مناہل اپنے بھائی مجیب سے سات برس بڑی تھی۔ یوں بھی لڑکیاں جوہی کی بیل کی مانند بڑھتی ہیں۔ مجیب ابھی سات برس کا ہی تھا کہ اس کی بہن چودہ برس کی دوشیزہ بن گئی۔ ان کا چچازاد بھائی عامر، مناہل سے چار سال بڑا تھا۔ وہ مجیب سے تو بری طرح پیش آتا اور اس کو نوکروں کا درجہ دیتا، جبکہ مناہل سے بہت کھل مل کر رہتا تھا اور اس پر التفات کی نظر رکھتا تھا۔ مناہل اس کی چاپلوسی کو محبت پر محمول کرتی، بھلا جس گھر میں کوئی ایک فرد بھی اس سے محبت کرنے والا نہ تھا وہاں عامر کی محبت ایک نعمت ہی تو تھی۔ وہ اس توجہ میں پناہ تلاش کرتی تھی۔
مجیب معصوم تھا، کچھ نہ سمجھتا تھا۔ ایک روز جب گھر میں صرف یہی دونوں بہن بھائی تھے، سب گھر والے سیر کو گئے ہوئے تھے، اچانک عامر گھر آگیا۔ مناہل بستر میں لیٹی کتاب پڑھ رہی تھی اور مجیب برابر کے کمرے میں کاغذ کے ٹکڑوں سے کوئی کھلونا بنا رہا تھا ۔ عامر، مناہل کے پاس گیا۔ وہ دیر تک باتیں کرتے رہے جس کو مجیب نہیں سن پایا، نہ ہی ان کی باتوں پر توجہ دی۔ وہ بدستور کاغذوں کو گتے پر چپکانے میں محو رہا۔ اچانک مناہل کی چیخ و پکار اور سسکیاں اس کے کانوں میں پڑیں تو وہ دوڑ کر دوسرے کمرے میں گیا ۔ وہاں اس نے جو منظر دیکھا وہ اس کے ذہن کو پارہ پارہ کر گیا۔ اس کی بہن ایک درندے کے ظلم کا شکار ہو رہی تھی ۔ جب اس نے مجیب کو جھانکتے ہوئے پایا۔ تو کسی جانور کی طرح اس پر غرایا اور اس کو دھکیل کر کمرے میں بند کر دیا۔ وہ خوف سے فرش پر گر پڑا اور اس کی زبان گنگ ہو کر رہ گئی۔ ذرا دیر بعد عام گھر سے باہر چلا گیا تو دونوں بہن بھائی گلے لگ کر خوب روئے۔ مناہل نے اس کو سمجھایا کہ یہ بات کسی سے نہ کہنا، ورنہ چچا چی ہم دونوں کو مار مار کر گھر سے نکال دیں گے۔ ہمارے ماں باپ تو مر چکے، ہم کہاں جائیں گے۔ ہم تو یتیم ہیں اور یتیموں کو کوئی اپنے گھر میں نہیں رکھتا۔ چاچی نے ہم کو ترس کھا کر رکھا ہوا ہے۔ بہن کی باتوں سے مجیب کے دماغ میں دھواں بھر گیا پھر یہ دھواں ہر دم اس کو پریشان رکھنے لگا۔ اس کے بعد کئی بار اس نے یہ ظلم دیکھا۔ جب بھی گھر والے کہیں باہر جاتے، عامر امتحان کی تیاری اور پڑھائی کا بہانہ کر کے گھر میں رک جاتا اور اس کی بہن کے ساتھ وہی ظلم دوہراتا۔ بہن کی سسکیاں اس کے کانوں میں برچھیوں کی طرح لگتیں اور دماغ میں دھواں بارود کے گولوں کی طرح پھٹنے لگتا۔ وہ خوف سے تھرتھر کانپتا، کبھی نیم جان ہو کر اپنے کمرے میں بستر پر گر جاتا۔ مناہل اور عامر بظاہر نارمل رہتے تھے بلکہ اب تو اس کی بہن کا التفات بھی اپنے کزن کی طرف زیادہ ہو گیا تھا۔ مجیب کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی تھی کہ آخر کیوں اس کی بہن اس گھناؤنے ظلم کے باوجود عامر سے نفرت نہیں کرتی۔ اس کا رویہ، عامر سے محبت بھرا کیوں ہو گیا ہے۔ دراصل، عامر نے مناہل سے شادی کا وعدہ کر کے اس کا دل اپنی مٹھی میں کر لیا تھا۔
وقت گزرتا رہا۔ جانے پھر کیا ہوا کہ اس کی بہن بیمار رہنے لگی۔ گھر والے پریشان تھے۔ عامر کو برا بھلا کہا گیا، پھرچچا نے اس کو دبنی اپنے ایک دوست کے پاس بھیجوا دیا۔ مناہل کا الٹا سیدھا علاج ہونے لگا۔ چچی تو اس پر تھوکتی تھیں۔ تبھی وہ مختلف قسم کی دوائیں کھانے کے باعث سخت بیمار پڑ گئی اور بالآخر اس نے جان دے دی۔ گھر والوں نے اس کو خاموشی سے دفنا دیا۔ اس حادثے کو دس سال گزر گئے۔ اب ساری باتیں مجیب کی سمجھ میں آگئیں کیا کیونکہ وہ اب چھوٹا نہیں رہا تھا۔ پہلے اس کے دماغ میں بھرا دھواں اسے پریشان کرتا تھا، مگر اب دل میں بھی آگ لگی رہتی تھی، جو اس کے تن من کے ساتھ روح کو بھی جلاتی تھی۔ وہ اب صرف دو باتیں سوچتا تھا۔ خوب پڑھوں لکھوں پھر کسی طرح دوبئی جاؤں، جہاں عامر گیا اور وہاں کا ہو رہا تھا۔ انتقام کا سانپ اس کے اندر پلتا رہا۔ اس کے چچا کی بیٹی شہنیلا، جو اس کی ہم عمر تھی، اب سترہ برس کی تھی، مجیب نے اس سے پیار کا رشتہ قائم کر لیا۔ وہ بھی اس کی دیوانی تھی۔ جب کوئی شدید جذبہ انسان کو ہر لمحہ بے چین رکھتا ہو، تو وہ زور زبردستی اپنا مقصد پالیتا ہے۔ مجیب نے بھی اتنی محنت سے پڑھائی کی کہ صوبے بھر میں اول نمبر پر رہا، یوں اسے بیرون ملک کا اسکالر شپ ملا اور وہ امریکہ پڑھنے چلا گیا۔ اس کے چچا چچی بھی خوش تھے کہ چلو اپنے گھر کا لڑکا اتنا لائق فائق نکلا ہے، ہمیں اپنی بیٹی کے لئے باہر رشتہ تلاش کرنے کی ضرورت نہ پڑے گی۔ سب خوش تھے مگر شہنیلا اس کی جدائی کا سوچ کر اداس تھی۔ ماں بھی اس کے اداس رہنے سے سمجھ گئی کہ اسے مجیب کی جدائی شاق گزر رہی ہے۔
پھر وہ دن بھی آگیا جب مجیب کو امریکہ روانہ ہونا تھا۔ روانگی سے ایک شب قبل اس نے شہنیلا سے کہا کہ رات جب سب سو جائیں تو تھوڑی دیر کے لئے میرے کمرے میں آجانا۔ ہم کچھ دیر باتیں کریں گے، پھر نجانے کب ہماری ملاقات ہو۔ محبت کی ماری نے اس کی یہ فرمائش گرہ میں باندھ لی اور رات بارہ بجے کے بعد اس کے کمرے میں چلی گئی۔ انہوں نے کچھ دیر باتیں کیں، وہ رو رہی تھی اور مجیب اس کے آنسو پونچھ رہا تھا، اسے سمجھا رہا تھا کہ میں واپس آکر تم کو دلہن بنالوں گا۔ صبح ہونے سے کچھ دیر پہلے مجیب کو ایئر پورٹ پہنچنا تھا، لہذا شہنیلا اپنے کمرے میں چلی گئی۔ مجیب چلا گیا۔ شہنیلا نہ صرف اسے فون کرتی بلکہ خطوط بھی لکھتی تھی۔ وہ اس کے سارے خطوط جمع رکھتا جاتا تھا۔ جب اس کی تعلیم مکمل ہو گئی تو اس نے امریکہ میں ہی اپنی ایک کلاس فیلو سے شادی کر لی اور شہنیلا اس کے انتظار میں گھڑیاں گنتی رہ گئی۔ چار سال بعد وہ اپنی بیوی کے ساتھ وطن آیا۔ اس کے ساتھ ایک گوری کو دیکھ کر شہنیلا کو ایسا صدمہ ہوا کہ وہ بے ہوش ہو گئی۔ یہ اچانک سرپرائز تھا جو اس نے دیا تھا۔ چچا چچی بھی انگشت بداں تھے لیکن کیا کر سکتے تھے۔ مجیب خود مختار تھا، وہ اسے ڈانٹ پھٹکار بھی نہ سکے۔ اس کے بعد شہنیلا کی ذہنی حالت نہ سنبھلی۔ ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ اس کی شادی کر دیں۔ نئی زندگی کی خوشی ملے گی تو شاید بہتری ہو جائے۔ ماں باپ نے اس کی شادی کا اہتمام کیا۔ ایک جگہ رشتہ طے ہوا، مگر وہ نہ مانی۔ جب کوئی اس کے سامنے شادی کا نام لیتا اسے پھر سے دورہ پڑ جاتا، پھر دوبئی سے عامر آگیا۔ اس نے جب ، بہن کی یہ حالت دیکھی تو وہ بہت دکھی ہوا، مگر شہنیلا کے غم کا علاج کسی کے پاس نہ تھا۔ ماں نے اسے بتایا کہ تمہاری بہن، مجیب سے محبت کرنے لگی تھی اور اس سے شادی کے انتظار میں دن گزار رہی تھی۔ اس نے شہنیلا کو دھوکا دیا۔ اس سے شادی کا وعدہ کر کے گیا۔ ہم سے بھی طے کیا تھا کہ واپس آکر آپ کی امنگوں پر پورا اتروں گا مگر جب واپس آیا تو امریکن بیوی کا تحفہ ساتھ لے کر آیا۔ شہنیلا اس صدمہ کو سہ نہ سکی اور شدید ڈپریشن میں چلی گئی۔ مجیب نے بڑی زیادتی یہ کی کہ امریکہ سے شہنیلا کو فون کرتا تھا اور محبت بھرے خطوط بھی لکھتا تھا۔ اس طرح اس نے شہنیلا کی اس بندھائے رکھی اور اسے دھوکا دیتا رہا۔ یہ سن کر عامر آپے سے باہر ہو گیا۔ وہ مجیب پر پھنکارا کہ تم نے ایسا کیوں کیا ؟ اگر میری بہن سے شادی نہ کرنی تھی تو کیوں اس سے جھوٹے وعدے کئے اور جھوٹی آس امید میں رکھا ۔ اس پر مجیب نے شہنیلا کی طرف سے لکھے گئے محبت بھرے خطوط اس کو دے کر کہا کہ ان کو پڑھ لو۔ محبت میں نہیں کر رہا تھا، تمہاری بہن کر رہی تھی۔ میں تو صرف اس کا دل رکھنے کو جواب دے دیا کرتا تھا۔ اتنی دور سے اور کیا کر سکتا تھا تم مگر اپنا وہ سلوک یاد کرو، جو تم نے میری معصوم بہن کے ساتھ کیا تھا۔ جس کی وجہ سے اس کی جان چلی گئی۔ اس وقت بے شک میں بچہ تھا، ناتواں تھا، تمہارا کچھ بگاڑ نہیں سکتا تھا مگر قدرت طاقت ور ہے۔ جب کوئی کمزورا اپنا بدلہ خود نہیں لیتا تو قدرت خود ظالم سے بدلہ لے لیتی ہے۔ وہ بولا ۔ اگر میں مجرم تھا تو اے ظالم ! بدلہ تم نے مجھ سے لینا تھا۔ بھلا میری معصوم بہن نے تیرا کیا بگاڑا تھا ؟ یہی سوال تو میں تم سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اے ظالم ! میری معصوم بہن نے تیرا کیا بگاڑا تھا، جو تم نے اس کو برباد کر دیا۔ ہم لوگ تمہارے رحم و کرم پر تھے اور یتیم تھے۔ تو کیا یتیموں کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا ہے؟ جو تم نے اور تمہارے ماں باپ نے کیا۔ انہوں نے بھی مناہل پر رحم نہ کھایا اور اس کو موت کے ہاتھوں میں بخش دیا۔ عامر نے مجیب کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں مگر یہ محض دھمکیاں تھیں ۔ وہ اس کا کچھ نہ بگاڑ سکا اور مجیب اپنی بیوی کے ہمراہ واپس امریکہ چلا گیا۔
اس واقعے کو بہت دن گزر گئے ۔ رفتہ رفتہ علاج معالجہ سے شہنیلا بہتر ہونے لگی۔ سب گھر والوں نے سیر و تفریح سے اسے خوش رکھ کر کسی طرح اس کو سنبھال لیا اور بالآخر شادی پر بھی آمادہ کر لیا ۔ یوں اس کی شادی اپنے والد کے دوست کے بیٹے حبیب سے ہوگئی جو اس کو بیاہ کر امریکہ لے گیا ۔ وہ اب مجیب کو یاد بھی نہ کرنا چاہتی تھی، مگر ہمہ وقت ایک کسک اس کے دل میں رہتی تھی ۔ اب وہ دو بچوں کی ماں بن گئی تھی۔ اتفاق سے ایک دن جب وہ اپنے بچوں کے کپڑے خریدنے ایک مال میں داخل ہوئی تو اس کی ملاقات مجیب سے ہو گئی۔ مجیب اس سے آنکھیں بچا کر نکلنے لگا لیکن شہنیلا نے اس کا دامن پکڑ لیا۔ بولی۔ ذرا ٹھہرو۔ دل میں ایک کسک رہتی ہے جو ہر وقت مجھے تکلیف دیتی رہتی ہے۔ میری بات سن لو، شاید میرے دل کی کسک مٹ جائے ۔ مجیب کو ٹھہرنا پڑا اور دونوں کیفے میں جابیٹھے۔ شہنیلا نے کہا۔ گھاؤ کتنے بھی گہرے ہوں ، آخر کار وقت کا مرہم ان کو بھر دیتا ہے لیکن کسک باقی رہتی ہے۔ مجھے تم سے ایک سوال کا جواب لینا ہے۔ تم نے آخر میرے ساتھ ایسا کیوں کیا کہ میں مرتے مرتے بچی۔ وہ بولا ۔ تم صدمے سے مرتے مرتے پھر بھی بچ گئیں لیکن میری بہن تو مر ہی گئی۔ جانتی ہو اس کا قاتل کون ہے؟ تمہارا بھائی عامر اور تمہارے ماں باپ ، جنہوں نے اس کی شادی بیٹے سے کر دینے کی بجائے اسے باہر بھگا دیا اور مناہل کو موت کے منہ میں دھکیل دیا۔ بے شک اس وقت میں بچہ تھا مگر اس ظلم کا عینی گواہ بھی میں تھا۔ میں اس ظلم کو آج تک نہیں بھلا سکا۔ میری بے وفائی تمہارے بھائی کی سنگدلی اور تمہارے والدین کے ظلم سے زیادہ نہیں ہے۔ تو تم نے اس بات کا مجھ سے بدلہ لیا ہے؟ نہیں۔ میں نے جو بدلہ لینا تھا، وہ اس حد تک تھا کہ میں بجائے منفی ہو جانے کے اپنی توانائیاں علم کے حصول میں صرف کر دوں اور اعلیٰ مقام پالوں، وہ مقصد میں نے پالیا۔ جب پڑھ لکھ لیا تو بدلے کی آگ سرد ہوگئی مگر میرا دل نہ چاہتا تھا کہ ان ظالم لوگوں کی بیٹی سے شادی کروں ، جنہوں نے میری بہن کو سترہ برس کی عمر میں موت کے حوالے کر دیا۔ مگر میں تو کسی کی مجرم نہ تھی، پھر سزا مجھے کیوں دی؟ مجھے اس سوال کا جواب چاہئے۔ یقین مانو ، میں نے انتقام نہیں لیا۔ بس میرے حالات ایسے ہی بنتے گئے۔ ے اب زیادہ کیا کہوں، اگر تم دکھی ہو تو میں بھی دکھی ہوں، چین تو مجھے بھی نہیں ملا ہے اور شاید عمر بھر ملے گا بھی نہیں ۔ یہ کسک یونہی ہمارے دل میں رہے گی۔