ہمارا اور چچا کا گھر پاس پاس تھا۔ ان دنوں وہ اپنے مکان کی دوسری منزل پر دو کمرے تیار کروا رہے تھے اور مزدور وہاں کام کر رہے تھے۔ کام کی نگرانی بلاول کے ذمے تھی۔ میں اپنے صحن میں کام میں مصروف ہوتی تھی، مجھ کو پتا نہ تھا کسی کی آنکھیں مجھے دیکھ رہی ہوتی ہیں۔ ایک روز اچانک میری نظریں اُوپر اُٹھ گئیں تو بلاول کو اپنی جانب دیکھتے پایا۔ وہ میرا منگیتر تھا، سو مجھے حجاب محسوس ہوا، تاہم یک گونه خوشی بھی ہوئی۔ ہمارے خاندان میں لڑکی کے لئے منگیتر سے بات کرنا معیوب خیال کیا جاتا تھا۔ دونوں اگر بات کرتے بھی تو خاندان والوں سے چھپ کر۔ بزرگوں کو اس امر کا علم ہوتا تو وہ نہ صرف بُرا مناتے بلکہ اعتراض بھی اُٹھاتے۔ عید کے دن تھے۔ میں نے عید گفٹ میں پہل کی۔ ہم دونوں کی آپس میں ٹھیک ٹھاک انڈر اسٹینڈنگ ہو گئی تھی۔ اُس کے اصرار پر میں اُس سے دن میں ملنے لگی تھی۔ کبھی گلی میں اور کبھی دروازے پر، کبھی کالج سے واپسی پر راہ میں۔ اب تو صبح کالج جاتے ہوئے وہ گھر سے ذرا آگے میرے انتظار میں کھڑا ہوتا تھا اور کالج تک ساتھ جاتا، ہم راستے میں باتیں کرتے ، یوں ہماری ملاقاتوں کا سلسلہ چلتا گیا۔ میں چچا کے گھر دن میں ایک بار جاتی تھی۔ ان کی دونوں بھابھیوں سے اچھی بات چیت تھی۔ انہی دنوں چچی جان بیمار ہو گئیں تو دن میں کئی بار ان کے پاس جانے لگی۔ بیمار چچی کی خدمت کر کے مجھے سکون ملتا تھا۔ اللہ نے اُن کو مہلت نہ دی اور وہ وفات پا گئیں۔ چچی کی وفات کے بعد میں بلاول کا بہت خیال رکھنے لگی۔ وہ بہت دُکھی رہنے لگا تھا۔ بھابھیاں اُس کا خیال نہ رکھ پاتی تھیں، تبھی وہ مجھ سے اور زیادہ مانوس ہو گیا، جیسے مجھ سے باتیں کر کے اُس کا غم غلط ہوتا ہو۔ اب وہ اصرار کرنے لگا کہ میں اپنی بھابی اور بہنوں کو تمہارے گھر بھیجنا چاہتا ہوں اور میں جواب دیتی کہ ابھی کچھ دن ٹھہرو، رشتہ تو پہلے سے طے ہے۔ ہے۔ ابھی تم برسر روزگار نہیں ہو۔ میں نے امی کو یہ کہتے سنا ہے کہ جب تک بلاول برسر روزگار نہیں ہو گا میں اُس کو شادی کی تاریخ نہیں دوں گی۔ سردیوں کا موسم شروع ہو چکا تھا اور چھت پر ہماری ملاقاتوں کا سلسلہ جاری تھا۔ ہم ملاقات اُس وقت کرتے تھے جب دونوں گھروں کے صحن کی لائٹس بند ہو جاتی تھیں۔ اس کے بعد ہم چھت پر آجاتے۔ مکان تو ایک تھا، صرف ایک دیوار بیچ میں تھی لہٰذا چھتیں بھی جڑی ہوئی تھیں۔ ہماری ملاقاتیں پاکیزہ ماحول میں ہوتی تھیں کیونکہ میں اس کی امانت تھی، ہم صرف باتیں کرتے تھے۔ میں اس کی ملازمت کے لئے دن رات دُعائیں مانگا کرتی۔ جلد ہی اللہ نے میری دعائیں سن لیں اور وہ بر سر روز گار ہو گیا۔ امی بہت خوش تھیں انہوں نے مٹھائی بانٹی اور کہا۔ شکر ہے۔اب میں رافعہ کی رخصتی ، جلد کر دوں گی۔
اُس دن میں بھی بہت خوش تھی اور رات ہونے کا بہت بے چینی سے انتظار کر رہی تھی کہ جلد رات ہو، صحن کی لائٹس آف ہوں اور ہم چھت پر ملاقات کرنے جائیں۔ میں نے آج خاص طور پر مٹھائی رکھی تھی کہ بلاول کو کھلائوں گی، اس کی ملازمت کی خوشی میں ، لیکن وہ رات ہم دونوں کے لئے آخری ملاقات تھی۔ اُن کی نانی صاحبہ تھوڑی سی سنکی تھیں، انہوں نے ہم کو باتیں کرتے دیکھ لیا اور جا کر میرے والد اور چچا کو بتادیا۔ ابھی ہم دونوں نے صرف اپنا حال احوال ہی کیا تھا کہ میرے والد صاحب دبے پائوں اوپر آگئے۔ بلاول کے منہ سے بس یہ الفاظ ادا ہوئے کہ تایا آگئے ، اور فوراً اپنے زینے کی طرف چلا گیا۔ میرا دل دھک دھک کرنے لگا کہ اب میری خیر نہیں۔ والد صاحب سر پر آچکے تھے۔ مجھے لگا وہ مجھے بالوں سے پکڑ لیں گے۔ میں بہت زیادہ ڈر گئی تھی۔ پسینے سے میرا برا حال تھا۔ والد صاحب کا چہرہ غصے سے سرخ تھا، انہوں نے مجھے مارا نہیں، بس اسی قدر کہا۔ نیچے آئو ، آئندہ میں تم کو چھت پر نہ دیکھوں۔ اس کے بعد میں ایک ماہ تک چھت پر نہ گئی۔ والد صاحب نے چچا سے بلاول کی شکایت بھی کر دی تھی کہ یہ میری لڑکی سے ملاقاتیں کرتا ہے۔ بہتر ہے تم رافعہ کی رخصتی لے لو۔ چاچا جان غصے کے بہت تیز تھے۔ وہ ابا جان سے کہیں زیادہ جلد باز واقع ہوئے تھے۔ انہوں نے جا کر بلاول کے منہ پر تھپڑ رسید کر دیا کہ شادی سے پہلے اپنی منگیتر کو خراب کرنا چاہتا ہے۔ یہ سب کچھ انہوں نے اپنی بہوئوں کے سامنے کہا، جس پر بلاول نے اتنی زیادہ بے عزتی محسوس کی کہ خواب آور گولیاں کھا لیں۔ جب صبح دس بجے تک اُسے ہوش نہ آیا تو ڈاکٹر کو بلایا گیا۔ ڈاکٹر نے فوراً کہا کہ اسے فوراً اسپتال لے چلو۔ مریض کی جان خطرے میں ہے۔ اسپتال میں طبی امداد دی گئی، جو علاج معالجہ ہونا تھا کیا گیا اور بلاول کی جان بچانے کی پوری کوشش کی گئی۔ اس کی حالت ٹھیک ہونے میں عرصہ لگا مگر نقصان یہ ہوا کہ اس کی نئی نئی ملازمت لگی تھی۔ جب واقعہ کی اطلاع اس کے دفتر پہنچی کہ بلاول نے خود کشی کی کوشش کی ہے تو اس کا آفیسر بد ظن ہو گیا۔ اُس نے کہا کہ اس لڑکے کا دماغی توازن نارمل نہیں ہے، تبھی اُس نے ایسا قدم اٹھایا ہے۔ یہ شخص ہمارے ہاں ملازمت کے لائق نہیں ہے۔ بس بلاول کی ملازمت فوری طور پر ختم کر دی گئی۔ یہ صدمہ اس کے لئے ہی نہیں، میرے لئے بھی پریشانی کا باعث تھا، کیونکہ میری والدہ کی تو شرط ہی یہی تھی کہ جب تک بلاول کی ۔ بلاول کی ملازمت پکی نہ ہوگی میں بیٹی کی رخصتی نہیں دوں گی۔ گویا اب ہماری شادی کا معاملہ بلاول کی دوبارہ ملازمت تک کھٹائی میں پڑ گیا تھا۔
حالات کچھ اس انداز سے بدلے کہ نزدیکیاں دوری میں بدل گئیں اور ہم میں لمبی جدائی ہو گئی۔ اب اُس کی آنکھیں دروازے پر لگی ہوتیں اور میں نہ جاتی۔ میں نے چچا کے یہاں جانا بند کر دیا تھا۔ امی نے کہا کہ اگر تم نے وہاں جانے کا نام لیا تو میں تمہاری ٹانگیں توڑ دوں گی۔ ان دنوں امی کا رویہ یکایک تبدیل ہو گیا تھا۔ بلاول کی ملازمت جاتے ہی میری ماں کے دل سے بلاول کی محبت بھی رخصت ہو گئی، حالانکہ یہ سانحہ میری وجہ سے ہوا تھا اور ملازمت کا کیا تھا وہ تو کوشش سے پھر مل سکتی تھی۔ انہی دنوں امی کی بہن جن کا خاوند کافی عرصے سے ریاض میں کام کر رہا تھا، لاہور سے آئیں۔ انہوں نے امی سے ذکر کیا کہ تم اپنے بھانجے کے بارے سوچو۔ میں منیر کے لئے کسی اچھی لڑکی کی تلاش میں ہوں۔ میری یہ خالہ کافی امیر تھیں۔ ان دنوں منیر بھی سعودی عرب جانے والا تھا۔ اُس کا ویزہ خالو نے بھجوا دیا تھا لیکن خالہ چاہتی تھیں کہ پہلے اُس کی منگنی کر دیں، پھر وہ بیرون ملک جائے۔ امی نے خالہ سے کہا۔ اِدھر اُدھر لڑکی کیا دیکھ رہی ہو ، لڑکی گھر میں ہے ، اپنی رافعہ میں کیا کمی ہے۔ لیکن اس کی تو منگنی تمہارے دیور کے بیٹے سے بچپن میں ہو گئی تھی؟ وہ پرانی باتیں ہیں ، ان کو چھوڑو۔ اب نیا زمانہ ہے اور نئی ریت روایات بن چکی ہیں، منگنیاں ٹوٹ بھی جاتی ہیں۔ جب میں نے خالہ اور ماں کی باتیں سنیں تو میرا دل دھک سے ہو گیا، لیکن میری حیثیت کیا تھی۔ میں تو حکم کی غلام تھی اور حکم چلتا تھا ماں باپ کا۔ میں جس قدر باپ سے ڈرتی تھی اس سے بھی زیادہ اپنی امی سے ڈرتی تھی۔ خالہ اور امی کی ملی بھگت نے میرے والد صاحب کو بھی ترنت ایک شکنجے میں جکڑ لیا۔ خالہ نے منگنی میں بھی سونے کا بھاری بھر کم سیٹ دکھایا تو امی کی آنکھیں کھلی رہ گئیں۔ خالو سعودی عرب میں انجینئر تھے اور بیٹے کو بھی ساتھ کام پر لگوا رہے تھے۔ اتنا روپیہ کہ سنبھالے نہیں سنبھل رہا تھا اور جس کے پاس دولت ہو وہ چھپتی نہیں۔ ابو کی آشیر باد ملتے ہی امی اور خالہ نے چپ چپاتے میری منگنی خالہ زاد منیر سے کر دی اور اس بات کی دیوار سے ادھر ، ہوا تک لگنے نہیں دی۔ بس چار قیمتی جوڑے ، بھاری سونے کا زیور اور ایک انگوٹھی، خالہ ہمارے سپرد کر گئیں۔ منگنی کی مٹھائی بھی صرف گھر والوں نے ہی چکھی ، مبادا چاچا والوں کو اس بات کا پتا چل جائے اور واویلا ہو۔ مجھے امی نے سختی سے منع کر دیا کہ خبردار جو اس بات کا کسی سے ذکر کیا۔ ہر گز اس خبر کو گھر سے باہر نہیں نکلنا چاہئے اور نہ ہی تمہارے رویئے سے کچھ ظاہر ہو۔ بس ہنستی رہا کرو اور بلاول سے بات کرنے یا اُس کے سامنے آنے کی بھی کوشش کی تو جان سے مار دوں گی۔
بلاول چھت پر آکر ہمارے صحن میں جھانکتا۔ میں صحن میں کام کر رہی ہوتی ، مجھے پتا چل جاتا کہ وہ اوپر ہے ، لیکن جان بوجھ کر اسے نظر انداز کرتی۔ اُس کی جانب دیکھتی تک نہ تھی امی کے ڈر سے بلکہ گھر والوں سے مسکرا مسکرا کر باتیں کرنے لگتی، جیسے مجھے اُس کی جدائی کا کوئی غم نہیں۔ اس پر بھی بلاول نے مجھے کئی بار بلانے کی کوشش کی۔ مگر میں نے کمال بے رخی کا مظاہرہ کیا، جس کا مجھے بعد میں افسوس بھی ہوتا۔ ایک روز بلاول کچن میں چائے بنا رہا تھا کہ آگ لگ گئی۔ وہ کافی جھلس گیا اور دو ماہ اسپتال میں داخل رہا۔ وہ ہر روز اپنی بھابھی اور بہن سے پوچھتا کہ رافعہ مجھے دیکھنے کیوں نہیں آئی؟ کیا ہوا ہے اُسے ، اس حال میں بھی وہ میری عیادت کرنے نہیں آسکی۔ اب اس کو کون بتاتا کہ رافعہ کی تو منگنی ہو چکی ہے۔ جس لڑکی کو وہ اپنا سمجھ رہا ہے وہ پرائی ہو گئی ہے۔ جب میں نے اُس کے جلنے کا سنا تو دل گھٹ سا گیا۔ جی چاہا اڑ کر اس کے پاس جا پہنچوں، لیکن میں مجبور تھی۔ کتنی مجبور، یہ لکھ نہیں سکتی۔ ہم لڑکیاں بھی کیا زندگی لے کر آتی ہیں ، دل کسی اور طرف ہوتا ہے اور زندگی کہیں اور بسر کر دیتی ہیں۔ ہمارے دُکھ، بھلا مرد کیا جانیں۔ دو ماہ اسپتال میں گزار کر جب وہ گھر واپس آیا تو سارے محلے والے اُس کو دیکھنے آئے لیکن وہ عیادت کو نہ پہنچی، جس کا اُس کو انتظار تھا۔ اُس کے دل میں پھر بھی میرے لئے نرم گوشہ تھا۔ وہ اب بھی دروازے کی طرف نظریں رکھتا تھا اور جب کچھ چلنے لائق ہوا تو چھت پر کرسی ڈال کر بیٹھ جاتا اور انتظار کرتا کہ میں اوپر نگاہ کروں ، لیکن میں اوپر نہ دیکھتی تھی۔ کیونکہ مجھے ڈر تھا اگر میں نے ایک بار بھی اوپر نگاہ اُٹھائی اور اُس کو دیکھ لیا تو پھر میں خود پر قابو نہ رکھ سکوں گی۔ دوڑ کر چھت پر چلی آئوں گی یا پھر اتنے زور سے رو پڑوں گی کہ میری آواز پر سارا سارا محلہ محله اکٹھا ہو کر آجائے گا۔ میں اوپر سے خاموش تھی لیکن دل میں ایک طوفان بند تھا۔ محبت کا دُکھ اپنی جگہ ، یہ دُکھ بھی کم نہ تھا کہ بلاول جو اتنا حسین تھا، اب اس کے ہاتھ پائوں جھلس کر بد نما ہو چکے تھے کہ دیکھنے سے جھرجھری آجاتی تھی۔ شکر ہے کہ اُس کا حسین چہرہ جھلسنے سے بچ گیا تھا مگر ہاتھ پیر دیکھنے لائق نہیں رہے رہے تھے۔ وہ ابھی کام کرنے کے قابل نہ تھا۔ ایسے میں اُس کو کسی ہمدرد اور غمگسار کی اشد ضرورت تھی۔ ایسی ہمدرد و غمگسار یا تو ماں ہو سکتی تھی یا میں اور وہ ہم دونوں کو کھو چکا تھا۔ اُس کی ماں کو آجل لے گئی تھی اور مجھے دولت کے سانپ نے ڈس لیا تھا۔ میں ایک قدم بھی اس کی طرف بڑھانے سے مجبور تھی۔ وہ سارا سارا دن دھوپ میں بیٹھارہتا، اس انتظار میں کہ میں صحن میں نظر آئوں گی اور وہ مجھے دیکھ پائے گا یا میں اُس کی جانب نظر بھر کر دیکھوں گی۔ وہ مجھے دیکھ سکتا تھا میں نہیں۔ جانتی تھی کہ اُس کے دل پر کیا گزرتی ہے، تاہم ایک دن اُس نے اپنے جلے ہوئے ہاتھ سے کنکر اُٹھا کر پھینکا اور ایک خط بھی اُس کنکر پر لپیٹ دیا۔ اُس نے مجھے چار دن کی مہلت دی تھی کہ اگر چار دن تک تم نے مجھے جواب نہیں دیا تو میں سمجھوں گا کہ تم مجھے بھلا چکی ہو۔
یہ چار دن جس طرح میں نے کاٹے، لیکن چوتھے دن مجھے اپنے آپ پر اتنا افسوس ہوا کہ شاید زندگی میں کبھی کسی بات پر نہ ہوا ہو گا۔ جب میری منگنی خالہ زاد سے ہو گئی تو مجھے ایک بات یاد آئی کہ اُس نے کہا تھا اگر تمہارے گھر والے منگنی توڑ دیں اور تمہاری منگنی کسی اور سے کر دیں تو تم کیا کرو گی ؟ تب میں نے جواب دیا تھا کہ میں کچھ کھالوں گی، لیکن میں نے کچھ بھی نہیں کھایا۔ کبھی کبھی اس کی باتیں یاد آتیں تو سوچتی تھی کہ کہاں کی قسمیں وعدے، مجھے بھی شاید دولت کی کشش نے پتھر بنا دیا تھا، ورنہ میں اس کی دلجوئی کے لئے دو بول تو کہہ سکتی تھی۔ کم از کم اس وقت جب وہ اس قدر جلنے کی تکلیف سے گزرا تھا۔ اس واقعہ کے چار ماہ بعد خالہ آئیں اور شادی کی تاریخ طے ہو گئی۔ تب ان لوگوں کو پتا چلا کہ امی ابو رافعہ کی شادی منیر سے کر رہے ہیں۔ چاچا والے تو حیران رہ گئے۔ وہ تو سمجھ رہے تھے کہ میں ابھی تک بلاول کی منگیتر ہوں۔ جب چچا نے والد صاحب سے کہا تو وہ کہنے لگے۔ ٹھیک ہے تم میرے بھائی ہو اور بلاول میرا بھتیجا ہے۔ مجھے تو دونوں پیارے ہو اور لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔ تم خود سوچو کہ اولاد اور اس کا مستقبل سب رشتوں سے زیادہ پیارا ہوتا ہے کہ نہیں؟ تمہارا بیٹا جلنے کے بعد معذور ہو چکا ہے۔ شاید وہ اب اپنے ہاتھ پیروں سے پہلے جیسا کام نہ کر سکے ، تب میری بیٹی کیا کرے گی۔ کیا وہ عمر بھر مجھے بد دعائیں نہ دے گی ؟ چچا جان چُپ ہو گئے۔ انہیں لگا میرا بھائی ٹھیک کہہ رہا ہے۔ وہ دل مسوس کر رہ گئے اور بلاول کو یہ بات بتادی گئی۔ خدا جانے اُس پر کیا گزری، بہر حال اُس نے آخری خط مجھے اپنی کزن کے ہاتھ بھیجا، جس میں لکھا تھا کہ تم میرے خط مجھے دے دو اور اپنے خط مجھ سے لے لو ، لیکن میں نے خط لینے سے انکار کر دیا۔ اب مجھے نہیں پتا میں نے ایسا کیوں کیا۔ اُس کا دل تو صاف تھا۔ اگر اس کے دل میں ذرہ برابر بھی میل ہوتا تو وہ میرے خط کسی اور کو دکھا سکتا تھا مگر اُس نے ایسا نہیں کیا۔ اور میں شادی ہو کر سسرال آگئی۔ عورت کہتی ہے کہ اس کی پہلی محبت آخری ہوتی ہے لیکن میں یہ بات نہیں مانتی۔ عورت موسموں اور رنگوں کے ساتھ خود کو بدل لیتی ہے۔ آج میرا دل محبت سے منہ موڑ چکا ہے۔ مجھے اپنے خاوند منیر سے ہی سچ مچ کی محبت ہوئی ہے اور میں سمجھتی ہوں کہ شاید اتنی خوشی اور سکھ مجھے بلاول کبھی نہیں دے سکتا تھا جس قدر اچھی زندگی اور سکھ سکون مجھے میرے خاوند نے دیا ہے۔