امیر گھرانے تو بہت سے ہوتے ہیں لیکن کچھ مشرقی قدروں کو عزیز رکھتے ہیں اور کچھ ایسی سوسائٹی میں ضم ہو جاتے ہیں، جہاں لڑکیوں کو بے لگام آزادی ہوتی ہے اور بوائے فرینڈز رکھنے اور گھر پر مدعو کرنے کی بھی اجازت ہوتی ہے۔ میں اسی اعلیٰ سوسائٹی کا حصہ تھی۔ میری فطرت بھی ایسی تھی کہ اپنی ذات میں گم رہتی تھی۔ میں خوب حسین تھی، شاید اسی لئے حسن پرست تھی۔ کسی کو خاطر میں نہیں لاتی تھی، بس تخیل کی دنیا میں گم اور حقیقت سے دور بھاگتی تھی۔ مجھے بدصورتی اور بدصورت لوگوں سے نفرت تھی، پھر یہ نفرت ایک نفسیاتی بیماری کی شکل اختیار کر گئی۔ میری خواہش ہوتی کہ کوئی بد نما شکل یا بری ہیئت کی شے نظر نہ آئے، جس سے میری آنکھوں اور دماغ پر بوجھ پڑے۔ کوئی کم مشکل انسان دیکھ لیتی تو منہ پھیر لیتی۔ مجھے اپنے سراپا پر بھی ناز تھا۔ آئین دیکھتی، تو سوچتی کہ شکر ہے، خدا نے مجھے اتنا حسین بنایا ہے ، ورنہ میں اپنا چہرہ کیسے برداشت کرتی۔ خاندان بھر میں میری خوبصورتی کے چرچے تھے۔ ہر کوئی کہتا، حسن ہو تو روپا جیسا۔ نام تو میرا یاسمین تھا، مگر ممی پیارے روپا کہتی تھیں۔ ان کی تعریفوں نے مجھے مغرور بنا دیا تھا۔ کوئی میری نگاہوں میں جچتا ہی نہ تھا۔ کالج میں دوستوں کے ہمراہ لڑکوں پر فقرے کسنا، ان کا مذاق اڑانا میرا محبوب مشغلہ تھا۔ کم شکل لڑکیوں کی کمزوری کو اشاروں کنایوں میں بیان کرنا اور اونچے اونچے قہقہے لگانا، یہی سب کچھ تو کالج میں مزہ دیتا تھا۔ آتے جاتے ہر صورت کو بغور دیکھنا میری عادت تھی۔ جس میں ذرا بھی نقص نظر آتا، فورا نگاہیں پھیر لیتی۔
جیون ساتھی کے انتخاب کا مرحلہ آیا تو ممی ڈیڈی نے میری مرضی کو اہمیت دی۔ جب کوئی رشتہ آتا، تو وہ میری مرضی پوچھتے۔ بڑے بڑے امیر گھرانوں سے رشتے آئے، مگر میں ہر رشتہ ٹھکرانے لگی۔ کوئی لڑکا موٹا ہوتا تو کوئی سانولا، کسی کی ناک نقش نہ بھاتا تو کسی کا ہیئر اسٹائل پسند نہ آتا۔ کسی کی ناک چپٹی تو کسی کی آنکھیں چھوٹی، عرض ہر رشتے میں عیب تلاش کر لیتی۔ میں نے اس سلسلے میں گھر والوں کو بہت پریشان رکھا۔ آخر کار سب اکتا گئے ۔ ممی ڈیڈی نے کہہ دیا کہ اگر تم کو کوئی لڑکا پسند ہے ، تو بتاؤ تا کہ ہم اس کے بارے میں معلومات کریں۔ ممی سمجھاتی بھی تھیں کہ روپا تم خوبصورتی اور بدصورتی کے چکر میں نےنہ پڑو۔ درمیانی صورت کے لوگ خوش شکلوں سے بہتر ہوتے ہیں۔ وہ نہ مغرور ہوتے ہیں اور نہ احساس کمتری کا شکار ، ان کے ساتھ زندگی اچھی گزرتی ہے۔ میں یہ تو آپ کے خیالات ہیں، مگر میری جمالیاتی حس صرف روپا کی خوبصورتی کو قبول کرتی ہے۔ ماں ، میری باتوں کو سن کر کہتیں۔ روپا مجھے خوف آتا ہے تیرے خیالات سے۔ اب تک جتنے رشتے آئے تھے ، وہ دولت مند گھرانوں کے سپوت تھے، مگر ایسی غیر معمولی تب و تاب مجھے نہ ملی، جس سے میرے تخیل کے جھرو کے جگمگاتے۔ انہی دنوں میرے ماموں زاد احسن ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے کر جرمنی سے آئے، تو ان کو دیکھ کر میں دنگ رہ گئی۔ لگا کہ یہی شخص میرے خوابوں میں بستا ہے، اس کی مجھے تلاش تھی۔ نہایت وجیہہ، اسمارٹ ، خوش پوش، خوش لباس، دراز قد فر فر انگریزی بولتے تھے۔ زندگی میں پہلی بار میں کسی سے متاثر ہوئی تھی۔ احسن کو آئے ہفتہ ہو چکا تھا ۔ اُن کے اعزاز میں ہمارے گھر میں ڈنر کا اہتمام کیا گیا۔ خاندان کے بھی افراد مدعو تھے۔ اس دوران میں نے محسوس کیا کہ وہ بھی مجھ میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ پارٹی کے دوران احسن کی امی آنٹی سدرہ ہر لڑکی کا بغور جائزہ لے رہی تھیں، تبھی میں نے ان کو کہتے سنا۔ احسن ! کیا تمہیں کوئی لڑکی پسند آئی ؟ ایسی بھی کیا جلدی ہے ممی ! کر لیں گے پسند۔ احسن نے مسکرا کر کہا تھا۔ بیٹے خاندان میں کئی لڑکیاں ہیں۔ تم جس کو پسند کرو گے، میں رشتہ مانگ لوں گی۔ ہمیں بھلا کون انکار کرے گا۔ روپا کو دیکھو، یہ بھی خوبصورت ہے۔ انہوں نے بیٹے کی توجہ میری جانب دلائی۔ احسن کے لبوں پر ایک معنی خیز مسکراہٹ تھی اور میرا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ خوشی کے مارے میرے وجود میں کپکی دوڑ گئی، جیسے میرے نام کوئی بڑی لاٹری نکلنے والی ہو۔ ذرا توقف کے بعد اُس نے کہا کہ ممی خوبصورت تو ہے، مگر خوبصورتی سب کچھ نہیں ہوتی۔ اس لڑکی میں وہ بات نہیں، جو میرے دل کو بھائے۔ ایسی کیا کمی ہے اس میں ؟ چہرے کے ساتھ دل بھی خوبصورت ہونا چاہئے ، اس کا دل خوبصورت نہیں۔ اتنی نخوت بھری ہے اس میں کہ انسان کو انسان نہیں سمجھتی بہت مغرور ہے یہ لڑکی اور میں ایسی لڑکی سے شادی نہیں کر سکتا۔ پھر کس سے کرو گے؟ ماں نے سوال کیا۔ بے شک معمولی شکل و صورت کی ہو، لیکن گریس فل ہو۔ معمولی لوگوں سے بھی گھل مل جائے ، انسان کا احترام کرنا جانتی ہو۔ روپا مجھے ایسی نہیں لگتی۔ احسن کو خبر نہ تھی کہ میں اس کے دائیں جانب کھڑی اس کی باتیں سن رہی ہوں۔ جب اس نے مڑ کر دیکھا، تو خاموش ہو گیا، تاہم اس کے الفاظ ایٹم بم کی طرح مجھے لگے۔ مجھے لگا جیسے بہت بلندیوں سے میں نیچے کسی گہری کھائی میں گرتی جارہی ہوں۔ شعور میں ایک فقرہ گونجتا سنائی دے رہا تھا۔ غرور کا سر نیچا۔ میں نے دونوں ہاتھوں سے چہرہ ڈھانپ لیا اور دوڑتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی۔ آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ سوچ رہی تھی میں نے کتنوں کا مذاق اڑایا، کتنوں کو ٹھکرایا اور آج مجھے بھی کسی نے ٹھکرا دیا۔ اب پتا چلا کہ ٹھکرائے جانے کا درد کیا ہوتا ہے۔ شاید اپنے پیار کرنے والے والدین کو ستانے کی سزا ملی تھی۔ تہیہ کر لیا کہ اب جو ماں باپ کہیں گے مان لوں گی۔ اس روز کے بعد چپ چپ سی رہنے لگی۔ ہنہنا مسکرانا بھول گئی۔ گریجویشن مکمل کر چکی تھی ، بور ہوتی تو گاڑی لے کر اکیلی لانگ ڈرائیو پر نکل جاتی۔ انہی دنوں جمشید کارشتہ آیا۔ مناسب شکل و صورت مگر گریس فل، کھاتے پیتے گھرانے سے تھا۔ یہ لوگ مشرقی طرز زندگی رکھتے تھے۔ میرے والدین کو جمشید پسند آیا، انہوں نے کہا۔ روپا اب ہماری بات مان لو۔ اس رشتے کو ٹھکرانا نہیں۔ یہ اچھا لڑکا ہے، تمہیں بہت خوش اور سکھی رکھے گا۔ سب سے بڑھ کر اس کے والدین سلجھے ہوئے ہیں۔ اس گھر میں تم کو عزت ملے گی۔ مزید مزاحمت کی ہمت نہ رہی تھی، میرا دل ٹوٹ چکا تھا، لہذا اپنی زندگی کے فیصلے کا حق والدین کو دے دیا۔ یوں میری شادی والدین کی مرضی سے جمشید کے ساتھ ہو گئی اور میں تخیل کی دنیا سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں آئی۔ شروع میں میرے ذہن نے جمشید اور اس کے گھر والوں کو قبول نہ کیا، پھر رفته رفته ان سب کے پیار اور اچھی عادت نے میرے دل میں گھر کرنا شروع کر دیا۔ اب پتا چلا کہ اچھی سیرت کیا شے ہوتی ہے۔ اپنے حسن سلوک سے جمشید نے میرا دل جیت لیا تھا۔ میں اس کے دل پر ہی نہیں، گھر پر بھی کوئی ایک ملکہ بن کر راج کرنے لگی۔ ایک بات اور عجیب تھی۔ میں شروع سے ہی بچوں سے دور دور رہتی تھی۔ شادی کے بعد بھی میں جیٹھ اور نند وغیرہ کے بچوں سے الجھن محسوس کرتی۔ بچے آجاتے، ادھر اُدھر بھاگتے ، شور مچاتے تو مجھے برا لگتا۔ جب تک وہ چلے نہ جاتے، میں سخت مضطرب رہتی۔ خدا جانے کیوں یہ نو نہال مجھے اتنا ڈسٹرب کر دیتے کہ ٹینشن ہو جاتی تھی۔
شادی کے دو سال تک ماں بننا نصیب نہ ہوا، مگر میں خوش تھی۔ مجھے کوئی فکر نہ تھی، لیکن جمشید اور ان کی والدہ کو اب بچے کی شدید آرزو رہنے لگی تھی۔ ساس کہتیں۔ بیٹی کسی لیڈی ڈاکٹر سے مشورہ کرو۔ کوئی مسئلہ معلوم ہو تو علاج کروانا چاہئے۔ مجھے یہ بات بہت ناگوار گزرتی۔ میکے میں اپنی مرضی سے آزادانہ زندگی گزار رہی تھی۔ والدین کی طرف سے کوئی روک ٹوک نہ تھی۔ میرے والدین روک ٹوک کو بچوں کی ذہنی ترقی اور خوشی میں رکاوٹ خیال کرتے تھے۔ مجھے جمشید سے کوئی شکایت نہ تھی وہ بھی مجھ پر کوئی روک ٹوک نہ رکھتے تھے ، مگر میں خود ہی زیادہ تر گھر میں رہنا پسند کرتی تھی کہ اس گھر میں اللہ نے سکون کو رحمت بنا کر برسا رکھا تھا، تاہم مجھے جمشید سے اُس وقت الجھن ہوتی ، جب وہ کہتے کہ ہمارا پیارا سابچہ ہونا چاہئے، کہ ان کی والدہ کی چاہ تھی۔ جب وہ کہتے ، گڈا گڑیا کب لارہی ہو ؟ تو میں تنک کر جواب دیتی کہ مجھے یہ تمہاری دقیانوسی باتیں سخت ناپسند ہیں۔ یہ چھوٹے چھوٹے بچے گندگی کرتے ہوئے، مجھے ذرا پسند نہیں ہیں۔ رال ٹپکاتے، شور مچاتے ، جینا حرام کر دیتے ہیں۔ دیکھتے نہیں اپنی بہنوں کو ، بچوں کو سنبھالتے سنبھالتے کتنی ہلکان ہوئی پڑی ہیں ؟ وہ کہتے۔ بچے تو خدا کی رحمت ہوتے ہیں۔ سب ہی عورتوں کو اپنے بچے سنبھالنے پڑتے ہیں۔ مگر مجھے نہیں چاہت ابھی سے، کم زکم پانچ چھ سال میں یونہی آرام و سکون کی زندگی جینا چاہتی ہوں۔ جمشید میری باتیں سن کر بجھ جاتے ۔ کبھی کہتے۔ توبہ کرو، تم کیسی باتیں کرتی ہو۔ اولاد خدا کی نعمت ہوتی ہے ، لیکن میں تو اکلوتی تھی۔ چھوٹے بہن بھائی تھے نہیں اور نہ کبھی ننھے بچے کو گود میں اٹھایا تھا، مگر شادی کے تیسرے سال میں اس جھنجھٹ میں گرفتار ہو گئی۔ ایک دن چکر آیا، طبیعت خراب ہو گئی۔
جمشید مجھے ڈاکٹر کے پاس لے گئے ۔ ڈاکٹر نے خوش خبری سنادی کہ تمہاری بیگم ماں بننے والی ہے۔ یہ سن کر میں تو خوف زدہ ہو گئی، جب کہ جمشید اس خوش خبری پر خوشی سے جھوم اٹھے۔ انہوں نے سمجھایا کہ پہلے پہل ایسا ہوتا ہے، خوفزدہ عورت ہو جاتی ہے ، لیکن وہ اپنے بچے کی اپنے کی صورت دیکھتی ہے تو ممتا کا پیار اس کے وجود میں خود بخود بھر جاتا ہے۔ تم فکر نہ کرو، جب بچہ ہو گا تو تم اس کو نہیں پالنا۔ میری ماں اس کو سنبھال لیں گی۔ تم اسی طرح اپنی مرضی سے سونا اور جاگنا۔ پھر وہ دن بھی آ گیا، جب میں نے ایک ننھی منی بچی کو جنم دیا۔ نرس نے مجھے دکھایا، مجھ کو بچی خوبصورت نہ لگی، جیسے اپنی پھوپھی کی صورت ہو۔ نرس نے اسے میرے پہلو میں لٹانا چاہا تو میرے تاثرات دیکھ کر ساس بولیں۔ ابھی روپا کو آرام کرنے دو اور بچی کو مجھے دے دو۔ جس طرح انہوں نے پوتی کو بازوؤں میں بھرا، اس سے ان کی خوشی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ جمشید کی بہنیں تو اتنی خوش تھیں جیسے ان کو کوئی خوبصورت کھلونا مل گیا ہو۔ وہ ہر وقت انہی کے پاس رہتی۔ میں پہلے کی طرح آزاد تھی۔ اپنی مرضی سے ہوتی اور جاگتی۔ ساس بس اس وقت بچی کو میرے پاس لاتیں ، جب وہ بھوک سے روتی ، مگر میں نے ساس ے کہہ دیا کہ اس کو فیڈر لگا دیں۔ ستارہ اب تمام وقت اپنی دادی کے پاس رہتی میں کبھی کبھی اسے دیکھ لیتی۔ اس کی پوری ذمہ داری، مکمل طور پر انہوں نے اٹھا لی اور میرے روز و شب پر کوئی فرق نہ پڑا۔ ایک دن انہوں نے کہا۔ بیٹی ! بچی کو بخار ہے۔ تم اسے ڈاکٹر کے پاس لے جاؤ۔ آپ اور جمشید لے جائیں۔ میں نے جواب دیا۔ مجھے اپنی ایک دوست کی سالگرہ میں جانا ہے۔ میں بچی کو دیکھنے ساس کے کمرے میں گئی بھی نہیں۔ شام ہو رہی تھی۔ تیار ہو کر گاڑی نکالی اور اپنی سہیلی کی سالگرہ میں چلی گئی۔ انجوائے کرنے کے بعد جب واپس آئی تو پہلی بار جمشید میرے ساتھ ترشی سے پیش آئے۔ بولے۔ تم کیسی ماں ہو ؟ تمہیں اپنی بچی کا ذرا بھی خیال نہیں۔ مجھ کو جھٹکا لگا کہ کیا یہ وہی جمشید ہے، جس نے ہمیشہ مجھ سے پیار اور نرمی سے بات کی تھی۔ آج ایسا کیا ہو گیا ہے ؟ بخار ہی تو ہوا ہے بچوں کو بخار تو ہو جاتا ہے ، پھر وہ ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ میں نے یہ کہہ کر دروازہ بند کر لیا۔ طبیعت اتنی مکدر ہو گئی کہ نیند کی گولیاں کھانی پڑیں۔ گولی کھا کر میں سو گئی۔ جمشید نے بات ہی مجھ سے اس بری طرح کی تھی۔ خدا جانے وہ رات جمشید اور میری ساس نے کیسے گزاری۔ صبح جب دس بجے سو کر اٹھی تو جاگنے کی وجہ سے جمشید کی بری حالت تھی۔ مجھ سے درشت لہجے میں کہا۔ اگر نیند پوری کر لی ہے ، تو آکر بچی کو دیکھ لو۔ مجھے تو ان کے سخت لہجے کا غصہ تھا پھر بھی نہ سمجھی کہ بچی کی حالت زیادہ خراب ہے۔ میں تو اپنی جگہ اکڑی ہوئی تھی کہ میرے شوہر نے مجھے اس طرح کیوں کہا ہے ۔ ابھی میں منہ پھلائے کھڑی تھی کہ ساس آ گئیں۔ بولیں۔ روپا تم کتنی بد قسمت ہو۔ تمہاری بچی اپنی ماں کے پیارے محروم ہے۔
اولاد کی چاہ مجھے تو نہ تھی۔ آپ کو تھی، تو اب سنبھا لیے۔ مجھ سے کیا گلہ کرنے آئی ہیں۔ اس پر جمشید بولے۔ ستارہ تمہاری زندگی میں کانٹا ہے تو آؤ، اپنے ہاتھوں سے اس کا گلا گھونٹ دو تا کہ یہ کانٹا نکل جائے، تمہاری آرام دہ زندگی ہے۔ اتنے سخت الفاظ سننے کی تاب کہاں تھی مجھ میں، پھر بھی نہ سمجھی کہ میری بچی جان کنی کے عالم میں ہے۔ نجانے کس بات کا غرور تھا، جس نے مجھے اتنا سفاک بنا دیا تھا۔ مجھ کو ستارہ سے یوں بھی چڑ ہو گئی تھی کہ اس نے میرے اور جمشید کے بیچ بے زاری کی دیوار کھڑی کر دی تھی۔ میں رات کو پھر نیند کی گولی کھا کر سو گئی۔ آدھی رات کو مجھے جمشید نے جگایا۔ اٹھو ! دیکھو ، ستارہ کو کیا ہو گیا ہے ؟ میں آدھی گہری نیند سے جھنجھلا کر اٹھ بیٹھی۔ وہ آخری ہچکیاں لے رہی ہے ، تم ماں ہو یا پتھر ؟ وہ تمہیں آخری بار بلا رہی ہے، پھر بھی تم کو اس کی آواز سنائی نہیں دیتی ؟ یہ فقرہ سن کر میری نیند کا خمار اٹھ گیا۔ مجھے لگا جیسے کسی نے میر ادل مٹھی میں لے لیا ہو۔ دل نے سرگوشی کی کہ اے سنگدل ! ایک بار تو اس معصوم کو گود میں لے لے۔ تبھی ننگے پاؤں ساس کے کمرے کی طرف دوڑی اور ان کی گودے ستارہ کو اٹھا لیا۔ ستارہ، ستارہ ! میں نے اُسے پکارا مگر اس نے کوئی جواب نہ دیا کیونکہ وہ تو جارہی تھی۔ اس کا خالق اسے بلارہا تھتا۔ یوں لگا، جیسے اس کلی کو اس آخری کٹھن لمحے میں بس میری آغوش کی ضرورت تھی۔ اسے اور کچھ نہیں چاہئے تھا۔ سب کچھ تو اسے مل گیا تھا، تبھی اس اس نے میری بانہوں میں آخری ہچکی لی اور فضاؤں میں پرواز کر گئی، لیکن میرا سکون اپنے ساتھ لے گئی۔ اس کے بعد میرا دل ہر شے سے احسان رہنے لگا۔ وہ ہر وقت میری نظروں میں سمائی رہتی ہے۔ کبھی میرے کندھوں پر چڑھتی ہے، کبھی دوڑتی ہے اور میں اسے پکڑنے کو بھاگتی ہوں۔ اب وہ دور سے مجھے نظر آتی ہے۔ بانہیں پھیلاتی ہوں، تو غائب ہو جاتی ہے۔ میں کہتی ہوں ، میرے پاس آؤ، مگر وہ نہیں آتی۔ بس دور کھڑی مسکراتی رہتی ہے۔ کافی دن میر ا علاج ہوتا رہا کہ میں اسے بھول جاؤں مگر میں اسے کبھی نہیں بھول سکتی، جس نے مر کر مجھ خود عرض عورت کو ایک ماں کا دل بخش دیا ہے۔