تنخواہ تو انور صاحب کی ٹھیک ہی تھی۔ اللہ نے بھرم رکھا ہوا تھا ۔ اللہ نے زیادہ نہ سہی حسب توفیق دینے والوں میں شامل رکھا تھا۔ ارد گرد کے لوگوں اور برادری کنبہ کے لوگ انہیں خوش حال گردانتے تھے اور انور صاحب کے کولیگ انہیں متوسط طبقہ میں شمار کرتے جبکہ اپنے حساب سے وہ سفید پوش تھے اس لیے کہ ان کے دفتر کے سارے ساتھی سفید پوش طبقہ ہی سمجھے جاتے تھے۔ یہ خوشحالی اور بھرم ایک طرف اللہ رب العزت کا خصوصی کرم تھا تو دوسری طرف ان کی سلیقہ مند ، سگھڑ، اور سوچ سمجھ کر خرچ کرنے والی بیوی روبینہ کی کوششیں تھیں ، دال ایک دن روٹی کے ساتھ کھائی جاتی ساتھ میں پودینہ، اناردانہ کی تازہ چینی اچار اور دہی کی پتلی لسی اسے دال بڑا مال بنا دیتی وہی دال اگلے دن ابلے چاولوں کے ساتھ زیرہ اور ادرک کے نئے بگھار کے ساتھ میز پر رکھی جاتی تو ہرا دھنیا ، پودینہ اور ہری مرچ کی چٹنی والا رائتہ اسے اتنا لذیذ بتا دیتا کہ اٹھنے سے پہلے انور صاحب ایک فقرہ کہنا کبھی نہ بھولتے۔ پیٹ تو بھر گیا لیکن نیت نہیں بھری ۔ شومئی قسمت اگر دال پھر بھی بچ جاتی تو وہ آٹا اور تھوڑا سا میدہ شامل کرتیں۔ آدھ چمچہ مکھن، چاٹ مساله قصوری میتھی اور نمک مرچ ڈال کر خستہ خستہ پراٹھے توے سے اتارتیں تو آس پڑوس تک خوشبو جالی۔ اس کا واضح ثبوت یہ تھا کہ پہلا پراٹھا توے سے اترتا اور اڑوس پڑوس سے سلمہ ، جمیلہ باجی یا قدسیہ بوا کی کوئی پوتی ضرور دروازے سے اندر آتی اور کہتی۔
واہ بڑی زبردست خوشبو ہے، لگتا ہے پکوڑے کڑھی یا دال کے پراٹھے اتر رہے ہیں۔ روبینہ خوش دلی ہے انہیں بھی کھانے میں شریک کرتیں اور مسکراتے ہوئے کہتیں۔ لو کڑھی چڑھاؤں اور محلے میں نہ بھیجوں یہ کیسے ممکن ہے؟ پر کیا کروں بیسن دہی تو میسر ہے پر جس تیل میں پکوڑے تلنے ہوتے ہیں وہ بہت مہنگا ہے، ایک ایک ڈونگا بھی سب گھروں میں بھیجوں تو ٹھیک ٹھاک تیل خرچ ہو جاتا ہے کہنے کو کڑھی ہی ہوتی ہے لیکن سچ پوچھو آلو بینگن ، پیاز، پالک ، دھنیا پودینہ کے پکوڑوں پر ہزار بارہ سو کا خرچا آ جاتا ہے اور بغیر پکوڑوں کے سادہ کڑھی مجھ سے کھائی جاتی ہے نہ بنائی جاتی ہے۔ خیران کی ایک باورچی خانہ کی باتوں پر ہی لکھنے بیٹھو تو ہزار بارہ سو صفحات کا رجسٹر بھر جائے۔ وہ تو کپڑوں، بستر کی چادروں سمیت ہر چیز کو ری سائیکلنگ کے ہنر سے گزار کر شاہکار بنا دیتی تھیں۔ یہ ان کی ہی سمجھ داری تھی کہ نہ صرف بھرم قائم تھا بلکہ رب العزت نے انہیں کھاتے پیتے لوگوں میں شامل ہونے کا اعزاز بخشا ہوا تھا۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ وہ مہمان نواز تھیں اور بچے سالن، بچی روتی دال دلیے سے بھی مہمان نوازی کے ایسے پکوان بناتیں کہ لوگ شوق سے نہ صرف کھاتے بلکہ دل کھول کر تعریف کرتے جاتے ہوئے با قاعدہ طور پراس کی ترکیب پوچھ کران کا شکریہ ادا کیا کرتے۔ سارا گھر ہی ان کے سکھڑاپے کا اشتہار تھا۔ خوش مزاجی بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ لوگوں کے دکھ سکھ میں دل سے شامل ہوتیں۔ کبھی کسی کے ہاں خالی ہاتھ گئیں نہ کسی آئے ہوئے کو خالی ہاتھ جانے دیا۔ آج کے نفسانفسی اور مہنگائی کے شکنجے میں پسے لوگوں کی نظر میں وہ اگر خوش حال تھیں تو ایسا غلط بھی نہ تھا۔ ان کی صلاحیت اور وقت کا زیادہ حصہ تو اس تگ و دو میں گزرتا کہ کیسے کہاں سے کم قیمت میں معیاری چیز لی جائے چونکہ پہننے اوڑھنے کا ذوق بھی خوب تھا تو جو بھی لیتیں یا جو بھی بناتیں ، وہ لوگوں کی نظر میں کمال فن ہی ہوتا، خیران کی ریاضتوں کا زمانہ پہلے بھی معترف تھا اب تو اس کا عملی نمونہ تب سامنے آیا جب شہر کے سب سے معروف اور مشہور کاروباری گھرانے سے ان کی بیٹی کے لیے رشتہ آیا۔ بہت دیر تک تو وہ کنگ سی بیٹھی رہیں ، فون بند کرنے کے بعد کئی مرتبہ اپنے کانوں میں مسز طاہر باجوہ کے الفاظ کی تکرار سنتی رہیں جنہوں نے ادھر ادھر کی چھوٹی چھوٹی باتوں کے بعد پوچھا تھا بھابھی بھلا آپ نے اپنی بیٹی فریحہ کا کہیں رشتہ تو طے نہیں کیا، ہم اسے اپنے گھر کی بیٹی بنانا چاہتے ہیں۔
بھابھی روبینہ ہمارے بیٹے ڈاکٹر نثارعلی کواپنی دامادی میں قبول فرمانے کا عندیہ دیں تو ہم آپ کی طرف آنا چاہتے ہیں۔ وہ بار بار آنسو پونچھتیں، اللہ کا کتنا احسان ہے کہ انہوں نے دانتوں سے پکڑ پکڑ کر جیسے روپیہ خرچ کیا ، اپنی خواہشوں کا گلا گھونٹا ان کی بیٹی ان سے کہیں خوش حال گھرانے میں جائے گی جہاں چیزیں ناپ تول کر نہیں پکائی جاتیں جہاں سوٹ پرانا ہو تو اس کے دوپٹے کے ساتھ دوسرا سوٹ میچنگ کر کے نہیں بنایا جاتا۔ رشتہ ہر لحاظ سے بہترین تھا، ایک اعزاز تھا۔ وہ کیوں انکار کرتیں اور کفران نعمت کی مرتکب ہوتیں ۔ رمضان کے آخری عشرے میں رشتہ ڈالا گیا تھا۔ عید سے بیس اکیس دن کے بعد دیکھنے دکھانے کے سلسلے ختم ہوئے اور ہفتہ بھر گزرا تو بات طے ہوگئی۔ سادہ سی تقریب تھی جو ہر لحاظ سے دونوں گھرانوں کے لیے یاد گار تھی۔ رشتہ داری قائم ہونے کے بعد پہلی عید وہ بھی بقرعید جلد ہی سر پر آن پہنچی۔ اپنی خداداد صلاحیتوں سے عام چیز کو بدرجہ کمال تک پہنچانے میں یکتا روبینہ انور دن رات سوچوں میں گم اور حساب کتاب کرتی دکھائی دیتیں۔ خیر تو ہے نصیب دشمنان طبیعت ناساز لگتی ہے۔ اپنے خیالوں میں گم روبینہ بیگم چونکیں۔ جی مجھ سے کچھ پوچھا۔ اپنے نصف بہتر کو نہیں بتائیں گی کیا پریشانی چل رہی ہے دل و دماغ میں ؟ ایک لمبی سرد آہ سینے سے خارج کر کے انہوں نے انور صاحب کی طرف دیکھا جیسے گو مگو کی کیفیت میں ہوں۔ ان کی بیٹی بھی پاس آکر بیٹھ گئی۔ ابو جان مجھے بھی امی جان بہت پریشان لگ رہی ہیں۔ پریشان تو ہوں میں روبینہ بیگم نے تھوک نگلا۔
میں پریشان ہوں کہ بچی کا رشتہ طے ہونے کے بعد پہلی عید ہے، نیا نیا رشتہ بنا ہےہے۔ سوچ رہی ہوں اتنی بڑی حیثیت والا کہ سمدھیانہ ہے۔ ہم عید پر کیا کریں گے؟ بکرے کو تو ہاتھ لگاؤ تو چالیس پچاس ہزار مانگتے ہیں پھر قصاب کا میں نے دو ایک جگہ سے معلوم کیا ہے، انہوں نے بھی جیسے حد ہی ختم کر دی ہے۔ سمجھتے ہیں سونے کا پانی چڑھتی چھری سے بکرے ذبح کریں گے آٹھ دس ہزار سے کم کوئی نہیں مانے گا! کیا بنے گا ۔ وہ افسردگی سے بولیں۔ ہم بڑے گوشت میں حصہ ڈال لیں گے، گو اس کی بھی گنجائش تو نہیں بن رہی۔ انور صاحب نے کہا۔ بڑے میں؟ کیا ہو گیا ہے آپ کو ؟ سمدھیانہ میں پہلے روز دو بکرے اور گائے ذبح ہو گی اور ہم محض گائے میں ایک حصہ ۔ وہ تڑپ کر بولیں ان کی بیٹی نے پاس بیٹھی ماں کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور نرمی سے بولی۔ ابھی کل ہی ہم نے ٹی وی چینل پر عالم کی فلسفہ قربانی کے موضوع پر تقریرسنی تھی۔ یاد کریں۔ وہ کیا کہہ رہے تھے؟ انہوں نے کہا تھا۔ اور اللہ کو قربانی کے جانور کا خون پہنچتا ہے نہ گوشت بلکہ اسے تقویٰ پہنچتا ہے اور تقویٰ خالص اللہ کے لیے کی جانے والی نیکی اور اس کی خاطر برائی چھوڑتے وقت دل میں پیدا ہونے والی کیفیت کو کہتے ہیں۔ پیاری امی ! آپ ریلیکس ہو جائیں اگر تو آپ نے میری سسرال کو دکھانے کے لیے قربانی کرنا ہے تو پھر وہ سسرال کی رضا مندی کی نیت سے کریں۔ اللہ کی رضا کی نیت تو ختم ہو گئی اور اگر اللہ کی محبت اور اطاعت میں اس کی رضا کے لیے جانور لینا ہے تو پھر تو کوئی پرواہ ہی نہیں ۔ وہ ہمارے دلوں کے حال بہتر جانتا ہے۔ ہم قربانی نہیں کر سکتے تو ہماری پکڑ نہیں ہے ہاں اگر حیثیت ہے پھر نہیں کر رہے تو ضرور رب کے ہاں جوابدہ ہوں گے۔ روبینہ ابھی بھی مطمئن نہیں تھیں بیٹی کی سسرال والوں کا سوچ کر ابھی بھی حلق میں گولا سا پھنس جاتا۔ انور صاحب انتہائی سنجیدگی سے سب دیکھ رہے تھے یہ پہلا موقع تھا کہ ان کی بیوی اس پریشانی میں تھیں اگر وہ اب پہلے مرحلے میں ان کو راہنمائی نہ دیں تو آگے چل کر کیا ہوگا۔ اس لیے وہ بھی گلا کھنکھارتے ہوئے شروع ہوئے۔
بات یہ ہے کہ ہماری بیٹی کہتی تو ٹھیک ہے۔ پہلے تو یہ فیصلہ کر لو کہ قربانی کیوں کرنا ہے۔ سنت ابراہیمی کی پیروی میں تاکہ ہمارے گناہ معاف ہو جائیں یا اس لیے کہ بیٹی کے سسرال والے کیا کہیں گے؟ تو پہلی صورت میں، میں کھینچا تانی کر کے بڑے میں حصہ ڈال لوں گا۔ اس کا گوشت حق لوگوں کے علاوہ جہاں دینا چاہو دے دینا- انشااللہ ہمیں اجر ثواب برابر کا ملے گا لیکن اگر تم یہ چاہتی ہو کہ ہر صورت میں خواہ ادھار پکڑ کر ہی سہی بکرا ہی لینا ہے کہ سمدھیانے والے کیا کہیں گے تو بات یہ ہے جس کام کی نیت ہی درست نہیں، وہ عمل کیسے قابل قبول ہوگا ۔ نیت میں کھوٹ کپٹ آگئی تو رضائے الہی کا دعوی تو رد ہو جائے گا۔ ہم سفید پوش لوگ ہیں ہماری جو حیثیت ہے ہم اس کے مطابق عمل کریں گے کیونکہ اللہ کو نیکی کے پہاڑ سے نہیں اس نیکی سے پیار ہے جو بھلے نقطہ برابر ہو لیکن صرف اور صرف اس کے لیے ہو صاف شفاف نیت کے ساتھ۔ وہ جو دلوں کے بھید جانتا ہے اس کو قبول کر کے پہاڑ جتنا اجر دینے کی قدرت رکھتا ہے تم اگلے سال کے لیے نیت بنا لو سارا سال کچھ رقم اس مد میں مخصوص کرتی رہنا، کمیٹی ڈال لیا، تب تم اپنی خواہش پوری کر سکتی ہو لیکن دکھاوے کے لیے نہیں شکرانے کے طور پر اس مالک کی بارگاہ میں جس نے امت کو صرف جانور کی قربانی کا حکم دیا، اولاد کی قربانی کا نہیں ! اگر وہ کہہ دیتا کہ اولاد کی قربانی پیش کرو پھر کیا کرتیں؟ روبینه بیگم کے ماتھے سے تفکر کی شکنیں دور ہو چکی تھیں اور اب مسکراتا چہرہ ان کی یکسوئی ظاہر کر رہا تھا۔ بس درمیان میں شوشہ چھوڑنے والا ایک طرف کھڑا اپنی ناکامی پر افسوس کر رہا تھا ایک اور بنی نوع انسان اس کے جال میں آنے سے بچ گیا تھا۔
☆☆