہجے میں کہا۔ سرمد سوچ میں پڑ گیا۔ اس کو سوچتا دیکھ کر زوباریہ دوبارہ بولی۔ ’’اتنا سوچنے کی کیا ضرورت ہے۔ میں تمہیں دو دن کی مہلت دیتی ہوں۔ فی الحال تم انکل سجاد کی تدفین کے انتظامات کرو۔‘‘ سرمد سر ہلاتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔ زوباریہ کے چہرے پر شاطرانہ مسکراہٹ پھیل گئی۔
٭…٭…٭
سرمد کو نہ چاہتے ہوئے بھی زوباریہ سے شادی کرنی پڑ گئی۔ وہ اس کے علاوہ کر بھی کیا سکتا تھا۔ سجاد احسن مرچکے تھے۔ زوباریہ جائداد کے حصول کے سلسلے میں ان کی کوئی مدد نہیں کرسکتی تھی، لیکن اب وہ ان کے حصے کو کیش کراسکتی تھی اور اس کا آسان طریقہ یہ تھا کہ وہ سرمد کی بیوی بن کر جائداد میں حصہ دار بن جائے۔ زوباریہ جب چاہتی، بینک اکائونٹ سے رقم نکال سکتی تھی۔ زوباریہ ایک شاطر عورت تھی۔ اس نے سرمد کو باور کرا دیا تھا کہ وہ اس کے بہروپ اور اس کے ہاتھوں سجاد احسن کو زہر دیئے جانے کی گواہ ہے اور اس نے سرمد کے متعلق تمام شواہد محفوظ کررکھے ہیں۔ اگر اسے کچھ ہوا تو یہ تمام کے تمام شواہد پولیس کے پاس پہنچ جائیں گے۔
’’اب تو ہمیں موت ہی ایک دوسرے سے جدا کرسکتی ہے۔ کیوں ڈیئر…؟‘‘ شادی کی تقریب کے بعد زوباریہ نے پیار بھری آواز میں سرمد سے کہا۔
’’لگ تو کچھ ایسا ہی رہا ہے۔‘‘ سرمد بیزار لہجے میں بولا۔
’’شادی کی رات تو کم ازکم اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجا لو۔ پچھلی باتیں بھول جائو، تمہیں ہمیشہ میرا خیال رکھنا ہوگا، کیونکہ اب تم میری زندگی ہو۔‘‘
سرمد کچھ نہیںبولا۔ اس کا ذہن نیہا کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اس نے نیہا کو اپنی شادی کے متعلق بتایا تو اس نے غصے میں فون بند کردیا تھا۔ سرمد سوچ رہا تھا کہ وہ نیہا کو کیسے سمجھائے کہ اس نے زوباریہ سے محض کسی سمجھوتے کے تحت شادی کی ہے۔
شادی کے کچھ مہینوں بعد سرمد کو نیہا کی شخصیت کا اندازہ ہوگیا۔ وہ خاموش طبع اور سرد مہر نہیں تھی۔ اس کے ساتھ اس کا رویہ بہت اچھا تھا۔ پھر بھی سرمد یہی سوچتا کہ سجاد احسن کے زندہ رہنے کی صورت میں وہ زیادہ بہتر طریقے سے زندگی بسر کرسکتا تھا۔
مئی کی ایک دوپہر کھانے سے فارغ ہوکر سرمد نے اخبار اٹھا لیا اور کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کے سرسری ورق گردانی کرنے لگا۔
زوباریہ کو اچانک یاد آگیا۔ وہ بولی۔ ’’میں تو بھول ہی گئی تھی سرمد! مجھے تم سے ضروری بات کرنا تھی۔‘‘
’’کیا ضروری بات کرنا تھی؟‘‘ سرمد بیوی کا چہرہ بغور دیکھتے ہوئے بولا۔ ’’خیریت تو ہے؟‘‘
’’سرمد! تمہاری جو بھی پراپرٹی اور بینک بیلنس ہے، اس میں تمہیں حصے دار کی حیثیت سے میرا نام ڈالنا ہوگا۔‘‘
’’میرا جو کچھ بھی ہے، وہ تمہارا ہی ہے۔ ہم کوئی دو تھوڑی ہیں، ایک ہیں۔ یک جان دو قالب!‘‘ سرمد نے زوباریہ کو اپنی محبت کا یقین دلانے کی کوشش کی۔
زوباریہ ہنس دی۔ ’’ہم ایک ہیں اور ہمیشہ ایک رہیں گے لیکن میں سمجھتی ہوں جائداد کی تحریری کارروائی ضروری ہے۔ اس طرح مجھے تحفظ کا احساس ہوگا۔‘‘
’’اوکے! میں تمہاری یہ خواہش پوری کردوں گا۔ بصورت دیگر تم میرے سامنے اپنی پرانی دھمکی دہرائو گی۔‘‘ سرمد نے طنز کیا۔
’’ویسے سرمد! تمہارا فیوچر پلان کیا ہے؟‘‘ زوباریہ نے سرمد کے طنز کو نظرانداز کرتے ہوئے پوچھا۔
’’فی الحال مجھے یہاں سے کراچی شفٹ ہونا ہے۔ میں اپنی پسند کی دو تین نئی کاریں خریدوں گا، ساتھ ہی مجھے دنیا کی سیر کرنے کی شدید خواہش ہے۔ اپنا کام سیٹ کرتے ہی میں دنیا کی سیر کو نکل جائوں گا۔‘‘
’’تمہارے ارادے تو بہت اچھے ہیں۔ دنیا کی سیر کرنا میرا بھی خواب ہے۔ میں بچپن سے کسی خوبصورت علاقے میں جدید طرز کے گھر کا خواب دیکھتی رہی ہوں۔ اسٹائلش کار میں گھومنا میرا بھی شوق ہے۔ ہم دنیا بھر کی سیاحت کریں گے۔ ہم ساری زندگی عیش کریں گے، صرف عیش!‘‘
’’عیش…!‘‘ زوباریہ کے منہ سے اس لفظ کو سن کر سرمد کو ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے اسے آسمان کی بلندی سے پتھریلی چٹان پر پٹخ دیا ہو۔ زوباریہ کی رفاقت کو اس کا دل قبول کرنے کے لئے کسی طور راضی نہیں تھا۔ اسے ساتھ لے کر وہ دنیا کی سیر کے لئے جائے گا، اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ وہ تصور کی آنکھ سے نیہا کو اپنے ساتھ گھومتا دیکھنے لگا تھا۔
’’بتائو سب سے پہلے تم مجھے کہاں گھمانے لے چلو گے۔ میں تمہارے ساتھ نیاگرا فال، سوئٹزرلینڈ اور تاج محل دیکھنا چاہتی ہوں۔‘‘ زوباریہ نے آنکھیں موند کرکہا۔
سرمد نے سرد آہ سی بھری۔ ’’میں تمہارے ساتھ کبھی دنیا کی سیاحت کو نہیں جائوں گا۔‘‘ سرمد منہ ہی منہ میں بدبدایا۔
’’کس سوچ میں ہو؟ تم کہاں کھو گئے ہو…؟‘‘
’’کہیں نہیں۔‘‘ سرمد کے چہرے پر پھیکی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔ وہ گہری نظروں سے زوباریہ کو دیکھنے لگا۔ زوباریہ خاصی خوبصورت تھی، اس کے باوجود سرمد کے لئے وہ باعث کشش نہ تھی کہ وہ اسے
کے طور پر قبول کرکے اپنی آرزوئوں کا سودا کرلیتا۔
’’یہ عورت مجھے کبھی سکون نہیں لینے دے گی۔ ہر وقت میرے اعصاب پر مسلط رہے گی۔‘‘ سرمد نے دل میں سوچا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے دل میں نفرت کی لہر ابھری۔
٭…٭…٭
زوباریہ بستر پر لیٹی اپنے ماضی کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ بچپن میں وہ اپنے باپ کی شفقت سے محروم ہوگئی تھی۔ اس کا بچپن محرومیوں اور تنہائی میں گزرا تھا۔ اس کی ماں صبح اسے اسکول چھوڑ کر کام پر چلی جاتی جہاں سے وہ مغرب تک لوٹتی تھی۔ زوباریہ اسکول سے آنے کے بعد سارا وقت پڑوس میں گزارتی تھی۔
زوباریہ گزرتے وقت کے ساتھ جوان ہوگئی تو اس کا رشتہ مانگنے والوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔ کئی خواتین نے اپنے بیٹوں کے لئے اس کا رشتہ طلب کیا، مگر زوباریہ نے انکار کردیا۔ وہ کسی دولت مند گھرانے میں شادی کی خواہشمند تھی۔ زوباریہ کے لئے جو رشتے آتے تھے، وہ زیادہ تر اسی کے ہم پلّہ گھرانوں کے تھے۔ اس نے اپنے خیالوں میں اپنے ہونے والے شوہر کا ایک خاکہ تراش لیا تھا، جو شکل و صورت، قابلیت، دولت اور محبت کے لحاظ سے لاجواب تھا۔ جب بھی رشتے کرانے والی خالہ اس کے لئے کوئی رشتہ لے کر آتی تو مارے خوشی کے اس کی باچھیں کھل جاتیں کہ اب اس کے دل کی مراد بر آئے گی اور اسے اپنی پسند کا رشتہ مل جائے گا لیکن اس کی یہ امیدیں ہر مرتبہ ٹوٹ جاتیں۔
’’تم اگر اسی طرح ہر آنے والے رشتے کو ٹھکرائو گی تو ایک دن ایسا آئے گا کہ تمہارے لئے رشتے آنے بند ہوجائیں گے۔ اب بھی وقت ہے، سدھر جائو۔‘‘ زوباریہ کی امی راحیلہ بیگم نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
’’امی! میں نے آپ کو بتا تو دیا ہے، مجھے اپنی پسند کا رشتہ ملے گا تب ہی میں شادی کروں گی ورنہ نہیں۔‘‘
’’زوباریہ! پاگل مت بنو۔ اپنے جیسے گھر کے کسی لڑکے کا انتخاب کرکے اس سے شادی کرلو۔ زندگی کا سفر بہت طویل ہے اور اس سفر کو طے کرنے کے لئے تمہیں دولت مند نہیں، وفادار ساتھی کی ضرورت ہے۔‘‘
’’امی…! آپ یہ لیکچر دینا بند کریں۔ مجھے اپنے معیار کے مطابق شوہر چاہئے۔ اگر وہ نہیں ملا تو میں ہرگز شادی نہیں کروں گی۔ آپ مجھ پر دبائو مت ڈالیں۔‘‘ زوباریہ کا موڈ یکدم خراب ہوگیا۔ امی نے اس کے بگڑتے ہوئے تیور دیکھے تو تاسف بھری نظر اس پر ڈالتے ہوئے کمرے سے چلی گئیں۔
ایک ہفتے بعد راحیلہ بیگم کی اچانک ہارٹ اٹیک کے باعث موت واقع ہوگئی۔ ان کی وفات کے بعد زوباریہ کو اس کے چچا سجاد احسن اپنے ساتھ لے گئے، پھر اس کی سرمد سے ملاقات ہوگئی اور وہ سرمد کو اپنے جال میں پھنسانے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ اس نے اپنے خواب کی تعبیر پا لی تھی، مگر اسے سرمد کی طرف سے عدم تحفظ کا احساس رہتا تھا۔
’’سرمد! تم کیا سمجھتے ہو تم آسانی سے مجھ سے جان چھڑا لو گے؟ میں تمہاری ہر چیز میں شراکت دار بن کر تمہارے عزائم ناکام بنا دوں گی۔‘‘ زوباریہ زیرلب بڑبڑائی۔
اسی وقت سرمد نے کمرے میں داخل ہوکر لائٹ آن کی اور بولا۔ ’’تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے۔ اتنی جلدی لیٹ گئی ہو؟‘‘ سرمد نے سرسری انداز میں پوچھا۔
’’تمہیں کب سے میری فکر ستانے لگی؟‘‘
’’فکر ہے تب ہی پوچھ رہا ہوں۔ جلدی سے تیار ہوجائو، آج ہم باہر ڈنر کریں گے۔‘‘
’’اوکے! میں تیار ہوجاتی ہوں۔‘‘ زوباریہ فوراً بستر سے اٹھ کھڑی ہوئی اور الماری سے کپڑے نکال کر تیار ہونے لگی۔
سرمد اسے تیار ہوتے دیکھ کر سوچنے لگا کہ زوباریہ کو اپنی زندگی سے نکالنا اتنا آسان نہیں جتنا وہ سمجھ رہا ہے۔ وہ اس کی توقع سے بڑھ کر چالاک ہے۔ زوباریہ کے ہوتے ہوئے وہ آزادانہ زندگی نہیں گزار سکتا۔ وہ کسی تلوار کی طرح اس کے سر پر مسلط تھی۔ سوچتے سوچتے سرمد کا ذہن تھکنے لگا۔
’’تم یقیناً مجھ سے چھٹکارا حاصل کرنے کے طریقے سوچ رہے ہو؟‘‘ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے میک اَپ کرتی زوباریہ نے سرمد کے چہرے کے تاثرات پڑھ لینے کے بعد کہا۔
سرمد یکدم بوکھلا گیا۔ وہ گھبرا کر بولا۔ ’’سوئٹ ہارٹ! میں بھلا ایسا کیوں سوچوں گا۔ میں تو بزنس کے متعلق سوچ رہا تھا۔ بہت جلد ہم لوگ یہاں سے شفٹ ہوجائیں گے۔‘‘
’’اچھا! تم یہ سوچ رہے تھے؟‘‘ وہ طنزیہ لہجے میں بولی۔ ’’چلو میں تمہاری بات پر یقین کرلیتی ہوں۔‘‘
’’میں ڈریس تبدیل کرکے آتا ہوں۔‘‘ سرمد اس سے نظریں چراتے ہوئے بولا اور اٹھ کر باتھ روم میں گھس گیا۔
٭…٭…٭
سرمد کی توقع کے برعکس زوباریہ خود کو ایک اچھی بیوی ثابت کرنے کی کوشش کررہی تھی۔ وہ بینک اکائونٹ سے بہت زیادہ رقم نہیں نکالتی تھی، صرف مناسب رقم نکال کر اپنے لباس اور زیورات پر خرچ کرتی تھی۔
شادی کے چند ماہ بعد سرمد کراچی شفٹ ہوگیا تھا۔ اس کی یہ سوچ شادی کے سات ماہ بعد بھی برقرار تھی کہ وہ سجاد احسن کے زندہ رہنے کی صورت میں زیادہ بہتر طریقے سے زندگی بسر کرسکتا تھا۔ زوباریہ کے ساتھ معاملہ یہ تھا کہ جب کبھی وہ شاپنگ کرنے جاتی تو سرمد کے ٹھنڈے پسینے چھوٹ جاتے۔ کراچی جیسے شہر میں پیدل چلتے ہوئے کسی گاڑی کا ٹکر مار کر نکل جانا، نہایت معمولی بات تھی پھر وہ دستاویزات جو اسے آسمان سے اٹھا کر زمین کے نیچے پہنچانے کے لئے کافی تھیں۔ سرمد مسلسل بدترین خدشات میں مبتلا رہتا تھا۔
زوباریہ کے دلکش معصوم چہرے کے پیچھے کیا چھپا ہوا ہے، وہ جاننے سے قاصر تھا۔
وہ اچھی بیوی بننے کی پوری کوشش کررہی تھی۔ سرمد توقع کررہا تھا کہ وہ شاہ خرچ ثابت ہوگی اور بینک اکائونٹ پر دھاوا بولتی رہے گی لیکن اس نے ایسا نہیں کیا تھا۔ وہ محتاط ہوگئی تھی۔
شادی کے تین ماہ بعد سرمد کراچی شفٹ ہوگیا تھا۔ یہاں اس نے جدید طرز کا اپارٹمنٹ خریدا تھا، جس کی دسویں منزل پر اس کا گھر تھا۔ وہاں رات کو ٹیرس میں بیٹھ کر وہ زوباریہ کے ساتھ کراچی کی جگمگاتی روشنیوں کا نظارہ کیا کرتا۔
اب ان کی شادی کو سال بھر کا عرصہ ہونے والا تھا۔ جائداد میں برابر کی حصے دار بننے کے باوجود زوباریہ نے کوئی غلط حرکت نہیں کی تھی۔ شاید وہ ایک اچھی شادی شدہ زندگی کی آرزومند تھی۔
اس عرصے میں بڑی مشکل سے سرمد، نیہا سے تعلقات بحال کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔ اس نے نیہا کو بتایا تھا کہ زوباریہ نے اسے اپنے جال میں پھنسا لیا ہے۔ اس نے اپنے انکل سجاد کو خود زہر دیا اور ان کی موت کا الزام اس کے سر پر ڈالنا چاہتی تھی۔ مجبوراً اسے زوباریہ سے شادی کرنا پڑگئی مگر وہ اس بلا کو مسلسل اپنے سر پر مسلط نہیں ہونے دے گا۔ وہ موقع ملتے ہی اسے اپنی زندگی سے نکال باہر کرے گا۔ وہ نیہا کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوگیا تھا کہ وہ اس کی پہلی اور آخری محبت ہے۔
٭…٭…٭
نیہا نے آئینے میں اپنے سراپے کا جائزہ لیا۔ اسے خود پر بے حد رشک آیا۔ ستائیس برس کی عمر میں وہ کسی شگفتہ پھول کی مانند تھی۔ آج اس نے لباس اور آرائش پر بھی خاصا وقت صرف کیا تھا۔
شام گہری ہوگئی تھی۔ اسے کچھ دیر بعد شہر کے ایک مہنگے ریسٹورنٹ میں جانا تھا جہاں اس کا محبوب اور دوست سرمد پلکیں بچھائے اس کا منتظر ہوگا۔ نیہا کو اچھی طرح اندازہ تھا کہ سرمد حسن و جمال کے علاوہ نفاست، شائستگی اور خوش دلی کا دل دادہ ہے، اس لئے آج اس نے سرمد سے ملاقات کے اہتمام میں اپنی جانب سے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ اس نے محسوس کرلیا تھا کہ سرمد کی طرف سے شادی کا پیغام ملنے کا لمحہ اب دور نہیں۔
مقررہ وقت سے کچھ پہلے نیہا گھر سے نکل کھڑی ہوئی۔ وہ ریسٹورنٹ میں داخل ہوئی تو سرمد اس کا منتظر تھا۔ ریسٹورنٹ کے نیم تاریک ماحول میں ہر طرف شمعیں جھلملا رہی تھیں۔ ہلکی موسیقی کی مدھر تانیں کانوں کو بھلی لگ رہی تھیں۔
سرمد نے پرتکلف کھانے کا آرڈر دیا۔ نیہا نے جی بھر کے کھانا کھایا۔ اسے
یوں لگ رہا تھا جیسے وہ کوئی خواب دیکھ رہی ہے۔ وہ سرمد جیسے دولت مند شخص کی محبت تھی۔ سرمد کی وارفتگی اور اپنائیت اس کی آنکھوں میں سمٹ آئی تھی۔ نیہا نے موقع مناسب دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’تم نے کیا سوچا ہے میرے بارے میں؟‘‘
’’تمہارے بارے میں، میں ہر وقت سوچتا رہتا ہوں۔ تمہیں میں نے بتایا تو تھا کہ زوباریہ کے انکل کی اچانک موت واقع ہوگئی تھی اور وہ ان کی موت کا ذمہ دار مجھے گردان رہی تھی۔ اس نے مجھے دھمکی دی تھی کہ وہ پولیس کو میری حقیقت بتا دے گی۔ مجبوراً مجھے شادی کرنی…!‘‘
نیہا نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔ ’’یہ بات تم مجھے پہلے بھی بتا چکے ہو۔ یہ بتائو کہ تم اس مصیبت سے اپنی جان کیسے چھڑائو گے۔ اس کی موت کا مطلب تمہاری موت ہے۔ تم کسی طرح ان دستاویزات کا کھوج لگائو جو یہ ثابت کرسکتی ہیں کہ تم اظفر ایاز نہیں ہو۔ رہی بات انکل سجاد کی، ان کی موت کا معاملہ ان کے ساتھ قبر میں دفن ہوگیا ہے۔‘‘
’’تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔ مجھے اب اس معاملے میں دیر نہیں کرنی چاہئے۔‘‘ سرمد نے ٹشو سے اپنے ہونٹ صاف کرتے ہوئے کہا۔
اسی وقت نیہا کی توجہ اچانک ایک اور شخص کی جانب مبذول ہوگئی جو قریبی میز پر بیٹھا سرمد کو مسلسل گھور رہا تھا۔ اس شخص کی نگاہوں میں وحشت سی تھی اور لبوں پر حقارت آمیز مسکراہٹ…! نیہا کو وہ شخص کچھ عجیب سا لگا۔ اسے شبہ ہوا کہ یہ اجنبی ان کے درمیان مداخلت کے درپے ہے۔ اس کے تیور یہی بتا رہے تھے۔
چند لمحوں بعد وہ آدمی بڑے اطمینان سے چلتا ہوا ان کی میز کے پاس آیا اور نیہا کو نظرانداز کرکے سرمد سے براہ راست مخاطب ہوا۔ ’’ہیلو سرمد…! اوہ سوری اب تو تم اظفر ایاز ہو۔ یہاں کتنا اندھیرا ہے، میں بمشکل تمہیں پہچان پایا۔‘‘
سرمد نے ایک اچٹتی ہوئی نگاہ اس پر ڈالی اور بولا۔ ’’میں نے آپ کو پہچانا نہیں!‘‘
’’اب تم ہم جیسے لوگوں کو کیوں پہچانو گے۔ میں سالار ہوں، انکل سجاد احسن کا پڑوسی! ایک دفعہ تم ہمارے اپارٹمنٹ میں آئے تھے تو میں نے تمہیں سجاد احسن کے گھر پہنچایا تھا۔ اس کے بعد بھی ہماری ملاقات ہوئی تھی۔ میں اپنی امی کو زوباریہ سے ملوانے تمہارے گھر آیا تھا۔‘‘
’’اوہ اچھا…!‘‘ سرمد کے ہونٹوں پر بکھری ہوئی مسکراہٹ یکدم غائب ہوگئی۔ وہ بمشکل بولا۔ ’’کیسے ہو سالار…! یہ میری دوست نیہا ہیں۔‘‘
’’میں بالکل ٹھیک ہوں۔ رہی بات آپ کی دوست کی تو یہ خاصی دلکش ہیں۔‘‘ سالار نے ایک گہری سانس لی پھر بولا۔ ’’کیا زوباریہ کو تم بتا کر آئے ہو کہ تم اپنی دوست کے ساتھ ڈنر کرنے جارہے ہو؟‘‘
’’میں اسے ہر بات بتانے کا پابند نہیں۔ بہتر ہوگا کہ تم اپنی حد میں رہو۔ اپنی غنڈہ گردی اپنے محلے تک رکھو۔‘‘ سرمد کا لہجہ تلخ ہوگیا۔
’’اوہ اچھا! زیادہ اکڑ دکھانے کی ضرورت نہیں۔ زوباریہ نے مجھے اپنا ملازم رکھ لیا ہے اور اب میرا فرض بنتا ہے کہ تم پر نظر رکھوں۔‘‘ سالار لاپروائی سے بولا۔
سرمد یکدم غصے میں اٹھ کھڑا ہوا۔ ’’نیہا! سوری مجھے یہاں سے جانا ہوگا۔ آئو سالار! مجھے تم سے ضروری بات کرنا ہے۔‘‘
سرمد، سالار کو ساتھ لے کر وہاں سے چلا گیا۔ نیہا بے چینی سے پہلو بدل رہی تھی۔ پندرہ منٹ بعد سالار آیا۔ اس نے بتایا۔ ’’سرمد گھر چلا گیا ہے زوباریہ کی کال آگئی تھی۔‘‘
نیہا نے فوراً پرس اٹھایا اور کرسی سے اٹھنے والی تھی کہ سالار نے اس کے شانے پر دبائو ڈالتے ہوئے اسے کرسی پر بٹھا دیا۔
’’نیہا…! تمہیں اتنی جلدی جانے کی کیا ضرورت ہے۔ کچھ دیر میرے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرو۔ مجھے تم بہت اچھی لگی ہو۔ مانا کہ میں سرمد جیسا دولت مند نہیں ہوں، مگر دل کا بہت اچھا ہوں۔ مجھ سے دوستی کرو گی؟‘‘
’’مجھے تمہاری یہ بے تکلفی پسند نہیں آئی۔ اب میں گھر جائوں گی۔ گڈبائے!‘‘ نیہا پیر پٹختی ہوئی ریسٹورنٹ سے نکل گئی۔
باہر آکے اس نے اردگرد دیکھا کہ شاید سرمد وہاں موجود ہو، مگر اسے سرمد کی کار دکھائی نہ دی۔
نیہا نے ٹیکسی کی تلاش میں نظریں دوڑائیں۔ پارکنگ سے کچھ فاصلے پر ایک ٹیکسی کھڑی تھی۔ وہ فوراً ٹیکسی میں سوار ہوکر گھر روانہ ہوگئی۔ گھر پہنچ کر وہ سرمد کی کال کی منتظر رہی، مگر سرمد نے اسے فون نہیں کیا۔
صبح نیہا اسپتال جانے کی تیاری کررہی تھی کہ سرمد کی کال آگئی۔ ’’ہیلو نیہا…!‘‘
’’مجھے کیا جواب دینا چاہئے؟‘‘ نیہا نے اپنا غصہ دکھانے کی کوشش کی۔ ’’کل رات جس طرح سے تم مجھے بتائے بغیر چلے گئے، مجھے بہت برا لگا۔ اوپر سے وہ سالار مجھ سے زبردستی فری ہونے کی کوشش کررہا تھا۔‘‘
’’میری بات سنو۔‘‘ سرمد کا لہجہ التجا آمیز تھا۔
’’کوئی الٹی سیدھی وضاحت مت کرنا۔‘‘ نیہا غصے میں بولی۔
(جاری ہے)