Monday, September 16, 2024

Dil Kay Ristay

زیادہ وقت نہیں لگا اور جیسے سب کچھ ہی بدل گیا۔ وہ پہلے جیسی نہیں رہی اور میں بھی۔ ایک لمحے میں دل کا رشتہ زبان کے رشتے میں بدل گیا۔ رشتوں کے سمندر میں اٹھنے والا جوار بھاٹا، محبت کی لہروں سے ٹکرا کر تازہ دم ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر رشتوں میں محبت ہی نہ رہے تو کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔ بس فاصلہ اور بے نام تعلق- جب تک وہ مجھے سے تعلق کو محبت سمجھتی رہی کھلی کھلی اور ترو تازہ رہی۔ جیسے ہی اس پر حقیقت کھلی۔ وہ مرجھا گئی اور اب اتنے سالوں بعد میں بھی۔ ساس، سسرحیات نہیں تھے، ایک میرے شوہر ایک شادی شدہ پردیسی لا تعلق سا دیور اور ایک دس سال کی جاپانی گڑیا جیسی وہ میری نند ماہا۔ وہ اتنی خوب صورت تھی کہ ہماری شادی میں، میرے میکے میں ہر زبان پر بس اس کی خوب صورتی کا ہی چرچا تھا۔ سب نے کہا کہ مجھے پلی پلائی بیٹی مل گئی ہے۔ شادی کے شروع کے دنوں میں تو وہ مجھے بیٹی ہی لگی تھی۔ لیکن جو کوکھ سے پیدا نہ ہوا ہو وہ کوکھ والے جیسا بھی نہیں ہو سکتا۔ دو تین سال میں نے اس کے بہت ناز نخرے اٹھائے۔ اسے بستر پر سلانا دودھ کا گلاس دینا اس کے بالوں کی چوٹیاں کرنا نوالے بنا بنا کر اسے کھانا کھلانا اس کی اسکول وین تک بھاگتے ہوئے اسے جوس کا گلاس ختم کرنے کے لیے کہنا۔ اسکول سے واپسی پر اسے اچھی طرح لنچ کروانا اور سلا دینا۔ ۔ شام کو اسے پڑھانے کے لیے بیٹھ جانا۔ رات کو سونے سے پہلے اس سے باتیں کرنا، کبھی کہانی سنا دینا، کبھی کوئی اپنے بچپن کی یاد۔ جب ہم اپنی زندگی کی کہانی کو اپنی مرضی کا رخ دیتے ہیں تو انجام کو بہت دکھی کردیتے ہیں۔ آہستہ آہستہ مجھے اس کے سب کاموں سے چڑ ہونے لگی۔ اس کی ہر حرکت سے، کمرے میں پنکھا اور لائٹ جلتے رہنے سے، رات رات بھر کمپیوٹر پر بیٹھے رہنے اور آرڈر دے کر باہر سے کھانا منگوانے سے بھی ۔ اس کا کمرہ ہر وقت بکھرا رہتا تھا۔ بلکہ گھر کا ہروہ حصہ بکھرا ہوا ملتا جہاں جہاں وہ بیٹھ کر میوزک سنتی اور بے ہنگم ڈانس کرتی تھی۔ ہر دوسرے دن اس کی سہیلیاں گھر آجاتیں اور وہ سب مل کر خوب ہنگامہ کرتیں کھاتی پیتیں اور سارا گھر بکھیر کر چلی جاتیں۔ میرے اور بچوں کے اتنے کام نہیں تھے، جتنے اس سولہ سال کی لڑکی کے تھے۔ اب میں اس سے اکتانے لگی تھی بلکہ وہ مجھے بری لگنے لگئی تھی۔ مجھے اس سے خواہ مخواہ کی چڑ ہو چکی تھی۔ اس کی ہر حرکت، ہر ادا سے۔ میری دو بہنیں کنواری تھیں، ہمیں ان کی شادی کی بہت فکر رہتی تھی، لیکن پھر بھی وہ مجھے بوجھ نہیں لگتی تھیں، جتنی مجھے سولہ سال کی ماہا بوجھ لگنے لگی تھی۔ بیس سال کا ہونے سے پہلے اس کی شادی نہیں ہو سکتی تھی اور یہ چار، چھ سال مجھے صدیوں جتنے لمبے لگتے تھے- میں اب اسے اکثر ڈانٹ دیتی تھی اور وہ آگے سے ہنس دیتی تھی۔ آپ اتنا غصہ کیوں کرنے لگی ہیں بھابھی ؟ تم کب بڑی ہوگی ؟ آپ نے سنا نہیں کہ اولاد ماں باپ کے لیے کبھی بڑی نہیں ہوتی۔ جو بات اس نے سن لی تھی وہ میں نے سن کر بھی نہیں سمجھی تھی۔ اسے یقین تھا کہ میں اس کی ماں ہوں۔ اسے یقین تھا کہ میں جو اسے ڈانٹتی ہوں تو وہ دراصل محبت میں ڈانٹتی ہوں۔ اسے یہ بھی یقین تھا کہ میں جو آج کل اس کے بھائی کے سامنے اس کی شکایتیں لگاتی ہوں تو وہ بھی ماں باپ اور اولاد کے درمیان چلنے والا معمول کا چلن ہے وہ اپنی فرینڈز سے سنتی ہوگی کہ کیسے ان کی اماں جان ان کے بابا جانی سے ان کی شکایتیں کرتی ہیں۔ کیسے وہ بظاہر غصے سے، لیکن دل ہی دل پیار میں اپنی لاڈلی کے کان کھینچنے کے لیے کہتی ہیں۔ آب مجھے یاد آتا ہے کہ جب جب میں اس کی شکایت لگاتی تھی، تب تب وہ بہت خوش ہوتی تھی- اس کے بھائی اسے ڈانٹ دیتے تھے تو بھی وہ مسکراتی رہتی تھی۔ مجھے ڈانٹ پڑوا کر آپ نے ٹھیک نہیں کیا۔ وہ مصنوعی خفگی سے کہتی اور پھر بھی خفا نہیں ہوتی تھی۔ میری پیشانی پر پڑنے والے بل اور میری آواز کی کاٹ کا وہ اثر نہیں لے رہی تھی یا اس میں اتنی سمجھ ہی نہیں تھی کہ وہ یہ سب جان سکتی۔ وہ خود کو میرے بیٹوں کی پھوپھو نہیں، آپی کہتی تھی۔ مجھے اس پر غصہ آنے لگا تھا۔ میرے میکے والے بھی اس پر ناک بھوں چڑھاتے تھے کہ میں کیا ہر وقت اپنی نند کا دم چھلا اپنے ساتھ رکھتی ہوں۔ میں اسے نے ساتھ نہیں رکھتی تھی وہ خود میرے ساتھ رہتی تھی۔ جس دن مجھے امی کے گھر پنڈی جانا ہوتا تھا، مجھے سے پہلے وہ اپنی تیاری مکمل کر چکی ہوتی تھی۔ اپنے کپڑے، جوتے، بیگ میں پیک کر کے بیکری کا سامان بھی منگوا چکی ہوتی تھی۔ کراچی ماموں کے پاس جانا ہوتا تھا اور وہ اپنے بھائی کے ساتھ جاکر ٹیلر کو اپنے کپڑے مجھ سے پہلے دے آتی تھی ۔ میرے بہن، بھائیوں کو وہ ماموں اور خالہ کہتی تھی۔ ان سے فرمائشیں کرتی ، لاڈ اٹھواتی تھی۔ وہ میری سانس کے ساتھ سانس لے رہی تھی اور میں اس سے کتنی بے زار تھی۔ پھر ایک وقت آیا کہ مجھے اس کی سانسوں کی مہک اپنی سانسوں سے زیادہ عزیز ہوگئی، لیکن پھر وہی، فاصلہ لاتعلقی۔

امریکہ سے اس کی خالہ آئی تھیں۔ آخری بار وہ میری ساس کی وفات پر آئی تھیں۔ فون پر تو بات ہوتی رہتی تھی لیکن ملاقات اب ہو رہی تھی۔ وہ تھوڑی تنگ مزاج تھیں- کچھ پیسہ ان کے پاس بہت زیادہ تھا۔ کہیں کوئی نقص تو نہیں نکالتی تھیں، لیکن نگاہیں بتا دیتی تھیں کہ انہیں کیا کیا پسند نہیں آرہا۔ ناک ان کی ضرورت سے زیادہ اونچی تھی۔ جمال نے ان کی آمد کے لیے اچھے خاصے پیسے گھر کی آرائش پر خرچ کیے تھے ، لیکن پھر بھی انہیں گھر میں نقص ہی نظر آ رہے تھے۔ ماہا سے وہ پیار کرتی تھیں لیکن اس کے لیے بھی ان کا انداز تنقیدی ہی تھا۔ کڑی نظروں سے اس کا جائزہ لیتی رہتی تھیں۔ ان دنوں ماہا بالکل بدل گئی تھی۔ وہ صبح جلدی اٹھتی اور کچن میں چلی جاتی تھی۔ ناشتے کی تیاری میں میری مدد کرتی۔ سارے گھر کی صفائی اپنے سامنے کرواتی- خالہ کے کپڑے استری کرتی ان کے سر میں تیل ڈالتی۔ ان کے ساتھ خریداری کے لیے جاتی ۔ اب بس وہ اور خالہ۔ آج کل اس کی کوئی سہیلی بھی گھر نہیں آرہی تھی۔ اس کا کمرہ بھی بہت اچھی حالت میں رہنے لگا تھا۔ احد اور فہد سے جو وہ اونچی اونچی آواز میں باتیں کرتی تھی، چیختی چلاتی اور بلند قہقے لگاتی تھی- وہ سلسلہ بھی مؤخر ہو چکا تھا۔ اب تو وہ اتنی دھیمی آواز میں بات کرتی کہ ایسے لگتا تھا جیسے سرگوشی کر رہی ہو- بوہت با ادب با تمیز، ٹی وی اور کمپیوٹر جیسی خرافات سے دور رہنے والی پیاری سی لڑکی بن گئی تھی۔ پتا نہیں کیوں مجھے ماہا کا یہ ڈھونگ بہت برا لگا- چھٹی والے دن جس لڑکی کی صبح بارہ بجے سے پہلے نہیں ہوتی تھی، اب وہ فجر کے وقت اٹھ کر نماز پڑھ کر اپنی خالہ کو سلام کر کے ان کے لیے چائے بنانے جاتی تھی- پہلے تومجھے دل ہی دل میں ہنسی آتی رہی، پھر میرا دل چاہا کہ میں اس کے ڈرامے کا پردہ چاک کردوں۔ میں نے خود کو باز نہ رکھا اور ایک دن بظاہر مذاق میں لیکن، دراصل سنجیدگی سے خالہ کو اس کی عادتیں گنوا دیں ۔ میں نے یہ تک بتا دیا کہ یہ اتنی بڑی ہو گئی ہے، لیکن آج بھی چھت پھلانگ کر اپنی سہیلی کے گھرجاتی ہے۔ اس کے جوان بھائی ہیں سو بار منع کیا ہے، لیکن باز نہیں آتی۔ پتا نہیں خالہ پر کس بات نے زیادہ اثر کیا کہ وہ اگلےہی دن اسلام آباد اپنے دیور کے پاس چلی گئیں۔ پندرہ دن بعد وہیں سے اپنے بیٹے کے نکاح پر ہمیں مدعو کر لیا- چلنا ہے نکاح پر ماہا- اس اس نے نظریں اٹھا کر مجھے دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ پہلے ہی سے اس نکاح کے بارے میں جان چکی تھی۔ یہ بھی جان چکی تھی کہ میں اس کی خالہ کو کیا کچھ کہہ چکی ہوں۔ نہیں بھابھی! کیوں؟ ارسلان تمہارا فرسٹ کزن ہے۔ تم توشاید کافی کلوز بھی ہو اس سے۔ نیٹ پر چیٹ ویٹ نہیں کرتی رہتیں اس سے۔ اب نہیں کرتی۔ پھر گھر کا خیال کون رکھے گا؟ آپ بھائی اور بچوں کے ساتھ چلی جائیں بھابھی! میرے ایگزیمز ہیں مجھے تیاری کرنی ہے۔ جمال بھی نکاح میں نہیں گئے۔ انہیں بھی مایا کی طرح چپ سی لگی ہوئی تھی۔ پھر میں اکیلی کیوں جاتی۔

اس نکاح کے بعد جیسے گھر کی ہر چیز بدل گئی اور اتنی بدل گی کہ مجھے چیزوں سمیت خود سے بھی نفرت ہو گئی ۔ ماہا فجر کے وقت اٹھتی۔ سب کے لیے ناشتا بناتی۔ پھر گھر کی صفائی کرتی اور کالج چلی جاتی۔ دوپہر کے لیے آٹا وہ گوندھ کر جاتی تھی، روٹی آکر بنا لیتی تھی۔ رات کا کھانا بھی اس نے بنانا شروع کر دیا تھا۔ بچوں کو ٹیوشن دیتی۔ ہفتے میں دوبارہ مشین لگا لیتی اور سارے گھر کے کپڑے دھوتی۔ دو مہمان آتے یا دس وہ سب کے لیے اکیلی کھانا بنانے لگی۔ گھر کو چمکا کر رکھتی۔ پتا نہیں اس نے کیسے اور کب یہ سب کرنا سیکھ لیا تھا۔ کب اس نے بھاری پردوں اور لمبی چھت کو دھونے کی ذمہ داری اپنے ذمے لے لی تھی۔ اسے کیسے یہ احساس ہو گیا کہ اس کی وارڈروب میں کپڑوں کا ڈھیر پڑا ہے اور اب اسے بازار جاکر فضول خریداری نہیں کرنی چاہیے۔ اسے میوزک سے نفرت ہے۔ وہ اونچی آواز میں ہنس بول نہیں سکتی۔ وہ ان سب سے کب دور ہوگئی میں معلوم ہی نہیں کر سکی۔ اس نکاح کے بعد کوئی ایک بھی دن تو ایسا نہیں گزرا تھا کہ جب وہ دن نو بجے سو کر اٹھی ہو۔ کوئی ایک بھی دن تو ایسا نہیں آیا تھا کہ وہ میرے میکے میرے ساتھ آئی ہو کوئی ایک ہی دن ایسا ہوتا جب اس کی سہیلیاں گھر آئی ہوں ، وہ چھت پھلانگ کر اپنی سہیلی کے گھر گئی ہوتی۔ فون پر اس نے کھانا آرڈر کیا ہوتا۔ گلا پھاڑ کر قہقہے لگائے ہوتے۔ فل والیوم میں میوزک لگا کر بچوں کے ساتھ مل کر ادھم مچایا ہوتا۔ کوئی ایک بھی دن ایسا نہیں آیا کہ مجھے پرانی ماہا کی جھلک نئی ماہا میں دکھائی دی ہوتی۔ میری اماں اور بہنیں تک اسے دیکھ دیکھ کر حیران ہونے لگی تھیں۔ اللہ نے تمہاری کوئی دعاسن لی ہے مہوش ! دیکھو کیسا سکھ دیا ہے اس نے تمہیں۔ اماں نے ایک دن کہا- کیسا دکھ دیا تھا میں نے اسے۔ اس نے بی اے کر لیا تو اپنی فرینڈ کے ذریعے اپنے بھائی کو پیغام بھجوایا کہ وہ مزید آگے نہیں پڑھنا چاہتی، اس لیے اس کی شادی کر دی جائے۔ جمال سے زیادہ میں حیران تھی۔ تمہارے بھائی تمہارے ایم بی اے کا سوچ کر بیٹھے ہیں اور تم شادی کی بات کر رہی ہو۔ یہی صحیح عمر ہوتی ہے شادی کی بھابھی بس پڑھ لیا جتنا بڑھنا تھا۔ منگنی یا نکاح کر دیتے ہیں۔ تم ایم بی اے کر لو۔ نہیں مجھے آگے نہیں پڑھنا۔ اس نے نرمی سے کہا۔ وہ پہلی رات تھی جب اس کے رخصت ہونے کے خیال نے میرے دل کو ہولا دیا تھا۔ ان تین سالوں میں اس نے میرے پیروں کے نیچے ہاتھ ہی نہیں رکھے تھے، باقی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ جمال نے بھی اسے سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں مانی۔ جمال کو اس کی شادی کر دینا پڑی۔ وہ گھر سے رخصت ہو گئی اور پھر دوبارہ کبھی واپس نہیں آئی۔ وہ شادی کے بعد کویت چلی گئی تھی۔ کویت جانے سے پہلے وہ ایک مہینہ اپنے سسرال میں رہی تھی۔ جاتے ہوئے ایرپورٹ پر ہم سے ملی اور بس۔ آج چھ سال ہو گئے ہیں۔ وہ لوٹ کر اس گھر میں نہیں آئی۔ میری ساری خدمت گزاری ، میرے احسان میرا پیار وہ لوٹا گئی تھی۔ جتنا میں نے اس کے لیے کیا تھا، اس سے بڑھ کروہ کر گئی تھی۔ ایک دن میں نے اس سے فون پر کہا- ماہا تم ارسلان سے محبت کرتی ہو اس کا احساس مجھے بہت بعد میں ہوا تھا ماہا- اور آپ مجھ سے محبت نہیں کرتیں اس کا احساس بھی مجھے بہت بعد میں ہوا تھا بھابھی ! اس نے گہری سانس بھری اور فون بند کردیا- اس کے جانے کے بعد مجھے گھر کے کونوں میں اس کی خاموشی گونجتی سنائی دیتی ہے۔ میں آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر خود کو دیکھ نہیں پاتی۔ نظریں نہیں ملا سکتی- گھر میں بارہ ہزار ماہوار پر ایک ملازمہ آتی ہے، سب کام کر جاتی ہے۔ جمال کی پروموشن ہو چکی ہے گاڑی بھی آگئی ہے اور گھر بھی بدل لیا ہے- میرے بیٹے سارا سارا دن اے سی چلا کر رکھتے ہیں۔ میری چھوٹی بیٹی دن بارہ بجے سے پہلے سو کر نہیں اٹھتی- اسے گھر کا کھانا پسند نہیں ۔ اپنے فون اور اپنی سہیلیوں کے ساتھ وہ اتنی مصروف رہتی ہے کہ اسے یہ تک دیکھنے کی فرصت نہیں کہ اس کی ماں بیمار ہے اور مسلسل ڈاکٹر کے پاس جارہی ہے۔ اپنے میکے میں اکیلی ڈرائیور کے ساتھ جاتی ہوں؟ چھوٹی بہن کے بیٹے کی شادی میں بہت مشکل سے تینوں بچوں کو بارات پر تیار کروا کر لے کر گئی، تینوں بچوں کو اپنی خالہ ماموں وغیرہ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ مجھے اپنے بچوں سے بہت سی شکایتیں ہیں، لیکن پھر بھی میں ان کے لیے کچھ برا نہیں سوچ سکتی، جس سے شکایتیں تھیں ، چڑ تھی جو بری لگتی تھی، اس کے ساتھ برا کر دیا، لیکن یہ جرات بیٹی کے لیے کیا کر پاؤں گی۔ میں آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر دیکھ نہیں پاتی۔ نظریں نہیں ملاسکتی۔

Latest Posts

Related POSTS