Thursday, April 18, 2024

Dil Ki Lagi | دل کی لگی

گاؤں کی زندگی اگر سادہ ہے تو اس میں عزت اور شرافت کے ساتھ زندگی گزرنے کے اصول بھی بڑے سخت ہیں – جو کہانی میں آج آپ کو سنا رہی ہوں اس میں میرے بھائی کی کوئی غلطی نہ ہوتے ہوے بھی اسے اپنی جن بچا کر بھاگنا پڑا – ہمارے پڑوسی کی بیوی کا نام تو ثوبیہ تھا لیکن اس کو صوبی کہتے تھے۔ ماسی صوبی بڑی تند مزاج عورت تھی کسی سے خار کھا جاتی تو جھاڑ کے کانوں کی طرح پیچھے پڑ جاتی تھی ۔اس کی زبان گندی اور گز بھر لمبی تھی۔ غرض سارا گاؤں اس سے پناہ مانگتا تھا۔ حبیب میرا اکلوتا بھائی تھا، ان دنوں اس کی عمر اٹھارہ برس تھی۔ اس نے گاؤں کے اسکول سے آٹھ جماعتیں پاس کر لیں تو بے کار پھر نے لگا۔ والد صاحب نے امی سے کہا کہ سلیم کی پڑھائی کا سلسلہ تو ختم ہوا، اس کو سمجھاؤ کہ روز مرہ کے کاموں میں میرا ہاتھ بٹایا کرے، ان کا مطلب تھا کہ سلیم اپنے مال مویشی روزانہ چرانے لے جائے، جبکہ میرے بھائی کو یہ منظور نہ تھا۔ آٹھ جماعتیں پڑھ کر وہ خود کو جانے کیا سمجھنے لگا تھا کہ مال مویشی کو چرانے لے جانا اپنی تو بین گردانتا تھا۔ کچھ عرصہ والد صاحب اسے کھیتی باڑی کے کاموں کی طرف راغب کرتے رہے جب سلیم نے ایسے کسی کام میں دلچسپی نہ لی جس سے اس کے اجلے کپڑوں پرمٹی لگ جاۓ تو ابو نے ایک دوست سے کہ کر اسے پلمبری کا کام سیکھنے پرلگا دیا۔ سلیم چھ ماہ تک یہ کام سیکھنے شہر جاتا رہا۔ اس دوران اس کے استاد نے ابو سے کہا کہ اگر تم چاہوتو میں حبیب کو دبئی بھجوا سکتا ہوں، ذرا کام میں مہارت درکار ہوگی ۔ایک سال اسے میرے پاس رہنے دو۔ انشاءاللہ یہ بہت اچھا پلمبر بن جاۓ گا۔ سلیم چھ دن شہر میں اپنے استاد کے ڈیرے پر ہوتا۔ صرف جمعہ کی چھٹی کر کے وہ گاؤں آ جا تا تھا۔ اس روز بھی جمعہ تھا۔ ابو نماز پڑھنے مسجد چلے گئے۔ سلیم کو تلقین کی کہ تم جلد کپڑے وغیرہ تبدیل کر کے مسجد آجاؤ۔ سلیم نے نہا دھو کر اجلے کپڑے پہن لئے اور جمعہ کی نماز میں شامل ہونے کے لئے گھر سے نکل گیا۔ مسجد والے راستے میں ماسی صوبی کا مکان تھا۔ جونہی بھائی ادھر سے گز را ماسی کی بیٹی کو دیکھا۔ وہ اپنے گھر کے دروازے پر کھڑی جھانک رہی تھی۔ صبور کی عمر سولہ برس تھی اور وہ اچھی شکل و صورت کی دوشیزہ تھی۔ اس نے بھی گاؤں کے اسکول سے چار جماعتیں پڑھی تھیں، کبھی وہ سلیم کی ہم جماعت رہی تھی۔ دونوں ایک دوسرے کو جانتے تھے کہ بچپن ساتھ گزرا تھا۔ بچپن کی شناسائی کی وجہ سے وہ دوڑ کر میرے بھائی کی طرف آئی اور اس سے ہم کلام ہوگئی۔ پوچھنے گئی سلیم اب تم کیسے ہو اور کہاں ہوتے ہو۔ اس نے جواب دیا۔ میں جہاں بھی ہوتا ہوں ۔ تم سے کیا سروکار تم گھر کے اندر جاؤ۔ اگر تمہاری ماں یا کسی رشتے دار نے تم کو باتیں کرتے دیکھ لیا تو وہ برا منائیں گے۔ کیوں برا منائیں گے ۔ کیا ہم نے کسی کی چوری کی ہے؟ تم کو قسم ہے سچ بتاؤ کہ تم کہاں ہوتے ہو- میں شہر میں کام سیکھ رہا ہوں ۔ اس کے بعد کیا واپس گاؤں آ جاؤ گے۔ نہیں دبئی چلا جاؤں گا۔ دبئی گاؤں والوں کے لئے بڑے اعزاز کی علامت تھا۔ گاؤں سے اکثر بے روز گارلوگ دبئی یا پھر سعودی عر بیہ جاتے تھے۔ وہ وہاں محنت مزدوری کرتے لیکن جب لوٹتے ، اپنے گھر والوں کے لئے انواع و اقسام کے تحفے لاتے اور وہاں کی کمائی سے اپنے مالی حالات سدھارنے میں کامیاب ہوجاتے تھے۔ صبور کا آئیڈیل بھی ایک ایسا ہی نوجوان تھا جو دبئی یا سعودی عربیہ میں کام کرتا ہوا اور ریالوں میں تنخواہ لیتا ہو اور جب وہ واپس آۓ تو اس کا سوٹ کیس تحفوں سے بھرا ہو. اس نے فوراً سلیم کو اپنا آئیڈیل بنالیا جومستقبل میں دبئی کو پرواز کر نے والا تھا۔ اب بہانے بہانے سے یہ لڑکی ہمارے گھر کے چکر لگانے لگی، خاص طور پر جمعہ کے دن جب سلیم شہر سے آیا ہوتا۔ میں اس کی بےتابی سمجھ چکی تھی ۔ لیکن اسے بے آس نہیں کرتی تھی۔ وہ جب آتی میں پیار سے بات کرتی اور اس کی خاطر مدارات کبھی شربت اور کبھی میٹھے چاولوں سے کرتی۔ وہ مجھ سے بہت خوش ہو کر ملتی تھی ۔ گرچہ ساری توجہ اس کی سلیم کی طرف رہتی تھی مگر میرا بھائی لحاظ والا تھا، وہ شریف طبع تھا۔ گاؤں کی لڑکیوں سے دور دور رہتا۔ کوئی خود بات کرتی تو بس سلام دعا کی حد تک کلام کر کے چلا جا تا۔ یہ بات سب کو پتا تھی کہ سلیم ایسا نہیں ہے لیکن جب سے صبور ہمارے گھر کے چکر لگانے گئی تھی اس کی ماں کو شک ہو گیا ، ضرور اس کی بیٹی کا سلیم سے کچھ معاملہ ہے کیونکہ ہر جمعہ کوسلیم جب نماز پڑھنے نکلتا تو صبور اپنے دروازے پر گھڑی ملتی اور اس سے بات کرنے کی کوشش کرتی۔ وہ اخلاق کے مارے اس کے ایک آدھ سوال کا جواب دے دیتا اور آگے بڑھ جاتا۔ اس روز بھی ایسا ہی ہوا۔ جب میرا بھائی ماسی صوبی کے گھر کے سامنے سے گزر رہا تھا تو وہ منتظر لڑ کی دوڑ کر اس کی جانب آئی آج اس کے ہاتھ میں گلاب کا پھول تھا جو اس نے کیاری سے توڑا تھا وہ اس نے آنا فانا سلیم کے ہاتھ میں تھا کر کہا۔ لواسے سونگھو کتنی پیاری خوشبو ہے۔ ابھی یہ بات ہوئی تھی کہ سامنے سے صوبی ماسی کے بھائی اور شوہر نمودار ہوۓ ۔ انہوں نے جو اپنی بیٹی کے قریب سلیم کو دیکھا تو غضب ناک ہوکر اسے لکارا…. اوے لڑکے تو یہاں ہمارے گھر کے سامنے کیوں کھڑا ہے۔ ان کی لکار سن کر سلیم ڈر گیا اور جو پھول صبور نے اسے دیا تھا وہ اس نے زمین پر پھینک دیا اور خود دوڑتا ہوا گھرکولوٹ آیا۔ ان مردوں نے زمین سے پھول اٹھا لیا اور لڑکی سے سوال کیا کہ یہ پھول سلیم نے تمہیں دیا تھا وہ بولی ہاں وہ دینا چاہتا تھا لیکن آپ لوگوں کی آواز سن کر اس نے پھول پھینک دیا اور وہ بھاگ گیا۔ لڑکی نے اپنا کیا میرے بھائی پر ڈال دیا۔ اس طرح اس نے اپنی جان بچالی مگر یہ ان پڑھ گنوار لوگ میرے بھائی کے پیچھے پڑ گئے ۔ انہوں نے اعلان کر دیا کہ سلیم اگر ان کو نظر آیا تو وہ اس کو گولی ماردیں گے۔ انہوں نے میرے والد صاحب کو بھی بلا کر دھمکیاں دیں کہ اپنے بیٹے کی شکل یہاں سے گم کرو۔ ورنہ تمہاری ہماری دشمنی نسلوں تک چلے گی، والد صاحب گھبرا گئے ،سلیم ان کا اکلوتا بیٹا تھا وہ کسی صورت اسے کھونا نہ چاہتے تھے لہذا انہوں نے استاد ہی سے بات کی اس نے کہا آپ فکر نہ کریں، اس نے کافی کام سیکھ لیا ہے، میں اس کو اپنے دوست کے پاس دبئی بھجوا دیتا ہوں- سلیم دبئی چلا گیا، میں اپنے بھائی کے لئے اداس رہنے لگی ۔ امی بھی رات دن اس کی خیرو عافیت کی دعائیں کرتی تھیں کہ خدا کرے میرا بیٹا پردیس میں خیریت سے ہو۔ وقت گزرتا رہا یہاں تک کہ تین سال گزر گئے- سلیم نے دبئی میں اچھا خاصا کمالیا وہ ہر ماہ امی ابو کو پیسے بھجواتا رہا۔ اس رقم سے والد صاحب نے اپنا کچا مکان پکا کر والیا اور ہمارے مالی حالات بہت بہتر ہو گئے۔ امی کا خیال تھا جب میرا بیٹا لوٹے گا تو اس کا سہرا سجانے کا اہتمام کروں گی ، اس غرض سے انہوں نے اپنی بہن خالہ شازیہ سے بات کر لی تھی جن کی بیٹی سے امی سلیم کی شادی کرنا چاہتی تھیں۔ انتظار کی گھڑیاں طویل سہی پر ختم ہو جاتی ہیں۔ آخر وہ دن آ گیا جس دن کے ہم سب منتظر تھے۔ سلیم کا دبئی سے فون آیا کہ وہ فلاں دن گھر پہنچ رہا ہے۔ امی خوشی سے نہال تھیں ۔ میں بھی پھولی نہ سماتی تھی کہ اتنے عرصے بعد میرا بھائی مالدار ہوکر لوٹ رہا تھا۔ ہم غریبوں کے لئے زندگی کی تھوڑی سی آسائشیں ہی مالدار ہونے کا احساس بخش دیتی ہیں ۔ سلیم کے لوٹ آنے کی خوشی میں والدہ نے میٹھے چاول بنا کر مسجد میں تقسیم کراۓ اور پاس پڑوس میں بھی بھجوائے ۔ میرے والدین نے سمجھا کہ گلاب کے پھول والا قصہ پرانا ہو چکا ہے۔ لہذا انہوں نے ماسی صوبی کے یہاں بھی میٹھے چاولوں کی پلیٹ بھجوا دی۔ انہوں نے چاول لے لئے ، اور شام کو ماسی خود طشتری لوٹانے آئیں ، مبارک باد بھی دی کہ سلیم خیر سے لوٹ آیا تھا۔ جب صبور کو خبر ہوئی کہ میرا بھائی آچکا ہے تو وہ کسی طرح اس کے دیدار کو تڑپنے لگی۔ کسی بہانے سے ہمارے گھرآ گئی، تب میں اس کی جرات پر حیران ہوئی ، میں نے کہا تم کو نہیں آنا چاہئے تھا۔ کیا تم چاہتی ہو کہ جو دشمنی مردوں میں تمہاری وجہ سے ہوتے ہوتے رہ گئی تھی۔ وہ قصہ دوبارہ جوان ہو جاۓ ، خدارا اب تم ہمارے گھر سے دور ہو۔ تمہاری وجہ سے خون خرابہ نہ ہو جائے۔ اس نے میری بات کا برا مانا۔ بولی ٹھیک ہے آج آئی ہوں دوبارہ نہ آؤں گی- ہاں تمہاری بڑی مہربانی ہوگی۔ میں اپنے اکلوتے بھائی کے پیچھے بندوق اور گولی کا کوئی واقعہ نمودار ہوتے نہیں دیکھنا چاہتی۔ سلیم گھر پر نہیں تھا۔ وہ منہ بسور کر چلی گئی۔اس کے ذہن سے میرے بھائی کا خیال چپک گیا تھا، شاید اسے اپنے دل پر قابو نہ تھا۔ وہ پھر سے پہلے کی طرح سلیم کی منتظر رہنے لگی تھی۔ بار بار اپنے دروازے سے جھانکتی، شاید وہ ادھر سے گزرتے ہوئے نظر آ جاۓ ۔ جب کوئی کسی کی اتنی زیادہ جستجو کرتا ہے تو اس کی تمنا بر آتی ہے۔ ایک روز مغرب کے وقت سلیم اپنے کسی دوست سے مل کر گھر آرہا تھا جونہی وہ ماسی صوبی کے گھر کے آگے سے گزرا۔ اس وقت صبور چھلا وے کی طرح دروازے سے باہر آ گئی – جانے وہ کب سے منتظر کھڑی تھی یا پھر یہ اتفاق تھا۔ بہرحال اس نے سلیم کو دیکھا تو بے اختیاراسے پکارلیا۔ سلیم نہ رکا لیکن ماسی صوبی نے بیٹی کی آواز سن لی اور وہ گھر سے نکل کر دروازے سے باہر آ گئی۔ سلیم آگے بڑھ گیا تھا لیکن بے قرار بیٹی اس کے ہاتھ آ گئی۔ ماسی صوبی نے جوتا اتار کر لڑکی کو مارنا شروع کیا اسے مارتی ہوئی اندر لے گئی۔ بولی بد بخت کس کس کی موت کو آواز دینا چاہتی ہے۔ خودتو تو مرے گی ہی۔ اس روز پانی لگانے کی باری صبور کے باپ اور بھائی کی تھی یہ دونوں گھر سے کافی دور اپنے زمیندار کے کھیتوں کو سیراب کرنے گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے تین روز بعد گھر لوٹنا تھا۔ صبور کے لئے یہ بے خوفی اور آزادی کے دن تھے۔ لیکن ماں نے اس کی ایک نہ چلنے دی اور اس کو کمرے میں بند کر دیا۔ بدقسمتی سے جس کمرے میں وہ بند تھی ۔ اس کی دیوار میں ایک کھڑ کی بھی تھی جو ان کے گھر کے عقبی طرف کھلتی تھی ۔ اس طرف میدان تھا جہاں گاؤں کے لڑکے کبھی کبڈی اور کرکٹ کھیلتے تھے۔ اس روز ان کا کرکٹ میچ تھا دولڑ کے ہمارے دروازے پر آۓ اور میرے بھائی کو خاص طور پر اپنا میچ دیکھنے کے لئے مدعو کر گئے۔ وہ پرانے دوستوں کے اصرار کی وجہ سے میچ دیکھنے چلا گیا۔ میچ ختم ہو گیا اور لڑ کے میدان سے چلے گئے تو سلیم بھی گھر کی طرف آنے لگا- تبھی اس کو کسی نے آواز دی سلیم سلیم ادھر دیکھو اس طرف آجاؤ۔ اس نے چونک کر ادھر ادھر دیکھا سامنے کھڑ کی کا پٹ نیم وا تھا اور صبور اس میں سے جھانک رہی تھی ۔ بھائی ٹھٹک کر ٹھہر گیا۔ ابھی تک اس کی سمجھ میں نہ آسکا تھا کہ کون اس کو پکار رہا ہے ، تبھی وہ لڑ کی کھڑکی کے اندر کی زنجیر کھولنے میں کامیاب ہوگئی اور آنا فانا کود کر باہر نکل آئی۔ ماسی صوبی اپنے کمرے میں سورہی تھی ، وہ شوگر کی مریض تھی اور کافی موٹی تھی تھوڑا سا کام کاج کر کے تھک جاتی تھی۔ وہ تو گھر کو تالا لگا کر اطمینان سے سوئی تھی کہ اب بیٹی باہر نہ جا سکے گی مگر پاگل صبور میرے بھائی کی محبت میں عاقبت نا اندیش ہوچکی تھی اس نے کچھ نہ سوچا دوڑ کر سلیم کی طرف آ گئی۔ اس کو یوں یکا یک سامنے دیکھ کر وہ گھبرا گیا۔ اس نے کہا واپس گھر لوٹ جاؤ اس سے پہلے کہ کوئی تم کو یہاں میرے ساتھ میدان میں دیکھ لے۔ ابا اور بھائی کھیتوں میں پانی لگانے گئے ہیں- کس کا ڈر ہے ماں سوچکی ہے۔ تم دو گھڑی بات کرلو۔ پھر ایسا موقع نہیں ملے گا تم کو خدا کا واسطہ میں تمہارے لئے بہت بے چین ہوں۔ایک لمحے کو بات سن لو۔ تین سالوں سے میں تمہارا انتظار کر رہی تھی۔ سلیم کو اس لڑکی سے محبت نہ تھی ،مگر اس کے والہانہ انداز کی وجہ سے وہ مزید گھبرا گیا کہ کہیں پاگل پن میں یہ کوئی غلط قدم نہ اٹھا لے اور اس کو بڑی مصیبت میں ڈال دے۔ میں تم سے کسی محفوظ جگہ پر ملوں گا لیکن اب تم جاؤ خدا کے لئے ۔ یہ کھلا میدان ہے پاس پڑوس والوں میں سے کسی نے دیکھ لیا تو بے پر کا کوا بن جاۓ گا اور تمہارے رشتے دار کلہاڑیاں لے کر میرے سر پر پہنچ جائیں گے۔ جس بات کا ڈرزیادہ ہو وہ ہو بھی جاتی ہے۔ جب سلیم یہ بات کہہ رہا تھا اسی وقت ماسی صوبی کی ایک پڑوسن ادھر آنکلی وہ اس طرف اپنی بکری تلاش کرتی آ گئی تھی، اس نے جوان کو بات کرتے دیکھا توششدر رہ گئی
لڑکی تم دن دھاڑے اس کے ساتھ عشق معشوقی میں مشغول ہو۔ تم کو اپنے باپ اور بھائی کی عزت کا بھی پاس نہیں ہے۔ ٹھہرو میں ابھی جا کر بتاتی ہوں تمہاری ماں کو پہلے بھی یہ قصہ سارے گاؤں میں مشہور ہوا تھا اور اب پھر تم لوگ اس رستے پر چل رہے ہو جانتی ہو اس محبت کا انجام؟ وہ عورت اپنی گمشدہ بکری بھلا کر ایک نئے کام میں مشغول ہوگئی۔ سلیم پریشان حال گھر آ گیا، اس نے منت بھی کی کہ خالہ خدا کے لئے کسی سے ذکر نہ کرنا۔ میں نے صبور کو نہیں بلایا۔ یہ خود آئی تھی لیکن وہ پیٹ کی ہلکی تھی، اس نے ساری بستی میں یہ بات پھیلا دی کہ سلیم صبور کو دن دھاڑے بھگا کر لے جا رہا تھا۔ وہ تو میں سر پر پہنچ گئی ورنہ، آج یہ دونوں بستی سے غائب ہو چکے تھے۔ ماسی صوبی کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی وہ جانتی تھی یہ خبر اس کے شوہر اور بیٹوں کو ضرور ملے گی اس کے بعد کا منظر وہ تصور نہ کرسکتی تھی۔ تبھی آنے والی قیامت سے بچنے کے لئے وہ ہمارے گھر آئی اور سلیم کو ایک طرف کونے میں لے جا کر بولی۔ آج رات عشاء کے بعد میرے گھر آنا تم سے ایک بات کرنی ہے۔ سلیم پاگل نہ تھا کہ اس چلتر باز کے جھانسے میں آجاتا۔ اس نے عافیت اسی میں جانی کہ وہ اسی وقت اپنے ماموں سے ملنے کے بہانے ساتھ والے گاؤں چلا گیا۔ ماسی صوبی نے گھر کے دروازے پر چار پائی بچھالی۔ اب وہ اس انتظار میں تھی کہ کب سلیم ادھر سے گزرے اور وہ اس کے لتے لے۔ ایک دن ماموں کے گھر رہ کر وہ رات کو دیر سے گھر لوٹ رہا تھا کہ کتوں نے بھونکنا شروع کر دیا۔ وہ ان سے بچنے کو تیز تیز چلا تو وہ بھی اس کے پیچھے لپکے- تبھی بوکھلا کر وہ راستے کے بیچ پڑی ماسی صوبی کی چارپائی سے ٹکرا گیا۔ ماسی شاید اس وقت غنودگی کے عالم میں تھی ، اچانک چارپائی کو دھکا لگا تو بوکھلا کر چیخ ماری اور سلیم کا گریبان پکڑ لیا۔ وہ بے چارا خود کو چھڑاتے ہوۓ چارپائی پر جا گرا۔ ماس صوبی نے ایسا ہنگامہ کیا کہ ساتھ والے گھروں سے مرد نکل آۓ سبھی نے یک زبان ہوکر پوچھا۔ کیا ہوا- اس نے فریاد کی کہ اس سلیم کو حوالہ پولیس کرو شاید کہ اس نے میری بیٹی سے چوری چپھے ملاقات کا پروگرام بنایا ہوگا ، تبھی یہ میری چار پائی سے ٹکرا گیا اور مجھ پر گر گیا۔ سلیم نے لاکھ کہا کہ اس کو کتوں نے بوکھلا دیا تھا، اندھیرے میں چار پائی دکھائی نہ دی۔ تبھی ٹکرا گیا تھا کتوں کے بھونکنے کی آواز تو پڑوسیوں نے بھی سن لی تھی تبھی ان میں سے ایک نے کہا ، سلیم سے تو ہم نمٹ لیتے ہیں تم یہ بتاؤ کہ رات کے وقت تم نے کیوں دروازے سے باہر چارپائی بچھا رکھی تھی ۔ گھر سے باہر نکل کر سونے کا کیا مطلب تھا؟ میں اپنے گھر کی حفاظت اور نگرانی کر رہی تھی ، شوہر اور بیٹے گھر پر نہ ہوں اور حالات مشکوک ہوجائیں تو کیا کرنا چاہئے ۔ آپ خود سوچیں گھر میں اکیلی جوان بیٹی ہے اور سلیم نے جیسے میرا گھر تاک رکھا تھا۔ ایک پڑوسی سیانہ تھا اس نے عورت کو سمجھایا کہ تم غلط طریقے پر چل رہی ہو یہ گزرگاہ ہے ادھر کسی عورت کا چار پائی ڈال کر سونا بری بات ہے، بے شک دروازہ اپنا ہی کیوں نہ ہولیکن ہم کو اعتراض ہے تم آئندہ یہاں مت سونا۔ بات بڑھانے کی بجاۓ ان لوگوں نے سلیم کو کہا کہ تم آئندہ عشاء کے بعد ادھر سے مت گزرنا ورنہ ہم تم کو مجرم سمجھ لیں گے اور پھر جانتے ہو اس لا پروائی کا انجام۔ میرا بھائی بے چارہ جان بچا کر بھاگا کہ وہ سخت مشکل میں گھر گیا تھا- بنا کسی قصور کے ایک بڑی سزا اس کے لئے تیارتھی۔ لوگ انجام سے بے پروا بس چسکے میں اکثر ایسی الٹی سیدھی باتیں کر جاتے ہیں جو کسی شخص کوموت کی وادی کی طرف بھی لے جاتی ہیں۔ کچھ ایسا ہی معاملہ ہونے والا تھا۔ کیونکہجب ماسی صوبی کے بیٹے اور شوہر گھر لوٹے، تو کچھ بد خواہوں نے بے پر کی اڑا دی۔ معاملہ ان کی سمجھ میں نہ آرہا تھا۔ پڑوسی فساد کے خوف سے چپ تھے کیونکہ انہوں نے سلیم کو کسی لڑکی سے بات کرتے نہ دیکھا البتہ ماسی صوبی اور چار پائی والا معاملہ طشت از بام ہو گیا۔ ماسی کے شوہر نے باز پرس کی تو اس نے سچ بات بتادی کہ گھر کی حفاظت کے خیال سے چار پائی باہر بچھائی تھی۔ سلیم کو رات کے اندھیرے میں دکھائی نہ دی وہ ٹھوکر کھا کر اوندھے منہ چار پائی پر گر گیا تو میں نے ڈر کر شور مچا دیا۔ شوہر نے آنکھیں نکال کر کہا۔سلیم اتنی رات گئے ادھر کیوں آیا تھا۔ وہ گھر سے ادھر نہیں آیا تھا۔ بلکہ ماموں کے گاؤں سے گھر جارہا تھا کہ کھیتوں کے کتوں نے اس کو ہراساں کیا۔ بھاگتے ہوۓ ٹھوکر لگ گئی۔ بیوی کے بیان کا یقین کرتے ہوۓ اس کا خاوند تو چپ ہوگیا مگر گاؤں میں چارپائی سے ٹھوکر ایک کہانی بن گئی کچھ بدزبانوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ سلیم ماسی صوبی کی عزت خراب کرنے اس کی چار پائی پر جان بوجھ کر گرا تھا۔ کسی کے منہ پر کون ہاتھ رکھ سکتا ہے۔ حالانکہ یہ تو سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ سلیم اپنی ماں جیسی عمر والی عورت کے ساتھ بد نیتی کا سوچے گا۔ ان حالات کی وجہ سے ابا مجبور ہو گئے کہ وہ اپنے اس گاؤں کو خیر باد کہیں جہاں ان کے آبا واجداد کی قبریں تھیں۔ میرے والد یہاں پیدا ہوۓ پلے بڑھے اولاد والے ہو گئے تھے۔ ہم لوگوں بھی اسی جگہ پیدا ہوے تھے، ہم کو اپنے گاؤں سے بہت محبت تھی لیکن مجبوری تھی ، گاؤں نہ چھوڑتے تو کل جانے کیا ہو جاتا کیونکہ گاؤں میں اگر ایک بار کسی کی عزت خراب ہوجاۓ تو پھر لوگ اس کو مشکوک جان لیتے ہیں اور اس پر اعتبار نہیں کرتے۔ ہمارا گھر بار چھوٹا ، کھیت کھلیان اونے پونے ابا نے بیچ دیئے ، پھر ہم وہاں سے کوچ کر کے ماموں والے گاؤں میں جا کر آباد ہوگئے۔ جس روز ہم جارہے تھے صبور اپنے دروازے میں کھڑی جھانک رہی تھی، وہ بڑی حسرت اور دکھ سے ہمیں جاتے دیکھ رہی تھی۔ اس وقت بھائی کے چہرے پر بھی افسردگی تھی۔ کاش صبور بی بی کو عقل ہوتی تو ہم کو اپنا گاؤں نہ چھوڑنا پڑتا۔ دل کی لگی ہے ہی ایسی چیز کہ اس میں عقل جاتی رہتی ہے۔ آج بھی اپنے گاؤں کے درختوں کی ٹھنڈی چھاؤں اور اپنا گھر بار یاد آتا ہے تو دل کو ٹھیس ہی لگتی ہے ، ایک ہم جولی سے سنا تھا کہ صبور نے شادی نہیں کی- گھر والے مار کر پیار سے ہر طرح سے اسے سمجھا کر دیکھ چکے ہیں لیکن وہ ابھی تک میرے بھائی کی یاد میں جی رہی ہے- سلیم واپس دبئی چلا گیا وقت کے ساتھ مزید ترقی کی وہیں شادی بھی ہو گئی اور امی ابو کو بلا لیا ہے – میری شادی کر کے اب سب ایسے وطن سے دور گئے ہیں کی شائد ہی لوٹ کر آئیں – زندگی ایسا پلٹا کھائے گی کبھی سوچا بھی نہ تھا-

Latest Posts

Related POSTS